بصیرت اخبار

۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «nehjulbalagha» ثبت شده است

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الدَّالِّ عَلٰی وُجُوْدِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ بِمُحْدَثِ خَلْقِهٖ عَلٰۤی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شَبَهَ لَهٗ. لَا تَسْتَلِمُهُ الْمَشَاعِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ وَ الْمَصْنُوْعِ، وَ الْحَادِّ وَ الْمَحْدُوْدِ، وَ الرَّبِّ وَ الْمَرْبُوْبِ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا اور پیدا شدہ مخلوقات سے اپنے قدیم و ازلی ہونے کا اور ان کی باہمی شباہت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دینے والا ہے۔ نہ حواس اسے چھو سکتے ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ چونکہ بنانے والے اور بننے والے، گھیرنے والے اور گھرنے والے، پالنے والے اور پرورش پانے والے میں فرق ہوتا ہے۔

اَلْاَحَدِ لَا بِتَاْوِیْلِ عَدَدٍ، وَ الْخَالِقِ لَا بِمَعْنٰی حَرَکَةٍ وَّ نَصَبٍ، وَ السَّمِیْعِ لَا بِاَدَاةٍ، وَ الْبَصِیْرِ لَا بِتَفْرِیْقِ اٰلَةٍ، وَ الشَّاهِدِ لَابِمُمَاسَّةٍ، وَ الْبَآئِنِ لَابِتَرَاخِیْ مَسَافَةٍ، وَ الظَّاهِرِ لَابِرُؤْیَةٍ، وَ الْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ.

وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے، وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے، وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے، وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جا سکے، وہ جدا ہے نہ اس طرح کہ بیچ میں فاصلہ کی دوری ہو۔ وہ ظاہر بظاہر ہے مگر آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ذاتا پوشیدہ ہے نہ لطافت جسمانی کی بنا پر۔

بَانَ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْقَهْرِ لَهَا، وَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ بَانَتِ الْاَشْیَآءُ مِنْهُ بِالْخُضُوْعِ لَهٗ، وَ الرُّجُوْعِ اِلَیْهِ.

وہ سب چیزوں سے اس لئے علیحدہ ہے کہ وہ ان پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اقتدار رکھتا ہے اور تمام چیزیں اِس لئے اُس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے جھکی ہوئی اور اس کی طرف پلٹنے والی ہیں۔

مَنْ وَّصَفَهٗ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ عَدَّهٗ فَقَدْ اَبْطَلَ اَزَلَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »کَیْفَ« فَقَدِ اسْتَوْصَفَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »اَیْنَ« فَقَدْ حَیَّزَهٗ.

جس نے (ذات کے علاوہ) اس کیلئے صفات تجویز کئے اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جس نے اسے محدود خیال کیا وہ اسے شمار میں آنے والی چیزوں کی قطار میں لے آیا اور جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ لیا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کر دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کیسا‘‘ ہے وہ اس کیلئے (الگ سے) صفتیں ڈھونڈھنے لگا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کہاں‘‘ ہے اس نے اسے کسی جگہ میں محدود سمجھ لیا۔

عَالِمٌ اِذْ لَا مَعْلُوْمٌ، وَ رَبٌّ اِذْ لَا مَرْبُوْبٌ، وَ قَادِرٌ اِذْ لَا مَقْدُوْرٌ.

وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کہ معلوم کا وجود نہ تھا اور اس وقت بھی ربّ تھا جب کہ پرورش پانے والے نہ تھے اور اس وقت بھی قادر تھا جب کہ یہ زیر قدرت آنے والی مخلوق نہ تھی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ، وَ لَمَعَ لَامِعٌ، وَ لَاحَ لَاۗئِحٌ، وَ اعْتَدَلَ مَآئِلٌ، وَ اسْتَبْدَلَ اللهُ بِقَوْمٍ قَوْمًا، وَ بِیَوْمٍ یَّوْمًا، وَ انْتَظَرْنَا الْغِیَـرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ.

ابھرنے والا ابھر آیا، چمکنے والا چمک اٹھا، ظاہر ہونے والا ظاہر ہوا اور ٹیڑھے معاملے سیدھے ہو گئے۔ اللہ نے جماعت کو جماعت سے اور زمانہ کو زمانہ سے بدل دیا ہے۔ ہم اس انقلاب کے اس طرح منتظر تھے جس طرح قحط زدہ بارش کا۔

وَاِنَّمَا الْاَئِمَّةُ قُوَّامُ اللهِ عَلٰی خَلْقِهٖ، وَعُرَفَآئُهٗ عَلٰی عِبَادِهٖ، لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وَ عَرَفُوْهُ، وَلَا یَدْخُلُ النَّارَ اِلَّا مَنْ اَنْکَرَهُمْ وَ اَنْکَرُوْهُ.

بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہیں اور اس کو بندوں سے پہچنوانے والے ہیں۔ جنت میں وہی جائے گا جسے ان کی معرفت ہو اور وہ بھی اسے پہچانیں اور دوزخ میں وہی ڈالا جائے گا جو نہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں۔

اِنَّ اللهَ تَعَالٰی خَصَّکُمْ بِالْاِسْلَامِ، وَ اسْتَخْلَصَکُمْ لَهٗ، وَ ذٰلِکَ لِاَنَّهُ اسْمُ سَلَامَةٍ، وَ جِمَاعُ کَرَامَةٍ، اصْطَفَی اللهُ تَعَالٰی مَنْهَجَهٗ، وَ بَیَّنَ حُجَجَهٗ، مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ، وَ بَاطِنِ حِکَمٍ، لَا تَفْنٰی غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ عَجَآئِبُهٗ، فِیْهِ مَرَابِیْعُ النِّعَمِ، وَ مَصَابِیْحُ الظُّلَمِ. لَا تُفْتَحُ الْخَیْرَاتُ اِلَّا بِمَفَاتِیْحِهٖ، وَ لَا تُکْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِمَصَابِیِحِهٖ، قَدْ اَحْمٰی حِمَاهُ، وَ اَرْعٰی مَرْعَاهُ، فِیْهِ شِفَآءُ الْمُسْتَشْفِیْ، وَ کِفَایَةُ الْمُکْتَفِیْ.

اللہ نے تمہیں اسلام کیلئے مخصوص کر لیا ہے اور اس کیلئے تمہیں چھانٹ لیا ہے اور یہ اس طرح کہ اسلام سلامتی کا نام اور عزت انسانی کا سرمایہ ہے۔ اس کی راہ کو اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور اس کے کھلے ہوئے احکام اور چھپی ہوئی حکمتوں سے اس کے دلائل واضح کر دئیے ہیں۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں، اسی میں نعمتوں کی بارشیں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں، اسی کی کنجیوں سے نیکیوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اسی کے چراغوں سے تیرگیوں کا دامن چاک کیا جاتا ہے۔ خدا نے اس کے ممنوعہ مقامات سے روکا ہے اور اس کی چراگاہوں میں چرنے کی اجازت دی ہے۔ شفا چاہنے والے کیلئے اس میں شفا اور بے نیازی چاہنے والے کیلئے اس میں بے نیازی ہے۔


اس خطبہ کا پہلا جز علم الٰہیات کے اہم مطالب پر مشتمل ہے جس میں خلق کائنات سے خالق کائنات کے وجود پر استدلال فرماتے ہوئے اس کی ازلیت و عینیت صفات پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ جب ہم کائنات پر نظر کرتے ہیں تو ہر حرکت کے پیچھے کسی محرک کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے جس سے ایک سطحی ذہن والا انسان بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی اثر مؤثر کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ چند دنوں کا ایک بچہ بھی اپنے جسم کے چھوئے جانے سے اپنے شعور کے دھندلکوں میں یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی چھونے والا ہے جس کا اظہار وہ آنکھوں کو کھولنے یا مڑ کر دیکھنے سے کرتا ہے تو پھر کس طرح دنیائے کائنات کی تخلیق اور عالم کون و مکاں کا نظم و نسق کسی خالق و منتظم کے بغیر مانا جا سکتا ہے؟۔

جب ایک خالق کا اعتراف ضروری ہوا تو اسے موجود بالذات ہونا چاہیے، کیونکہ ہر وہ چیز جس کی ابتدا ہے اس کیلئے ایک مرکز وجود کا ہونا ضروری ہے کہ جس تک وہ منتہی ہو۔ تو اگر وہ بھی کسی موجد کا محتاج ہوگا تو پھر اس موجد کیلئے سوال ہو گا کہ وہ از خود ہے یا کسی کا بنایا ہوا اور جب تک ایک موجود بالذات ہستی کا اقرار نہ کیا جائے کہ جو تمام ممکنات کیلئے علۃ العلل ہو، عقل علت و معلول کے نامتناہی سلسلوں میں بھٹک کر سلسلہ موجودات کی آخری کڑی کا تصور بھی نہ کر سکے گی اور تسلسل کے چکر میں پڑ کر اسے کہیں ٹھہراؤ نصیب نہ ہوگا اور اگر خود اسی کو اپنی ذات کا خالق فرض کیا جائے تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ معدوم ہوگا یا موجود، اگر معدوم ہو گا تو معدوم کسی کو موجود نہیں بنا سکتا اور اگر موجود ہو گا تو اسے دوبارہ موجود کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوتے، لہٰذا اسے ایسا موجود ماننا پڑے گا جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ ہو اور اس کے ماسوا ہر چیز اس کی محتاج ہو اور یہی احتیاج کائنات اس سرچشمہ وجود کے ازلی اور ہمیشہ سے برقرار ہونے کی شاہد ہے۔

اور اس کے علاوہ چونکہ ہر چیز تغیر پذیر ہے، محل و مکان کی محتاج ہے اور عوارض و صفات میں ایک دوسرے کے مشابہ ہے اور مشابہت کثرت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور وحدت اپنی آپ ہی نظیر ہے، اس لئے کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہو سکتی اور ایک کہی جانے والی چیزوں کو بھی اس کی یکتائی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ ہر اعتبار سے واحد و یگانہ ہے۔ وہ ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرا ہے جو جسم و جسمانیات میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ نہ وہ جسم ہے، نہ رنگ ہے، نہ شکل ہے، نہ کسی جہت میں واقع ہے اور نہ کسی محل و مکان میں محدود ہے۔ اس لئے انسان اپنے حواس و مشاعر کے ذریعہ اس کا ادراک و مشاہدہ نہیں کر سکتا، کیونکہ حواس انہی چیزوں کا ادراک کر سکتے ہیں جو زمان و مکان اور مادہ کے حدود کی پابند ہوں۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دیکھا جا سکتا ہے اس کیلئے جسم مان لینا ہے اور جب وہ جسم ہی نہیں ہے اور نہ جسم کے ساتھ قائم ہے اور نہ کسی جہت و مکان میں واقع ہے تو اس کے دیکھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی یہ پوشیدگی ان لطیف اجسام کی طرح نہیں ہے کہ جن سے ان کی لطافت کی وجہ سے نگاہیں آر پار ہو جاتی ہیں اور آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ جیسے فضا کی پہنائیوں میں ہوا، بلکہ وہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے۔ البتہ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔

وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، لیکن آلات سماعت و بصارت کا محتاج نہیں، کیونکہ اگر وہ دیکھنے سننے کیلئے اعضا کا محتاج ہو گا تو اس کی ذات اپنے کمالات میں خارجی چیزوں کی دست نگر ہو گی اور بحیثیت ذات کامل نہ رہے گی، حالانکہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور اس کا کوئی کمال اس کی ذات سے الگ نہیں، کیونکہ ذات کے علاوہ الگ سے صفات ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذات ہو گی اور کچھ صفتیں اور اس ذات و صفات کے مجموعہ کا نام ہوگا ’’خدا‘‘ اور جو چیز اجزا سے مرکب ہو وہ اپنے وجود میں اجزا کی محتاج ہوتی ہے اور ان اجزا کو مرکب کے ترکیب پانے سے پہلے موجود ہونا چاہیے۔ تو جب اجزا اس پر مقدم ہوں گے تو وہ ہمیشہ سے موجود اور ازلی کیونکر ہو سکتا ہے، جبکہ اس کا وجود اجزا سے متاخر ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت بھی علم و قدرت و ربوبیت لئے ہوئے تھا جبکہ کوئی چیز موجود نہ تھی، کیونکہ اس کی کوئی صفت خارج سے اس میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ جو صفت ہے وہی ذات ہے اور جو ذات ہے وہی صفت ہے۔ اس لئے اس کا علم اس پر منحصر نہیں ہے کہ معلوم کا وجود ہو لے تو پھر وہ جانے، کیونکہ اس کی ذات حادث ہونے والے معلومات سے مقدم ہے اور نہ اس کی قدرت کیلئے ضروری ہے کہ مقدور کا وجود ہو تو وہ قادر سمجھا جائے، کیونکہ قادر اسے کہتے ہیں جو ترک و فعل پر یکساں اختیار رکھتا ہو اور اس کیلئے مقدور کا ہونا ضروری نہیں اور یونہی ربّ کے معنی مالک کے ہیں اور وہ جس طرح معدوم کا اس کے موجود ہونے کے بعد مالک ہے اسی طرح موجود کے پردہ عدم میں ہونے کی صورت میں اسے موجود کرنے پر اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اسے معدوم رہنے دے اور چاہے اسے وجود بخش دے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 14:11
عون نقوی

وَ اَحْمَدُ اللهَ وَ اَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی مَدَاحِرِ الشَّیْطٰنِ وَ مَزَاجِرِهٖ، وَ الْاِعْتِصَامِ مِنْ حَبَآئِلِهٖ وَ مَخَاتِلِهٖ.

میں اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور ان چیزوں کیلئے اس سے مدد مانگتا ہوں کہ جو شیطان کو راندہ اور دور کرنے والی اور اس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے اپنی پناہ میں رکھنے والی ہیں۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ نَجِیْبُهٗ وَ صَفْوَتُهٗ، لَا یُؤَازٰی فَضْلُهٗ، وَ لَا یُجْبَرُ فَقْدُهٗ، اَضَآءَتْ بِهِ الْبِلَادُ بَعْدَ الضَّلَالَةِ الْمُظْلِمَةِ، وَ الْجَهَالَةِ الْغَالِبَةِ، وَ الْجَفْوَةِ الْجَافِیَةِ، وَ النَّاسُ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحَرِیْمَ، وَ یَسْتَذِلُّوْنَ الْحَکِیْمَ، یَحْیَوْنَ عَلٰی فَتْرَةٍ، وَ یَمُوْتُوْنَ عَلٰی کَفْرَةٍ!.

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے عبد و رسول اور منتخب و برگزیدہ ہیں۔نہ ان کے فضل و کمال کی برابری اور نہ ان کے اٹھ جانے کی تلافی ہوسکتی ہے۔ تاریک گمراہیوں اور بھرپور جہالتوں اور سخت و درشت (خصلتوں) کے بعد شہروں (کے شہر) ان کی وجہ سے روشن و منور ہو گئے، جبکہ لوگ حلال کو حرام اور مرد زیرک و دانا کو ذلیل سمجھتے تھے۔ نبیوں سے خالی زمانہ میں جیتے تھے اور گمراہی کی حالت میں مر جاتے تھے۔

ثُمَّ اِنَّکُمْ مَّعْشَرَ الْعَرَبِ! اَغْرَاضُ بَلَایَا قَدِ اقْتَرَبَتْ، فَاتَّقُوْا سَکَرَاتِ النِّعْمَةِ، وَ احْذَرُوْا بَوَآئِقَ النِّقْمَةِ، وَ تَثَبَّتُوْا فِیْ قَتَامِ الْعَشْوَةِ، وَ اعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ عِنْدَ طُلُوْعِ جَنِیْنِهَا، وَ ظُهُوْرِ کَمِیْنِهَا، وَ انْتِصَابِ قُطْبِهَا، وَ مَدَارِ رَحَاهَا. تَبْدَاُ فِیْ مَدَارِجَ خَفِیَّةٍ، وَ تَؤُوْلُ اِلٰی فَظَاعَةٍ جَلِیَّةٍ، شِبَابُهَا کَشِبَابِ الْغُلَامِ، وَ اٰثَارُهَا کَـاٰثَارِ السِّلَامِ، تَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُوْدِ! اَوَّلُهُمْ قَآئِدٌ لِّاٰخِرِهِمْ، وَ اٰخِرُهُمْ مُقْتَدٍۭ بِاَوَّلِهِمْ، یَتَنَافَسُوْنَ فِیْ دُنْیَا دَنِیَّةٍ، وَ یَتَکَالَبُوْنَ عَلٰی جِیْفَةٍ مُّرِیْحَةٍ، وَ عَنْ قَلِیْلٍ یَتَبَرَّاُ التَّابِـعُ مِنَ الْمَتْبُوْعِ، وَ الْقَآئِدُ مِنَ الْمَقُوْدِ، فَیَتَزَایَلُوْنَ بِالْبَغْضَآءِ، وَ یَتَلَاعَنُوْنَ عِنْدَ اللِّقَآءِ.

پھر یہ کہ اے گروہ عرب! تم ایسی ابتلاؤں کا نشانہ بننے والے ہو کہ جو قریب پہنچ چکی ہیں۔ عیش و تنعم کی بدمستیوں سے بچو اور عذاب کی تباہ کاریوں سے ڈرو۔ شبہات کے دھندلکوں اور فتنہ کی کجرویوں میں اپنے قدموں کو روک لو، جبکہ اس کا چھپا ہوا خدشہ سر اٹھائے اور مخفی اندیشہ سامنے آ جائے اور اس کا کھونٹا مضبوط ہو جائے۔ فتنے ہمیشہ چھپے ہوئے راستوں سے ظاہر ہوا کرتے ہیں اور انجام کار ان کی کھلم کھلا برائیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان کی اٹھان ایسی ہوتی ہے جیسے نوخیز بچے کی اور ان کے نشانات ایسے ہوتے ہیں جیسے پتھر (کی چوٹوں) کے۔ ظالم آپس کے عہد و پیمان سے اس کے وارث ہوتے چلے آتے ہیں۔ اگلا پچھلے کا رہنما اور پچھلا اگلے کا پیرو ہوتا ہے۔ وہ اسی رذیل دنیا پر مر مٹتے ہیں اور اس سڑے ہوئے مردار پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ جلد ہی پیروکار اپنے پیشرو رہنماؤں سے اظہار بیزاری کریں گے اور ایک دوسرے کی دشمنی کے ساتھ علیحدگی اختیار کر لیں گے اور سامنے ہونے پر ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔

ثُمَّ یَاْتِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوْفِ، وَ الْقَاصِمَةِ الزَّحُوْفِ، فَتَزِیْغُ قُلُوْبٌۢ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ، وَ تَضِلُّ رِجَالٌۢ بَعْدَ سَلَامَةٍ، وَ تَخْتَلِفُ الْاَهْوَآءُ عِنْدَ هُجُوْمِهَا، وَ تَلْتَبِسُ الْاٰرَآءُ عِنْدَ نُجُوْمِهَا، مَنْ اَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْهُ، وَ مَنْ سَعٰی فِیْهَا حَطَمَتْهُ، یَتَکَادَمُوْنَ فِیْهَا تَکَادُمَ الْحُمُرِ فِی الْعَانَةِ! قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُوْدُ الْحَبْلِ، وَ عَمِیَ وَجْهُ الْاَمْرِ، تَغِیْضُ فِیْهَا الْحِکْمَةُ، وَ تَنْطِقُ فِیْهَا الظَّلَمَةُ، وَ تَدُقُّ اَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا، وَ تَرُضُّهُمْ بِکَلْکَلِهَا! یَضِیْعُ فِیْ غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ، وَ یَهْلِکُ فِیْ طَرِیْقِهَا الرُّکْبَانُ، تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَآءِ، وَ تَحْلُبُ عَبِیْطَ الدِّمَآءِ، وَ تَثْلِمُ مَنَارَ الدِّیْنِ، وَ تَنْقُضُ عَقْدَ الْیَقِیْنِ، تَهْرُبُ مِنْهَا الْاَکْیَاسُ، وَ تُدَبِّرُهَا الْاَرْجَاسُ، مِرْعَادٌ مِّبْرَاقٌ، کَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ! تُقْطَعُ فِیْهَا الْاَرْحَامُ، وَ یُفَارَقُ عَلَیْهَا الْاِسْلَامُ! بَرِیُّهَا سَقِیْمٌ، وَ ظَاعِنُهَا مُقِیْمٌ!.

اس دور کے بعد ایک فتنہ ایسا آئے گا جو امن و سلامتی کو تہ و بالا کرنے والا اور تباہی مچانے والا اور خلق خدا پر سختی کے ساتھ حملہ آور ہو گا تو بہت سے دل ٹھہراؤ کے بعد ڈانواں ڈول اور بہت سے لوگ (ایمان کی) سلامتی کے بعد گمراہ ہو جائیں گے۔ اس کے حملہ آور ہونے کے وقت خواہشیں بٹ جائیں گی اور اس کے اُبھرنے کے وقت رائیں مشتبہ ہو جائیں گی۔ جو اس فتنہ کی طرف جھک کر دیکھے گا وہ اسے تباہ کر دے گا اور جو اس میں سعی و کوشش کرے گا اسے جڑ بنیاد سے اکھیڑ دے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹنے لگیں گے جس طرح وحشی گدھے اپنی بھیڑ میں ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ اسلام کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل جائیں گے، صحیح طریق کار چھپ جائے گا، حکمت کا پانی خشک ہو جائے گا اور ظالموں کی زبان کھل جائے گی۔ وہ فتنہ بادیہ نشینوں کو اپنے ہتھوڑوں سے کچل دے گا اور اپنے سینہ سے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اس کے گرد و غبار میں اکیلے دوکیلے تباہ و برباد ہو جائیں گے اور سوار اس کی راہوں میں ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ حکم الہٰی کی تلخیاں لے کر آئے گا اور (دودھ کے بجائے) خالص خون دوہے گا۔ دین کے میناروں کو ڈھا دے گا اور یقین کے اصولوں کو توڑ دے گا۔ عقلمند اس سے بھاگیں گے اور شر پسند اس کے کرتا دھرتا ہوں گے۔ وہ گرجنے اور چمکنے والا ہو گا اور پورے زوروں کے ساتھ سامنے آئے گا۔ سب رشتے ناطے اس میں توڑ دئیے جائیں گے اور اسلام سے علیحدگی اختیار کر لی جائے گی۔ اس سے الگ تھلگ رہنے والا بھی اس میں مبتلا ہو جائے گا اور اس سے نکل بھاگنے والا بھی اپنے قدم اس سے باہر نہ نکال سکے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے (جس میں ایمان والوں کی حالت کا ذکر ہے)]

بَیْنَ قَتِیْلٍ مَّطْلُوْلٍ، وَ خَآئِفٍ مُّسْتَجِیْرٍ، یُخْتَلُوْنَ بِعَقْدِ الْاَیْمَانِ وَ بِغُرُوْرِ الْاِیْمَانِ، فَلَا تَکُوْنُوْۤا اَنْصَابَ الْفِتَنِ، وَ اَعْلَامَ الْبِدَعِ، وَ الْزَمُوْا مَا عُقِدَ عَلَیْهِ حَبْلُ الْجَمَاعَةِ، وَ بُنِیَتْ عَلَیْهِ اَرْکَانُ الطَّاعَةِ، وَ اقْدَمُوْا عَلَی اللهِ مَظْلُوْمِیْنَ، وَ لَا تَقْدَمُوْا عَلَیْهِ ظَالِـمِیْنَ، وَ اتَّقُوْا مَدَارِجَ الشَّیْطٰنِ وَ مَهَابِطَ الْعُدْوَانِ، وَ لَا تُدْخِلُوْا بُطُوْنَکُمْ لُعَقَ الْحَرَامِ، فَاِنَّکُمْ بِعَیْنِ مَنْ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَعْصِیَةَ، وَ سَهَّلَ لَکُمْ سُبُلَ الطَّاعَةِ.

کچھ تو ان میں سے شہید ہوں گے کہ جن کا بدلہ نہ لیا جا سکے گا اور کچھ خوف زدہ ہوں گے جو اپنے لئے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے۔ انہیں قَسموں اور (ظاہری) ایمان کی فریب کاریوں سے دھوکا دیا جائے گا۔ تم فتنوں کی طرف راہ دکھانے والے نشان اور بدعتوں کے سربراہ نہ بنو۔ تم (ایمان والی) جماعت کے اصولوں اور ان کی عبادت و اطاعت کے طور طریقوں پر جمے رہو۔ اللہ کے پاس مظلوم بن کر جاؤ ظالم بن کر نہ جاؤ۔ شیطان کی راہوں اور تمرد و سرکشی کے مقاموں سے بچو۔ اپنے پیٹ میں حرام کے لقمے نہ ڈالو۔ اس لئے کہ تم اس کی نظروں کے سامنے ہو جس نے معصیت و خطا کو تمہارے لئے حرام کیا ہے اور اطاعت کی راہیں آسان کر دی ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:27
عون نقوی