بصیرت اخبار

محمد بن یعقوب کلینیؒ کی شخصیت

Sunday, 12 September 2021، 07:25 PM

ابتدائی تعارف

محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی [1] کو ان کی کنیت، ابوجعفر سے پہچانا جاتا ہے [2]۔ ان کی صحیح تاریخ پیدائش مشخص نہیں ہے [3]۔ اس کے باوجود یہ امر قطعی ہے کہ وہ تیسری صدی ہجری کے دوسرے حصہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ کلینی، شہر رے کے اطراف میں موجود "کلین" نامی گاوں میں پیدا ہوئے ہیں، اسی لئے وہ کلینی کے نام سے مشہور  ہیں[4]۔ اس بناء پر کلینی بنیادی طور پر ایرانی ہیں۔
ان کے والد شہر رے کے علماء میں سے تھے، وہ کلین نامی گاوں میں زندگی بسر کرتے تھے اور وفات کے بعد وہیں پر سپرد خاک کئے گئے ہیں[5]۔
افسوس ہے کہ عالم تشیع کے اس عظیم دانشور، یعنی کلینی کی قابل فخر زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ان کی زندگی کے بارے میں مبہم نکات پائے جاتے ہیں۔
لیکن جس چیز نے گزشتہ صدیوں کے دوران امت اسلامیہ میں کلینی کو متعارف کرایا ہے، وہ ان کی مشہور کتاب "کافی" ہے اور یہ کتاب ان کی نامور شخصیت کو متعارف کرانے کے لئے کافی ہے۔
ان کی زندگی کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے غیبت صغریٰ کا زمانہ ادراک کیا ہے اور امام زمانہ[عج] کے خاص نائبوں کے ہم عصر تھے، حتیٰ کہ بعض یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب "کافی" کو امام زمانہ[عج] کی خدمت میں پیش کیا ہے۔[6]
کلینی، اپنے شہر کے عظیم علماء میں شمار ہوتے تھے[7]۔ انھیں حدیث نقل کرنے کے سلسلہ میں مختلف مشائخ کی طرف سے اجازت حاصل تھی اور ان کے مختلف مشائخ کے پیش نظر یہ ممکن ہے کہ انھوں نے مختلف شہروں کا سفر کیا ہو۔ سر انجام انھوں نے علم حاصل کرنے کے لئے بغداد ہجرت کی،جو اس وقت عالم اسلام کا مرکز شمار ہوتا تھا۔[8]

کلینی عظیم علماء کی نظر میں

کلینی ایک ایسی شخصیت تھے، جن کی مدح و ثنا میں بہت سے علماء نے زبان کھولی ہے اور ان کی یہ تعریف و تمجید ہمیں کلینی کو سمجھنے میں قطعا مدد کرسکتی ہیں۔ یہاں پر ہم ایسے افراد کی ایک مختصر تعداد کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے کلینی کی تعریف و تمجید کی ہے:
شیعوں کے ایک عظیم رجالی شخصیت کے عنوان سے نجاشی، کلینی کے بارے میں کہتے ہیں:
"کلینی حدیث نقل کرنے کے سلسلہ میں قابل اعتبار ترین اور دقیق ترین شخص تھے[9] ۔" اسی قسم کا کلام علم رجال کے افراد سے بھی نقل کیا گیا ہے[10]۔ شیخ طوسی بھی کلینی کو ثقہ اور حدیث شناس کےعنوان سے متعارف کراتے ہیں[11] ۔ سید بن طاوس،کلینی کو ایک ایسے فرد کے عنوان سے یاد کرتے ہیں جن کے ثقہ اور امانتدار ہونے کے بارے میں لوگ اتفاق نظر رکھتے ہیں[12] ۔
اہل سنت کے درمیان بھی کلینی کی عظمت و بزرگی اس قدر تھی کہ ابن اثیر، انھیں اپنی صدی کے شیعوں کی مشہور ترین اور سب سے با اثر شخصیت کے عنوان سے متعارف کراتے ہیں[13] ۔

کلینی کے مشائخ اور ان کی تالیفات

کلینی شیعوں کے عظیم محدث ہیں اور ان کے مشائخ بھی قابل توجہ اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان کے تمام مشائخ کا یہاں پر نام لینا ممکن نہیں ہے۔ لیکن کلی طور پر کہا جاسکتاہے کہ وہ اپنی اکثر روایتوں کوعلی بن ابراہیم بن ہاشم قمی اور محمد بن یحیی عطاراشعری سے نقل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے نامور مشائخ کے عنوان سے ابوالعباس محمد جعفررزّاز،ابو علی احمد بن ادریس اشعری، حمید بن زیاد،ابو سلیمان داود بن کورہ قمی،احمد بن محمد عاصمی اور حسین بن محمد اشعری[14] کا نام قابل ذکر ہے۔
ان کی تالیفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چھ کتابیں تالیف کی ہیں:
۱۔ الکافی

۲۔ تفسیر الرویا

۳۔ الرد علی القرامطہ

۴۔ رسائل الائمہ

۵۔ کتاب الر جال

۶۔ ماقبل فی الائمہ من الشعر
ان کی اکثر کتابیں مفقود ہو چکی ہیں۔ آج صرف دوسری کتابوں میں درج کئے گئے ان کتابوں کے نام معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کلینی کی مشہور ترین کتاب "کافی" اس وقت موجود ہے[15]۔ کلینی نے اس کتاب کی تالیف میں تقریبا بیس سال صرف کئے ہیں[16]۔ اور یہ اس کتاب کی اہمیت اور قدر و منزلت کی واضح دلیل ہے۔
اب ہم یہاں پر اس کتاب کے بارے میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ کتاب "کافی" شیعوں کی حدیث کی اہم چار کتابوں میں سے شمار ہوتی ہے، جن پر شیعہ علماء اعتماد اور بھروسہ کر تے ہیں، شائد "کافی" کتب اربعہ کی باقی کتابوں سے زیادہ قدر و قیمت رکھتی ہو،کیونکہ یہ کتاب کتب اربعہ کی دوسری کتابوں سے پہلے تالیف کی گئی ہے اور غیبت صغری کے زمانہ میں تالیف کی گئی ہے اور اس کتاب کی احادیث کی سند زیادہ طولانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کتاب پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
۲۔ کتاب "کافی" میں کلینی کے لکھے گئے مقدمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب تالیف کرنا چاہتے تھے، جس میں علم دین کے تمام ابواب موجود ہوں تاکہ دینی علوم کے طالب علموں کے لئے ایک مرجع کی حیثیت رکھتی اور محققین اس سے استفادہ کرسکتے[17]۔
۳۔ اس کتاب کی اس زمانہ میں مختلف ابواب اور اصول و فروع کی ترتیب سے تالیف کرنا قابل توجہ بات ہے اور اسی چیز نے اس کتاب کو اس کے بعد تالیف کی جانے والی دوسری کتابوں پر بر تری بخشی ہے،البتہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف نے کس قدر زحمتیں اٹھائی ہیں،اور اس امر نے اس کتاب کی طرف رجوع کرنے والوں کے کام کو آسان بنا دیا ہے۔
۴۔ اس کتاب میں روایتوں کی سند بیان کی گئی ہے اور اس میں"عدۃمن اصحابنا"اور یا "جماعۃ من اصحابنا" کی عبارتوں سے مراد بعض مشخص افراد کی طرف اشارہ ہے،جو مولف کے مشائخ ہیں۔
اس سلسلہ میں فیض کاشانی کہتے ہیں: "کلینی نے خود پر لازم قرار دیا تھا کہ خاص موارد کے علاوہ تمام روایتو ں میں اپنے اور معصومین[ع] کے درمیان سند کے سلسلہ کو بیان کریں گے۔[18] لیکن یہ امر اس کتاب کی تمام احادیث کی تائید کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں ضعیف اور غیر قابل استناد احادیث بھی موجود ہیں اور یہ امر اس کتاب اور اس کے مولف کی قدر و قیمت کے منافی نہیں ہے۔ لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ علامہ مجلسی ان کی شایان شان تعریف و تمجید کرنے کے باوجود اپنی کتاب "مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل رسول" میں کافی کی بعض احادیث کو ضعیف،مرسل وغیرہ جانتے ہیں۔

کلینی کی وفات

کلینی سنہ۳۲۸ [19] ہجری میں اور ایک دوسرے قول کے مطابق سنہ۳۲۹ ہجری میں بغداد میں رحلت کر گئے ہیں اور اسی شہر میں باب الکوفہ کے مقام پر سپرد خاک کئے گئے ہیں۔[20]

 

 


حوالہ جات:

[1] امین‏، سید محسن، اعیان الشیعۃ، ج۱۰، ص۹۹، بیروت، دار التعارف للمطبوعات‏، ۱۴۰۶ق۔
[2] شیخ طوسی، الفہرست، محقق، مصحح، آل بحر العلوم، سید محمد صادق، ص ۳۹۵، نجف، المکتبة المرتضویہ۔
[3] حسینى جلالى‏، سید محمد حسین، فہرس التراث‏، ج۱، ص۳۷۲، قم‏، دلیل ما، ۱۴۲۲ق۔
[4] اعیان ‏الشیعۃ، ج۱۰، ص۹۹۔
[5] ایضا۔
[6] مزید معلومات کےلئے ملاحظہ ہو: ۲۷۸۵؛ عرضہ کتاب کافی بر امام زمان(عج)
[7] سبحانى، جعفر، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج۴، ص۴۷۸، قم، مؤسسہ امام صادق، ۱۴۱۸ق۔
[8] اعیان‏ الشیعۃ، ج۱۰، ص۹۹۔
[9]طبع ششم، ۱۳۶۵ش۔ نجاشی، احمد بن علی، فہرست أسماء مصنفی الشیعۃ(رجال نجاشی)، ص۳۷۷، قم، دفتر انتشارات اسلامی۔
[10] ر۔ک: علامہ حلى‏، خلاصۃ الاقوال، ص۱۴۵، قم‏، دار الذخائر، ۱۴۱۱ق؛ ابن داود حلى، کتاب الرجال، ص۳۴۱، انتشارات دانشگاہ تہران‏، ۱۳۸۳ق۔
[11] الفہرست، ص۳۹۵۔
[12] ابن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجۃ لثمرۃ المہجۃ، محقق، مصحح، حسون، محمد، ص۲۱۹، قم، بوستان کتاب، طبع دوم، ۱۳۷۵ش۔
[13] بن اثیر جزری، مبارک بن محمد، جامع الأصول فی احادیث الرسول، ج۱۲، ص ۸۹۵، مکتبة الحلوانی، مطبعة الملاح، مکتبة دار البیان، دارالفکر، طبع اول، بی‌تا۔
[14]  موسوعۃ طبقات ‏الفقہاء، ج۴، ص۴۷۹۔
[15] [15]۔ مزید معلومات کےلئے ملاحظہ ہو:۱۵۲۸؛ احادیث کتاب شریف کافی
[16] رجال ‏ابن ‏داود، ص ۳۴۱۔
[17] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج۱، ص۸، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، طبع چہارم،۱۴۰۷ق۔
[18] فیض کاشانی، محمد محسن، الوافی، ج۱، ص۳۱، اصفہان، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی(ع)، طبع اول، ۱۴۰۶ق۔
[19] فہرست‏، ص۳۹۵۔
[20] رجال ‏النجاشی، ص۳۷۷۔

source: islamquest.net

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/12
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی