بصیرت اخبار

مقدمہ

ویسے تو ہر دور میں ہی شیعہ اپنے سیاسی و اجتماعی نظریات کی وجہ سے حکومتوں کے زیر نظر اور زیر عتاب رہا ہے لیکن سیاسی طور پر امام محمد باقرؑ کا دورِ امامت خصوصاً تشیع اور شیعہ کے لیے سخت ترین دور تھا، تشیع کی رہبریت نے بھی اس ضمن میں ہمیشہ اپنے شیعوں کو صبر و استقامت کا درس دیا جیسا کہ امام رضاؑ سے منقول ہے:
مَن بَلَی مِن شِیعَتِنا بِبَلاء فصَبرَ کتبَ اللّه لهُ اَجر الف شَهِید.(١)
ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک ہزار شہید کا ثواب اس کے لیے قرار دیتا ہے۔
اس حقیقت کو ہر دور کی حکومتیں بطور احسن جانتی تھیں کہ شیعہ ہی وہ واحد فرقہ ہے جو ہمارے لئے سیاسی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر شیعہ و سنی کا بنیادی ترین اختلاف ہی سیاسی اختلاف تھا ناکہ کوئی کلامی یا فقہی اختلاف۔ شیعہ وہ واحد سیاسی گروہ ہے جو امامت کا قائل ہے اور جنکے رہبر بھی اس چیز کے مدعی ہیں، لوگوں کی دینی و دنیوی رہبری کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں جیسا کہ خود امام باقرؑ کا فرمان مبارک ہے:

بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّکَاةِ وَ الصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَ الْوَلَایَةِ وَ لَمْ یُنَادَ بِشَیْ‌‌ءٍ کَمَا نُودِیَ بِالْوَلَایَةِ فَأَخَذَ النَّاسُ بِأَرْبَعٍ وَ تَرَکُوا هَذِهِ یَعْنِی الْوَلَایَةَ.(٢)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت۔ اور لوگوں کو جتنا ولایت کے لیے پکارا گیا اتنا کسی اور امر کے لیے تاکید نہیں کی گئی لیکن لوگوں نے باقی چار کو تو لے لیا اور اس کو یعنی ولایت کو ترک کردیا۔

امام باقر کا طاغوت مخالف رویہ

امامؑ نے ہمیشہ ولایت کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا اور کبھی بھی اپنے شیعوں کو ظالم و فاسد نظام سے ھمکاری یا تعاون کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی، ایک سال سفر حج پر امامؑ اور خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک اکٹھے ہو گئے، مکہ میں خلیفہ وقت نے محسوس کیا کہ جس طرح سے لوگ امامؑ کو پروٹوکول دے رہے ہیں اس طرح سے خلیفہ وقت کو منہ نہیں لگا رہے، استبدادی حاکم کو امامؑ عزت افزائی اور اپنی ذلت ہضم نہ ہوسکی اور دل میں کینہ لیے عازم شام ہوا وہاں جا کر صدارتی حکم جاری کیا اور مدینہ کے گورنر کو لکھوا بھیجا کہ امام باقرؑ اور انکے بیٹے جعفر صادقؑ کو شام إحضار کیا جائے۔

امام باقرؑ کا دارالحکومت شام کی جانب سفر اور ناقابل یقین تیراندازی کا واقعہ

اس سفر میں امامؑ کے فرند ارجمند امام جعفر صادقؑ بھی شریک تھے اور اس سفر کے احوال بھی امام جعفر صادق   سے نقل ہوئے ہیں، روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب امام   دمشق پہنچے تو
فلما وردنا مدینة دمشق حجبنا ثلاثا ، ثم أذن لنا فی الیوم الرابع فدخلنا.
حاکم وقت نے تین دن ان کو ملاقات کا وقت نہ دیا تاکہ انکو تنگ کیا جاسکے چوتھے دن خلیفہ وقت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جب امام   دربار میں پہنچے تو خلیفہ وقت نے انکی تعظیم نا کی بلکہ ہر ممکن کوشش کی جس سے انکی تحقیر کی جاسکے، تفریح کے لیے خلیفہ وقت نے اپنے ماہر تیرانداز بلاۓ اور انکے درمیان مقابلہ کروایا، ھشام اپنے ماہر تیر اندازوں کی مہارت کا رعب امامؑ پر ڈالنے کی کوشش کررہا تھا، لوگوں کے درمیان امامؑ کی تحقیر کرنے کے لیے کہنے لگا:

ھشام: ارم مع قوم اشیاخک! 
آئیے آپ بھی اپنے قوم کے بزرگوں کی طرح تیراندازی کیجئے! 

امام:  إنی قد کبرت عن الرمی فهل رأیت أن تعرفینی۔ 
میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں مجھے اس کام سے معاف رکھئے۔ 

ہشام کا اصرار بڑھنے لگا اور امام انکار کرتے رہے، بالآخر امام   نے ایک سپاہی سے تیر کمان لیا اور نشانہ بنایا۔ روایت میں نقل ہوا ہے:
انتزع ورمى وسط الغرض فنصبه فیه ، ثم رمى فیه الثانیة فشق فواق سهمه إلى نصله ثم تابع الرمی حتى شق تسعة أسهم بعضها فی جوف بعض ، وهشام یضطرب فی مجلسه فلم یتمالک إلا أن قال : أجدت یا أبا جعفر وأنت أرمى العرب والعجم ، هلا زعمت أنک کبرت عن الرمی ، ثم أدرکته ندامة على ما قال. 
امامؑ نے تیر چھوڑا جو ھدف کے وسط میں لگا، گویا آفرین کی صدائیں دلوں میں گونج رہی تھیں لیکن زبانیں بے صدا تھیں، اس کے بعد دوسرا تیر لیا نشانہ بنایا، تیر کو چھوڑا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ھدف کو جا لگا، اسی طرح تیسرے تیر کو رہا کیا جو دوسرے تیر کو چیرتے ہوئے ھدف پر لگا، یکے بعد دیگرے ۹ تیر ھدف کی جانب چھوڑے جو ایک دوسرے کو چیرتے ہوئے عین ھدف کے وسط میں لگتے رہے، گویا تیر ھدف پر نہیں بلکہ ھشام کے سینے میں پیوست ہو رہے تھے، یہ سب دیکھ کر مجمع حیرت زدہ اور ھشام مضطرب ہونے لگا اور از روۓ ناچاری کہنے لگا کہ اے ابا جعفر! آپ نے بہت بہترین تیر پھینکے آپ سے ماہر ترین تیر انداز ہم نے پورے عرب و عجم میں نہیں دیکھا، آپ نے تو کہا تھا کہ بوڑھا ہو گیا ہوں۔

ہشام بن عبدالملک اور امامؑ کے درمیان گفتگو اور نصرانی عالم سے مناظرہ

تیراندازی کے بعد ہشام نے امامؑ کو ناچار ہو کر اپنے پاس بٹھایا اور کہنے لگا کہ ہم سب ایک ہی نسل سے ہیں اور سب عبدمناف کے بیٹے ہیں۔ آپ لوگوں کو ہم پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں، آپ لوگ ادعا کرتے ہیں مثلا ابوطالبؑ کا بیٹا علم غیب کا دعویٰ کرتا تھا جبکہ اللہ تعالٰی نے علم غیب کو فقط اپنے لیے مخصوص قرار دیا ہے یہ سن کر امامؑ نے چند آیات استدلال کے طور پر بیان کیں اور احادیث بیان کیں جس پر ھشام ہکا بکا رہ گیا، اس ملاقات کے بعد امام   کو تحت تعقیب رکھا گیا، حاکم وقت کے سپاہی اور جاسوس امامؑ کے ساتھ ہمیشہ رہتے۔ اسی دوران امام   کا ایک نصرانی عالم سے مناظرہ ہوا جس میں امامؑ نے نصرانی کو حیرت زدہ کردیا، کیونکہ اس نصرانی نے جو بھی سوالات کئے امامؑ نے انکا جواب دیا۔ آخر میں اس نے کہا:
وقاموا النصارى على أرجلهم فقال لهم عالمهم : جئتمونی بأعلم منی وأقعدتموه معکم حتى هتکنی وفضحنی.
نصرانی کھڑا ہوا اور کہا کہ تم لوگ جان بوجھ کر ایسے شخص کو لاۓ ہو جو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اعلم ہے تاکہ مجھے رسوا کرسکو۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ وہ نصرانی امامؑ کے ہاتھوں مسلمان ہوگیا۔

 امامؑ کی گرفتاری اور ھشام بن عبدالملک کا خوفزدہ ہونا

امامؑ کے ان عظیم تحرکات اور اقدامات کی وجہ سے پورے شام میں امام باقرؑ شامیوں کے مورد بحث قرار پائے ہر محفل میں امامؑ کے علم و دانش کا تذکرہ ہونے لگا، وارد ہوا ہے:
وَ اَزدَھم اَھل الشّام عَلَی الاِمَام وَ ھُم یَقُولُون ھَذَا ابنُ اَبِی تُراب۔
اہل شام ھجوم کی شکل میں امامؑ کی طرف جذب ہوۓ اور وہ کہتے تھے کہ یہ ابوتراب کا فرزند ہے۔ امامؑ نے شامیوں کے اس جم غفیر میں ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں بنو امیہ کے حکام پر تلویحا تنقید کی اور فضائل امام علیؑ بیان کرنا شروع کئے، جس پر ھشام کے سپاہیوں نے امام   کو گرفتار کرلیا۔ امامؑ چند روز ھشام کے حکم سے زندان میں اسیر رہتے ہیں لیکن بعد میں امام   کی شام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ڈر سے آزاد کردیا جاتا ہے اور فورا مدینہ کی جانب بھیج دیا جاتا ہے، ہشام خوفزدہ تھا  کہ جو کام امامؑ نے شام میں کیا اور لوگوں کو اپنی طرف جذب کیا یہی کام اپنے واپسی مدینہ کے سفر میں راستے میں آنے والے شہروں میں بھی کریں گے اور ہر شہر میں اگر انہوں نے اسی طرح سے خطبے دئیے اور لوگوں پر حقیقت برملا کی تو انکی حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے، اس خوف سے ھشام نے امامؑ کی روانگی سے قبل چند افراد کو معین کیا جو ہر اس شہر میں  سے گزرتے جہاں سے امام نے گزرنا تھا، وہاں جا کر پروپیگنڈہ کرتے افواہیں پھیلاتے اور کہتے کہ یہاں سے چند گمراہ اور اسلام کے منکر افراد کا گزر ہونا ہے، اور کہتے کہ خلیفہ وقت نے ان گمراہ افراد سے ملنے پر پابندی لگائی ہے جو بھی ان سے ملے گا یا انکو کوئی چیز فراہم کرے گا اس کو سزا دی جائے گی۔

امامؑ کا شہر مدین میں پڑاؤ

امامؑ کے مدینہ واپسی کے سفر میں مدین کے شہر سے گزر ہوا تو امامؑ نے حکم دیا کہ وہاں سے کھانے پینے اور دیگر ضروریات خرید کی جائیں، اہالی مدین نے امامؑ پر شہر کا دروازہ بند کردیا اور ھشام کا حکم مانتے ہوئے امامؑ کو کوئی بھی چیز نا خریدنے دی، الٹا کہنے لگے کہ یہ کون کافر لوگ ہمارے شہر میں گھسنا چاہتے ہیں اور امیرالمومنین علیؑ کو دشنام دینے لگے۔ امام باقرؑ نے ملاطفت سے انکو کہا کہ اتنے سختگیر مت بنیں جو خبر آپ کو پہنچائی گئی ہے ہم اس طرح سے نہیں ہیں، اور اگر بالفرض ایسی بات ہے بھی تو تب بھی ہم سے معاملہ کریں جس طرح سے کفار اور یھود و نصاری سے معاملات کرتے ہو آخر ہمیں خوردونوش کی اشیاء تو قیمت کے عوض دو۔ لیکن انہوں نے ایک نا مانی، امامؑ نے یہ دیکھ کر ناراحتی کا اظہار کیا اور ایک پہاڑی پر چڑھ کر قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کرنا شروع کردی جو قوم مدین اور حضرت شعیبؑ سے مربوط تھیں، خداوند متعال کے حکم سے شدید طوفانی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں فضا میں تاریکی پھیلنے لگی، اہل مدین اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھنے لگے ایسے میں ایک بوڑھے شخص نے فریاد بلند کی:
 اے لوگو! اے اہل مدین خدا سے ڈرو یہ شخص جو قرآن کی تلاوت کررہا ہے بالکل اسی جگہ پر کھڑا ہے جہاں پر حضرت شعیبؑ نے کھڑے ہو کر اپنی قوم پر نفرین کی تھی اگر تم لوگوں نے اپنے شہر کے دروازے اس پر نہ کھولے تو خدا کا عذاب تم لوگوں کو گھیر لے گا۔
لوگوں نے عذاب کے آثار اور اس بوڑھے شخص کی باتوں کا اثر لے کر دروازہ کھول دیا، بعد میں ھشام نے اس بوڑھے مرد کو قتل کروا دیا، اور مدینہ کے گورنر کو لکھوا بھیجا کہ جب باقرؑ مدینہ پہنچے تو اس کو کھانے یا پینے کی چیز میں زہر دے کر شہید کروا دیا جائے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ حر آملی، وسائل الشیعۃ، ج۳، ص۲۶۰۔

۲۔ شیخ کلینی، الکافی، ج۲، ص۱۸، باب دعائم الاسلام، ح۳، ط اسلامیہ۔
۳۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۶، باب۷، ص۳۰۶، الی۳۲۰۔

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/10
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی