بصیرت اخبار

۱۱ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «ولایت فقیہ» ثبت شده است

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۵۲ }

ولایت بالذات اور ولایت بالعرض

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

سب مخلوقات پر حقیقی و ذاتی ولایت اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی کی ولایت کے اتباع میں یہ ولایت رسول اللہﷺ اور امام یا فقیہ کو حاصل ہے۔ 

ولایت کے مراتب

جب تک انسان پچپن میں ہے اس کی ولایت والدین کو حاصل ہے۔ والدین کے پاس یہ ولایت بالذات نہیں ہے۔ والدین بچے کے مالک نہیں ہیں بلکہ ولی ہیں۔ یعنی جب تک بچہ بالغ نہیں ہو جاتا تب تک اس کی سرپرستی والدین کو حاصل ہے۔ لیکن وہ مالک نہیں ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ کہتے جائیں بچے پر بات ماننا ضروری ہے۔ وہ اس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ جی نہیں! بلکہ یہ بچہ ان کے پاس امانت ہے۔ زبردستی نہیں کر سکتے۔ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو حقیقی ولایت رکھتی ہے۔ باپ ولی ہے لیکن بالعرض ولی ہے۔ باپ کی ولایت اصلی نہیں ہے بلکہ اس کو عطا ہوئی ہے۔ ایک اور مثال دیتے ہیں، مثلا ہمارے معاشرے میں عموما سمجھا جاتا ہے کہ اگر کہیں سے گرا ہوا مال مل جاۓ یا پیسے مل جائیں تو ان کو اٹھانے والا ہی مالک  ہوگا۔ جب کہ ایسا مال مجہول المال ہے اور اس کا مالک امام یا نائب امام ہے۔ ہمارا یہ دعوی کرنا کہ یہ مال میرا ہے، اس مال کی اپنی ملکیت کی طرف نسبت دینا درست نہیں۔ حقیقی معنی میں سب اشیاء کا مالک اللہ تعالی ہے اور اسی کو ولایت حاصل ہے۔ اس کے بعد جس کو خدا نے ولایت دے دی وہی ولی ہے۔

انسان کا اپنا ولی بنانا

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
« أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِیاءَ فَاللهُ هُوَ الْوَلِیُّ».

ترجمہ:  کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[1] اس آیت کریمہ کے مطابق انسان اپنا ولی اور سرپرست بنانے کا حق نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس ولی بنانے کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ جب ہمارے پاس اختیار ہی نہیں ہے تو ہم کون ہوتے ہیں یہ حق کسی اور کو دینے والے؟ اس آیت میں ولایت کو صرف اللہ تعالی کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اگر ولی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ہے۔ ہر قسم کی ولایت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ چاہے وہ ولایت تکوینی ہو، ولایت بر تشریع ہو یا ولایت تشریعی۔[2] ولایت تشریعی کہ جس میں ہم معاشرے کی مدیریت اور حاکمیت کا حق کسی کو دے دیتے ہیں، یہ حق تو ہمیں حاصل ہی نہیں کہ ہم کسی کو اپنا حاکم قرار دیں۔ یہ ہمارے اعتقاد کا حصہ ہے۔ اور اس میں کسی کی تقلید بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالی نے حق حاکمیت یا ولایت اپنے مخصوص نمائندوں کو عطا کیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اپنا ولی (ولی بمعنی حکمران) بنائیں۔ ہم صرف ان اولیاء کی اطاعت کر سکتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے ولی بنایا ہے۔

ولایت بالذات اور بالعرض در قرآن

اللہ تعالی وحدہ لا شریک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور شرک گناہ کبیرہ میں سے ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ آپ نے کہا اللہ بھی ولی ہے اور رسول یا امام بھی ولی ہے تو کیا یہ شرک نہیں ہے؟ اس کے جواب میں مصنف قرآن کریم سے جواب پیش کرتے ہیں:

«وَ لِلهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِلْمُؤْمِنینَ».

ترجمہ: جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے۔[3]

لیکن سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

«فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ‌ جَمیعاً».

ترجمہ: ے شک ساری عزت تو خدا کی ہے۔[4] شرک تب ہوتا ہے جب دو برابر میں عزت دار ہوں۔ سورہ نساء میں اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ ساری عزت تو اللہ کے لیے ہے، اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ عزت بالذات اللہ کے لیے ہے۔ بالعرض یہ عزت رسول اور مومنین کو بھی حاصل ہے۔ رسول اور مومنین اللہ کے برابر میں عزت نہیں رکھتے۔ موت دینے کے بارے میں بھی ہمارا یہی نظریہ ہے۔کیا موت اللہ تعالی دیتا ہے یا عزرائیلؑ؟ اگر مان لیں کہ عزرائیلؑ بھی موت دیتا ہے اور اللہ بھی تو یہ شرک ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقی موت کا مالک اللہ تعالی ہے اور عزرائیلؑ صرف منیجر ہیں یا ماتحت ہیں جو اس کام کو اللہ تعالی کی اجازت سے انجام دیتے ہیں۔ جس طرح ایک کمپنی ہوتی ہے۔ کمپنی کا ایک مالک ہوتا ہے اور ایک منیجر۔ ظاہری طور پر پوری کمپنی منیجر کے ماتحت ہوتی ہے اور وہی کمپنی کو چلاتا ہے۔ لیکن وہ خود مالک کا ماتحت ہوتا ہے۔ حقیقی ملکیت کمپنی کی مالک کے ہاتھ میں ہے۔

قوت کی نسبت

اللہ تعالی نے چند آیات میں قوت کی نسبت انسانوں کی طرف دی ہے۔ سورہ مریم میں وارد ہوا ہے:

«یا یَحْیى خُذِ الْکِتابَ بِقُوَّةٍ».

ترجمہ: اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو قوت کے ساتھ تھام لو۔[5] اس آیت میں قوت کا منبع حضرت یحییؑ کو قرار دیا گیا ہے۔

سورہ بقرہ میں وارد ہوا:

«خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اسۡمَعُوۡا».

ترجمہ: جو چیز (تورات) ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور سنو۔[6] اس آیت میں قوت کی نسبت بنی اسرائیل کی طرف دی گئی ہے۔

سورہ انفال میں آیا ہے:

«وَ اَعِدُّوۡا لَهمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ».

ترجمہ: اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو۔[7] اس آیت میں  عام مسلمانوں کی طرف قوت کے حصول کی نسبت دی گئی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قوت میں نبی، عام انسان اور اللہ تعالی شریک ہو جائیں؟ در اصل ان آیات میں مندرجہ بالا ذوات کو قوت تو حاصل ہے لیکن یہ سب عطا ہے۔ یہ قوت ان کو بالذات حاصل نہیں ہے۔ بلکہ بالعرض سب قوی ہیں۔ قوی بالذات نہیں ہیں۔ سورہ بقرہ میں وارد ہوا ہے:

«اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا».

ترجمہ: ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں۔[8] یہ آیت در اصل جواب ہے۔ قوت کا حقیقی منبع اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس لیے شرک وجود میں نہیں آتا۔

رزق کی نسبت

سورہ جمعہ میں وارد ہوا ہے:

«وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ».

ترجمہ: اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔[9] بیان ہوا کہ سب سے بہترین رزق دینے والا اللہ ہے۔ کیا کوئی اور بھی ہے جو رزق دیتا ہے ؟ ظاہر آیت بتاتی ہے کہ رازقین تو بہت ہیں لیکن ان سب میں بہترین اللہ ہے۔ لیکن وہ سب رزق دینے میں اللہ تعالی کے شریک نہیں ہیں کیونکہ وہ بالذات رازق نہیں ہیں۔ سورہ ذاریات میں وارد ہوا ہے:

«اِنَّ اللّٰہَ هوَ الرَّزَّاقُ».

ترجمہ: یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا ہے۔[10] اس آیت میں ضمیر هو اور لفظ رزاق پر ال کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔ حصر کا معنی موجود ہے۔ پس رزق دینے والا بالذات اللہ ہے۔ 

شفاعت کی نسبت

سورہ مدثر میں وارد ہوا ہے:

«فَمَا تَنۡفَعُهمۡ شَفَاعَة الشّٰفِعِیۡنَ».

ترجمہ: اب سفارش کرنے والوں کی سفارش انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی۔[11] اس سے معلوم ہوا قیامت کے روز بہت سے شفاعت کرنے والے ہوں گے۔ لیکن سورہ زمر میں وارد ہوا ہے:

«قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَة جَمِیۡعًا». 

ترجمہ:کہدیجئے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔[12] بالکل اسی طرح سے ولایت کا نظریہ بھی ہے۔ کئی ولی بیان ہوۓ ہیں لیکن اصلی ولی کون ہے؟ وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ سورہ مائدہ میں زکات دینے والے مومنین کو بھی ولی قرار دیا گیا ہے:

«إِنَّما وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذینَ آمَنُوا الَّذینَ یُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ راکِعُونَ». 

ترجمہ: تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔[13]

سورہ احزاب میں بیان ہوا: 

«النَّبِیُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ». 

ترجمہ: نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔[14] ولایت کی نسبت رسول اور مومنین کی طرف دینے کے باوجود سورہ شوری میں وارد ہوا:

«فَاللهُ هُوَ الْوَلِیُّ». 

ترجمہ: پس ولی تو صرف اللہ ہے۔[15] بقیہ سب ولایتیں تبع میں ہیں۔ بقیہ سب ولی حقیقی ولی کے مظاہر میں سے ہیں۔ مصنف کے بقول اصلی ولایت کے آئینہ ہیں۔ مثلا آئینے کے اندر جو حقیقت نظر آتی ہے وہ مظہر ہے۔ حقیقت وہ نہیں ہے جو آئینے میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح سے کائنات کی ہر شے مظہر ہے اصل اللہ تعالی کی ذات ہے۔ در اصل ہر شے آیت ہے۔ اس میں اللہ کی ولایت کا جلوہ موجود ہے۔ اگر کسی مقدس شے کو ہم بوسہ دیتے ہیں تو در اصل اللہ کو بوسہ دے رہے ہیں۔ ان سب آیات میں سب سے بڑی آیت انسان کامل ہے اور وہ نبی یا امام کی ذات ہے۔ سب سے زیادہ اللہ تعالی کے مظاہر جس ذات میں موجود ہیں وہ یہی ہستیاں ہیں۔ جیسا کہ امیرالمومنینؑ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

«أنا الحجة العظمى والآیة الکبرى». 

ترجمہ: میں سب سے بڑی حجت اور آیت کبری ہوں۔[16][17] ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت ایک مومن سے پوچھا جاۓ گا کہ تم نے خدا کی عیادت کیوں نہیں کی؟ تو وہ کہے گا بھلا خدا کی عیادت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کو جواب دیا جاۓ گا کہ جب فلاں بندہ مریض ہوا تھا اگر اس کی عیادت کرتے تو گویا تم نے خدا کی عیادت کی۔ مومن کی عیادت خدا کی عیادت ہے۔[18] البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی کی ذات ان سب ذوات میں حلول کر گئی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب ذوات اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور اسی کی محتاج ہیں بقاء میں بھی اور حدوث میں بھی۔ امام خمینیؒ کا بسیجیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ تعالی کا ہاتھ ہے اور ان ہاتھوں پر میں بوسہ کرتا ہوں ،بھی اسی معنی میں ہے۔ امام فرماتے تھے کہ میں اس بوسہ پر فخر کرتا ہوں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بسیجیوں کے ہاتھ در اصل مظہر خدا ہیں۔ اللہ کی آیات ہیں۔[19]

ولی فقیہ کی ولایت

ان سب مقدمات کے بعد معلوم ہوا کہ ربوبیت، عبادت، ولایت، حکومت در اصل خدا کی ہے۔ اگر نبی یا امام ولایت تکوینی، ولایت بر تشریع یا ولایت تشریعی رکھتے ہیں تو یہ سب اذن الہی سے ہے۔ یہ سب ولایت الہی کے مظاہر ہیں۔ اور اگر زمانہ غیبت میں فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے اور اس کی سرپرستی عطا ہوئی ہے وہ بھی اذن خدا اور فرمان خدا سے ہے۔ ورنہ کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کسی قسم کی ولایت حاصل نہیں ہے۔[20]

 

منابع:

 

↑1, ↑15 شوری: ۹۔
↑2 سائٹ البر۔
↑3 منافقون: ۸۔
↑4 نساء: ۱۳۹۔
↑5 مریم: ۱۲۔
↑6 بقرہ: ۹۳۔
↑7 انفال: ۶۰۔
↑8 بقرہ: ۱۶۵۔
↑9 جمعہ: ۱۱۔
↑10 ذاریات: ۵۸۔
↑11 مدثر: ۴۸۔
↑12 زمر: ۴۴۔
↑13 مائدہ: ۵۵۔
↑14 احزاب: ۶۔
↑16 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۳۵۔
↑17 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲۳، ص۲۰۶۔
↑18 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۸، ص۲۲۷۔
↑19 خمینی، سید روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۶، ص۹۶۔
↑20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۹تا۱۳۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 22 ، 11:26
عون نقوی

ولایت فقیہ (تالیف آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ قسط۱۹)

ہر انسان ضرر اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور سعادت و کمال چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعادت کیسے حاصل ہو تی ہے؟  سعادت مند کو ن ہے؟ آخرت کا سعادت مند تو وہ ہے جس نےخدا کی بندگی اختیار کی اپنی قبر اور برزخ کا اہتمام کیا اور صالح اعمال انجام دے کر جنت میں پہنچ گیا۔ لیکن دنیا میں سعادت مند کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کی ضروریات پوری ہوں  وہ شخص سعادت مند ہے۔  دین نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کو پورا ہی نہ کرے بلکہ اس شخص کو سعادت مند قرار دیا ہے جس شخص کی ضروریات زندگی پوری ہوں۔ ان ضروریات ِ زندگی کی صرف اس وقت نفی کی گئی ہے جب یہ آخرت کو نقصان دینے لگیں۔ یہی دنیا، مال اور اولاد اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں لیکن اگر دین کی راہ میں آ جائیں تو قرآن کریم نے انہیں کو انسان کا دشمن قرار دیا ہے۔ اگر ضروریات ِ زندگی انسان کے لیے آخرت کا کمال حاصل کرنے کے لیے وسیلہ بن رہے ہوں تو نعمت ہیں لیکن اگر یہی آخرت کے لیے آزمائش بن رہے ہوں تو ان کو ترک کرنا ضروری ہے۔

روایت میں وارد ہوا ہے :

قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ مِنْ سَعَادَةِ اَلْمَرْءِ اَلْمُسْلِمِ اَلزَّوْجَةُ اَلصَّالِحَةُ وَ اَلْمَسْکَنُ اَلْوَاسِعُ وَ اَلْمَرْکَبُ اَلْهَنِیءُ وَ اَلْوَلَدُ اَلصَّالِحُ.

رسول اللہ ﷺ نے فرمایاایک مسلمان مرد کی خوشبختی یہ ہے کہ اس کی ایک صالح زوجہ ہو،کھلا گھر، آرام دہ سواری اور صالح فرزند ہو۔(۱)

انسان چاہے دنیا میں سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے یا چاہے آخرت میں اسے عقل کے ساتھ ساتھ شریعت کی ضرورت ہے۔ مغربی مفکرین کا یہ کہنا کہ ہمیں شریعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل ہمارے لیے کافی ہے اس بات کو اسلام نے غلط قرار دیا ہے۔ آخرت کی سعادت کے لیے تو حتما شریعت چاہیے لیکن دنیا میں بھی سعادت مند ہونے کے لیے صرف عقل کافی نہیں پھر بھی شریعت چاہیے۔ یہاں پر عقل کی نفی نہیں کی جا رہی بلکہ انسان کے لیے عقل کا استعمال کرنا بہت ضروری ہے، قرآن کریم نے بھی تفکر اور تعقل کا حکم دیا ہے۔ لیکن تعقل اور تفکر اس وقت ہے جب شریعت کے ہمراہ ہو۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

رُسُلاً مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کانَ اللَّهُ عَزیزاً حَکیماً.

(یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔(۲)

اس آیت سے انسانی عقل کا ناکافی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر انسانی عقل ہدایت کے لیے کافی ہوتی تو بشر پر حجت تمام ہوتی  اور  پیغمبروں کو بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ’’حجۃ بعد الرسل‘‘ یہ نہیں کہا کہ ’’حجۃبعد العقل‘‘۔

ایک اور آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:

وَلَوْ أَنَّا أَهْلَکْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آیَاتِکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَىٰ.

 اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟(۳)

اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کےلیے عقل اور فطرت اس کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ان پر حجت تمام ہوتی۔ لیکن اس آیت میں کفار کا یہ کہنا کہ ہمارے لیے پیغمبر نہیں بھیجے گئے تھے اس لیے وہ خدا کے ہاں احتجاج کر سکتے ہیں کہ بغیر پیغمبر بھیجے وہ کیسے ہمیں عذاب دے سکتا ہے؟

یہ آیات اور ان کے علاوہ دیگر آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی عقل کفایت نہیں کرتی۔ بیرونی حجتوں کو ہونا ضروری ہے۔ عقل درونی حجت ہےاور بلا شک و شبہ بہت ضروری ہے انسان کو فہم عطا کرتی ہے۔ اور فطرت قرآن کریم اور انبیاء کرام کی باتوں کو قبول کرتی ہے۔ عقل اور فطرت ہر دو ساتھ ہوں تو تب وحی کی بات انسان کو فائدہ دیتی ہے۔ تنہا عقل نہ تو اجتماعی پہلوؤں کو سمجھ سکتی ہے اور نا جنت و جہنم سے مربوط مطالب کو درک کر سکتی ہے۔ (۴)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۳،ص۱۵۵۔

۲۔ نساء:۱۶۵۔

۳۔ طہ: ۱۳۴۔

۴۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۶۱تا۶۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 11:42
عون نقوی

گزشتہ تحریروں میں ہم نے آزادی انسان، عبودیت اور قانون کے بارے میں مختصر طور پر جانا۔ یہاں پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ ان سب ابحاث کا ولایت فقیہ سے کیا تعلق ہے؟ آپ ولایت فقیہ کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں لیکن اس بیچ آزادی، انسان کا عبد ہونا، اور قانون کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولایت فقیہ کے حقیقی مقدمے یہی ابحاث ہیں۔ یعنی اگر کسی شخص کے لیے یہ امر واضح نہیں کہ وہ آزاد ہے یا نہیں؟ آزادی سے مراد کیا ہے ؟ عبد ہے یا نہیں اور اگر عبد ہے تو عبودیت کے تقاضے کیا ہیں؟ قانون کیا ہے ؟ قانون کی کیا خصوصیات ہیں؟ اور قانون کون بناۓ؟ قانون بشری ہونا چاہیے یا الہی؟ اگر ان سوالوں کے جوابات ہم جان لیں تو تب ولایت فقیہ کی بحث کی نوبت آتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم قائل ہو گئے کہ ہم عبد ہیں اور عبد صرف الہی قانون کی پیروی کرتا ہے تو تب جا کر ولایت فقیہ کا دروازہ کھلے گا۔ یعنی سوال پیدا ہوگا کہ الہی قانون کواللہ تعالی سے کس نے لانا ہے اور کس نے نافذ کرنا ہے؟ آیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے یا اس کو نافذ کرنے والا بھی موجود ہو؟اس لیے ان مقدمات کا حل ہونا ضروری ہے۔

قانون بنانے کا حق

ہم نے عقلی دلیل سے ثابت کیا کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔اس سے پہلے ہم نے یہ موضوع بھی زیر بحث لایا کہ قانون بنانے والے کے اندر کیا خصوصیات ہوں؟اور خود قانون کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اس میں ہم نے بیان کیا کہ جو ذات قانون بنا رہی ہو اس کو انسان کی ضروریات کا بہت دقیق علم ہو؟ انسان کی حاجات  کو جانتا ہو، با الفاظ دیگر انسان شناسی اور جہان شناسی رکھے۔ دوسری خصوصیت اس میں یہ ہو کہ انسان کے نفع اور خسارے کے بارے میں جانتا ہو۔ اگر اس کو یہ علم نہ ہو تو بہت نقصان ہوگا جیسا کہ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے جنگی فیصلے یا بادشاہوں کے فیصلے جو ناسمجھی کی وجہ سے ہوۓ ان کا کتنا نقصان ہوا۔  قانون بنانے والے کو خصوصی طور پر علم ہو کہ انسان کا کائنات سے کیا رابطہ ہے اور کیسا رابطہ ہونا چاہیے؟ اس کو علم ہو کہ انسان اس کائنات میں کونسی چیز کھاۓ تو وہ اس کے لیے مفید ہے اور کونسی چیز کھاۓ تو اس کے لیے مضر ہے۔ اس کو علم ہو کہ انسان نے جہان سے کیا اور کیسا ربط رکھنا ہے؟ آیا انسان ایٹم بم بناۓ یا نہ بناۓ؟ انسان  وائرس بناۓ یا نہ بناۓ؟ علم اور ٹیکنالوجی کا کس طرح کا استعمال کرے؟ کونسی عادات اور اطوار رکھے ؟ ایسا نہ ہو کہ سب کچھ احتمال کی بنا پر انجام دے اور انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔ مثلا خود مغربیوں نے پہلے ایٹم بم بنایا اس سے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا اور پھر بعد میں کہا کہ ایٹم بم تو نہیں بنانا چاہیے یہ غلط کام ہو گیا۔ خود بنا بھی لیا اور استعمال بھی کر لیا اور دوسروں پر پابندیاں لگا دیں کہ آپ ایٹمی توانائی نہیں حاصل کر سکتے۔قانون بنانے والے کو انسان کی طبیعت کا دقیق علم ہو، انسان کے اندرون اور بیرون کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہو۔ کیونکہ اگر قانون بناتے ہوۓ انسان کے اندرون کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔ تزکیہ نفس انسان کو اندر سے تبدیل کرتا ہے اور اگر انسان اندر سے اصلاح ہو جاۓ تب جا کر قانون کی پیروی کرتا ہے۔ جب ان خصوصیات کو ہم دیکھتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب خصوصیات کسی انسان میں تو نہیں ہو سکتیں۔ یہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو ان سب خصوصیات کا مجموعہ ہے۔  اگرچہ مغربی اس کے دعوے دار ہیں کہ ہم خود قانون بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات صرف دعوی ہے ، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود مغرب نے آج سے چندسال پہلے فیصلے کیے اور معاشروں میں قانون بناۓ آج ان پر پشیمان ہے۔ پہلے خود فیملی سسٹم کو نابود کیا، محرم نامحرم کی قید کو ختم کیا جنسی شہوات کو ابھار او رآج ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب  اس فیصلے پر پشیمان ہے ، کیونکہ مغرب میں اس حد تک افسردگی اور ڈپریشن پھیل گئی ہے کہ نوجوانی کی عمر میں افراد خودکشی کرنے لگے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ فیملی سسٹم کو دوبارہ احیاء کیا جاۓ۔

الہی قانون کا حصول

جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ قانون صرف الہی ہو۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ اللہ تعالی سے قانون کیسے لیں؟ کیا بلاواسطہ طور پر ہم اللہ تعالی سے قانون لے سکتے ہیں یا کسی واسطے کی ضرورت ہے؟ظاہر ہے ہم بلاواسطہ طور پر اللہ تعالی سے ارتباط برقرار نہیں کر سکتے حتما درمیان میں واسطہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا وجود بہت ضعیف ہے اور اللہ تعالی کا وجود لامحدود اور وسیع۔ اگر مثال سے ہم اس کو ہم سمجھانا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ایک ۱۰۰ واٹ والے بلب کو روشن کرنے کے لیے اسے بلاواسطہ طور پر ہم ٹرانسفارمر سے نہیں جوڑ سکتے، کیونکہ اس میں ہزاروں واٹ بجلی موجود ہے اور اگر ایک لحظے کے لیے بھی اس کو جوڑا تو یہ پھٹ جاۓ گا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہمارے اندر اتنی  وسعت نہیں کہ بلاواسطہ اس ذات سے ارتباط برقرار کریں۔ اس لیے نبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔وہ واسطہ جو اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اس کو نبوت کہتے ہیں۔نبوت کیوں ضروری ہے اور اس پر ہمارے پاس کیا دلیل ہے اس کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں بیان کیا جاۓ گا۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی ، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۵۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 11:13
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

جو ولایت دین و قوانین و شریعت کے جارى کرنے میں رسول اکرم (ص) یا امام على (ع) کو حاصل ہے وہى ولایت ایک ’’فقیہ’’ کو بھى حاصل ہے ہمارى اس سے مراد فقط اجراء و حدود ہے نہ کہ اس سے مراد مقام و منزلت ہے۔ یعنى جس طرح سے ’’حدود جاری کرنے میں" جو ولایت رسول اکرم (ص) کو حاصل ہے وہى ایک فقیہ کو بھى حاصل ہے یعنى ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ایک زانى پر حد جارى کرنى ہے تو فقیہ پچاس کوڑے مارے گا ، امام على (ع) سو کوڑے اور اگر خود رسول اکرم (ص) ہیں تو وہ ایک سو پچاس کوڑے ماریں۔ کوئى یہ نہیں کہہ سکتا چونکہ رسول خدا (ص) سب سے عظیم رتبہ والے ہیں اور ان کى ولایت سب سے بڑھ کر ہے تو وہ زانى کو ایک سو پچاس کوڑے ماریں گے اور امام على (ع) کا رتبہ اور مقام و منزلت ان سے کم درجے پر ہے تو وہ ایک سو کوڑے لگائیں گے اور فقیہ کا مرتبہ چونکہ ان سے کم ہے تو وہ پچاس کوڑے۔

یقینا ایسا نہیں کیونکہ خود امام على علیہ السلام نے بھى اپنے دور حکومت میں اپنى طرف سے والیوں کو مقرر کیا تو ان کو حدود کے اجراء میں اس طرح کى کوئى ہدایات نہیں دیں کہ آپ لوگ اپنے علاقے کے مجرمین پر حدود جارى کرتے ہوۓ کم کوڑے لگایا کریں اور میں چونکہ امام ہوں میں زیادہ کوڑے لگاؤنگا۔

پس چاہے کوئى کوفہ میں ایک قبیح عمل انجام دیتا ہے یا بصرہ میں یا چاہے حجاز میں !! ان سب پر حد جارى کرنے میں امام (ع) ،اور نمائندہ امام برابر ہیں۔ یعنى جتنے امام (ع) کى جانب سے حد جارى کرتے ہوۓ کوڑے لگائے جائیں گے اتنے ہى نمائندہ امام کى جانب سے حد جارى کرتے ہوۓ کوڑے لگاۓ جائیں گے۔

اسى طرح سے خمس ، زکات ، جزیہ اور خراج لینے میں بھى رسول خدا (ص) اور ایک فقیہ کى ولایت برابر ہے !! لیکن اگر کوئى یہ کہے کہ چونکہ رسول اکرم (ص) کا رتبہ و شان و منزلت سب سے بڑھ کر ہے تو انکو پورى دس بورى گندم بطور زکات ادا کى جاۓ گى ۔ اور چونکہ فقیہ کا رتبہ ان سے بہت کم ہے تو ان کو ہم ایک بورى گندم ادا کریں گے۔ کوئى یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیونکہ میں کوفہ میں امام على (ع) کى حکومت و ولایت میں ہوں تو مجھے زیادہ جزیہ دینا ہوگا اور دوسرا بندہ چونکہ مصر میں محمد بن ابى بکر کى ولایت میں رہتا ہے پس وہ کم جزیہ دے گا کیونکہ امام (ع) کا رتبہ بڑھ کر ہے اور نمائندہ کا رتبہ کم۔

پس یہاں پر معلوم ہوا کہ جو ولایت رسول خدا (ص) اور آئمہ اطہار (ع) کو حاصل ہے وہى ایک فقیہ عادل کو بھى حاصل ہے لیکن یہ ولایت دین و قوانین و شریعت کے اجراء کرنے کى ذمہ دارى میں ہے ، نہ کہ مقام و منزلت کى ولایت۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ حکومت اسلامی و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینی رح ، ص٢٢٨۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 13:03
عون نقوی

آیت اللہ مصباح یزدى رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

ہمارا یہ نظام یعنی نظام اسلامی (ولایتِ فقیہ) ہزاروں انسانوں کی قربانیوں اور فدا کاریوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا اسلامی ہونا اس کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اس نظام اسلامى کے برپا ہونے کے کئی عوامل ہیں جن کا محور اور مرکز اسلام ہے۔

اس کا ایک نظام کے طور پر باقی رہنا اس وقت  ممکن ہے جب اس کى اس خصوصیتِ (اسلام) کو باقی رکھا جائے ۔
 اسلامی نظام کے دو اہم ترین شعبوں کا اسلام کے عین مطابق ہونا ضروری ہے:

(۱) قانون بنانا
(۲) قانون کا عملی کرنا

ایک نظام کے اندرخصوصیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کو قبول کرنے والوں کے اندر یہ خصوصیت (یعنى اسلام کو محور قرار دینا) پائی جاتی ہو ۔ اگر خدا نخوستہ معاشرہ عقائد و افکار کو فراموش کردے اور عقائدى و نظریاتى انحراف کی طرف چلا جائے اور اسلامى اقدار آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے تو نظام اسلامی کی بنیادیں کمزور ہونا شروع ہوجائیں گی اور اس کی بقاء  کی کوئی  ضمانت نہیں ہو گی۔ ایسى صورت میں ممکن ہے نام تو اسلامی حکومت کا رہے لیکن حقیقت نظام اسلامی موجود نہیں ہو گى۔ ابتداء اسلامى میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے (جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ بھى ہے) کہ رحلت رسول اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ کے کچھ عرصہ بعد نظام الہی اور اسلامی حکومت طاغوت میں تبدیل ہو گیا، بنو امیہ اور بنو عباس کى سلطنتیں تشکیل پا گئیں اور اسلام صرف نام کا رہ گیا۔ (اس کى بنیادى وجہ) اسلامى عقائد میں انحراف کو برپا کر دیا گیا اور اسلامى اقدار کو ترک کر دیا گیا۔ ہمیں آغاز اسلام میں برپا ہونے والے حوادث و واقعات سے  عبرت حاصل کرنى چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ ولایت فقیہ پر اجمالى نظر، آیت اللہ مصباح یزدى، ص ۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 12:38
عون نقوی