بصیرت اخبار

۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «nehjulbalagha» ثبت شده است

اَمَّا بَعْدُ! اَیُّهَا النَّاسُ! فَاَنَا فَقَاْتُ عَیْنَ الْفِتْنَةِ، وَ لَمْ یَکُنْ لِّیَجْتَرِئَ عَلَیْهَاۤ اَحَدٌ غَیْرِیْ بَعْدَ اَنْ مَّاجَ غَیْهَبُهَا، وَ اشْتَدَّ کَلَبُهَا.

اے لوگو! [۱] میں نے فتنہ و شر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں اور (دیوانے کتوں کی طرح) اس کی دیوانگی زوروں پر تھی تو میرے علاوہ کسی ایک میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھتا۔

فَاسْئَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَا تَسْئَلُوْنِیْ عَنْ شَیْءٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ، وَ لَا عَنْ فِئَةٍ تَهْدِیْ مِائَۃً وَ تُضِلُّ مِائَةً اِلَّاۤ اَنْۢبَاْتُکُمْ بِنَاعِقِهَا وَ قَآئِدِهَا وَ سَآئِقِهَا، وَ مُنَاخِ رِکَابِهَا، وَ مَحَطِّ رِحَالِهَا، وَ مَنْ یُّقْتَلُ مِنْ اَهْلِهَا قَتْلًا وَ مَنْ یَّمُوْتُ مِنْهُمْ مَوْتًا.

اب (موقعہ ہے جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو [۲] ، پیشتر اس کے کہ مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم اس وقت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصے کی جو بات مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کر و گے کہ جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے اور اسے آگے سے کھینچنے والے اور پیچھے سے دھکیلنے والے اور اس کی سواریوں کی منزل اور اس کے (ساز و سامان سے لدے ہوئے ) پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ کہ کون ان میں سے قتل کیا جائے گا اور کون (اپنی موت ) مرے گا۔

وَ لَوْ قَدْ فَقَدْتُّمُوْنِیْ وَ نَزَلَتْ بِکُمُ کَرَآئِهُ الْاُمُوْرِ، وَ حَوَازِبُ الْخُطُوْبِ، لَاَطْرَقَ کَثِیْرٌ مِّنَ السَّآئِلِیْنَ، وَ فَشِلَ کَثِیْرٌ مِّنَ الْمَسْؤُوْلِیْنَ، وَ ذٰلِکَ اِذَا قَلَّصَتْ حَرْبُکُمْ، وَ شَمَّرَتْ عَنْ سَاقٍ، وَ ضَاقَتِ الدُّنْیَا عَلَیْکُمْ ضِیْقًا، تَسْتَطِیْلُوْنَ مَعَہٗ اَیَّامَ الْبَلَآءِ عَلَیْکُمْ، حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ لِبَقِیَّةِ الْاَبْرَارِ مِنْکُمْ.

اور جب میں نہ رہوں گا اور ناخوشگوار چیزیں اور سخت مشکلیں پیش آئیں گی (تو دیکھ لینا) کہ بہت سے پوچھنے والے (پریشانی سے) سر نیچے ڈال دیں گے اور بتانے والے عاجز و درماندہ ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب تم پر لڑائیاں زور سے ٹوٹ پڑیں گے اور اس کی سختیاں نمایاں ہو جائیں گی اور دنیا اس طرح تم پر تنگ ہو جائے گی کہ مصیبتوں کے دنوں کو تم یہ سمجھنے لگو گے کہ وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خداوند عالم تمہارے باقی ماندہ لوگوں کو فتح و کامرانی دے گا۔

اِنّ الْفِتَنَ اِذَا اَقْبَلَتْ شَبَّهَتْ، وَ اِذَاۤ اَدْبَرَتْ نَبَّهَتْ، یُنْکَرْنَ مُقْبِلَاتٍ، وَ یُعْرَفْنَ مُدْبِرَاتٍ، یَحُمْنَ حَوْمَ الرِّیَاحِ، یُصِبْنَ بَلَدًا وَّ یُخْطِئْنَ بَلَدًا.

فتنوں کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو اس طرح اندھیرے میں ڈال دیتے ہیں کہ (حق و باطل) کا امتیاز نہیں ہوتا اور پلٹتے ہیں تو ہوشیار کر کے جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں تو شناخت نہیں ہوتی، پیچھے ہٹتے ہیں تو پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ہواؤں کی طرح چکر لگاتے ہیں، کسی شہر کو اپنی زد پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی ان سے رہ جاتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ اَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِیْ عَلَیْکُمْ فِتْنَةُ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، فَاِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْیَآءُ مُظْلِمَةٌ: عَمَّتْ خُطَّتُهَا، وَ خَصَّتْ بَلِیَّتُهَا، وَ اَصَابَ الْبَلَآءُ مَنْ اَبْصَرَ فِیْهَا، وَ اَخْطَاَ الْبَلَآءُ مَنْ عَمِیَ عَنْهَا.

میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لئے بنی امیہ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے، اس کے اثرات تو سب کو شامل ہیں لیکن خصوصیت سے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کیلئے ہیں۔ جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا وہ ان سے بچا رہے گا۔

وَ ایْمُ اللهِ لَتَجِدُنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَکُمْ اَرْبَابَ سُوْٓءٍۭ بَعْدِیْ، کَالنَّابِ الضَّرُوْسِ: تَعْذِمُ بِفِیْهَا،وَ تَخْبِطُ بِیَدِهَا،وَ تَزْبِنُ بِرِجْلِهَا، وَ تَمْنَعُ دَرَّهَا، لَا یَزَالُوْنَ بِکُمْ حَتّٰی لَا یَتْرُکُوْا مِنْکُمْ اِلَّا نَافِعًا لَّهُمْ، اَوْ غَیْرَ ضَآئِرٍۭ بِهِمْ، وَ لَا یَزَالُ بَلَآ ؤُهُمْ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ انْتِصَارُ اَحَدِکُمْ مِنْهُمْ اِلَّا کَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ الصَّاحِبِ مِنْ مُّسْتَصْحِبِهٖ، تَرِدُ عَلَیْکُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَآءَ مَخْشِیَّةً، وَ قِطَعًا جَاهِلِیَّةً، لَیْسَ فِیْهَا مَنَارُ هُدًی، وَ لَا عَلَمٌ یُّرٰی.

خدا کی قسم! میرے بعد تم بنی امیہ کو اپنے لئے بدترین حکمران پاؤ گے۔ وہ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں جو منہ سے کاٹتی ہو اور اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتی ہو اور دوہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو۔ وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ صرف اسے چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا(کم از کم) ان کیلئے نقصان رساں نہ ہو۔ اور ان کی مصیبت اسی طرح گھیرے رہے گی کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گی جیسے غلام کیلئے اپنے آقا سے اور مرید کی اپنے پیر سے۔ تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا اور زمانہ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لئے ہو گا۔ نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئے گا۔

نَحْنُ اَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ، وَ لَسْنَا فِیْهَا بِدُعَاةٍ، ثُمَّ یُفَرِّجُهَا اللهُ عَنْکُمْ کَتَفْرِیْجِ الْاَدِیْمِ: بِمَنْ یَّسُوْمُهُمْ خَسْفًا، وَ یَسُوْقُهُمْ عُنْفًا، وَ یَسْقِیْهِمْ بِکَاْسٍ مُّصَبَّرَةٍ، لَا یُعْطِیْهِمْ اِلَّا السَّیْفَ، وَ لَا یُحْلِسُهُمْ اِلَّا الْخَوْفَ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ تَوَدُّ قُرَیْشٌ بِالدُّنْیَا وَ مَا فِیْهَا لَوْ یَرَوْنَنِیْ مَقَامًا وَّاحِدًا، وَ لَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُوْرٍ، لِاَقْبَلَ مِنْهُمْ مَاۤ اَطْلُبُ الْیَوْمَ بَعْضَهٗ فَلَا یُعْطُوْنَنِیْهِ!.

ہم اہل بیت ِ(رسول علیہم السلام) ان فتنہ انگیزیوں (کے گناہ) سے بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اس شخص کے ذریعہ سے جو انہیں ذلت کا مزا چکھائے اور سختی سے ہنکائے اور (موت کے ) تلخ جام پلائے اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف انہیں چمٹا دے، ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے۔ اس وقت قریش دنیا و ما فیہا کے بدلے میں یہ چاہیں گے کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے، کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قبول کر لوں کہ جس کا آج کچھ حصہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔


 
امیر المومنین علیہ السلام نے یہ خطبہ جنگ نہروان کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس میں ’’فتنہ‘‘ سے مراد وہ جنگیں ہیں جو بصرہ، صفین اور نہر وان میں لڑی گئیں۔ چونکہ ان کی نوعیت پیغمبر ﷺ کی جنگوں سے جداگانہ تھی، کیونکہ وہاں مد مقابل کفار ہوتے تھے اور یہاں مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو چہروں پر اسلام کی نقاب ڈالے ہوئے تھے۔ اس لئے لوگ اہل قبلہ سے جنگ کرنے کیلئے متردّد تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو لوگ اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں ان سے قتال کیسا؟ چنانچہ خزیمہ ابن ثابت انصاری جیسے بزرگ اس وقت تک صفین میں شریک جنگ نہیں ہوئے جب تک عمار یاسر کی شہادت نے شامیوں کا گروہ باغی ہونا ثابت نہ کر دیا۔ یونہی بصرہ میں اُمّ المومنین کے ہمراہ عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے طلحہ و زبیر ایسے صحابہ کی موجودگی اور نہروان میں خوارج کی پیشانیوں کے گھٹے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذہنوں میں خلفشار پیدا کئے ہوئے تھیں۔ اندریں حالات ان کے سامنے شمشیر بکف کھڑے ہونے کی جرأت وہی کر سکتا تھا جو ان کے مکنونِ قلب سے واقف اور ان کے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو اور یہ امیر المومنین علیہ السلام ہی کی بصیرتِ خاص و ایمانی جرأت کا کام تھا کہ ان کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق فرما دی:
سَتُقَاتِلُ بَعْدِی النَّاکِثِیْنَ وَ الْقَاسِطِیْنَ وَ الْمَارِقِیْنَ۔
اے علیؑ! تم میرے بعد بیعت توڑنے والوں (اصحابِ جمل) ظلم ڈھانے والوں (اہل شام) اور دین سے بے راہ ہو جانے والوں (خوارج) سے جنگ کرو گے۔(۱)
۲۔پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد کوئی متنفس امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ چنانچہ ابن حجر نے ’’صواعق محرقہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ یَقُوْلُ سَلُوْنِیْ اِلَّا عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.
صحابہ میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو ہم سے پوچھ لو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔(۲)
البتہ صحابہ کے علاوہ تاریخ میں چند نام ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کی: جیسے ابراہیم ابن ہشام، مقاتل ابن سلیمان، قتادہ، سبط ابن جوزی اور محمد ابن ادریس شافعی وغیرہ۔ مگر ان میں سے ہر شخص سوال کے موقع پر رسوا اور اپنے اس دعوے کو واپس لینے پر مجبور ہوا۔ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو حقائق عالم سے واقف اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ ہو۔ چنانچہ امیر المومنین ہی وہ دَر کشائے علوم نبوت تھے جو کسی موقعہ پر کسی سوال کے جواب سے عاجز ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو بھی یہ کہنا پڑتا تھا کہ:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ مُّعْضَلَةٍ لَّیْسَ لَھَا اَبُو الْحَسَنِ ؑ.
میں اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کرنے کیلئے امیرالمومنین علیہ السلام نہ ہوں۔
یونہی مستقبل کے متعلق جو پیشین گوئیاں آپؑ نے کیں، وہ حرف بحرف پوری ہو کر آپؑ کی وسعتِ علمی کی آئینہ دار ہیں۔ وہ بنی اُمیہ کی تباہ کاریوں کے متعلق ہوں یا خوارج کی شورش انگیزیوں کے متعلق، وہ تاتاریوں کی تاخت و تاراج کے بارے میں ہوں یا زنگیوں کی حملہ آوریوں کے متعلق، وہ بصرہ کی غرقابی کے بارے میں ہوں یا کوفہ کی تباہی کے متعلق۔ غرض جب یہ واقعات تاریخی حیثیت سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپؑ کے اس دعوے پر تعجب کیا جائے۔(۳)
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۰۱۔
[۲]۔ الصواعق المحرقہ، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔
[۳]۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۷، ص ۳۶۰، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، بیروت۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:16
عون نقوی

لَمَّاۤ اُرِیْدُ عَلَى الْبَیْعَةِ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ:

جب قتلِ عثمان کے بعد آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کا ارادہ کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:

دَعُوْنِیْ وَ الْتَمِسُوْا غَیْرِیْ، فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُوْنَ اَمْرًا لَّهٗ وُجُوْهٌ وَّ اَلْوَانٌ، لَا تَقُوْمُ لَهُ الْقُلُوْبُ، وَ لَا تَثْبُتُ عَلَیْهِ الْعُقُوْلُ، وَ اِنَّ الْاٰفَاقَ قَدْ اَغَامَتْ، وَ الْمَحَجَّةَ قَدْ تَنَکَّرَتْ.

مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کیلئے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو۔ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں۔ جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں۔ (دیکھو!) اُفق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ راستہ پہچاننے میں نہیں آتا۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنِّیْ اِنْ اَجَبْتُکُمْ رَکِبْتُ بِکُمْ مَاۤ اَعْلَمُ، وَ لَمْ اُصْغِ اِلٰی قَوْلِ الْقَآئِلِ وَ عَتْبِ الْعَاتِبِ، وَ اِنْ تَرَکْتُمُوْنِیْ فَاَنَا کَاَحَدِکُمْ، وَ لَعَلِّیْۤ اَسْمَعُکُمْ وَ اَطْوَعُکُمْ لِمنْ وَّلَّیْتُمُوْهُ اَمْرَکُمْ، وَ اَنَا لَکُمْ وَزِیْرًا، خَیْرٌ لَّکُمْ مِنِّیْ اَمِیْرًا!.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسا میں ہوں اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دنیوی مفاد کیلئے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے۔


جب حضرت عثمان کے قتل ہو جانے سے مسند حکومت خالی ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں امیر المومنین علیہ السلام کی طرف اٹھنے لگیں جن کی سلامت روی، اصول پرستی اور سیاسی بصیرت کا اس طویل مدت میں انہیں بڑی حد تک تجربہ ہو چکا تھا، چنانچہ متفقہ طور پر آپؑ کے دستِ حق پرست پر بیعت کیلئے اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح بھولے بھٹکے مسافر دور سے منزل کی جھلک دیکھ کر اس کی سمت لپک پڑتے ہیں۔ جیسا کہ مورخ طبری نے لکھا ہے:
فَغَشَى النَّاسُ عَلِیًّا ؑ فَقَالُوْا: نُبَایِعُکَ، فَقَدْ تَرٰى مَا نَزَلَ بِالْاِسْلَامِ، وَ مَا ابْتُلِیْنَا بِهٖ مِنْ ذَوِی الْقُرْبٰى.
لوگ امیر المومنین علیہ السلام پر ہجوم کر کے ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم آپؑ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیا کیا مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں اور پیغمبر ﷺ کے قریبیوں کے بارے میں ہماری کیسى آزمائش ہو رہی ہے۔ (طبری، ج۵، ص۱۵۶)
مگر امیر المومنین علیہ السلام نے ان کی خواہش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر ان لوگوں نے شور مچایا اور چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ: اے ابو الحسنؑ! آپؑ اسلام کی تباہی پر نظر نہیں کرتے؟ فتنہ و شر کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہیں دیکھتے؟ کیا آپؑ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے؟ پھر بھی حضرتؑ نے آمادگی کا اظہار نہ فرمایا، کیونکہ آپؑ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد جو ماحول بن گیا تھا اس کے اثرات دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں، طبیعتوں میں خود غرضی و جاہ پسندی جڑ پکڑ چکی ہے، ذہنوں پر مادیت کے غلاف چڑھ چکے ہیں اور حکومت کو مقصد بر آریوں کا ذریعہ قرار دینے کی عادت پڑ چکی ہے، اب خلافت الٰہیہ کو بھی مادیت کا رنگ دے کر اس سے کھیلنا چاہیں گے، ان حالات میں ذہنیتوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے رخ موڑنے میں لوہے لگ جائیں گے۔ ان تاثرات کے علاوہ یہ مصلحت بھی کارفرما تھی کہ ان لوگوں کو سوچ سمجھ لینے کا موقعہ دے دیا جائے تا کہ کل اپنے مادی توقعات کو ناکام ہوتے دیکھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ یہ بیعت وقتی ضرورت اور ہنگامی جذبہ کے زیر اثر ہو گئی تھی، اس میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تھا۔ جیسا کہ خلافتِ اوّل کے متعلق حضرتِ عمر کا یہی نظر یہ تھا جو ان کے اس قول سے ظاہر ہے:
اِنَّ بَیْعَةَ اَبِیْ بَکْرٍ کَانَتْ فَلْتَةً وَّقَى اللهُ شَرَّهَا، فَمَنْ عَادَ اِلٰى مِثْلِهَا فَاقْتُلُوْهُ.ابو بکر کی خلافت بے سوچے سمجھے ہو گئی، مگر اللہ نے اس کے شر سے بچا لیا۔ اب اگر کوئی ایسا کرے تو اسے قتل کر دینا۔ (تاریخ الخلفاء، ص۶۰)
غرض جب اصرار حد سے بڑھا تو اس موقع پر یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس امر کو واضح کیا ہے کہ اگر تم مجھے دنیاوی مقاصد کیلئے چاہتے ہو تو میں تمہارا آلہ کار بننے کیلئے تیار نہیں، مجھے چھوڑ دو اور اس مقصد کیلئے کسی اور کو منتخب کر لو جو تمہارے توقعات پورے کر سکے۔ تم میری سابقہ سیرت کو دیکھ چکے ہو کہ میں قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کیلئے تیار نہیں اور نہ حکومت کیلئے اپنے اصول سے ہاتھ اٹھاؤں گا۔ اگر تم کسی اور کو منتخب کر و گے تو میں ملکی قوانین و آئین حکومت کا اتنا ہی خیال کروں گا جتنا ایک پر امن شہری کو کرنا چاہئے۔ میں نے کسی مرحلہ پر شورش برپا کر کے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کو پراگندہ و منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہو گا، بلکہ جس طرح مصالح عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح مشورے دیتا رہا ہوں، اب بھی دریغ نہ کروں گا اور اگر تم مجھے اسی سطح پر رہنے دو تو یہ چیز تمہارے دنیوی مفاد کیلئے بہتر ہوگی، کیونکہ اس صورت میں میرے ہاتھوں میں اقتدار نہیں ہو گا کہ تمہارے دنیوی مفادات کیلئے سد راہ بن سکوں اور تمہاری من مانی خواہشوں میں روڑے اٹکاؤں اور اگر یہ ٹھان چکے ہو کہ میرے ہاتھوں پر بیعت کئے بغیر نہ رہو گے تو پھر یاد رکھو کہ چاہے تمہاری پیشانیوں پر بل آئے اور چاہے تمہاری زبانیں میرے خلاف کھلیں، میں تمہیں حق کی راہ پر لے چلنے پر مجبور کر دوں گا اور حق کے معاملہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کروں گا۔ اس پر بھی اگر بیعت کرنا چاہتے ہو تو اپنا شوق پورا کر لو۔امیر المومنین علیہ السلام نے ان لوگوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا تھا بعد کے واقعات اس کی پوری پوری تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے پیش نظر بیعت کی تھی، جب انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بیعت توڑ کر الگ ہو گئے اور بے بنیاد الزامات تراش کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

 

 

balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:09
عون نقوی

تُعْرَفُ بِـ »خُطْبَةِ الْاَشْبَاحِ« وَ هِیَ مِنْ جَلَآئِلِ خُطَبِهٖ ؑ وَ کَانَ سَئَلَهٗ سَآئِلٌ اَنْ یّصِفَ اللهَ حَتّٰى کَاَنَّهٗ یَرَاهُ عِیَانًا، فَغَضِبَ ؑ لِذٰلِکَ ( وَ قَالَ‏:)

یہ خطبہ‘‘ اشباح‘‘ [۱] کے نام سے مشہور ہے اور امیر المومنین علیہ السلام کے بلند پایہ خطبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے ایک سائل کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا جس نے آپؑ سے یہ سوال کیا تھا کہ: آپؑ خلاق عالم کے صفات کو اس طرح بیان فرمائیں کہ ایسا معلوم ہو جیسے ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس پر حضرتؑ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَفِرُهُ الْمَنْعُ وَ الْجُمُوْدُ، وَ لَا یُکْدِیْهِ الْاِعْطَآءُ وَ الْجُوْدُ، اِذْ کُلُّ مُعْطٍ مُّنْتَقِصٌ سِوَاهُ، وَ کُلُّ مَانِعٍ مَّذْمُوْمٌ مَا خَلَاهُ، وَ هُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَآئِدِ النِّعَمِ، وَ عَوآئِدِ الْمَزِیْدِ وَ الْقِسَمِ، عِیَالُهُ الْخَلَآئِقُ، ضَمِنَ اَرْزَاقَهُمْ، وَ قَدَّرَ اَقْوَاتَهُمْ، وَ نَهَجَ سَبِیْلَ الرَّاغِـبِیْنَ اِلَیْهِ، وَ الطَّالِبِیْنَ مَا لَدَیْهِ، وَ لَیْسَ بِمَا سُئِلَ بِاَجْوَدَ مِنْهُ بِمَا لَمْ یُسْئَلُ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جو فیض و عطا کے روکنے سے مالدار نہیں ہو جاتا اور جود و عطا سے کبھی عاجز و قاصر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس کے سوا ہر دینے والے کے یہاں داد و دہش سے کمی واقع ہوتی ہے اور ہاتھ روک لینے پر انہیں برا سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ فائدہ بخش نعمتوں اور عطیوں کی فراوانیوں اور روزیوں (کی تقسیم) سے ممنون احسان بنانے والا ہے۔ ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے، اس نے سب کے رزق کا ذمہ لیا ہے اور سب کی روزیاں مقرر کر رکھی ہیں [۲] ۔ اس نے اپنے خواہش مندوں اور اپنی نعمت کے طلب گاروں کیلئے راہ کھول دی ہے۔ وہ دست ِطلب کے نہ بڑھنے پر بھی اتنا ہی کریم ہے جتنا طلب و سوال کا ہاتھ بڑھنے پر۔

اَلْاَوَّلُ الَّذِیْ لَمْ یَکُنْ لَّهٗ قَبْلٌ فَیَکُوْنَ شَیْءٌ قَبْلَهٗ، وَ الْاٰخِرُ الَّذِیْ لَیْسَ لَهٗ بَعْدٌ فَیَکُوْنَ شَیْءٌۢ بَعْدَهٗ، وَ الرَّادِعُ اَنَاسِیَّ الْاَبْصَارِعَنْ اَنْ تَنَالَهٗ اَوْ تُدْرِکَهٗ، مَا اخْتَلَفَ عَلَیْهِ دَهْرٌ فَیَخْتَلِفَ مِنْهُ الْحَالُ، وَ لَا کَانَ فِیْ مَکَانٍ فَیَجُوْزَ عَلَیْهِ الْاِنْتِقَالُ.

وہ ایسا اوّل ہے جس کیلئے کوئی قبل ہے ہی نہیں کہ کوئی شے اس سے پہلے ہو سکے اور ایسا آخر ہے جس کیلئے کوئی بعد ہے ہی نہیں تاکہ کوئی چیز اس کے بعد فرض کی جا سکے۔ وہ آنکھ کی پتلیوں کو (دور ہی سے) روک دینے والا ہے کہ وہ اسے پا سکیں یا اس کی حقیقت معلوم کر سکیں۔ اس پر زمانہ کے مختلف دور نہیں گزرتے کہ اس کے حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہو۔ وہ کسی جگہ میں نہیں ہے کہ اس کیلئے نقل و حرکت صحیح ہو سکے۔

وَ لَوْ وَهَبَ مَا تَنَفَّسَتْ عَنْهُ مَعَادِنُ الْجِبَالِ، وَ ضَحِکَتْ عَنْهُ اَصْدَافُ الْبِحَارِ، مِنْ فِلِزِّ اللُّجَیْنِ وَ الْعِقْیَانِ، وَ نُثَارَةِ الدُّرِّ وَ حَصِیْدِ الْمَرْجَانِ، مَاۤ اَثَّرَ ذٰلِکَ فِیْ جُوْدِهٖ، وَ لَاۤ اَنْفَدَ سَعَةَ مَا عِنْدَهٗ، وَ لَکَانَ عِنْدَهٗ مِنْ ذَخَآئِرِ الْاِنْعَامِ مَا لَا تُنْفِدُهٗ مَطَالِبُ الْاَنَامِ، لِاَنَّهُ الْجَوَادُ الَّذِیْ لَا یَغِیْضُهٗ سُؤَالُ السَّآئِلِیْنَ، وَ لَا یُبْخِلُهٗ اِلْحَاحُ الْمُلِحِّیْنَ.

اگر وہ چاندی اور سونے جیسی نفیس دھاتیں کہ جنہیں پہاڑوں کے معدن (لمبی لمبی) سانسیں بھر کر اچھال دیتے ہیں اور بکھرے ہوئے موتی اور مرجان کی کٹی ہوئی شاخیں کہ جنہیں دریاؤں کی سیپیاں کھل کھلا کر ہنستے ہوئے اُگل دیتی ہیں، بخش دے تو اس سے اس کے جو دو عطا پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس کی دولت کا ذخیرہ اس سے ختم ہو سکتا ہے اور اس کے پاس پھر بھی انعام و اکرام کے اتنے ذخیرے موجود رہیں گے جنہیں لوگوں کی مانگ ختم نہیں کر سکتی۔ اس لئے کہ وہ ایسا فیاض ہے جسے سوالوں کا پورا کرنا مفلس نہیں بنا سکتا اور گِڑ گڑا کر سوال کرنے والوں کا حد سے بڑھا ہوا اصرار بخل پر آمادہ نہیں کر سکتا۔

فَانْظُرْ اَیُّهَا السَّآئِلُ: فَمَا دَلَّکَ الْقُرْاٰنُ عَلَیْهِ مِنْ صِفَتِهٖ فَائْتَمَّ بِهٖ وَ اسْتَضِیْٓءْ بِنُوْرِ هِدَایَتِهٖ، وَ مَا کَلَّفَکَ الشَّیْطٰنُ عِلْمَهٗ مِمَّا لَیْسَ فِی الْکِتَابِ عَلَیْکَ فَرْضُهٗ، وَ لَا فِیْ سُنَّةِ النَّبِیِّ ﷺ وَ اَئِمَّةِ الْهُدٰی اَثَرُهٗ، فَکِلْ عِلْمَهٗ اِلَی اللهِ سُبْحَانَهٗ، فَاِنَّ ذٰلِکَ مُنْتَهٰی حَقِّ اللهِ عَلَیْکَ.

اے (اللہ کی صفتوں کو) دریافت کرنے والے دیکھو! کہ جن صفتوں کا تمہیں قرآن نے پتہ دیا ہے (ان میں) تم اس کی پیروی کرو اور اسی کے نور ہدایت سے کسب ِضیا کرتے رہو اور جو چیزیں کہ قرآن میں واجب نہیں اور نہ سنت پیغمبرؐ و آئمہؑ ہُدیٰ میں ان کا نام و نشان ہے اور صرف شیطان نے اس کے جاننے کی تمہیں زحمت دی ہے، اس کا علم اللہ ہی کے پاس رہنے دو اور یہی تم پر اللہ کے حق کی آخری حد ہے۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ الرَّاسِخِیْنَ فِی الْعِلْمِ هُمُ الَّذِیْنَ اَغْنَاهُمْ عَنِ اقْتِحَامِ السُّدَدِ الْمَضْرُوْبَةِ دُوْنَ الْغُیُوْبِ، الْاِقْرَارُ بِجُمْلَةِ مَا جَهِلُوْا تَفْسِیْرَهٗ مِنَ الْغیْبِ الْمَحْجُوْبِ، فَمَدَحَ اللهُ اعْتِرَافَهُمْ بِالْعَجْزِ عَنْ تَنَاوُلِ مَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِهٖ عِلْمًا، وَ سَمّٰی تَرْکَهُمُ التَّعَمُّقَ فِیْمَا لَمْ یُکَلِّفْهُمُ الْبَحْثَ عَنْ کُنْهِهٖ رُسُوْخًا، فاقْتَصِرْ عَلٰی ذٰلِکَ، وَ لَاتُقَدِّرْ عَظَمَةَ اللهِ سُبْحَانَهٗ عَلٰی قَدْرِ عَقْلِکَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْهَالِکِیْنَ.

اور اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں کہ جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی ساری چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے (اور ان پر اعتقاد رکھتے) ہیں، اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے اور یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پر دوں میں درانہ گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے۔ اور اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز ان کے احاطہ علم سے باہر ہوتی ہے اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی اس میں تعمق و کاوش کے ترک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے۔ لہٰذا بس اسی پر اکتفا کر و اور اپنے عقل کے پیمانہ کے مطابق اللہ کی عظمت کو محدود نہ بناؤ، ورنہ تمہارا شمار ہلاک ہونے والوں میں قرار پائے گا۔

هُوَ الْقَادِرُ الَّذِیْۤ اِذَا ارْتَمَتِ الْاَوْهَامُ لِتُدْرِکَ مُنْقَطَعَ قُدْرَتِهٖ، وَ حَاوَلَ الْفِکْرُ الْمُبَرَّاُ مِنْ خَطَرَاتِ الْوَسَاوِسِ اَنْ یَّقَعَ عَلَیْهِ فِیْ عَمِیْقَاتِ غُیُوْبِ مَلَکُوْتِهٖ، وَ تَوَلَّهَتِ الْقُلُوْبُ اِلَیْهِ لِتَجْرِیَ فِیْ کَیْفِیَّةِ صِفَاتِهٖ، وَ غَمَضَتْ مَدَاخِلُ الْعُقُوْلِ فِیْ حَیْثُ لَا تَبْلُغُهُ الصِّفَاتُ لِتَنَاوُلِ عِلْمِ ذَاتِهٖ، رَدَعَهَا وَ هِیَ تَجُوْبُ مَهَاوِیَ سُدَفِ الْغُیُوْبِ، مُتَخَلِّصَةً اِلَیْهِ ـ سُبْحَانَهٗ ـ فَرَجَعَتْ اِذْ جُبِهَتْ، مُعتَرِفَةًۢ بِاَنَّهٗ لَا یُنَالُ بِجَوْرِ الْاِعْتِسَافِ کُنْهُ مَعْرِفَتِهٖ، وَ لَا تَخْطُرُ بِبَالِ اُولِی الرَّوِیَّاتِ خَاطِرَةٌ مِّنْ تَقْدِیْرِ جَلَالِ عِزَّتِهٖ.

وہ ایسا قادر ہے کہ جب اس کی قدرت کی انتہا معلوم کرنے کیلئے وہم اپنے تیر چلا رہا ہو اور فکر ہر طرح کے وسوسوں کے ادھیڑ بن سے آزاد ہو کر اس کے قلمرو مملکت کے گہرے بھیدوں پر آگاہ ہونے کے درپے ہو اور دل اس کی صفتوں کی کیفیت سمجھنے کیلئے والہانہ طور پر دوڑ پڑے ہوں اور ذاتِ الٰہی کو جاننے کیلئے عقلوں کی جستجو و تلاش کی راہیں حدِّ بیان سے زیادہ دور تک چلی گئی ہوں تو اللہ اس وقت جب وہ غیب کی تیرگیوں کے گڑھوں کو عبور کر رہی ہوتی ہیں، ان سب کو (ناکامیوں کے ساتھ) پلٹا دیتا ہے۔ چنانچہ جب اس طرح منہ کی کھا کر پلٹتی ہیں تو انہیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ایسی بے راہ رویوں سے اس کی معرفت کا کھوج نہیں لگایا جا سکتا اور نہ فکر پیماؤں کے دلوں میں اس کی عزت کے تمکنت و جلال کا ذرا سا شائبہ آ سکتا ہے۔

اَلَّذِی ابْتَدَعَ الْخَلْقَ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ امّْتَثَلَهٗ، وَ لَا مِقْدَارٍ احْتَذٰی عَلَیْهِ، مِنْ خَالِقٍ مَّعْبُوْدٍ کَانَ قَبْلَهٗ، وَ اَرَانَا مِنْ مَّلَکُوْتِ قُدْرَتِهٖ، وَ عَجَآئِبِ مَا نَطَقَتْ بِهٖ اٰثَارُ حِکْمَتِهٖ، وَ اعْتِرَافِ الْحَاجَةِ مِنَ الْخَلْقِ اِلٰۤی اَنْ یُّقِیْمَهَا بِمَسَاکِ قُوَّتِهٖ، مَا دَلَّنَا بِاضْطِرَارِ قِیَامِ الْحُجَّةِ لَهٗ عَلٰی مَعْرِفَتِهٖ، وَ ظَهَرَتْ فِی الْبَدَآئِعِ الَّتِیْ اَحْدَثَهَاۤ اٰثَارُ صَنْعَتِهٖ، وَ اَعْلَامُ حِکْمَتِهٖ، فَصَارَ کُلُّ مَا خَلَقَ حُجَّةً لَّهٗ وَ دَلِیْلًا عَلَیْهِ، وَ اِنْ کَانَ خَلْقًا صَامِتًا، فَحُجَّتُهٗ بِالتَّدْبِیْرِ نَاطِقَةٌ، وَ دَلَالَتُهٗ عَلَی الْمُبْدِعِ قَآئِمَةٌ.

وہ وہی ہے کہ جس نے مخلوقات کو ایجاد کیا بغیر اس کے کہ کوئی مثال اپنے سامنے رکھتا اور بغیر اس کے کہ اپنے سے پہلے کسی اور خالق و معبود کی بنائی ہوئی چیزوں کا چربہ اتارتا۔ اس نے اپنی قدرت کی بادشاہت اور ان عجیب چیزوں کے واسطہ سے کہ جن میں اس کی حکمت و دانائی کے آثار (منہ سے) بول رہے ہیں اور مخلوق کے اس اعتراف سے کہ وہ اپنے رکنے تھمنے میں اس کے سہارے کی محتاج ہے، ہمیں وہ چیزیں دکھائی ہیں کہ جنہوں نے قہراً دلیل قائم ہو جانے کے دباؤ سے اس کی معرفت کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے اور اس کی پیدا کردہ عجیب و غریب چیزوں میں اس کی صنعت کے نقش و نگار اور حکمت کے آثار نمایاں اور واضح ہیں۔ چنانچہ ہر مخلوق اس کی ایک حجت اور ایک برہان بن گئی ہے۔ چاہے وہ خاموش مخلوق ہو، مگر اللہ کی تدبیر و کار سازی کی ایک بولتی ہوئی دلیل ہے اور ہستی صانع کی طرف اس کی راہنمائی ثابت و برقرارہے۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَنْ شَبَّهَکَ بِتَبَایُنِ اَعْضَآءِ خَلْقِکَ، وَ تَلَاحُمِ حِقَاقِ مَفَاصِلِهِمُ الْمُحْتَجِبَةِ لِتَدْبِیْرِ حِکْمَتِکَ، لَمْ یَعْقِدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهٖ عَلٰی مَعْرِفَتِکَ، وَ لَمْ یُبَاشِرْ قَلْبَهُ الْیَقِیْنُ بِاَنَّهٗ لَا نِدَّ لَکَ، وَ کَاَنَّهٗ لَمْ یَسْمَعْ تَبَرُّؤَ التَّابِعِیْنَ مِنَ الْمَتْبُوْعِیْنَ اِذْ یَقُوْلُوْنَ: ﴿تَاللّٰهِ اِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝ اِذْ نُسَوِّیْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝﴾.

میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری ہی مخلوق سے ان کے اعضاء کے الگ الگ ہونے اور تیری حکمت کی کارسازیوں سے گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے ان کے جوڑوں کے سروں کے ملنے میں تشبیہ دی، اس نے اپنے چھپے ہوئے ضمیر کو تیری معرفت سے وابستہ نہیں کیا اور اس کے دل کو یہ یقین چھو بھی نہیں گیا کہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ گویا اس نے پیرو کاروں کا یہ قول نہیں سنا جو اپنے مقتداؤں سے بیزاری چاہتے ہوئے یہ کہیں گے کہ: ’’خدا کی قسم! ہم تو قطعاً ایک کھلی ہوئی گمراہی میں تھے کہ جب ہم سارے جہاں کے پالنے والے کے برابر تمہیں ٹھہرایا کرتے تھے‘‘۔

کَذَبَ الْعَادِلُوْنَ بِکَ، اِذْ شَبَّهُوْکَ بِاَصْنَامِهِمْ وَ نَحَلُوْکَ حِلْیَةَ الْمَخْلُوْقِیْنَ بِاَوْهَامِهِمْ، وَ جَزَّاُوْکَ تَجْزِئَةَ الْمُجَسَّمَاتِ بِخَوَاطِرِهِمْ، وَ قَدَّرُوْکَ عَلَی الْخِلْقَةِ الْمُخْتَلِفَةِ الْقُوٰی، بِقَرَآئِحِ عُقُوْلِهِمْ.

وہ لوگ جھوٹے ہیں جو تجھے دوسروں کے برابر سمجھ کر اپنے بتوں سے تشبیہ دیتے ہیں اور اپنے وہم میں تجھ پر مخلوقات کی صفتیں جڑ دیتے ہیں اور اپنے خیال میں اس طرح تیرے حصے بخرے کرتے ہیں جس طرح مجسم چیزوں کے جوڑ بند الگ الگ کئے جاتے ہیں اور اپنی عقلوں کی سوجھ بوجھ کے مطابق تجھے مختلف قوتوں والی مخلوقات پر قیاس کرتے ہیں۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَنْ سَاوَاکَ بِشَیْءٍ مِّنْ خَلْقِکِ فَقَدْ عَدَلَ بِکَ، وَ الْعَادِلُ بِکَ کَافِرٌۢ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِهٖ مُحْکَمَاتُ اٰیَاتِکَ، وَ نَطَقَتْ عَنْهُ شَوَاهِدُ حُجَجِ بَیِّنَاتِکَ، وَ اَنَّکَ اَنْتَ اللهُ الَّذِیْ لَمْ تَتَنَاهَ فِیْ الْعُقُوْلِ، فَتَکُوْنَ فِیْ مَهَبِّ فِکْرِهَا مُکَیَّفًا، وَ لَا فِیْ رَوِیَّاتِ خَوَاطِرِهَا فَتَکُوْنَ مَحْدُوْدًا مُّصَرَّفًا.

میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری مخلوق میں سے کسی کے برابر جانا اس نے تیرا ہمسر بنا ڈالا اور تیرا ہمسر بنانے والا تیری کتاب کی محکم آیتوں کے مضامین اور ان حقائق کا جنہیں تیری طرف کے روشن دلائل واضح کررہے ہیں منکر ہے۔ تو وہ اللہ ہے کہ عقلوں کی حد میں گھر نہیں سکتا کہ ان کی سوچ بچار کی زد پر آ کر کیفیات کو قبول کر لے اور نہ ان کے غور و فکر کی جو لانیوں میں تیری سمائی ہے کہ تو محدود ہو کر ان کے فکری تصرفات کا پابند بن جائے۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]

قَدَّرَ مَا خَلَقَ فَاَحْکَمَ تَقْدِیْرَهٗ، وَ دَبَّرَهٗ فَاَلْطَفَ تَدْبِیْرَهٗ، وَ وَجَّهَهٗ لِوِجْهَتِهٖ فَلَمْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ مَنْزِلَتِهٖ، وَ لَمْ یَقْصُرْ دُوْنَ الْاِنْتِهَآءِ اِلٰی غَایَتِهٖ، وَ لَمْ یَسْتَصْعِبْ اِذْ اُمِرَ بِالْمُضِیِّ عَلٰۤی اِرَادَتِهٖ، وَ کَیْفَ وَ اِنَّمَا صَدَرَتِ الْاُمُوْرُ عَنْ مَّشِیْٓـئَتِهٖ؟

اس نے جو چیزیں پیدا کیں ان کا ایک اندازہ رکھا مضبوط و مستحکم اور ان کا انتظام کیا عمدہ و پاکیزہ اور انہیں ان کی سمت پر اس طرح لگایا کہ نہ وہ اپنی آخری منزل کی حدوں سے آگے بڑھیں اور نہ منزل منتہا تک پہنچنے میں کوتاہی کی۔ جب انہیں اللہ کے ارادے پر چل پڑنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے سرتابی نہیں کی اور وہ ایسا کر ہی کیوں کر سکتی تھیں، جب کہ تمام امور اسی کی مشیت و ارادہ سے صادر ہوئے ہیں۔

اَلْمُنْشِئُ اَصْنَافَ الْاَشْیَآءِ بِلَا رَوِیَّةِ فِکْرٍ اٰلَ اِلَیْهَا، وَ لَا قَرِیْحَةِ غَرِیْزَةٍ اَضْمَرَ عَلَیْهَا، وَ لَا تَجْرِبَةٍ اَفَادَهَا مِنْ حَوَادِثِ الدُّهُوْرِ، وَ لَا شَرِیْکٍ اَعَانَهٗ عَلَی ابْتِدَاعِ عَجَآئِبِ الْاُمُوْرِ، فَتَمَّ خَلْقُهٗ، وَ اَذْعَنَ لِطَاعَتِهٖ، وَ اَجَابَ اِلٰی دَعْوَتِهٖ، وَ لَمْ یَعْتَرِضْ دُوْنَهٗ رَیْثُ الْمُبْطِئِ، وَ لَاۤ اَنَاةُ الْمُتَلَکِّئِ، فَاَقَامَ مِنَ الْاَشْیَآءِ اَوَدَهَا، وَ نَهَجَ حُدُوْدَهَا، وَ لَآءَمَ بِقُدْرَتِهٖ بَیْنَ مُتَضَادِّهَا، وَ وَصَلَ اَسْبَابَ قَرَآئِنِهَا، وَ فَرَّقَهَا اَجْنَاسًا مُّخْتَلِفَاتٍ فِی الْحُدُوْدِ وَ الْاَقْدَارِ، وَ الْغرَآئِزِ وَ الْهَیْئَاتِ، بَدَایَا خَلَآئِقَ اَحْکَمَ صُنْعَهَا، وَ فَطَرَهَا عَلٰی مَاۤ اَرَادَ وَابْتَدَعَهَا!.

وہ گوناگوں چیزوں کا موجد ہے بغیر کسی سوچ بچار کی طرف رجوع کئے اور بغیر طبیعت کی کسی جولانی کے کہ جسے دل میں چھپائے ہو اور بغیر کسی تجربہ کے کہ جو زمانہ کے حوادث سے حاصل کیا ہو اور بغیر کسی شریک کے کہ جو ان عجیب و غریب چیزوں کی ایجاد میں اس کا معین و مددگار رہا ہو۔ چنانچہ مخلوق (بن بنا کر) مکمل ہو گئی اور اس نے اللہ کی اطاعت کے سامنے سر جھکا دیا اور (فوراً) اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے بڑھی، نہ کسی دیر کرنے والے کی سی سست رفتاری دامن گیر ہوئی اور نہ کسی حیل حجت کرنے والے کی سی سستی اور ڈھیل حائل ہوئی۔ اس نے ان چیزوں کے ٹیڑھے پن کو سیدھا کر دیا اور ان کی حدیں معین کر دیں اور اپنی قدرت سے ان متضاد چیزوں میں ہم رنگی و ہم آہنگی پیدا کی اور نفسوں کے رشتے (بدنوں سے) جوڑ دیئے اور انہیں مختلف جنسوں پر بانٹ دیا جو اپنی حدوں، اندازوں، طبیعتوں اور صورتوں میں جُدا جُدا ہیں۔ یہ نو ایجاد مخلوق ہے کہ جس کی ساخت اس نے مضبوط کی ہے اور اپنے ارادے کے مطابق اسے بنایا اور ایجاد کیا۔

[مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ السَّمَآءِ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے آسمان کے وصف میں]

وَ نَظَمَ بِلَا تَعْلِیْقٍ رَّهَوَاتِ فُرَجِهَا، وَ لَاحَمَ صُدُوْعَ انْفِرَاجِهَا، وَ وَشَّجَ بَیْنَهَا وَ بَیْنَ اَزْوَاجِهَا، وَ ذَلَّلَ لِلْهَابِطِیْنَ بِاَمْرِهٖ، وَ الْصَّاعِدِیْنَ بِاَعْمَالِ خَلْقِهٖ، حُزُوْنَةَ مِعْرَاجِهَا، وَ نَادَاهَا بَعْدَ اِذْ هِیَ دُخَانٌ، فَالْتَحَمَتْ عُرٰۤی اَشْرَاجِهَا، وَ فَتَقَ بَعْدَ الْاِرْتِتَاقِ صَوَامِتَ اَبْوَابِهَا، وَ اَقَامَ رَصَدًا مِّنَ الشُّهُبِ الثَّوَاقِبِ عَلٰی نِقَابِهَا، وَ اَمْسَکَهَا مِنْ اَنْ تَمُوْرَ فِیْ خَرْقِ الْهَوَآءِ بِاَیْدِهٖ، وَ اَمَرَهَا اَنْ تَقِفَ مُسْتَسْلِمَةً لِّاَمْرِهٖ، وَ جَعَلَ شَمْسَهَا اٰیَةً مُّبْصِرَةً لِّنَهَارِهَا، وَ قَمَرَهَا اٰیَةً مَّمْحُوَّةً مِّنْ لَّیْلِهَا، وَ اَجْرَاهُمَا فِیْ مَنَاقِلِ مَجْرَاهُمَا، وَ قَدَّرَ سَیْرَهُمَا فِیْ مَدَارِجِ دَرَجِهِمَا، لِیُمَیِّزَ بَیْنَ اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ بِهِمَا، وَ لِیُعْلَمَ عَدَدُ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابُ بِمَقَادِیْرِهِمَا.

اس نے بغیر (کسی چیز سے) وابستہ کئے اس کے شگافوں کے نشیب و فراز کو مرتب کر دیا اور اس کے دراڑوں کی کشادگیوں کو ملادیا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑ دیا اور اس کے احکام کو لے کر اترنے والوں اور خلق کے اعمال کو لے کر چڑھنے والوں کیلئے اس کی بلندیوں کی دشوار گزاری کو آسان کر دیا۔ ابھی وہ آسمان دھوئیں ہی کی شکل میں تھے کہ اللہ نے انہیں پکارا تو (فوراً) ان کے تسموں کے رشتے آپس میں متصل ہو گئے۔ اس نے ان کے بند دروازوں کو بستہ ہونے کے بعد کھول دیا اور ان کے سوراخوں پر ٹوٹتے ہوئے تاروں کے نگہبان کھڑے کر دیئے اور انہیں اپنے زور سے روک دیا کہ کہیں وہ ہوا کے پھیلاؤ میں ادھر ادھر نہ ہو جائیں اور انہیں مامور کیا کہ وہ اس کے حکم کے سامنے سر جھکائے ہوئے اپنے مرکز پر ٹھہرے رہیں۔ اس نے فلک کے سورج کو دن کی روشن نشانی اور چاند کو رات کی دھندلی نشانی قرار دیا ہے اور انہیں ان کی منزلوں پر چلایا ہے اور ان کی گزرگاہوں میں ان کی رفتار مقرر کر دی ہے، تاکہ ان کے ذریعہ سے شب و روز کی تمیز ہو سکے اور انہی کے اعتبار سے برسوں کی گنتی اور (دوسرے) حساب جانے جا سکیں۔

ثُمَّ عَلَّقَ فِیْ جَوِّهَا فَلَکَهَا، وَ نَاطَ بِهَا زِیْنَتَهَا، مِنْ خَفِیَّاتِ دَرَارِیِّهَا وَ مَصَابِیْحِ کَوَاکِبِهَا، وَ رَمٰی مُسْتَرِقِی السَّمْعِ بِثَوَاقِبِ شُهُبِهَا، وَ اَجْرَاهَا عَلٰۤی اِذْلَالِ تَسْخِیْرِهَا مِنْ ثَبَاتِ ثَابِتِهَا، وَ مَسِیْرِ سَآئِرِهَا، وَ هُبُوْطِهَا وَ صُعُوْدِهَا، وَ نُحُوْسِهَا وَ سُعُوْدِهَا.

پھر یہ کہ اس نے آسمانی فضا میں اس فلک کو آویزاں کیا اور اس میں اسی کی آرائش کیلئے منے منے موتیوں ایسے تارے اور چراغوں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے آویزاں کئے اور چوری چھپے کان لگانے والوں پر ٹوٹتے ہوئے تاروں کے تیر چلائے اور ستاروں کو اپنے جبرو قہر سے ان کے دھڑے پر لگایا کہ کوئی ثابت رہے اور کوئی سیار، کبھی اتار ہو اور کبھی ابھار اور کسی میں نحوست ہو اور کسی میں سعادت۔

[وَ مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ الْمَلٰٓئِکَةِ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے فرشتوں کے وصف میں]

ثُمَّ خَلَقَ سُبْحَانَهٗ لِاِسْکَانِ سَمٰوٰتِهٖ، وَ عِمَارَةِ الصَّفِیْحِ الْاَعْلٰی مِنْ مَّلَکُوْتِهٖ، خَلْقًۢا بَدِیْعًا مِّنْ مَّلٰٓئِکَتِهٖ، وَ مَلَاَ بهِمْ فُرُوْجَ فِجَاجِهَا، وَ حَشَا بِهِمْ فُتُوْقَ اَجْوَآئِهَا، وَ بَیْنَ فَجَوَاتِ تِلْکَ الْفُرُوْجِ زَجَلُ الْمُسَبِّحِیْنَ مِنْهُمْ فِیْ حَظَآئِرِ الْقُدْسِ، وَ سُتُرَاتِ الْحُجُبِ، وَ سُرَادِقَاتِ الْمَجْدِ، وَ وَرَآءَ ذٰلِکَ الرَّجِیْجِ الَّذِیْ تَسْتَکُّ مِنْهُ الْاَسْمَاعُ سُبُحَاتُ نُوْرٍ تَرْدَعُ الْاَبْصَارَ عَنْۢ بُلُوْغِهَا، فَتَقِفُ خَاسِئَةً عَلٰی حُدُوْدِهَا.

پھر اللہ سبحانہ نے اپنے آسمانوں میں ٹھہرانے اور اپنی مملکت کے بلند طبقات کو آباد کرنے کیلئے فرشتوں کی عجیب و غریب مخلوق پیدا کی۔ ان سے آسمان کے وسیع راستوں کا گوشہ گوشہ بھر دیا اور اس کی فضا کی وسعتوں کا کونا کونا چھلکا دیا اور ان وسیع اطراف کی پہنائیوں میں تسبیح کرنے والے فرشتوں کی آوازیں قدس و پاکیزگی کی چار دیواریوں اور عظمت کے گہرے حجابوں اور بزرگی و جلال کے سرا پردوں میں گونجتی ہیں اور اس گونج کے پیچھے جس سے کان بہرے ہو جاتے ہیں تجلیات نور کی اتنی فراوانیاں ہیں کہ جو نگاہوں کو اپنے تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ ناکام و نامراد ہو کر اپنی جگہ پر ٹھہری رہتی ہیں۔

اَنْشَاَهُمْ عَلٰی صُوَرٍ مُّخْتَلِفَاتٍ، وَ اَقْدَارٍ مُّتَفَاوِتَاتٍ، ﴿اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ ﴾ تُسَبِّحُ جَلَالَ عِزَّتِهٖ، لَا یَنْتَحِلُوْنَ مَا ظَهَرَ فِی الْخَلْقِ مِنْ صُنْعِهٖ، وَ لَا یَدَّعُوْنَ اَنَّهُمْ یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا مَّعَهٗ مِمَّا انْفَرَدَ بِهٖ، ﴿بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَۙ۝ لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ۝﴾.

اللہ نے ان (فرشتوں) کو جُدا جُدا صورتوں اور الگ الگ پیمانوں پر پیدا کیا ہے۔ وہ بال و پَر رکھتے ہیں اور اس کے جلال و عزت کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور مخلوق میں جو اس کی صنعتیں اجاگر ہوئی ہیں انہیں اپنی طرف نسبت نہیں دیتے اور نہ یہ اِدّعا کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسی شے کو پیدا کر سکتے ہیں کہ جس کے پیدا کرنے میں وہ منفرد و یکتا ہے، ’’بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں جو کسی بات کے کہنے میں اس سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اسی کے کہنے پر چلتے ہیں‘‘۔

جَعَلَهُمْ فِیْمَا هُنَالِکَ اَهْلَ الْاَمَانَةِ عَلٰی وَحْیِهِ، وَ حَمَّلَهُمْ اِلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَ دَآئِعَ اَمْرِهٖ وَ نَهْیِهٖ، وَ عَصَمَهُمْ مِنْ رَّیْبِ الشُّبُهَاتِ، فَمَا مِنْهُمْ زَآئِغٌ عَنْ سَبِیْلِ مَرْضَاتِهٖ، وَ اَمَدَّهُمْ بِفَوَآئِدِ الْمَعُوْنَةِ، وَ اَشْعَرَ قُلُوْبَهُمْ تَوَاضُعَ اِخْبَاتِ السَّکِیْنَةِ، وَ فَتَحَ لَهُمْ اَبْوَابًا ذُلُلًا اِلٰی تَمَاجِیْدِهٖ، وَ نَصَبَ لَهُمْ مَنَارًا وَّاضِحَةً عَلٰۤی اَعْلَامِ تَوْحِیْدِهٖ،

اللہ نے انہیں وہاں اپنی وحی کا امانتدار اور اپنے اوامر و نواہی کی ودیعتوں کا حامل بنا کر رسولوں کی طرف بھیجا ہے اور شک و شبہات کے خدشوں سے انہیں محفوظ رکھا ہے۔ تو ان میں سے کوئی بھی اس کی رضا جوئی کی راہ سے کترانے والا نہیں اور اس نے اپنی توفیق و اعانت سے ان کی دستگیری کی اور خضوع و خشوع کی عجز و شکستگی سے ان کے دلوں کو ڈھانپ دیا ہے اور تسبیح و تقدیس کی سہولتوں کے دروازے ان کیلئے کھول دیئے ہیں اور اپنی توحید کے نشانوں پر ان کیلئے روشن مینار نصب کئے ہیں۔

لَمْ تُثْقِلْهُمْ مُوْصِرَاتُ الْاٰثَامِ، وَ لَمْ تَرْتَحِلْهُمْ عُقَبُ اللَّیَالِیْ وَ الْاَیَّامِ، وَ لَمْ تَرْمِ الشُّکُوْکُ بِنَوَازِعِهَا عَزِیْمَةَ اِیْمَانِهِمْ، وَ لَمْ تَعْتَرِکِ الظُّنُوْنُ عَلٰی مَعَاقِدِ یَقِیْنِهِمْ، وَ لَا قَدَحَتْ قَادِحَةُ الْاِحَنِ فِیْمَا بَیْنَهُمْ، وَ لَا سَلَبَتْهُمُ الْحَیْرَةُ مَا لَاقَ مِنْ مَّعْرِفَتِهٖ بِضَمَآئِرِهِمْ، وَ مَا سَکَنَ مِنْ عَظَمَتِهٖ وَ هَیْبَةِ جَلَالَتِهٖ فِیْۤ اَثْنَآءِ صُدُوْرِهِمْ، وَ لَمْ تَطْمَعْ فِیْهِمُ الْوَسَاوِسُ فَتَقْتَرِعَ بِرَیْنِهَا عَلٰی فِکْرِهِمْ.

نہ گناہوں کی گرانباریوں نے انہیں دبا رکھا ہے، نہ شب و روز کی گردشوں نے ان پر (سواری کیلئے) پالان ڈالے ہیں اور نہ شکوک و شبہات نے ان کے ایمان کے استحکام پر تیر چلائے ہیں اور نہ ان کے یقین کی پختگیوں پر (اوہام و) ظنون نے دھاوا بولا ہے اور نہ ان کے درمیان کبھی کینہ و حسد کی چنگاریاں بھڑکی ہیں اور نہ حیرانی و سراسیمگی ان کے دلوں میں سرایت کی ہوئی معرفت اور ان کے سینے کی تہوں میں جمی ہوئی عظمت خداوندی و ہیبت ِجلال الٰہی کو چھین سکی ہے، نہ کبھی وسوسوں نے ان پر دندان آز تیز کیا ہے کہ ان کے فکروں کو زنگ و تکدر سے آلودہ کر دیں۔

مِنْهُمْ مَنْ هُوَ فِیْ خَلْقِ الْغَمَامِ الدُّلَّحِ، وَ فِیْ عِظَمِ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ، وَ فِیْ قَتْرَةِ الظَّلَامِ الْاَیْهَمِ، وَ مِنْهُمْ مَنْ قَدْ خَرَقَتْ اَقْدَامُهُمْ تُخُوْمَ الْاَرْضِ السُّفْلٰی، فَهِیَ کَرَایَاتٍ بِیْضٍ قَدْ نَفَذَتْ فِیْ مَخَارِقِ الْهَوَآءِ، وَ تَحْتَهَا رِیْحٌ هَفَّافَةٌ تَحْبِسُهَا عَلٰی حَیْثُ انْتَهَتْ مِنَ الْحُدُوْدِ الْمُتَنَاهِیَةِ.

ان میں کچھ وہ ہیں جو اللہ کے پیدا کردہ بوجھل بادلوں اور اونچے پہاڑوں کی بلندیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کی سیاہیوں کی صورتوں میں ہیں اور ان میں کچھ وہ ہیں جن کے قدم تحت الثریٰ کی حدوں کو چیر کر نکل گئے ہیں تو وہ سفید جھنڈوں کے مانند ہیں جو فضا کی وسعت کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں اور ان پھریروں کے آخری سرے تک ایک ہلکی ہوا چل رہی ہے جو انہیں روکے ہوئے ہے۔

قَدِ اسْتَفْرَغَتْهُمْ اَشْغَالُ عِبَادَتِهٖ، وَ وَصَلَتْ حَقَآئِقُ الْاِیْمَانِ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِهٖ، وَ قَطَعَهُمُ الْاِیْقَانُ بِهٖۤ اِلَی الْوَلَهِ اِلَیْهِ، وَ لَمْ تُجَاوِزْ رَغَبَاتُهُمْ مَا عِنْدَهٗ اِلٰی مَا عِنْدَ غَیْرِهٖ.

ان فرشتوں کو عبادت کی مشغولیتوں نے ہر چیز سے بے فکر بنا دیا اور ایمان کے ٹھوس عقیدے ان کیلئے اللہ کی معرفت کا وسیلہ بن گئے ہیں اور یقین کامل نے اوروں سے ہٹا کر اسی سے ان کی لو لگا دی ہے۔ اللہ کی طرف کی نعمتوں کے سوا کسی غیر کے عطا و انعام کی انہیں خواہش ہی نہیں ہوتی۔

قَدْ ذَاقُوْا حَلَاوَةَ مَعْرِفَتِهٖ، وَ شَرِبُوْا بِالْکَاْسِ الرَّوِیَّةِ مِنْ مَّحَبَّتِهٖ، وَ تَمَکَّنَتْ مِنْ سُوَیْدَآءِ قُلُوْبِهِمْ وَ شِیْجَةُ خِیْفَتِهٖ، فَحَنَوْا بِطُوْلِ الطَّاعَةِ اعْتِدَالَ ظُهُوْرِهِمْ، وَ لَمْ یُنْفِدْ طُوْلُ الرَّغْبَةِ اِلَیْهِ مَادَّةَ تَضَرُّعِهِمْ، وَ لَاۤ اَطْلَقَ عَنْهُمْ عَظِیْمُ الزُّلْفَةِ رِبَقَ خُشُوْعِهِمْ.

انہوں نے معرفت کے شیریں مزے چکھے ہیں اور اس کی محبت کے سیراب کرنے والے جام سے سرشار ہیں اور ان کے دلوں کی تہ میں اس کا خوف جڑ پکڑ چکا ہے، تو انہوں نے لمبی چوڑی عبادتوں سے اپنی سیدھی کمریں ٹیڑھی کر لی ہیں اور ہمہ وقت اسی کی طلب میں لگے رہنے کے باوجود ان کے تضرع و عاجزی کے ذخیرے ختم نہیں ہوتے اور قرب الٰہی کی بلندیوں کے باوجود خوف و خشوع کے پھندے ان (کے گلے ) سے نہیں اترتے۔

وَ لَمْ یَتَوَلَّهُمُ الْاِعْجَابُ فَیَسْتَکْثِرُوْا مَا سَلَفَ مِنْهُمْ، وَ لَا تَرَکَتْ لَهُمُ اسْتِکَانَةُ الْاِجْلَالِ نَصِیْبًا فِیْ تَعْظِیْمِ حَسَنَاتِهمْ، وَ لَمْ تَجْرِ الْفَتَرَاتُ فِیْهِمْ عَلٰی طُوْلِ دُؤٗبِهِمْ، وَ لَمْ تَغِضْ رَغَبَاتُهُمْ فَیُخَالِفُوْا عَنْ رَّجَآءِ رَبِّهِمْ، وَ لَمْ تَجِفَّ لِطُوْلِ الْمُنَاجَاةِ اَسَلَاتُ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ لَا مَلَکَتْهُمُ الْاَشْغَالُ فَتَنْقَطِعَ بِهَمْسِ الْجُؤَارِ اِلَیْهِ اَصْوَاتُهُمْ، وَ لَمْ تَخْتَلِفْ فِیْ مَقَاوِمِ الطّاعَةِ مَنَاکِبُهُمْ، وَ لَمْ یَثْنُوْۤا اِلٰی رَاحَةِ التَّقْصِیْرِ فِیْۤ اَمْرِهٖ رِقَابَهُمْ، وَ لَا تَعْدُوْ عَلٰی عَزِیْمَةِ جِدِّهِمْ بَلَادَةُ الْغَفَلَاتِ، وَ لَا تَنْتَضِلُ فِیْ هِمَمِهِمْ خَدَآئِعُ الشَّهَوَاتِ.

نہ ان میں کبھی خود پسندی پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے گزشتہ اعمال کو زیادہ خیال کرنے لگیں اور نہ جلال پروردگار کے سامنے ان کے عجز و انکسار نے یہ موقع آنے دیا ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کو بڑا سمجھ سکیں۔ ان میں مسلسل تعب اٹھانے کے باوجود بھی سستی نہیں آنے پاتی اور نہ ان کی طلب و رغبت میں کبھی کمی پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنے پالنے والے کے توقعات سے روگرداں ہو جائیں اور نہ مسلسل مناجاتوں سے ان کی زبان کی نوکیں خشک ہوتی ہیں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ وہ دوسرے اشغال کی وجہ سے تضرع و زاری کی آوازوں کو دھیما کر لیں اور نہ عبادت کی صفوں میں ان کے شانے آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور نہ وہ آرام و راحت کی خاطر اس کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی کر کے اپنی گردنوں کو ادھر سے ادھر کرتے ہیں، نہ ان کی کوششوں کے عزم پر غفلت کی نادانیاں حملہ آور ہوتی ہیں، اور نہ ان کی (بلند) ہمتوں میں فریب دینے والے وسوسوں کا گزر ہوتا ہے۔

قَدِ اتَّخَذُوْا ذَا الْعَرْشِ ذَخِیْرَةً لِّیَوْمِ فَاقَتِهِمْ، وَ یَمَّمُوْهُ عِنْدَ انْقِطَاعِ الْخَلْقِ اِلَی الْمَخْلُوْقِیْنَ بِرَغْبَتِهِمْ، لَا یَقْطَعُوْنَ اَمَدَ غَایَةِ عِبَادَتِهٖ، وَ لَا یَرْجِـعُ بِهِمُ الْاِسْتِهْتَارُ بِلُزُوْمِ طَاعَتِهٖ، اِلَّاۤ اِلٰی مَوَادَّ مِنْ قُلُوْبِهِمْ غَیْرِ مُنْقَطِعَةٍ مِّنْ رَّجَآئِهٖ وَ مَخَافَتِهٖ، لَمْ تَنْقَطِعْ اَسْبَابُ الشَّفَقَةِ مِنْهُمْ، فَیَنُوْا فِیْ جِدِّهِمْ، وَ لَمْ تَاْسِرْهُمُ الْاَطْمَاعُ فَیُؤْثِرُوْا وَشِیْکَ السَّعْیِ عَلَی اجْتِهَادِهِمْ. وَ لَمْ یَسْتَعْظِمُوْا مَا مَضٰی مِنْ اَعْمَالِهِمْ، وَ لَوِ اسْتَعْظَمُوْا ذٰلِکَ لَنَسَخَ الرَّجَآءُ مِنْهُمْ شَفَقَاتِ وَجَلِهِمْ، وَ لَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْ رَبِّهِمْ بِاسْتِحْوَاذِ الشَّیْطٰنِ عَلَیْهِمْ، وَ لَمْ یُفَرِّقْهُمْ سُوْٓءُ التَّقَاطُعِ، وَ لَاتَوَلَّاهُمْ غِلُّ التَّحَاسُدِ، وَ لَا تَشَعَّبَتْهُمْ مَصَارِفُ الرِّیْبِ، وَ لَا اقْتَسَمَتْهُمْ اَخْیَافُ الْهِمَمِ.

انہوں نے احتیاج کے دن کیلئے صاحب عرش کو اپنا ذخیرہ بنا رکھا ہے اور جب دوسرے لوگ مخلوقات کی طرف اپنی خواہشوں کو لے کر بڑھتے ہیں تو یہ بس اسی سے لو لگاتے ہیں۔ وہ اس کی عبادت کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتے۔ انہیں عبادت کا والہانہ شوق (کسی اور طرف لے جانے کے بجائے) ان کی قلبی امید و بیم کے ان ہی سر چشموں کی طرف لے جاتا ہے جن کے سوتے کبھی موقوف نہیں ہوتے۔ خوف کھانے کے وجوہ ختم نہیں ہوئے کہ وہ اپنی کوششوں میں سستی کریں اور نہ دنیا کے طمعوں نے انہیں جکڑ رکھا ہے کہ وہ دنیا کیلئے وقتی کوششوں کو اپنی اس جدوجہد پر ترجیح دیں اور نہ انہوں نے اپنے سابقہ اعمال کو کبھی بڑا سمجھا ہے اور اگر بڑا سمجھتے تو پھر امیدیں خوف خدا کے اندیشوں کو ان (کے صفحہ دل) سے مٹا دیتیں اور نہ شیطان کے ورغلانے سے ان میں باہم اپنے پروردگار کے متعلق کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوا اور نہ ایک دوسرے سے کٹنے (اور بگاڑ پیدا کرنے) کی وجہ سے پراگندہ و متفرق ہوئے اور نہ آپس میں حسد رکھنے کے سبب سے ان کے دلوں میں کینہ و بغض پیدا ہوا اور نہ شک و شبہات میں پڑنے کی وجہ سے تتر بتر ہوئے اور نہ پست ہمتیوں نے ان پر کبھی قبضہ کیا۔

فَهُمْ اُسَرَآءُ اِیْمَانٍ لَّمْ یَفُکَّهُمْ مِنْ رِّبْقَتِهٖ زَیَغٌ وَّ لَا عُدُوْلٌ وَّ لَا وَنًی وَّ لَا فُتُوْرٌ، وَ لَیْسَ فِیْۤ اَطْبَاقِ السَّمَآءِ مَوْضِعُ اِهَابٍ اِلَّا وَ عَلَیْهِ مَلَکٌ سَاجِدٌ، اَوْ سَاعٍ حَافِدٌ، یَزْدَادُوْنَ عَلٰی طُوْلِ الطَّاعَةِ بِرَبِّهِمْ عِلْمًا، وَ تَزْدَادُ عِزَّةُ رَبِّهِمْ فِیْ قُلُوْبِهِمْ عِظَمًا.

وہ ایمان کے پابند ہیں، انہیں اس کے بندھنوں سے کجی، روگردانی سستی یا کاہلی نے کبھی نہیں چھڑایا۔ سطح آسمان پر کھال کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں کوئی سجدہ کرنے والا فرشتہ یا تیزی سے تگ و دو کرنے والا ملک نہ ہو، پروردگار کی اطاعت کے بڑھنے سے ان کے علم میں زیادتی ہی ہوتی رہتی ہے اور ان کے دلوں میں اس کی عزت کی عظمت و جلالت بڑھتی ہی جاتی ہے۔

[وَ مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ الْاَرْضِ وَ دَحْوِهَا عَلَی الْمَآءِ]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے جس میں زمین اور اس کے پانی پر بچھائے جانے کی کیفیت بیان فرمائی ہے]

کَبَسَ الْاَرْضَ عَلٰی مَوْرِ اَمْوَاجٍ مُّسْتَفْحِلَةٍ، وَ لُجَجِ بِحَارٍ زَاخِرَةٍ، تَلْتَطِمُ اَوَاذِیُّ اَمْوَاجِهَا، وَ تَصْطَفِقُ مُتَقَاذِفَاتُ اَثْبَاجِهَا، وَ تَرْغُوْ زَبَدًا کَالْفُحُوْلِ عِنْدَ هِیَاجِهَا، فَخَضَعَ جِمَاحُ الْمَآءِ الْمُتَلَاطِمِ لِثِقَلِ حَمْلِهَا، وَ سَکَنَ هَیْجُ ارْتِمَآئِهٖ اِذْ وَطِئَتْهُ بِکَلْکَلِهَا، وَ ذَلَّ مُسْتَخْذِیًا اِذْ تَمعَّکَتْ عَلَیْهِ بِکَوَاهِلِهَا، فَاَصْبَحَ بَعْدَ اصْطِخَابِ اَمْوَاجِهٖ، سَاجِیًا مَّقْهُوْرًا، وَ فِیْ حَکَمَةِ الذُّلِّ مُنْقَادًا اَسِیْرًا، وَ سَکَنَتِ الْاَرْضُ مَدْحُوَّةً فِیْ لُجَّةِ تَیَّارِهٖ، وَ رَدَّتْ مِنْ نَّخْوَةِ بَاْوِهٖ وَ اعْتِلَآئِهٖ، وَ شُمُوْخِ اَنْفِهٖ وَ سُمُوِّ غُلَوَآئِهٖ، وَ کَعَمَتْهُ عَلٰی کِظَّةِ جَرْیَتِهٖ، فَهَمَدَ بَعْدَ نَزَقَاتِهٖ، وَ لَبَدَ بَعْدَ زَیَفَانِ وَثَبَاتِهٖ.

(اللہ نے) زمین کو تہ و بالا ہونے والی مہیب لہروں اور بھر پور سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں کے اوپر پاٹا، جہاں موجیں موجوں سے ٹکرا کر تھپیڑے کھاتی تھیں اور لہریں لہروں کو دھکیل کر گونج اٹھتی تھیں اور اس طرح پھین دے رہی تھیں جس طرح مستی و ہیجان کے عالم میں نر اونٹ۔ چنانچہ اس متلاطم پانی کی طغیانیاں زمین کے بھاری بوجھ کے دباؤ سے فرو ہو گئیں اور جب اس نے اپنا سینہ اس پر ٹیک کر اسے روندا تو سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا اور جب اپنے شانے ٹکا کر اس پر لوٹی تو وہ ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ رام ہو گیا۔ کہاں تو اس کی موجیں دندنا رہی تھیں کہ اب عاجز و بے بس ہو کر تھم گیا اور ذلت کی لگاموں میں اسیر ہو کر مطیع ہو گیا اور زمین اس طوفان خیز پانی کے گہراؤ میں اپنا دامن پھیلا کر ٹھہر گئی اور اس کے اٹھلانے اور سر اٹھانے کے غرور اور تکبر سے ناک اوپر چڑھانے اور بہاؤ میں تفوق و سر بلندی دکھانے کا خاتمہ کر دیا اور اس کی روانی کی بے اعتدالیوں پر ایسے بند باندھے کہ وہ اچھلنے کودنے کے بعد(بالکل بے دم) ہو کر ٹھہر گیا اور جست و خیز کی سر مستیاں دکھا کر تھم گیا۔

فَلَمَّا سَکَنَ هَیْجُ الْمَآءِ مِنْ تَحْتِ اَکْنَافِهَا، وَ حَمَلَ شَوَاهِقَ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ الْبُذَّخِ عَلٰۤی اَکْتَافِهَا، فَجَّرَ یَنَابِیْعَ الْعُیُوْنِ مِنْ عَرَانِیْنِ اُنُوْفِهَا، وَ فَرَّقَهَا فِیْ سُهُوْبِ بِیْدِهَا وَ اَخَادِیْدِهَا، وَ عَدَّلَ حَرَکَاتِهَا بِالرَّاسِیَاتِ مِنْ جَلَامِیْدِهَا، وَ ذَوَاتِ الشَّنَاخِیْبِ الشُّمِّ مِنْ صَیَاخِیْدِهَا، فَسَکَنَتْ مِنَ الْمَیَدَانِ لِرُسُوْبِ الْجِبَالِ فِیْ قِطَعِ اَدِیْمِهَا، وَ تَغَلْغُلِهَا مُتَسَرِّبَةً فِیْ جَوْبَاتِ خَیَاشِیْمِهَا، وَ رُکُوْبِهَاۤ اَعْنَاقَ سُهُوْلِ الْاَرَضِیْنَ وَ جَرَاثِیْمِهَا،

جب اس کے کناروں کے نیچے پانی کی طغیانی کا زور و شور سکون پذیر ہوا اور اس کے کاندھوں پر اونچے اونچے اور چوڑے چکلے پہاڑوں کا بوجھ لد گیا تو (اللہ نے) اس کی ناک کے بانسوں سے پانی کے چشمے جاری کر دیے جنہیں دور و دراز جنگلوں اور کھدے ہوئے گڑھوں میں پھیلا دیا اور پتھروں کی مضبوط چٹانوں اور بلند چوٹیوں والے پتھریلے پہاڑوں سے اس کی حرکت میں اعتدال پیدا کیا۔ چنانچہ اس کی سطح کے مختلف حصوں میں پہاڑوں کے ڈوب جانے اور اس کی گہرائیوں کی تہ میں گھس جانے اور اس کے ہموار حصوں کی بلندیوں اور پست سطحوں پر سوار ہو جانے کی وجہ سے اس کی تھرتھراہٹ جاتی رہی۔

وَ فَسَحَ بَیْنَ الْجَوِّ وَ بَیْنَهَا، وَ اَعَدَّ الْهَوَآءَ مُتَنَسَّمًا لِّسَاکِنِهَا، وَ اَخْرَجَ اِلَیْهَاۤ اَهْلَهَا عَلٰی تَمَامِ مَرَافِقِهَا.

اور اللہ نے زمین سے لے کر فضائے بسیط تک پھیلاؤ اور وسعت رکھی اور اس میں رہنے والوں کو سانس لینے کو ہوا مہیا کی اور اس میں بسنے والوں کو ان کی تمام ضروریات کے ساتھ ٹھہرایا۔

ثُمَّ لَمْ یَدَعْ جُرُزَ الْاَرْضِ الَّتِیْ تَقْصُرُ مِیَاهُ الْعُیُوْنِ عَنْ رَّوَابِیْهَا، وَ لَا تَجِدُ جَدَاوِلُ الْاَنْهَارِ ذَرِیْعَةً اِلٰی بُلُوْغِهَا، حَتّٰۤی اَنْشَاَ لَهَا نَاشِئَةَ سَحَابٍ تُحْیِیْ مَوَاتَهَا، وَ تَسْتَخْرِجُ نَبَاتَهَا. اَلَّفَ غَمَامَهَا بَعْدَ افْتِرَاقِ لُمَعِهٖ، وَ تَبَایُنِ قَزَعِهٖ. حَتّٰی اِذَا تَمَخَّضَتْ لُجَّةُ الْمُزْنِ فِیْهِ، وَ الْتَمَعَ بَرْقُهٗ فِیْ کُفَفِهٖ، وَ لَمْ یَنَمْ وَمِیْضُهٗ فِیْ کَنَهْوَرِ رَبَابِهٖ، وَ مُتَرَاکِمِ سَحَابِهٖ، اَرْسَلَهٗ سَحًّا مُّتَدَارِکًا، قَدْ اَسَفَّ هَیْدَبُهٗ، تَمْرِیْهِ الْجَنُوْبُ دِرَرَ اَهَاضِیْبِهٖ، وَ دَفْعَ شَاٰبِیْبِهٖ.

پھر اس نے چٹیل زمینوں کو کہ جن کی بلندیوں تک نہ چشموں کا پانی پہنچ سکتا ہے اور نہ نہروں کے نالے وہاں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ رکھتے ہیں، یونہی نہیں رہنے دیا، بلکہ ان کیلئے ہوا پر اٹھنے والی گھٹائیں پیدا کیں جو مردہ زمین میں زندگی کی لہریں دوڑا دیتی ہیں اور اس سے گھاس پات اُگاتی ہیں۔اس نے ابر کی بکھری ہوئی چمکیلی ٹکڑیوں اور پراگندہ بدلیوں کو یکجا کر کے اَبر محیط بنایا اور جب اس کے اندر پانی کے ذخیرے حرکت میں آ گئے اور اس کے کناروں میں بجلیاں تڑپنے لگیں اور برق کی چمک سفید اَبروں کی تہوں اور گھنے بادلوں کے اندر مسلسل جاری رہی تو اللہ نے انہیں موسلا دھار برسنے کیلئے بھیج دیا۔ اس طرح کہ اس کے پانی سے بھرے ہوئے بوجھل ٹکڑے زمین پر منڈلا رہے تھے اور جنوبی ہوائیں انہیں مسل مسل کر برسنے والے مینہ کی بوندیں اور ایک دم ٹوٹ پڑنے والی بارش کے جھالے برسا رہی تھیں۔

فَلَمَّاۤ اَلْقَتِ السَّحَابُ بَرْکَ بِوَانِیْهَا، وَ بَعَاعَ مَا اسْتَقَلَّتْ بِهٖ مِنَ الْعِبْءِ الْمَحْمُوْلِ عَلَیْهَا، اَخْرَجَ بِهٖ مِنْ هَوَامِدِ الْاَرْضِ النَّبَاتَ، وَ مِنْ زُعْرِ الْجِبَالِ الْاَعْشَابَ، فَهِیَ تَبْهَجُ بِزِیْنَةِ رِیَاضِهَا، وَ تَزْدَهِیْ بِمَاۤ اُلْبِسَتْهُ مِنْ رَّیْطِ اَزَاهِیْرِهَا، وَ حِلْیَةِ مَا سُمِطَتْ بِهٖ مِنْ نَّاضِرِ اَنْوَارِهَا، وَ جَعَلَ ذٰلِکَ بَلَاغًا لِّلْاَنَامِ، وَ رِزْقًا لِّلْاَنْعَامِ، وَ خَرَقَ الْفِجَاجَ فِیْۤ اٰفَاقِهَا، وَ اَقَامَ الْمَنَارَ لِلسَّالِکِیْنَ عَلٰی جَوَادِّ طُرُقِهَا.

جب بادلوں نے اپنا سینہ ہاتھ پیروں سمیت زمین پر ٹیک دیا اور پانی کا سارا لدا لدایا بوجھ اس پر پھینک دیا تو اللہ نے افتادہ زمینوں سے سر سبز کھیتیاں اُگائیں اور خشک پہاڑوں پر ہرا بھرا سبزہ پھیلا دیا۔ زمین بھی اپنے مرغزاروں کے بناؤ سنگار سے خوش ہو کر جھومنے لگی اور ان شگوفوں کی اوڑھنیوں سے جو اسے اوڑھا دی گئی تھیں اور ان شگفتہ و شاداب کلیوں کے زیوروں سے جو اسے پہنا دیئے گئے تھے، اترانے لگی۔ اللہ نے ان چیزوں کو لوگوں کی زندگی کا وسیلہ اور چوپائیوں کا رزق قرار دیا ہے اور اسی نے زمین کی سمتوں میں کشادہ راستے نکالے ہیں اور اس کی شاہراہوں پر چلنے والوں کیلئے روشنی کے مینار نصب کئے ہیں۔

فَلَمَّا مَهَدَ اَرْضَهٗ، وَ اَنْفَذَ اَمْرَهٗ، اخْتَارَ اٰدَمَ ؑ، خِیْرَةً مِّنْ خَلْقِهٖ، وَ جَعَلَهٗ اَوّلَ جِبِلَّتِهٖ، وَ اَسْکَنَهٗ جَنَّتَهٗ، وَ اَرْغَدَ فِیْهَاۤ اُکُلَهٗ، وَ اَوْعَزَ اِلَیْهِ فِیْمَا نَهَاهُ عَنْهُ، وَ اَعْلَمَهٗ اَنَّ فِی الْاِقْدَامِ عَلَیْهِ التَّعَرُّضَ لِمَعْصِیَتِهٖ، وَ الْمُخَاطَرَةَ بِمَنْزِلَتِهٖ فَاَقْدَمَ عَلٰی مَا نَهَاهُ عَنْهُ ـ مُوَافَاةً لِّسَابِقِ عِلْمِهٖ ـ فَاَهْبَطَهٗ بَعْدَ التَّوْبَةِ لِیَعْمُرَ اَرْضَهٗ بِنَسْلِهٖ، وَ لِیُقِیْمَ الْحُجَّةَ بِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لَمْ یُخْلِهِمْ بَعْدَ اَنْ قَبَضَهٗ، مِمَّا یُؤَکِّدُ عَلَیْهِمْ حُجَّةَ رُبُوْبِیَّتِهٖ، وَ یَصِلُ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِهٖ، بَلْ تَعَاهَدَهُمْ بِالْحُجَجِ عَلٰۤی اَلْسُنِ الْخِیَرَةِ مِنْۢ اَنْۢبِیَآئِهٖ، وَ مُتَحَمِّلِیْ وَدَآئِعِ رِسَالَاتِهٖ، قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتّٰی تَمَّتْ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ ﷺ -حُجَّتُهٗ، وَ بَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُهٗ وَ نُذُرُهٗ.

جب اللہ نے فرشِ زمین بچھا لیا اور اپنا کام پورا کر لیا تو آدم علیہ السلام کو دوسری مخلوق کے مقابلہ میں برگزیدہ ہونے کی وجہ سے منتخب کر لیا اور انہیں نوع انسانی کی فرد اوّل قرار دیا اور انہیں اپنی جنت میں ٹھہرایا جہاں دل کھول کر ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور جس سے منع کرنا تھا اس سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اور یہ بتا دیا تھا کہ اس کی طرف قدم بڑھانے میں عدول حکمی کی آلائش ہے اور اپنے مرتبہ کو خطرہ میں ڈالنا ہے، لیکن جس چیز سے انہیں روکا تھا انہوں نے اسی کا رخ کیا، جیسا کہ پہلے ہی سے اس کے علم میں تھا۔ چنانچہ توبہ کے بعد انہیں جنت سے نیچے اتار دیا، تاکہ اپنی زمین کو ان کی اولاد سے آباد کرے اور ان کے ذریعے بندوں پر حجت پیش کرے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو اٹھا لینے کے بعد بھی اپنی مخلوق کو ایسی چیزوں سے خالی نہیں رکھا جو اس کی ربوبیت کی دلیلوں کو مضبوط کرتی رہیں اور بندوں کیلئے اس کی معرفت کا ذریعہ بنی رہیں اور یکے بعد دیگرے ہر دور میں وہ اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسالت کے امانتداروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی تجدیدکرتا رہا، یہاں تک کہ ہمارے نبی محمد ﷺ کے ذریعہ وہ حجت (پوری طرح) تمام ہو گئی اور حجت پورا کرنا اور ڈرا دیا جانا اپنے نقطۂ اختتام کو پہنچ گیا۔

وَ قَدَّرَ الْاَرْزَاقَ فَکَثَّرَهَا وَ قَلَّلَهَا، وَ قَسَّمَهَا عَلَی الضِّیْقِ وَ السَّعَةِ فَعَدَلَ فِیْهَا لِیَبْتَلِیَ مَنْ اَرَادَ بِمَیْسُوْرِهَا وَ مَعْسُوْرِهَا، وَ لِیَخْتَبِرَ بِذٰلِکَ الشُّکْرَ وَ الصَّبْرَ مِنْ غَنِیِّهَا وَ فَقِیْرِهَا، ثُمَّ قَرَنَ بِسَعَتِهَا عَقَابِیْلَ فَاقَتِهَا، وَ بِسَلَامَتِهَا طَوَارِقَ اٰفَاتِهَا، وَ بِفُرَجِ اَفْرَاحِهَا غُصَصَ اَتْرَاحِهَا.

اس نے روزیاں مقرر کر رکھی ہیں[۳] ، (کسی کیلئے ) زیادہ اور (کسی کیلئے) کم اور اس کی تقسیم میں کہیں تنگی رکھی ہے اور کہیں فراخی اور یہ بالکل عدل کے مطابق تھا۔ اس طرح کہ اس نے جس جس صورت سے چاہا امتحان لیا ہے۔ رزق کی آسانی یا دشواری کے ساتھ اور مال دار اور فقیر کے شکر اور صبر کو جانچا ہے۔ پھر اس نے رزق کی فراخیوں کے ساتھ فقر و فاقہ کے خطرے اور اس کی سلامتیوں میں نت نئی آفتوں کے دغدغے اور فراخی و وسعت کی شادمانیوں کے ساتھ غم و غصہ کے گلوگیر پھندے بھی لگا رکھے ہیں۔

وَ خَلَقَ الْاٰجَالَ فَاَطَالَهَا وَ قَصَّرَهَا، وَ قَدَّمَهَا وَ اَخَّرَهَا، وَ وَصَلَ بِالْمَوْتِ اَسْبَابَهَا، وَ جَعَلَهٗ خَالِجًا لِّاَشْطَانِهَا، وَ قَاطِعًا لِّمَرَآئِرِ اَقْرَانِهَا.

اس نے زندگی کی (مختلف) مدتیں مقرر کی ہیں، کسی کو زیادہ، کسی کو کم، کسی کو آگے اور کسی کو پیچھے کر دیا ہے اور ان مدتوں کی رسیوں کی موت سے گرہ لگا دی ہے اور وہ موت ان کو کھینچے لئے جاتی ہے اور ان کے مضبوط رشتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کئے دیتی ہے۔

عَالِمُ السِّرِّ مِنْ ضَمَآئِرِ الْمُضْمِرِیْنَ، وَ نَجْوَی الْمُتَخَافِتِیْنَ، وَ خَوَاطِرِ رَجْمِ الظُّنُوْنِ، وَ عُقَدِ عَزِیْمَاتِ الْیَقِیْنِ، وَ مَسَارِقِ اِیْمَاضِ الْجُفُوْنِ، وَ مَا ضَمِنَتْهُ اَکْنَانُ الْقُلُوْبِ وَ غَیَابَاتُ الْغُیُوْبِ، وَ مَاۤ اَصْغَتْ لِاسْتِرَاقِهٖ مَصَآئِخُ الْاَسْمَاعِ، وَ مَصَآئِفِ الذَّرِّ، وَ مَشَاتِی الْهَوَامِّ، وَ رَجْعِ الْحَنِیْنِ مِنْ الْمُوْلَهَاتِ، وَ هَمْسِ الْاَقْدَامِ، وَ مُنْفَسَحِ الثَّمَرَةِ مِنْ وَلَآ ئِجِ غُلُفِ الْاَکْمَامِ، وَ مُنْقَمَعِ الْوُحُوْشِ مِنْ غِیْرَانِ الْجِبَالِ وَ اَوْدِیَتِهَا، وَ مُخْتَبَاِ الْبَعُوْضِ بَیْنَ سُوْقِ الْاَشْجَارِ وَ اَلْحِیَتِهَا، وَ مَغْرَزِ الْاَوْرَاقِ مِنَ الْاَفْنَانِ، وَ مَحَطِّ الْاَمْشَاجِ مِنْ مَّسَارِبِ الْاَصْلَابِ، وَ نَاشِئَةِ الْغُیُوْمِ وَ مُتَلَاحِمِهَا، وَ دُرُوْرِ قَطْرِ السَّحَابِ فِیْ مُتَرَاکِمِهَا، وَ مَا تَسْفِی الْاَعَاصِیْرُ بِذُیُوْلِهَا، وَ تَعْفُو الْاَمْطَارُ بِسُیُوْلِهَا، وَ عَوْمِ بَنَاتِ الْاَرْضِ فِیْ کُثْبَانِ الرِّمَالِ، وَ مُسْتَقَرِّ ذَوَاتِ الْاَجْنِحَةِ بِذُرٰی شَنَاخِیْبِ الْجِبَالِ، وَ تَغْرِیْدِ ذَوَاتِ الْمَنْطِقِ فِیْ دَیَاجِیْرِ الْاَوْکَارِ، وَ مَاۤ اَوْعَبَتْهُ الْاَصْدَافُ، وَ حَضَنَتْ عَلَیْهِ اَمْوَاجُ الْبِحَارِ، وَ مَا غَشِیَتْهُ سُدْفَةُ لَیْلٍ، اَوْ ذَرَّ عَلَیْهِ شَارِقُ نَهَارٍ، وَ مَاۤ اعْتَقَبَتْ عَلَیْهِ اَطْبَاقُ الدَّیَاجِیْرِ، وَ سُبُحَاتُ النُّوْرِ، وَ اَثَرِ کُلِّ خَطْوَةٍ، وَ حِسِّ کُلِّ حَرَکَةٍ، وَ رَجْعِ کُلِّ کَلِمَةٍ، وَ تَحْرِیْکِ کُلِّ شَفَةٍ، وَ مُسْتَقَرِّ کُلِّ نَسَمَةٍ، وَ مِثْقَالِ کُلِّ ذَرَّةٍ، وَ هَمَاهِمِ کُلِّ نَفْسٍ هَامَّةٍ، وَ مَا عَلَیْهَا مِنْ ثَمَرِ شَجَرَةٍ، اَوْ ساقِطِ وَرَقَةٍ، اَوْ قَرَارَةِ نُطْفَةٍ، اَوْ نُقَاعَةِ دَمٍ وَّ مُضْغَةٍ، اَوْ نَاشِئَةِ خَلْقٍ وَّ سُلَالَةٍ.

وہ بھید چھپانے والوں کی نیتوں [۴] ، کھسر پھسر کرنے والوں کی سرگوشیوں، مظنون اور بے بنیاد خیالوں، دل میں جمے ہوئے یقینی ارادوں، پلکوں (کے نیچے) کنکھیوں کے اشاروں، دل کی تہوں اور غیب کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے اور (ان آوازوں کا سننے والا ہے) جن کو کان لگا کر سننے کیلئے کانوں کے سوراخوں کو جھکنا پڑتا ہے اور چیونٹیوں کے موسم گرما کے مسکنوں اور حشرات الارض کے موسمِ سرما بسر کرنے کے مقاموں سے آگاہ ہے اور پسر مردہ عورتوں کے (درد بھرے) نالوں کی گونج اور قدموں کی چاپ کا سننے والا ہے اور سبز پتیوں کے غلافوں کے اندرونی خولوں میں پھلوں کے نشو و نما پانے کی جگہوں اور پہاڑوں کی کھوؤں اور ان کے نشیبوں میں وحشی جانوروں کی پناہ گاہوں اور درختوں کے تنوں اور ان کے چھلکوں میں مچھروں کے سر چھپانے کے سوراخوں اور شاخوں میں پتیوں کے پھوٹنے کی جگہوں اور صلب کی گزر گاہوں میں نطفوں کے ٹھکانوں اور زمین سے اٹھنے والے اَبر کے لکوں اور آپس میں جڑے ہوئے بادلوں اور تہ بہ تہ جمے ہوئے اَبروں سے ٹپکنے والے بارش کے قطروں سے باخبر ہے اور ریگ (بیابان) کے ذرّے جنہیں باد بگولوں نے اپنے دامنوں سے اڑایا ہے اور وہ نشانات جنہیں بارشوں کے سیلابوں نے مٹا ڈالا ہے، اس کے علم میں ہیں اور ریت کے ٹیلوں پر زمین کے کیڑوں کے چلنے پھرنے اور سر بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پَر و بال رکھنے والے طائروں کے نشیمنوں اور گھونسلوں کی اندھیاریوں میں چہچہانے والے پرندوں کے نغموں کو جانتا ہے اور جن چیزوں کو سیپیوں نے سمیٹ رکھا ہے اور جن چیزوں کو دریا کی موجیں اپنے پہلو کے نیچے دبائے ہوئے ہیں اور جن کو رات (کی تاریک چادروں) نے ڈھانپ رکھا ہے اور جن پر دن کے سورج نے اپنی کرنوں سے نور بکھیرا ہے اور جن پر کبھی ظلمت کی تہیں جم جاتی ہیں اور کبھی نور کے دھارے بہہ نکلتے ہیں پہچانتا ہے۔ وہ ہر قدم کا نشان، ہر چیز کی حس و حرکت، ہر لفظ کی گونج، ہر ہونٹ کی جنبش، ہر جاندار کا ٹھکانا، ہر ذرّے کا وزن اور ہر جی دار کی سسکیوں کی آواز اور جو کچھ بھی اس زمین پر ہے، سب اس کے علم میں ہے۔ وہ درختوں کا پھل ہو یا ٹوٹ کر گرنے والا پتہ، یا نطفے یا منجمد خون کا ٹھکانا اور لوتھڑا یا (اس کے بعد) بننے والی مخلوق اور پیدا ہونے والا بچہ۔

لَمْ تَلْحَقْهُ فِیْ ذٰلِکَ کُلْفَةٌ، وَ لَا اعْتَرَضَتْهُ فِیْ حِفْظِ مَا ابْتَدَعَ مِنْ خَلْقِهٖ عَارِضَةٌ، وَ لَا اعْتَوَرَتْهُ فِیْ تَنْفِیْذِ الْاُمُوْرِ وَ تَدَابِیْرِ الْمَخْلُوْقِیْنَ مَلَالَةٌ وَّ لَا فَتْرَةٌ، بَلْ نَفَذَهُمْ عِلْمُهٗ، وَ اَحْصَاهُمْ عَدُّهٗ، وَ وَسِعَهُمْ عَدْلُهٗ، وَ غَمَرَهُمْ فَضْلُهٗ، مَعَ تَقْصِیْرِهِمْ عَنْ کُنْهِ مَا هُوَ اَهْلُهٗ.

(ان چیزوں کے جاننے میں) اسے کلفت و تعب اٹھانا نہیں پڑی اور نہ اسے اپنی مخلوق کی حفاظت میں کوئی رکاوٹ درپیش ہوئی اور نہ اسے اپنے احکام کے چلانے اور مخلوقات کا انتظام کرنے سے سستی اور تھکن لاحق ہوئی، بلکہ اس کا علم تو ان چیزوں کے اندر تک اترا ہوا ہے اور ایک ایک چیز اس کے شمار میں ہے۔ اس کا عدل ہمہ گیر اور اس کا فضل سب کے شامل حال ہے اور اس کے ساتھ وہ اس کے شایان شان حق کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ اَهْلُ الْوَصْفِ الْجَمِیْلِ، وَ التَّعْدَادِ الْکَثِیْرِ، اِنْ تُؤَمَّلْ فَخَیْرُ مَاْمُوْلٍ، وَ اِنْ تُرْجَ فَاَکْرَمُ مَرْجُوٍّ.

اے خدا! تو ہی توصیف و ثنا اور انتہائی درجہ تک سراہے جانے کا مستحق ہے۔ اگر تجھ سے آس لگائی جائے تو تُو دلوں کی بہتریں ڈھارس ہے اور اگر تجھ سے امیدیں باندھی جائیں تو تو بہترین چشمہ امید ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ قَدْ بَسَطْتَّ لِیْ فِیْمَا لَاۤ اَمْدَحُ بِهٖ غَیْرَکَ، وَ لَاۤ اُثْنِیْ بِهٖ عَلٰۤی اَحَدٍ سِوَاکَ، وَ لَاۤ اُوَجِّهُهٗۤ اِلٰی مَعَادِنِ الْخَیْبَةِ وَ مَوَاضِعِ الرِّیْبَةِ، وَ عَدَلْتَ بِلِسَانِیْ عَنْ مَّدَآئِحِ الْاٰدَمِیِّیْنَ، وَ الثَّنَآءِ عَلَی الْمَرْبُوْبِیْنَ الْمَخْلُوْقِیْنَ.

تو نے مجھے ایسی قوت بیان بخشی ہے کہ جس سے تیرے علاوہ کسی کی مدح اور ستائش نہیں کرتا ہوں اور میں اپنی مدح کا رخ کبھی ان لوگوں کی طرف نہیں موڑنا چاہتا جو ناامیدیوں کا مرکز اور بدگمانیوں کے مقامات ہیں، تو نے میری زبان کو انسانوں کی مدح اور پروردہ مخلوق کی تعریف و ثنا سے ہٹا لیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ لِکُلِّ مُثْنٍ عَلٰی مَنْ اَثْنٰی عَلَیْهِ مَثُوْبَةٌ مِّنْ جَزَآءٍ، اَوْ عَارِفةٌ مِّنْ عَطَآءٍ، وَ قَدْ رَجَوْتُکَ دَلِیْلًا عَلٰی ذَخَآئِرِ الرَّحْمَةِ وَ کُنُوْزِ الْمَغْفِرَةِ.

بار الٰہا! ہر ثنا گستر کیلئے اپنے ممدوح پر انعام و اکرام اور عطا و بخشش پانے کا حق ہوتا ہے اور میں تجھ سے امید لگائے بیٹھا ہوں، یہ کہ تو رحمت کے ذخیروں اور مغفرت کے خزانوں کا پتا دینے والا ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ هٰذَا مَقَامُ مَنْ اَفْرَدَکَ بِالتَّوْحِیْدِ الَّذِیْ هُوَ لَکَ، وَ لَمْ یَرَ مُستَحِقًّا لِّهٰذِهِ الْمَحَامِدِ وَ الْمَمَادِحِ غَیْرَکَ، وَ بِیْ فَاقَةٌ اِلَیْکَ لَا یَجْبُرُ مَسْکَنَتَهَا اِلَّا فَضْلُکَ، وَ لَا یَنْعَشُ مِنْ خَلَّتِهَا اِلَّا مَنُّکَ وَ جُوْدُکَ، فَهَبْ لَنَا فِیْ هٰذَا الْمَقَامِ رِضَاکَ، وَ اَغْنِنَا عَنْ مَّدِّ الْاَیْدِیْۤ اِلٰی مَنْ سِوَاکَ، ﴿اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝﴾!.

خدایا! یہ تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جس نے تیری توحید و یکتائی میں تجھے منفرد مانا ہے اور ان ستائشوں اور تعریفوں کا تیرے علاوہ کسی کو اہل نہیں سمجھا، میری احتیاج تجھ سے وابستہ ہے، تیری ہی بخششوں اور کامرانیوں سے اس کی بے نوائی کا علاج ہو سکتا ہے اور اس کے فقر و فاقہ کو تیرا ہی جود و احسان سہارا دے سکتا ہے، ہمیں تُو اسی جگہ پر اپنی خوشنودیاں بخش دے اور دوسروں کی طرف دست ِطلب بڑھانے سے بے نیاز کر دے، ’’تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘ ۔


 
اس خطبہ کا نام ’’خطبۂ اشباح‘‘ ہے۔ ’’اشباح‘‘ شبح کی جمع ہے جس کے معنی ڈھانچے کے ہوتے ہیں، چونکہ اس میں ملائکہ اور مختلف قسم کے پیکروں کا تذکرہ ہے، اس لئے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مسعدہ ابن صدقہ عبدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ: جب حضرتؑ سائل کے سوال پر برہم ہوئے تو مسجدِ کوفہ میں ایک جم غفیر کے سامنے یہ خطبہ دیا۔
سائل پر برہم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا سوال تکلیف شرعی سے غیر متعلق اور حدود امکان سے باہر تھا۔۱؂۲خداوند عالم رزق کا ضامن اور روزی کا کفیل ہے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا مِنْ دَآ بَّةٍ فِى الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا﴾
زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کے رزق کا ذمہ اللہ نے نہ لیا ہو۔(۱)
لیکن اس کے ضامن رزق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سب کیلئے زندگی و معیشت کے سروسامان مہیا کر دیئے ہیں اور جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں، معدنوں اور زمین کی وسعتوں میں سب کا حصہ یکساں رکھا ہے اور ہر ایک کو ان سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے۔ اس کے انعامات کسی ایک سے مخصوص نہیں ہیں اور نہ اس کے رزق کا دروازہ کسی کیلئے بند ہے۔
چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿کُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۤءِ وَهٰٓؤُلَاۤءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ‌ ؕ وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا‏ ﴾
ہم اِن کی اور اُن کی تمہارے پروردگار کی بخششوں سے مدد کرتے ہیں اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی کیلئے بند نہیں۔(۲)اب اگر کوئی تن آسانی و سہولت پسندی کی وجہ سے ان چیزوں کو حاصل نہ کرے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے تو ایسا نہیں کہ گھر بیٹھے روزی پہنچ جایا کرے۔ اس نے تو زمین پر گونا گوں نعمتوں کے خوان چن دیئے ہیں، لیکن انہیں حاصل کرنے کیلئے ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سمندر کی تہ میں موتی بکھیر دیئے ہیں، لیکن انہیں نکالنے کیلئے غوطہ زنی کی حاجت ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں لعل و جواہر بھر دیئے ہیں، لیکن کوہ کنی کے بغیر ان تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ زمین میں نمو کے خزانے موجود ہیں، مگر تخم پاشی کے بغیر ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ دنیا میں چو طرفہ رزق کے انبار بکھرے ہوئے ہیں، مگر سفر کی مشقتوں کے بغیر انہیں سمیٹا نہیں جا سکتا۔
چنانچہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
﴿فَامْشُوْا فِىْ مَنَاکِبِهَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِه﴾
زمین کے اطراف و جوانب میں چلو پھرو، اور اس کا رزق کھاؤ۔(۳)
اس کے ’’رازق‘‘ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ نہ کد و کاوش کرنا پڑے، نہ تلاشِ معاش میں گھر سے نکلنا پڑے اور خود بخود روزی پہنچ جایا کرے۔ بلکہ رازق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں نشو و نما کی صلاحیت پیدا کی، روئیدگی کیلئے بادل برسائے، پھل، سبزیاں اور غلے پیدا کئے۔ یہ سب تو اللہ کی طرف سے ہے لیکن ان کا حاصل کرنا انسان کی سعی و عمل سے وابستہ ہے۔ جو جدوجہد کرے گا وہ اپنی کوشش و ریاضت کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہوگا اور جو اپنی کوشش سے ہاتھ اٹھا لے گا وہ اپنی سستی و کوتاہی کے نتائج سے دو چار ہو گا۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:
﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ‏ ﴾
انسان کو وہی حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔(۴)
نظامِ قدرت اسی پر قائم ہے کہ ’’بوؤ اور کاٹو‘‘ اور بوئے بغیر روئیدگی کی امید رکھنا اور کئے بغیر نتائج کی آس لگانا غلط ہے۔ اعضا و جوارح ہیں ہی اس لئے کہ انہیں بر سر عمل رکھا جائے۔ چنانچہ حضرت باری کا جناب مریم سلام اللہ علیہا سے خطاب ہے:
﴿ وَهُزِّىْۤ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا‏ ﴿۲۵﴾ فَکُلِىْ وَاشْرَبِىْ وَقَرِّىْ عَیْنًا‌ ۚ﴾
تم خرمے کے درخت کا تنا اپنی طرف ہلاؤ، تم پر پکے ہوئے خرمے گریں گے، انہیں کھاؤ اور (چشمے کا پانی ) پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔(۵)
قدرت نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کیلئے کھانے پینے کا سامان مہیا کر دیا، لیکن ایسا نہیں کیا کہ خرموں کو درخت سے اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیا ہو، کیونکہ جہاں تک رزق کے پیدا کرنے کا تعلق ہے وہ اسی کا کام ہے، اس لئے درخت کو سر سبز و شاداب کیا، اس میں پھل لگائے اور پھلوں کو پختہ کر دیا۔ لیکن جب انہیں اتارنے کی نوبت آتی ہے تو قدرت دخل نہیں دیتی۔ صرف حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو ان کا کام یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو ہلائیں اور اپنے رزق کو حاصل کریں۔
اگر اس کی رازقیت کے یہی معنی ہیں کہ ’’جو دیتا ہے وہی دیتا ہے اور جو ملتا ہے اسی کی طرف سے ملتا ہے‘‘ تو پھر انسان جو کچھ بھی کھائے کمائے گا اور جس طرح بھی حاصل کرے گا، وہ اس کیلئے حلال ہی ہو گا۔ خواہ چوری سے حاصل ہو یا رشوت سے، ظلم سے حاصل ہو یا غصب سے۔ کیونکہ یہ اللہ کا فعل اور اس کا دیا ہوا رزق ہو گا جس میں انسان کے اختیار کا کچھ دخل نہ ہو گا اور جہاں کوئی چیز اختیار کے حدود سے باہر ہو اس کیلئے حلال و حرام کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور نہ اس سے کسی قسم کی باز پرس ہوتی ہے، اور جب ایسا نہیں بلکہ اس سے حلال و حرام کا تعلق ہوتا ہے تو پھر اسے انسانی اعمال سے متعلق ہونا چاہئے تا کہ اس سے پوچھا جا سکے کہ اس نے حلال طریقہ سے حاصل کیا ہے یا حرام طریقہ سے۔ البتہ جہاں اس نے اکتساب رزق کی قوتیں ہی نہیں دیں وہاں رزق رسانی کا ذمہ خود لیا ہے۔ چنانچہ شکم مادر میں جنین کیلئے غذا کے پہنچانے کا سروسامان کیا جو اس کی ضرورت اور احتیاج کے مطابق اسے ملتا رہتا ہے، لیکن جب یہی بچہ کار گاہ ہستی میں قدم رکھتا ہے اور ہاتھ پیر ہلانے کی سکت اس میں آ جاتی ہے تو پھر منہ ہلائے بغیر اپنے سر چشمۂ رزق سے غذا حاصل نہیں کر سکتا۔
۳؂کائناتِ ہستی کے نظم و نسق میں جس طرح نتائج کے ترتّب کو انسانی کار گزاریوں سے وابستہ کیا ہے جس سے قوت عمل باطل نہیں ہوتی، اسی طرح ان مساعی کی کامیابی و ناکامی کو اپنی مشیت کا پابند بھی بنایا ہے تا کہ انسان اپنی طاقتِ عمل پر بھروسا کر کے خالق کو نہ بھول جائے۔ یہی ’’جبر و تفویض‘‘ کے درمیان ’’امر بین الامرین‘‘ کا نقطہ ہے۔ چنانچہ جس طرح تمام کائنات میں قدرت کا ہمہ گیر اور محکم قانون کام کر رہا ہے، اسی طرح رزق کی پیداوار اور اس کی تقسیم بھی تدبیر و تقدیر دونوں کی کارفرمائی کے ساتھ اس کے ٹھہرائے ہوئے اندازے کے مطابق ہوتی ہے جو انسانی نتائج عمل کے تناسب اور پھر اس کی حکمت و مصلحت کی کارفرمائی کی وجہ سے کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ۔ اب چونکہ سامان معیشت کا وہی خالق و موجد ہے اور اکتسابِ رزق کی قوتیں اس کی بخشی ہوئی ہیں، اس لئے رزق کی کمی و بیشی کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے کہ اس نے سعی و عمل کے اختلاف اور مصالح عباد کے پیش نظر رزق کے الگ الگ معیار اور مختلف پیمانے مقرر کئے ہیں۔ کہیں افلاس ہے اور کہیں خوش حالی، کہیں تکلیف ہے اور کہیں راحت، کوئی مسرت و اطمینان کے گہوارے میں جھول رہا ہے اور کوئی فقر و ناداری کی سختیاں جھیل رہا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:
﴿یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ‌ؕ اِنَّه بِکُلِّ شَىْءٍ عَلِیْمٌ‏ ﴾
اللہ جس کیلئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، بیشک وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔(۶)
امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ ۲۳ میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْاَمْرَ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ کَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ اِلٰى کُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ.
ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہے اسے لے کر فرمانِ قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرے۔
چنانچہ جس طرح بارش کے فیضان کا ایک نظم و انضباط ہے کہ سطح سمندر سے بخارات اٹھیں اور پانی کے ذخیرے اٹھائے ہوئے فضا میں گھنگور گھٹا کی صورت میں پھیل جائیں اور قطرہ قطرہ کر کے اس طرح ٹپکیں کہ قطروں کے تار بندھ جائیں اور میدانی زمینوں اور بلند ٹیلوں کی رگوں اور نسوں کو سیراب کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں اور جہاں نشیب ہو پانی کے خزانے جمع کرتے رہیں تا کہ پیاسے آ کر پئیں، جانور سیراب ہوں اور سوکھی زمینوں کی اس سے آبیاری ہو، یونہی اللہ سبحانہ نے زندگی و معیشت کے تمام سروسامان مہیا کر رکھے ہیں، لیکن اس کی بخشش کا ایک مقررہ اندازہ ہے جس میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا چنانچہ ارشاد قدرت ہے:
﴿وَاِنْ مِّنْ شَىْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآٮِٕنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ‏ ﴾
کوئی چیز ایسی نہیں جس کے (بھر پور) خزانے ہمارے پاس موجود نہ ہوں، لیکن ہم ہر چیز کو مقررہ پیمانے پر بھیجتے ہیں۔(۷)
اگر انسان کی بڑھتی ہوئی طمع و حرص کے پیمانے چھلکنے لگیں تو جس طرح بارش کی فراوانی، روئیدگی اور شادابی کے بجائے فصلیں تباہ کر دیتی ہے، یونہی سامانِ معیشت و ضروریاتِ زندگی کی کثرت، انسان کو اللہ سے بے نیاز اور بغاوت و سرکشی پر آمادہ کر دے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ فرماتا ہے:
﴿وَلَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِى الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ‏ ﴾
اگر خدا اپنے بندوں کی روزی میں فراخی کر دے تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگیں۔ وہ تو ایک اندازے پر جس کیلئے جتنا چاہتا ہے بھیجتا ہے اور وہ اپنے بندوں (کی مصلحتوں) سے واقف اور ان پر نظر رکھتا ہے۔(۸)
اور اگر رزق میں کمی کر دے تو جس طرح بارش کا رک جانا زمین کو بنجر اور چوپاؤں کو ہلاک کر دیتا ہے، یونہی ذرائع رزق کی بندش سے انسانی معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے اور زندگی و معیشت کا کوئی سروسامان باقی نہ رہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿اَمَّنْ هٰذَا الَّذِىْ یَرْزُقُکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَهٗ‌ ۚ﴾
اگر خدا اپنی روزی کو روک لے تو کون ایسا ہے جو تمہیں روزی دے۔(۹)
لہٰذا اس حکیم و دانا نے ایک متناسب و معتدل طریقہ پر نظام رزق جاری کیا ہے اور رزق و روزی کی اہمیت ظاہر کرنے اور ایک کو دوسرے سے مرتبط رکھنے کیلئے رزق کی تقسیم میں تفرقے پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ تفرقہ اور غیر مساویانہ تقسیم کبھی خود انسانی مساعی کے اختلاف کا نتیجہ ہوتی ہے اور کبھی نظام عالم کے مجموعی مفاد اور اس کی حکمت و مصلحت کی کارفرمائی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اگر فقر و احتیاج میں نادار کے صبر و استقلال کا امتحان لیا ہے تو ثروت و دولت میں دولتمند کے شکر اور ادائیگی حقوق کی کڑی آزمائش ہے کہ وہ فقراء و مساکین کے حقوق ادا کرتا ہے یا نہیں، ناداروں اور فاقہ کشوں کی خبر لیتا ہے یا نہیں۔ اور پھر جہاں دولت ہو گی، طرح طرح کے خطرات بھی پیدا ہوں گے، کبھی مال و جائیداد کیلئے خطرہ ہو گا، کبھی فقر و افلاس کا کھٹکا ہو گا۔ چنانچہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے کہ جو دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کو زیادہ مطمئن اور خوش پاتے ہوں گے۔ ان کے نزدیک یہ بے سروسامانی اور بے مائیگی اس دولت سے کہیں زیادہ بہتر ہو گی جو ان کے آرام و اطمینان کو چھین لے اور کبھی یہی دولت جسے انسان جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے اس کی جان جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب تک دولت نہ تھی، اخلاق محفوظ تھے، سیرت بے داغ تھی اور ادھر مال و دولت کی فراوانی ہوئی کہ اخلاق تباہ ہو گئے، کر دار بگڑ گیا۔ اب شراب کا دور بھی ہے، مہوشوں کا جمگھٹا بھی ہے، نغمہ و سرود کی بزم بھی ہے۔ اس صورت میں دولت کا نہ ہونا ہی ایک نعمت تھا، لیکن انسان اللہ کی مصلحت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے چیخ اٹھتا ہے اور وقتی تکلیف سے متاثر ہو کر شکوہ شکایت پر اتر آتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ کتنی برائیوں سے اس کا دامن بچا رہا ہے کہ جو دولت کے ہونے کی وجہ سے پیدا ہو سکتی تھیں، لہٰذا دولت اگر راحت کی کفیل ہے تو فقر اخلاق کا نگہبان ہے۔
۴امیر المومنین علیہ السلام نے جس اعجازی بلاغت کے ساتھ خداوند عالم کے عالم جزئیات ہونے پر روشنی ڈالی ہے اور جن پُر شکوہ لفظوں کے ساتھ اس کے علم کی ہمہ گیری کی تصویر کھینچی ہے، وہ منکر کے ذہن کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:
؂ لَوْ سَمِعَ هٰذَا الْکَلَامَ اَرَسُطُوْطَالِیْسُ الْقَآئِلُ بِاَنَّه تَعَالٰى لَا یَعْلَمُ الْجُزْئِیَّاتِ لَخَشَعَ قَلْبُه وَ قَفَّ شَعْرُه وَ اضْطَرَبَ فِکْرُه، اَلَا تَرٰى مَا عَلَیْهِ مِنَ الرُّوَآءِ وَ الْمَهَابَةِ وَ الْعَظَمَةِ وَ الْفَخَامَةِ وَ الْمَتَانَةِ وَ الْجَزَالَةِ مَعَ مَا قَدْ اُشْرِبَ مِنَ الْحَلَاوَةِ وَ الطَّلَاوَةِ وَ اللُّطْفِ وَ السَّلاَسَةِ، لَاۤ اَرٰى کَلَامًا یَّشْبَهُ هٰذَا اِلَّاۤ اَنْ یَّکُوْنَ کَلَامَ الْخَالِقِ سُبْحَانَه، فِاِنَّ هٰذَا الْکَلَامَ نَبْعَةٌ مِّنْ تِلْکَ الشَّجَرَةِ وَ جَدْوَلٌ مِّنْ ذٰلِکَ الْبَحْرِ وَ جَذْوَةٌ مِّنْ تِلْکَ النَّارِ.
اگر ارسطاطالیس کہ جو خداوند عالم کے عالم جزئیات ہونے کا منکر ہے، اس کلام کو سنے تو اس کا بھی دل جھک جائے، رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور خیالات میں انقلاب پیدا ہو جائے۔ کیا اس کلام کی آب و تاب، دبدبہ و طنطنہ، شکوہ و جلال اور متانت و پختگی تم نہیں دیکھتے اور ان اوصاف کے علاوہ اس میں شیریں بیانی، رنگینی،لطافت اور سلاست کے جوہر نمایاں ہیں۔ مجھے تو کوئی کلام اس سے ملتا جلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ہاں! اگر کوئی کلام اس سے میل کھاتا ہے تو وہ خالقِِ کلام کا کلام ہے اور اس میں تعجب ہی کیا ہے، جبکہ یہ اسی شجر کی بلند شاخ، اسی دریا کی جدول اور اسی تجلی کا پر تو ہے۔(۱۰)
جن لوگوں نے صرف اسے عالم کلیات مانا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ جزئیات میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے، لہٰذا اسے عالم جزئیات ماننے کی صورت میں اس کے علم کو بھی متغیر ماننا پڑے گا اور علم چونکہ عین ذات ہے، لہٰذا ذات بھی تغیرات کی آماجگاہ بن جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حادث قرار پا کر اپنی قدامت کو کھو بیٹھے گا۔
مگر یہ ایک ظاہر فریب مغالطہ ہے ۔اس لئے کہ تغیر معلوم سے تغیر علم اس وقت لازم آتا ہے کہ جب یہ مانا جائے کہ اسے ان تغیرات کا علم نہیں اور اگر تمام تغیر و تبدل کی صورتیں اس کے سامنے آئینہ ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تغیر معلومات سے اس کے علم کو بھی تغیر پذیر سمجھ لیا جائے جب کہ یہ تغیر صرف معلوم تک محدود ہے اور علم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

[۱]۔ سورۂ ہود، آیت ۶۔[۲]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۲۰۔[۳]۔ سورۂ ملک، آیت ۱۵۔[۴]۔ سورۂ نجم، آیت ۳۹۔[۵]۔ سورۂ مریم، آیت ۲۵-۲۶۔[۶]۔ سورۂ شوریٰ، آیت ۱۲۔[۷]۔ سورۂ حجر، آیت ۲۱۔[۸]۔ سورۂ شوریٰ، آیت ۲۷۔[۹]۔ سورۂ ملک، آیت ۲۱۔[۱۰]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۲۴۔

balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:02
عون نقوی

وَ نَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِیْبِ بِهٖ یُبْصِرُ اَمَدَهٗ، وَ یَعْرِفُ غَوْرَهٗ وَ نَجْدَهٗ. دَاعٍ دَعَا، وَ رَاعٍ رَّعٰی، فَاسْتَجِیْبُوْا لِلدَّاعِیْ، وَ اتَّبِعُوا الرَّاعِیَ.

عقلمند دل کی آنکھوں سے اپنا مآلِ کار دیکھتا ہے اور اپنی اونچ نیچ (اچھی بری راہوں) کو پہچانتا ہے۔ دعوت دینے والے نے پکارا اور نگہداشت کرنے والے نے نگہداشت کی۔ بلانے والے کی آواز پر لبیک کہو اور نگہداشت کرنے والے کی پیروی کرو۔

قَدْ خَاضُوْا بِحَارَ الْفِتَنِ، وَ اَخَذُوْا بِالْبِدَعِ دُوْنَ السُّنَنِ، وَ اَرَزَ الْمُؤْمِنُوْنَ، وَ نَطَقَ الضَّالُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ.

کچھ لوگ فتنوں کے دریاؤں میں اترے ہوئے ہیں اور سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں میں پڑ چکے ہیں، ایمان والے دبکے پڑے ہیں اور گمراہوں اور جھٹلانے والوں کی زبانیں کھلی ہوئی ہیں۔

نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الْاَصْحَابُ، وَ الْخَزَنَةُ وَ الْاَبْوَابُ، وَ لَا تُؤْتَی الْبُیُوْتُ اِلَّا مِنْ اَبْوَابِهَا، فَمَنْ اَتَاهَا مِنْ غَیْرِ اَبْوَابِهَا سُمِّیَ سَارِقًا.

ہم قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی اور خزانہ دار اور دروازے ہیں اور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فِیْهِمْ کَرَآئِمُ الْقُرْاٰنِ، وَ هُمْ کُنُوْزُ الرَّحْمٰنِ، اِنْ نَّطَقُوْا صَدَقُوْا، وَ اِنْ صَمَتُوْا لَمْ یُسْبَقُوْا.

(آل محمدؑ) انہی کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں۔ اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں۔

فَلْیَصْدُقْ رَآئِدٌ اَهْلَهٗ، وَ لْیُحْضِرْ عَقْلَهٗ، وَ لْیَکُنْ مِّنْ اَبْنَآءِ الْاٰخِرَةِ، فَاِنَّهٗ مِنْهَا قَدِمَ وَ اِلَیْهَا یَنْقَلِبُ. فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ یَکُوْنُ مُبْتَدَاُ عَمَلِهٖۤ اَنْ یَّعْلَمَ: اَ عَمَلُهٗ عَلَیْهِ اَمْ لَهٗ؟! فَاِنْ کَانَ لَهٗ مَضٰی فِیْهِ، وَ اِنْ کَانَ عَلیْهِ وَقَفَ عَنْهُ.

پیشرو کو اپنے قوم قبیلے سے (ہر بات) سچ سچ بیان کرنا چاہیے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور اہل آخرت میں سے بنے۔ اس لئے کہ وہ اُدھر ہی سے آیا ہے اور اُدھر ہی اسے پلٹ کر جانا ہے۔ دل (کی آنکھوں) سے دیکھنے والے اور بصیرت کے ساتھ عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ وہ (پہلے) یہ جان لیتاہے کہ یہ عمل اس کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصان رساں۔ اگر مفید ہوتا ہے تو آگے بڑھتا ہے، مضر ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے۔

فَاِنَّ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَالسَّآئِرِ عَلٰی غیْرِ طَرِیْقٍ، فَلَا یَزِیْدُهٗ بُعْدُهٗ عَنِ الطَّرِیْقِ اِلَّا بُعْدًا مِّنْ حَاجَتِهٖ، وَ الْعَامِلُ بِالْعِلْمِ کَالسَّآئِرِ عَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ، فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌ: اَ سَآئِرٌ هُوَ اَمْ رَاجِـعٌ؟!.

اس لئے کہ بے جانے بوجھے ہوئے بڑھنے والا ایسا ہے جیسے کوئی غلط راستے پر چل نکلے تو جتنا وہ اس راہ پر بڑھتا جائے گا اتنا ہی مقصد سے دور ہوتا جائے گا اور علم کی (روشنی میں) عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو۔ (تو اب) دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے یا پیچھے کی طرف پلٹ رہا ہے۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ لِکُلِّ ظَاهِرٍۭ بَاطِنًا عَلٰی مِثَالِهٖ، فَمَا طَابَ ظَاهِرُهٗ طَابَ بَاطِنُهٗ. وَ مَا خَبُثَ ظَاهِرُهٗ خَبُثَ بَاطِنُهٗ، وَ قَدْ قَالَ الرَّسُوْلُ الصَّادِقُﷺ: «اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَ یُبْغِضُ عَمَلَهٗ، وَ یُحِبُّ الْعَمَلَ وَ یُبْغِضُ بَدَنَهٗ».

تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر ظاہر کا ویسا ہی باطن ہوتا ہے۔ جس کا ظاہر اچھا ہوتا ہے اس کا باطن بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کا ظاہر برا ہوتا ہے اس کا باطن بھی برا ہوتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے جیسا رسولِ صادق ﷺ نے فرمایا ہے کہ: «اللہ ایک بندے کو (ایمان کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے اور اس کے عمل کو برا سمجھتا ہے اور (کہیں) عمل کو دوست رکھتا ہے اور عمل کرنے والے کی ذات سے نفرت کرتا ہے»۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ لِکُلِّ عَمَلٍ نَّبَاتًا، وَ کُلُّ نَبَاتٍ لَّا غِنٰی بِهٖ عَنِ الْمَآءِ، وَ الْمِیَاهُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا طَابَ سَقْیُهٗ طَابَ غَرْسُهٗ وَ حَلَتْ ثَمَرَتُهٗ، وَ مَا خَبُثَ سَقْیُهٗ خَبُثَ غَرْسُهٗ وَ اَمَرَّتْ ثَمَرَتُهٗ.

دیکھو ہر عمل ایک اُگنے والا سبزہ ہے اور ہر سبزہ کیلئے پانی کا ہونا ضروری ہے اور پانی مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ جہاں پانی اچھا دیا جائے گا وہاں پر کھیتی بھی اچھی ہو گی اور اس کا پھل بھی میٹھا ہو گا اور جہاں پانی برا دیا جائے گا وہاں کھیتی بھی بری ہو گی اور پھل بھی کڑوا ہو گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 14:18
عون نقوی

وَ هُوَ فِیْ مُهْلَةٍ مِّنَ اللهِ یَهْوِیْ مَعَ الْغٰفِلِیْنَ، وَ یَغْدُوْ مَعَ الْمُذْنِبِیْنَ، بِلَا سَبِیْلٍ قَاصِدٍ، وَ لَاۤ اِمَامٍ قَآئِدٍ.

اسے اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہے۔ وہ غفلت شعاروں کے ساتھ (تباہیوں میں) گرتا ہے، بغیر سیدھی راہ اختیار کئے اور بغیر کسی ہادی و رہبر کے ساتھ دئیے صبح سویرے ہی گنہگاروں کے ساتھ ہو لیتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

حَتّٰۤی اِذَا کَشَفَ لَهُمْ عَنْ جَزَآءِ مَعْصِیَتِهِمْ، وَ اسْتَخْرَجَهُمْ مِنْ جَلَابِیْبِ غَفْلَتِهِمْ، اسْتَقْبَلُوْا مُدْبِرًا، وَ اسْتَدْبَرُوْا مُقْبِلًا، فَلَمْ یَنْتَفِعُوْا بِمَاۤ اَدْرَکُوْا مِنْ طَلِبَتِهِمْ، وَ لَا بِمَا قَضَوْا مِنْ وَّطَرِهِمْ.

آخر کار جب اللہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ان کے سامنے لائے گا اور غفلت کے پردوں سے انہیں نکال باہر کرے گا تو پھر اس چیز کی طرف بڑھیں گے جسے پیٹھ دکھاتے تھے اور اس شے سے پیٹھ پھرائیں گے جس کی طرف ان کا رخ رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے مطلوبہ سر و سامان کو پا کر اور خواہشوں کو پورا کرکے کچھ بھی تو فائدہ حاصل نہ کیا۔

وَ اِنِّیْۤ اُحَذِّرُکُمْ وَ نَفْسِیْ هٰذِهِ الْمَنْزِلَةَ، فَلْیَنْتَفِعِ امْرُؤٌۢ بِنَفْسِهٖ، فَاِنَّمَا الْبَصِیْرُ مَنْ سَمِـعَ فَتَفَکَّرَ، وَ نَظَرَ فَاَبْصَرَ، وَانْتَفَعَ بِالْعِبَرِ، ثُمَّ سَلَکَ جَدَدًا وَّاضِحًا یَّتَجَنَّبُ فِیْهِ الصَّرْعَةَ فِی الْمَهَاوِیْ، وَ الضَّلَالَ فِی الْمَغَاوِیْ، وَ لَا یُعِیْنُ عَلٰی نَفْسِهِ الْغُوَاةَ بِتَعَسُّفٍ فِیْ حَقٍّ، اَوْ تَحْرِیْفٍ فِیْ نُطْقٍ، اَوْ تَخَوُّفٍ مِّنْ صِدْقٍ.

میں تمہیں اور خود اپنے کو اس مرحلہ سے متنبہ کرتا ہوں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس سے فائدہ اٹھائے۔ اس لئے کہ آنکھوں والا وہ ہے جو سنے تو غور کرے اور نظر اٹھائے تو حقیقتوں کو دیکھ لے اور عبرتوں سے فائدہ اٹھائے۔ پھر واضح راستہ اختیار کرے جس کے بعد گڑھوں میں گرنے اور شبہات میں بھٹک جانے سے بچتا رہے اور حق سے بے راہ ہونے اور بات میں ردّ و بدل کرنے اور سچائی میں خوف کھانے سے گمراہوں کی مدد کرکے زیاں کار نہ بنے۔

فَاَفِقْ اَیُّهَا السَّامِعُ مِنْ سَکْرَتِکَ، وَاسْتَیْقِظْ مِنْ غَفْلَتِکَ، وَ اخْتَصِرْ مِنْ عَجَلَتِکَ، وَ اَنْعِمِ الْفِکْرَ فِیْمَا جَآءَکَ عَلٰی لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ- ﷺ- مِمَّا لَابُدَّ مِنْهُ وَ لَا مَحِیْصَ عَنْهُ، وَ خَالِفْ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ اِلٰی غَیْرِهٖ، وَ دَعْهُ وَ مَا رَضِیَ لِنَفْسِهٖ، وَ ضَعْ فَخْرَکَ، وَ احْطُطْ کِبْرَکَ، وَاذْکُرْ قَبْرَکَ، فَاِنَّ عَلَیْهِ مَمَرَّکَ، وَ کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ، وَکَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ، وَمَا قَدَّمْتَ الْیَوْمَ تَقْدَمُ عَلَیْهِ غَدًا، فَامْهَدْ لِقَدَمِکَ، وَ قَدِّمْ لِیَوْمِکَ.

اے سننے والو! اپنی سرمستیوں سے ہوش میں آؤ، غفلت سے آنکھیں کھولو، اس (دنیا کی) دوڑ دھوپ کو کم کرو اور جو باتیں نبی اُمیؐ کی زبان (مبارک) سے پہنچی ہیں ان میں اچھی طرح غور و فکر کرو کہ ان سے نہ کوئی چارہ ہے اور نہ کوئی گریز کی راہ۔ جو ان کی خلاف ورزی کرے تم اس سے دوسری طرف رخ پھیر لو اور اسے چھوڑو کہ وہ اپنے نفس کی مرضی پر چلتا رہے۔ فخر کے پاس نہ جاؤ اور بڑائی (کے سر) کو نیچا کرو۔ اپنی قبر کو یاد رکھو کہ تمہارا راستہ وہی ہے اور جیسا کرو گے ویسا پاؤ گے، جو بوؤ گے وہی کاٹو گے، جو آج آگے بھیجو گے وہی کل پا لو گے، آگے کیلئے کچھ تہیہ کرو اور اس دن کیلئے سرو سامان تیار رکھو۔

فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ اَیُّهَا الْمُسْتَمِـعُ! وَ الْجِدَّ الْجِدَّ اَیُّهَا الْغَافِلُ! ﴿وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۝﴾. اِنَّ مِنْ عَزَآئِمِ اللهِ فِی الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ، الَّتِیْ عَلَیْهَا یُثِیْبُ وَ یُعَاقِبُ، وَ لَهَا یَرْضٰی وَ یَسْخَطُ، اَنَّهٗ لَا یَنْفَعُ عَبْدًا ـ وَ اِنْ اَجْهَدَ نَفْسَهٗ، وَ اَخْلَصَ فِعْلَهٗ ـ اَنْ یَّخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا لَاقِیًا رَّبَّهٗ بِخَصْلَةٍ مِّنْ هٰذِهِ الْخِصَالِ لَمْ یَتُبْ مِنْهَا: اَنْ یُشْرِکَ بِاللهِ فِیْمَا افْتَرَضَ عَلَیْهِ مِنْ عِبَادَتِهٖ، اَوْ یَشْفِیَ غَیْظَهٗ بِهَلَاکِ نَفْسٍ، اَوْ یَعُرَّ بِاَمْرٍ فَعَلَهٗ غَیْرُهٗ، اَوْ یَسْتَنْجِحَ حَاجَةً اِلَی النَّاسِ بِاِظْهَارِ بِدْعَةٍ فِیْ دِیْنِهٖ، اَوْ یَلْقَی النَّاسَ بِوَجْهَیْنِ، اَوْ یَمْشِیَ فِیْهِمْ بِلِسَانَیْنِ. اِعْقِلْ ذٰلِکَ فَاِنَّ الْمِثْلَ دَلِیْلٌ عَلٰی شِبْهِهٖ.

اے سننے والو! ڈرو ڈرو اور اے غفلت کرنے والو! کوشش کرو، کوشش کرو! تمہیں خبر رکھنے والا جو بتائے گا وہ دوسرا نہیں بتا سکتا۔ قرآن حکیم میں اللہ کے ان اٹل اصول میں سے کہ جن پر وہ جزا و سزا دیتا ہے اور راضی و ناراض ہوتا ہے، یہ چیز ہے کہ کسی بندے کو چاہے وہ جو کچھ جتن کر ڈالے دنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہ میں جانا ذرا فائدہ نہیں پہنچا سکتا جبکہ وہ ان خصلتوں میں سے کسی ایک خصلت سے توبہ کئے بغیر مر جائے: ایک یہ کہ فرائض عبادت میں کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا ہو، یا کسی کو ہلاک کرکے اپنے غضب کو ٹھنڈا کیا ہو، یا دوسرے کے کئے پر عیب لگایا ہو، یا دین میں بدعتیں ڈال کر لوگوں سے اپنا مقصد پورا کیا ہو، یا لوگوں سے دو رخی چال چلتا ہو، یا دو زبانوں سے لوگوں سے گفتگو کرتا ہو۔ اس بات کو سمجھو! اس لئے کہ ایک نظیر دوسری نظیر کی دلیل ہوا کرتی ہے۔

اِنَّ الْبَهَآئِمَ هَمُّهَا بُطُوْنُهَا، وَ اِنَّ السِّبَاعَ هَمُّهَا الْعُدْوَانُ عَلٰی غَیْرِهَا، وَ اِنَّ النِّسَآءَ هَمُّهُنَّ زِیْنَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ الْفَسَادُ فِیْهَا.

بلاشبہ چوپاؤں کا مقصد پیٹ (بھرنا) اور درندوں کا مقصد دوسروں پر حملہ آور ہونا اور عورتوں کا مقصد اس پست دنیا کو بنانا سنوارنا اور فتنے اٹھانا ہی ہوتا ہے۔ [۱]

اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مُسْتَکِیْنُوْنَ، اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مُشْفِقُوْنَ، اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ خَآئِفُوْنَ.

مومن وہ ہیں جو تکبر و غرور سے دور ہوں۔ مومن وہ ہیں جو خائف و ترسان ہوں۔ مومن وہ ہیں جو ہراساں ہو۔


مقصد یہ ہے کہ تمام شر و مفاسد کا سرچشمہ قوتِ شہویہ و قوتِ غضبیہ ہوتی ہے۔ اگر انسان قوتِ شہویہ سے مغلوب ہو کر پیٹ بھرنا ہی اپنا مقصد بنا لے تو اس میں اور چوپائے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، کیونکہ چوپائے کے پیش نظر بھی پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہوتا اور اگر قوت غضبیہ سے مغلوب ہو کر ہلاکت و تباہ کاری شروع کر دے تو اس میں اور درندے میں کوئی فرق نہ رہے گا، کیونکہ اس کا مقصد بھی یہی چیرنا پھاڑنا ہوتا ہے اور اگر دونوں قوتیں اس میں کارفرما ہوں تو پھر عورت کى مانند ہے، کیونکہ عورت میں یہ دونوں قوتیں کارفرما ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بناؤ سنگار پر جان دیتی ہے اور فتنہ و فساد کو ہوا دینے میں اپنی کوششوں کو برسرکار رکھتی ہے۔ البتہ مرد مومن کبھی یہ گوارا نہ کرے گا کہ وہ ان حیوانی خصلتوں کو اپنا شعار بنائے، بلکہ وہ ان قوتوں کو دبائے رکھتا ہے۔ یوں کہ نہ وہ غرور و خود پسندی کو اپنے پاس پھٹکنے دیتا ہے اور نہ خوفِ خدا کی وجہ سے فتنہ و شر کو ہوا دیتا ہے۔

ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ حضرتؑ نے یہ خطبہ بصرہ کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمایا اور بصرہ کا ہنگامہ چونکہ ایک عورت کے ابھارنے کا نتیجہ تھا اس لئے چوپاؤں اور درندوں کی طبعی عادتوں کا ذکر کرنے کے بعد عورت کو بھی انہی خصلتوں کا حامل قرار دیا ہے۔ چنانچہ انہی کے نتیجہ میں بصرہ کی خونریز جنگ ہوئی اور ہزاروں افراد ہلاکت و تباہی کی لپیٹ میں آ گئے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 14:16
عون نقوی