بصیرت اخبار

اربعین کی شرعی حیثیت

Friday, 24 September 2021، 03:21 PM

امام حسینؑ کی شہادتِ عظمیٰ کی مناسبت سے مختلف ایام و مراسم کے اہتمام کی تاکید روایاتِ اہل بیتؑ میں وارد ہوئی ہے۔ انہیں مناسبتوں میں سے ایک مناسبت ’’چہلمِ امام حسینؑ ‘‘ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا چہلم کی کوئی شرعی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟

اس سوال کو ہم چار عناوین کے تحت زیر بحث لاتے ہیں اور ہر عنوان سے مختصر بحث کرتے ہیں:

  • چہلم کی شرعی حیثیت
  • امام حسینؑ  کا چہلم روایات کی روشنی میں
  • زیارتِ اربعین
  • اربعین (چہلم) کے دن کی تعیین

کسی میت کے سوگ منانے کے مختلف طور طریقوں معاشروں میں رائج ہوتے ہیں۔ دین اسلام نے میت پر سوگ کو ممنوع نہیں قرار دیا لیکن ایسے انداز اور طریقے اختیار کرنے کی ممانعت کی ہے جو غیر انسانی یا انسانی خلقت کے اہداف سے ٹکراتے ہوں۔ غم و سوگ میں جن مراسم کا انعقاد کیا جاتا ہے ان میں سے ایک میت کی وفات کے چالیسویں (۴۰) دن میت کی یاد منانا ہے۔ اس کی آیا شرعی حیثیت ہے یا نہیں اس بارے میں درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں:

معاشرے میں رائج طور طریقے

ہر معاشرے میں خوشی وغمی کے طور طریقے اس معاشرے کے رائج رسومات کے مطابق ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام خوشی و غمی کے ان علاقائی یا معاشرتی رسم و رواج کی نہ مکمل مخالفت کرتا ہے اور نہ مکمل حمایت۔ اسلام کی نظر میں کوئی بھی رسم و رواج اس وقت حرام کہلاتا ہے جب اس میں درج ذیل امور پائے جائیں:

  • رسم ورواج کی نسبت دین اور سنتِ رسول ﷺ وآئمہ اہل بیت ؑ  کی طرف دے دی جائے جبکہ دین میں یا سنت کے عنوان سے وہ امر روایات میں وارد نہیں ہوا، مثلا یہ کہا جائے کہ یہ رسم اسلام کی نظر میں واجب ہے یا مستحب ہے !! جیسے مہندی کی رسم جو شادی کے مواقع پر انجام دی جاتی ہے کو سنتِ رسول ﷺ کی طرف نسبت دے دی جائے۔ اس صورت میں یہ بدعت کہلائے گی اور بدعتی کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ البتہ اگر اس رسم کو علاقائی بنیادوں پر انجام دیا جائے اور اسلام نے مباح کے عنوان سے جو وسعت دی ہے کے تحت برپا کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  • دینِ اسلام کو اس سے نقصان پہنچتا ہو۔
  • انسانیت کے خلاف عمل ہو۔
  • مسلمانوں کی توہین ، اہانت اور فتنہ و فساد کا باعث ہو۔
  • طاغوت و استعمار کے عزائم و مقاصد کو پورا کرنے اور ان کی غلبہ کے حصول کا باعث ہو۔

اسی طرح خوشی اور غمی کے طور طریقے ہیں۔ اگر کوئی انہیں صرف معاشرتی بنیادوں پر انجام دے اور اسلام و اہل بیتؑ  کی طرف سے جاری حکم نہ قرار دے اور اسلام نے اس عمل سے روکا بھی نہ ہو تو ایسے عمل کو معاشرتی بنیادوں پر انجام دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر اسلام میں یہ عمل ممنوع ہوتا تو اس کی ممانعت آ جاتی اور ہر وہ چیز جس کی ممانعت نہیں وارد ہوئی اس کو انجام دینا جائز ہے۔ اسے شرعی اصطلاح میں ’’مباح‘‘ کہتے ہیں۔

بدعت کی تعریف

مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے فقہاء نے بدعت کی درج ذیل تعریف بیان کی ہے:

إنّ‌ کلّ‌ ما علم کونه من الدین بالأدلة الخاصّة أو بالعمومات واُخرج منه، وکل ما علم خروجه من الدین بذلک واُدخل فیه فهو بدعة.

ترجمہ: ہر وہ چیز جس کا خصوصی دلائل یا عموم کی وجہ سے یہ علم ہو کہ یہ دین میں داخل ہے اگر اس کو کوئی دین سے خارج قرار دے دے تو یہ بدعت ہے۔ اسی طرح ہر وہ شیء جس کا دین سے خارج ہونے کا علم دلائل کی وجہ سے ہے اس کو کوئی دین میں داخل قرار دے دے ت وہ بدعت ہے۔(۱)

       ملا نراقی نے عوائد الایام میں درج ذیل الفاظ میں بدعت کی تعریف کی ہے:

کلّ‌ فِعلٍ یُفعَلُ بِقَصدِ العِبَادَةِ وَالمَشرُوعِیة وإِطاعة الشارع مع عدم ثبوته من الشرع.

ہر وہ عمل جو عبادت کی نیت سے یا شریعت کی جانب سے ہونے کی وجہ سے یا شارع کی اطاعت کی وجہ سے انجام دیا جائے جبکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو بدعت کہلاتا ہے۔(۲)

 

پس ایک عمل اس وقت بدعت بنتا ہے جب اپنی طرف سے وہ عمل ایجاد کیا جائے اور پھر کہا جائے کہ دین نے اس کا حکم دیا ہے اور اس کو انجام پانے سے اللہ تعالی خوش ہو گا جبکہ اس عمل کا کسی قسم کا ثبوت دین میں موجود نہ ہو۔ البتہ اگر کوئی عمل ایک معاشرہ یا ایک انسان انجام دیتا ہے اور دین نے اس کے انجام دینے سے اسے روکا بھی نہیں ہے اور وہ اس عمل کی نسبت بھی دین کی طرف نہیں دیتا تو اس کو انجام دینا بدعت نہیں کہلائے گا۔

 چہلم کی شرعی حیثیت 

دینی نصوص میں صرف امام حسینؑ  کے لیے چہلم کی زیارت کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ آیات و روایات میں امام حسینؑ  کے علاوہ کسی اور نبی یا امام کے چہلم منانے کا تذکرہ بھی موجود نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کا چہلم منایا جائے تو یہ بدعت ہو جائے گا۔ ہاں! اگر امام حسینؑ  کے علاوہ کسی میت کا چہلم منایا یہ کہہ کر منایا جائے کہ دین نے اس شخص کے چہلم ماننے کا حکم دیا ہے تو یہ دین کے نام سے اپنی طرف سے اضافہ شمار ہو گا اور بدعت کی تعریف کے دائرے میں میں یہ عمل آ جائے گا ۔ جہاں تک امام حسین ؑ  کے چہلم منانے کا تعلق ہے تو آپؑ کے چہلم ماننے کے بارے میں آئمہ اہل بیت& سے روایات وارد ہوئی ہیں۔ نیز بعض کتب میں وارد ہوا ہے کہ صحابی رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصاریؓ معروف تابعی عطیہ عوفیؓ کے ساتھ روزِ  اربعین امام حسینؑ  کی زیارت کی غرض سے کربلاء تشریف لے گئے۔ 

امام حسینؑ  کے علاوہ دیگر کے چہلم کو برپا کرنے کے بارے میں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اکثر قائل ہیں کہ اس کی نسبت اگر دین کی طرف نہ دی جائے اور کسی حرام امر کا ارتکاب لازم نہ آتے تو کسی میت کے لیے اس رسم کو برپا کرنا جائز ہے۔ خصوصا اگر کسی کی شخصیت کا دن قائم کرنے سے دین اور اس کی تعلیمات زندہ ہوتی ہیں، جیسے امام خمینیؒ  کی برسی منانا تو یہ عمل مستحسن اور حکمت سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بعض محققین برسی، چہلم اور سوم وغیرہ کی رسومات کو منفی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیساکہ سید محمد محسن طہرانی اپنی کتاب ’’ الأربعین فی ثقافة الشیعة ‘‘ میں لکھتے ہیں:

نعلم أنه لیس لدینا فی الإسلام شیء یسمّی بـ الأسبوع أو الأربعین أن الذکری السنویة؛ لذلک یتّضح جلیّا أن هذه المناسبات مخالفة لسیرة الإسلام وسنّتِه … فالذکری السنویة حسب التراث الشیعی الأصیل مختصّة فقط بالمعصومین ؑ ؛ ولیس لدینا أیّ مدرک تاریخی ولا روائی یثبت أن الأئمة أمروا بتشکیل مجالس الذکری السنویة لأحد من صحابتهم ، فالذی ورد الحثّ والتأکید علیه من تشکیل مجلس الذکری ، مختصّ بإحیاء ذکری أهل البیت ؑ  فقط ، وأمّا مسألة الأربعین فإنها أشنع وأقبح من مسألة الأسبوع والذکری السنویّة قطعا، … فإن مسألة الأربعین (للإمام الحسین ؑ ) من شعائر التشیع وخصوصیاته، وهی مختصّة فقط وفقط بحضرة أبی عبد الله الحسین أرواحناه الفداء لا غیر.

ترجمہ: ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں میت کی یاد میں ’’ہفتہ ‘‘ یا ’’چالیسواں یا سالانہ دن منانے کا تذکرہ کسی جگہ وارد نہیں ہوا۔ پس یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ (ایرانی و غیر ایرانی معاشروں میں میت کی وفات کی مناسبت سے) منعقد کیے جانے والے دن سیرت اور سنتِ اسلام کے مخالف ہیں۔  … ہمارے پاس کوئی ایسا تاریخی ثبوت یا روایت نہیں ہے جو ثابت کرتی ہو کہ آئمہ ؑ  نے اپنے صحابہ }ْ میں سے کسی کے لیے بھی سالانہ مجالس برپا کرنے کا حکم جاری کیا ہوا۔ جن ہستیوں کی یاد منانے کی غرض سے مجالس برپا کرنے پر ابھارا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے وہ فقط آئمہ اہل بیت ؑ  ہیں… ۔ جہاں تک چہلم یا چالیسواں کا مسئلہ ہے تو (میت ) کے لیے اس کا اہتمام کرنا ہفتہ یا سالانہ یاد منانے سے بھی زیادہ قبیح اور بدتر ہے، … صرف امام حسینؑ  کا چہلم تشیع کے شعائر وخصوصیات میں سے ہے۔ لہذا چہلم صرف اور صرف ابو عبد اللہ الحسین ؑ (ہماری ارواح ان پر قربان ہوں) کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کے لیے چہلم نہیں منایا جا سکتا۔

خلاصہِ کلام ’’مکتبِ تشیع‘‘ میں برسی، چہلم اور میت کے رسمی طریقوں سے یاد منانا اور محافل برپا کرنے کے بارے میں فقہاء کرام جواز کا فتوی دیتے ہیں۔ جبکہ بعض محققین نے اس کے جواز کو فقط امام حسینؑ  کے ساتھ مختص قرار دیا ہے۔ اسی طرح میت پر گریہ و آہ وبکاء اور اس کی یاد کو تازہ رکھنا امام حسینؑ  کے علاوہ دیگران کے لیے تین دن تک سوگ میں مقید قرار دیا گیا ہے۔ اس پہلو سے روایات کا نچوڑ یہ ہے کہ صرف تین دن تک غم منایا جائے اور غیر معصوم کے غم میں ماتم و سینہ کوبی جائز نہیں ہے۔ وفات کے تین دن بعد غم منانا عملِ قبیح ہے ۔ یہاں تک کہ خاتون کے لیے حکم وارد ہوا ہے کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے۔ پس ماتم، مجالس وعزا صرف معصوم ؑ کے ساتھ خاص ہیں۔

 چہلمِ امام حسینؑ   کے بارے میں احادیث

روایات کے مطابق ہرامامِ معصوم ؑ  کی کچھ مشترک خصوصیات ہیں ، جیسے منصبِ ولایت و امامت ، علم و شجاعت … وغیرہ اور کچھ مختص خصوصیات ہیں جو صرف ایک امام کے ساتھ خاص ہیں، جیسے ’’امیر المومنین‘‘ کا لقب صرف امام علی ؑ  کے ساتھ بولا جا سکتا ہے، جبکہ باقی آئمہ طاہرینؑ  کو ان کلمات کے ساتھ پکارنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اسی طرح  امام مہدی ؑ  کے نام کو زبان سے ادا کرنی کی ممانعت وارد ہوئی ہے یا عالمی حکومت کے قیام امام مہدی  ؑ کے ساتھ مختص قرار دیا گیا ہے … وغیرہ ۔ انبیاء و آئمہ طاہرین ؑ میں سے صرف امام حسین ؑ  کے چہلم منانے کی اجازت وارد ہوئی ہے۔ اس مقام پر ہمیں ’’ مجالس و میلاد‘‘ کے انعقاد اور ’’چہلم یا چالیسواں‘‘ کے اہتمام میں فرق کرنا چاہیے۔  مجالس وعزا اور میلاد کے انعقاد کا حکم تمام اہل بیت ؑ  کےلیے وارد ہوا ہے۔

مجالس و عزا اہل بیتؑ  کے سے متعلق عمومی احادیث

کتب احادیث میں متعدد ایسی روایات آئمہ اطہارؑ  سے   نقل ہوئی ہیں جن میں عزاداری کو خصوصی طور پر برپا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان عمومی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک ایسے دن کا اہتمام کریں جس میں انسان اپنے آپ کو تمام مشغولیت سے فارغ کرے اور امام حسینؑ  کے ہدف اور ان کی قربانی و مصائب کو یاد کرے اور گریہ و بکاء کرےتو انسان کی جہاں سعادت و عظمت کا باعث ہے وہاں ہدفِ حسینی کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ ذیل میں چند احادیث بیان کی جاتی ہیں:

حدیث: ۱

الکافی‘‘ میں معتبر سند سے حدیثِ موثق میں یونس بن یعقوب امام صادق ؑ  سے نقل کرتے ہیں :

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ یَعْقُوبَ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ؑ  قَالَ: قَالَ لِی أَبِی یَا جَعْفَرُ أَوْقِفْ لِی مِنْ مَالِی کَذَا وَکَذَا لِنَوَادِبَ  تَنْدُبُنِی عَشْرَ سِنِینَ بِمِنًی أَیَّامَ مِنًی. 

ترجمہ: امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے سے فرمایا : اے جعفر ؑ  ! میری خاطر تم میرے مال میں سے اتنی  رقم ان نوحہ و ندبہ کرنے والے کے لیے وقف کر دو جو ’’ مِنَی کے دنوں ‘‘ میں دس سال تک ’’ مِنَی ‘‘ کے مقام پر مجھ پر نوحہ و ندبہ پڑھتے رہیں۔(۳)

حدیث: ۲

من لا یحضره الفقیہ  میں امام باقرؑ  وصیت کرتے ہیں:

أَنْ یُنْدَبَ فِی الْمَوَاسِمِ عَشْرَ سِنِین.  

ترجمہ: دس سال تک موسم حج میں ان پر ندبہ و گریہ و بکاء کیا جائے۔(۴)

حدیث: ۳

’’الکافی‘‘ میں عیسی بن حریز نقل کرتے ہیں :

‏أَوْصَی أَبُو جَعْفَرٍ ؑ  بِثَمَانِمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَأْتَمِهِ وَکَانَ یَرَی ذَلِکَ مِنَ السُّنَّةِ ؛ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ’ قَالَ اتَّخِذُوا لآِلِ جَعْفَرٍ طَعَاماً فَقَدْ شُغِلُوا.

ترجمہ:  امام باقر ؑ  نے وصیت فرمائی :  آٹھ سو  (800)  درہم امامؑ  کے غم میں ماتم پر خرچ کیے جائیں ،  امام باقرؑ  اس عمل کو سنتِ رسول ﷺ قرار دیتے تھے ،  کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  آل جعفر کے لیے خوراک وغذا کا اہتمام کرو ، پس وہ لوگ اس میں مشغول کر دیئے گئے۔(۵)

مختلف معتبر اسانید سے وارد ہونے والی یہ روایات بیان کرتی ہیں کہ غم و اندوہ اور مجالس و نوحہ و بکاء کا اہتمام چہاردہ معصومین ؑ کے لیے کرنا چاہیے۔ لیکن ان روایات میں ’’چہلم‘‘ کے انعقاد کا کہیں حکم وارد نہیں ہوا۔ اس لیے علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ چہلم کا اہتمام صر ف امام حسین ؑ  کے ساتھ مختص ہے۔

  امام حسین ؑ  کے چہلم و چالیسواں پر احادیث 

مکتبِ تشیع میں امام حسین ؑ   کے غم میں چالیسواں یا چہلم کے اہتمام کے بارے روایت وارد  ہوئی ہے جو کہ امام حسن عسکری ؑ سے منقول ہے۔ شیخ طوسی & نے اپنی کتاب ’’ تہذیب الاحکام ‘‘ میں امام حسن عسکریؑ سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ امام حسن عسکری ؑ فرماتے ہیں :

عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْخَمْسِینَ وَزِیَارَةُ الْأَرْبَعِینَ وَالتَّخَتُّمُ فِی الْیَمِینِ وَتَعْفِیرُ الْجَبِینِ وَالْجَهْرُ بـ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ.

ترجمہ: مومن کی علامات پانچ ہیں: پچاس نمازیں، اربعین(چہلم یا چالیسواں) کی زیارت ، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، پیشانی کو مٹی سے ملنا،دورانِ نماز اونچی آواز میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا۔(۶)

اکابر علماء و محدثین نے اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے امام حسینؑ  کی شہادت کے چالیسویں یعنی چہلم کا اہتمام کرنے کو ’’ مستحب ‘‘ قرار دیا ہے۔ زمانہ قدیم سے مراجع عظام اور علماءِ اعلام بڑے پیمانے پر ’’اربعین‘‘  کا اہتمام کرتے آ رہے ہیں اورآج بھی نجف اشرف سے کربلا تک پا پیادہ سفر کرتے ہیں جس کا مشاہدہ  ہر سال ’’20 صفر ‘‘ کوکیا جاتا ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے عاشقانِ امام حسین ؑ  ’’ امام حسن عسکری ؑ ‘‘ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کربلا جمع ہوتے ہیں اور اپنے مومن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔

2.زیارتِ اربعین 

’’تہذیب الاحکام‘‘ میں امام جعفر صادقؑ  سے ’’چہلمِ امام حسینؑ  ‘‘ کے دن کی زیارت نقل کی گئی ہے جسے بعض علماء نے صحیح السند بھی قرار دیا ہے۔ صفوان بن مہرانِ جمال بیان کرتے ہیں کہ میرے مولا و آقا امام صادق ؑ نے اربعین کی زیارت کےحوالے سے مجھ کومخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

 تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ ، وَتَقُولُ : السَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ اللَّهِ، وَحَبِیبِهِ السَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ اللَّه ‏ … .

ترجمہ: جب دن چڑھ جائے تو تم زیارت کرو اور کہو: اللہ کے ولی اور اس کے حبیب پر سلام ہو ، خلیلِ الہٰی اور نجیبِ خدا پر سلام ہو ، صفی خدا اور فرزندِ صفی الہٰی پر سلام ہو ..۔(۷)

 جابر بن عبد اللہ انصاری اور تابعی عطیہ عوفی کا واقعہ

بعض دعاؤں اور تاریخی کتب کے مطابق سانحہ کربلا کے بعد امام حسین ؑ کے پہلے زائر ’’صحابی رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصاری‘‘  اور معروف تابعی جناب عطیہ عوفی تھے جنہوں نے شہادتِ ’’امام حسین ؑ  ‘‘ کی زیارت کی غرض سے حجاز سے کربلا تک کا سفر کیا اور’’20 صفر‘‘  روزِ اربعین یعنی چہلم کو کربلا پہنچے اور امام حسینؑ  کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ جنابِ جابر بن عبد اللہ انصاری بڑھاپے اور کبیر السن ہونے کے باوجود سفر کی زحمتوں و صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے چہلم کے لیے کربلا میں وارد ہوئے اور امام حسینؑ  کی زیارت کی اور گریہ  آہ و بکاء کیا۔چھٹی صدی کے معروف محدث عماد الدین طبری متوفی ۵۵۳ ھ اپنی کتاب بشارۃ المصطفی ﷺمیں ان الفاظ کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْمُقْرِی ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَیَادِی ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُدْرِکٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زِیَادٍ الْمَلَکِیُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِیَّةَ الْعَوْفِیِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ‏ مَعَ‏ جَابِرِ بْنِ‏ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِیِّ زَائِرَیْنِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع فَلَمَّا وَرَدْنَا کَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزَارٍ وَارْتَدَی بِآخَرَ ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فِیهَا سُعْدٌ فَنَثَرَهَا عَلَی بَدَنِهِ ثُمَّ لَمْ یَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا ذَکَرَ اللَّهَ تَعَالَی حَتَّی إِذَا دَنَا مِنَ الْقَبْرِ قَالَ أَلْمِسْنِیهِ فَأَلْمَسْتُهُ فَخَرَّ عَلَی الْقَبْرِ مَغْشِیّاً عَلَیْهِ فَرَشَشْتُ عَلَیْهِ شَیْئاً مِنَ الْمَاءِ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ یَا حُسَیْنُ ثَلَاثاً ثُمَّ قَالَ حَبِیبٌ لَا یُجِیبُ حَبِیبَه‏،ُ ثُمَّ قَالَ: وَأَنَّی لَکَ بِالْجَوَابِ وَقَدْ شُحِطَتْ أَوْدَاجُکَ عَلَی أَثْبَاجِکَ، وَفُرِّقَ بَیْنَ بَدَنِکَ وَرَأْسِکَ.

ترجمہ: عطیہ عوفی  کہتے ہیں کہ میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی بن ابی طالبؑ  کی زیارت کےلیے نکلا، ہم جب کربلا میں وارد ہوئے تو جابرفرات کے کنارے گئے اور وہاں غسل کیا، پھر انہوں نے تہبند باندھا اور دوسرا لباس پہنا ، پھر ایک ڈبیا نکالی جس میں ایک جڑی بوٹی سے آمادہ خوشبو تھی جسے سُعد کہا جاتا ہے، اس کو آپ نے اپنے بدن پر بکھیر دیا ، پھر امام حسینؑ  کی قبر کی طرف چل دیئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے، جب وہ قبرِ امام حسینؑ  کے قریب پہنچے تو مجھ کہا : (اے عطیہ) مجھے پکڑو، میں نے انہیں تھاما ، پھر وہ قبر پر منہ کے بل گر گے اور ان پر غشی و بے ہوشی طاری ہو گی ، میں نے تھوڑا سا پانی ان پر چھڑکا، جب انہیں افاقہ ہوا تو انہوں نے تین مرتبہ یا حسین ؑ  کہا، پھر کہا: حبیب اپنے حبیب کو کیوں جواب نہیں دے رہے؟!  پھر کہا: آخر کیسے جواب دے سکتا ہے جبکہ حبیب کی پشتِ گردن سے اس کی رگوں کو کاٹ کر خون خون کر دیا گیا ہے اور اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں اور سر کو جدا کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد جناب جابر بن عبد اللہ  نے امام حسین ؑ کی زیارت کے جملات اس طرح ادا کیے: 

فَأَشْهَدُ أَنَّکَ ابْنُ خَاتِمِ النَّبِیِّینَ وَ ابْنُ سَیِّدِ الْمُؤْمِنِینَ وَ ابْنُ حَلِیفِ التَّقْوَی وَ سَلِیلُ الْهُدَی وَ خَامِسُ أَصْحَابِ الْکِسَاءِ وَ ابْنُ سَیِّدِ النُّقَبَاءِ وَ ابْنُ فَاطِمَةَ سَیِّدَةِ النِّسَاء

ترجمہ:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبین ﷺ کے فرزند ہیں اور سید المؤمنین کے بیٹے ہیں، آپ اہل تقوی اور ہدایت نشر کرنے والے کے فرزند ہیں، آپ اصحابِ کساءکے پانچویں فرد ہیں اور سید النقباء (امام علیؑ ) کے فرزند ہیں اور فاطمہ ÷جو سید النساء ہیں کے فرزند ہیں… ۔(۸)

روزِ چہلم کے انعقاد کی وجہ

روایات میں چہلم کے دن کا اہتمام کرنے کی وجہ و سبب بیان نہیں کیا گیا ۔ لیکن تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتویں صدی ہجری کے بزرگ محدث سید بن ابی طاووس ، کفعمی اور علامہ مجلسی }اور دیگر علماءِ اعلام نے تین احتمالات بیان کیے ہیں جن کی بناء پر چہلمِ امام ؑ  کا اہتمام کیا جاتا ہے:

  1. روزِ چہلم 20 صفر کو امام سجاد ؑ قافلے سمیت دوبارہ کربلا وارد ہوئے اور تمام شہداء کے سر مبارک کو ان کے اجسادِ کریمہ کے ساتھ ملحق فرمایا۔
  2. 20 صفر کو قافلہ حسینی ’’ امام سجاد اور بنت علی ؑ ‘‘ کے ہمراہ شہرِ رسول ﷺ ’’مدینہ منورہ ‘‘ میں وارد ہوا ۔
  3. بزرگ صحابی رسول ’’ جناب جابر بن عبد اللہ الانصاری‘‘ 20 صفر کربلا پہنچے اور چہلم کی بنیاد رکھی۔(۹)

علامہ مجلسیؒ ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ پہلے دو احتمال ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ قافلہ حسینی شام سے لوٹ کر کربلاء نہیں آیا۔ نہ ہی ایسا ہوا ہے کہ اس قدر مختصر دنوں میں قافلہ حسینی ’’شام سے مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا ہو کیونکہ ابن زیاد لعین اور یزیدی لشکر نے اتنے مختصر دنوں میں ’’قافلہ حسینی‘‘ کو رہا نہیں کیا بلکہ وہ ایک مہینہ تک قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شام سے رہا ہوئے ۔ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ اتنے قلیل مدت میں قافلہ حسینی مدینہ منورہ پہنچ گیا ہو۔ پس تیسرا قول زیادہ ترجیح رکھتا ہے کہ صحابی رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصاریامام حسین ؑ  کی زیارت غرض سے کربلا تشریف لے گئے اور چہلم کے دن وہاں پہنچے۔(۱۰)

نتیجہ 

        امام حسین ؑ کے چہلم  کا اہتمام کرنا روایاتِ اہل بیت   ؑ  اور صحابی رسول جابر بن عبد اللہ انصاری ؓکے طریق کی پیروی کی بناء پر ہے۔ اگر مکتبِ تشیع میں اہل بیت  ؑ  کے طریق سے روایت وارد نہ ہوتی اور صحابہ کرام کی سیرت ثابت نہ ہوتی تو کسی صورت اس قدر جم غفیر دکھائی نہ دیتا ۔ کیونکہ ’’شیعہ‘‘ کا ہم و غم اور حقیقی لگاؤ صرف اور صرف قرآنِ کریم کی اس آیت مبارکہ کے ساتھ ہے: {یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللَّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ ؛اے ایمان لانے والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اورتم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو}، (۱۱)

 لہٰذا چہلم ’’شیعوں‘‘ کی من گھڑت رسم نہیں ہے بلکہ اطاعتِ امام ؑاور سیرتِ صحابہ کرام ہے۔

 

 


منابع:

شاہرودی، سید محمود ہاشمی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی المقارن، ج 4، ص 35، ناشر: مؤسسۃ دائرة المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت ع، قم، 1432ھ۔

نراقی، احمد، عوائد الأیام، ص۱۱۱۔

کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۹، ص ۶۵۳۔

شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۱۸۲۔

کلینی ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۴۴۔

طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۵۲۔

طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۱۱۳۔

طبری آملی، محمد بن ابی القاسم، ص ۱۲۵۔

علامہ مجلسی، محمد باقر، ملاذ الاخیار فی فہم تہذیب الاخبار، ج ۹، ص ۳۰۲۔

10۔

علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۸، ص ۳۳۵۔

11۔

سورہ نساء: آیت ۵۹۔

source: albirr.net

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/24
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی