بصیرت اخبار

نظام ڈیموکریسی کے عیوب و نقائص

Sunday, 19 September 2021، 07:19 PM

مقدمہ

ڈیموکریسی (Democracy) یونانی لفظ ہے جو دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ’’ڈیموس‘‘ جس کے معنی انسانوں یا شہریوں کے ہیں۔ اور ’’کراتوس‘‘ جس کے معنی حکومت کرنا ہے۔ پس ڈیموکریسی کا لغوی معنی ’’شہریوں کی حکومت‘‘۔

اصطلاح میں ڈیموکریسی سے مراد یہ ہے کہ انسانوں کی انسانوں کے توسط سے انسانوں پر حکومت۔ با الفاظ دیگر ڈیموکریسی میں حاکمیت اور قانون گزاری میں اصالت انسانوں کی اکثریت یعنی عوام کو حاصل ہے۔ اور یہیں سے ڈیموکریسی کا ضد دین و ضد انسانیت ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکن کس طرح سے وہ ہم اس مختصر مقالے میں ادلہ کے ساتھ بیان کریں گے۔

ہم نے کہا کہ ڈیموکریسی میں حق حاکمیت اور حق قانون گذاری عوام کی اکثریت کو حاصل ہوتی ہے یہ وہ تعریف ہے جو ڈیموکریسی کے بانی اور اس کے شدید حامی بیان کرتے ہیں اور اس بات پر شدید تاکید کرتے ہیں کہ حق حاکمیت اور قانون گذاری دونوں ہی عوام کے پاس ہیں اس کے علاوہ اور کوئی طاقت حاکمیت یا قانون گذاری کا حق نہیں رکھتی۔ 

جبکہ دین اور عقل یہ کہتا ہے کہ انسان پر حقیقی حق حاکمیت اور حق قانون گذاری فقط اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اس لیے ہمارے بعض متفکرین نے ڈیموکریسی کو شرک قرار دیا ہے۔ اور بیان کیا ہے کہ جو مسلمان لبرل ڈیموکریسی کے قائل ہیں وہ در حقیقت مشرک مسلمان ہیں۔ قرآن کریم میں چند مرتبہ اللہ تعالی نے اپنی حق حاکمیت مطلقہ کا اعلان کیا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالی بھی حاکم ہے اور اس کے قوانین بھی ایک معاشرے میں لاگو ہیں اور ہم بھی حاکم ہیں اور اللہ کے مقابلے میں قانون گذاری کر سکتے ہیں اور کوئی ضد دین قانون بنا لیں تو ایسے لوگ مشرک ہیں۔

ڈیموکریسی ایک ایسا طرز حکومت ہے جس کے حسن و نقائص پر بہت زیادہ ابحاث موجود ہیں، زمانہ قدیم سے ہی یونان میں یہ لفظ استعمال کیا جانے لگا اور سقراط، افلاطون جیسے حکماء نے اس طرز حکومت پر شدید تنقید کی۔ متاخرین میں بھی حتی غربی غیر مسلم مفکرین مثلا کانٹ نے بھی اس پر نقد کیا۔ 

صاحب تفسیر میزان علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ ڈیموکریسی در اصل وہی استبدادی ڈکٹیٹرشپ ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔

ڈیموکریسی کے چند عیوب و نقائص:

۱۔ اکثریت کا اقلیت کا استثمار کرنا:

ڈیموکریسی کے نظام میں پہلا نقص یہ پایا جاتا ہے کہ ۵۱ فیصد افراد کو ۴۹ فیصد افراد پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اقلیت کو جو کہ حقیقت میں اقلیت ہوتی ہی نہیں جیسا کہ ہمارے ملک پاکستان میں اگر دیکھا جاۓ اکثر افراد ووٹ ہی نہیں دیتے۔ اور جو افراد ووٹ دیتے ہیں اگر تین پارٹیوں میں مقابلہ ہوا ہے تو اگر تین میں سے دو پارٹیوں نے ملا کر ۶۶ فیصد ووٹ لیے ہیں اور ایک پارٹی نے ۳۴ فیصد تو اس ۳۴ فیصد ووٹ لینے والی پارٹی کو باقی سب عوام پر مسلط کر دیا جاۓ گا۔ اور یہ پارٹی اپنے منافع کی حفاظت کے لیے ہر اس کام کو انجام دیتی ہے جس سے بالمقابل پارٹی کو نقصان اور اس کو فائدہ پہنچ سکے۔ اس کے بیچ اگر عوام پس بھی رہی ہے تو ان کو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ 

۲۔ اقلیت، اکثریت کی شکل میں:

دنیا میں جہاں کہیں بھی ڈیموکریسی کا نظام نافذ ہے وہاں اکثریت کی حکومت نہیں بلکہ اقلیت کی حکومت ہے۔ ڈیموکریسی کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اس میں کہا جاتا ہے کہ اکثریت کی حکومت ہوگی۔ ہم دور نہیں جاتے اپنے وطن عزیز پاکستان کی مثال لے لیتے ہیں، چند دہائیوں سے چند خاندان اور چند مال و دولت رکھنے والے افراد پورے پاکستان پر مسلط ہیں۔ یہ باقدرت اور با نفوذ افراد مستقیم یا غیر مستقیم طور پر پروپیگنڈے کے ذریعے عوام فریبی سے اوپر آتے ہیں اور اپنے بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ آج تک کوئی عوامی بندہ اس سسٹم کے ذریعے اوپر نہیں آسکا۔ اگر آ بھی جاۓ تو وہ پہلے سے موجود با نفوذ حریفوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہذا ہمیشہ یہی افراد اپنے چہرے بدل کر اور پارٹیاں یا جھنڈے بدل کر نئے شعار لگا کر سامنے آتے ہیں اور مسلط ہو جاتے ہیں۔

۳۔ ڈیموکریسی میں مساوات:

علامہ اقبالؒ بیان فرماتے ہیں:

گریز از طرز جمہوری غلامی پختہ کاری شو

کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید

علامہؒ فرماتے ہیں کہ جمہوری نظام حکومت سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ دو سو گدھے بھی اگر اکٹھے ہو جائیں تو ایک انسان کی فکر کے حامل نہیں ہو سکتے۔

ڈیموکریسی میں ایک بدترین نقص یہ پایا جاتا ہے کہ یہ نظام مساوات کا قائل ہے۔ مساوات سے مراد یہ کہ اس سسٹم میں یونیورسٹی کے چانسلر کی راۓ اور ایک ان پڑھ ریڑھی لگانے والی کی راۓ برابر ہے۔ دونوں کے ووٹ کی ایک جیسی قیمت ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ الیکشن کمیشن کسی پڑھے لکھے انسان کے ووٹ کو دو ووٹ گنے گا اور کسی ان پڑھ جاہل کے ووٹ کو ایک ہی گنے۔ جمہوریت میں ایک عادل اور ایک قاتل کا ووٹ برابر ہے، جمہوریت میں ایک تجربہ کار و معاشرے کے لیے کارآمد انسان کا ووٹ اور ایک عام انسان کا ووٹ برابر ہے جبکہ عقل یہ کہتی ہے کہ دونوں برابر نہیں۔ قرآن کریم میں بھی خداوند متعال نے عالم اور جاہل کو یکساں قرار نہیں دیا۔ لیکن اس نظام میں سب برابر ہیں۔

۴۔ اصلی معیارات کو ترک کرنا:

اس نظام میں چونکہ حاکم فقط ایک معین مدت کے لیے حاکم قرار پاتا ہے اس لیے ناچار ہو کر بغیر کسی معیار اور ملاک کے اکثریت (جو کہ حقیقت میں اقلیت ہوتی ہے) کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔ وہ اگلی نسلوں اور ملک کی مستقبل کا نہیں سوچتا بلکہ صرف اگلے الیکشن کا سوچتا ہے۔ وہ اجتماعی اور دور رس سوچ کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اس کو فوری نتائج چاہیے ہوتے ہیں تاکہ اگلے الیکشن کے لیے عوام فریبی کے طور پر کچھ نا کچھ پیش کر سکے۔

۵۔ ووٹر کا آزاد و بی بند و بار ہونا:

نظام ڈیموکریسی میں ووٹر کسی اخلاقی یا وجدانی عہد کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اسے مکمل آزادی دی جاتی ہے جسے انتخاب کرے اور جسے انتخاب نہ کرے۔ اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اگر انسان کو مکمل آزاد کر دیا جاۓ اور بغیر کسی تعہد و اخلاقیات کے وہ کسی بھی اچھے یا برے انسان کو انتخاب کرنے میں مختار ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ معاشروں پر حاکم ہو جاتے ہیں جن کو کسی ایک فرد کا اختیار دینا بھی عقلانیت کے خلاف ہے کجا یہ کہ اسے مکمل طور پر معاشرے کی رہبریت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے انتخاب کر لیا جاۓ۔

۶۔ اکثریت کا غلط راہ پر ہونا:

ہمیشہ اکثریت درست نہیں ہوتی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاشرے کے کسی خاص مسئلے پر وہاں کا پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ کچھ اور سوچتا ہے لیکن عوام کی اکثریت اس کے بر عکس سوچ رہی ہوتی ہے۔ یہاں پر درست روش یہ نہیں کہ چونکہ اکثریت یہ کہہ رہی ہے لذا یہ کام چاہے غلط بھی ہے بس ہونا چاہیے۔ جبکہ اس مسئلے پر اس موضوع کے متخصصین کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ یہی بات قرآن کریم میں بھی چند مرتبہ بیان ہوئی ہے جس میں اللہ تعالی نے واضح طور پر اکثریت کے بارے میں فرمایا کہ ’’اکثرھم لا یعلمون‘‘ یا ’’اکثرهم لا یعقلون’’ وغیرہ۔

۷۔ نظام جمہوریت  میں آزاد انتخابات:

جن ممالک میں بھی جمہوریت کا نظام موجود ہے اکثر طور پر دعوی کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں انتخابات آزاد ہوۓ ہیں۔ اور کہیں سے بھی اس الیکشن کو متاثر نہیں کیا گیا، خود عوام نے اپنے شعور سے نمائندے چنے ہیں۔ اولا تو یہ بات درست نہیں، پوری دنیا میں انتخابات کہیں بھی آزاد نہیں ہوتے اور نا کہیں عوام اپنے شعور اور بصیرت کی بنا پر ووٹ دیتی ہے بلکہ ہمیشہ پروپیگنڈے کے ذریعے اور عوام فریبی کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں ورنہ اگر یہی عوام شعور سے کسی کو حاکم چنے تو یہ وڈیرہ ان پڑھ جو پچھلے ۳۰ سال سے حاکم ہے یہ کیسے حاکم بن جاتا۔ ہمیشہ عوام کو پہلے بے وقوف بنایا جاتا ہے، دلفریب نعروں سے ان کی شہوتیں بھڑکائی جاتی ہیں، مختلف میڈیاز کے ذریعے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور پھر جا کر ایک نمائندہ پارلیمان میں جا پہنچتا ہے۔

بالفرض اگر مان لیا جاۓ کہ انتخابات آزادانہ ہوۓ ہیں اور پشت پردہ کسی کا ہاتھ نہیں تھا یا حکومت نے کوئی زور زبردستی نہیں کی تو ایسی صورت میں اس ریاست کے دشمنوں کے لیے میدان کھلا رہ جاتا ہے۔ اگر حکومت حقیقت میں انتخابات کو آزاد کر دے تو دشمن کا نفوذ اس ملک میں سرایت کر جاۓ گا اور جیسا یہ نظام ہے عین ممکن ہے کوئی دشمن کا جاسوس پارلیمنٹ کا رکن بن جاۓ اور آپ کے ملک کے حساس ترین ادارے میں مداخلت کرے۔

۸۔ حاکمیت کا پشت پردہ ہونا:

جمہوریت کے نظام میں حاکمیت ہمیشہ پشت پردہ رہتی ہے اور عوام کو آخر سال تک پتہ نہیں چلتا کہ ہمارے کام کیوں نہیں ہو سکے۔ ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالتا ہے اور ہر وزیر دوسرے وزیر پر سب ملبہ ڈال دیتا ہے۔ حتی عوام پر ظلم ہوتا ہے لیکن کسی کو کچھ نہیں پتہ چلتا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس ظلم کا قصاص کس نے ادا کرنا ہے۔ آج پاکستان میں آپ دیکھ سکتے ہیں ملک کا ذمہ دار ترین شخص مجبور نظر آتا ہے اور بعض اوقات کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میرے بس میں کچھ نہیں۔ اگر آپ کے بس میں کچھ نہیں تو اس وقت سہانے خواب کس دلیل کےطور پر دکھاۓ تھے؟ یا آپ کا علاقے کا تحصیلدار یا ایم۔این۔اے جب ووٹ لینے آتا ہے اس وقت کھل کر کہتا ہے کہ میں آپ کے کا کروا دونگا لیکن بعد میں کہتا ہے کہ میرے بس میں نہیں، اوپر سے آرڈر نہیں آیا وغیرہ۔ یہ اوپر کہاں ہے اور کدھر ہے نظام جمہوریت میں مخفی رہتا ہے۔

۹۔ الیکشن کے موقع پر تباہی:

ڈیموکریسی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ایک معین مدت کے بعد آپ کو دوبارہ انتخابات کروانے ہیں۔ جس پر ایک عام ایم۔پی۔اے سے لے کر پارٹیوں کے بڑے بڑے افراد کروڑوں بلکہ کھربوں روپے خرچ کرتے ہیں، خود الیکشن کا خرچہ الگ ہے جو عوام کی جیب سے دیا جاتا ہے۔ یہ پارٹی فنڈ کہاں سے آتے ہیں اور کدھر خرچ ہوتے ہیں ظاہری طور پر کسی کو کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب عوام کا پیسہ ہوتا ہے جو لوٹ مار میں سرف ہوتا ہے۔

۱۰۔ نا اہل افراد کا اوپر آنا:

آج تک آپ نے کسی بھی یونیورسٹی کا چانسلر یا کسی اسکول کا پرنسپل ان پڑھ جاہل نہیں دیکھا ہوگا بلکہ خاص معیاروں پر ایسے افراد کو رکھا جاتا ہے۔ یعنی کہیں بھی ایسا نہیٍں ہوتا کہ اگر کسی کالج یا تجربہ گاہ کے لیے کسی مدیر کی ضرورت پڑی ہو تو لوگوں نے انتخابات کروا کے کسی جاہل ان پڑھ کو کالج کا مدیر یا سربراہ لگا دیا ہو۔ لیکن جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔ جمہوریت میں جاہل ترین انسان وزیر تعلیم بن جاتا ہے اور پڑھا لکھا با شعور طبقہ اس کے نیچے کام کرتا ہے یہ خود علم شعور کی توہین ہے۔

۱۱۔ رفاہی کاموں کا تعطل کا شکار ہونا:

نظام جمہوریت کا ڈھانچہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک چھوٹا سا چھوٹا کام بھی ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں کیونکہ پہلے اسے حکومتی کابینہ میں بحث کیا جاۓ گا، بعد میں اسے پارلیمان میں بحث کیا جاۓ گا اور اگر وہاں سے بھی نصیب اچھے ہوۓ سب نے اتفاق کر لیا تو تب جا کر عملی مرحلے تک پہنچے گا۔ اس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ چند سال سے ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہمارے ملک کو ایک ڈیم کی شدید ضرورت ہے اب اس پر کتنے سالوں سے اور کتنی حکومتیں گزر گئیں بحث ہو رہی ہے کہ بننا چاہیے یا نہیں؟ اور یہ بات بالکل درست  ہے نظام جمہوریت کے ذریعے منتخب ہونے والے شخص کو ڈیم کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ ڈیم بنانا ان کا کام ہی نہیں، یہ ایک لمبا اور بڑا منصوبہ ہے ایسے منصوبے صرف عوامی دکھ درد رکھنے والے افراد پورا کر سکتے ہیں جس نے صرف پانچ سال کا اپنا دورانیہ پورا کرنا ہے اس کو کیا پڑی ہے کوئی ایسا کام شروع کرے جو اس کی حکومت میں ختم ہی نہ ہو حتی اگلی حکومت اس کا کریڈٹ لے لے۔

۱۲۔ رہبر شکن نظام:

نظام جمہوریت میں اکثر طور پر معاشرے کے ایسے افراد حاکم بن کر سامنے آتے ہیں جن کے اندر مختلف مہارتیں ہوتی ہیں اور اگر کوئی چیز ان میں نہیں ہوتی تو وہ ہے رہبرانہ صلاحیت۔ اکثر اوقات معاشرے کی سیلیبریٹیز ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں مثلا ویسے کھلاڑی بہت اچھا ہے، اداکاری بہت اچھی کر لیتا ہے، کاروباری ذہانت رکھتا ہے لیکن یہ سب باتیں اس چیز کا ثبوت نہیں کہ وہ ایک اچھا رہبر بھی بن سکتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ عوام میں مقبول ہے اور اسے اکثریت نے ووٹ دیا ہے وہ معاشرے کا حاکم بن جاتا ہے اور چہ بسا ایسا ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک حقیقی رہبر جو واقعا صلاحیتیں رکھتا ہے وہ ہار جاتا ہے کیونکہ اس کو عوام میں اتنی مقبولیت ہی حاصل نہیں۔

نتیجتا کہا جا سکتا ہے جمہوریت ایک ایسا نظام ہے عوام میں سے فقط ایک مخصوص گروہ کے لیے خلق ہوا جس نے ان کے مفادات پورے کئے اور ظاہری طور پر عوام کو فریب دینے کے لیے اسے عوامی حکومت کا نام دیا گیا جبکہ حقیقت میں اس طرز حکومت کا عوام سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔

 

 


منابع:

۱۔ قرآن کریم۔

۲۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ صافی۔

۳۔ پیام مشرق۔

۴۔ گرد آوری از کتاب حکومت مہدوی۔

۵۔ سایٹ لائف میتھڈ۔

۶۔ سائٹ ویکی فقہ فارسی۔

۷۔ سائٹ ایرنا۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/09/19
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی