بصیرت اخبار

نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۰

Thursday, 2 March 2023، 07:25 PM

رُوِیَ عَنْ نَّوْفِ الْبِکَالِیِّ، قَالَ: خَطَبَنَا ھٰذِہِ الْخُطْبَۃَ بِالْکُوْفَۃِ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ وَ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى حِجَارَةٍ نَّصَبَهَا لَهٗ جَعْدَةُ بْنُ هُبَیْرَةَ الْمَخْزُوْمِیُّ، وَ عَلَیْهِ مِدْرَعَةٌ مِّنْ صُوْفٍ، وَ حَمَآئِلُ سَیْفِهٖ لِیْفٌ، وَ فِیْ رِجْلَیْهِ نَعْلَانِ مِنْ لِّیْفٍ، وَ کَاَنَّ جَبِیْنَهٗ ثَفِنَةُ بَعِیْرٍ،. فَقَالَ ؑ:

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: حضرتؑ نے یہ خطبہ ہمارے سامنے کوفہ میں اس پتھر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جسے جعدہ ابن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا۔ اس وقت آپؑ کے جسم مبارک پر ایک اونی جُبہّ تھا اور آپؑ کی تلوار کا پرتلہ لیف خرما کا تھا اور پیروں میں جوتے بھی کھجور کی پتیوں کے تھے اور (سجدوں کی وجہ سے) پیشانی یوں معلوم ہوتی تھی جیسے اونٹ کے گھٹنے پر کا گھٹا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ مَصَآئِرُ الْخَلْقِ، وَ عَوَاقِبُ الْاَمْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰی عَظِیْمِ اِحْسَانِهٖ، وَ نَیِّرِ بُرْهَانِهٖ، وَ نَوَامِیْ فَضْلِهٖ وَ امْتِنَانِهٖ، حَمْدًا یَّکُوْنُ لِحَقِّهٖ قَضَآءً، وَ لِشُکْرِهٖۤ اَدَآءً، وَ اِلٰی ثَوَابِهٖ مُقَرِّبًا، وَ لِحُسْنِ مَزِیْدِهٖ مُوْجِبًا.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی طرف تمام مخلوق کی بازگشت اور ہر چیز کی انتہا ہے۔ ہم اس کے عظیم احسان، روشن و واضح برہان اور اس کے لطف و کرم کی افزائش پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ ایسی حمد کہ جس سے اس کا حق پورا ہو اور شکر ادا ہو اور اس کے ثواب کے قریب لے جانے والی اور اس کی بخششوں کو بڑھانے والی ہو۔

وَ نَسْتَعِیْنُ بِهِ اسْتِعَانَةَ رَاجٍ لِّفَضْلِهٖ، مُؤَمِّلٍ لِّنَفْعِهٖ، وَاثِقٍۭ بِدَفْعِهٖ، مُعْتَرِفٍ لَّهٗ بِالطَّوْلِ، مُذْعِنٍ لَّهٗ بِالْعَمَلِ وَ الْقَوْلِ.

ہم اس سے اس طرح مدد مانگتے ہیں جس طرح اس کے فضل کا امیدوار، اس کے نفع کا آرزو مند، (دفع بلیات کا) اطمینان رکھنے والا اور بخشش و عطا کا معترف اور قول و عمل سے اس کا مطیع و فرمانبردار اس سے مدد چاہتا ہو۔

وَ نُؤْمِنُ بِهٖۤ اِیْمَانَ مَنْ رَّجَاهُ مُوْقِنًا، وَ اَنَابَ اِلَیْهِ مُؤْمِنًا، وَ خَنَعَ لَهٗ مُذْعِنًا، وَ اَخْلَصَ لَهٗ مُوَحِّدًا، وَ عَظَّمَهٗ مُمَجِّدًا، وَ لَاذَ بِهٖ رَاغِبًا مُّجْتَهِدًا.

اور ہم اس شخص کی طرح اس پر ایمان رکھتے ہیں جو یقین کے ساتھ اس سے آس لگائے ہو اور ایمان (کامل) کے ساتھ اس کی طرف رجوع ہو اور اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ اس کے سامنے عاجزی و فروتنی کرتا ہو اور اسے ایک جانتے ہوئے اس سے اخلاص برتتا ہو اور سپاس گزاری کے ساتھ اسے بزرگ جانتا ہو اور رغبت و کوشش سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈتا ہو۔

لَمْ یُوْلَدْ سُبْحَانَهٗ فَیَکُوْنَ فِی الْعِزِّ مُشَارَکًا، وَ لَمْ یَلِدْ فَیَکُوْنَ مَوْرُوْثًا هَالِکًا، وَ لَمْ یَتَقَدَّمْهُ وَقْتٌ وَّ لَا زَمَانٌ، وَ لَمْ یَتَعَاوَرْهُ زِیَادَةٌ وَّ لَا نُقْصَانٌ، بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُوْلِ بِمَاۤ اَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِیْرِ الْمُتْقَنِ، وَ الْقَضَآءِ الْمُبْرَمِ.

اس کا کوئی باپ نہیں کہ وہ عزت و بزرگی میں اس کا شریک ہو، نہ اس کے کوئی اولاد ہے کہ اسے چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہو جائے اور وہ اس کی وارث ہو جائے، نہ اس کے پہلے وقت اور زمانہ تھا، نہ اس پر یکے بعد دیگرے کمی اور زیادتی طاری ہوتی ہے، بلکہ جو اس نے مضبوط نظام (کائنات) اور اٹل احکام کی علامتیں ہمیں دکھائی ہیں، ان کی وجہ سے وہ عقلوں کیلئے ظاہر ہوا ہے۔

فَمِنْ شَوَاهِدِ خَلْقِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ مُوَطَّدَاتٍۭ بِلَا عَمَدٍ، قَآئِمَاتٍۭ بِلَا سَنَدٍ، دَعَاهُنَّ فَاَجَبْنَ طَآئِعَاتٍ مُّذْعِنَاتٍ، غَیْرَ مُتَلَکِّئَاتٍ وَّ لَا مُبْطِئَاتٍ، وَ لَوْلَا اِقْرَارُهُنَّ لَهٗ بِالرُّبُوْبِیَّةِ وَ اِذْعَانُهُنَّ لَہٗ بِالطَّوَاعِیَةِ، لَمَا جَعَلَهُنَّ مَوْضِعًا لِّعَرْشِهٖ، وَ لَا مَسْکَنًا لِّمَلٰٓئِکَتِهٖ، وَ لَا مَصْعَدًا لِّلْکَلِمِ الطَّیِّبِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ خَلْقِهٖ.

چنانچہ اس آفرنیش پر گواہی دینے والوں میں آسمانوں کی خلقت ہے کہ جو بغیر ستونوں کے ثابت و برقرار اور بغیر سہارے کے قائم ہیں۔ خداوند عالم نے انہیں پکارا تو یہ بغیر کسی سستی اور توقف کے اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے لبیک کہہ اٹھے۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتے اور اس کے سامنے سر اطاعت نہ جھکاتے تو وہ انہیں اپنے عرش کا مقام اور اپنے فرشتوں کا مسکن اور پاکیزہ کلموں اور مخلوق کے نیک عملوں کے بلند ہونے کی جگہ نہ بناتا۔

جَعَلَ نُجُوْمَهَاۤ اَعْلَامًا یَّسْتَدِلُّ بِهَا الْحَیْرَانُ فِیْ مُخْتَلِفِ فِجَاجِ الْاَقْطَارِ، لَمْ یَمْنَعْ ضَوْءَ نُوْرِهَا ادْلِهْمَامُ سُجُفِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، وَ لَا اسْتَطَاعَتْ جَلَابِیْبُ سَوَادِ الْحَنَادِسِ اَنْ تَرُدَّ مَا شَاعَ فِی السَّمٰوٰتِ مِنْ تَلَاْلُؤِ نُوْرِ الْقَمَرِ.

اللہ نے ان کے ستاروں کو ایسی روشن نشانیاں قرار دیا ہے کہ جن سے حیران و سرگرداں اطراف زمین کی راہوں میں آنے جانے کیلئے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اندھیری رات کی اندھیاریوں کے سیاہ پردے ان کے نور کی ضوپاشیوں کو نہیں روکتے اور نہ شب ہائے تاریک کی تیرگی کے پردے یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ آسمانوں میں پھیلی ہوئی چاند کے نور کی جگمگاہٹ کو پلٹا دیں۔

فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا یَخْفٰی عَلَیْهِ سَوَادُ غَسَقٍ دَاجٍ، وَّ لَا لَیْلٍ سَاجٍ، فِیْ بِقَاعِ الْاَرَضِیْنَ الْمُتَطَاْطِئَاتِ، وَ لَا فِیْ یَفَاعِ السُّفْعِ الْمُتَجَاوِرَاتِ، وَ مَا یَتَجَلْجَلُ بِهِ الرَّعْدُ فِیْۤ اُفُقِ السَّمَآءِ، وَ مَا تَلَاشَتْ عَنْهُ بُرُوْقُ الْغَمَامِ، وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ تُزِیْلُهَا عَنْ مَّسْقَطِهَا عَوَاصِفُ الْاَنْوَآءِ وَ انْهِطَالُ السَّمَآءِ! وَ یَعْلَمُ مَسْقَطَ الْقَطْرَةِ وَ مَقَرَّهَا، وَ مَسْحَبَ الذَّرَّةِ وَ مَجَرَّهَا، وَ مَا یَکْفِی الْبَعُوْضَةَ مِنْ قُوْتِهَا، وَ مَا تَحْمِلُ الْاُنْثٰی فِیْ بَطْنِهَا.

پاک ہے وہ ذات جس پر پست زمین کے قطعوں اور باہم ملے ہوئے سیاہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں اندھیری رات کی اندھیاریاں اور پرسکون شب کی ظلمتیں پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ اُفق آسمان میں رعد کی گرج اس سے مخفی ہے اور نہ وہ چیزیں کہ جن پر بادلوں کی بجلیاں کوند کر ناپید ہو جاتی ہیں اور نہ وہ پتے جو(ٹوٹ کر) گرتے ہیں کہ جنہیں (بارش کے)نچھتروں کی تند ہوائیں اور موسلا دھار بارشیں ان کے گرنے کی جگہ سے ہٹا دیتی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ بارش کے قطرے کہاں گریں گے اور کہاں ٹھہریں گے اور چھوٹی چیونٹیاں کہاں رینگیں گی اور کہاں (اپنے کو) کھینچ کر لے جائیں گی اور مچھروں کو کون سی روزی کفایت کرے گی اور مادہ اپنے پیٹ میں کیا لئے ہوئے ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْکَآئِنِ قَبْلَ اَنْ یَّکُوْنَ کُرْسِیٌّ اَوْ عَرْشٌ، اَوْ سَمَآءٌ اَوْ اَرْضٌ، اَوْ جَانٌّ اَوْ اِنْسٌ. لَا یُدْرَکُ بِوَهْمٍ، وَ لَا یُقَدَّرُ بِفَهْمٍ، وَ لَا یَشْغَلُهٗ سَآئِلٌ، وَ لَا یَنْقُصُهٗ نَآئِلٌ، وَ لَا یَنْظُرُ بِعَیْنٍ، وَ لَا یُحَدُّ بِاَیْنٍ، وَ لَا یُوْصَفُ بِالْاَزْوَاجِ، وَ لَا یَخْلُقُ بِعِلَاجٍ، وَ لَا یُدْرَکُ بِالْحَوَاسِّ، وَ لَا یُقَاسُ بِالنَّاسِ، الَّذِیْ کَلَّمَ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا، وَ اَرَاهُ مِنْ اٰیَاتِهٖ عَظِیْمًا، بِلَا جَوَارِحَ وَ لَاۤ اَدَوَاتٍ، وَ لَا نُطْقٍ وَّ لَا لَهَوَاتٍ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو عرش و کرسی، زمین و آسمان اور جن و انس سے پہلے موجود تھا۔ نہ (انسانی) وہموں سے اسے جانا جا سکتا ہے اور نہ عقل و فہم سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اسے کوئی سوال کرنے والا (دوسرے سائلوں سے) غافل نہیں بناتا اور نہ بخشش و عطا سے اس کے ہاں کچھ کمی آتی ہے۔ وہ آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ کسی جگہ میں اس کی حد بندی ہو سکتی ہے۔ نہ ساتھیوں کے ساتھ اسے متصف کیا جا سکتا ہے اور نہ (اعضاء و جوارح کی) حرکت سے وہ پیدا کرتا ہے اور نہ حواس سے وہ جانا پہچانا جا سکتا ہے اور نہ انسانوں پر اس کا قیاس ہو سکتا ہے۔ وہ خدا کہ جس نے بغیر اعضاء و جوارح اور بغیر گویائی اور بغیر حلق کے کوؤں کو ہلائے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھلائیں۔

بَلْ اِنْ کُنْتَ صَادِقًا اَیُّهَا الْمُتَکَلِّفُ لِوَصْفِ رَبِّکَ، فَصِفْ جَبْرَئِیْلَ وَ مِیْکَآئِیْلَ وَ جُنُوْدَ الْمَلٰٓئِکَةِ الْمُقَرَّبِیْنَ، فِیْ حُجُرَاتِ الْقُدُسِ مُرْجَحِنِّیْنَ، مُتَوَلِّهَةً عُقُوْلُهُمْ اَنْ یَّحُدُّوْۤا اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ. فَاِنَّمَا یُدْرَکُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَیْئَاتِ وَ الْاَدَوَاتِ، وَ مَنْ یَّنْقَضِیْۤ اِذَا بَلَغَ اَمَدَ حَدِّهٖ بِالْفَنَآءِ. فَلَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، اَضَآءَ بِنُوْرِهٖ کُلَّ ظَلَامٍ، وَ اَظْلَمَ بِظُلْمَتِهٖ کُلَّ نُوْرٍ.

اے اللہ کی توصیف میں رنج و تعب اٹھانے والے! اگر تو (اس سے عہدہ برآہونے میں) سچا ہے تو پہلے جبرئیلؑ و میکائیلؑ اور مقرب فرشتوں کے لاؤ لشکر کا وصف بیان کر کہ جو پاکیزگی و طہارت کے حجروں میں اس عالم میں سر جھکائے پڑے ہیں کہ ان کی عقلیں ششدر و حیران ہیں کہ وہ اس بہترین خالق کی توصیف کر سکیں۔ صفتوں کے ذریعے وہ چیزیں جانی پہچانی جاتی ہیں جو شکل وصورت اور اعضاء و جوارح رکھتی ہوں اور وہ کہ جو اپنی حد انتہا کو پہنچ کر موت کے ہاتھوں ختم ہو جائیں۔ اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس نے اپنے نور سے تمام تاریکیوں کو روشن و منور کیا اور ظلمت (عدم) سے ہر نور کو تیرہ و تار بنادیا ہے۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِیْ اَلْبَسَکُمُ الرِّیَاشَ، وَ اَسْبَغَ عَلَیْکُمُ الْمَعَاشَ، فَلَوْ اَنَّ اَحَدًا یَّجِدُ اِلَی الْبَقَآءِ سُلَّمًا، اَوْ لِدَفْعِ الْمَوْتِ سَبِیْلًا، لَکَانَ ذٰلِکَ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوٗدَ ؑ، الَّذِیْ سُخِّرَ لَهٗ مُلْکُ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ، مَعَ النُّبُوَّۃِ وَ عَظِیْمِ الزُّلْفَةِ، فَلَمَّا اسْتَوْفٰی طُعْمَتَهٗ، وَ اسْتَکْمَلَ مُدَّتَهٗ، رَمَتْهُ قِسِیُّ الْفَنَآءِ بِنِبَالِ الْمَوْتِ، وَ اَصْبَحَتِ الدِّیَارُ مِنْهُ خَالِیَةً، وَ الْمَسَاکِنُ مُعَطَّلَةً، وَ وَرِثَهَا قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.

اللہ کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تم کو لباس سے ڈھانپا اور ہر طرح کا سامانِ معیشت تمہارے لئے مہیا کیا۔ اگر کوئی دنیوی بقا (کی بلندیوں پر) چڑھنے کا زینہ یا موت کو دور کرنے کا راستہ پا سکتا ہوتا تو وہ سلیمان ابن داؤد علیہما السلام ہوتے کہ جن کیلئے نبوت و انتہائے تقرب کے ساتھ جن و انس کی سلطنت قبضہ میں دے دی گئی تھی، لیکن جب وہ اپنا آب و دانہ پورا اور اپنی مدت (حیات) ختم کر چکے تو فنا کی کمانوں نے انہیں موت کے تیروں کی زد پر رکھ لیا، گھر ان سے خالی ہو گئے اور بستیاں اجڑ گئیں اور دوسرے لوگ ان کے وارث ہو گئے۔

وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْقُرُوْنِ السَّالِفَةِ لَعِبْرَةً! اَیْنَ الْعَمَالِقَةُ وَ اَبْنَآءُ الْعَمَالِقَةِ! اَیْنَ الْفَرَاعِنَةُ وَاَبْنَآءُ الْفَرَاعِنَةِ! اَیْنَ اَصْحَابُ مَدَآئِنِ الرَّسِّ الَّذِیْنَ قَتَلُوا النَّبِیِّیْنَ، وَاَطْفَاُوْا سُنَنَ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاَحْیَوْا سُنَنَ الْجَبَّارِیْنَ! اَیْنَ الَّذِیْنَ سَارُوْا بِالْجُیُوْشِ، وَ هَزَمُوا الْاُلُوْفَ، وَعَسْکَرُوا الْعَسَاکِرَ، وَمَدَّنُوا الْمَدَآئِنَ!.

تمہارے لئے گزشتہ دوروں (کے ہر دور)میں عبرتیں (ہی عبرتیں) ہیں۔ (ذرا سوچو تو کہ) کہاں ہیں عمالقہ اور ان کے بیٹے؟ اور کہاں ہیں فرعون اور ان کی اولادیں؟ کہاں ہیں اصحاب الرس کے شہروں کے باشندے؟ جنہوں نے نبیوں کو قتل کیا، پیغمبروں کے روشن طریقوں کو مٹایا اور ظالموں کے طور طریقوں کو زندہ کیا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکروں کو لے کر بڑھے؟ ہزاروں کو شکست دی اور فوجوں کو فراہم کرکے شہروں کو آباد کیا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا ہے]

قَدْ لَبِسَ لِلْحِکْمَةِ جُنَّتَهَا، وَ اَخَذَهَا بِجَمِیْعِ اَدَبِهَا، مِنَ الْاِقْبَالِ عَلَیْهَا، وَ الْمَعْرِفِةِ بِهَا، وَ التَّفَرُّغِ لَهَا، فَهِیَ عِنْدَ نَفْسِهٖ ضَالَّتُهُ الَّتِیْ یَطْلُبُهَا، وَ حَاجَتُهُ الَّتِیْ یَسْئَلُ عَنْهَا، فَهُوُ مُغْتَرِبٌ اِذَا اغْتَرَبَ الْاِسْلَامُ، وَ ضَرَبَ بِعَسِیْبِ ذَنَۢبِهٖ، وَ اَلْصَقَ الْاَرْضَ بِجِرَانِهٖ، بَقِیَّةٌ مِّنْ بَقَایَا حُجَّتِهٖ، خَلِیْفَةٌ مِّنْ خَلَآئِفِ اَنْۢبِیَآئِهٖ.

وہ حکمت کی سپر پہنے ہو گا اور اس کو اس کے تمام شرائط و آداب کے ساتھ حاصل کیا ہو گا (جو یہ ہیں کہ:)ہمہ تن اس کی طرف توجہ ہو، اس کی اچھی طرح شناخت ہو اور دل (علائق دنیا سے) خالی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے نزدیک اسی کی گمشدہ چیز اور اسی کی حاجت و آرزو ہے کہ جس کا وہ طلبگار و خواستگار ہے۔ وہ اس وقت (نظروں سے اوجھل ہو کر) غریب و مسافر ہو گا کہ جب اسلام عالم غربت میں اور مثل اس اونٹ کے ہو گا جو تھکن سے اپنی دم زمین پر مارتا ہو اور گردن کا اگلا حصہ زمین پر ڈالے ہوئے ہو۔ وہ اللہ کی باقی ماندہ حجتوں کا بقیہ اور انبیاءؑ کے جانشینوں میں سے ایک وارث و جانشین ہے۔

ثُمَّ قَالَ ؑ:

اس کے بعد حضرتؑ نے فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ قَدْ بَثَثْتُ لَکُمُ الْمَوَاعِظَ الَّتِیْ وَعَظَ الْاَنْۢبِیَآءُ بِهَا اُمَمَهُمْ، وَ اَدَّیْتُ اِلَیْکُمْ مَاۤ اَدَّتِ الْاَوْصِیَآءُ اِلٰی مَنْۢ بَعْدَهُمْ، وَ اَدَّبْتُکُمْ بِسَوْطِیْ فَلَمْ تَسْتَقِیْمُوْا، وَ حَدَوْتُکُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوْا.

اے لوگو! میں نے تمہیں اسی طرح نصیحتیں کی ہیں جس طرح کی انبیاءؑ اپنی اُمتوں کو کرتے چلے آئے ہیں اور ان چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاءؑ بعد والوں تک پہنچایا کئے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر وتو بیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم یکجا نہ ہوئے۔

لِلّٰهِ اَنْتُمْ! اَتَتَوَقَّعُوْنَ اِمَامًا غَیْرِیْ یَطَاُ بِکُمُ الطَّرِیْقَ، وَ یُرْشِدُکُمُ السَّبِیْلَ؟.

اللہ تمہیں سمجھے! کیا میرے علاوہ کسی اور امام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائے اور صحیح راستہ دکھائے؟۔

اَلَاۤ اِنَّهٗ قَدْ اَدْبَرَ مِنَ الدُّنْیَا مَا کَانَ مُقْبِلًا، وَ اَقْبَلَ مِنْهَا مَا کَانَ مُدْبِرًا، وَ اَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللهِ الْاَخْیَارُ، وَ بَاعُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الدُّنْیَا لَا یَبْقٰی، بِکَثِیْرٍ مِّنَ الْاٰخِرَةِ لَایَفْنٰی.

دیکھو! دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں پیٹھ پھرا لی اور جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کر لیا، اللہ کے نیک بندوں نے (دنیا سے) کوچ کرنے کا تہیہ کر لیا اور فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔

مَا ضَرَّ اِخْوَانَنَا الَّذِیْنَ سُفِکَتْ دِمَآؤُهُمْ ـ وَ هُمْ بِصِفِّیْنَ ـ اَنْ لَّا یَکُوْنُوا الْیَوْمَ اَحْیَآءً؟ یُسِیْغُوْنَ الْغُصَصَ، وَ یَشْرَبُوْنَ الرَّنْقَ! قَدْ ـ وَاللهِ ـ لَقُوا اللهَ فَوَفَّاهُمْ اُجُوْرَهُمْ، وَ اَحَلَّهُمْ دَارَ الْاَمْنِ بَعْدَ خَوْفِهِمْ.

بھلا اُن ہمارے بھائی بندوں کو کہ جن کے خون صفین میں بہائے گئے اس سے کیا نقصان پہنچا کہ وہ آج زندہ موجود نہیں ہیں؟ (یہی نہ کہ اگر وہ ہوتے) تو تلخ گھونٹوں کو گوارا کرتے اور گدلا پانی پیتے۔ خدا کی قسم! وہ خدا کے حضور میں پہنچ گئے، اس نے ان کو پورا پورا اجر دیا اور خوف و ہراس کے بعد انہیں امن چین والے گھر میں اتارا۔

اَیْنَ اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ رَکِبُوا الطَّرِیْقَ، وَ مَضَوْا عَلَی الْحَقِّ؟ اَیْنَ عَمَّارٌ؟ وَ اَیْنَ ابْنُ التَّیِّهَانِ؟ وَ اَیْنَ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ؟ وَ اَیْنَ نُظَرَآؤُهُمْ مِنْ اِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ تَعَاقَدُوْا عَلَی الْمَنِیَّةِ، وَ اُبْرِدَ بِرُؤُوْسِهِمْ اِلَی الْفَجَرَةِ؟.

کہاں ہیں؟وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے اور حق پر گزر گئے۔ کہاں ہیں عمار؟ اور کہاں ہیں ابن تیہان؟ اور کہاں ہیں ذو الشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان کے ایسے اور دوسرے بھائی؟ کہ جو مرنے پر عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا۔

قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدِهٖۤ عَلٰی لِحْیَتِهِ الشَّرِیْفَةِ الْکَرِیْمَةِ، فَاَطَالَ الْبُکَآءَ، ثُمَّ قَالَ ؑ:

نوف کہتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرتؑ نے اپنا ہاتھ ریش مبارک پر پھیرا اور دیر تک رویا کئے اور پھر فرمایا:

اَوْهِ عَلٰۤی اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ تَلَوُا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْهُ، وَ تَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَاَقَامُوْهُ، اَحْیَوُا السُّنَّةَ، وَ اَمَاتُوا الْبِدْعَةَ، دُعُوْا لِلْجِهَادِ فَاَجَابُوْا، وَ وَثِقُوْا بِالْقَآئِدِ فَاتَّبَعُوْہُ.

آہ! میرے وہ بھائی کہ جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اسے مضبوط کیا، اپنے فرائض میں غور و فکر کیا تو انہیں ادا کیا، سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتارا، جہاد کیلئے انہیں بلایا گیا تو انہوں نے لبیک کہی اور اپنے پیشوا پر یقین کامل کے ساتھ بھروسا کیا تو اس کی پیروی بھی کی۔

ثُمَّ نَادٰی بِاَعْلٰی صَوْتِهٖ:

اس کے بعد حضرتؑ نے بلند آواز سے پکار کر کہا:

اَلْجِهَادَ الْجِهَادَ عِبَادَ اللهِ! اَلَا وَ اِنِّیْ مُعَسْکِرٌ فِیْ یَوْمِیْ هٰذَا، فَمَنْ اَرَادَ الرَّوَاحَ اِلَی اللهِ فَلْیَخْرُجْ.

جہاد! جہاد! اے بندگان خدا! دیکھو میں آج ہی لشکر کو ترتیب دے رہا ہوں۔ جو اللہ کی طرف بڑھنا چاہے وہ نکل کھڑا ہو۔

قَالَ نَوْفٌ: و عَقَدَ لِلْحُسَیْنِ ؑ فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، و لِقَیْسِ بْنِ سَعْدٍ -رَحِمَهُ اللهُ- فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، وَ لِاَبِیْۤ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، وَ لِغَیْرِهِمْ عَلٰی اَعْدَادٍ اُخَرَ، وَ هُوَ یُرِیْدُ الرَّجْعَةَ اِلٰی صِفِّیْنَ، فَمَا دَارَتِ الْجُمُعَةُ حَتّٰی ضَرَبَهُ الْمَلْعُوْنُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَّعَنَهُ اللهُ، فَتَرَاجَعَتِ الْعَسَاکِرُ، فَکُنَّا کَاَغْنَامٍ فَقَدَتْ رَاعِیَهَا، تَخْتَطِفُهَا الذِّئَابُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ!.

نوف کہتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرتؑ نے دس ہزار کی سپاہ پر حسین علیہ السلام کو اور دس ہزار کی فوج پر قیس ابن سعد کو اور دس ہزار کے لشکر پر ابو ایوب انصاری ؒ کو امیر بنایا اور دوسرے لوگوں کو مختلف تعداد کی فوجوں پر سالار مقرر کیا اور آپؑ صفین کی طرف پلٹ کر جانے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن ایک ہفتہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ ملعون ابن ملجم (لعنة اللہ) نے آپؑ کے (سر اقدس پر) ضرب لگائی جس سے یہ تمام لشکر پلٹ گئے اور ہماری حالت ان بھیڑ بکریوں کے مانند ہو گئی جو اپنے چرواہے کو کھو چکی ہوں اور بھیڑیے ہر طرف سے انہیں اُچک کر لے جا رہے ہوں۔


balagha.org

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی