بصیرت اخبار

میاں بیوی کے باہمی تعلقات

Friday, 3 September 2021، 10:39 PM

مقدمہ

عرصہ دراز سے قارئین کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ میاں بیوی کے تعلقات اور ان کے باہمی حقوق و فرائض پر مفصل تحریر بھیجی جائے، قارئین کی فرمائش پر مذکورہ تحریر میں میاں بیوی کے حقوق کو روایات معصومین علیہم السلام کی نظر میں بیان کیا گیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ شوہر پر بطور سربراہ کون کون سے فرائض عائد ہوتے ہیں، اور خاتون پر کون کون سی گھریلو ذمہ داریاں پورا کرنا ضروری ہیں، تحریر کی ابتداء میں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ اگر میاں بیوی کے رشتے کو ہم فقط فقہی فرائض کی بنیاد پر کھڑا کرنا چاہیں تو یہ رشتہ قائم و دائم نہیں رہ سکتا بلکہ ضروری ہے کہ اس رشتے کو پیار و محبت کی بنیادوں پر قائم کریں۔ اس لئے جو کچھ بھی روایات میں وارد ہوا ہے ان پر دینی طور پر و اخلاقی طور پر بطور شوہر یا بیوی ہونے کے ناطے عمل کرنا ضروری ہے، دین کسی رشتے کو زبردستی کی بنیاد پر قائم کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ میاں بیوی کو ایک اچھی ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے جن پر شوہر عمل کرکے بہترین شوہرداری کے فرائض نبھا سکتا ہے اور ان روایات پر عمل کرکے خواتین بھی بہترین گھرداری کے رہنما اصول سیکھ سکتی ہیں۔

ابتدا میں خاتون پر شریعت کی جانب سے عائد کردہ شرعی فرائض بیان کئے جارہے ہیں جنکو ادا کرنا خاتون پر ضروری ہے۔

۱۔  شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے، اگر خاتون نے کلی طور پر شوہر سے باہر جانے کی اجازت لے رکھی ہو تو باہر جاسکتی ہے۔ (۱)

۲۔  اگر شرعی عذر نہ رکھتی ہو تو شوہر کی نفسانی طلب پر حتما خود کو پیش کرے اور کسی قسم کا عذر پیش نہ کرے، لیکن اگر حالت حیض میں ہے تو خود کو شوہر کے سامنے پیش نہ کرے بلکہ اگر پیش کرے تو حرام ہے۔ (۲)

۳۔  خود کو ہر اس چیز سے پاک اور دور رکھے جس سے شوہر کو جنسی استفادہ کرنے میں کراہت محسوس ہو، مثلا صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ (۳)

۴۔  شوہر کی اجازت کے بغیر اسکے مال سے صدقہ نہ دے۔ اپنے شوہر کے مال سے نذر اور صدقہ دینا درست نہیں البتہ اپنا مال خرچ کرنے میں آزاد ہے۔(۴)

  خاتون کو شوہر کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کے بارے میں اور شوہر کے اپنی زوجہ کی جانب سے چند حقوق کا بیان:

جس طرح سے شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے عورت کا بھی یہ فریضہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کا احترام و اکرام کرے، اس بارے میں چند روایات پیش خدمت ہیں:

 اپنے شوہر کی اطاعت کرے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ان للرجل حقا علی امراته اذا دعاها ترضیه واذا امرها لا تعصیه ولا تجاوبه بالخلاف ولا تخالفه.

مرد کا اپنی زوجہ پر حق یہ ہے کہ جب شوہر اسے بلاۓ تو عورت کو چاہیے کہ اسے جواب دے، اور جب اسے کوئی کام بتاۓ تو اسے انجام دے، منفی جواب نہ دے اور اپنے شوہر کی مخالفت نہ کرے۔ (۵)

 البتہ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ شوہر کی اطاعت فقط جائز امور میں ضروری ہے اگر شوہر احکام الہی کی مخالفت کرنے کا حکم دے تو یہاں پر اطاعت کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ بہرحال ہر صورت میں حکم خداوندی شوہر کے حکم سے بالاتر ہے۔

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں: اگر سجدہ کرنا غیرِ خدا کے لیے جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ بیویاں اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے: کوئی بھی خاتون خدا کا حق ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔ (۶)

اس روایت کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کا احترام کس حد تک ضروری ہے، پس ایک خاتون حتی الامکان کوشش کرے اپنے شوہر کی تکریم کرے اور اس کا احترام بجالاۓ۔

 مہر و محبت کا عطر

رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

للرجل علی المراة ان تلزم بیته وتودده وتحبه وتشفقه وتجتنب سخطه وتتبع مرضاته وتوفی بعهده ووعده.

 مرد کا اپنی عورت پر یہ حق بنتا ہے کہ خاتون اسکے گھر میں خدمت کرے، اپنے شوہر کی دوست ہو اور اس سے محبت و دلسوزی سے پیش آۓ، اپنے شوہر کو غضب میں نا لاۓ اور جو اسکا شوہر چاہتا ہو اسے انجام دے اسکے ساتھ کئے گئے وعدے کو وفا کرے۔ (۷)

 ناشکری سے بچے

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

ایما امراة قالت لزوجها: ما رایت قط من وجهک خیرا فقد حبط عملها.

جو عورت اپنے شوہر کو کہے: میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں پائی تو اسے اسکے اعمال کا ثواب عطا نہیں ہوگا۔(۸)

بعض خواتین کے لیے انکے شوہر چاہے دن رات بھی ایک کردیں وہ پھر بھی اپنے شوہر سے راضی نہیں ہوتیں، اکثر اوقات اپنے شوہر کا اپنی سہیلیوں کے شوہروں سے مقائسہ کرتی ہیں اور طعنے دیتی ہیں کہ انکے گھر میں زیادہ کچھ موجود ہے جبکہ ہمارے گھر میں فلاں فلاں سہولت موجود نہیں، جبکہ ایسا کلام ہرگز ایک دیندار بیوی کو زیب نہیں دیتا۔

 ضدبازی سے پرہیز کرے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

خیر نسائکم الودود الولود المؤاتیة وشرها اللجوج.

تم میں سے سب سے بہترین خاتون وہ ہے جو محبت سے اولاد پیدا کرنے والی ہو اور بدترین خاتون وہ ہے جو ضدی اور ڈھٹائی سے کام لے۔ (۹)

خاتون مکمل طور پر احساسات و جذبات کا پیکر ہوتی ہے، یہ احساسات خاتون کی کمزوری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود عورت کی حکمت کو دیکھتے ہوئے اسے عطا کئے ہیں لیکن عورت بعض اوقات ان احساسات کا منفی استعمال کرتی ہے اور شیطان اس پر غالب اجاتا ہے، ہٹ دھرمی، غیر منطقی مطالبات اور غیر عقلی باتیں منگوانا دین کی نگاہ میں مذموم قرار دیا گیا ہے اس لیے خاتون کوشش کرے اپنے فیصلوں کو عقلی بنیادوں پر حل کرے اور شوہر کے ساتھ منطقی تعاملات انجام دے۔

 شوہر کو راضی رکھنے والی

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

طوبی لامراة رضی عنها زوجها.

 کیا ہی سعادت ہے اس عورت کے لئے جس سے اسکا شوہر راضی ہو۔(۱۰)

ظاہر ہے اس روایت سے مراد بھی شوہر کے غیر شرعی مطالبات پورے کرکے اسے راضی کرنا نہیں بلکہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے شوہر کو راضی کیا جائے، شوہر کے غیر شرعی تقاضے پورے کرنا جائز نہیں۔

 اذیت پہنچانے والی

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

من کان لہ امراة تؤذیه لم یقبل اللہ صلاتها ولا حسنة من عملها حتی تعینه وترضیه وان صامت الدهر وقامت واعتقت الرقاب وانفقت الاموال فی سبیل الله وکانت اول من ترد النار ثم قال: وعلی الرجل مثل ذلک الوزر والعذاب اذا کان لها مؤذیا ظالما.

جس شخص کی بیوی اسے اذیت پہنچاتی ہو تو خداوند اس عورت کی نماز اور دیگر نیک کام قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ اپنے شوہر کی مدد کرے اور اسے راضی کرے۔ اور اگر اسی حالت میں(شوہر کو ناراض کرکے) تمام عمر روزہ رکھے اور نمازیں پڑھتی رہے، غلام آزاد کرتی رہے، اپنے اموال کو راہ خدا میں بخشتی رہے، پھر بھی یہ عورت ان عورتوں میں سے ہوگی جو سب سے پہلے جہنم میں ڈالی جائیں گی۔ پھر آپ ص نے فرمایا کہ مرد پر بھی یہی عذاب ہوگا اگر وہ اپنی زوجہ کو تکلیف پہنچاتا ہے یا اس پر ستم کرتا ہے۔ (۱۱)

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

سعیدة سعیدة امراة تکرم زوجها ولا تؤذیه وتطیعه فی جمیع أحواله.

خوشبخت ہے وہ عورت، خوشبخت ہے وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کا اکرام کرے، اسکو تکلیف نہ پہنچائے اور ہمیشہ اسکی فرمانبردار رہے۔ (۱۲)

 شوہر سے غیر منطقی مطالبے نا کریں

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

لا یحل للمراة ان تتکلف زوجها فوق طاقته.

خاتون کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی توانائی و طاقت سے بڑھ کر اس سے مطالبہ کرے۔ (۱۳)

روایت کے الفاظ صریح ہیں، خاتون اپنے شوہر سے اسکی توان سے زیادہ مطالبہ نہیں کرسکتی مثلا اگر شوہر محنت مزدوری کرتا ہے یا معمولی کاروبار کرتا ہے اور حتی الامکان گھر والوں کے دن رات حلال کے رزق کے لیے کوشش کرتا ہے تو خاتون کو اپنے شوہر کی آمد و اخراجات کا احساس کرنا چاہیے اس پر کسی ایسی چیز کے خریدنے کی زبردستی نہیں کرسکتی جو اسکی توانائی سے بڑھ کر ہو۔

 شوہر کی اجازت سے مہمان بلاۓ

پیغمبرخدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ایها الناس ان لنسآءکم علیکم حقا ولکم علیهن حقا حقکم علیهن۔۔۔۔ ان لا یدخلن احدا تکرهونه بیوتکم الا باذنکم.

اے لوگو! تمہاری عورتیں تم پر حق رکھتی ہیں اور تمہیں بھی اپنی زوجات پر حق حاصل ہے۔ تمہارا اپنی زوجات پر یہ حق ہے کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نا لائیں جس کے لیے آپ راضی نہ ہوں۔ (۱۴)

ایک شخص رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری زوجہ ایسی ہے کہ جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو میرے استقبال کو آتی ہے، اور جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو دروازے تک چھوڑنے آتی ہے، جب مجھے غمگین دیکھتی ہے تو کہتی ہے: اگر رزق و روزی اور زندگی کے اخراجات کے لیے پریشان ہو تو جان لو کہ یہ سب تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے کہ بندے کا رزق اس تک ہر صورت میں پہنچا دے، اور اگر آخرت کے لیے پریشان ہو تو دعا ہے کہ اللہ تمہاری اس پریشانی میں اور بھی اضافہ کرے تاکہ آخرت کے لیے زیادہ سامان کرسکو۔ رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم نے یہ سن کر فرمایا: ان للہ عمالا و ہذہ من عمالہ لہا نصف اجر الشہید۔

خدا کے عُمّال ہیں اسکی زمین پر اور یہ خاتون بھی انہیں عُمال میں سے ایک ہے اس خاتون کی پاداش ایک شہید کی نصف پاداش ہے۔(۱۵)

 سلام کرنے کی اہمیت

مسلمانوں کے اخلاقی آداب و رسوم میں سے ایک بہترین رسم سلام کرنے کی ہے کہ جب بھی دو مسلمان آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کو دعا کے طور پر سلام کرتے ہیں جس سے پیار محبت بڑھتا ہے، میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں اُنس بڑھانے کے لئے ایک ضروری امر سلام کرنا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی شوہر باہر سے آئے تو بیوی کو سلام کرے۔

کام کاج میں ایک دوسرے کی مدد کرنا

پیغمبر عزیز خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ایما امراة اعانت زوجها علی الحج والجهاد او طلب العلم اعطاها الله من الثواب ما یعطی امراة ایوب علیه السّلام.

 جو خاتون حج و جہاد اور علم کے حصول میں اپنے شوہر کی مدد کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے وہ پاداش و اجر عطا کرے گا جو اس نے حضرت ایوب علیہ‌السّلام کی زوجہ کو عطا کیا۔ (۱۶)

 شوہر کو پانی پلانا

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

ما من امراة تسقی زوجها شربة من مآء الا کان خیرا لها من عبادة سنة صیام نهارها وقیام لیلها ویبنی اللہ لها بکل شربة تسقی زوجها مدینة فی الجنة وغفر لها ستین خطیئة.

ہر عورت جو اپنے شوہر کو پانی پلاتی ہے،  اسکا یہ پانی پلانا اسکے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور وہ بھی ایسا سال کہ جس کے دنوں میں وہ روزہ رکھتی رہی اور جسکی راتوں میں وہ نمازیں پڑھتی رہی۔ اللہ تعالٰی اسے ہر اس مقدار کے برابر کہ جو اس نے اپنے شوہر کو پانی پلایا جنت میں اس کے لئے ایک شہر تعمیر کرے گا اور اسکے ساٹھ گناہ معاف کرے گا۔(۱۷)

روایت میں پانی پلانے کا ثواب وارد ہوا ہے تو سوچئے شوہر کے دیگر امور انجام دینے کا کتنا ثواب ہوگا؟

 عورت کی گھرداری کی اہمیت

امام صادق علیہ‌السّلام پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم سے روایت نقل کرتے ہیں:

ایما امراة دفعت من بیت زوجہا شیئا من موضع الی موضع ترید به صلاحا نظر الله الیها ومن نظر اللہ الیه لم یعذبه.

جو خاتون اپنے شوہر کے گھر میں کسی چیز کو سنبھال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتی ہے تو خداوند نظرِ رحمت سے اس پر نگاہ ڈالتا ہے اور ہر بندہ جو مورد نظرِ رحمت الہی قرار پا جاتا ہے، اللہ اس پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ (۱۸)

 اچھا لباس پہننا اور اپنے شوہر کے لیے خود کو معطر کرنا

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم شوہر کے بیوی پر ایک حق کے بارے میں فرماتے ہیں:

علیها ان تطیب باطیب طیبها وتلبس احسن ثیابها وتزین باحسن زینتها.

عورت پر ضروری ہے کہ اپنے شوہر کے لیے سب سے بہترین عطر استعمال کرے، بہترین لباس پہنے اور سب سے زیادہ زیبا کردینے والی زینت کو اختیار کرے۔ (۱۹)

بعض شوہروں کا کہنا ہے کہ جب سے ہماری گھر والی رخصت ہو کر آئی ہے ہم نے کبھی بھی اسکو زینت کئے ہوئے نہیں دیکھا فقط شادی بیاہ کے موقع پر تیار ہوتی ہیں اور وہ بھی شادی سے واپس آکر زینت اتار دیتی ہیں، بعض خواتین کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد زینت یا میک اپ کرنے کا کیا فائدہ؟ جبکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے اسلام نے عورت کو حکم دیا ہے کہ وہ زینت اختیار کرے اور اپنے شوہر کے لیے بہترین زینت اختیار کرے۔

 کھانا پکانے کا ہنر

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

خیر نسآءکم الطیبة الریح الطیبة الطبیخ التی اذا انفقت انفقت بمعروف وان امسکت امسکت بمعروف فتلک عامل من عمال اللہ وعامل اللہ لایخیب ولایندم.

تم میں سے بہترین خواتین وہ ہیں کہ جو خوشبودار اور اچھا کھانا بنانے والی ہیں، جب خرچ کرتی ہیں تو درست چیز خریدتی ہیں، اور جب خرچ نہیں کرتیں تو دراصل فضول خرچی سے بچ رہی ہوتی ہیں، ایسی خواتین دراصل اللہ تعالیٰ کے عُمّال میں سے ایک ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عمال نہ تو ناامید ہوتے ہیں اور نا ہی پشیمان۔ (۲۰)

ایک اور روایت میں پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم سے نقل ہوا ہے:

حق الرجل علی المراة انارة السراج واصلاح الطعام وان تستقبله عند باب بیتها فترحب وان تقدم الیه الطست والمندیل وان توضئه وان لاتمنعه نفسهآ الا من علة.

مرد کا اپنی زوجہ پر ایک حق یہ ہے کہ خاتون اسکے گھر کو روشن رکھے، اچھی غذا بنا کر تیار کرے، جب شوہر گھر آۓ تو دروازے پر اسکو خوش آمدید کہے، پانی اور لباس پیش کرے اور اسکے ہاتھ دھلاۓ، اور بغیر کسی شرعی مجبوری کے خود کو اپنے شوہر کے سامنے پیش کرنے سے انکار نا کرے۔(۲۱)

 فقط اپنے شوہر کے لیے خود کو آراستہ کرے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ان من خیر نسآءکم۔۔۔ المتبرجة من زوجها الحصان عن غیره.

تم میں سے سے بہترین خاتون وہ ہے جو خود کو اپنے شوہر کے لیے آراستہ کرے، اور اجنبیوں سے خود کو چھپاۓ۔(۲۲)

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض خواتین فقط اس وقت زینت اختیار کرتی ہیں جب انہیں باہر جانا ہو، یعنی الٹ کام کرتی ہیں نامحرم کے لیے زینت اختیار کرنا حرام ہے اگر اس نیت سے زینت کرے کہ کوئی نامحرم اسکی طرف متوجہ ہو تو یہ شرعا بھی حرام ہے۔ خاتون کے لیے زینت کرنا مطلقا حرام نہیں ہے بلکہ نامحرم کے لیے زینت کرنا حرام ہے اگر خاتون اپنے شوہر کے لیے زینت کرتی ہے تو باعث ثواب ہے۔

 شکرگزار بیوی

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

خیر نسآءکم التی ان اعطیت شکرت وان منعت رضیت.

تم میں سے بہترین خاتون وہ ہے کہ جب اسے کچھ دیا جائے تو شکرگزار ہو اور جب کچھ نا دیا جائے تو تب بھی راضی ہو۔ (۲۳)

 اچھی شوہر داری کرے

اچھی شوہرداری بھی ایک ہنر ہے ایک خاتون کی خوشبختی یا بدبختی بھی اسکی اچھی یا بری شوہرداری پر منحصر ہوتی ہے اگر خاتون اس مہارت کو حاصل کرلے تو سعادتمند ہو سکتی ہے، اور اپنے گھر کو جنت کا ایک باغ بنا سکتی ہے۔ اس لئے اسلام میں اچھی شوہرداری کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، امام علی علیہ‌السّلام اس بارے فرماتے ہیں: خاتون کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی شوہرداری کرے۔ (۲۴)

 خوش اخلاقی

 ایک سمجھدار خاتون وہ ہوتی ہے کہ جسے یہ بات معلوم ہو کہ فقط محبت اور اخلاق سے ہی شوہر کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ اپنے درست و عاقلانہ فیصلوں اور اخلاقی اقدار کو اپنا کر شوہر کے گھر کو بسایا جا سکتا ہے۔ ایک خوش اخلاق خاتون کی علامت یہ ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ ہمیشہ اچھا کلام کرتی ہے، چنے ہوئے مودب الفاظ کا استعمال کرتی ہے اور ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ اپنے شوہر سے ابراز محبت کرے اور اپنے شوہر کو مضطرب ہونے سے بچا لے۔ سمجھدار خاتون اپنے اچھے رویے کی وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ یا بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہتی ہے اور مثلِ فرشتہء رحمت گھر کے اندر سکون کا باعث ہوتی ہے۔  پیغمبر اسلام صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں: جو خاتون اپنی زبان درازی کی وجہ سے شوہر کو تکلیف پہنچاۓ تو خداوند اسکا کوئی بھی واجب یا مستحب عمل قبول نہیں کرتا، اسکا کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر کو راضی کرلے، (اسکا کوئی بھی عمل ان ایام میں قبول نہیں ہوگا) چاہے ان ناراضگی کے ایام میں وہ روزے اور راتوں کو نمازیں بھی کیوں نہ پڑھتی رہی ہو۔(۲۵)

 ایک سمجھدار خاتون کبھی بھی اپنے شوہر یا بچوں کے ساتھ دھمکی آمیز یا تحقیرانہ لہجے کے ساتھ بات نہیں کرتی، بلکہ ہمیشہ شاکرانہ اور ہمدردانہ انداز اپنا کر گھر کی حرمت کا خیال رکھتی ہے۔

 شوہر کا احترام

 بابصیرت خاتون وہ ہے جسے معلوم ہو کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسان ہیں وہ سب محبتوں کو قبول کرنے والے اور نفرتوں سے بیزار ہوتے ہیں، سب انسان احترام کو پسند اور بے عزت ہونے کو ناپسند کرتے ہیں، وہ یہ بات سمجھتی ہے کہ میں جس کا بھی احترام کرونگی وہ بھی مجھے پسند کرے گا اور احترام کرے گا، اور جس کا اکرام نہیں کرونگی وہ بھی مقابل میں مجھے عزت نہیں دے گا۔   ایک سمجھدار خاتون کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اسکے شوہر کو سکون و آرام چاہیے، اسکے شوہر کو گھر میں امنیت، صمیمیت اور مخلص دلدار دوست چاہیے۔

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

سعادتمند ہے وہ عورت، سعادتمند ہے وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے اور اسکو تکلیف نہیں پہنچاتی، اور ہر موقع پر اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔(۲۶)

 اپنے عشق و محبت کا اظہار کرے

 ایک عقلمند خاتون وہ ہے کہ جسے علم ہے اسکا شوہر محبت کا تشنہ ہے، اسے ایک غم بانٹنے والا شریک چاہیے اس لیے وہ اپنا آپ شوہر کے سامنے نچھاور کردیتی ہے۔ لیکن اگر مرد کو یہ احساس ہوجاۓ کہ اسکی زوجہ اسے پسند نہیں کرتی تو وہ بھی احساس تنہائی کرنے لگتا ہے، ہمیشہ پژمردہ، غمگین اور مضطرب رہتا ہے۔  اس لئے دوراندیش عورت اپنے عشق و محبت کا اظہار کر کے اپنے جذبات زبان پر لاتی ہے اور شوہر کو جذب کرلیتی ہے۔  امام باقر علیہ‌السّلام فرماتے ہیں: ایک خاتون کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اسکی شوہر کی رضا سے بڑھ کر کوئی امر شفاعت کرنے والا قرار نہیں دیا۔ (۲۷)

 جہاں شریعت اسلام نے شوہر کے حقوق بیان کئے ہیں وہیں شوہر کے چند فرائض بھی روایات میں بیان ہوۓہیں جن کا پورا کرنا شوہر پر فرض ہے۔

  اظہارِ محبت

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

کلما ازداد العبد ایمانا ازداد حبا للنسآء.

مومن کا جس مقدار میں ایمان بڑھتا رہتا ہے، اِتنا ہی اسکا اپنی زوجہ کیلئے پیار بڑھتا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے۔(۲۸)

قول الرجل للمراة انی احبک لا یذہب من قلبہا ابدا.

مرد کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، خاتون کے دل سے یہ بات کبھی فراموش نہیں ہوتی۔(۲۹)

بہت سے شادی شدہ جوڑوں کا یہ کہنا ہے کہ شادی کے بعد ان کا آپس میں پیار و محبت کم ہوگیا ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد شوہر یا بیوی ایکدوسرے سے محبت آمیز جملات کا تکرار نہیں کرتے جبکہ محبت ایک ایسا درخت ہے جسے ہر روز آبیاری کرنی پڑتی ہے، دین اسلام نے زوجہ سے محبت آمیز کلمات ادا کرنے پر بھی ثواب رکھا ہے کیونکہ خاتون احساسات کا پیکر ہے اسے لاکھ عقلی دلیلیں قائل نہیں کرسکتیں لیکن ایک محبت بھرا جملہ موم کرسکتا ہے۔

 محب اہلبیتؑ وہ ہے جو اپنی زوجہ سے محبت کرے

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

کل من اشتد لنا حبا اشتد للنساء حبا.

جو شخص ہم اہلبیت علیہم السلام سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنی عورتوں (زوجات) سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ (۳۰)

 ہر حال میں اپنی زوجہ کے ساتھ بنا کر رکھنے والا

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

فدارہا علی کل حال واحسن الصحبة لہا فیصفو عیشک.

ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی زوجہ کے ساتھ رواداری کے ساتھ اور بنا کر رکھو اور اسکے ساتھ نیکی سے پیش آؤ تاکہ تمہاری زندگی باصفا ہو سکے۔ (۳۱)

بعض مردوں کو بدزبان یا بداخلاق زوجات نصیب ہوتی ہیں، دین اسلام نے مقابل میں ان سے بدتمیزی یا مار کٹائی کا حکم نہیں دیا بلکہ ایسی خواتین سے بھی رواداری اور برداشت سے تعامل کرنے کا حکم دیا ہے۔

متکبرانہ و غضبناک لہجے سے پرہیز

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

خیر الرجال من امتی الذین لایتطاولون علی اہلیهم و یحنون علیهم ولا یظلمونهم.

میری امت کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنے گھر والوں پر غصہ نہ کرنے والے اور متکبر نہ ہوں، ان پر رحم اور نوازش سے پیش آتے ہوں اور گھر والوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاتے ہوں۔ (۳۲)

 زوجہ پر ہاتھ اٹھانے والے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

فای رجل لطم امراته لطمة، امراللہ عزوجل مالک خازن النیران فیلطمه علی حر وجهه سبعین لطمة فی نار جهنم.

ہر شخص جو اپنی زوجہ کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے تو خداوند عالم جہنم کے آتشبان کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کو جہنم کی آگ میں ستر تھپڑ مارے جائیں۔

ایک خاتون سے مخاطب ہو کر رسول اللہ ص نے فرمایا کہ خاتون کا اپنے شوہر پر ایک حق یہ بنتا ہے۔(۳۳)

حقک علیه ان یطعمک مما یاکل و یکسوک مما یلبس ولا یلطم ولا یصیح فی وجهک.

تمہارا اپنے شوہر پر ایک حق یہ ہے کہ جو وہ خود کھاتا ہے تمہیں بھی کھلاۓ اور جس طرح کا وہ خود پہنتا ہے تمہیں بھی پہناۓ اور تمہیں تھپڑ نا مارے اور تم پر فریادیں بلند نا کرے۔ (۳۴)

اپنی زوجہ کو خوش رکھنے کی کوشش کرے

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

للمراة علی زوجها ان یشبع بطنها، و یکسو ظهرها، ویعلمها الصلاة والصوم والزکاة ان کان فی مالها حق، ولاتخالفه فی ذلک.

عورت کا اپنے شوہر پر ایک حق یہ ہے کہ شوہر اسے کھانا کھلاۓ، اور اسے لباس پہننے کے لیے مہیا کرے۔ نماز و روزہ و زکات کے مسائل سکھاۓ اور اگر عورت کے مال پر زکات بنتی ہے تو وہ ادا کرے، عورت کو بھی ان امور میں اپنے شوہر کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ (۳۵)

 گھر کی معیشت کے لیے کوشش کرنا جہاد ہے

امام رضا علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

الکآد علی عیاله من حل کالمجاهد فی سبیل اللہ.

جو شخص راہ حلال کے ذریعے گھر کی رفاہ و بہبود کے لئے کوشش کرتا ہے، وہ شخص اس مجاہد کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔(۳۶)

 زوجہ کے لیے ہدیہ خریدنا

رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

من دخل السوق فاشتری تحفة فحملها الی عیاله کان کحامل صدقة الی قوم محاویج ولیبدا بالاناث قبل الذکور فان من فرح ابنته فکانما اعتق رقبة من ولد اسماعیل ومن اقر بعین ابن فکانما بکی من خشیة اللہ ومن بکی من خشیة اللہ ادخله الله جنات النعیم.

جو شخص بازار جاتا ہے اور اپنے گھر والوں کے لیے ہدیہ خرید کر گھر جاتا ہے اسکی جزا اس شخص کی مانند ہے جو نیازمندوں کے لیے صدقہ لے کر جاتا ہے۔ اور جب ہدیہ گھر لے کر جاۓ، تو اسے چاہیے کہ اپنے بیٹوں سے پہلے اپنی بیٹیوں کو ہدیہ دے، کیونکہ جو بیٹیوں کو خوش کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے فرزندان اسماعیل علیہ السلام میں سے ایک غلام آزاد کروایا ہو۔ اور جس نے ہدیہ دے کر اپنے بیٹوں کی آنکھوں کو روشن کیا اس شخص کی مانند ہے جس نے خوف خدا میں گریہ کیا ہے اور جو بھی خوف خدا سے گریہ کرے خداوند اسے بہشت کی نعمات سے نواز دے گا۔ (۳۷)

 ضروریات زندگی کی خرید

امام سجاد علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

لان ادخل السوق ومعی درهم ابتاع به لحما لعیالی وقد قرموا الیه احب الی من ان اعتق نسمة.

میرے نزدیک بازار جانا اور گھر والوں کے لیے ایک درہم کا گوشت خرید کرنا کہ جس کے لیے انکا دل چاہ رہا ہے، غلام آزاد کروانے سے زیادہ محبوب تر ہے۔ (۳۸)

 سوغات خریدنا

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

اذا سافر احدکم فقدم من سفره فلیات اهله بما تیسر.

تم میں سے جب کوئی سفر پر جاۓ اور وہاں سے واپس آئے تو اسے چاہیے کہ اپنی توان کے مطابق گھر والوں کے لیے سوغات خرید کر جاۓ۔(۳۹)

 اپنی زوجہ کے لیے خود کو سنوارے

امام باقر علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

النسآء یحببن ان یرین الرجل فی مثل ما یحب الرجل ان یری فیه النسآء من الزینة.

جس طرح سے مرد حضرات پسند کرتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو زینت و آرائش کیا ہوا دیکھیں، عورتیں بھی پسند کرتی ہیں کہ انکے مرد زینت کو اختیار کریں۔(۴۰)

 سردی کے موسم کا مناسب بندوبست

امام رضا علیہ‌السّلام فرماتے ہیں :

بنبغی للمؤمن ان ینقص من قوت عیاله فی الشتآء ویزید فی وقودهم.

مومن کو چاہیے کہ موسم سرما میں وہ اپنے خانوادے کے خوراک کے اخراجات میں سے کم کر کے گرم کرنے والے وسائل کا بندوبست کرے جو اسکے گھر والوں کو گرم رکھ سکیں۔ (۴۱)

 اپنے گھر والوں کی خوشیوں کا خیال رکھے

راوی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ عورت کا اپنے شوہر پر کیا حق بنتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

ولاتکون فاکهة عامة الا اطعم عیاله منها ولایدع ان یکون للعید عندهم فضل فی الطعام وان یسنی لهم فی ذلک شی ء ما لم یسن لهم فی سآئر الایام.

پھل جو عام لوگ کھا رہے ہوں مرد کو چاہیے کہ اپنے گھر والوں کو کھلاۓ اور عید کے ایام میں انکی خوراک پر زیادہ خرچ کرے، اور ان ایام میں وہ اشیاء بھی فراہم کرے جو عموما عام دنوں میں فراہم نہیں کرتا۔(۴۲)

 اپنی زوجہ پر تہمت نہ لگائے اور سوء ظن سے پرہیز کرے

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

لا تقذفوا نسآءکم فان فی قذفهن ندامة طویلة وعقوبة شدیدة.

اپنی خواتین پر نہ باندھیں اور انکی طرف ناروا نسبتیں نا دیں، کیونکہ اس کام میں تمہارے لیے پشیمانی ہے اور سخت سزا ہے۔(۴۳)

گھر میں وقت دینا

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

هلک بذی المروة ان یبیت الرجل عن منزله بالمصر الذی فیه أهله.

یہ امر جوانمردی کے خلاف ہے کہ مرد جس شہر میں موجود ہو اسکے گھر والے بھی وہیں ہوں اور وہ اپنے گھر میں نا سوۓ کہیں اور جا کر رات گزارے۔ (۴۴)

 گھر میں داخل ہونے کے آداب

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

یسلم الرجل اذا دخل علی اهله واذا دخل یضرب بنعلیه ویتنحنح یصنع ذلک حتی یؤذنهم انه قد جآء حتی لا یری شیئا یکرهه.

 مرد جب گھر میں داخل ہو اور گھر والوں کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ سلام کرے اور گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے جوتوں کو ہلا کر آواز نکالنے سے یا ہلکا سا کھانس کے اپنے گھر میں داخل ہونے کا اشارہ کرے، تاکہ اسے کوئی ایسی ناگوار چیز نا دکھائی دے جس سے وہ ناراحت ہو۔ (۴۵)

 اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھنا

پیغبر اسلام صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

جلوس المرء عند عیاله احب الی اللہ تعالی من اعتکاف فی مسجدی هذا.

 مرد کا اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھنا، خدا کے نزدیک اعتکاف میں بیٹھنے اور اس مسجد میں توقف کرنے سے زیادہ محبوب تر ہے۔ (۴۶)

 زوجہ کے لیے لقمہ توڑنا

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ان الرجل لیؤجر فی رفع اللقمة الی فی امراته.

مرد اپنی زوجہ کے منہ میں لقمہ توڑ کر ڈالے تو اسکے لئے ( اللہ تعالیٰ کے نزدیک) جزا ہے۔ (۴۷)

 

 


حوالہ جات:

۱۔  امام خمینی، سیدروح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، کتاب نکاح، فصل فی النشوز، قبل از م ۱۔

۲۔  بہجت، محمدتقی، توضیح المسائل، مسئلہ ۱۸۹۷۔

۳۔  تبریزی، جواد، منہاج الصالحین، م۱۳۶۵۔

۴۔  امام خمینی، سیدروح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، کتاب نکاح، فصل فی النشوز، قبل از م ۱۔

۵۔  نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۳۔

٦۔ محدث نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، ج۲، ص۵۵۲، مؤسسة آل البیت، قم، ۱۴۰۸ ہ۔ ق۔

٧۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۴۔

٨۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۱۵۔

٩۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۱۶۲۔

١٠۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۵۵۔

١١۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۱۶۔

١٢۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۳۔

١٣۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۲۔

١٤۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۷۶، ص۳۴۸۔

١٥۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۷۔

١٦۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۲۰۱۔

١٧۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۲۳۔

١٨۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۱۷۵۔

١٩۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۵۰۸۔

٢٠۔ حرعاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۵، دار التراث العربی، بیروت، ۱۳۹۱ ق۔

٢١۔ نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۵۴۔

٢٢۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۳۵۔

٢٣۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۳۹۔

٢٤۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۲، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ہ۔ ق۔

٢٥۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۴۴، ح۱۵، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ہ۔ ق۔

٢٦۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۲، ح۵۵، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ہ۔ ق۔

٢٧۔ قمی، شیخ عباس، سفینة البحار، ج۳، ص۵۰۹، دار الاسوہ الطباعہ و النشر، ۱۴۲۲ہ۔ ق۔

٢٨۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۲۸۔

٢٩۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۰۔

٣٠۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۲۷۔

٣١۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۲۱۸۔

٣٢۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۲۱۶۔

٣٣۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۵۰۔

٣٤۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۲۱۸۔

٣٥۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۳۔

٣٦۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۷۲۔

٣٧۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۲۷۔

٣٨۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۵۱۔

٣٩۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۸، ص۳۳۷۔

٤٠۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۸۰۔

٤١۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۴۹۔

٤٢۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۲۷۔

٤٣۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۴۹۔

٤٤۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۲۲۔

٤٥۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۷۶، ص۱۱۔

٤٦۔ ری‌شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۵، ص۱۰۱۔

٤٧۔ فیض‌کاشانی، محسن، المحجۃ البیضاء، ج۳، ص۷۰۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/03
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی