بصیرت اخبار

تعارف

آپ کا نام علی اور کنیت ابوالحسن ہے، ھادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیب مشہور القاب ہیں. امام علی نقی علیہ السلام شیعہ اثنا عشری کے دسویں امام ہیں، آپ ۱۵ ذی الحج سال ۲۱۲ ہجری مدینہ منورہ میں متولد ہوئے۔
آپ کے والد ماجد نویں امام یعنی محمد تقی علیہ السلام ہیں اور والدہ کا نام سمانہ ہے۔ (۱)

علمی فعالیت

۱۔  شاگردان تیار کرنا 

امام نقیؑ کا عصر ویسے تو جبر و استبداد کا عصر تھا جس میں کسی بھی شخصیت کے لیے معاشرے میں علمی و سیاسی یا کسی بھی قسم کی فعالیت رکھنا خطرناک تھا لیکن امام علیہ السلام نے اپنا الہی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے وظائف سے غفلت نہ برتی. ایسے سخت ترین دور میں امام علیہ السلام نے بہترین شاگرد آمادہ کئے جنہوں نے مکتب کی ہر میدان میں خدمت کی، شیخ طوسی رح کے بقول امام علیہ السلام نے ۱۸۰ شاگرد تیار کئے جو مختلف اسلامی علوم کے ماہر تھے. ان میں فضل بن شاذان، حسین بن سعید اهوازی، علی بن مهزیار اهوازی دورقی، ایوب بن نوح، حسن بن راشد، احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی و عثمان بن سعید عمری مشہور ترین ہیں۔ (۲)

۲۔  ترویج تشیع اور مخالفین کے شبہات کے جواب

آئمہ معصومینؑ نے ہر دور میں حقیقی اسلام کے نظریات کو معاشرے میں تبلیغ کیا، جہاں پر مختلف منحرف فرقوں کے معاشرے میں ابھارے گئے شبہات کا جواب دیتے وہیں پر حکومتوں سے منسلک درباری علماء کا بھی مقابلہ کرتے، وہ چاہے خود تشیع کے اندر غلو کی صورت میں پھیلتا ہوا انحراف تھا یا درباری علماء کی جانب سے کلامی و تفسیر و حدیث کے بارے میں پھیلے ہوئے شبہات تھے، ہر دو انحراف کے خلاف امام علیہ السلام نے اپنے علم لدنی سے حق اور حقیقت کی تبلیغ کی اور مکتب کی حقیقی معنی میں رہبریت کی. یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام نے معاشرے میں ایک مخصوص مقام حاصل کرلیا اور مقبولیت حاصل کرلی. بطور نمونہ عباسی حکومت کے کارندے بریحہ عباسی کا متوکل کے نام خط پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس میں وہ متوکل کو لکھتا ہے کہ اگر مکہ اور مدینہ پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتے ہو تو علی نقی کو یہاں سے نکال دو کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی جانب جذب کررہا ہے اور ایک بہت بڑی جماعت اسکے ساتھ ملحق بھی ہو چکی ہے۔ (۳)

سیاسی فعالیت

متوکل عباسی کی حکومت سے پہلے امامؑ مدینہ میں موجود تھے، جب متوکل تخت نشین ہوا تو اس نے امامؑ کو زیر نظر رکھنے کے لیے سامرہ بلوا لیا، یہ امر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ کبھی بھی رضامندی سے درباروں اور طاغوتی فاسق حکمرانوں کے ساتھ ملحق نہیں رہے، بلکہ انکو زبردستی حکمرانوں نے اپنے ساتھ ملا کر رکھا، تاکہ ایک تو ان کو زیر نظر رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ انکے پیروکار شیعہ بھی کسی قسم کے تحرکات جو حکومت کے لیے نقصان دہ ہوں، انجام نہ دیں۔ اس لئے درباروں اور حکومتوں کا حصہ بننا اور اسکے لئے یہ دلیل قائم کرنا کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے بھی یہ کام کیا تھا، غلط ہے. شیخ مفیدؒ نے ایک روایت میں اس حقیقت کو ذکر کیا ہے کہ امام ھادیؑ کی سامرہ میں آمد انکی رضامندی کے ساتھ نہیں تھی بلکہ اجباراً انکو سامرہ لایا گیا۔ (۴)

۱۔  نظام وکالت

امام ھادیؑ نے امام رضاؑ اور امام جوادؑ کا قائم کردہ نظام وکالت، شیعیان جہان کیساتھ ارتباط کے لیے ویسے ہی جاری رکھا، امامؑ کی جانب سے متعین وکیل اسلامی ممالک کے تمام شہروں میں موجود تھے، یہ افراد شیعیان اور امام کے درمیان واحد ربط تھے، ان کے ذریعے مسئلہ امامت کی تبیین، خمس و زکات کی جمع آوری اور بقیہ مختلف امور انجام پاتے۔ اس استبدادی دور میں امام کا وکیل ہونا بھی کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرہ مول لینے والی بات شمار ہوتی، متوکل عباسی نے سامرہ میں امامؑ کو کھلی چھٹی نہیں دے رکھی تھی بلکہ سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے تاکہ امامؑ کسی بھی قسم کی فعالیت انجام دینے سے قاصر رہیں لیکن اس کے باوجود امامؑ نے اپنے شیعوں کے ساتھ ارتباط کو قطع نہ کیا۔

۲۔ مسئلہ امامت کی تبیین

یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہلبیتؑ کی تعلیمات فاسق طاغوتی حکمرانوں کے لئے نقصان دہ تھیں، ایک طرف سے آئمہؑ کا دین اور دنیا ہر دو میدانوں میں امت مسلمہ کی رہبریت کا مدعی ہونا اور دوسری طرف سے انکے پیروکاران یعنی وہ شیعہ جو اپنی جان راہ امامت میں فدا کرنے کے لیے آمادہ ہوتے، یہ وہ دو امر تھے جن سے ہر دور کی حکومت خوفزدہ ہوتی اس لیے ہمارا ہر امام یا تو تلوار سے شہید کیا گیا ہے یا زہر سے مسموم کیا گیا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی بھی فرقہ نہیں جس کے سب رہبر شہید کئے گئے ہوں. امام ھادی نقی علیہ السلام نے بھی نا صرف بقیہ آئمہؑ کی طرح مسئلہ امامت کو اپنے شیعوں کے لیے تبیین کیا بلکہ طاغوتی حکومتوں کو شدید دباؤ میں قرار دیا یہاں تک کہ عباسی خلیفہ نے امامؑ کو شہید کردیا۔

راہ امامت میں مصائب و صعوبتیں اور شہادت

جب امامؑ کو جبری طور پر سامرہ لایا گیا تو شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ متوکل نے امام کی توہین اور تحقیر کے لیے انکی رہائش کے لئے ایک ایسی جگہ متعین کی جو اس علاقے کی حقیر اور پست ترین جگہ تھی، اس جگہ کا نام خان صعالیک تھا اور یہاں فقط گداگر بھکاری، اندھے بہرے مستمند افراد رہا کرتے تھے، کچھ دن وہاں پر رکھنے کے بعد امامؑ کو ایک فوجی چھاؤنی میں لے جایا گیا، متوکل نے حکم دیا کہ امام کو جس جگہ رکھا جائے اس کے احاطے میں ایک گھڑا کھودا جائے جو قبر کی مانند ہو۔ (۵)
متوکل عباسی نے اگرچہ امامؑ کو زیر نظر رکھا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود اکثر اوقات رات کو ڈراؤنے خواب  دیکھتا اور ڈر جاتا، پریشانی و سرگردانی میں امامؑ سے انتقام لیتا اور سپاہیوں کو حکم دیتا کہ جاؤ امامؑ کے مکان کی تلاشی لو، یہ سپاہی بھی کبھی اجازت سے اور کبھی بنا اجازت آتے اور سختی سے بدتمیزی کا ارتکاب کرتے ہوئے ساحت مقدس امام میں ہتاکی کرتے، تاریخ میں لکھا ہے کہ بعض اوقات متوکل عباسی دن کو شراب کی مستی کی حالت میں امام کو اپنے پاس حاضر کرواتا اور نعوذبااللہ امام کو شراب پینے کی دعوت دیتا۔ (۶)
متوکل عباسی کے مرنے کے سات سال بعد بھی امامؑ سامرہ میں اسیر رہے بالآخر معتز کے حکم سے امامؑ کو تین رجب المرجب سال ۲۵۴ ہجری انار کے شربت یا پانی میں زہر دے کر مسموم کردیا گیا۔ (۷)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۲۹۷، کنگره شیخ مفید، قم،  طبع اول، ۱۴۱۳ق۔
۲۔ شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص۳۸۳-۳۹۴، تحقیق: قیومی اصفهانی، جواد، جامعه مدرسین، قم، طبع اول، ۱۴۱۵ق۔
۳۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۰۹۔ 
۴۔ شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص۳۱۱ ۳۰۹، کنگره شیخ مفید، قم، طبع اول، ۱۴۱۳ق۔
۵۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۹۴۔ 
۶۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۱۱۔ 
۷۔ ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۳، ص۵۰۶، مؤسسہ انتشارات علامہ، قم، ۱۳۷۹ق۔

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/10
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی