بصیرت اخبار

سوال:

میرا سوال یہ ہے کہ ولی فقیہ کی حکومت تو صرف ایران پر ہے تو وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے رہبر کیسے ہو سکتے ہیں کیا بقیہ ممالک کے مسلمانوں پر ان کا حکم ماننا ضروری ہے جبکہ حکومت صرف ایران میں ہے۔ بقیہ افراد تو اپنے مراجع کی طرف رجوع کریں گے یا اگر کوئی رہبر معظم کا مقلد ہو تو فقط اس پر رہبر معظم کے فتوی پر عمل کرنا ضروری ہوگا؟

جواب:

ولایت فقیہ سلسلہ امامت کا تسلسل ہے۔ جس طرح سے نبیﷺ یا آئمہ معصومینؑ کسی ایک خطے کے ساتھ مخصوص نہیں اسی طرح ولی فقیہ کا حکم بھی کسی ایک ملک کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہے۔ یعنی جس طرح سے ایک ملک کے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ محمد رسول اللہﷺ تو عرب ہیں اور ان کی حکومت مدینہ میں تھی تو ہم ان کی پیروی کیوں کریں؟ یا بقیہ آئمہ معصومینؑ مثلا امام علیؑ نے جب ظاہری خلافت سنبھالی تو کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا۔ ظاہری طور پر شام کا علاقہ ان کے تسلط سے نکل کر امیر شام کی حکومت میں تھا لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ شام کے لوگوں پر چونکہ امیرالمومنینؑ کی حکومت نہیں لذا ان پر امیرالمومنینؑ کی اطاعت بھی واجب نہیں۔ جس طرح سے کوفہ، بصرہ مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں پر امیرالمومنینؑ کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح شام کے لوگوں پر بھی اطاعت ضروری ہے۔ اسلام بارڈرز کا قائل نہیں یہ ملکوں کی حدبندی بعد میں کی گئی اسلام اور اس کی تعلیمات اور اس کے رہبران اس سے آفاقی تر ہیں۔ جس طرح سے آپ کے بقول ایک مجتہد کا فتوی بارڈر سے پار جا کر ایک مجتہد کے مقلد پر واجب ہو سکتا ہے عین اسی طرح سے ولی فقیہ کا حکم بھی صرف ایک خطے کے لوگوں پر نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے پر ہر مسلمان پر واجب ہو سکتا ہے۔ اور جب ولی فقیہ بطور ولی امر حکم جاری کرے تو اس کو صرف مقلدین پر ہی نہیں بلکہ مجتہدین کو بھی ماننا ضروری ہے۔

یہ اور بات ہے کہ اس وقت عملی طور پر ولی فقیہ کا حکم دوسرے ممالک میں اطاعت پذیر نہیں کیونکہ دوسرے ممالک کے مسؤولین اس کو اپنے ملک میں دخالت سمجھتے ہیں اور اس طرح کے کسی بھی امر کی شدید طور پر مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ بات اس امر کا باعث نہیں بن سکتی کہ ولی فقیہ دوسرے ممالک کے لیے واجب الاطاعہ نہ ہو۔ کیونکہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی امام خود پوری امت کے لیے واجب الاطاعت تھے لیکن اہل شام، امیر شام کی حکومت کی وجہ سے امیرالمومنینؑ کی اطاعت نہ کر سکے۔ یا یہ کہیں کہ امیر شام کے پروپیگنڈے میں آ کر امام کی اطاعت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

تاہم یہاں پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ نظام ولایت فقیہ بہرحال ایران کا نظام ہے ہمارا اس سے کیا واسطہ؟ اس کا جواب اس طرح سے دیا جاۓ گا کہ ولایت فقیہ کو دو جہت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک جہت اس کی یہ ہے کہ ہر ملک کا آئین صرف اسی ملک کے لیے قابل اجراء ہوتا ہے اور اس کا دوسرے ممالک کے لیے کسی قسم کا اجراء نہیں ہوتا۔ اب یہ آئین و قانون اساسی چاہے ولایت فقیہ کی اساس پر ہو یا کسی اور نظام کی بنیاد پر۔ اگر اس جہت سے دیکھیں تو ولایت فقیہ فقط ایران کے لیے قابل اجراء ہے اور دوسرے کسی ملک میں اس کا اجراء نہیں ہے عملی طور پر۔ لیکن اگر ولایت فقیہ کو مذہبی و نظریاتی طور پر لیں تو یہ امر کسی ایک ملک یا کسی ایک سرزمین سے مختص نہیں۔ مختلف سرزمینوں کی مختلف اقوام کسی ایک سسٹم اور ایک رہبریت کو کسی نظریے کی بنیاد پر قبول کر سکتی ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے پوری دنیا کے مسلمان ایک نظامِ فکری، عملی و سیاسی کے پیرو ہیں، ان سب کا ایک ہدف ہے اور سب کا مشترکہ دشمن ہے یہ سب چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ ان کا رہبر بھی ایک ہو تاکہ یکپارچگی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوۓ مہدویت کی جانب قدم بڑھا سکیں۔ آخر میں اس نکتے کی طرف بھی توجہ رہے کہ دینی رہبروں اور سیاسی حکام میں فرق ہوتا ہے مثلا جب ویٹیکن سٹی (vatican city) میں عیسائیوں کا پاپ انتخاب کیا جاتا ہے تو اس کی اطاعت صرف ویٹیکن سٹی کے شہریوں پر ضروری نہیں قرار پاتی بلکہ پوری دنیا کے کلیسا اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ ولی فقیہ نا صرف امت کا سیاسی رہبر ہوتا ہے بلکہ مذہبی رہنما بھی ہوتا ہے اس لیے بعض مفکرین اسلام کے مطابق ولی فقیہ کو ’’امام‘‘ کہا جاۓ۔ یہاں پر امام سے مراد یہ نہیں کہ ولی فقیہ ۱۳واں امام بن گیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین اور دنیا کے ہر معاملے میں مومنین اور مسلمین کی رہبری و مدیریت ولی فقیہ نے کرنی ہے۔

 

 


منابع:

۱۔ ولایت فقیہ آیت اللہ جوادی آملی۔

۲۔ سائٹ حوزہ نیٹ۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/24
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی