بصیرت اخبار

۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «جوادی آملی» ثبت شده است

اقتدار ِاسلام کے لیے حکومت ضروری

بیان ہوا کہ دین اسلام صرف افکار اور نظریات کا مجموعہ نہیں ۔ جہاں معارف و اعتقادات ،امور اخلاقی اور تہذیب نفس کا درس دیا گیا ہے وہیں اسلام نے زندگی کے لیے ایک دستور عمل بھی دیا ہے۔ جس میں معاشرے کے افراد کے وظائف و ذمہ داریاں ذکر ہوئی ہیں۔ اسلام نے امر بالمعروف، نہی از منکر اور جہاد و دفاع کے مسائل بیان کیے ہیں۔ حدود و مقررات اور اجتماعی قوانین بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف اخلاق، عرفان اور انفرادی وظائف کی تبیین نہیں کرتا بلکہ انسان کو راہ دکھاتا ہے کہ کیسے اجتماعی زندگی گزارے؟ کس طرح دیگر باطل مکاتب کا نفوذروکےاور طواغیت ِزمان سے نجات حاصل کرے۔ اور ظاہر ہے یہ کام بغیر حکومت اور سیاست سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

طاغوت کسے کہتے ہیں؟

رہبر معظم فرماتے ہیں:

طاغوت سے مراد ظالم اور خیبیث حکمران ہیں ۔جیسا کہ آج کا امریکی صدر اور اس جیسے دیگر افراد آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ طواغیت ہیں۔(۱)

دین چاہتا ہے کہ انسان طاغوت سے ہجرت کر کے ولایت کی طرف آۓاورظلم و ستم کا انکار کرے۔ طاغوتی حکومت سے نکل کر اسلامی حکومت کی طرف حرکت کرے۔ یہاں پر خود اسلامی حکومت کی  تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کسی ملک میں کچھ قوانین اسلامی آ جائیں اس سے اس ملک کی حکومت اسلامی نہیں ہو جاتی۔

اسلامی حکومت کسے کہتے ہیں؟

 اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ حاکم، قانون دونوں اسلامی ہوں، اس کے ساتھ ایک تیسری شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکم اور قانون کو عوام اپنی مرضی سے قبول کرے۔ بہت سے افراد ایران میں آتے ہیں اور ایک ذہنیت بنا کر آتے ہیں کہ مثلا جب ائیر پورٹ پر اتریں گے تو ہر طرف سے نعرہ تکبیر بلند ہو رہا ہوگا، رہبر اور امام خمینی کی تصاویر ہونگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب ایران داخل ہوتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں شاید کسی اور ملک میں غلطی سے داخل ہو گئے ہیں ۔ ایران میں اسلامی حکومت ہے اور اس وقت ایران حالت جنگ میں ہے۔ لیکن وہ جنگ نہیں جو سخت ابزار سے لڑی جاتی ہے۔ بلکہ یہ وہ جنگ ہے جو نرم ابزار سے لڑی جاتی ہے جسے اصطلاح میں جنگ نرم (soft war) کہا جاتا ہے۔ ایران پوری دنیا میں پابندیوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ایران کسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارت نہیں کر سکتا۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ لیکن پھر بھی اس اسلامی ڈھانچے کو بچاۓ ہوۓ ہے۔

انقلاب اسلامی کے پانچ مراحل

ان مراحل کو بیان کرنے سے پہلے ایک نکتہ جو بہت اہمیت کا حامل ہے اسے بیان کرنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ رہبر معظم کی شخصیت کے ساتھ ایک ناانصافی جو کی جاتی ہے کہ ان کو اسلامی مفکر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اور یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ ان کو ایک عالم ،فقیہ، مدبر اور سیاستدان کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے لیکن ان کے مفکر ہونےکے پہلو کو بہت نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ شاید بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے خود کو اس طور پر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ تقریبا چالیس سال تک ان کے نام سے کوئی ایک کتاب بھی نشر نہیں ہوئی۔ ابھی انہیں دنوں میں ان کے افکار پر کام شروع ہوا ہے ۔ تہران  یونیورسٹی کے چند طلاب کو رہبر معظم کے افکار پر کوئی تھیسز لکھنا تھاجب انہوں نے رہبر معظم کے دفتر کی طرف رجوع کیا کہ کیا ہمیں رہبر کی کوئی کتاب مل سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رہبر کی کوئی کتاب نہیں۔ تب ان طلاب نے تقاضا کیا کہ ہمیں رہبر کی تمام تقاریر چاہیں۔ بعد میں انہیں تقاریر کو کتب کی شکل میں چھاپ دیا گیا ۔ رہبر معظم آج کے دور کے بہت بڑے اسلامی مفکر ہیں۔ بہت سی اسلامی اصطلاحات جو آج کے دور میں سنی جاتی ہیں وہ رہبر کی ایجاد ہیں۔ مثلا تمدن اسلامی، جہاد تبیین، گفتمان وغیرہ۔

بہرحال رہبر معظم نے اسلامی انقلاب کے اہداف کے حصول کے پانچ مراحل ذکر کیے ہیں:

۱۔ انقلابِ اسلامی:

 یہ مرحلہ بہت قربانیوں کے بعد پورا ہوا۔ ایک بوڑھے عارف او ر فقیہ لیکن جامع دینی شخصیت نے ۲۵۰۰ سالہ بادشاہی نظام ختم کیا۔ اس کے پاس نہ تو کوئی سیاسی قوت اور مال تھا، سپاہ تھی اور نہ کوئی پبلسٹی کرنے والا، جب اسے جلاوطن کیا گیا تو بہت سے ملکوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا،جب اس کی تحریک کو بہت شدت سے کچلا جا رہا تھا اور ایران کی گلی گلی میں شاہ ایران خون بہا رہا تھا اسے کہا گیا کہ اب ہم کیا کریں؟ کیا رک جائیں؟ خود بندوق اٹھا لیں؟ کیا کریں؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کیسے رک جاؤں؟ یہ وہ دور تھا جب امام خمینی کا نام لینے والے کو مار دیا جاتا تھا، لیکن اس نے ظلم کے خلاف عدل و انصاف کا شعار بلند کیا۔ مستضعفین کی مدد اس کا شعار تھا اور یہ انقلاب کامیاب ہو گیا۔ شاہ ایران کے فرار کے بعد جب امام۱۵ سال کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس آ رہے تھے بہت سوں نے کہا کہ یہ جہاز ہی لینڈ نہیں کرے گا اور یہ انقلاب ختم ہو جاۓ گا، بعد میں کہا کہ ۳ ماہ  میں اس انقلاب کی بساط لپیٹ دی دجاۓ گی۔ لیکن یہی کہتے کہتے ۴۳ سال گزر گئے اور آج تک یہ انقلاب ویسے کا ویسا بلکہ پہلے سے مضبوط ہو کر تن آور درخت بن چکا ہے۔

۲۔حکومت اسلامی:

        کسی بھی معاشرے میں انقلاب لانا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر انقلاب آ بھی جاۓ حکومت تشکیل نہیں دے پاتے۔ جیسا کہ ہم بہت سے انقلابوں میں دیکھتے ہیں کہ کئی سال کی زحمت کے بعد ایک تحریک کامیاب ہوئی انقلاب لانے میں لیکن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔لیکن انقلاب اسلامی نے اس مرحلے کو بھی طے کیا۔ حکومت اسلامی تشکیل دی اور ۹۵ سے زائد افراد نے رفرنڈوم میں حصہ لے کر حکومت اسلامی اور امام خمینی کو بطور ولی فقیہ قبول کیا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ حکومت اسلامی سے مراد تین عناصر ہیں۔ ان تینوں کا ایک وقت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ حکومت اسلامی نہیں کہلاتی۔ پہلا عنصر قانون ہے۔ دوسرا حاکم اور تیسرا عنصر عوام ہیں۔ حکومت اسلامی میں ضروری ہے کہ قانون اسلامی ہو، ایران میں قانون اسلامی ہے، دوسرا عنصر حاکم اسلامی ہو، ایران میں اصل حکومت ولی فقیہ کے پاس ہے جو نیابت امام زمانؑ میں حاکم  ہے۔ اور تیسرا عنصر عوام ہیں، عوام کی اکثریت اس نظام اور قانون کو قبول کرتی ہے۔ لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ایران میں اسلامی قانون نافذ ہوتےہوۓ تو دکھائی نہیں دیتا؟ اس  قانون کا کس حد تک نفاذ ہے؟ اس کا جواب اس آگے آ رہا ہے۔

۳۔ دولت اسلامی:

پہلے دو مراحل گزرنے کے بعد تیسرا مرحلہ دولت اسلامی کا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب اسلامی  حاکم آ جاۓ، قانون بھی اسلامی آ جاۓ یہ قانون ملک کے اداروں میں نافذ ہوتا دکھائی دے۔ ملک کے ہر ادارے میں نظر آۓ کہ ہاں واقعا اس ملک میں اسلامی قانون موجود ہے۔ اس لیے نہ تو امام خمینیؒ اور نہ ہی رہبر معظم نے کبھی یہ دعوی کیا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے ادارے اسلامی قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔ بلکہ ہم اس مرحلے کو طے کر رہے ہیں۔ اس کی طرف بڑھنا ضروری ہے اگر یہ مرحلہ مکمل ہو جاۓ تو تب ایران کو دولت اسلامی کہا جا سکتا ہے۔

۴۔  معاشرہ اسلامی:

        بہت سے افراد جب ایران میں داخل ہوتے ہیں اگر ٹیکسی ڈرائیور ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کر دے، یا کوئی بد اخلاقی دیکھ لیں تو فورا کہتے ہیں کہ یہ کونسی اسلامی حکومت ہے؟ خصوصا جب حجاب کی بات آتی ہے تو ایک بدترین حملہ ہے استعمار کا جو ایران پہ ہو رہا ہے۔ عموما جو آپ بے پردگی دیکھتے ہیں یہ بہائیت اور یہودیت کی جانب سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سب کی سب یہ خواتین بہائی یا یہودی ہوں لیکن ایک ثقافت ہے جو مسلمان خواتین میں پھیلائی جار ہی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رضا شاہ اول نے اسی شیعہ ملک یعنی ایران میں حجاب پر پابندی لگا دی تھی۔ اور بدترین فحاشی معاشرے میں پھیلا دی ،ایران کے شہروں میں خواتین کمترین لباس کے ساتھ باہر نکلتی تھیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد یہ حجاب جو آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے کم از کم عورت کو مکمل لباس پہننے پر آمادہ کر لیا ہے۔ البتہ اداروں میں خاتون کا کاملا حجاب میں ہونا ضروری ہے۔ معاشرہ اسلامی سے مراد یہ ہے کہ اس معاشرے کے رہنے والے لوگ اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ ان کی ثقافت اور فرہنگ اسلامی ہو وہ کسی دوسری فرہنگ سے متاثر نہ ہوں بلکہ اسلامی ثقافت کو اپنے اختیار اور مرضی سے اختیار کریں۔ اس معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی برائیاں بہت کم ہوں، سود، رشوت، کرپشن، نا انصافی اور نفرت اس معاشرے میں نہ ہو۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تشکیل دیا، اس معاشرے میں مہاجر اور انصار اخوت کے ساتھ رہتے تھے، قبیلوں کی جنگیں ختم ہو گئی تھیں۔ مومنین آپس میں ایثار اور قربانی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جو آسانی سے طے ہونے والا نہیں۔ بلکہ  اس معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت وقت درکار ہے۔

۵۔ تمدن اسلامی:

جب چوتھا مرحلہ طے ہو جاۓ اورمعاشرہ اسلامی ہو جاۓ تب پانچویں مرحلے کو ہم پہنچتے ہیں جسے تمدن اسلامی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی تمدن اپنے اوج پر ہے۔ یہ معاشرہ تعلیمی، اقتصادی، سیاسی طور پر پوری دنیا کے لیے نمونہ بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی ہے لیکن اس بنا پر نہیں کہ ترقی حاصل کر کے پوری دنیا کا انسان ہی خطرے میں ڈال دیں۔ اسی ٹیکنالوجی سے وائرس بنائیں اور پوری دنیا میں کرونا پھیلا دیں۔ یہ ٹیکنالوجی اس معاشرے میں موجود ہے لیکن انسان کی خدمت کے لیے ہے۔ یہ آخری مرحلہ ہے جس میں انسان نہیں بلکہ پورا معاشرہ الہی معاشرہ اور تمدن اسلامی ہوگا۔  (۲)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۵تا۷۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 March 22 ، 12:04
عون نقوی

مؤلف کا فلسفی مشرب حکمت متعالیہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حکمت متعالیہ قرآن، برہان اور عرفان کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس لیے اس مشرب کے فلاسفہ جب بھی کسی مطلب پر دلیل لاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ قرآن، برہان اور عرفان سے دلیل لائی جاۓ۔ اس کتاب میں بھی مؤلف نے ضرورتِ نبوت کو پہلے قرآن و روایات سے ثابت کیا اور بعد میں عقلی دلیل پیش کی۔ نبوت کو عقلی طور پر ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟ اس پر سب سے پہلے ابن سینا نے عقلی دلیل قائم کی۔ ابن سینا ایک ایسی جامع شخصیت ہیں جن سے عالم اسلام کے تقریبا سب فرقے متاثر ہیں۔ حتی وہ افراد جو فلسفہ کے مخالف ہیں انہوں نے بھی علمِ کلام میں ابن سینا کی دلیلوں سے استفادہ کیا۔

یہاں پر درس سے ہٹ کر ایک امر کی وضاحت کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ابن سینا کی شخصیت کے بارے میں بہت سے شاذ و نادر اقوال سننے کو ملتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ توحید کے قائل نہ تھے، کافر تھے اور فسق و فجور میں مشغول رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان کے مخالفین کی طرف سے لگاۓ گئے الزامات ہیں اور ہمارے بزرگ علماء ان کی شخصیت کا اس طور پر دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح کا کلام انہوں نے لکھا ہے وہ ایک عام شخصیت سے صادر نہیں ہو سکتا۔ اور بالخصوص ان کی زندگی کے آخر کے ایام میں جو کلام انہوں نے لکھا ہے وہ کسی عارف شخصیت سے ہی صادر ہو سکتا ہے۔ بہرحال نبوت کی ضرورت پر اس برہان کو ابن سینا نے اپنی کتاب ’’الاشارات و التنبیہات‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی شرح خواجہ طوسیؒ نے لکھی۔ جس کا نام ’’شرح الاشارات و التنبیہات‘‘ ہے۔ اس شرح کی شرح آیت اللہ حسن زادہ آملیؒ نے کی ہے۔ اس کتاب سے نبوت پر عقلی برہان کو یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے۔

دلیل کے مقدمات

نبوت پر اس وقت عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے جب ہم توحید کے قائل ہو چکے ہوں۔ پس فرض یہ ہے کہ ہم توحید کو مان چکے ہیں۔ جب ہم نے توحید کو مان لیا تو یہ بات ہم پہلے سے ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی دنیوی اور اخری سعادت کے لیے اسے قانون کی ضرورت ہے۔ اور یہ قانون بھی جامع قانون ہونا چاہیے جو اس کے نا صرف جسم کو مدنظر رکھے بلکہ روح کو بھی سعادت تک پہنچا سکے۔

پہلا قاعدہ

انسان مدنی الطبع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسی زندگی کرنا چاہتا ہے جو قانونی اور تمدن کے ہمراہ ہو۔ باالفاظ دیگر انسان اجتماعی زندگی بسر کرنے والا موجود ہے۔ اگر انسان کو اجتماعی زندگی میسر نہ ہو تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے انسان کو لین دین کرنا ہے، کھانا پینا، لباس، رہائش، صحت کی سہولیات، دفاع اور تعلیم۔ یہ سب انسان اکیلا مہیا نہیں کر سکتا مگر یہ کہ انسانوں کا ایک مجموعہ ہو، ان میں سے چند افراد گندم مہیا کریں، کچھ تجارت کریں، ان میں سے کچھ افراد ڈاکٹر بنیں اور کچھ ان سب کا دفاع کریں۔ اگر لوگوں کا ایک مجموعہ نہ بنے اور انسان اجتماعی زندگی بسر نہ کرے تو زندہ نہیں رہ سکتا۔

دوسرا قاعدہ

جب ہم نے مان لیا کہ انسان معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاشرہ بھی قانون کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ اگر معاشرے میں قانون موجود ہو اور عدالت سے افراد ایک دوسرے کے ساتھ رہیں تو تب ہی اجتماعی زندگی بسر کر سکتے ہیں ورنہ ہرج مرج لازم آۓ گا اور اس کے نتیجے میں بھی انسان کی نابودی نظر آتی ہے۔ اس کے ذیل میں ایک سوال ابھرے گا اور وہ یہ کہ قانون کیسا ہو جو معاشرے میں امنیت کا ضامن ہو؟ کیونکہ اگر قانون ہی ناقص ہوا تو وہ کیسے انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر ابھارے گا؟ اس لیے ضروری ہے کہ قانون جامع اور کلی ہو۔ قانون جزئی نہیں ہو سکتا۔ کلی سے مراد یہ ہے کہ ایسا قانون ہو جو معاشرے کے سب افراد پر لاگو ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا جزئی قانون بناۓ اور کہے کہ میرا قانون یہ ہے اور میں تو اسی قانون کے مطابق زندگی بسر کروں گا۔ مثال کے طور پر اگر ایک ملک میں شراب پر پابندی کا قانون بنانا ہے تو کلی قانون بنائیں گے۔ اور کہیں گے کہ آج کے بعد ملک کا کوئی بھی باشندہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ شراب نوشی کرے۔ یہ کلی قانون ہے۔ اب اس کلی قانون کے آ جانے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ شخص اسی معاشرے کا حصہ ہے، اسی معاشرے کا ایک جز ہے۔ اور کلی قانون اپنی تمام جزئیات پر لاگو ہوتا ہے اس لیے حکومت صرف اعلان کر دیتی ہے الگ الگ ہر فرد کو جا کر نہیں بتاتی۔ قانون کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ سب پر برابر لاگو ہونا ہے۔

تیسرا قاعدہ

ہم نے مان لیا کہ انسان کو معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ اگلے مرحلے میں اب پوچھا جاۓ گا کہ قانون کون بناۓ؟ آیا عوام قانون بنائیں؟ سیاستدان قانون بناۓ یا فوج؟ اگر ہم مان لیتے ہیں کہ قانون انسان بناۓ تو اس پر وہی اشکال لازم آۓ گا جو پچھلے اوراق میں گزرا ہے۔ قانون وہی بنا سکتا ہے جو انسان اور جہان کے بارے میں دقیق معلومات رکھتا ہو۔ اور ایسی ذات فقط اللہ تعالی کی ہے جو انسان اور جہان کو اس کی ابتدا سے انتہا تک جانتی ہے۔

چوتھا قاعدہ

پہلے تین قواعد کی بنا پر ہم نے عقلی طور پر ثابت کیا ہے کہ انسان کو ایک کامیاب معاشرتی زندگی گزارنی ہے۔ کامیابی سے زندگی گزارنے کے لیے اسے ایک جامع اور کامل قانون کی ضرورت ہے۔ اب یہاں پر چند مزید سوال ابھریں گے کہ یہ قانون کون نافذ کرے؟ معاشرے میں قانون کے ذریعے عدالت کون برپا کرے؟ انسانوں کو اس الہی قانون پر عمل کرنے پر کون مجبور کرے اور کیسے مجبور کرے؟ کیونکہ انسانی طبع تو قانون کے مطابق زندگی گزارنے سے گریز کرے گی۔ اب اس کی طبع کو کون کنٹرول کرے؟ کیا ایک فاسق انسان معاشرے میں عدالت قائم کر سکتا ہے؟ یا عدالت کو صرف عادل انسان قائم کر سکتا ہے؟ جو شخص خود الہی حدود کا خیال نہیں رکھتا کیا اسے الہی قانون نافذ کرنے کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے؟ جو شخص خود کرپٹ ہے اسے مالیات کا امین بنا سکتے ہیں؟ جو خود غدار ہے اسے پہرہ دار بنایا جا سکتا ہے؟ یہاں سے معاشروں کو ایک معصوم اور عادل نبی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو الہی قانون کو من و عن معاشرے میں نافذ کرتا ہے۔ نبی اپنی بات نہیں کرتا یا اپنا قانون نہیں لاتا، ہمارے اعتقاد کے مطابق نبی معصوم ہوتا ہے اور کسی فسق و فجور کو انجام نہیں دیتا۔ انسان اگر معاشروں میں امنیت چاہتے ہیں دنیوی و اخروی سعادت چاہتے ہیں تو حجت الہی کی اطاعت ضروری ہے۔(۱)

اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ انسانوں پر قانونگذاری اور حکومتداری کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے یہ حق انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کو واگذار کیا ہے۔ ولایت فقیہ اسی نبوت اور امامت کا استمرار ہے۔ ولایت فقیہ کی جب بات کی جاتی ہے اس سے مراد فتوی دینا نہیں ہوتا بلکہ سیاسی اور حکومتی امور میں نیابت امام کی بات کی جا رہی ہوتی ہے۔ اس لیے واضح رہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے ہر مجتہد ولی فقیہ ہوتا ہے، اشتباہ ہے۔ ولی فقیہ سے مراد فتوی دینے والا مجتہد نہیں ہے بلکہ نیابت امام مہدیؑ میں جس فقیہ کے پاس حکومت ہو اس کو ولی فقیہ کہا جاتا ہے۔(۲)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ حسن زادہ آملی، حسن، شرح اشارات و تنبیہات، ج۹، نمط۹، ص۷۹۔

۲۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۵۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 22 ، 19:17
عون نقوی

قرآن کریم میں دو قسم کے شجر کا ذکر ہوا ہے۔

۱۔ شجرہ طوبی

۲۔ شجرہ خبیثہ

سورہ ابراہیم میں وارد ہوا ہے:

أَ لَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِی السَّماءِ.

 کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟(۱)

اور سورہ صافات میں شجرہ خبیثہ کے بارے میں وارد ہوا ہے:

إِنَّها شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فی‏ أَصْلِ الْجَحیمِ طَلْعُها کَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّیاطینِ.

یہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے اس کے خوشے شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔(۲)

انسان اس وقت کمال حاصل کر سکتا ہے جب صحیح راستے کی طرف بڑھ رہا ہو۔ کمال کی راہ میں جو شے اس کے لیے مفید ہو اس کا استعمال کرے اور جو شے ضرر رساں ہو اس سے خود کو دور کرے۔ ایک پودا اس وقت ہرا بھرا ہو سکتا ہے جب اسے مناسب مقدار میں پانی، روشنی اور حرارت مہیا ہو۔ باغبان اس کا خیال رکھے اگر ایک پودے کو اس کی ضرورت سے زیادہ پانی دے دیا جائے یا بہت کم پانی دیں تو وہ ہر دو صورتوں میں مرجھا جاۓ گا۔ یہی قانون انسان کے لیے بھی ہے۔ الہی باغ کا ایک حسین پھول انسان ہے جسے خود خدا نے اگایا ہے اور اس کا خیال رکھنے والا ہے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کا شمار بھی شجرہ طوبی سے ہو، جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں آسمانوں تک پھیلی ہوئی ہیں تو اسے چاہیے کہ غور کرے کونسی چیز اس کے لیے اللہ تعالی نے ضروری قرار دی ہے۔ کتنا پانی اس پودے کو دینا ہے، کتنی اسے حرارت چاہیے اور لوازمات اور موانع ہیں۔ اگر اس کے مطابق چلا تو شجرہ طوبی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر بے راہروی کا شکار ہو، اور اس نسخے پر عمل نہ کیا جو اس کی نشو و نما کے لیے ضروری تھا تو وہ شجرہ خبیثہ بن جاۓ گا جس کی تہہ جہنم، شاخیں شیطان کا سر اور پھل تلخ ہے۔ اگر انسان نبوت کا اقرار کرے اور خود کو اس کے مطابق ڈھال لے تو وہ شجرہ طیبہ بن جاتا ہے اور ’’أَصْلُها ثابِتٌ‘‘ کہلاتا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ سعادت مند قانون دیا جو انبیاء شریعت کی شکل میں انسانوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اللہ تعالی کے حکیم ہونے کا تقاضا تھا کہ جب اس نے انسان کو سعادت مند بنانا تھا تو ساتھ انبیاء کرامؑ بھی بھیجتا، جو کہ بھیجے بھی ہیں۔ اللہ تعالی کا حکیم ہونا ہی نبوت کے اثبات کے لیے کافی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک حکیم ذات ایک مخلوق کو سعادت مند کرنا چاہے اور اس کے لیے نبی یا پیغمبر نہ بھیجے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جن افراد نے نبوت کا انکار کیا ہے در اصل انہوں نے اللہ تعالی کے حکیم ہونے کا انکار کیا ہے۔ نبوت کا انکار اللہ تعالی کا انکار ہے۔

نبوت پر دلیل

نبوت اور شریعت کے اثبات کے لیے ہمارے پاس آیات کثیر ہیں اور گذشتہ دروس میں ان میں سے بعض گزر چکی ہیں اس لیے طولانیت سے بچتے ہوئے آیات کریمہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دو احادیث پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔

پہلی روایت

الکافی میں وارد ہوا ہے کہ امام جعفر صادقؑ سے ایک زندیق (ملحد) نے پوچھا کہ خدا کے وجود پر تو آپ لوگ دلیلیں لے آتے ہیں لیکن یہ نبیوں کا سلسلہ آپ نے کیسے بنا لیا ہے؟ کیا نبوت پر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ امامؑ نے اس کے جواب میں فرمایا:

إِنَّا لَمَّا أَثْبَتْنَا أَنَّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً مُتَعَالِیاً عَنَّا وَ عَنْ جَمِیعِ مَا خَلَقَ وَ کَانَ ذَلِکَ الصَّانِعُ حَکِیماً مُتَعَالِیاً لَمْ یَجُزْ أَنْ یُشَاهِدَهُ خَلْقُهُ وَ لَا یُلَامِسُوهُ فَیُبَاشِرَهُمْ وَ یُبَاشِرُوهُ وَ یُحَاجَّهُمْ وَ یُحَاجُّوهُ ثَبَتَ أَنَّ لَهُ سُفَرَاءَ فِی خَلْقِهِ یُعَبِّرُونَ عَنْهُ إِلَى خَلْقِهِ وَ عِبَادِهِ وَ یَدُلُّونَهُمْ عَلَى مَصَالِحِهِمْ وَ مَنَافِعِهِمْ وَ مَا بِهِ بَقَاؤُهُمْ وَ فِی تَرْکِهِ فَنَاؤُهُمْ- فَثَبَتَ الْآمِرُونَ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْحَکِیمِ الْعَلِیمِ فِی خَلْقِهِ وَ الْمُعَبِّرُونَ عَنْهُ جَلَّ وَ عَزَّ وَ هُمُ الْأَنْبِیَاءُ ع وَ صَفْوَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ حُکَمَاءَ مُؤَدَّبِینَ بِالْحِکْمَةِ مَبْعُوثِینَ بِهَا غَیْرَ مُشَارِکِینَ لِلنَّاسِ عَلَى مُشَارَکَتِهِمْ لَهُمْ فِی الْخَلْقِ وَ التَّرْکِیبِ فِی شَیْ‌ءٍ مِنْ أَحْوَالِهِمْ مُؤَیَّدِینَ‌ مِنْ عِنْدِ الْحَکِیمِ الْعَلِیمِ بِالْحِکْمَةِ ثُمَّ ثَبَتَ ذَلِکَ فِی کُلِّ دَهْرٍ وَ زَمَانٍ مِمَّا أَتَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَ الْأَنْبِیَاءُ مِنَ الدَّلَائِلِ وَ الْبَرَاهِینِ لِکَیْلَا تَخْلُوَ أَرْضُ اللَّهِ مِنْ حُجَّةٍ یَکُونُ مَعَهُ عِلْمٌ یَدُلُّ عَلَى صِدْقِ مَقَالَتِهِ وَ جَوَازِ عَدَالَتِهِ.(۳)

اس روایت میں امامؑ نے برہان قائم کیا کہ اس کے بعد کہ جب ہم نے اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کر لیا اور مان لیا کہ ہم سب کا ایک خالق ہے جو ’’صانع‘‘ اور ’’متعالی‘‘ ہے جو اس امر سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی مخلوق اسے دیکھ سکے یا لمس کر سکے۔ مخلوق اسے بلاواسطہ طور پر ارتباط برقرار نہیں کر سکتی، وہ متعالی ہے کوئی مخلوق اسے مستقیم طور پر درک نہیں کر سکتی۔ وہ مخلوقات کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر، یا ان سے بات چیت نہیں کر سکتا۔ ان اوصاف کی بنا پر اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ انسانوں سے ارتباط برقرار کرنے کے لیے کوئی ایسا وجود خلق کرے جو انسانوں اور اس کے درمیان واسطہ ہو۔ یہی واسطہ نبی ہیں۔ نبی وہ واسطہ ہیں جو اللہ تعالی کے احکام کو ہم تک پہنچاتے ہیں اور ہمیں منافع اور مصالح بتاتے ہیں۔

دوسری روایت

علل الشرائع میں امام صادقؑ سے مروی ہے:

لَوْ کَانَ النَّاسُ رَجُلَیْنِ لَکَانَ أَحَدُهُمَا الْإِمَامَ وَ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَنْ یَمُوتُ الْإِمَامُ لِئَلَّا یَحْتَجَّ أَحَدُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ تَرْکَهُ بِغَیْرِ حُجَّةٍ.(۴)

یعنی اگر دنیا میں صرف دو افراد باقی رہ جائیں تو ان دو میں سے ایک امام ہوگا، اور ان میں سے جو سب سے آخر میں اس دنیا سے جاۓ گا وہ امام ہوگا۔ اس لیے کہ دوسرا شخص روز قیامت خدا کے آگے یہ احتجاج نہ کرے کہ اسے بغیر حجت کے چھوڑ دیا گیا۔ اس روایت میں بھی امامؑ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ امام اور حجت کا وجود بہت ضروری ہے۔

انسان محتاجِ نبوت

انسان ایک ایسا موجود ہے جو دقیق علم نہیں رکھتا کہ کونسی شے اس کے لیے مفید ہے اور کونسی شے مضر۔ حلال، حرام اچھا اور برا جزئیات کے ساتھ نہیں جانتا۔ اس لیے اسے ایک قانون کی ضرورت ہے۔ ایک جامع قانون جو اسے مکمل ضابطہ حیات عطا کرے۔ درست ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے اور اس سے اچھے برے کی تمیز کرتا ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ عقل تمام مسائل کو ان کی جزئیات کے ساتھ درک کرنے سے قاصر ہے۔ عقل صرف کلیات کو درک کر سکتی ہے۔ اس لیے انسان بہرحال عقل سے بالا تر ایک ایسے امر کا محتاج ہے جو تمام امور کی جزئیات کو جانتا ہو۔ انسان کونسا پھل کھاۓ؟ کس جانور کا گوشت اس کے لیے مفید اور مضر ہے؟ ہر قسم کی مچھلی کھا سکتا ہے یا نہیں؟ کتا اور سور کھاۓ یا نہ کھاۓ؟ کس قسم کا لباس پہنے؟ ان جزئیات کو انسان نہیں جانتا۔ دوسری طرف کمال بھی چاہتا ہے، پس یہاں پر اسے مکمل اور درست قانون کی ضرورت پڑتی ہے جو فقط اسے خدا عطا کر سکتا ہے۔ نبی یہی قانون بشر تک لاتا ہے جسے ہم شریعت کہتے ہیں۔(۵)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ ابراہیم: ۲۴۔

۲۔ صافات: ۶۵،۶۴۔

۳۔ شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۶۸۔

۴۔ شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱، ص۱۹۶۔

۵۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۷تا۵۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 January 22 ، 15:21
عون نقوی

انسان کو اللہ تعالی نے دو بہت اہم ترین قوتیں عطا کی ہیں۔

۱۔ شہوت کی قوت

۲۔ غضب کی قوت

اگر یہ دو قوتیں انسان کے قبضے میں ہوں تو انسان اپنے روح کی بہترین تربیت کر سکتا ہے۔ ان دونوں کا عقل کے تحت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر انسان سے یہ دو قوتیں کنٹرول نہ ہو پائیں تو سب سے پہلا کام جو یہ کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ روح کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ نتیجتاََ ہواۓ نفس انسان پر حاکم ہو جاتی ہے اور عقلِ انسانی اس بے لگام حاکم کی اسیر۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:

کَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِیرٍ تَحْتَ هَوَی أَمِیرٍ.

بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہواؤ ہوس کے بار میں دبی ہوئی ہیں۔(۱)

ایک اور حکمت میں ارشاد فرماتے ہیں:

الدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ لاَ دَارُ مَقَرٍّ وَ النَّاسُ فِیهَا رَجُلاَنِ رَجُلٌ بَاعَ فِیهَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا وَ رَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا.

’’دنیا‘‘ اصل منزلِ قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے۔ اس میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خرید کر آزاد کر دیا۔(۲)

وہ انسان جس نے خود پر رحم نہیں کیا اور جہاد اکبر کے میدان میں نفسانی خواہشات نے اس کو چِت کر دیا در حقیقت اس نے خود کو شہوت اور غضب کا اسیر بنوا لیا۔ جب ایک انسان شہوت اور غضب کا اسیر ہو جاۓ تو پھر اس کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ اس کی شہوت اور غضب کی خدمت کرے گا۔ اس کے پاس جتنا عقل ہوگا اس کا صرف غلط استعمال کرے گا۔ ظاہر میں صاحبِ علم ہے لیکن علم سے صرف شہوت اور غضب کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ عقل کا استعمال کرتا ہے لیکن صرف اپنی شہوتوں کو پورا کرنے کے لیے عقل سے استفادہ کرتا ہے۔ اب اگر ایک انسانی معاشرے کو تباہ کرنا چاہے گا تو اپنے علم کی خدمات لے گا، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، عقلانیت اس کی صرف اس بات پر خرچ ہوگی کہ کیسے ایک انسانی معاشرے کو بمب سے اڑایا جاۓ؟ اس شخص پر غضب حاکم ہو چکا ہے۔ یہ حاکم جو کہتا جاۓ گا یہ اپنے علم اور عقل سے استفادہ کرتے ہوۓ مطیع غلاموں کی طرح اس پر عمل کرتا جاۓ گا۔ شہوت اور غضب کی قوت اس کو غلام سے غلام تر بناتی جاۓ گی ایک موقع پر یہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاۓ گا کہ اس کے راستے میں جو کوئی بھی آۓ گا اس کو ہٹا دے گا۔ حتی اللہ تعالی، اس کا نبی یا اس کا وصی۔ اپنی ہوا و ہوس کے آگے اگر خدا کی نہی آ جاۓ اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ کتنے ہی ایسے افراد تاریخ میں گزرے ہیں کہ انہوں نے صرف نبیؑ یا نبی کے وصی سے مقابلہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کو قتل کیا اور یہاں تک اکتفاء نہیں کیا بلکہ انبیاء کرامؑ کے حقیقی دین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ہزاروں انسانوں کی گمراہی کا باعث بنے۔ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے خود کو شہوت اور غضب کا غلام بنا لیا۔

خود ابلیس کو دیکھ لیجیے، ابلیس کوئی معمولی شخصیت کا مالک نہیں تھا بلکہ یہ وہ تھا کہ جس نے چھ ہزار سال اللہ تعالی کی عبادت کی۔ امیرالمومنینؑ کی فرمائش کے مطابق معلوم نہیں یہ چھ ہزار سال دنیوی تھے یا اخروی؟ کیونکہ اگر قائل ہو جائیں کہ اخروی سال تھے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اخروی ایک دن، دنیوی پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ البتہ خود امیرالمومنینؑ کے لیے تو یہ مسئلہ روشن تھا کہ یہ سال اخروی تھے یا دنیوی، لوگوں کے لیے یہ مسئلہ روشن نہیں۔ یہ عابد ترین شخصیت کا مالک موجود کیسے ایک منفور ترین شخص ہو گیا؟ جواب یہ ہے کہ جب اپنی شہوت کا غلام ہوا۔ جب تکبر اور لجاجت کی۔ اس نے کہا کہ میں بڑا ہوں، میرا نفس اور میرا وجود حضرت آدمؑ سے وسیع تر ہے۔ یہ میں اور نفس کی آواز اسے لے ڈوبی اور اس کی ہزار سالوں کی عبادت بھی ضائع ہو گئی۔ اس نے پہلے خود کو نفس کا اسیر بنایا اور پھر سب انسانوں کا ’’عدو مبین‘‘ بن کر سب انسانوں کو نفس کا اسیر بنانے میں لگ گیا۔(۳)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۱۱۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۳۳۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۵،۴۶۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 21 ، 12:02
عون نقوی

آیت اللہ العظمی جوادى آملى حفظہ اللہ تعالى: 

دین، حکومت اور سیاست سے  جدا نہیں ہو سکتا جیسا کہ پہلے بھى عرض کیا کہ دین فقط  وعظ و نصیحت و انفرادى تعلیم کے لئے نہیں اور فقط مسائل اخلاقى و اعتقادى کا مجموعہ نہیں کہ جو سیاست و نظام کے بغیر ہوں۔ بلکہ دین اسلام کے اندر اجتماعى اور سیاسى احکام بھى موجود ہیں۔

خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ.
(سورة البقرة: ۲۱۳)

اس آیت مجیدہ میں انبیاء کرام کے اھداف میں سے ایک ھدف یہ ذکر ہوا ہے کہ انبیاء کرام لوگوں کے مابین اختلاف کو ختم کرتے ہیں ، پس معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کے اندر نظم و نسق کو برقرار رکھنا ہے اور ہرج و مرج سے معاشرے کو نجات دینى ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ان اجتماعى امور کو انجام دینے کے لئے فقط وعظ و نصیحت کرنا اور فقہى احکام بیان کردینا کافى نہیں۔

اس لئے ہر صاحب شریعت پیغمبر بشیر و نذیر ہونے کے ساتھ ساتھ مسألہ حکومت میں بھى حساس تھا۔ خداوند متعال نے اس آیت مجیدہ میں یہ نہیں فرمایا کہ پیغمبران الہى تعلیم و وعظ و نصیحت کے ذریعے معاشرے کے اجتماعى مسائل کو حل کرتے ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ بہ وسیلہ ’’حکم‘‘ ان اختلافات کو ختم کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انفرادى مسائل تو وعظ و نصیحت کے ذریعے حل کئے جاسکتے ہیں لیکن اجتماعى مسائل کو بغیر ’’حکم‘‘ و ’’حکومت‘‘ کے حل نہیں کیا جا سکتا۔(۱)

 


حوالہ:
۱۔ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، صفحہ۷۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:51
عون نقوی