ظالمین کی مدد
فقہ سیاسی کی ابحاث میں ایک اہم بحث (معونة الظالم) ظالمین کی مدد کرنا ہے۔ شیخ انصاری نے کتاب مکاسب میں اس بحث کے ذیل میں بہت سی روایات بھی نقل کی ہیں جن میں میں معصومین علیہم السلام نے حتی یہاں تک فرمایا کہ مباح کاموں میں بھی ظالمین کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔
مثلا ایک روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ کسی ظالم کے لیے ایک مشک کی گرہ کو کھولوں۔ یا ایک روایت میں آیا ہے کہ حتی مسجد بنانے میں بھی ظالم کی مدد نا کریں۔
معونة الظالم کی اقسام
فقہا نے ظالمین کی مدد کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ حرام کاموں میں مدد
۲۔ حلال کاموں میں مدد
حرمت معونة الظالم کی شرائط
واضح ہے کہ حرام کاموں ظالم کی مدد حرام ہے لیکن حلال کاموں میں ظالم کی مدد کرنا دو شرائط کی اساس پر حرام ہے۔
امام خمینی کے مطابق اگر ظالم کی مدد کرنے سے اس کی تقویت لازم آتی ہو تو حرام ہے۔ لیکن اگر کسی کام سے اس کی تقویت لازم نا آتی ہو تو حرام نہیں ہے۔
اور دوسری شرط کے مطابق اگر کوئی ایسا کام انجام دیا جاۓ جس سے ظالم کے انصار شمار ہو تو حرام ہے۔ مثلا یہ کہا جاۓ کہ یہ شخص فلاں حکومت کا کارندہ ہے یا ان کے ہاں نوکری کرتا ہے۔ لیکن اگر مدد کرنے سے یہ لازم نا آۓ تو حرام نہیں ہے۔
نتیجه
معونة الظالم مطلق طور پر حرام نہیں ہے۔ لیکن اگر مدد سے ظالم کی تقویت ہوتی ہے یا ان کے نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے تو حرام ہے۔