بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: کلمات قصار» ثبت شده است

(۱۸۰)

اَلطَّمَعُ رِقٌّ مُّؤَبَّدٌ.

لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

(۱۸۱)

ثَمَرَةُ التَّفْرِیْطِ النَّدَامَةُ، وَ ثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ.

کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اور احتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:19
عون نقوی

(۱۷۸)

اُحْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَیْرِکَ بِقَلْعِهٖ مِنْ صَدْرِکَ.

دوسرے کے سینہ سے کینہ و شر کی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو۔

(۱۷۹)

اَللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّاْیَ.

ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کر دیتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:17
عون نقوی

(۱۷۶)

اٰلَةُ الرِّیَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔

(۱۷۷)

اُزْجُرِ الْمُسِیْٓءَ بِثوَابِ الْـمُحْسِنِ.

بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔


مقصد یہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دینا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راہ پر لگاتا ہے۔ اور یہ چیز اخلاقی مواعظ اور تنبیہ و سرزنش سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ انسان طبعاً ان چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتیجہ میں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں میں مدح و تحسین کے ترانے گونجیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:15
عون نقوی

(۱۷۴)

مَن اَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلّٰهِ قَوِیَ عَلٰى قَتْلِ اَشِدَّآءِ الْبَاطِلِ.

جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب تیز کرتا ہے وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔


جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کر سکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سید نعمت جزائری علیہ الرحمہ نے ’’زہر الربیع‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ: ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبۂ دینی سے متاثر ہو کر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا۔ اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹنا چاہتا ہوں تاکہ لوگ اس مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ وہ جانیں اور ان کا کام۔ مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا۔ جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کر ہی گزرے گا تو اس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے۔ یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہوا تو درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے، مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔

(۱۷۵)

اِذَا هِبْتَ اَمْرًا فَقَعْ فِیْهِ، فَاِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّیْهِ اَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْهُ.

جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لئے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔


 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:13
عون نقوی

(۱۷۲)

اَلنَّاسُ اَعْدَآءُ مَا جَهِلُوْا.

لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔


انسان جس علم و فن سے واقف ہوتا ہے اسے بڑی اہمیت دیتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتا ہے اسے غیر اہم قرار دے کر اس کی تنقیص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس محفل میں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جس سے وہ ایک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور یہ سبکی اس کیلئے اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انسان جس چیز سے بھی اذیت محسوس کرے گا اس سے طبعاً نفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افلاطون سے دریافت کیا گیا کہ: کیا وجہ ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے سے بغض رکھتا ہے، مگر جاننے والا نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہیں رکھتا؟ اس نے کہا کہ: چونکہ نہ جاننے والا اپنے اندر ایک نقص محسوس کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ جاننے والا اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقیر و پست سمجھتا ہو گا جس سے متاثر ہو کر وہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے والا چونکہ جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے، اس لئے وہ یہ تصور نہیں کرتا کہ نہ جاننے والا اسے حقیر سمجھتا ہوگا۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اس سے بغض رکھے۔

(۱۷۳)

مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوْهَ الْاٰرَآءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَاِ.

جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:11
عون نقوی