بصیرت اخبار

وطن ایک ایسا عنوان ہے جو تقریبا دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے انسان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ تمام ادیان بالخصوص دین اسلام نے وطن دوستی کو لازمی قرار دیا ہے۔ البتہ یہ وطن دوستی افراط کی حد تک قبول نہیں یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ حب الوطنی کے عنوان سے حدود خدا کو پائمال کر دیں۔ اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ حب الوطنی شرعی طور پر کسی قسم کا اشکال نہیں رکھتی بلکہ بہت سی آیات و روایات سے اس کو ثابت کیا ہے اس تحریر میں اختصار کے ساتھ ان ادلہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں سورہ ممتحنہ میں اسی مطلب کی طرف اشارہ موجود ہے جس میں اللہ تعالی نے وطن کو ایک ایسا مفہوم قرار دیا ہے جو اعلی اقدار میں سے ہے:
لایَنْهاکُمْ اللهُ عَنِ الَّذینَ لَمْ یُقاتِلُوکُمْ فِى الدّینِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا اِلَیْهِمْ اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ إِنَّما یَنْهاکُمُ اللهُ عَنِ الَّذینَ قاتَلُوکُمْ فی الدّینِ وَ أَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ وَ ظاهَرُوا عَلى اِخراجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَ مَنْ یَتَوَلَّهُمْ فَأوُلئِکَ هُمُ الظّالِمُونَ.
 جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو یقینا تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہاری جلاوطنی پر ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور جو ان لوگوں سے دوستی کرے گا پس وہی لوگ ظالم ہیں۔(۱)
ان دو آیات میں صراحت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے کہ وطن کو مقاتلہ در دین کے مترادف رکھا گیا ہے۔ یعنی اگر دین کے معاملے میں آپ سے کوئی جنگ کرتا ہے اس کی اہمیت اور جنہوں نے آپ کو آپ کے گھروں اور وطنوں سے نکال باہر کیا ہر دو ایک ردیف میں ہیں۔
سورہ مبارکہ بقرہ میں بنی اسرائیل کے کلام کو اللہ تعالی نے نقل کیا ہے: 

قالُوا وَ ما لَنا أَلاّ نُقاتِلَ فى سَبیلِ اللهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنا مِنْ دِیارِنا وَ أَبْنائِنا.
 کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟(۲)
 اس آیت مجیدہ میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل نے جنگ کا ارادہ کیا اور ان کا جنگ کرنے کا ارادہ نہ فقط حفظ دین خدا تھا بلکہ وطن کی نجات بھی تھی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم ضرور جنگ کریں گے کیونکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکالا گیا۔ جس کے جواب میں پیغمبر نے ان کے کلام پر اعتراض نہیں کیا اور عملا ان کی تائید کی۔
سورہ حج میں اللہ  تعالی نے ان لوگوں کو جہاد کرنے کی اجازت دی ہے جن کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا گیا اور وطن کے دفاع کے لیے مبارزے کو جائز بلکہ لازم قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ. 
جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے۔(۳)
وارد ہوا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو بہت رنجیدہ دل و افسردہ تھے۔ مکہ ان کے لیے جہاں پر معنوی مقام رکھتا تھا وہیں پر متعدد جہات سے رسول اللہ ﷺ اس شہر سے مانوس تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی افسردگی کو دیکھ کر اللہ تعالی نے جبرئیلؑ کو بھیجا، حضرت جبرئیلؑ نے رسول اللہ ﷺ کو کہا: 

أ تشتاق إلى بلدک و مولدک فقال نعم قال جبرائیل فإن الله یقول.
 کیا آپ مکہ کے لیے مشتاق ہو رہے ہیں اور اس جگہ کے لیے جو آپ کی زادگاہ ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں!(۴)
جبرئیلؑ نے کہا کہ اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

إِنَّ الّذى فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرآنَ لَرَادُّکَ إِلَى مَعَاد.
 اے رسول) جس نے آپ پر قرآن (کے احکام کو) فرض کیا ہے وہ یقینا آپ کو بازگشت تک پہنچانے والا ہے۔ (۵)
حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے متعلق فرماتی ہیں:

کان رسول الله  یهتم لعشرة أشیاء فآمنه الله منها وبشرة بها : لفراقه وطنه.
 رسول اللہ ﷺ دس امور کو لے کر بہت پریشان تھے پھر اللہ تعالی نے ان کو آسودہ خاطر کیا اور بشارت دی، ان میں سے ایک امر وطن سے فراق تھا۔ بعد میں بی بیؑ نے سورہ قصص کی ۸۵ نمبر آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر کے رسول اللہ ﷺ کے غم کو خوشی میں بدل دیا۔(۶)
ایک روایت جو امیرالمومنینؑ سے منقول ہے وارد ہوا ہے:

 عُمِرَتِ الْبُلْدانُ بِحُبِّ الأَوْطانِ.
 شہر حب الوطنی سے آباد ہوتے ہیں۔(۷)
اور معروف روایت جو کہ رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے:

 حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الاْیمانِ.
وطن سے محبت ایمان میں سے ہے۔(۸)
ہمارے جید علماء کرام کی سیرت بھی یہی رہی  ہے۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں:

خوشحالم که بعد از سالهاى طولانى در میان شما رفقا- جوانان- هستم. من همیشه در فکر ایران و در فکر وطن خودم- قم- بودم.
میں بہت خوش ہوں کہ بہت سالوں بعد آپ سب دوستوں اور جوانوں کے درمیان ہوں۔ میں ہمیشہ ایران اور اپنے وطن قم کی فکر میں رہتا تھا۔ (۹)
مندرجہ بالا نکات کو مد نظر رکھتے ہوۓ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وطن سے محبت اور عشق کا ریشہ نہ فقط قرآن مجید و روایات میں موجود ہے بلکہ عقل اور انسانی مزاج بھی اس کی تاکید کرتا ہے۔ تاہم وطن سے محبت اس چیز کا سبب نہیں بننی چاہیے کہ انسان اعلی اہداف کو ترک کر دے۔ اگر علمی و مادی و معنوی تکامل کے لیے وطن کو ترک کرنا پڑے تو انسان کو ہچکچانا نہیں چاہیے۔ جس طرح سے ہم سنت نبویﷺ میں دیکھتے ہیں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مکہ میں دین خدا ترقی نہیں کر سکتا تو مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حتی بعد از فتح مکہ بھی رسول اللہ ﷺ اپنے زادگاہ کی طرف نہیں لوٹے بلکہ مدینہ کی طرف واپس ہو گئے۔ کسی بھی چیز کی محبت اگر اپنی حدود میں ہو تب تک تو صحیح ہے لیکن اگر افراط کیا جاۓ یہاں تک کہ حدود خدا کو بھی پائمال کر دیا جاۓ تو اسے حب الوطنی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سورہ ممتحنہ:۸۔
۲۔ سورہ بقرہ: ۲۴۶۔
۳۔ سورہ حج:۳۹۔
۴۔ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۷، ص۴۲۰۔
۵۔ سورہ قصص:۸۵۔
۶۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۴۔
۷۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول،ج۱، ص۲۰۷۔
۸۔ قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار، ج۸، ص۵۲۵۔
۹۔ خمینی، روح اللہ موسوی، صحیفہ امام، ج۱۰، ص۳۷۲۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/06
عون نقوی

قرآن کریم

وطن

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی