بصیرت اخبار

نہضت کربلا

Sunday, 15 August 2021، 07:00 PM

نہضت کربلا میں وہ تیسرا گروہ جس کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے

کربلا میں ایک طرف سیدالشہداء اور ان کے ساتھی ہیں جو حق کا دفاع کرتے ہوۓ اپنا سب کچھ لٹا کر شہادت حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف یزیدی لشکر ہے جس نے آل رسولؐ پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ہمیشہ کے لیے لعنت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا۔ لیکن ان دو گروہ کے درمیان ایک تیسرا گروہ ہے جس کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے جبکہ یہ گروہ ایک کثرت پر مشتمل ہے جی کا تجزیہ تحلیل کرنا ضروری ہے۔ یہ تیسرا گروہ وہ ہے جو یزید کی فوج میں شامل ہوا اور نا امام حسینؑ کی نصرت کی۔ یہ گروہ خود چند اقسام میں تقسیم ہوتا ہے ان میں سے ایک قسم ان افراد کی ہے جو ظاہری اور حتی بعض مواقع پر دل سے سیدالشہداء علیہ السلام کے طرفدار اور ان سے محبت کرنے والے تھے لیکن ان کی یہ محبت ان کو کربلا میں کھینچ کر نہ لا سکی۔ 
اس تیسرے گروہ میں سب سے پہلی قسم ان افراد کی ہے جو اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ فقط اس لیے تھے کہ ان کو اپنا دنیوی فائدہ نظر آ رہا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بہرحال امت پر حق حاکمیت صرف آل رسولؐ کو حاصل ہے اور وہ اس حق کے لیے اور حکومت عدل و انصاف کے لیے تحریک چلا رہے ہیں تو وہ بھی ساتھ کھڑے ہو گئے تا کہ بعد میں ان کو بھی کسی علاقے کی ولایت یا کوئی پوسٹ وغیرہ مل جاۓ۔ اہل کوفہ میں سے اکثر افراد ایسے تھے انہیں افراد میں سے ایک مشہور نام احنف بن قیس کا ہے۔ اس شخص کا شمار بصرہ کے بزرگان میں سے ہوتا ہے۔ جنگ جمل میں بے طرف رہا اور جنگ صفین میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔ جب امام حسینؑ نے اسے اپنی نصرت کے لیے خط لکھا تو اس نے جواب میں لکھا: قد جرّبنا آل أبی الحسن فلم نجد عندهم إیالة ولا جمعا للمال ولا مکیدة فی الحرب. 
 ’’ہم نے ابوالحسن کی آل کو آزما لیا ہے ان کے پاس حکومت داری کی توانائی، مال و ثروت کی جمع آوری اور جنگ میں حیلے اور مکر سے کام لینے والی کوئی بات نہیں پائی جاتی‘‘۔ (۱)
 اس شخص نے یہ بات کہہ کر بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا در اصل اس نے اس انحراف کا پتہ بتایا جو کربلا میں نہیں پہنچا۔ اس نے بتایا کہ میں نے تو اس خاندان کا بہت ساتھ دیا لیکن کچھ بھی نصیب نہیں ہوا۔ مقام ملا شہرت ملی اور نا پیروزی۔ اس گروہ کے بارے میں امام حسینؑ کا فرمانا تھا: الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون. 
 ’’لوگ دنیا کے عبد ہیں اور دین فقط ان کی زبانوں پر جاری ہے۔ جب ان کی زندگی سرشار ہو دین کو قبول کیے رہتے ہیں اور جب مصیبتوں میں مبتلا ہو جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں‘‘۔ (۲)
یعنی جب تک امامؑ کا ساتھ دینے میں جان کا خطرہ نہیں، الٹا مقام و منصب مل رہا ہے تو امام کے ساتھ ہیں اور جیسے ہی حالات کچھ دگرگون ہوۓ پشت دکھا کر چل دیے۔ 
تیسرے گروہ میں دوسری قسم آتی ہے ان افراد کی ہے جو ظاہر میں خود کو امامؑ کا محب اور ارادتمند ثابت کرتے لیکن باطن میں ان کو اہلبیتؑ سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ ان افراد میں سے ایک مشہور نام عبداللہ بن عمر کا ہے۔ عبداللہ بن عمر امامؑ کے پاس آتے بہت گریہ کرتے بظاہر اپنے آپ کو امام کا ہمدرد ثابت کرے اور امام کو نصیحت کرتے کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں صلح کر لیں یا کسی طرح سے عازم کوفہ نہ ہوں۔ یہ شخص بظاہر عابد و زاہد مقدس مآب تھے۔ شاید کچھ لوگ ان کو سادہ لوح سمجھ کر کہہ دیں کہ ان کے پاس بصیرت نہیں تھی اس لیے امام کی نصرت نہیں کی لیکن تاریخ کے شواہد بتاتے ہیں کہ اسی عبداللہ بن عمر نے امیرالمومنینؑ کے دور میں کسی بھی مانع کے نہ ہونے کے با وجود امام علیؑ کی بیعت نہیں کی اور بہانہ یہ بنایا کہ چونکہ امام مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور اہل قبلہ کے خلاف جنگ کرنا حرام ہے اس لیے آپ کی بیعت نہیں کرتا لیکن اسی شخص نے بعد میں تاریخ کے سفاک اور خونریز ترین شخص حجاج بن یوسف کی بیعت کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ شخص حجاج کی بیعت کرنے گیا تو وہ مستی میں مدہوش تھا اس نے کہا کہ میرے ہاتھ فارغ نہیں ہیں پیروں پر بیعت کرو تو اس نے پیروں پر بیعت کی۔ (۳) 
اس گروہ میں تیسری قسم ان افراد کی ہے جو لالچی تھے اور نہ ہی دل کے بیمار۔ یہ اہلبیتؑ سے بغض رکھتے تھے اور نا ہی ان کو اپنے لیے دنیوی فوائد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یعنی خود برے نہیں تھے بلکہ نیک افراد تھے لیکن اجتماعی اور سیاسی بصیرت نہیں رکھتے تھے اور اس بنا پر بر وقت فیصلہ نہ کر سکے اور کربلا میں نصرت امام سے محروم رہے۔ ان افراد میں ایک نام سلیمان بن صرد خزاعی کا ہے جو خود کو امام کا پیروکار کہتا تھا۔ کوفہ سے امامؑ کو خط میں لکھتا ہے: إِنّه لیسَ علینا إِمامٌ ، فأقبِلْ لعلّ اللّهَ أن یجمعَنا بکَ على الحقِّ ؛ والنُّعمانُ بنُ بشیرٍ فی قصرِ الأمارة لسْنا نجَمِّعُ معَه فی جمعةٍ ولا نخرجُ معَه إِلى عیدٍ ، ولوقد بَلَغَنا أنّکَ أَقبلتَ إِلینا أخرَجْناه. 
 ’’ہمارا کوئی پیشوا و امام نہیں ہے ہمارے پاس تشریف لائیے شاید خدا آپ کے ذریعے ہمیں حق کے گرد جمع کر لے۔ نعمان بن بشیر نے قصر حکومتی میں ڈیرے جماۓ ہوۓ ہیں ہم نماز جمعہ اس کے ساتھ نہیں پڑھتے اور عید کی نماز کے لیے اس کے ساتھ شہر سے خارج نہیں ہوتے اگر آپ ہمارے پاس تشریف لے آتے ہیں تو اس کو شہر سے باہر نکال دیں گے‘‘۔ (۴)
لیکن یہی سلیمان روز عاشور امام کی نصرت کے لیے نہیں پہنچا۔ اور بعد میں لشکر توابین کا سربراہ بنا یزیدی لشکر کے خلاف جنگ میں مارا گیا۔ اس کی شخصیت میں ثبات قدم نہیں تھا بار بار شک کرتا اور اپنے ہی لیے ہوۓ فیصلوں سے پیچھے ہٹ جاتا جس کی وجہ سے قافلہ عشق سے رہ گیا۔ اگر یہی سلیمان شہداء کربلا میں شامل ہوتا تو اس کا مقام جدا ہوتا۔
اس تیسرے گروہ کی چوتھی اور آخری قسم وہ افراد ہیں جو واقعی عبرت آموز ہیں۔ یہ افراد نہ تو اہلبیتؑ سے بغض رکھتے تھے، نہ ہی اہل فساد و لالچی تھے اور نہ ہی جنگ و میدان سے ڈرتے تھے۔ ان کے دلوں میں کسی بھی قسم کی تردید نہیں تھی لیکن ان کی نظر امامت کی جانب اس طرح سے نہیں تھی جس طرح سے شہداء کربلا کی تھی۔ نظریہ امامت و شخصِ امام حسینؑ کے بارے میں حقیقی معرفت نہیں رکھتے تھے خود امام کے بہت ہمدرد تھے اور واقعی دل سے ان کا بھلا چاہتے تھے لیکن امامؑ کے اقدام اور ان کے قیام کو مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے۔ مثلا جب امام سے ملتے تو جہاں امام ان کو نصرت کی دعوت دیتے خود یہ امام کو مشورہ دے دیتے اور کہتے کہ اس سے بہتر کوئی اور راہ حال سوچا جاۓ یا کسی اور مناسب چارہ جوئی کا راستہ نکال کر دیتے۔ مثلا کہتے کہ آپ کا قیام بے ثمر ہے اور اس کی دلیل میں کہتے کہ آپ کوفیوں کے بل بوتے پر یزید کے خلاف قیام کرنا چاہتے ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ کوفی ہمیشہ کی طرح دھوکہ دہی دیں گے اور آپ مظلومیت سے مار دیئے جائیں گے۔ آپ کا قیام بے فائدہ رہ جاےؑ گا بجاۓ اس کے کوئی دوسرا راہ حل ڈھونڈھا جاۓ۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ اس لیے امام کی نصرت نہیں کرنا چاہتے کہ اس سے ان کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا یا ان کو اپنی جان و مال کے کھو جانے کا خوف ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ امام کا یہ اقدام اٹھانا مناسب نہیں۔ یہ سوچ خاندان بنی ہاشم میں موجود تھی جس کی بنا پر بہت سے امام کے اپنے ہی خاندان کے افراد نصرت کے لیے نہیں پہنچے۔ امامؑ نے ان افراد کے لیے مختصر سے خط میں فرمایا:
 أمّا بعد فإنَّ مَنْ لَحِقَ بی اسْتُشْهِد ، ومَنْ لَم یَلْحَقْ بی لم یُدرِکِ الفَتْحَ ؛ والسَّلام. ’’جو شخص مجھ سے ملحق ہوگا وہ شہید کر دیا جاۓ گا اور جو میرے ساتھ نہ آیا اسے فتح نصیب نہیں ہوگی والسلام‘‘۔ (۵) 
عبدالله بن جعفر انہیں افراد میں سے ایک ہیں جو حقیقی طور پر امامؑ کے ہمدرد اور غمخوار ہیں۔ حتی انہوں نے اپنے دو بیٹے کربلا میں امامؑ کی نصرت کے لیے بھیجے لیکن خود کربلا حاضر نہیں ہوۓ۔ شیخ مفیدؒ روایت نقل کرتے ہیں کہ جب امام حسینؑ کا قافلہ مکہ سے خارج ہوا تو عبداللہ بن جعفر کا ایک خط امام کو ملا۔ خط کے ساتھ ان کے دو فرزند عون و محمد بھی تھے۔ یہ خط امامؑ کے نام تھا جس میں لکھا تھا:  فإِنِّی أسألکَ بالله لمّا انصرفتَ حینَ تنظرُ فی کتابی ، فإِنِّی مشفقُ علیکَ منَ الوجهِ الّذی توجّهتَ له أن یکونَ فیه هلاکُکَ واستئصال أهلِ بیتِکَ ، إِن هلکتَ الیومَ طفئَ نورُ الأرضِ.
 ’’آپ سے بنام خدا چاہتا ہوں کہ جب اس خط کو پڑھیے واپس آ جائیے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس سفر میں آپ اور آپکا خاندان ہلاک نہ ہو جاۓ اگر آپ قتل کر دیے جائیں تو نور خدا زمین بجھ جاۓ گا‘‘۔ (۶)
اس خط کے کلمات پر غور کیا جاۓ تو علم ہوتا ہے کہ ابن جعفر نا صرف امام کو نور خدا سمجھتے ہیں بلکہ امت کا ہادی و رہنما سمجھتے ہیں ان کے شدید حامی ہیں اور امام کا خیر اور بھلا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ خدانخواستہ یزید کے ڈر اور خوف کی وجہ سے امام کی نصرت نہیں کرنا چاہتے بلکہ امام کے اس قیام کو نہیں سمجھ پا رہے۔ جہاں پر امام اپنے لیے ایک راہ انتخاب کیے ہوۓ ہیں اس کے مقابلے میں ابن جعفر مستقل طور پر اپنی الگ سوچ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس قیام کا کوئی سودمند نتیجہ نہیں نکلے گا اور اس کے نتیجے میں امام شہید کر دیے جائیں گے۔ ابن جعفر کو امام کے شہید ہو جانے کا خوف ہے اس لیے ہمدردی کے طور پر امام کو نصیحت و مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس قیام کو متوقف کر لیں۔ عبداللہ بن عباس اور محمد بن حنفیہ کا شمار بھی اسی گروہ میں شمار ہوتا ہے جو حقیقی طور پر اور دل سے امام کے ہمدرد ہیں۔ یقینا اگر یزید کے علاوہ کوئی اور شخص امام پر حملہ ور ہوتا تو ان افراد کے بارے میں شک نہیں کیا جا سکتا کہ یہ افراد اپنی جان امام پر قربان کرنے میں ایک لحظے کے لیے دریغ نہ کرتے لیکن یزید کے خلاف قیام کو اپنے محاسبات کی بنیاد پر درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس ایک شخصیت ابوالفضل العباسؑ کی ہے۔ جن کی امام شناسی اور معرفت پر کسی قسم کا حرف نہیں۔ یعنی اگر کسی امام کا مطیع محض ترین شخص ڈھونڈھا جاۓ تو وہ حضرت عباسؑ ہیں۔ جب امام کا حکم آ جاتا تو آگے کسی قسم کا مشورہ یا نصیحت نہ کرتے بلکہ حکم امام سمجھ کر فقط اس کی اطاعت بجا لاتے۔

 

 



حوالہ جات:

۱۔ عیون الاخبار، ج۱، ص۳۱۱۔
۲۔ بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۸۳۔
۳۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۲۴۲۔
۴۔ الارشاد، ج۲، ص۳۷۔
۵۔ کامل الزیارات، ج۱، ص۷۶۔
۶۔  الارشاد، ج۲، ص۶۸۔

موافقین ۱ مخالفین ۰ 21/08/15
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی