بصیرت اخبار

اس میں شک نہیں ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار مرسل طریقہ (مرحوم سیدر ضی کی تالیف کے مطابق) سے بیان ہوئے ہیں ، یعنی ایسی اسناد جو ان کو معصومین سے متصل کردے ، ذکر نہیں ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے بعض لوگ شک و سوسہ کرتے ہیں ،خصوصا وہ لوگ جو تصور کرتے ہیں کہ نہج البلاغہ اپنے بلندمضامین کی وجہ سے ممکن ہے کہ مذہب شیعہ کی حقانیت اور تمام اصحاب پر حضرت علی (علیہ السلام) کی فضیلت و برتری پر سندو دلیل سمجھی جائے ، لہذا انہوں نے عام مسلمانوں کے افکار میں اس بزرگ کتاب کو ختم کرنے کیلئے بہانہ اور دستاویز قرار دیتے ہیں ۔

اگرچہ ان شک و شبہات نے مسلمان دانشوروں کے افکار میں کوئی اثر نہیں چھوڑا ، اور دونوں گروہوں کے علماء نے اس کی تعریف و تمجید میں اپنی زبانیں کھولی ہیں اور اس کے اسرار و رموز کی دقیق شرح بیان کی ہے جس کے بعض نمونوں کو گذشہ صفحات پر بیان کیا تھا ، لیکن ضروری ہے کہ ان وسوسوں اور شبہات کو دور کرنے کیلئے نہج البلاغہ کی اسناد کے سلسلہ میں ایک شرح دی جائے تاکہ یہ مختصر گرد و غبار اس کے نورانی چہرہ سے دور ہوجائے ۔

۱۔  نہج البلاغہ کے اکثر و بیشتر خطبات ، خطوط او رکلمات قصار مستدل ہیں یا ان کے اندر منطقی استدلال چھپا ہوا ہے ، درواقع نہج البلاغہ ایسا کلام ہے جس ےک بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”قضایا قیاساتھا معھا“ ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی دلیل خود انہی کے اندر موجود ہے ۔

 

اس بناء پر سلسلہ اسناد کی تعبدی مباحث کے عنوان سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے ایک عظیم حصہ میں اعتقادی تعلیمات ، قیامت، صفات خداوند ، قرآن کریم اور پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عظمت کے دلائل وغیرہ موجود ہیں ۔

دوسرے حصہ میں وعظ و نصیحت ، گذشتہ امتوں کی زندگی میں درس عبرت ، ملک کے قوانین ، اجتماعی زندگی اور جہاد کے آداب وغیرہ ہیں اور یہ تمام مسائل عام طور سے منطقی اور مستدل یا استدلال کے قابل ہیں ۔

جیسا کہ مختلف علوم کے علماء اور فلاسفہ کی کتابیں یہاں تک کہ بزرگ شعراء کے اشعار بغیر کسی سند و مدرک کے قابل قبول ہیں ، نہج البلاغہ کے مضامین کے سلسلہ میں بھی بدرجہ اولی یہی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ، حقیقت میں ان کے دلائل خود اسی کتاب میں موجود ہیں ”قضایا قیاساتھا معھا“ !۔

صرف نہج البلاغہ کا ایک مختصر حصہ ایسا ہے جس میں احکام فرعیہ تعبدیہ بیان کئے گئے ہیں ، اگر سند کی بات کی جائے تو صرف اسی حصہ میں سند کی ضرورت ہے اور یہ نہج البلاغہ کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے ، اسی وجہ سے نہج البلاغہ کی اسناد کے متعلق بحث و گفتگو بہت کم رنگ یا کم اثر ہے ۔

۲۔  دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر نہج البلاغہ کیلئے حجیت سند کے معیار و ملاک کا مطالعہ کریں تو اس لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ حدیث اور روایت کو قبول کرنے کے لئے (جیسا کہ علم اصول میں تحقیق ہوئی ہے) اصلی معیار و ملاک ، روایت پر اعتماد اور اطمینان ہے جو مختلف طرق سے حاصل ہوسکتا ہے کبھی کبھی مورد اعتماد سلسلہ سند کے راویوں کی وجہ سے روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی روایت کی کثرت اور تعدد کی وجہ سے (جو مشہور اورمعتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں) اس طرح کا اعتماد حاصل کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی روایت کے مضامین اس قدر بلند وبالا ہوتے ہیں جو خود گواہی دیتے ہیں کہ یہ فقط پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا امام معصوم (علیہ السلام) کی فکر کا نتیجہ ہیں، اور اسی کی وجہ سے ہم روایت پر اعتماد کرتے ہیں ۔

اسی مسئلہ کی طرح صحیفہ سجادیہ (اس کی معتبر اسناد کو نظر انداز کرتے ہوئے) یعنی بہت بلند و بالا دعائیں اوراس کے بہترین مضامین ہیں جو امام سجاد علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) سے صادر ہوئی ہیں ۔

بے شک جو بھی نہج البلاغہ کے خطبات اور اس کے تمام مضامین کو غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کرے گا اور اس کے اسرار کے گوشوں کو تلاش کرلے گا وہ اعتراف کرے گا کہ یہ ایک عام انسان کے کلمات نہیں ہیں ،یہ ایسا کلام ہے جو یقینا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یاامام معصوم (علیہ السلام) سے صادر ہوا ہے، شیعہ اور اہل سنت علماء کی تعبیر کے مطابق یہ ایسا کلام ہے جو مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے نیچے ہے ۔

اس بناء پر نہج البلاغہ کے مضامین اس کی سند کے معتبر اوراس کے معصوم (علیہ السلام) سے صادر ہونے پر دلیل ہیں اور جس معصوم (علیہ السلام) سے اس کو نسبت دی گئی وہ صرف اور صرف امام علی (علیہ السلام) ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ انہی کا کلام ہے ۔

کون احتمال دے سکتا ہے کہ کوئی عام انسان یا دانشور اس کو جعل کرے اور پھر اس کی نسبت علی (علیہ السلام) کی طرف دیدے ؟!

جو کوئی ایسا کام کرسکتا ہے یا اس کے دسویں حصہ کا دسواں حصہ بھی ایجاد یا جعل کرسکتا ہے وہ اس کی نسبت اپنی طرف کیوں نہیں دے گا کیونکہ یہ پوری دنیا میں اس کے لئے افتخار کا مقام ہے ؟

اس کے علاوہ سید رضی اوران کی شخصیت اور وثاقت کے متعلق جو پہچان ہمیں ہیں اس کے ذریعہ ہم جانتے ہیں کہ جب تک وہ کسی روایت کو معتبر کتاب میں نہیں دیکھیں گے اس وقت تک اس کی نسبت یقینی طور پر حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف نہیں دے سکتے، انہوں نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت ہوئی ہے بلکہ یقینی طور پر کہا ہے یہ امام (علیہ السلام) کے خطبات، امام کے خطوط اور امام کے کلمات قصار ہیں ، کس طرح ممکن ہے کہ ایک دانشور جس کے پاس معتبر سند نہ ہو وہ اس قدر یقین کے ساتھ اپنے معصوم رہبر کی طرف ایسی نسبت دے ؟!

اس کے علاوہ سید رضی سے پہلے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں نہج البلاغہ کے بہت سے خطبات،خطوط اور کلمات قصار ذکر ہوئے ہیں اوراس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سید رضی سے پہلے یہ کلمات علماء ، حدیث کے روات، اور لوگوں کے درمیان مشہور و معروف تھے اور یہ شہرت ہمیں اس کی متصل اسناد سے بے نیاز کرسکتی ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگ مورخین نے لکھا ہے کہ لوگوں کے درمیان نہج البلاغہ کے جو خطبات مشہور تھے ان کی مقدار اس سے زیادہ ہے جن کو سید رضی نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے ،حقیقت میں نہج البلاغہ میں منتخب خطبوں کو جمع کیا ہے ۔

مشہور مورخ ”مسعودی“ نے جو کہ سید رضی سے ایک صدی قبل گزرے ہیں ، مروج الذہب میں امام (علیہ السلام) کے خطبوں کے متعلق کہا ہے :

”والذی حفظ الناس عنہ من خطبہ فی سائر مقاماتہ اربع ماة و نیف و ثمانون خطبة“ ۔ لوگوں نے امام (علیہ السلام) کے جن خطبوں کو مختلف جگہوں پر حفظ کیا ہے ان کی تعداد تقریبا چار سو اسی خطے ہیں (۱) ۔ جب کہ اس وقت ہمارے پاس نہج البلاغہ کے صرف دو سو چالیس خطبے ہین۔

ایک دوسرے مشہور دانشور ”سبط بن جوزی“ نے کتاب تذکرة الخواص میں سید مرتضی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے : امام (علیہ السلام) کے چار سو خطبے مجھ تک پہنچے ہیں (۲) ۔

مشہور مسلمان دانشمند جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں کہا ہے : علی (علیہ السلام) کے خطبے مدون، محفوظ اورمشہور تھے (۳) ۔

ایک دوسرے دانشور ابن واضح نے کتاب ”مشاکلة الناس لزمانھم“میں اس طرح کہا ہے : لوگوں نے امام علی (علیہ السلام) کے بہت سے خطبوں کو حفظ کیا ہے ،انہوں نے چار سو خطبے پڑھے ہیں اورلوگوں نے انہیں حفظ کیا اور یہ وہی ہیں جو ہمارے درمیان رایج ہیں اورتقریروں میں ان سے استفادہ کرتے ہیں (۴) ۔

آج بھی ہمارے پاس نہج البلاغہ کے مصادر واسناد کے عنوان سے ایک کتاب موجود ہے جس کو معاصر فضلاء نے لکھی ہے اور ان خطبوں کی ان اسناد کو جو سید رضی سے پہلے کتابوں میں لکھی گئی ہیں ان کو تلاش کرکے ایک بہترین مجموعہ میں شایع کیا ہے،اس سلسلہ میں ایک بہترین کتاب، محقق السید عبدالزھراء الحسینی الخطیب کی ”مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ“ ہے ،جس میں مراجعہ کرنے والے ہر محقق کو اس حقیقت سے واقف کردیتی ہے کہ سید رضی نے تنہا ان خطبوں کو نقل نہیں کیا ہے ۔

۱۔  مروج الذہب ، ج ۲، ص ۴۱۹، طبع دارالہجرہ قم۔

۲۔  تذکرة الخواص، ص ۱۲۸۔

۳۔  البیان و التبیین ، ج ۱، ص ۸۳۔

۴۔  مشاکلةالناس لزمانھم ، ص ۱۵۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ کے متعلق ۱۱۴کتابوں کو جمع کیا ہے جن میں سے بیس کتابیں ایسے دانشوروں کی ہیں جو سید رضی سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے ۔ خواہشمند حضرات زیادہ تفصیلات معلوم کرنے کیلئے اس کتاب میں مراجعہ کریں کیونکہ اس مختصر مقدمہ میں اس سے زیادہ بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے  ۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ سید رضی نے نہج البلاغہ میں اپنے کلمات کے درمیان (جو کہ انہوں نے خطبوں کی وضاحت کرتے ہوئے ذکر کی ہیں) تقریبا ۱۵

 کتابوں کا نام ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے نہج البلاغہ کو جمع کرنے میں استفادہ کیا ہے (۱) ۔

جو کچھ مندرجہ بالا کہا گیا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ نہج البلاغہ کی اسناد کے متعلق شک و وسوسہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔


balaghah.net

موافقین ۰ مخالفین ۰ 23/08/11
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی