بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

درس: علم رجال

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مدرس: استاد محترم سید حسن رضوی حفظہ اللہ

چار وجوہات کی بنا پر کتاب تفسیر امام حسن عسکریؑ ضعیف ہے۔

۱۔ تین راوی قابل اعتراض ہیں۔ استر آبادی، یوسف بن محمد اور سیار۔ استر آبادی کی کسی نے بھی توثیق بیان نہیں کی ہے۔ تضعیف صرف ابن غضائری نے کی ہے بقیہ رجالیین نے توثیق اور تضعیف بیان نہیں کی۔

یوسف بن محمد اور سیار مجہول الحال ہیں۔

۲۔ کتاب میں تعارض موجود ہے۔

۳۔ کتاب میں تناقضات موجود ہیں۔

۴۔ امام رضاؑ کی محفل میں راوی کا موجود ہونا اور اس کا کتاب میں روایت کرنا۔

اعتراضات کے جوابات

اگر عبارت پر غور کریں تو مقدمہ میں آیا ہے کہ ’’قال‘‘۔ اس میں ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ ہے اور امامؑ حسن عسکریؑ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قال کی ضمیر استرآبادی کی طرف نہیں جا رہی بلکہ اس تیسرے شخص کی طرف ہے جو امام رضاؑ کی محفل میں بیٹھتا تھا۔

تناقض بھی ضرر نہیں پہنچاتا تفسیر کے مطالب کو۔ والدین کے بغیر شیخ صدوق نے اس تفسیر کے حصے سیار سے نقل کیے ہیں۔ 

ابن غضائری ایک متشدد رجالی شمار ہوتے ہیں اور ہر ایک کو غلو کا الزام لگا دیتے تھے۔ ایک کتاب میں اگر ضرورت مذہب کے خلاف ہے تو اس کی بنا پر پوری کتاب کو ترک نہیں کیا جاتا بلکہ اسی ایک روایت کو ترک کیا جاتا ہے۔ حتی ایک روایت میں ایک فقرہ اگر ضرورت مذہب کے خلاف ہے تو صرف اسی فقرہ کو ترک کیا جاتا ہے پوری روایت کو ترک نہیں کیا جاتا تو کجایکہ پوری کتاب کو ہی ایک روایت کی بنا پر ترک کیا جاۓ۔

ورنہ نہج البلاغہ میں ایسی کئی روایات ہیں جو قابل اعتراضات ہیں جس میں امام فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کی صنعت ہیں اور باقی مخلوقات ہماری صنعت ہیں۔ اس بارے میں بعض علماء قائل ہیں کہ یہ امام کے کلام میں ڈالا گیا ہے۔ 

مصنف کا مختار قول

پہلا اعتراض ہی عمدہ ہے اور اسی بنا پر اس کو رد کیا جاتا ہے۔ مصنف کے علاوہ بڑی شخصیات اس تفسیر کو معتبر مانتے ہیں۔ محمد بن قاسم کے بارے میں ترضی کا بہت وارد ہوا ہے اور متشدد علماء بھی کثرت ترضی کے بارے میں قائل ہیں کہ شیخ صدوقٓ اگر کثرت سے کسی کے لیے کثرت سے ترضی کرتے ہیں تو اس کے ثقہ ہونے کی علامت مانتے ہیں۔ اور ابن غضائری کی تضعیف کو رد کیا ہے۔ 

بقیہ دو بزرگان کے بارے میں آیا ہے کہ ان کو امامیہ لکھا گیا ہے۔ اور ان دو سے روایت کا لینا بھی ان کی توثیق ثابت کرتا ہے۔ 

ایک اور اختلاف یہ ہے کہ یہ تفسیر دیباج کی ہے یا کسی اور کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سہل بن دیباج کی تفسیر امام نقیؑ سے ہے اور یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی ہے اور مناکیر سے بھی خالی ہے۔

مصنف فرماتے ہیں کہ دو دلیلوں کی بنا پر یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی تفسیر ہے۔

پہلی دلیل

بزرگ مشائخ اور کبار محدثین کا اس پر اعتماد کرنا اور اطمینان کا حصول۔ 

دوسر دلیل

قاعدہ تبدیلی سند، حسن بن خالد برقی کی تمام کتابیں احمد بن خالد برقی کے پاس تھیں اور ان کی کتابوں تک شیخ صدوق کا طریق صحیح ہے۔ شیخ صدوق کے پاس دو طریق تھے جس طریق پر اشکال ہے وہ شیخ نے کتاب میں ذکر کیا لیکن دوسرا طریق صحیح ہے اس لیے قاعدہ تبدیلی سند کے مطابق اس کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 March 23 ، 14:01
عون نقوی

سیاسی افکار

افلاطون کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

 

یونانی فلاسفہ کے نظریات ہر دور میں توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاسی مفکرین آج بھی ان کے نظریات سے خود کو بے نیاز نہیں سمجھتے۔ افلاطون ان افراد میں سے ہے ہیں جن سے اسلامی فلاسفہ بھی متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکے۔ حکومت کے بارے میں افلاطون کا نظریہ کیا تھا اور انہوں نے حکومت کی کتنی انواع بیان کی ہیں اس تحریر میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاۓ گا۔

افلاطون کی نظر میں حکومت

افلاطون کی نظر میں اچھے حاکم کا معیار فلسفہ و ہنر سیاست کی تعلیم ہے۔ اگر کوئی حکمران فیلسوف نہیں ہے اور سیاست کے ہنر کو نہیں جانتا اسے حکومت نہیں کرنی چاہیے۔ افلاطون کی نظر میں حکمران کو فیلسوف ہونا چاہیے۔ فیلسوف وہ شخص ہے جو صاحب حکمت و تدبیر ،اخلاقی طور پر شجاع ہےاور عدل و انصاف سے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اس لیے تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔[1]

 انواع حکومت

افلاطون نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اپنی نظر کو مسلط کرتا ہے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتے۔
ان دو قسموں میں ایک گروہ کی حکومت ہے۔

۵۔ اچھی ڈیموکریسی: جس میں حکومت عام عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔
۶۔ بری ڈیموکریسی: جس میں حکومت عام عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتے۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔

 مطلوب ترین حکومت

افلاطون کی نظر میں مطلوب ترین حکومت مونارشی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں مونارشی قائم ہو جاۓوہ مدینہ فاضلہ کا مصداق بن جاۓ گا۔ لیکن اگر مونارشی قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم اریستوکریسی قائم ہونی چاہیے۔ بے شک اقتدار چند افراد میں تقسیم ہو جاۓ لیکن وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کریں۔ اگر اریستوکریسی بھی قائم نہیں ہو سکتی تو پھر اچھی ڈیموکریسی قائم کریں۔ واضح رہے کہ اچھی ڈیموکریسی اگر قائم ہو جاۓ تو تب بھی اس کا درجہ مطلوب حکومتوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔

نامطلوب ترین حکومت

اس کے برعکس سب سے بد ترین حکومت استبدادی حکومت ہے جس میں صرف ایک شخص حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی بھی نہیں کرتا۔ نامطلوب حکومتوں میں دوسرا نمبر الیگارشی کا ہے جس میں ایک گروہ پوری مملکت پر مسلط ہو جاتا ہے اور کسی اقدار و قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ اورتیسرا نمبر بری ڈیموکریسی کا ہےجس میں حکومت ایک شخص یا کسی گروہ کے قبضہ میں نہیں ہے۔ یہ طرز حکومت الیگارشی اور استبدادی سے پھر بھی بہتر ہے۔ کیونکہ اس حکومت میں کم از کم اقتدار کو تقسیم کردیا گیا ہے اگر یہی قدرت ایک گروہ یا خدانخواستہ ایک شخص کے ہاتھ لگ جاۓ بدترین نوع حکومت وجود میں آتی ہے۔[2]

منابع:

1 افلاطون، دوره آثار افلاطون، ج۲، ص۱۰۱۶، ترجمہ محمدحسن لطفی و رضا کاویانی۔
2 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۵۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 19:01
عون نقوی

سیاسی افکار

ارسطو کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

 

ارسطو ۳۸۴سال قبل از مسیح یونان کے شہر استاگیرا میں پیدا ہوۓ۔ سترہ سال کی عمر میں افلاطون کی اکیڈمی میں داخل ہوۓ۔ ارسطو کے فلسفہ سیاسی میں افلاطون کے نظریات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ارسطو نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں اخلاق نیکوماخوس (Nicomachean Ethics)، سیاست اور کتاب اصول حکومت آتن فلسفہ سیاسی ارسطو سے مربوط ہیں۔

ارسطو کی نظر میں سیاست

ارسطو کی نظر میں سیاست کی غایت خیر اعلی ہے۔ خیر کی دو اقسام ہیں:
۱۔ خیر براے غیر: یہ خیر خود مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اسے کسی اور خیر کے لیے چاہا جاتا ہے۔
۲۔ خیر براۓ خود: یہ خیر کسی اور خیر کے لیے نہیں بلکہ خود مطلوب ہوتا ہے۔ بلکہ اور خیر بھی اس خیر تک پہنچنے کے لیے انجام دیے جاتے ہیں۔ اسے خیر اعلی بھی کہتے ہیں۔ سیاست کی غایت و ہدف یہی خیر اعلی ہے۔ سیاست تعیین کرتی ہے کہ معاشرے میں کونسے علوم اور ہنر ہوں۔ کس طبقے کو کس حد تک علوم و ہنر سیکھنے چاہئیں یہ بھی سیاست تعیین کرتی ہے۔ اسی طرح سے مملکت کا نظام، دفاع، اقتصاد اور فنون دیگر سب سیاست کے تابع ہیں۔ سیاست اہم ترین و بہترین علم ہے جس کا موضوع خیر اعلی بہترین موضوعات میں سے ہے۔

انواع حکومت

ارسطو نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن اسے صرف ذاتی منفعت چاہیے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک قلیل  گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ صرف اپنی ذاتیات کی منفعت کے لیے کوشاں ہیں۔
ان دو قسموں میں اقلیت کی حکومت ہے۔

۵۔ جمہوری یا پولیٹی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ سب عوام کے منافع کے لیے کوشاں ہیں ۔
۶۔ ڈیموکریسی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور صرف اکثریت کے منفعت کے خواہاں ہیں۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔ جمہوری اور ڈیموکریسی کی حکومت میں فرق یہ ہے  کہ جمہوری حکومت میں اگرچہ اکثریت کی حکومت ہے لیکن وہ اکثریت ملک کی تمام اقلیتوں کا بھی خیال رکھتی ہے اور اس طرز حکومت میں تمام افراد برابر ہیں چاہے وہ اکثریت میں شامل ہوتے ہیں یا اقلیت میں۔ اس کے برعکس جمہوری حکومت صرف اکثریت کے منافع کو دیکھتی ہے اوراقلیت کو نظر انداز کرتی ہے۔[1]


منابع:

1 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۶۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 18:58
عون نقوی

سیاسی افکار

انواع حکومت بر اساس تعداد حاکم

تحریر :عون نقوی
02/11/2023

 

حکومت کے لغوی معنی فرمان جاری کرنے یا حکمرانی کرنے کے ہیں۔ اور اصطلاح میں حکومت سے مراد عمومی طور پر ملکی سیاست کا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ مفکرین سیاسی حکومت کو مختلف جہات سے تقسیم کرتے ہیں۔ ایک تقسیم بر اساس تعداد حاکم ہے۔ اس تقسیم کو سمجھنا سیاسی تجزیہ تحلیل کرنے اور ملک کے سیاسی حالات سمجھنے میں بہت مفید ہے۔ بنیادی طور پر اس تقسیم میں تین صورتیں بنتی ہیں جو اختصار کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔

حکومت فردی

اس طرز حکومت میں ایک شخص حاکم ہوتا ہے۔ حکومت فردی کی دو قسمیں ہیں:
۱۔مونارشی:  اس سے مراد ایک ایسے شخص کی حکومت ہے جو صرف اپنی منفعت کا نہیں سوچتا بلکہ بقول افلاطون اس طرز حکومت میں شخصِ حاکم پیرو قانون ہوتا ہے اور اس کے مدنظر منفعت عمومی ہوتی ہے۔[1]
۲۔تیرانی: اس سے مراد ایک ایسے شخص واحد کی حکمرانی ہے جو ذاتی منفعت پر حکمرانی کرتا ہے۔ حکومت کو چلانے کے لیے خود قانون بناتا ہے۔ یہ طرز حکومت عمومی طور پر موروثی ہوتی ہے۔

حکومت گروہی

بادشاہت کے بعد تاریخ بشریت میں سب سے زیادہ یہ طرز حکومت رائج رہا ہے۔ حتی بادشاہی نظام میں بھی ممکن ہے ظاہر میں ایک شخص حاکم ہو لیکن پیچھے ایک چھوٹا سا طاقتور گروہ ہوتا ہے جو بادشاہت کو چلا رہا ہوتا ہے اور اصل قدرت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس طرز حکومت کو اقلیت کی حکومت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ گروہ اپنی فکری یا طبقاتی برتری کا قائل ہوتا ہے۔ اس حکومت کی تین صورتیں متصور ہیں:
۱۔ارستوکریسی: اس طرز حکومت میں ایک قلیل گروہ ملکی سیاست کی مدیریت کرتا ہے۔ یہ قلیل گروہ اشرافی طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کی انواع حکومت کی طبقہ بندی میں اس طرز حکومت کا ذکر ہے۔ ارسطو اس طرز حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں ایک قلیل گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔[2]
۲۔الیگارشی: یہ طرز حکومت ارستوکریسی کی فاسد شکل ہے۔ حکومت قلیل گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کا مبناء سیاست ثروت ہوتا ہے۔ مغربی ڈیموکریسی پر نقد کرنے والے مفکرین از جملہ جوزف شومپیٹر کا اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈیموکریسی کے نام پر الیگارشک سسٹم ہےجس میں سرمایہ دار گروہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
۳۔حاکمیت نخبگان: علوم سیاسی کے معاصرین گروہی حکومت میں ایک طرز حکومت کا اضافہ کرتے ہیں جس کو حکومت نخبگان کہتے ہیں۔ (Elite Theory) نظریہ نخبگان کے مطابق ہر معاشرے میں فکری، سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر چند شخصیات ابھر آتی ہیں جو سیاسی مقتدرین کے قریب ہوتی ہیں اور ملکی سیاست میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔ 
واضح رہے کہ اکثر ممالک جن میں ڈیموکریسی موجود ہے ان ممالک کے سیاسی مفکرین کے مطابق حقیقت میں پشت پردہ یا الیگارشک سسٹم حاکم ہے یا یہی حاکمیت نخبگان۔ یہ نخبگان الیگارشک طبقات کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں، اپنا قلیل نفع حاصل کر کے عوام کو بیچارہ کرتے ہیں۔ 

حکومت جمہوری

ظاہری طور پر اس نظام میں حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہے۔ حکومت محدود مدت کے لیے انتخاب ہوتی ہے، عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت کی مدت ختم ہوتی ہے تو وہ ذمہ دارہوتی ہے کہ دوبارہ ووٹنگ کرواۓ اور حکومتی مناصب اگلی منتخب عوامی حکومت کے حوالے کرے۔ اس طرز حکومت کی دو شکلیں مشہور ہیں:
۱۔ریاستی جمہوری: اس طرز حکومت میں صدر مملکت مستقیم طور پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ عوامی ووٹ سے منتخب شدہ صدر اپنی کابینہ بناتا ہے اور مختلف وزارتوں پر افراد کو منصوب کرتا ہے۔ ریاستی جمہوری سسٹم میں صدر مملکت کو قوہ مقننہ پر مافوق قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اگر صدر مملکت ملکی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو قوہ قانونگذار اس کو محاکمہ کر سکتی ہے۔
۲۔پارلیمانی جمہوری: اس طرز حکومت میں صدر مملکت عوام کے مستقیم طور پر ووٹ سے منتخب نہیں ہوتااورا س کا عہدہ تشریفاتی ہوتا ہے ۔ عوام پارلیمنٹ کے ارکان کو ووٹ دے کر چنتی ہے۔ جس سیاسی حزب کے نمائندے زیادہ منتخب ہوتے ہیں وہ حزب اپنا نمائندہ پیش کرتی ہے جو حکومت کا سربراہ قرار پاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوری کا ریاستی جمہوری سے بنیادی فرق یہی ہے کہ اس طرز حکومت میں حکومت کا سربراہ مستقیم عوام کے ووٹ سے نہیں بنتا بلکہ عوامی نمائندوں کے انتخاب سے بنتا ہے۔ حکومتی وزراء مجلس مقننہ کے عضو ہوتے ہیں۔[3]
وطن عزیز پاکستان میں ظاہری طور پر پارلیمانی جمہوری نظام حاکم ہے۔

منابع:

 

1 سائٹ البر۔
2 سائٹ البر۔
3 شجاعی، ہادی، مبانی علم سیاست، ص۵۳الی۵۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 18:47
عون نقوی

پوری دنیا میں صرف ایک ایسا بندہ دکھائیں جو

دنیا کی مقتدر طاقتوں سے انقلابی زبان
سیاستدانوں سے ڈپلومیسی کی زبان
علماء و فقہاء سے درس کی زبان
حکومتی عہدے داروں سے سیاسی زبان
یونیورسٹی کے طلاب سے علمی زبان
اداکاروں اور شعبہ نشرو اشاعت سے ہنری زبان
شہدا کی فیملی سے مہربانی کی زبان
یتیموں سے ایک مہربان باپ کی زبان
اور نوبلوغ بچیوں سے بچوں کی زبان بولتا ہو۔

یہ افتخار صرف امت مسلمہ کو حاصل ہے کہ اس کا اتنا دقیق و فصیح و بلیغ عالم رہبر ہے۔



 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 February 23 ، 12:21
عون نقوی