بصیرت اخبار

۹ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام خمینیؒ» ثبت شده است

سیاسی افکار

سیاست

تحریر: عون نقوی

 

لغوی معنی

سیاست عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اصلی مادہ «سَاسَ یَسُوسُ» ہے۔ اس کے معنی کسی شے کی تدبیر کرنا، اصلاح کرنا یا تربیت کرنا ہے۔ «سَاسَةُ الفَرَس» یعنی اس نے گھوڑے کی پرورش کی اس کو سدھارا یا اس کی تدبیر کی۔ [1][2][3]

عموما تربیت کرنا اور پرورش کرنا تدبیر، امر و نہی اور سرپرستی کے ہمراہ ہوتا ہے اس لیے ان سب امور میں لفظ سیاست کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ سیاست اردو اور فارسی میں بھی تربیت اور تدبیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ [4][5]

اصطلاحی معنی

سیاست کی اصطلاحی تعریف انسان کی جہان شناسی اور انسان شناسی پر موقوف ہے۔ اس لیے سیاست کی اصطلاحی تعریف میں اسلامی مفکرین اور مغربی مفکرین کا شدید اختلاف ہے۔

بہرحال ہمارے پاس سیاست کی کلی طور پر دو قسم کی تعریفیں ہیں۔

۱۔ قدرت محور

۲۔ تربیت محور

بعض علماء سیاست نے قدرت کے حصول اور لوگوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی جہت سے سیاست کی تعریف کی ہے۔ ان تعریفوں کو ہم قدرت محور قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے بالمقابل دیگر علماء سیاست نے حیات انسانی کی مادی اور معنوی جہت سے تدبیر کرنے کو سیاست قرار دیا ہے۔

قدرت محور تعریفیں

مغربی سیاسی مفکرین کے نزدیک سیاست کی اہم ترین تعریف یہ ہے:

’’افراد یا سیاسی پارٹیاں حکومت اور اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے جو سیاسی پیکار یا مبارزہ کرتی ہیں اسے سیاست کہتے ہیں‘‘۔ با الفاظ دیگر سیاست یعنی اقتدار کے حصول کے لیے مبارزہ کرنا۔[6] اس تعریف کے مطابق سیاست کا ہدف صرف قدرت کا حصول ہے۔

اوکودیبا نولی

سیاست کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’وہ تمام فعالیت جو مستقیم یا غیر مستقیم طور پر قدرت اور حکومت کے حصول کے لیے انجام دی جاتی ہے اسے سیاست کہتے ہیں‘‘۔[7]

مورس ڈورگر

فرانسیسی دانشور سیاست کی اس طرح سے تعریف کرتے ہیں:

’’سیاست قدرت کے حصول کا نام ہے‘‘۔[8]

نیکولا ماکیاولی 

پندرہویں صدی عیسوی کے مشہور  و معروف اتالوی مورخ و فلاسفر سیاست کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’حکومت کرنے کا فن، یااقتدار کو تسخیر کرنے کے فن کو سیاست کہتے ہیں‘‘۔ ماکیاولی کے نزدیک اقتدار حاصل کرنا خود ہدف ہے۔ اور اس ہدف کے حصول کے لیے ہر قسم  کی روش کو مشروع قرار دیا جا سکتا ہے۔[9]

تربیت محور تعریفیں

اسلامی مفکرین سیاست کی تعریف معاشرے کی مدیریت اور تدبیر کے معنی میں کرتے ہیں۔ دینی منابع میں سیاست کا ہدف قدرت اور حکومت قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ سیاست  اس لیے ضروری قرار دی گئی ہے کہ اس کو وسیلہ قرار دیتے ہوۓ تقوی اور ہدایت کی اساس پر معاشرے کا اجتماعی نظم و ضبط برقرار رکھا جاۓ اور ان کی تربیت و تدبیر کی جا سکے۔

ابو نصر فارابی 

معلم ثانی فارابی معتقد ہیں کہ معاشرے کے سعادت تک پہنچنے کا ایک راستہ سیاست ہے۔ سیاست کی تعریف میں لکھتے ہیں:

انسان کے وجود میں فضیلت ایجاد کرنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل دی جاۓ جس کے توسط سے شہروں اور  لوگوں میں افعال اور سنت فاضلہ رائج اور شائع کی جائیں۔ حکومت کے توسط سے جو فضیلت لوگوں میں ایجاد ہوگی اس خدمت کے حصول کا نام سیاست ہے۔ [10]

خواجہ نصیر الدین طوسی 

خواجہ نے سیاست کو تدبیر کے مترادف قرار دیا ہے۔ اور اس کو تدبیر منازل، تدبیر خدم و عبید، تدبیر اولاد، اور تدبیر مدن میں تقسیم کیا ہے۔ اور ان سب کو حکمت عملی کا جزء قرار دیا ہے۔[11]

امام غزالی 

غزالی معتقد ہیں کہ سیاست ان ابزار میں سے ہے جو انسان کو خدا تک پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے سیاست کو بمعنی ’’استصلاح‘‘ قرار دیا ہے۔ یعنی لوگوں کو نیک بنانا، درست راہ کی طرف نشان دہی کرنا کہ جس سے وہ دنیا اور آخر ت میں نجات حاصل کر لیں،اس کام کو  سیاست کہتے ہیں۔[12]

ابو الحسن ماوردی 

ماوردی اہل سنت کے بزرگ فقیہ ہیں۔ سیاست کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کو درست راستے پر چلانا اور ان کی ہدایت کرنا سیاست کہلاتا ہے۔[13]

امام خمینیؒ 

امام کی نظر میں معاشرے کی مدیریت، اور لوگوں کی دنیوی اور اخروی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ رہبری اور ہدایت کرنا سیاست کہلاتا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’سیاست کا معنی یہ ہے کہ معاشرے کی تمام مصلحتوں اور انسان کی تمام ابعاد کو سامنے رکھتے ہوۓ ان کی اس سمت میں ہدایت کرنا جس میں ان کی صلاح ہے۔ یہ کام صرف انبیاء اور ان کی اتباع میں اسلام کے بیدار علماء کے ساتھ مختص ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔[14]

علامہ محمد تقی جعفری 

سیاست یہ ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی میں اس طرح سے مدیریت، توجیہ و تنظیم کرنا کہ وہ حیات معقول کی طرف بڑھ سکیں۔ [15] علامہ کی نظر میں سیاست ایک مقدس امر ہے اور اسلام نے اسے واجب کفائی قرار دیا ہے۔ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے سیاست سے کوئی غرض نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حیات معقول نہیں چاہتا۔[16] حیات معقول سے مراد انبیاء الہی و امامان معصومین ؑ کی زندگی وحیانی ہے۔

منابع اسلامی میں لفظ سیاست

دینِ اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔ جو شخص دین کو سیاست سے الگ سمجھتا ہے یا تو اسے علم نہیں ہے کہ سیاست اور دین کیا ہے اور نادان ہے۔ یا دین کا دشمن ہے اور اسے سیاست سے الگ کر کے معاشرے کو بے دینوں کے حوالے کر دینا چاہتا ہے۔

سیاست کا لفظ قر آن کریم میں وارد نہیں ہوا۔ لیکن روایات اور دینی منابع میں سیاست  کا لفظ کثرت سے وارد ہوا ہے۔ اکثر جگہوں پر تربیت اور تدبیر کے معنی میں وارد ہوا ہے۔ ذیل میں چند روایات کی طرف شارہ کیا جا رہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت منسوب ہے جس میں فرماتے ہیں:

«کَانَ بَنُو إِسْرَائِیلَ تَسُوسُهُمْ أَنْبِیَاؤُهُمْ».

ترجمہ: بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے۔[17]

امیرالمومنینؑ کے کلام میں ہمیں لفظ سیاست کثرت سے ملتا ہے۔ بری سیاست کا معیار بتاتے ہوۓ امام فرماتے ہیں:

«بِئسَ السِّیاسَةُ الجَورُ».

ترجمہ: ظلم کرنا بری سیاست ہے۔[18]

امیرالمومنینؑ سیاست کی زیبائی بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

«جَمالُ السِّیاسَةِ العَدلُ فی الإمرَةِ ، و العَفوُ مَعَ القُدرَةِ».

ترجمہ: سیاست کی زیبائی اس میں ہے کہ امر حکومت میں عدل سے کام لیا جاۓ۔ اور اس حال میں کہ قدرت موجود ہو بخش دیا جاۓ۔[19]

ایک اور روایت میں آیا ہے:

«حُسنُ السِّیاسَةِ قِوامُ الرَّعِیَّةِ».

ترجمہ: سیاست کی خوبی ہی قوم کے استحکام کی بنیاد ہے۔[20]

مزید فرماتے ہیں:

«حُسنُ السِّیاسَةِ یَستَدِیمُ الرِّیاسةَ».

ترجمہ: سیاست کا اچھا ہونا ریاست کی پایندگی کا باعث ہے۔[21]

ایک جگہ پر امیرالمومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شخص کی سیاست اچھی ہو اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے: وارد ہوا ہے:

«مَن حَسُنَت سِیاسَتُهُ وَجَبَت اِطَاعَتُه».

ترجمہ: جس کی سیاست اچھی ہو اس کی اطاعت واجب ہے۔ [22]

امیرالمومنینؑ کے نزدیک اچھی سیاست کس کی ہے؟ یا سیاست کا معیار کیا ہے؟ امام فرماتے ہیں:

«مِلاکُ السِّیاسَةِ العَدلُ».

ترجمہ: سیاست کا معیار (اساس) عدالت ہے۔ [23]

ایک اور ارشاد میں امام فرماتے ہیں کہ صرف اس شخص کی سیاست کو قبول کرو جس نے خود کی تربیت کی ہو۔

«مَن ساسَ نَفسَهُ أدرَکَ السِّیاسَةَ».

ترجمہ: جس نے اپنے نفس کی سیاست (تربیت) کی اس کو لوگوں پر سیاست کرنے کا ادراک حاصل ہو گیا۔[24]

امیرالمومنینؑ حکمرانوں کا ضعف بیان کرتے ہوۓ بیان فرماتے ہیں:

«آفةُ الزُّعَماءِ ضَعْفُ السّیاسةِ».

ترجمہ: زعماء (حکمرانوں) کا سیاست (تدبیر) میں ضعیف ہونا آفت ہے۔[25]

امامؑ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو مدبر اور تربیت کرنا نہیں جانتا:

«مَن قَصُرَ عنِ السِّیاسَةِ صَغُرَ عنِ الرِّیاسةِ».

جو سیاست (تدبیر اور تربیت) نہیں کر سکتا وہ صدارت کے لائق نہیں۔[26]

نہج البلاغہ میں امیرالمومنینؑ امیر شام کے نامہ کے جواب میں فرماتے ہیں:

«وَ زَعَمتَ أَنّ أَفضَلَ النّاسِ فِی الإِسلَامِ فُلَانٌ وَ فُلَانٌ فَذَکَرتَ أَمراً إِن تَمّ اعتَزَلَکَ کُلُّهُ وَ إِنْ نَقَصَ لَمْ یَلْحَقْکَ ثَلْمُهُ وَ مَا أَنْتَ وَ الْفَاضِلَ وَ الْمَفْضُولَ وَ السَّائِسَ وَ الْمَسُوسَ!».

ترجمہ: تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلان اور فلان ہیں۔ یہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور غلط ہو تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور بھلا کہاں تم اور کہاں یہ بحث کون افضل ہے اور کون غیر افضل ہے؟ کون حاکم ہے اور کون رعایا!۔[27] 

ایک اور مکتوب میں امام نے امیر شام کو لکھا کہ تمہارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، فرماتے ہیں:

«وَمَتَی کُنْتُمْ یَا مُعَاوِیَهُ سَاسَهَ الرَّعِیَّهِ وَ وُلاَهَ أَمْرِ الْأُمَّهِ؟».

ترجمہ: اے معاویہ! بھلا تم لوگ کب رعیت پر  حکمرانی کی صلاحیت رکھتے تھے اور کب امت کے امور کے والی و سرپرست تھے؟ [28]

جیسا کہ گزشتہ روایات میں گزرا امیرالمومنینؑ عدل کو سیاست کا معیار قرار دیتے ہیں۔ اس جگہ بھی امام فرماتے ہیں کہ حکمرانی اور زمامداری کے لیے ہر شخص لائق نہیں بلکہ وہ شخص اس کی اہلیت رکھتا ہے جو سیاست جانتا ہو۔ اور سیاست کا معیار عدالت ہے جبکہ امیر شام نہ تو کوئی اچھا ماضی رکھتے تھے، شرافت اور نا کوئی بلند مقام۔ حضرت ان افراد پر شدید تنقید کرتے ہیں جو سیاست کو مکر حیلہ اور لوگوں کو فریب دینے کے معنی میں اس کی تشریح کرتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ کی نظر میں حقیقی سیاستدان وہ ہیں جو مملکت کی تدبیر الہی فرمان کے مطابق کرتے ہیں۔ میکاولی کی سیاست کے مطابق ذاتی مفادات کے حصول کے لیے جھوٹ، مکر و گناہ کی روش کو نہیں اپناتے۔ امام نے اپنے ایک خطبے میں امیر شام کو اس سیاست کا مصداق قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

«وَ اللَّهِ مَا مُعَاوِیَهُ بِأَدْهَی مِنِّی وَ لَکِنَّهُ یَغْدِرُ وَ یَفْجُرُ وَ لَوْ لاَ کَرَاهِیَهُ الْغَدْرِ لَکُنْتُ مِنْ أَدْهَی النَّاسِ وَ لَکِنْ کُلُّ غُدَرَهٍ فُجَرَهٌ وَ کُلُّ فُجَرَهٍ کُفَرَهٌ».

ترجمہ: خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا۔ اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار و زیرک ہوتا۔ لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الہی کی نافرمانی ہے۔[29]

امام حسنؑ سے منقول ہے:

«إنّ اللَّه تعالى نَدَبَنا لِسِیاسَةِ الامَّةِ».

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں امت کی سیاست کا ادب سکھایا۔[30]

امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے:

«إنّ اللّهَ عزّ و جلّ أدّبَ نبیَّه فأحسنَ أدبَهُ، فلَمّا أکمَلَ لَهُ الأدبَ قالَ: «و إنّکَ لَعلَى خُلُقٍ عظیمٍ» ثمّ فَوّضَ إلیهِ أمرَ الدِّینِ و الاُمّة لِیَسُوسَ عِبادَهُ».

ترجمہ: الله تعالی نے اپنے نبی کی تربیت کی اور بہت احسن انداز سے تربیت کی۔ اور جب تربیت کمال کے مرحلے تک پہنچ گئی تو فرمایا: «و إنّکَ لَعلَى خُلُقٍ عظیمٍ» اور پھر دین ار امت کا امر ان کے سپرد کر دیا تاکہ اس کے بندوں کی تدبیر (سیاست) کر سکیں۔[31]

ایک روایت میں امام رضاؑ صفات امام بیان کرتے ہوۓ ارشاد فرماتے ہیں:

«مُضْطَلِعٌ بالإمامةِ، عالِمٌ بالسِّیاسَةِ».

ترجمہ: وہ جو امامت کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور سیاست کا علم رکھنے والا ہوتا ہے۔[32]

زیارت جامعہ کبیرہ میں امام ہادی نقیؑ نے اہلبیت علیہم السلام کا تعارف کرواتے ہوۓ فرمایا:

«وَ قَادَةَ الْأُمَمِ وَ أَوْلِیَاءَ النِّعَمِ وَ عَنَاصِرَ الْأَبْرَارِ وَ دَعَائِمَ الْأَخْیَارِ وَ سَاسَةَ الْعِبَادِ وَ أَرْکَانَ الْبِلَادِ».

ترجمہ: اور (سلام ہو)  آپ قوموں کے پیشوا ،نعمتوں کے بانٹنے والے، سرمایۂ نیکو کاران، پارساؤں کے ستون، بندوں کے لیے تدبیر کار، آبادیوں کے سردار ہیں۔[33]

سیاست کا منفی معنی میں استعمال

ہمارے معاشروں میں سیاست کو  عام طور پر برا تصور کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ شریف آدمی کا سیاست سے کیا کام؟ سیاست تو خدانخواستہ ایسے افراد کا کام ہے جو دین سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ قدرت اور زور زبردستی سے عوام پر ظلم کرنے والے افراد سیاست کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاست کو برا کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سوچ کیسے پیدا ہوئی کہ سیاست برا عمل ہے؟ جبکہ ہم نے روایات میں دیکھا کہ سیاست تو عین عبادت ہے۔ انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ حقیقی سیاست دان ہیں۔ یقینا اگر یہ روایات موجود نہ ہوتیں تو کبھی بھی یقین نہ کرتے کہ واقعا سیاست بھی کوئی اچھی چیز ہے۔ علامہ تقی جعفریؒ اس کی وجہ بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

’’بشری تعاملات نے بہت سے الفاظ اور کلمات کی قداست اور عظمت کو چھین لیا۔ ان میں سے چند الفاظ آزادی، استعمار، اور سیاست ہیں۔خود لفظ آزادی تو برا معنی نہیں ہے لیکن آج کے دور میں جب آزادی بولا جاتا ہے تو اس سے مراد فحاشی، اقدار انسانی کے برخلاف کام ذہن میں آتے ہیں، یا کلمہ استعمار خود کوئی برا معنی نہیں رکھتا، کیونکہ استعمار کے لغوی معنی تو آبادکاری اور عمران کے ہیں۔ لیکن آج جب استعمار کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اسے مراد کسی ملک کو تباہ کرنا، اس کو غارت کرنا ہوتا ہے۔ کلمہ سیاست بھی اسی وجہ سے بدنام ہوا کہ اس کے توسط سے لوگوں نے فرصت طلبی، حیلہ گری، مکاری، زورگوئی اور منفی افعال انجام دیے۔[34]

معلوم ہوا خود سیاست، آزادی اور استعمار برا نہیں ہے بلکہ ان کلمات سے جو غلط استفادہ ہوا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کلمات کو ہی منفی معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں حتی بعض خواص بھی سیاست کو برا سمجھتے ہیں اور خود کو اس سے ہمیشہ دور کرتے ہیں۔

اہل طاغوت کی سیاست

اب تک ہمارے پاس سیاست کی دو اشکال سامنے آئی ہیں۔ ایک وہ سیاست ہے جو مثبت معنی میں ہے۔ ایک سیاست منفی معنی میں بھی موجود ہے جس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔

محمد عبدہ کی سیاست سے کنارہ کشی 

شیخ جمال الدین افغانی کے شاگر محمد عبدہ مصر کی مشہور و معروف مصلح شخصیت ہیں۔ آپ سلاطین کی ظالمانہ سیاست سے بیزار ہو کر آخر عمر میں سیاست سے کنارہ کش ہو گئے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

«اعوذ بالله من السیاسة و من لفظ السیاسة و من معنی السیاسة».

میں سیاست سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں سیاست کے لفظ سے اور سیاست کے معنی سے۔[35]

سید جعفر کاشف الغطا کی سیاست 

جب آپ پوچھا گیا کہ آپ سیاست میں دخالت کیوں کرتے ہیں جب کہ سیاست تو آپ جیسے افراد کا کام نہیں۔ آپ نے جواب دیا:

’’اگر سیاست کا معنی لوگوں کی خدمت، اور حاکم طبقے کو فساد اور ظلم سے روکنا ہے تو میں سر تا پیر سیاست میں غرق ہوں لیکن اگر سیاست کا معنی فتنہ ایجاد کرنا، اغتشاش، برادر کشی کرنا تاکہ حکومت تک پہنچا جا سکے اس سے میں پناہ مانگتا ہوں۔ [36]

آیت اللہ کاشانی کا واقعہ 

امام خمینیؒ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن آیت اللہ ابو القاسم کاشانی سے زندان کے رئیس نے یہ سوال کیا کہ آپ سیاست میں دخالت کیوں کرتے ہیں؟ یہ کام آپ کی شان کے برخلاف ہے۔ اس رئیس نے ان سے کہہ کہا کہ سیاست دروغ گوئی ہے، دھوکہ اور فریب ہے۔ سیاست در اصل حرام زدگی ہے یہ کام آپ کے لیے نہیں۔ اسے ہم جیسے لوگوں کے لیے رہنے دیں۔ امام فرماتے ہیں کہ آیت اللہ کاشانی نے اسے کہا کہ یہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے یہ تم لوگوں کی سیاست ہے۔ لیکن اس سیاست کا اسلامی سیاست سے کسی قسم کا واسطہ نہیں۔ یہ شیطانی سیاست ہے۔ [37]

دین اور سیاست کا ربط

جیسا کہ بیان ہوا کہ سیاست ایک دینی فریضہ ہے۔ جو شخص دین پر عمل کرتا ہے یعنی وہ سیاستدان ہے۔ اور جو سیاستدان ہے وہ دیندار ہے۔ جس وقت ہم سیاسی عمل انجام دیتے ہیں عین دینی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جب ہم کوئی دینی عمل انجام دیتے ہیں گویا سیاسی عمل انجام دے رہے ہیں۔ امام خمینیؒ سیاست کو عین دین سمجھتے تھے، امام سے نقل ہے:

’’دین اسلام ایک سیاسی دین ہے۔ جس کا ہر حکم سیاسی ہے۔ حتی  اسلام نے جو عبادات مقرر فرمائی ہیں وہ بھی سیاسی ہیں۔اسلام بقیہ ادیان سے زیادہ اس معنی پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے ہر حکم میں سیاست مخلوط ہے۔ نماز میں سیاست مخلوط ہے، حج میں سیاست، زکات میں سیاست اور مملکت کی مدیریت میں بھی سیاست مخلوط ہے۔ [38]

صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی سیاست اور دین کے ربط کے متعلق بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ اگر دین کو سیاست سے جدا کر دیا جاۓ تو دین کے مقررات کی کوئی اجرائی ضمانت ہمارے پاس موجود نہ رہے گی۔ فرماتے ہیں:

’’چالیس ہجری معاویہ عراق آیا تو اس نے خطبے میں لوگوں سے کہا: «میں تم سے نماز روزہ کے کسی مسئلہ میں جنگ نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہوں تم پر صرف حکومت کروں»۔ معاویہ نے یہ بات کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دین اور سیاست جدا ہیں۔ اور میں دینی مقررات کے اجراء کے لیے کوئی ضمانت نہیں دونگا صرف حکومت کی بقاء کی کوشش کرونگا۔[39]

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی سیاست اور دین کے ربط کے متعلق فرماتے ہیں:

’’کچھ لوگ نادانستہ طور پر دین اور سیاست کی علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ یعنی وہ دین کو ویران گوشوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دیندار افراد صرف نصیحت و وعظ اور درس پر اکتفا کریں! نصیحت یہاں قدرت کے آگے کچھ نہیں کر سکتی۔ جو چیز سپر طاقتوں کو روک سکتی ہے، دھمکا سکتی ہے اور ظلم و فساد کا مقابلہ کر سکتی ہے، اسے اکھاڑ پھینک سکتی ہے یا ہلا سکتی ہے وہ الٰہی اور اسلامی طاقت ہے۔ یہ ایک سیاسی طاقت ہے جو اسلامی حکام کے اختیار میں ہے۔ امام زمان ارواحنا لہ الفداء، اقتدار اور قوت کے ساتھ، اپنے ایمان پر بھروسہ کرتے ہوۓ اور ان کے پیروکاروں اور دوستوں کے ایمان سے جو قدرت حاصل ہوگی اس کے ساتھ دنیا کے ستمکاروں کا گریبان پکڑیں گے اور ان کے محلوں کو ویران کریں گے‘‘۔[40]

نتیجہ

سیاست ایک مثبت امر ہے جس کا مطلب معاشرے کی بہتر مدیریت و تربیت کرنا ہے جسے دین نے ضروری قرار دیا ہے۔ سیاست کے بغیر معاشرہ اجتماعی طور پر کمال کو حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان ایک معاشرتی موجود ہے چار ناچار اسے اجتماعی شکل میں رہنا پڑتا ہے۔ اجتماعی شکل کے تحفظ کے لیے اسے سیاست کی ضرورت ہے۔ مغربی مفکرین معاشرے میں اقتدار حاصل کرنے کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ اسلامی مفکرین اور روایات میں سیاست کو اس لیے ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ معاشرے کی درست سمت میں ہدایت ممکن بنائی جا سکے۔

 

 

 

منابع:

↑1 ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۶، ص۱۰۸۔
↑2 فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج۷،ص۳۳۶۔
↑3 معجم الوسیط، ج۱، ص۴۶۳۔
↑4 اردو لغت۔
↑5 فارسی لغت۔
↑6 بنیاد ہای علم سیاست،ص۳۱۔
↑7 بنیاد ہای علم سیاست،ص۳۱تا۳۲۔
↑8 موریس ڈورگر، اصول علم سیاست، ترجمہ ابوالفضل قاضی، ص۳۔
↑9 جہاندی، علیرضا، سیاست بہ مثابہ اعمال قدرت، روزنامہ مردم سالاری، تہران، شماره ۱۳۷۱ دوم اردیبہشت ماه ۱۳۸۲۔
↑10 فارابی، ابو نصر، احصاء العلوم، ص۵۔
↑11 خواجہ طوسی، محمد بن محمد نصیر الدین، اخلاق ناصری، ص۱۲۔
↑12 مبانی علم سیاست، ص۲۷۔
↑13 مبانی علم سیاست، ص۲۷تا۲۸۔
↑14 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۸۔
↑15 جعفری، محمد تقی، حکمت اصول سیاسی اسلام، ص۴۸۔
↑16 جعفری، محمد تقی، حکمت اصول سیاسی اسلام، ص۴۸تا ۴۹۔
↑17 طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۷۸۔
↑18 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۱۰۔
↑19 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۴۱۔
↑20 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۴۴۔
↑21 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۴تا۳۴۵۔
↑22 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۹۲۔
↑23 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۷۰۲۔
↑24 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۹۱۔
↑25 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۲۷۹۔
↑26 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۶۲۱۔
↑27 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۸۔
↑28 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۸۔
↑29 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۰۰۔
↑30 قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، ج۲، ص۱۹۸۔
↑31 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۶۔
↑32 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۰۲۔
↑33 زیارت جامعہ کبیرہ۔
↑34 جعفری، محمد تقی، حکمت اصول سیاسی اسلام، ص۴۷تا۴۸۔
↑35 محمد عبدہ، رشید رضا، المنار، ج۸، ص۸۹۴۔
↑36 سائٹ علوم انسانی۔
↑37 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۶۔
↑38 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۹، ص۱۳۸۔
↑39 طباطبائی، محمد حسین، شیعہ در اسلام، ص۴۷۔
↑40  آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 April 22 ، 18:19
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

انبیاء علیہ السلام کا ہدف و ذمہ دارى فقط فقہى احکام بیان کرنا نہیں ، ایسی بات نہیں کہ مسائل اور فقہى احکام وحى کے ذریعے  رسول اکرمﷺ پرنازل ہوۓ ہیں انہوں نے اور آئمہ اطہارؑ نے ان مسائل کو بیان کرنا ہے۔ یعنى خداوند متعال نے ان کو بس اس لئے مبعوث کیا ہے کہ مسائل و فقہى احکام کو بغیر کسى سستى کے عوام تک پہنچا دیں۔ اور اہل بیت ؑ نے اس ذمہ دارى کو علماءکرام کے سپرد کر دیا کہ وہ بھى اس امانت کو عوام الناس تک بغیر کسى خیانت کے پہنچائیں۔ ’’الفقھاء امنا الرسل‘‘ کا مطلب فقط یہ نہیں کہ فقہاء کرام و علماء کرام مسائل و احکام پہنچانے میں انبیاء کے امین ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء و فقہاء کرام اساسى ترین وظیفہ پیامبران یعنى ایک ایسا اجتماعى نظام جو عدل کى بنیادوں پر قائم ہے اس کو معاشروں میں برقرار کرنے میں امین ہیں۔اسى مطلب کى طرف قرآن کریم میں بھى اشارہ موجود ہے۔ 

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.
(الحدید : ۲۵)

ترجمہ:

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔  حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ، ص:۸۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 October 21 ، 09:47
عون نقوی

امام خمینیؒ فرماتے ہیں:

یہ جملہ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا بہت بڑا جملہ ہے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جملے کا مطلب یہ ہیکہ ہمیشہ روتے رہیں لیکن اس جملے کا مطلب ہر گز یہ نہیں اس جملے کو دیکھنے کے بعد ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عاشورہ کے دن کربلا نے ایسا کیا اہم کردار ادا کیا ہے جس کے بعد اس زمین  کو ساری زمینوں پر فضیلت ملی ہے امام حسین علیہ السلام اپنے اہل خانہ اور چند اصحاب کے ساتھ کربلا تشریف لائے اور وہاں آپ نے یزید جیسے ظالم اور جابر حاکم کا مقابلہ کیا اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوکر اپنی جان تو قربان کر دی لیکن ظلم کو قبول نہیں کیا اور اپنا سر کٹا کر یزید کو شکست دے دی ہر جگہ ایسا ہونا چاہیے ہر دن ایسا ہونا چاہیے ہماری قوم کو  اور ہمیں ہر دن کو عاشورہ کا دن سمجھ کر ظلم کا مقابلہ کرنا چاہیے ہر جگہ کربلا ہے کربلا کا کردار ہمیں ادا کرنا ہوگا کربلا کسی ایک زمین سے مخصوص نہیں کربلا صرف ان 72 لوگوں سے مخصوص نہیں تھی بلکہ ہر جگہ کربلا ہے اور تمام زمینوں کو ظلم کے خلاف کربلا کی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی(رح) نے اس مشہور جملے کل یوم عاشورا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ جملہ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا بہت بڑا جملہ ہے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جملے کا مطلب یہ ہیکہ ہمیشہ روتے رہیں لیکن اس جملے کا مطلب ہر گز یہ نہیں اس جملے کو دیکھنے کے بعد ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عاشورہ کے دن کربلا نے ایسا کیا اہم کردار ادا کیا ہے جس کے بعد اس زمین  کو ساری زمینوں پر فضیلت ملی ہے امام حسین علیہ السلام اپنے اہل خانہ اور چند اصحاب کے ساتھ کربلا تشریف لائے اور وہاں آپ نے یزید جیسے ظالم اور جابر حاکم کا مقابلہ کیا اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوکر اپنی جان تو قربان کر دی لیکن ظلم کو قبول نہیں کیا اور اپنا سر کٹا کر یزید کو شکست دے دی ہر جگہ ایسا ہونا چاہیے ہر دن ایسا ہونا چاہیے ہماری قوم کو  اور ہمیں ہر دن کو عاشورہ کا دن سمجھ کر ظلم کا مقابلہ کرنا چاہیے ہر جگہ کربلا ہے کربلا کا کردار ہمیں ادا کرنا ہوگا کربلا کسی ایک زمین سے مخصوص نہیں کربلا صرف ان 72 لوگوں سے مخصوص نہیں تھی بلکہ ہر جگہ کربلا ہے اور تمام زمینوں کو ظلم کے خلاف کربلا کی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام حسینؑ کے مصائب پر ہمیشہ رویا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظلم کے مقابلے میں ہمیشہ ڈٹے رہا جائےاگرچہ آپ نے دوسری جگہوں پر اس جملہ کی کچھ اور تفسیر بھی بیان کی ہے۔شہید مطہری نے تحریک کربلا میں امام حسینؑ کی حقیقی کامیابی بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تحریک، ہمیشہ نئی کامیابی حاصل کرتی رہتی ہے۔اور "کُلُّ یَومٍ عاشورا" کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن امام حسین کے نام پر کسی ظلم و ستم سے مقابلہ ہوتا رہتا ہے اور حق اور عدل و انصاف زندہ کیا جاتا ہے۔آیت اللہ خامنہ نے بھی اس جملے کی یہ تفسیر کی ہے کہ ہر دور میں انسانوں کا ایک کردار ہوتا ہے، اگر اس کردار کو صحیح طریقے سے، مناسب لمحات میں اور اپنے وقت پر، انجام دے دیں تو ہر چیز درست ہو جائے گی، قومیں ترقی کریں گی اور انسانیت پھیل جائے گی۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ اردو۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 14:37
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ میں اگر کسی عمامہ پوش عالم دین کی طرفداری کرتا ہوں تو چونکہ خود میرے سر پر بھی عمامہ ہے، اس لیے دوسرے عالم کی طرفداری کر رہا ہوں اور پارٹی بازی کرتا ہوں!! ہر وہ شخص جس نے سر پہ عمامہ اوڑھ رکھا ہو اور خود کو عالم کہتا ہو ہم اس کے طرفدار نہیں۔ میں نے تکراراً عرض کیا ہے کہ اگر ایک عالم دین، روحانیت اور دین اسلام کے برخلاف عمل کرے تو وہ ساواکی ایجنسی کے درندوں سے بھی بدتر ہے، کیونکہ ساواکی تو پھر بھی ساواکی ہے لیکن یہ دینی لباس میں چھپا ہوا ساواکی ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ ہر وہ شخص جس کے سر پر عمامہ ہے وہ قابل اعتماد ہو، ایسا ہر گز نہیں، ان علماء میں بہت سے ایسے ہیں جن سے متنفر اور بیزار ہوں اور ان میں سے بہت سوں کا اصلا قائل نہیں ہوں۔(۱)

 


حوالہ:
١۔ خمینی، روح اللہ موسوی، صحیفہ امام، ج١٣، ص٣٦٠۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:58
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے ولی عصر کا جلد ظہور فرماۓ اور ہماری آنکھوں کو ان کے جمال مقدس سے روشن فرمائے۔ ہم سب انتظارِ فرج میں ہیں، انتظارِ فرج سے مراد دین اسلام کا پورے عالَم میں قدرت پیدا کرنا ہے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام پورے عالم میں مقتدر ہو جائے تاکہ مقدمات ظہور آہستہ آہستہ پورے ہوں اور وہ آنے والا آ جائے۔ (۱)

 


حوالہ:
١۔ خمینی، سید روح اللہ، صحیفہ نور، ج٧، ص٢٥٦۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:44
عون نقوی