بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{دروس ولایت فقیہ:قسط۷۰}

ولایت فقیہ پر نقلی دلیل(حصہ اول)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ پر تیسری دلیل بہت طولانی ہے۔ حوزہ جات علمیہ میں زیادہ تر ولایت فقیہ کی تیسری دلیل کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ولایت فقیہ کی پہلی دو دلیلیں بدیہی ہیں۔ لیکن نقلی دلیل نظری ہے۔ اس دلیل میں ہمیں ناچارہو کر علم فقہ، علم اصول اور علم رجال میں وارد ہونا پڑتا ہے۔

نقلی دلیل میں اختلاف

فقہاء کرام کا تیسری دلیل میں شدید اختلاف ہے۔ ہر صاحب نظر اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن ہمیں کسی کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اختلاف کے نام پر مومنین کی تضعیف کا باعث بنے۔ اختلاف کے نام پر  دشمن کی سازش کا حصہ بنے۔ اگر حکومت اسلامی سے اختلاف دشمن کے عزائم کی تکمیل کرتا ہے تو یہاں پر خاموش ہونا ضروری ہے۔ ہاں علمی اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اگر کوئی علمی دلیل سے اس موضوع کو رد کرتا ہے تو اس کی دلیل اس کے لیے حجت ہے لیکن اسے مومنین کے اندر تفرقہ پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔

ولایت فقیہ کے موضوع پر مجادلہ

ولایت فقیہ کی ابحاث کو علمی مراکز میں دلیل کی اساس پر بحث کیا جانا ضروری ہے۔ لیکن اس موضوع کو سوشل میڈیا کا موضوع بنا کر غیر علمی انداز میں بحث کرنا درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کثیر افراد ایسے ہیں جن کا کام صرف چیلنج کرنا ہے۔ یہ لوگ سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ الجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے چیلنجز کو قبول کرنا دین کی خدمت نہیں ہے بلکہ ان کی باتوں کی طرف متوجہ نہ ہونا دین کی خدمت ہے۔ یہ لوگ عوام کو بے وقوف بناتے ہیں، نا تو طالب علم ہیں اور نا کسی مدرسے کے باقاعدہ فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے اندر صرف ایک ہنر پایا جاتا ہے اور وہ زبان کی تیزی اور بدزبانی کرنا ہے۔ ہم سب کی بات نہیں کر رہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر بہت سے مخلص اور دین کا درد رکھنے والے افراد بھی فعال ہیں۔ ان کی فعالیت دیکھ کر علم ہوتا ہے کہ وہ عوام کو کچھ سکھانا چاہتے ہیں لیکن جن کا مقصد ہی آپ کو کسی نا کسی طرح سے ورغلا کر اپنے پیج پر لانا، اختلافی ابحاث ابھار کر پیج کی ریٹنگ بڑھانا ہے وہ یہ سب سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔ سمجھداری اس میں ہے کہ ان کی سازش کا حصہ نہ بنیں وہ تو چاہتے ہیں آپ ان کا چیلنج قبول کریں، جب آپ جائیں گے تو انہوں نے نے آگے سے ایک بھی نہیں سننی ، کیونکہ سوشل میڈیا علمی پلیٹ فارم نہیں ہے وہ شور مچا کر غیر علمی انداز پر اتر  آۓ گا اور الٹا بدنام کرے گا۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:
«سَلْ تَفَقُّهاً وَ لاَ تَسْأَلْ تَعَنُّتاً».
ترجمہ: سمجھنے کے لیے پوچھو، الجھنے کے لیے نہ پوچھو۔[1]
جہاں پر دیکھیں مقابل سمجھنے کی بجاۓ صرف اپنا نظریہ ثابت کرنے پر تل گیا ہے وہاں خاموش ہو جائیں۔ اور ایسی بحث کو ترک کر دیں۔ کیونکہ مجادلہ سیئہ بداخلاقی شمار ہوتا ہے۔ حتی اعتکاف اور احرام کی حالت میں تو مجادلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

قرآن کریم سے استدلال کی صورت

نقلی دلیل کے مقدمے بھی نقلی ہیں۔ نقل سے مراد قرآن کریم کی آیات و روایات اہل بیتؑ ہیں۔ تاہم آیات کریمہ میں صرف محکمات و ظواہر سے دلیل قائم کی جا سکتی ہے۔ محکم سے مراد ایسا کلام ہے جس کا صرف ایک ہی معنی نکل رہا ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلا حروف ایسے استعمال کئے گئے ہیں جن کا اور کوئی معنی نہیں بنتا، یا کلام کا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ اس کلام کا اور کوئی معنی نہیں۔ امامت کو محکمات سے ثابت کرنا ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں ظاہر ہے جس سے مراد ایسا کلام ہوتا ہے جس سے چند معانی لئے جا سکتے ہیں، لیکن ایک معنی دوسرے معانی سے زیادہ قوی طور پر آپ پر ظاہر ہو رہا ہے۔ اسے ظاہر کہتے ہیں۔ مثلا کوئی کہتا ہے کہ زید آیا ہے۔ فرض کر لیں آپ کے تین چار دوست ہیں جن کا نام زید ہے۔ لیکن جب کہا جا رہا تھا کہ زید آیا ہے ایک بندہ فورا آپ کے ذہن میں آیا۔ اسے ظاہری معنی کہیں گے۔ ہرچند دیگر معانی بھی مراد لئے جا سکتے تھے لیکن ایک معنی کا دوسرے معانی پر تبادر کرنا ظاہر کہلاتا ہے۔ علم اصول میں ہم ثابت کرتے ہیں کہ ظواہرِ قرآن کریم حجت ہیں۔ ولایت فقیہ کو محکمات یا ظواہر سے ثابت کرنا ضروری ہے۔ متشابہ اور مجمل آیات یا روایات سے استدلال نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ آپ کو اس موضوع کی تمام آیات کو جمع کرنا ہوگا، ممکن ہے موضوع کا ایک حصہ کہیں ذکر کر دیا ہو اور اس کا بقیہ حصہ کسی اور سورہ کے ذیل میں بیان ہو۔

روایات اہل بیتؑ سے استدلال کی صورت

روایات اہل بیتؑ سے استدلال کرتے ہوۓ بھی آپ کو محکمات یا ظواہر لانا ہونگے۔ مجمل و متشابہ معانی رکھنے والی روایات سے استدلال نہیں کر سکتے۔ روایات کے ذیل میں آپ کو ایک اور کام بھی کرنا ہے جو قرآن کریم سے استدلال کرتے ہوۓ ضروری نہیں تھا۔ اور وہ روایات کی سندی تحقیق کرنا ہے۔ قرآن کریم میں سندی تحقیق نہیں کی جاتی، کیونکہ مکتب تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم ہمارے پاس تواتر سے پہنچا ہے۔ تواتر کو سندی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن روایات میں ہمیں پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ مطلب نبی یا امام سے صادر ہوا ہے یا نہیں۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو جاۓ کہ کلام امام سے صادر ہوا ہے یا نہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ امام کا نظریہ ہے۔ اگر کوئی کلام تواتر سے ہم تک پہنچا ہے تو اس میں تو مسئلہ نہیں، لیکن اگر تواتر کی حد تک پہنچا ہوا کلام نہیں ہے توہ خبر واحد ہوگی۔ خبر واحد میں دیکھنا ہوگا کہ اس کا راوی عادل یا ثقہ ہے یا نہیں؟ ثقہ راوی کی روایت لینے کے حوالے سے فقہاء کے مبانی علمی مختلف ہیں اس لیے ہم یہاں پر موضوع کو تقلیدی طور پر نہیں بلکہ علمی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ قارئین کو تحقیق سے ایک نظریہ اختیار کرنے میں آسانی ہو۔

پہلی روایت اور اس کی تحقیق

روایت میں ہم نے بالترتیب تین تحقیقی امور انجام دینے ہیں:
۱۔ روایت کی سند
۲۔ روایت کا معنی (دلالت حدیث)
۳۔ روایت کی حجیت۔ اس سے مراد یہ ہے کہ روایت کا جو معنی آشکار ہو رہا ہے وہ ہم پر حجت ہے بھی یا نہیں؟

پہلی روایت

« مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ».
ترجمہ: ابو بختری بنے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بتحقیق علماء انبیاء کے وارث ہیں۔[2]
اس روایت کی سند پر بعض بزرگان نے اشکال کیا ہے لیکن ان الفاظ اور معانی کے ساتھ جو روایت قداح سے نقل ہوئی ہے اس کی سند پر کسی بھی فقیہ کو اعتراض نہیں۔[3] قداح کی روایت کسی بھی فقیہ کے مبنی کے تحت ضعیف نہیں ہے۔ اس لیے اس روایت کا امام سے صادر ہونا قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے۔ اس روایت کے معانی (دلالت حدیث) پر استدلال اور حجیت پر بعد بحث پیش کی جاۓ گی۔ لیکن اس روایت میں جو عمومی ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس روایت کے مطابق علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اہل علم کی منزلت اللہ تعالی کے نزدیک بہت بلند ہے۔ جو قومیں اہل علم کی قدر نہیں کرتیں وہ انسانیت کے اعلی مدارج تک نہیں پہنچ پاتیں۔ پاکستانی معاشرے میں طاقتور کو عزت ملتی ہے لیکن اس کا حقدار اہل علم ہے۔ پاکستان میں محسن ملت ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ کیا ہوا؟ پوری قوم گواہ ہے۔ لیکن شیطانی نظاموں میں جکڑی قوم نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ ہمارے ہاں عالم کی جب قدر نہیں ہوتی اس کو مغرب خرید لیتا ہے۔ مغربیوں کو اہل علم کی قدر ہے وہ ہاتھ پیر مار کر ان کو جذب کر لیتے ہیں۔ ان کے پاس سسٹم موجود ہے لیکن نادان قومیں ڈنڈے کے زور پر مسائل کو حل کرتی ہیں ان کو ہر مسئلہ ڈنڈے سے حل کرنا ہے۔ کوئی بھی اپنی جگہ پر نہیں ہے، اور یہ عدالت کے برخلاف ہے۔ علم ہمیں اقدار سکھاتا ہے، اور اہل علم ہمارے معاشرے کی عزت ہوتے ہیں۔ انہیں سے معاشروں کی بقاء ہے۔ 

دوسری روایت اور اس کی تحقیقی

دوسری روایت

« مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْعُلَمَاءُ أُمَنَاءُ».
ترجمہ: اسماعیل بن جابر نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے، امامؑ نے فرمایا علماء امین ہیں۔[4]
اس روایت کی سند میں چار راوی ہیں۔
محمد بن یحیی العطار، احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن سنان، اسماعیل بن جابر۔ ان میں صرف محمد بن سنان کی وثاقت کے بارے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ محمد بن سنان پر طولانی گفتگو ہے۔ نجاشیؒ اور طوسیؒ نے اپنی کتابوں میں ان کی تضعیف کی ہے۔ علم رجال میں ستون یہی دو شخصیات ہیں۔ لیکن شیخ مفیدؒ، نے محمد بن سنان کی خصوصیت کے ساتھ توثیق کی ہے۔ وسائل الشیعہ کے خاتمہ میں شیخ حر عاملی ؒنے بھی محمد بن سنان کو ثقہ قرار دیا ہے۔ بہرحال محمد بن سنان امام کاظمؑ، امام رضاؑ اور امام تقیؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ ان کی وثاقت پر ہمارے پاس کثیر قرائن بھی موجود ہیں جن سے ان کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے۔ تاہم آیت اللہ خوئیؒ نے تمام رجالیوں کے اقوال کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے اور آخر میں تبصرہ کرتے ہوۓ ضعیف قرار دیا ہے۔ لذا آیت اللہ خوئیؒ کے مبنی کے مطابق تو یہ روایت ضعیف ہو جاۓ گی لیکن دیگر فقہاء کرام کے مبانی کے مطابق یہ روایت صحیح ہے۔ اور اس کے معانی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔[5]

منابع:

↑1 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت ۳۲۰۔
↑2 شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۲۔
↑3 شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۴۔
↑4 شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۔
↑5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۸تا۱۷۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:39
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۹}

ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل(حصہ پنجم)

کتاب: ولایت فقیہ، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

تلفیقی دلیل کو گزشتہ اقساط میں اجمالی طور پر بیان کیا گیا۔ اس تحریر میں دلیل پر ابھرنے والے چند سوالات کے جواب دئیے جائیں گے۔

ولایت فقیہ۔امامت کے قریب ترین نظام

اللہ تعالی زمین و آسمان کا خالق ہے۔ خلقِ خدا پر اللہ تعالی کی حکومت ہے۔ انسانوں پر الہی حکومت کی ضرورت کو بھی سب مسلمان قبول کرتے ہیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ الہی حکومت اجراء کے مرحلے میں کس انسان کے ہاتھ میں ہو؟ اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص بھی حکومت پر مسلط ہو جاۓ وہ خلیفہ الہی ہے اور اس کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے۔ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی کی جانب سے منصوب امام، حکومت کر سکتا ہے۔ زمانہ امامت(۲۶۰ ہجری) تک تو مشکل پیش نہیں آتی مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب وقت کا امام غیبت میں ہے۔ زمانہ غیبت میں الہی حکومت ہو یا نہ ہو؟ کیا اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ زمانہ غیبت غیر الہی حکومت میں بسر ہو؟ الہی قوانین معطل رہیں؟ یقینا یہ سب مقصود نہیں ہے۔ عقل یہاں پر کہتی ہے کہ اگر امامت نہیں ہے تو امامت کے قریب ترین نظام ہو۔ ولایت فقیہ اگرچہ کامل طور پر امامت کے نظام کا متبادل نہیں ہو سکتا لیکن بقیہ نظاموں کی نسبت امامت  سے قریب تر ضرور ہے۔ عقل یہ حکم کرتی ہے کہ امامت نہ سہی تو ایسی صورت اختیار کی جاۓ جو امامت کے قریب تر ہو۔ کلی طور پر تلفیقی دلیل یہی ہے ۔جس کا ایک مقدمہ دین سے لیا گیا ہے۔ دینی مقدمے پر عقل حکم لگا رہی ہے۔ پس یہ کہنا کہ ہم ولایت فقیہ کو امامت کے متبادل قرار دے رہے ہیں درست نہیں۔ ولی فقیہ نا تو امام کی مانند ہے اور نا ہی ولایت فقیہ امامت کے متبادل۔

زمانہ غیبت میں سیاسی نظام

زمانہ امامت میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں امام کی اطاعت نہیں کرتا اور کسی دوسرے شخص کو اپنا امام بنا سکتا ہوں۔ کیونکہ امام واجب الطاعہ ہوتا ہے۔ یہی صورت حال زمانہ غیبت میں بھی ہے۔ اگر امام ظاہر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی کو بھی سیاسی طور پر اپنا امام مقرر کر لیں۔ جس طرح زمانہ امامت میں لوگ صرف الہی قوانین کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں زمانہ غیبت میں بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ کسی بھی قانون کو اپنا لیں۔ قوانین الہی کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں، بلکہ تا قیامت یہی قوانین ہیں جو معاشروں میں نافذ ہونے ہیں۔ اس طور پر کوئی بھی شخص ولایت فقیہ کا انکار نہیں کر سکتا۔ آپ کسی سے بھی پوچھیں کہ اس کو کونسا نظام اور قانون چاہیے؟ اسلامی یا غیر اسلامی؟ وہ کہے گا کہ اسلامی قانون چاہیے۔ آپ کسی سے بھی پوچھیں کہ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ آپ کے مسلمان معاشرے میں شراب عام بک رہی ہو؟ سودی نظام سے غریب، غریب تر ہو رہا ہو اور امیر، امیر تر ہو رہا ہو؟ کیا وہ چاہتا ہے کہ اسلامی حدود جاری نہ ہوں؟ یقینا اگر وہ مسلمان ہے تو وہ کہے گا کہ میں یہ سب نہیں چاہتا۔ تو ہم کہیں گے پھر تو آپ بھی ولایت فقیہ کے قائل ہیں۔ کیونکہ ولایت فقیہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب امور نہ ہوں، اگر ولایت فقیہ آ جاۓ تو الہی قانون کا اجراء ہوگا، فسق و فجور پر پابندی لگائی جاۓ گی، مجرمین کو اسلامی حدود کے مطابق سزا ملے گی، اور آپ کا حکمران بھی فاسق فاجر یا جاہل نہ ہوگا بلکہ با تدبیر و با صلاحیت انسان حاکم ہوگا جو عدل کی بنا پر فیصلے کرے گا، اگر وہ ایک بھی فیصلہ غیر عادلانہ کرتا ہے تو اس کی ولایت ساقط ہو جاۓ گی۔ ولی فقیہ کے لیے عادل ہونا شرط ہے، اگر پتہ چل جاۓ کہ اس نے ایک فیصلہ بھی اسلامی معیار وں کو مدنظر رکھنے کی بجاۓ ہوا و ہوس سے کیا ہے اس کی حکومت گر جاۓ گی۔ ایسا نظام کون نہیں چاہتا؟ یقینا سب یہی چاہتے ہیں اس لیے اس نظام کی درست تشریح و تبیین ضروری ہے۔ شبہات کا جواب دینا ضروری ہے ورنہ اس کے متبادل اور پست تر نظام معاشروں پر نافذ رہیں گے۔

اجتماعی علوم میں اجتہاد کی ضرورت

حوزہ جات علمیہ میں الحمد للہ اجتماعی علوم بھی ایک حد تک پڑھاۓ جانے لگے ہیں۔ جو طلاب اجتماعی علوم نہیں پڑھتے اور صرف فقہ و اصول میں مہارت حاصل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں وہ معاشرے کےاجتماعی  امور میں علمی نظر نہیں رکھتے بلکہ ان امور میں تقلید کرتے ہیں۔ جبکہ اجتماعی زندگی میں نظریات کو اپنانے کے لیے تقلید کی نہیں اجتہادی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم خود اجتماعی زندگی کے امور میں اجتہادی نظر حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں تو ہر ایرے غیرے کی نظر کو آرام سے قبول کر لیں گے۔ جبکہ ہمیں خود تجزیہ تحلیل کرنا ہوگا کہ کیسے استعماری طاقتوں نے کئی صدیوں سے امت مسلمہ کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے؟ کیوں مسلمان ملک فقیر ہیں اور مغرب کی غلامی کر رہے ہیں؟ کیوں ہمارے ممالک میں اسلامی حکومتیں قائم نہیں ہو رہیں، صرف استعمار کا غلام ہی ہم پر مسلط ہوتا ہے؟ ہم اجتماعی طور پر اسلامی نکتہ نظر سے کیوں نہیں سوچتے، قومیت، قبائلیت، لسانیت اور مفادات کی بنا پر اجتماعی فیصلے کرتے ہیں؟ آخر کیوں؟ آخر کیوں وطن عزیز میں ہم انہیں چور ڈاکوؤں سے ہی اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں؟ ان امور میں کیوں تجزیہ تحلیل نہیں کیا جاتا؟ اگر ہمیں اتنا نہیں سمجھ آتا کہ ہم کس طرح اس حالت کو پہنچے ،یقینا پھر اسلام سے زمانہ غیبت میں نظام بھی استخراج نہیں کر سکیں گے۔ہم نے اسلام کو انفرادی نگاہ سے دیکھا ہے، اجتماعی امور کو دوسروں کے حوالے کر دیا۔ ہمارا مسئلہ صرف ولایت فقیہ کو نہ سمجھ پانا نہیں بلکہ بہت سے بنیادی اجتماعی امور کی بھی ابھی تک ہم نے صحیح فہم حاصل نہیں کی۔

ولایت فقیہ پر چاروں طرف سے حملہ

ولایت فقیہ کے خاتمہ کے لیے دشمن نے اب تک ہزاروں منصوبے بنائے ہیں۔ جب سے یہ نظام قائم ہوا ہے پہلے دن سے ہی مشرقی و مغربی بلاک نے اس کا کام تمام کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اندرونی طور پر ایران کے اندر نفوذی چھوڑے، اور بیرونی طور پر ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ لیکن یہ بات واضحات میں سے ہے کہ جتنا نقصان اس نظام کو خود اندر کے لوگوں سے پہنچا ہے وہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں پہنچ سکا۔ ایران کو اندرون سے مختلف مسائل کا شکار کر دیا گیا۔ ولایت فقیہ کے مقابلے میں قوم پرست، لبرل، متحجرین، اور اصلاح طلب گروہوں کو لایا گیا۔ قوم پرست کہتے ہیں کہ جب سے ایران میں اسلامی حکومت آئی ہے تبھی سے ایران مسائل کا شکار ہوا ہے، ہمارا ہیرو کورش کبیر (Cyrus the Great) ہے اور ہمیں اپنی اسی اصل کی طرف جانا چاہیے۔ یہ لوگ امام رضاؑ اور امیرالمومنینؑ کو اپنا رول ماڈل ماننے کی بجاۓ کوروش کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ بعض ہمارے علماء نے کوروش کو ذوالقرنین نبی قرار دیا ہے۔ ان کے بقول یہ دونوں ایک شخصیت ہیں۔ بہرحال کوروش پرست افراد ایران میں قوم پرستی کی بنا پر حکومتی نظام تشکیل دینا چاہتے ہیں اور اسلام کا کاملا انکار کرتے ہوۓ ولایت فقیہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے ایران میں ایسی تنظیمیں وجود دی گئی ہیں جو ایران کو  چند ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول کردستان، بلوچستان، تبریز اور اس کے علاوہ دیگر صوبے ایران کا حصہ نہیں ہیں، صرف وسط میں جو علاقہ فارس کہا جاتا ہے وہی ایران ہے بس، اس کے علاوہ باقی تمام صوبہ آزاد ہونے چاہئیں۔ قوم پرستی کے عنصر کو ابھار کر وہ اس اسلامی نظریہ کو توڑنا چاہتے ہیں۔ دشمن چاہتا ہے جو قوم بھی آ جاۓ، مشکل نہیں۔ لیکن اسلامی قانون کی بات نہ ہو، ان کو ریاستی و قومی مسائل میں الجھا دو، ان کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ قوموں کی شکل میں رہیں۔ جبکہ دین اسلام امت واحدہ کا قائل ہے۔ امت واحدہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومیں ختم ہو جائیں، ملکوں کی سرحدیں ختم ہو جائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے لیکن مشترکہ مفاد کی بنا پر ایک امت بن کر رہنا نا صرف امت کے اجتماعی مفاد میں ہے بلکہ دینی طور پر بھی فریضہ ہے۔

دشمن کی وحدت اور مسلمانوں میں تفریق

یورپی اگر مختلف قوموں کے باوجود ایک ہو سکتے ہیں تو مسلمان بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں پر الٹی گنگا بہتی ہے۔ مسلمان ملک(یمن) کے خلاف آل سعود کی نگرانی میں مسلمان ممالک کی فوجوں سے ایک مشترکہ لشکر بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کا لشکر عالمی استکبار کے خلاف کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ ہمیں ان امور کو اجاگر کرنا چاہیے، اس پر مقالات لکھے جانے چاہئیں اور کانفرنسز منقعد ہونی چاہئیں۔ امت مسلمہ مشترکہ مفاد کے لیے اکٹھی ہو جاۓ اور وحدت کی صورت اختیار کر کے اسلام دشمنوں کے خلاف کھڑی ہو۔ لیکن دشمن مکار ہے وہ اس تفکر کو پھیلنے نہیں دیتا اور فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے۔ فرقہ واریت کا پھل آج امت مسلمہ کو یہ ملا کہ مسلمانوں کے قلب(قبلہ اول بیت المقدس فلسطین) پر اس نے حملہ کیا کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ مسلمان ممالک کا دوسرا اہم ترین خطہ جو وسط شمار ہوتا ہے عرب عمارات ہے اور اسے مغربی استکبار نے بدترین شکل میں اپنے چنگل میں پھنسایا ہوا ہے۔ عرب عمارات اس وقت کامل طور پر اسرائیل کی ریاست بنا ہوا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے الہی قوانین کو نافذ کرنے کی بجاۓ الہی قوانین کو صرف پڑھنے پر اکتفاء کیا۔ دین اسلام اس لیے نازل  نہیں ہوا تھا کہ افراد اس کو پڑھ کر مفتی بنیں اور اسلامی ممالک دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں ہوں۔ دشمن کو الہی قوانین پڑھنے سے تو کوئی مشکل نہیں، کوئی عزاداری کرتا ہے اور خود کو مارتا ہے تو اس میں دشمن کو تو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ ان کو مساجد، مدارس اور امام بارگاہوں سے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کو مسئلہ یہ ہے کہ کہیں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات نہ ہو۔ آپ لاکھ عزاداری کریں کسی بھی ملک میں آپ کو کوئی نہیں روکے گا لیکن اگر آپ اسلامی ممالک میں الہی قوانین کی بات کریں اور یہ بات کریں کہ امام حسینؑ کے قیام کو آج بھی معاشروں میں زندہ کیا جاۓ تو اسے اغوا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس بات پر تو سب کو خوش ہونا چاہیے کہ امام حسینؑ کے قیام کی بات کی جا رہی ہے، حسینیت کو عام کیا جا رہا ہے اور ملک میں مسلط یزید صفت حکمرانوں سے چھٹکارے کی بات ہو رہی ہے۔ اسلامی سوسائٹی کی بات ہو رہی ہے، عزت و استقلال کی بات ہو رہی ہے اس سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ اس میں مسئلہ پیچھے سے استعمار کو ہے ہمارے اپنوں کو نہیں۔ استعماری طاقتوں کا ہمارے ملک کے تمام اداروں میں نفوذ موجود ہے وہ ایسا شخص معاشرے میں مقبول ہی نہیں ہونے دیتیں جو الہی قوانین کے اجراء کی بات کرے۔ وہ لبرل اور استعمار زدہ شخص کو عوام میں مقبول کر وا دیتے ہیں۔ اور ادھر مذہبی افراد اس حقیقت کو سمجھنے کی بجاۓ آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہی نہیں کہ کوئی ایم۔آئی۔سکس نامی چیز ہے، یا سی۔آئی۔اے ہے جن کا ہمارے ممالک میں بھرپور نفوذ موجود ہے،اور یہ مسلمانوں کو اندر سے کمزورکر رہے ہیں۔ انہیں امریکی و برطانوی ایجنسیوں نے ہی داعش، طالبان، جبہۃ النصرہ جیسے گروہ بناۓ ہیں جو صیہونیوں کے خلاف جہاد کرنے کی بجاۓ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ دشمن در اصل طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں بنا کر مسلمانوں کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ جو بھی اسلامی نظام کی بات کرے وہ داعشی یا طالبانی ہے۔ دشمن ولایت فقیہ کے مقابلے میں ان گروہوں کو سامنے لایا ہے۔

تحلیل کی قلت اور تقلید کی کثرت

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی حوزے میں پڑھنے والا طالبعلم اجتماعی امور میں تحلیلی نظر رکھنے کی بجاۓ تقلید کرتا ہے۔ وہ سال ہا سال دین کو پڑھتا ہے لیکن جب اسے کہا جاۓ کہ یہ دین پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ نافذ ہونے کے لیے نازل ہوا ہے تو اس کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے فورا کہتا ہے کہ فلاں عالم نے تو ایسا کبھی نہیں کہا؟ فورا فلاں عالم اور مجتہد کا حوالہ دے گا اور تقلید پر اتر آۓ گا۔ زمانہ غیبت میں دین کا نظام ہو یا نہ ہو؟ وہ بلا جھجھک کہتا ہے کہ کوئی بھی نظام ہو فرق نہیں پڑتا۔ نیابت کا نظام ہو چاہے ڈیموکریسی کا نظام ہو کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر یہاں وہاں سے ڈیموکریسی کو ثابت کرنے کی کوشش کرے گا جب پوچھا جاۓ کہ ڈیموکریسی مغربی نظام ہے یا اسلامی؟ اس کے جواب میں فورا کسی کا قول نقل کرے گا کہ فلاں نے تو اسے بھی اسلام کے منافی قرار نہیں دیا۔ تعجب کی بات ہے فقہی استنباط کرنے میں اس کا دماغ خوب چلتا ہے لیکن دین کا نظام جاری ہونا چاہیے یا نہیں یہاں فورا اسے تقیہ یاد آ جاتا ہے۔ فورا کہتا ہے کہ ہم حکم ثانوی پر بھی تو عمل کر سکتے ہیں۔ علمی فضا ایسی بنی ہوئی ہے کہ اگر کوئی نماز روزہ کے مسائل کو پڑھتا ہے تو سب کہتے ہیں کہ یہ دین پڑھ رہا ہے لیکن اگر اجتماعی امور پر بات کرتا ہے یا امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا راہ حل پیش کرتا ہے تو اسے کہتے ہیں عالم ہو کر غیر دینی باتیں مت کرو۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کرنا کب سے غیر اسلامی بات ہو گئی؟ یا کہے گا کہ آپ دیوبندی ہو گئے ہو۔ دشمن نے ہمارے معاشروں میں اتنا زہر پھیلا دیا ہے کہ جو بھی حکومت اسلامی کی بات کرتا ہے یا قانون الہی کے اجراء کی بات کرتا ہے سب سمجھتے ہیں کہ یہ شدت پسند سنی ہو گیا ہے۔ نظام الہی کی بات کرنا تسنن نہیں ہے بلکہ عین تشیع ہے۔ امامت یہ ہے کہ ہمارے اوپر آئمہ معصومینؑ کی یا ان کے نائبین کی حکمرانی ہو، یہ ہمارے ہادی و امام ہیں۔ صرف انفرادی زندگی میں ہی امام نہیں ہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی امام ہیں۔ امامت کا مزاج بتاتا ہے کہ وہ اس لیے قرار دی گئی کہ امت کے اجتماعی امور کی اصلاح کرے اور ان کی مدیریت کرے۔ طلاب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ذہنوں کو کھولیں اور اجتماعی امور میں تقلید پر اکتفاء نہ کریں بلکہ اجتہادی نظر رکھیں۔ جس طرح فقہاء کے اختلاف کو فقہ کی دنیا میں دلیل کی بنا پر قبول کیا جاتا ہے اسی طرح سیاسی تجزیہ تحلیل میں بھی دلیل کو اختیار کریں، تقلید نا کریں۔ 

کثرت سے وحدت کی طرف سفر

تلفیقی دلیل کے ذیل میں ہم نے بیان کیا کہ امام کی ذمہ داری ہے حج کے مناسک کو منظم بنانے کے لیے چاند کا اعلان کرے۔ زمانہ امامت میں تو یہ مسئلہ نہیں ہے تمام مومنین ایک امام کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ زمانہ غیبت میں کیا کریں؟ زمانہ غیبت میں ممکن ہے خود مراجع عظام کا اختلاف ہو جاۓ؟ تب کیا کریں گے؟ ایک مجتہد کہے کہ چاند ثابت ہے اور دوسرے کے نزدیک ثابت نہ ہو۔ زمانہ امامت میں تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایک وقت میں دوسرا امام موجود بھی ہو تو وہ پہلے کا ماموم ہوتا ہے۔ زمانہ غیبت میں بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ایک رہبر ہو۔ معاشرے میں یہ رشد ہونا ضروری ہے کہ وہ کثرت سے وحدت کی طرف آئیں۔ بہترین عقلی صورت یہ ہے کہ دین اور دنیا کا ایک رئیس ہو۔ یہ زمانہ امامت میں ممکن ہے۔ امام دینی مسئلہ بھی بتاۓ اور امت کے دنیوی مسائل کو بھی حل کرے۔ حکم شرعی، عدالتی فیصلے، سیاسی امور اور جہاد کے امور، بیک وقت ایک امام کے ہاتھ میں ہوں۔ زمانہ غیبت میں بھی معاشروں میں آہستہ آہستہ یہ شعور آنا ضروری ہے کہ وہ ایک فقیہ کی اطاعت میں ہوں۔ کیونکہ امامت کے قریب ترین صورت یہی بنتی ہے جتنی کثرت ہوگی اتنا ہی امامت سے دور تر ہونگے۔ اب چاند کے مسئلے میں جب تک امام ہے تو فقط وہ اعلان کرتا ہے دوسرا امام اس کی اتباع کرتا ہے، زمانہ غیبت میں بھی حق بنتا ہے کہ ایک فقیہ اعلان کرے، ایران میں رہبر معظم کے زیر نگرانی جو کمیٹی چاند دیکھنے کے امور انجام دیتی ہے وہ سب مراجع کے مبانی کو مدنظر رکھتے ہوۓ چاند دیکھتی ہے۔ ایسا نہیں کہ رہبر معظم اپنے فقہی مبانی کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعلان کروا دیتے ہوں۔ اعلی ترین صورت یہ بنتی ہے جب ولی فقیہ اعلان کر دے تمام مراجع اس کی اتباع کریں۔ یہ تو صرف چاند کا مسئلہ ہے، باقی سب امور میں بھی ایسی صورت اختیار کی جاۓ جو زمانہ امامت کے قریب تر ہو۔ مثلا زمانہ غیبت میں نماز عیدین کا مستحب ہونا اور زمانہ امامت میں واجب ہونا، یہ ایک استثناء ہے، نماز جمعہ کا واجب تخییری ہونا یا واجب عینی ہونا، جس بات کے بھی قائل ہو جائیں یہاں پر مثال کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ زمانہ امامت کے قریب ترین نظریہ کونسا بنتا ہے؟ عینی ہونے کا نظریہ یا تخییری ہونے کا نظریہ؟ یہاں پر ہماری جانب سے فتوی دینا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کونسی صورت نظام امامت کے قریب ہے، یقینا واجب عینی کی صورت نزدیک ہے۔ پس شعبہ جات کی تقسیم کے اعتبار سے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو تمام شعبہ جات جدا جدا کر لیں۔ فتوی دینے والا الگ ہو، قضاوت کرنے والا الگ ہو، اور سیاست کرنے والا الگ۔ لیکن بہترین صورت یہ ہے کہ کثرت سے نکل کر وحدت کی طرف آیا جاۓ۔ جتنی وحدت ہوگی اتنا ہی نظریہ امامت کے قریب تر ہیں۔ کیونکہ امام کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں فتوی دینے والا بھی ہے، قضاوت کرنے والا بھی ہے اور امت کی سیاست بھی اسی کے ذمہ ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اس نظام کے قریب ترین صورت کو اختیار جاۓ۔

اجتماعی امور میں تقلید کا نتیجہ

دین اللہ تعالی نے بھیجا تاکہ معاشروں میں جاری ہو سکے۔ دین صرف اچھی اچھی باتیں بتانے کے لیے نازل نہیں ہوا۔ مثلا بچے کو آپ کہیں کہ اٹھو نماز پڑھو۔ وہ کہے کہ ہاں آپ بہت اچھی بات کر رہے ہیں، نماز پڑھنی چاہیے۔ اور بیٹھ جاۓ۔ آپ کہیں پھر نماز کیوں نہیں پڑھ رہے ہو؟ وہ کہے کہ آپ نے کب کہا کہ جاؤ، وضو کرو، جاۓ نماز بچھاؤ، اور تکبیرۃ الاحرام کہہ کر رکوع و سجود بجالاؤ۔ یہاں پر وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتا بلکہ عقل کہتی ہے کہ ان سب کا  اہتمام کرنا ضروری ہے۔ نماز کے ان مقدمات کو انجام دینا بھی ضروری ہے۔ مقدمات کے فراہم کرنے کا حکم عقل لگاتی ہے۔ اس کے لیے الگ سے فتوی کی ضرورت نہیں بلکہ عقل کا حکم لگانا کافی ہے۔ اگر دین اسلام نے قوانین بیان کئے ہیں تو ان کو صرف سن لینا کافی نہیں، ان کو معاشروں میں جاری کرنے کے لیے مقدمات فراہم کئے جائیں۔ جس نے کبھی عقل کو چلایا ہی نہیں ہمیشہ فتوی مانگتا رہا وہ یہ بات نہیں سمجھے گا۔ وہ کہے گا کہ کہاں لکھا ہے کہ اسلامی قوانین کو جاری کرنا ضروری ہے؟ وہ کہے گا کہ مجھے کوئی فتوی دکھاؤ۔ تقلیدی ذہن ہمیشہ یہی سوچے گا لیکن عقل کے پیچھے چلنے والے افراد فورا قوانین الہی کے اجراء کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت کو سمجھ لیں گے۔ تقلیدی ذہن کو آپ لاکھ کہتے رہو کہ اس کے لیے تو ابتدائی ترین عقل کافی ہے یہ کام کرو ورنہ فرعون، یزید، صدام اور ٹرمپ جیسے افراد تم پر مسلط ہو جائیں گے وہ کہے گا کہ چونکہ اس پر فتوی نہیں ہے میری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔

عقل کی ولایت فقیہ کی طرف ہدایت

دین نے جتنے بھی احکام بیان کئے ہیں ان کی ماہیت پر غور کریں تو آپ یقینی طور پر ولایت فقیہ کی تصدیق کریں گے۔ کیونکہ عقل حکم لگاتی ہے کہ یہ احکام بغیر ولایت فقیہ کے کوئی معنی نہیں رکھتے، اگر ولایت فقیہ نہ ہو لغو ہو جائیں گے۔ مثلا دین کا یہ حکم دینا کہ اموال کو بے وقوفوں کے حوالے نہ کرو، وقف شدہ اموال میں جھگڑا ہو جاۓ تو اس میں حاکم شرع کی طرف رجوع کرو، جہاد اور جنگ کے امور میں امام کی طرف رجوع کرو، مجنون اور مفلس شخص کے امور کی دیکھ بھال، قضاوت اور عدالت کے امور، یہ سب وہ احکام ہیں جن میں ہم زمانہ غیبت میں آزاد نہیں ہیں۔ غیبت میں بھی ان سب مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے لوازمات یہ ہیں کہ ان سب مسائل کو دین کی نظر میں حل ہونا چاہیے، لیکن آپ کو دین کی نظر میں یہ سب مسائل حل کرنے کون دے گا؟ طاغوتی طاقتیں آپ کو الہی قوانین جاری نہیں کرنے دیں گی۔ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ پھر خود قوت حاصل کرو، اجراء کی طاقت حاصل کرو، یہ سب امور آپ کو حکومت کی طرف لے جاتے ہیں، عقل کہتی ہے کہ ان سب ابواب میں حکومت کی ضرورت ہے۔ حکومت بناؤ اور حکومت کے ذریعے دین کے احکام کو قائم کرو۔ اور یہی ولایت فقیہ ہے۔[1]

منابع:

↑1 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۰تا۱۷۸۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:36
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۸}

ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل(حصہ چہارم)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ہمارے لیے ولایت فقیہ کے موضوع کو اس کی دلیلوں کی بنا پر قبول کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ہم موسمی حامی کہلائیں گے۔ موسم بدلا تو ہمارا نظریہ بھی بدل جاۓ گا۔ اگر ولایت فقیہ کی دلیل کا پتہ نہ ہوا تو اندر سے پختہ ایمان و استحکام پیدا نہ ہوگا۔ ہم بھی اس کو امامت کی ذیلی شاخ کی بجاۓ ایرانیت سے مربوط کر دیں گے۔ اس لیے دلیل کو سمجھنا ضروری ہے۔

تلفیقی دلیل کی ساخت

تلفیقی دلیل میں ہم نقل(قرآن کریم و روایات) کے بعض احکام سے عقلی استفادہ کرتے ہوۓ ولایت فقیہ کو ثابت کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر دین کے بعض احکام ایسے ہیں جن کا آنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ولایت فقیہ ہونی چاہیے۔ اگر ولایت فقیہ نہ ہو تو عقل کہتی ہے کہ دین کے یہ بعض احکام لغو ہو جائیں گے اور دین کی تعطیل لازم آۓ گی۔ جبکہ اللہ تعالی نے دین اسلام اس لیے نہیں اتاراکہ اس کے احکام لغو ہو جائیں اور دین تعطیل ہو جاۓ۔ اگر ان دینی افکار اور احکام کو ہم واضح طور پر سمجھ لیں تو عقل فورا حکم لگاۓ گی کہ ولایت فقیہ ہو۔ اس کے لیے الگ سے کوئی دلیل لانے کی ضرورت نہیں۔ صرف نقلی مقدمہ واضح ہونا ضروری ہے، اس پر عقل حکم لگاۓ گی اور دلیل کامل ہو جاۓ گی۔ تلفیقی دلیل کو ہم دلیل مسامحتا کہہ رہے ہیں ورنہ اس میں بھی ہم صرف مقدمات کی وضاحت کریں گے۔ اس لیے اسے بدیہی کہہ رہے ہیں۔

دین کا وجودی فلسفہ

ہمارے پاس دین کے بارے میں دو نظریات ہیں۔
پہلا نظریہ: دین صرف آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لیے آیا ہے۔ دین کے پاس دنیوی زندگی کو منظم کرنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ چند احکام اور عبادات کا مجموعہ ہے جن کو آپ انفرادی زندگی میں انجام دے کر آخرت کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔
دوسرا نظریہ: دین اخروی زندگی کے لیے نہیں بلکہ دنیا کی زندگی کو سنوارنے کے لیے آیا ہے۔ اگر آپ اس دنیا میں دین کے مطابق زندگی گزاریں تو آپ کی دنیوی زندگی تو سنورے گی ، اس کے ساتھ ساتھ آپ کی اخروی زندگی بھی سنور جاۓ گی۔ دین آیا ہے کہ تاکہ آپ کی دنیوی زندگی کو منظم کرے۔ شریعت اس لیے نازل ہوئی ہے تاکہ انسانی معاشرے اس دنیا میں الہی قوانین کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ یہ دین انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں آپ کی ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے کامل و جامع دین ہے۔ دین کے بارے میں دوسری نظر درست ہے۔ قرآن کریم اور روایات میں بھی اس دین کے کامل و خاتم ہونے کا بیان کثیر طور پر وارد ہوا ہے۔[1] جب ہم نے دین کو کامل اور خاتم کے طور پر اقرار کر لیا ہے اور اس کو اپنے اختیار سے مان بھی لیا تو یہاں پر یہ قبول کرنا ہوگا کہ دین کی تمام باتوں کو مانیں۔ دین کی آدھی باتوں کو لے لینا اور آدھی کو ترک کر لینا قابل قبول نہیں۔[2] دین کو اس کے تمام احکام کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔

دین کے مجموعے

۱۔  نظریات

دین کا ایک حصہ نظریات پر مشتمل ہے۔ جن کو ہم عقائد بھی کہتے ہیں۔ انسان ہر قسم کا نظریہ نہیں اپنا سکتا۔ بلکہ وہ مجبور ہے کہ صرف دینی نظریہ اپناۓ۔ ایک دیندار انسان کا سیاست کی دنیا میں نظریہ کیا ہو؟ اس میں وہ آزاد نہیں ہے جو اس کا دل کرے نظریہ اپنا لے۔ اقتصادی دنیا میں اس کا نظریہ کیا ہو؟ خاندانی امور اور میل ملاپ کے حوالے سے اجتماعی زندگی میں انسان جو بھی نظریہ اپناۓ اسے چاہیے کہ دین سے ہدایت لے۔ دین لینے کے لیے منابع معین ہیں۔ سوشل میڈیا سے دین نہیں لے سکتے۔ دین کا منبع سماعت بھی نہیں ہے۔ جو جہاں سے سن لیا اس کو دین کے طور پر اختیار کر لیا، یہ درست روش نہیں ہے۔ دین اسلام کہتا ہے کہ اپنے نظریات و افکار دین کی ہدایت کی روشنی میں بناؤ۔ دین کا نظریہ جاننے کے لیے تگ و دو کرو، پہلے کوشش کرو اور حق جان لو، جب دین کا مؤقف جان لیا اسے اختیار کر کے اس کے مطابق عمل کرو۔ لیکن پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین کا مختلف شعبہ جات زندگی میں نظریہ کیاہے ؟ زندگی کے نظریات اپنے گھر والوں، سکول کالج، یا دوستوں سے نہیں لینے بلکہ خود دین کے منابع سے لینے ہیں۔ دین سے قلبی وابستگی پیدا کرنا ضروری ہے۔ ظاہری طور پر دین کو قبول کر لینا کافی نہیں۔ جب دین سے قلبی وابستگی پیدا ہو تو تب انسان جا کر اس کے لیے جان قربان کرتا ہے۔ شہداء کربلا کا دین سے قلبی و ایمانی ارتباط تھا جس کی بنا پر انہوں نے دین کے امام پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔ حضرت عباسؑ نے شمر لعین کے امان نامے کو رد کر دیا اور زندہ رہنے پر جان قربان کرنے کو فوقیت دی۔ وہاں پر حضرت عباسؑ نے شعار بلند کیا:

واللّه إِن قَطَعْتُمُوا یَمِینىی
إِنِّى اُحامى اَبَدا عَن دینى
وَ عن امامِ صادِقِ الیَقینِ
نَجْلِ النَّبِىِّ الطاهِرِ الأمین

ترجمہ: خدا کی قسم! اگر میرے دائیں ہاتھ کو کاٹو گے تو پھر بھی جہاد کرنے والوں کی طرح میں دین کی حمایت کرتا رہوں گا۔ اس سچے اور باتقوی امام کی حمایت کرتا رہوں گا جو پاک اور امین فرزند رسول ہیں۔[3]
حضرت عباسؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ داری کی بنا پر میرا ساتھ دینا ضروری ہے۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کی اس لیے حمایت کر رہا ہوں کیونکہ وہ فرزند پیغمبر ہیں اور باتقوی امام ہیں۔ دین سے یہ والی وابستگی تب پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنا سب کچھ دین سے لے رہا ہو۔

۲۔  اخلاقیات

دین کا ایک حصہ اخلاقیات اور آداب پر مشتمل ہے۔ جو شخص دینی اخلاق کا خیال نہیں رکھتا وہ حقیقی دیندار نہیں ہے۔ ممکن ہے انسان گناہ کر لے یہ قابل بخشش ہے لیکن اخلاقی اقدار کو وجود سے مٹا دینا قبول نہیں۔ ظاہری آداب کی رعایت بھی بہت ضروری ہے۔ انسان پر ضروری ہے کہ اخلاقی اقدار کی معرفت حاصل کرے اور پھر ان کو اپناۓ۔ جب تک نفس پر زور ڈال کر ان کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنا لیتا انسان دیندار نہیں بن سکتا۔ انسان حوزے میں پڑھ لینے یا حتی نبی کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے با اخلاق نہیں ہو جاتا بلکہ نفس پر جبر کر کے ان اخلاق کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے عمر کا ایک بہت بڑا حصہ نبی یا امام کی صحبت میں گزارا لیکن ان کی زندگی سے ایک بھی سبق نہیں لیا اور اس کی اپنی زندگی میں نبی یا امام کے عمل کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی اجتماعی زندگی پر امام کی صحبت کا ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔ اس لیے بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر کسی کو پہچاننا چاہتے ہو کہ وہ کس طرح کا آدمی ہے ،اس کے لمبے رکوع سجود کو نہ دیکھو بلکہ اس کے ساتھ معاملہ کر کے دیکھو۔ اجتماعی طور پر معاملات کیسے کرتا ہے، دوسروں کو عزت دیتا ہے یا نہیں؟ اخلاقی اقدار کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ان اخلاقی اقدار کو پیدا کریں۔ معاشرے میں رائج رسم و رواج کو تو واجب سمجھ کر انجام دیتے ہیں لیکن دین نے جو اخلاقی اقدار بیان کی ہیں ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دوست بنانے میں یا اپنا لیڈر و رہنما بناتے ہوۓ غور کریں کہ آیا یہ شخص اخلاقیات کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر فکری طور پر محکم ہے تو دیکھو اخلاق کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر کسی شخص کو کھانا کھانے کا بھی ادب نہ ہو اس کو اپنا رہنما قرار نہ دو۔ حلم، برداشت، حسن ظن اختیار کرنا اور زبان پر کنٹرول، دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا، شخصیت کشی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ دین نے ذاتی زندگی میں پانے والے عیوب قابل بخشش قرار دیے ہیں لیکن جب ایک شخص کے اندر اجتماعی طور پر ایک عیب سامنے آ جاتا ہے اور اخلاقی اقدار کو پائمال کر دیتا ہے تو اسے تنبیہ کی ہے۔ مثلا امیرالمومنینؑ نے ایسے افراد کو والی بنایا جو بعد میں اخلاقی طور پر معاشروں میں بدنام ہو گئے۔ جب والی بنایا تھا تو اگرچہ جانتے تھے کہ ان کے اندر عیوب و نقائص پاۓ جاتے ہیں لیکن تب بھی ان کو مختلف علاقوں کی ولایت دے دی، لیکن جب ان کی اخلاقی گراوٹ معاشروں میں شائع ہو گئی ان کو فورا معزول کر دیا۔ زیاد ابن ابی کو امام علیؑ نے فارس کے علاقوں کا والی بنایا۔ بعد میں معزول کر دیا۔ لذا شخصیات کے نقائص پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اس کا واویلا نہیں کیا جاتا۔ جہاں تک ممکن ہو اس کی پردہ پوشی کی جاۓ مگر یہ کہ معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جاۓ اور شخص کا فسق کھل کر سب کے سامنے آ جاۓ۔

۳۔ احکام

دین کا تیسرا مجموعہ احکام ہیں۔ دین نے کونسے کام کرنے کی اجازت دی ہے ، کونسے کام ضروری ہیں اور کونسے ممنوع۔ یہ سب ہم احکام کے ذیل میں پڑھتے ہیں۔ دین کے احکام سے عموما آشنائی پائی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دین کے نظریات، اخلاقیات، اور احکام تا قیامت ہیں یا نہیں؟ کیا دین صرف رسول اللہﷺ کی زندگی اور آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں رہنے والے لوگوں کے لیے تھا یا قیامت تک آنے والے  انسانوں کے لیے ہے؟ اگر ہم مان لیتے ہیں کہ دین تو صرف رسول اللہﷺ اور زمانہ امامت کے ساتھ خاص تھا تو آج کا دور زمانہ جاہلیت کہلاۓ گا۔ کیونکہ دین نہ ہو تو زمانہ جاہلیت ہے۔ کیا اللہ تعالی چاہتا ہے کہ زمانہ امامت کے گزرنے کے بعد جو زمانہ آۓ اس میں لوگ جاہلیت میں رہیں؟ زمانہ غیبت میں دین نہ ہو، یا اگر ہو تو آدھے سے زیادہ معطل رہے؟ کیا انسانی معاشرے دین کے بغیر جہالت میں زندگی بسر کریں؟ یہاں بات معاشروں کی ہو رہی ہے، نا ایک فرد کی۔ ممکن ہے چند افراد مومن ہوں، دیندار ہوں، لیکن آیا معاشرے جہالت میں رہیں؟ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے؟ اس سوال کو ذہن میں رکھیں، بعد میں اس کا جواب آۓ گا ان شاء اللہ۔

۴۔  حدود و تعزیرات

دین کا ایک مجموعہ معاشرے کے نظم و نسق کے ساتھ مربوط ہے۔ معاشرے کے اندر شریعت(الہی قوانین) کے اجراء کی ضمانت کے طور پر حدود و تعزیرات رکھی گئی ہیں۔ قتل، بے حیائی، چوری اور دیگر جرائم  کی سزا کیا ہو؟ جرائم کی سزائیں اللہ تعالی نے معین کی ہیں۔ یہاں پر بھی وہی سوال ہے کیا حدود اور تعزیرات صرف رسول اللہﷺ کے دور کے لیے مقرر کی گئیں؟ اور زمانہ غیبت میں جاری نہیں ہونگی؟ اگر آج کے دور میں کوئی قتل کرے تو اسے وہی سزا دی جاۓ گی جو شریعت نے بیان کی ہے یا نہیں؟ کیا حدود و تعزیرات زمانہ غیبت میں تعطیل ہیں؟ حدود و تعزیرات اللہ تعالی نے معاشرے کے اندر فساد کو ختم کرنے کے لیے مقرر فرمائی تھیں، کیا معاشروں کا فساد اب ختم ہو گیا ہے؟ کیا لوگوں نے قتل کرنا چھوڑ دیا ہے؟ یا اگر یہ ضرورت رسول اللہﷺ کے دور میں تھی تو آج بھی یہ ضرورت ہے؟ اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دینا زمانہ غیبت میں ملتوی ہے؟ اگر الہی قوانین کے مطابق سزائیں نہ دیں تو کیا ہوگا؟ اس کا انجام دیکھنا ہے تو آپ اپنے گھر میں ہی آزمائش کر لیں۔ آپ بچے کو آزاد چھوڑ دیں جو کرتا ہے کرنے دیں پھر دیکھیں دو سال بعد وہ آپ کا فرمانبردار رہتا ہے یا عادی مجرم بن چکا ہے؟ وہ صرف دوسرے افراد کو نہیں بلکہ خود گھرانے کے افراد پر بھی ظلم کرنا شروع کر دے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ سزا دینے سے جرم ختم نہیں ہو جاتا لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ آپ دینی ادارے میں طالب علموں کو ہی آزاد چھوڑ دیں کہ وہ اپنی مرضی سے نماز پڑھیں اور نماز کے لیے کوئی قانون نہ بنائیں۔ ایک مہینے کے بعد تہجد پڑھنے والا طالب علم بھی اپنی واجب نماز قضا کر بیٹھے گا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی حدود و تعزیرات کو قائم کیسے کیا جاۓ؟ کیا انفرادی طور پر ایک شخص ان حدود کو قائم کر سکتا ہے؟ جی نہیں! بلکہ اسلامی حدود و تعزیرات کو قائم کرنے کے لیے آپ کے پاس قدرت ہونا ضروری ہے۔ جب تک آپ کے پاس قدرت نہیں ہے آپ دین کے اس مجموعے کو قائم نہیں کر سکتے۔ حدود کو قائم کرنے کے لیے ادارہ چاہیے، ادارہ حاصل کرنے کے لیے آپ کا مقتدر ہونا ضروری ہے۔ اقتدار آپ کو حکومت سے حاصل ہوتا ہے۔ دین بغیر حکومت کے تعطیل ہے۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے دین قائم کیا لیکن اس سے پہلے حکومت تشکیل دی۔ اگر حکومت نہ بناتے، ان کو اقتدار حاصل نہ ہوتا تو اسلامی احکام کو جاری نہ کر پاتے۔ 

۵۔ دفاع

دین کا ایک مجموعہ دفاع سے متعلق ہے۔ اپنے نفوس، اموال اور ملک کا دفاع سب پر واجب ہے۔ یہاں بات سنی شیعہ سے ہٹ کر اسلامی معاشرے کی ہو رہی ہے۔ اگر آپ کے ملک پر کوئی حملہ کر دیتا ہے تو دفاع کرنا واجب ہو جاۓ گا۔ لیکن دفاع ہوگا کیسے؟ جہاد کیسے کیا جاۓ؟ غنیمت کے مسائل کیسے حل ہوں؟ یہ اس وقت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اہل سنت میں اس وقت جتنی بھی عسکری یا دہشتگرد تنظیمیں ہیں ان کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غنیمت کے مال کو کیسے تقسیم کریں؟ جنگی قیدیوں کا کیا کرنا ہے؟ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ ان سب امور میں امام کی طرف رجوع کیا جاۓ؟ لیکن سوال پیدا ہوگا کہ اگر زمانہ غیبت میں جنگ ہو جاۓ تو تب کس کی طرف رجوع کریں؟ اگر دشمن ہم پر جنگ مسلط کر دے تو ہم چپ ہو کر بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ جب تک امام نہیں آ جاتے جہاد ساقط ہے اور تعطیل ہے؟ یا اب بھی دفاع کرنا ہوگا؟ عقل کہتی ہے کہ زمانہ غیبت میں بھی ایسا شخص ہو جو ان امور کی مدیریت کرے۔ اموال غنیمت کسی ایسے شخص کے پاس ہوں جو ان کی درست و عادلانہ مدیریت کر سکے۔ کیونکہ قرآن کریم کا ارشاد فرمانا ہے:
«وَ لا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَکُمُ».
ترجمہ: اور اپنے اموال بے وقوفوں کے حوالے مت کرو۔[4]

نتیجہ

زمانہ غیبت میں دین تعطیل نہیں ہے۔ دین تا قیامت جاری ہونا ہے۔ لیکن دین کے بعض امور ایسے ہیں جو صرف امام کے ساتھ خاص ہیں ان امور میں زمانہ غیبت میں رہنے والے مومنین کا فریضہ کیا ہے؟ عقل یہاں پر حکم لگاتی ہے(جس طرح عقل نے غصبی جگہ پر نماز پڑھنے کو صحیح قرار نہیں دیا، یا جس طرح اف نہ کہنے کے حکم کی بنا پر ماں باپ پر تشدد کی حرمت کا حکم لگایا) کہ ان امور میں دین شناس فقیہ کی طرف رجوع کرو۔ ورنہ دین تعطیل رہے گا۔ دین حدود و تعزیرات کو تعطیل نہیں کرنا چاہتا، اگر حدود و تعزیرات تعطیل ہو جائیں تو معاشرے ہرج مرج کا شکار ہو جائیں گے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی فلسفی ذہن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عام معمولی ذہن بھی اس بات کو درک کرتا ہے کہ حدود و تعزیرات کا اجراء ہونا چاہیے۔ یہاں پر عقل اگلے مرحلے میں حکم لگاتی ہے کہ جب حدود و تعزیرات کا اجراء ضروری ہے تو پھر حکومت تشکیل دینا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بغیر قوت کے آپ قانون کا اجراء نہیں کروا سکتے۔ حکومت کی تشکیل کی ضرورت عقل بیان کر رہی ہے۔ اور یہیں سے ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں یا تو دین کو امام زمانؑ کے ظہور تک تعطیل کر دیں، اور کہیں کہ جب تک امام نہیں آ جاتے ہم دین کی بات نہیں مان سکتے ہماری مجبوری ہے، ایسی صورت میں پھر دین کا کوئی بھی حکم بجا لانا ضروری نہیں ہوگا کیونکہ ہر ایک بہانہ بناۓ گا کہ میرے لیے مثلا فلاں کام کرنا ضروری ہے ورنہ میں مر جاؤں گا اور زمانہ غیبت کا بہانہ بنا کر تمام محرمات کو انجام دے گا اور تمام واجبات کو ترک کرے گا۔ یا اس کی بجاۓ دوسرا راستہ اختیار کریں جس کا حکم عقل لگاتی ہے اور وہ یہ کہ خود کو ایسی صورت میں ڈھالا جاۓ جو زمانہ امامت کے قریب تر ہو، دین جتنا قائم ہو سکتا ہے قائم کیا جاۓ، حدود و تعزیرات جتنی قائم ہو سکتی ہیں ان کو قائم کیا جاۓ اور الہی قوانین کے مطابق زندگی گزاری جاۓ۔ ایسی صورت میں اجتماعی طور پر زندگی کو الہی نظام کے قریب کرنے کے لیے ولایت فقیہ کو اختیار کرنا ہوگا۔[5]

منابع:

↑1 ملاحظہ فرمائیں۔
↑2 نساء: ۱۵۰۔
↑3 ابو مخنف ازدی، لوط بن یحیی بن سعید، مقتل الحسین، ص۱۷۹۔
↑4 نساء: ۵
↑5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۰تا۱۷۸۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:35
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۷}

ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل(حصہ سوم)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ پر عقل اور نقل سے مرکب دلیل کا اصلی محور نقل ہے۔ نقل پر عقل حکم لگاتی ہے جس سے دلیل کامل ہوتی ہے۔ با الفاظ دیگر دلیل کا موضوع نقل سے لیا گیا ہے اور اس پر حکم عقل لگا رہی ہے۔ اس دلیل کی ترکیب کیا ہے اور اس سے کیسے استدلال کیا گیا ہے اس تحریر میں بیان کیا جا رہا ہے۔

تحقیقی دین اور تقلیدی دین

ہمارے پاس دین دو طرح کا ہے۔
۱۔ تقلیدی دین
۲۔ تحقیقی دین
تقلیدی دین کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ حتی دیکھا گیا ہے علماء بھی مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں۔ آبائی دین کو اپنا لینا،معاشرے میں رائج بات کو قبول کر لینا، مشہور قول ہونے کی بنا پر قبول کرلینا یہ سب تقلید کہلاتا ہے۔ آیت اللہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے تھے کہ ایک دن میں نے سوچا کہ سارا دین تو میں نے تقلیدی طور پر لیا ہوا ہے۔ جو گھر والوں سے سنا، محلے والوں کو کرتے ہوۓ دیکھا اور معاشرے میں رائج پایا اسی کو دین کے طور پر لے لیا۔ آخر میں شیعہ کیوں ہوں؟ میں نے عہد کیا کہ تحقیق کروں گا اور تقلیدی دین سے نکل کر تحقیقی دین کو اختیار کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے تمام ادیان کا مطالعہ کیا تو اسلام کو سب سے بہتر پایا۔ اسلام کے کئی مکاتب فکر میں تحقیق کی اور آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ شیعہ اثنا عشری سچا مکتب ہے۔ میں نے جو نظریہ بھی اختیار کیا اس میں تحقیق کی ،تقلید کے طور پر نہیں لیا۔ آج جبکہ ہم ولایت فقیہ کو پڑھ رہے ہیں اس موضوع کی دلیلوں کو بہت دقت سے سمجھیں اگر بغیر دلیل کے مان لیا تو ایک شبہہ سننے پر فورا نظریہ بدل لیں گے۔

علم اصول سے ایک مقدماتی نکتہ

اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ طور پر تلفیقی دلیل کی ترکیب میں داخل ہوں ہمیں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔
ہم نے کہا کہ تلفیقی دلیل کا موضوع نقل سے لیا گیا ہے اور اس پر عقل حکم لگا رہی ہے۔ پہلا نکتہ یہ کہ عقل کیسے حکم لگاتی ہے۔ عقل کا حکم لگانا دو طرح سے ہوتا ہے:
۱۔ مستقلات عقلیہ
۲۔ ملازمات عقلیہ
عقل ایک دفعہ مستقل طور پر حکم لگاتی ہے۔ مثلا ظلم کا برا ہونا اور سچ کے اچھا ہونے کا حکم مستقل طور پر عقل لگاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات عقل مستقل طور پر حکم نہیں لگا سکتی بلکہ دو چیزوں کے لازمے سے حکم لگا پاتی ہے۔ مثلا قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے کہ نماز قائم کرو۔ دوسری طرف ایک روایت میں امام نے فرمایا کہ غصبی جگہ پر نماز نہیں ہوتی۔ یہاں پر عقل حکم لگاتی ہے کہ اگر کوئی شخص غصبی جگہ پر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کا صحیح ہونا مشکل ہے۔ ان دو باتوں کا لازمہ خود عقل نے درک کیا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ موضوع اور حکم سے کیا مراد ہے؟
موضوع: وہ امور ہوتے ہیں جو ایجاد ہو جائیں تو حکم شرعی تعلق پیدا کرتا ہے۔ با الفاظ دیگر حکم شرعی تب لاگو ہوگا جب موضوع متحقق ہوگا۔ اگر موضوع متحقق نہ ہوتو یہ حکم بھی عائد نہ ہوگا۔ موضوع کو شرائط بھی کہہ سکتےہیں۔ مثلا ظہر کا وقت داخل ہو تو نماز واجب ہوگی۔ جب تک نماز کا وقت داخل نہ ہو واجب بھی نہ ہوگا۔ پس نماز واجب ہونے کی ایک شرط نماز ظہر کا وقت داخل ہونا ہے۔ وقت نماز موضوع ہے، جب موضوع پورا ہو جاۓ تو نماز بھی واجب ہو جاۓ گی ۔لڑکا بالغ ہو تو روزہ واجب ہوتا ہے۔اگر کسی شخص کے اندر موضوعیت(بلوغ)ثابت نہیں اس پر روزہ رکھنا بھی واجب نہ ہوگا۔ روزہ رکھنے پر انسان قادر ہو تو روزہ واجب ہوتا ہے۔ یہ سب موضوع ہیں۔
حکم: ہمارے پاس پانچ حکم شرعی ہیں۔ وجوب، استحباب، اباحت، کراہت اور حرمت۔ اگر کسی موضوع کا ان احکام میں سے کسی ایک حکم سے ربط پیدا ہو جاۓ تو وہ بالترتیب واجب، مستحب، مباح، مکروہ یا حرام قرار پاتا ہے۔ در اصل متعلقِ حکم شرعی واجب یا حرام ہوتا ہے۔ خود حکم شرعی واجب یا حرام نہیں۔ بلکہ حکم شرعی وجوب اور استحباب ہے۔ اس مقدمے کو سمجھنے کے بعد اب ہم دلیل کی ترکیب کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

تلفیقی دلیل سے مراد

ہمارے پاس دین کے دو منابع ہیں۔
۱۔ عقل
۲۔ نقل
گزشتہ اقساط میں یہ مطلب بیان ہوا کہ عقل اور نقل ایک دوسرے کی ضد میں نہیں ہیں۔ جو مطالب نقل(قرآن کریم و سنت) میں وارد ہوۓ ہیں، عقل ان کی تائید کرتی ہے۔ عقل دین کا منبع ہے۔ اگر نقل موجود نہ بھی ہو تب بھی عقل انسانی بعض امور کو مستقل طور پر درک کرتی ہے۔ مثلا حرمت ظلم۔ ظلم کرنا حرام ہے اس کا مستقل طور پر عقل حکم لگاتی ہے۔ نقل بھی ظلم کو حرام سمجھتا ہے۔ یا مثلا جو شخص بیمار ہو اس پر روزہ واجب نہ ہونا۔ اس کو شرع میں بیان نہ بھی کیا جاتا تو تب بھی عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ بیمار بندے پر ایسی تکلیف عائد نہیں ہونی چاہیے۔ عقل حکم لگاتی ہے کہ بغیر ویزے کے کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا اس ملک کے نظم و نسق کے خراب ہونے اور ہرج مرج کا باعث بن سکتا ہے اس لیے ویزا لگوانا ضروری ہونا چاہیے۔ موجودہ مراجع کے فتاوی بھی اسی ذیل میں ہیں ورنہ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں تو ویزا ہی نہ تھا۔ نقل سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ ویزے کے بغیر کسی ملک میں جانا حرام ہے یا نہیں لیکن عقل کہتی ہے کہ ویزا ہونا چاہیے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو عقل مستقل طور پر درک کر سکتی ہے چاہے نقل میں اس کا کوئی حکم وارد ہوا ہو یا نہ ہو۔ لیکن بعض امور ایسے ہیں جن میں عقل مستقل طور پر حکم نہیں لگاتی۔ بلکہ نقل سے استفادہ کرتی ہے اور پھر حکم لگاتی ہے۔ حکم شرعی پہلے سے موجود ہے اس کے ملازمات سے عقل استفادہ کر رہی ہے۔ ایسی دلیل کو تلفیقی دلیل کہتے ہیں۔

تلفیقی دلیل کی تشریح

ہمارے پاس پہلی بحث یہ ہے کہ عقل کیسے نقل سے استفادہ کرتی ہے؟ اور کیسے حکم لگاتی ہے۔ مثلا عقل یہ بات درک کرتی ہے کہ فساد کو معاشرے میں ختم ہونا چاہیے۔ آیت و روایت میں بھی یہ مطلب آ گیا کہ معاشرے میں فساد کو ختم کرو اور نظم و انضباط کو ایجاد کرو۔ اب یہاں پر عقل حکم لگاتی ہے کہ اگر ملک کی امنیت چاہتے ہو تو ویزہ اور پاسپورٹ کا قانون ہونا چاہیے۔ ورنہ ویزے کا حکم کسی آیت و روایت میں نہیں آیا۔ عقل حکم لگاتی ہے کہ ویزا کا قانون ہو۔ غیر قانونی طور پر کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا اس ملک کی امنیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے ویزا لگوانا شرعی طور پر بھی واجب ہو جاۓ گا۔ اس طرح کی ہزاروں مثالیں آپ اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ مثلا ٹریفک کے اشاروں کی پیروی کرنے کے بارے میں کسی بھی آیت یا روایت میں وارد نہیں ہوا۔ لیکن عقل حکم لگاتی ہے کہ ٹریفک سے بچنے کے لیے ان کی پیروی ضروری ہے۔ لذا یہاں پر شریعت بھی کہتی ہے کہ اس کی پیروی کرو۔ تلفیقی دلیل کے ذیل میں دوسری بحث یہ بنتی ہے کہ کونسے نقل کے احکام ولایت فقیہ پر دلیل بنتے ہیں؟ با الفاظ دیگر وہ کونسی آیات و روایات ہیں جن کے وارد ہونے کی بنا پر عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ ولایت فقیہ ہونی چاہیے؟

عقل اور نقل کا ضمیمہ

شریعت کی طرف سے بعض اوقات حکم اور موضوع دونوں مشخص ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ موضوع بیان نہیں ہوتا۔ موضوع کی تشخیص دینا خود مکلف کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر موضوع ثابت ہو جاۓ تو حکم شرعی بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ مثلا شارع کی جانب سے ایک شرعی حکم آتا ہے کہ نماز قائم کرو۔ دوسرا شرعی حکم آتا ہے کہ غصبی جگہ پر نماز مت پڑھو۔ اگر کوئی شخص غصبی جگہ پر نماز پڑھ لے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ایک طرف سے اس نے ایک امر کو انجام دیا ہے اور دوسری طرف سے ایک منکر کو انجام دیا ہے۔ کیا یہ نماز صحیح ہے یا باطل؟ اگر صحیح ہے تو اس پر دلیل کیا ہے؟ اور اگر باطل ہے تو اس پر دلیل کیا ہے؟ یہاں پر کسی بھی روایت میں وارد نہیں ہوا کہ اس کی نماز صحیح ہے یا باطل۔ بلکہ عقل یہاں پر حکم لگاۓ گی کہ اس کی نماز کا کیا حکم ہے۔ جو حکم بھی لگائیں گے وہ عقل کے تحت ہی ہوگا۔ یہاں پر بعض مراجع نے فتوی دیا کہ اس نے گناہ کیا ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔ بعض نے کہا کہ اس کی نماز ہی باطل ہے۔ بہرحال جو حکم بھی لگایا جاۓ وہ عقل کا حکم ہوگا۔ در اصل یہ حکم عقل و نقل کا ضمیمہ ہے۔ اگر یہ نقل وارد نہ ہوئی ہوتی کہ غصبی جگہ پر نماز نہیں ہوتی تو عقل بھی ان میں سے کوئی ایک حکم نہ لگا سکتی۔ یا نماز کی حالت میں غیر محرم پر نگاہ ڈالنا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیا نماز کو باطل کر دیتا ہے یا نہیں؟یہاں پر عقل حکم لگانے سے پہلے خود نقل کو تحلیل کرتی ہے ۔ 

قرآن کریم سے شاہدِ مثال

والدین کے بارے میں قرآن کریم میں اولاد کو حکم دیا گیا:
«فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ».
ترجمہ:  تو انہیں اف تک نہ کہنا۔[1]
اس کے علاوہ روایات میں آیا ہے کہ جب والدین بڑھاپے میں پہنچ جائیں توان کے عزت و احترام کا خاص خیال رکھو۔ حتی وہ خطا پر ہوں تب بھی بڑھاپے میں خاص خیال رکھنا ہے۔ اب یہاں پر سوال ہے کہ والدین کو اف نہیں کہنا ،تو کیا مارنا جائز ہے؟ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ جب اف تک نہیں کہہ سکتے تو مارنا بدرجہ اولی بڑا گنا ہوگا۔ ہمیں کسی آیت اور روایت نے یہ مطلب نہیں بتایا کہ ان کو مارنا نہیں چاہیے۔ بلکہ عقل نے اس اف نہ کہنے سے اخذ کیا ہے کہ مارنا اف کہنے سے بھی زیادہ بڑا گنا ہے۔ اگر اف کہنے کی زیادتی کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا تو اس سے اوپر درجے والے زیادتی کو کیسے معاف کرے گا۔ 

تلفیقی دلیل کا علم اصول میں کردار

علم اصول میں بھی ہم تلفیقی دلیل سے بہت زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔ مفہوم موافق، مفہوم مخالف، عام و خاص کی بحث، تعادل اور تراجیح، دو دلیلوں کو جمع کرنے کا قاعدہ، مطلق مقید کی بحث، اور اس کے علاوہ دیگر قواعد و اصول پر عقل حکم لگاتی ہے۔ تاہم مستقل طور پر حکم نہیں لگاتی بلکہ نقل پہلے سے موجود ہے اس سے عقل استفادہ کر کے حکم لگا تی ہے۔ فقہ میں استنباط کرتے ہوۓ عقل سے بہت زیادہ استفادہ کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ علم اصول کی ایک بہت بڑی اساس عقل ہے۔ 

تلفیقی دلیل اور ولایت فقیہ

جب ہم نے تلفیقی دلیل کی ساخت کو سمجھ لیا اب ہم اصلی دلیل کی طرف آتے ہیں۔ کس طرح سے ولایت فقیہ پر تلفیقی دلیل قائم کی گئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دین اسلام کامل دین ہے۔ قرآن کریم اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام معاشرے کی مدیریت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اسلام نے تا قیامت آنے والے انسانوں کے لیے معاشرے کی مدیریت کے حوالے سے ہدایت کی ہے۔ نقلی دلیل سے یہ بات بھی ہمارے لیے ثابت ہے کہ دین اسلام صرف رسول اللہﷺ کی حیات تک کے لیے قابل عمل نہیں بلکہ تا قیامت انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ اس دین میں احکام، قوانین، اور نظام موجود ہے۔ یہ باتیں اگر کوئی شخص قبول کرتا ہے تو اگلی بحث شروع ہوگی لیکن اگر کسی کے لیے یہ مقدمہ ہی حل نہیں ہے تو اگلی بحث شروع نہیں ہو سکتی۔ پہلے یہ مانا جاۓ کہ اسلام تا قیامت قابل عمل ہے ورنہ آپ اس بات کے قائل ہونگے کہ اسلام کے تمام قوانین زمانہ رسالت و امامت کے ساتھ خاص تھے۔ اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ نماز بھی صرف زمانہ امامت میں رہنے والے لوگوں کے لیے واجب تھی، ہم لوگ جو زمانہ غیبت میں رہ رہے ہیں ہمارے اوپر نماز واجب نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری عبادات اور دین کے احکام ہیں۔ اگر وہ عبادات اور احکام صرف زمانہ امامت کے ساتھ خاص نہ تھے اور آج بھی ان عبادات کو بجا لانا اور احکام کی پیروی کرنا ضروری ہے تو پھر اسلام کے نظام کی پیروی کرنا بھی آج کے دور میں ضروری ہوگی۔ جب ان باتوں کو اسلام کے بارے میں ہم نے مان لیا تو اب سوال پیدا ہوگا کہ زمانہ غیبت کے لیے بھی اسلام کے پاس کوئی نظام موجود ہے یا نہیں؟ اگر موجود نہیں ہے تو اس کا مطلب دین اسلام صرف ۲۶۰ ہجری تک کے لیے قابل عمل تھا اور زمانہ غیبت میں رہنے والے انسانوں کےلیے یہ دین قابل عمل نہیں ہے۔ لیکن اگر مان لیتے ہیں کہ دین اسلام کے پاس زمانہ غیبت کے لیے بھی نظام موجود ہے تو پھر سوال ہوگا وہ نظام کیا ہے اور اس کی ساخت کیا ہے؟ یہ سوال در اصل تلفیقی دلیل کا ایک مقدمہ ہے۔

تلفیقی دلیل کا دوسرا حصہ

تلفیقی دلیل کا پہلا مقدمہ جاننے کے بعد اب سوال ہوگا کہ جب دین تا قیامت ہے تو پھر زمانہ غیبت میں آدھے سے زیادہ دین تعطیل کیوں ہے؟ کیا اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ دین کا نظام جب تک ظہور نہیں ہو جاتا تعطیل رہے؟ دین کے آدھے سےزیادہ احکام تعطیل رہیں؟ عقل کیا کہتی ہے؟ جبکہ نقل نے کہا ہے کہ دین معطل نہ ہوگا بلکہ تا قیامت آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ آیات و روایات بتاتی ہیں کہ دین کے احکام، اخلاق، افکار صرف زمانہ امامت کے ساتھ مختص نہیں ہیں بلکہ زمانہ غیبت میں بھی دین جاری ہونا چاہیے۔ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ دین کو جاری کیا جاۓ۔ زمانہ غیبت میں بھی کوئی نظام ہو جو دین کے قیام کا سبب بن سکے ورنہ دین تعطیل ہو جاۓ گا جو کہ دین کے فلسفے کے خلاف ہے۔

تلفیقی دلیل کا تیسرا حصہ

جب دین تا قیامت انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے، اور اسے تعطیل بھی نہیں ہونے دینا اور اس کو جاری کرنا ضروری ہے تو یہاں پر عقل کہتی ہے کہ اسلامی احکام کے اجراء کے لیے مراحل کو طے کرنا چاہیے۔ مثلا اگر نماز واجب ہے تو اس کے لیے پانی ڈھونڈھنے کا عقل حکم کرتی ہے۔ وضو کے لیے پانی تلاش کرنے کا حکم الگ سے دین میں نہیں آیا بلکہ اتنا حکم آیا ہے کہ نماز کے لیے وضو ضروری ہے، اب یہاں پر عقل خود حکم لگاتی ہے کہ جب وضو ضروری ہے تو حتما پانی بھی تلاش کرنا ہوگا۔ دین میں صرف حج کا حکم آیا ہے۔ دین میں پاسپورٹ بنوانے، ویزا لگوانے کا حکم وارد نہیں ہوا بلکہ عقل خود حکم لگاتی ہے کہ حج کے لیے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ اگر دین تا قیامت ہے تو عقل کہتی ہے کہ پھر اس سے استفادہ کرنا بھی ضروری ہے۔ دین کو اپنے معاشروں میں ڈھالنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ دین کو کیسے معاشروں میں نافذ کیا جاۓ؟ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ معاشرے کی مدیریت کسی ایسے شخص کے حوالے کر دو جو خود دین شناس ہو، فقیہ ہو، صرف فقیہ ہونا کافی نہیں بلکہ مدیریت کرنے میں ظلم بھی نہ کرے بلکہ اعلی درجے کی عدالت رکھتا ہو، اگر اس میں عصمت نہیں ہے تو کم از کم عصمت کی جھلک اس میں نظر آۓ، عقل ان امور کا حکم دیتی ہے جس سے ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن عقل یہ حکم تب لگاتی ہے جب دین کی ضرورت آپ کو محسوس ہو اور آپ کا دین کامل ہو جو تا قیامت سراسر ہدایت کا محور ہے۔ لیکن اگر آپ کا دین ہی کامل نہیں ہے اور معاشرے کو منظم کرنے کی ہدایت اس کے اندر موجود نہیں ہے تو پھر عقل نے بھی اس کو جاری کرنے کا حکم نہیں لگانا۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں اسلامی قوانین کو جاری کرنے کی فرصت موجود ہے یا اس فرصت کو ایجاد کیا جا سکتا ہے تو پھر عقل کہتی ہے کہ حتما اس کام کو انجام دیا جانا چاہیے۔ نقل اور عقل کی اس ترکیب سے یہ دلیل کامل ہوتی ہے۔ تقلید پر بھی ہمارے پاس یہی دلیل ہے۔

نیابت اور ولایت فقیہ کی ضرورت

ہم دین کے بہت سے احکام اور روایات اہل بیتؑ سے ولایت فقیہ کی ضرورت کو ثابت کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہاں پر ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
حج اسلام کی ایک سیاسی و اجتماعی عبادت ہے۔ جس میں دنیا بھر سے مسلمان بیت اللہ کے گرد جمع ہو کر خاص اعمال انجام دیتے ہیں۔ حج کا زمان و مکان معین ہے۔ حج صرف بیت اللہ خانہ کعبہ کے پاس انجام دے سکتے ہیں۔ زمان کے اعتبار سے حج صرف ہجری کیلنڈر کے آخری مہینے ذی الحجہ کے معین ایام میں انجام دے سکتے ہیں۔ حج کب شروع ہوگا یہ پہلی ذی الحجہ کے چاند پر موقوف ہے۔ اس لیے چاند کی رؤیت بہت اہم ہے۔ اگر چاند ثابت نہ ہو یا اس کے نظر آنے میں اختلاف ہو جاۓ تو لاکھوں حاجی سرگردان ہو کر رہ جائیں گے کہ کب حج انجام دیں۔ دین میں چاند کی رؤیت کے ضابطے بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ دو عادل افراد گواہی دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا ہے۔ چاند کی رؤیت کا ایک اور ضابطہ یہ ہے کہ حاکم شرعی اعلان کرے۔ پس اگر شاہدین کی گواہی میں اختلاف ہو جاۓ تو امام کے اعلان سے بھی حج انجام دے سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آج کے دور میں شک ہو جاۓ کہ چاند نظر آیا ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں کیا کریں؟ آج کے دور میں یہ ذمہ داری نائب امام کی ہے۔ زمانہ غیبت میں یہ ذمہ داری نائب امام پر ہے کہ وہ حج اور رمضان المبارک کے چاند کے حوالے سے مومنین کو ان کا وظیفہ بتاۓ؟ کس دن روزہ رکھنا ہے اور کونسا دن عید کا ہے؟ کس دن حج کرنی ہے؟ کیونکہ حج اور روزہ ایسے امور ہیں جو صرف زمانہ امامت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ تا قیامت حج مسلمانوں پر واجب ہوگی اور روزہ رکھنا بھی واجب ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ تا قیامت دین کے یہ حکم بجا لانے ہیں تو سوال ہوگا کہ کس دن سے روزہ رکھنا ہے؟ یہ کس نے بتانا ہے؟ اگر امام نہ ہو تو کیا روزہ رکھنا چھوڑ دیں؟ دین کے اس واجب حکم کی تعطیل کر لیں؟ جی نہیں! بلکہ عقل کہتا ہے کہ کوئی ہو جو نیابت امام میں یہ ذمہ داری انجام دے۔

اجتماعی عبادات کی تعطیل

حج ایک اجتماعی عبادت ہے۔ اسی طرح سے نماز جمعہ اور جہاد وغیرہ ہیں۔ اجتماعی عبادات زمانہ غیبت میں کیسے انجام دیں؟ کیا زمانہ غیبت میں اجتماعی عبادات ترک کر دیں؟ کیا اجتماعی عبادات صرف ۲۶۰ ہجری تک واجب تھیں؟ جب تک امام زمانؑ ظہور نہیں کر لیتے تب تک نماز جمعہ تعطیل کر دیں؟ حج کے سیاسی و اجتماعی عبادت جس کا اعلان ہی امام کے اعلان پر موقوف ہے اس کو زمانہ غیبت میں تعطیل کر دیں؟جبکہ نقل نے کہا ہے کہ  دین اسلام تعطیل نہیں ہوگا۔ اجتماعی عبادات ساقط نہیں ہو سکتیں۔ جب بھی کسی شخص کو استطاعت حاصل ہوگی اس پر حج واجب ہو جاۓ گا۔ اگر حج واجب ہے تو اس کے لیے کس کی طرف رجوع کریں؟ اگر امام نہیں ہے تو کیا ترک کر دیں؟ عقل کہتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جس کی طرف رجوع کریں۔ تقلید اسی بنا پر ہے۔ بعض نادان افراد استعماری افکار کا شکار ہو کر تمام اجتماعی عبادات کا انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں جب تک امام کا ظہور نہیں ہو جاتاان عبادات کو ترک کر دو ۔ عقل کہتی ہے کہ جو شخص امام کے قریب تر ہو اور با شرائط ہو اس کی طرف رجوع کیا جاۓ، اور دین کی ان عبادات کو بجالایا جاۓ۔کیونکہ روایت کے مطابق حج کے امر کو تعطیل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر چاند کے مسئلے میں اختلاف ہو جاۓ تو حج تعطیل نہیں کر دینا بلکہ امیر حج کی طرف رجوع کیا جاۓ گا۔ امیر حج پر واجب ہے کہ وہ اعلان کرے، اگر اعلان نہ ہوا تو اجتماعی طور پر پوری امت نے ایک حرام عمل کی مرتکب ہوگی۔[2]

منابع:

↑1 اسراء: ۲۳۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۷تا۱۷۰۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:32
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۶}

ولایت فقیہ سے دشمنی کی اساس

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ کے معنی کو سمجھنے میں بہت سوں نے اشتباہ کیا ہے۔ سال ہا سال حوزہ جات میں پڑھنے والے طلاب نے بھی ولایت فقیہ کا معنی سمجھنے میں اشتباہ کیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ انہوں نے صرف فقہ و اصول اور ادبیات تو پڑھے لیکن سیاسی ابحاث نہیں پڑھیں۔ ولایت کا معنی، ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد، مقام و منصب، مدیریت اور حاکمیت کے معنی میں اشتباہ کیا۔ ولایت فقیہ کے ذیل میں دلیل پیش کرتے ہوۓ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ ولایت فقیہ کا درست تصور افراد پر واضح کریں۔ کیونکہ ہمارے ادعا کے مطابق ولایت فقیہ  بدیہی موضوع ہے۔ اور بدیہی موضوعات کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم صرف ولایت فقیہ  کا صحیح معنی اور مفہوم سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں انسانی عقل اس کی خود تصدیق کرے گا۔ اصلی مشکل یہ ہے کہ ولایت فقیہ کا صحیح تصور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے شبہات پیش آۓ۔ 

قاعدہ لطف کے ذیل میں ولایت فقیہ کا اثبات

قاعدہ لطف کی اساس عقلی دلیل پر ہے۔ عقلی دلیل کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ عقل بھی دین کا منبع ہے۔ عقلی دلیل بھی شرعی و دینی دلیل ہوتی ہے۔ بلکہ عقلی دلیل کا مرتبہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ۹۸ علماء ایک بات کر رہے ہوں اور ان کے مقابلے میں دو عالم دین کسی اور راۓ کو اختیار کر رہے ہوں تو اگر ان دو کی بات عقلی ہے تو ہم ۹۸ علماء کو ترک کر کے ان دو کی بات مانیں گے۔ اگرچہ مشہور قول کے مقابلے میں یہ شاذ قول ہے لیکن ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ کس قول کو زیادہ علماء مان رہے ہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ عقلی بات کون کر رہا ہے۔ بہرحال قاعدہ لطف ایک ایسا قاعدہ ہے جس کی اساس پر نبوت، امامت اور ولایت فقیہ ثابت ہوتی ہے۔ لاکھوں انبیاء کا مبعوث ہونا، آئمہ معصومینؑ کی اتنی قربانیاں صرف اس لیے نہیں تھیں کہ دین اسلام کا اجراء ۲۶۰ ہجری تک ہو۔ قاعدہ لطف کے تحت زمانہ غیبت میں امت الہی لطف سے محروم نہیں ہو سکتی۔ دین کو تعطیل نہیں کیا جا سکتا۔ زمانہ امامت میں امتوں پر جو لطف الہی تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ ہدایت اور قوانین الہیہ کی جو ضرورت زمانہ امامت کے لوگوں کو تھی وہی ضرورت آج بھی ہے۔ حکومت اسلامی کا قیام زمانہ امامت میں ضروری تھا تو آج بھی ضروری ہے۔  لذا امامت کا ہر دور میں امت کی سیاست(مدیریت و تدبیر) سے تعلق ہے۔ یہ جملہ بہت افسوسناک ہے جو کہا جاتا ہے کہ امامت کا سیاست سے کیا تعلق؟ اگر امامت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو شیعہ سنی کا جھگڑا کس اساس پر ہے؟ امامت کا معنی ہی لوگوں کے رہبر و رہنما ہونا ہے۔ چاہے وہ دین کے امور ہوں یا دنیوی امور ہوں ہر دو امور امام کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔

ولایت فقیہ اور ایرانیت

جس طرح نبوت اور امامت کا مفہوم اور اس کے مصادیق کسی زمین کے خاص خطے سے محدود نہیں ہو جاتے اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی ایرانیت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ امام یا نبی کا عربی ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ کسی بھی قومیت کا ہو سکتا ہے۔ ولی فقیہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ ایرانی ہو۔ ولایت فقیہ کا تعلق ایرانیت سے نہیں بلکہ امامت سے ہے۔ امامت کی نیابت میں یہ سلسلہ کسی بھی خطے پر نافذ ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ ولایت فقیہ تشکیکی مراتب رکھتی ہے۔ امامت میں تشکیک کے اعتبار سے شدت پائی جاتی ہے۔ اس میں عصمت موجود ہے، اللہ تعالی کی طرف سے ہادی اور منذر ہونا پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالی کی جانب سے منصوب امام ہے۔ یہی ضرورت آج بھی موجود ہے لیکن اس کا حامل شخص اس درجے کا تو موجود نہیں جو زمانہ امامت میں تھا۔ لیکن اس کے نچلے درجے کا فرد موجود ہے جس میں عدالت پائی جاتی ہے، اپنے محدود دائرہ میں رہتے ہوۓ فقیہ اور مدیر ہے۔ یہاں پر عراق کے مشہور و معروف انقلابی عالم دین جناب ہاشم حیدری کے جملات کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا ایرانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایرانی قوم اس نظریہ سے دوسروں کی نسبت پہلے متسمک ہو گئے اس لیے اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔[1] ایرانی اس نظریہ کو باقی قوموں سے پہلے تطبیق دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس لیے شبہات کا شکار ہو کر اس کی نعمات سے خود کو محروم نہ کریں۔ درست ہے کہ الہی حاکم صرف معصوم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اختیاری حالات میں ہے۔ زمانہ غیبت اضطرار کا زمانہ ہے معصوم پردہ غیبت میں ہیں۔ ان حالات میں ان کے نائبین کو حاکم قرار دیا جاۓ گا جس طرح سے امیرالمومنینؑ نے اپنے دور میں مالک اشترؓ، عثمان بن حنیفؓ، اشعث بن قیس، زیاد ابن ابی جیسے افراد کو مختلف علاقوں کا حاکم مقرر فرمایا۔ یہ سب معصوم نہیں تھے۔ بلکہ ان میں سے بعض کو امیرالمومنینؑ نے بعد میں مختلف جرائم کرنے کی بنا پر معزول کیا۔ جب تک ان کا فسق سب پر عیاں نہیں ہو گیا ان کی عدالت کی بنا پر حاکم مقرر فرمایا۔ لذا اضطراری صورت میں تشکیک کے مراتب کا لحاظ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر امام معصوم کی مثال سورج کی سی ہے تو ولی فقیہ شمع کی مانند ہے۔ اس میں نور کا مرتبہ پائین ہے اور امام میں وہ مرتبہ اوج کا ہے۔ شدت و ضعف اپنی جگہ برقرار ہے۔

ولایت فقیہ سے دشمن کا ڈر

نیابت کے نظام ولایت فقیہ کے دو عنصر ہیں۔
۱۔ قوانین الہیہ کا اجراء
۲۔ قوانین الہیہ کو جاری کرنے والا مجری
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ ان کے تجربات سے دیگر اقوام بہت فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اب مسئلہ یہاں پر یہ پیش آیا کہ جب تک انقلابیوں نے اسلامی قوانین کے اجراء کی بات کی تب تک کسی کو کوئی مشکل نہ تھی۔ سبھی خوش تھے کہ اسلامی قوانین کا اجراء ہوگا، قرآن کریم کی تعلیمات عام ہونگی، اسلامی حدود و تعزیرات کا خیال رکھا جاۓ گا وغیرہ۔ لیکن جب یہ بات کی گئی کہ کہ الہی قوانین کو جاری کرنے والا مجری ایک فقیہ ہوگا ایران سمیت پوری دنیا میں پروپیگنڈے شروع ہو گئے۔ کیونکہ دشمن کو اسلامی قوانین سے مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کو مسئلہ اسلامی قوانین کے اجراء کرنے والے سے ہے۔ ورنہ آپ نے اگر صرف قرآن کریم ہی پڑھنا ہے تو وہ آپ کو امریکہ خود چھاپ چھاپ کر دینے کو تیار ہے۔ چاہے آپ عمامے کے ساتھ امریکہ برطانیہ میں قرآن پڑھیں اور سب کو پڑھائیں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کو مسئلہ یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کو معاشرے میں جاری نہ کیا جاۓ۔ قانون کو بیان کرنا ہے، شریعت کے مسائل اور احکام یاد کرنے ہیں، درس خارج دینا ہے، اسلامی قوانین کا دفاع کرنا ہے، حجاب کی اہمیت بتانی ہے یہ سب کام کرو، لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کروانا۔ شریعت اور قانون الہی کو نافذ نہیں کرنا۔ حجاب کی اہمیت بیان کرو لیکن معاشرے میں خواتین پر حجاب کرنے کی پابندی نہیں لگانی۔ آپ ہزاروں توضیح المسائل لکھوائیں اور تقلیدیں کروائیں ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ توضیح المسائل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انفرادی زندگی میں بعض احکام پر عمل کرنا ہے اگر اس توضیح المسائل کو اجتماعی مسائل میں اجراء بھی کرنا شروع کر دیں دشمن آپ کے خلاف ہو جاۓ گا۔

دشمن کے لیے خطرہ قانون یا مجری

دشمن کو اختلاف یہ نہیں ہے کہ اسلامی قوانین کو بیان نہیں کرنا چاہیۓ۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کا اجراء نہ ہو۔ صدر اسلام میں بھی یہی ہوا جب تک رسول اللہﷺ دین لاتے رہے، قوانین بیان کرتے رہے کسی کو کوئی مشکل نہ تھی۔ لیکن جب غدیر میں قوانین الہی کو جاری کرنے والے کا اعلان ہوا تو تب دشمن کو مشکل پیش آئی۔ غدیر میں مجری کا اعلان ہوا۔ جب تک الہی قانون کی بات ہو رہی تھی کسی کو کوئی مشکل نہ تھی لیکن جب قانون الہی کو جاری کرنے والے الہی مجری کی بات ہوئی تو یہاں پر دشمن مایوس ہوا:
«اَلیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم».
ترجمہ:  آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں۔[2]
رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ مجری کا اعلان کریں۔ معاشرے کو الہی قوانین کے مطابق چلانے والا بھی اللہ تعالی کی جانب سے ہوگا۔ اصل مشکل یہاں پر پیش آئی ورنہ کسی کو فقط شریعت سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ خود دشمن آپ کو مسجدیں، مدرسے بنانے کا چندہ دینے کو تیار ہےجب تک کہ آپ الہی قوانین کے اجراء کی بات نہیں کرتے۔ آج تشیع کو استعماری طاقتوں سے کیا مشکل ہے؟ امریکہ شیعہ کا دشمن کیوں ہے؟ امریکہ کی تجارت تو شیعہ قوم پر موقوف نہیں ہے پھر اس کو شیعہ سے کیا مشکل ہے؟ کیا ہم شیعہ ہیں اور وہ عیسائی، یہی مسئلہ ہے؟ جی نہیں! اس کو مسئلہ صرف شیعہ ہونے سے نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ شیعہ کے پاس ولی فقیہ کی شکل میں الہی قوانین کو جاری کرنے والا مجری موجود ہے۔ ان کو ڈر شیعہ کے نظریاتی گروہ سے ہے جو ولایت فقیہ سے مربوط ہیں۔ یہ ولایت فقیہ ہے جو الہی قانون کی امت میں معرفت بڑھاتی ہے، اس کو بیان کرتی ہے، اور اس کی بالاتری پوری دنیا میں چاہتی ہے۔ صرف الہی قوانین کو پڑھنے اور اجتہاد کرنے تک محدود نہیں سمجھتی بلکہ اس کو نافذ کرنا اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔ ان تین کاموں کی وجہ سے  دشمن کو اس نظریہ سے مسئلہ ہے۔ اصلی مشکل دشمن کو تیسرے نکتے کے ساتھ ہے۔ پہلے دو تو ہر جگہ موجود ہیں۔ یعنی الہی قوانین کی معرفت اور اس کی تبیین پر تو ہزاروں کتابیں موجود ہیں وہ پہلے بھی موجود تھیں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ان کتابوں میں لکھا ہوا مطلب معاشرے میں جاری کیا جاتا ہے۔ ورنہ قانون کو آپ جتنا پڑھیں، جتنا چھاپیں، پھیلائیں اس کو کوئی مشکل نہیں ہے۔

پاکستان میں اجراء کا مسئلہ

وطن عزیز پاکستان میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ اکثریتی آبادی مسلمان ہے لیکن پھر بھی اسلامی قوانین کا اجراء نہیں ہے۔ اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو بہت سوں کو اپنے مفادات ڈوبتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ اس کام کے لیے دشمن نے فرقوں کو فعال کیا ہوا ہے۔ امت کے اندر زہر اگلنا اور آپس میں لڑانا، ایک دوسرے کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنافرقوں کا کام ہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کی توہین کر کے اور دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے ہمارا فرقہ بچ جاۓ گا۔ اگر اسلام نہ رہا تو یہ فرقہ بھی ختم ہو جاۓ گا۔ اہل سنت میں تکفیری گروہ اور اہل تشیع میں غالی گروہ جس نے امت کو آپس میں لڑانے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے یہ لوگ ولایت فقیہ کو بھی فرقہ وارانہ تعصبات کا شکار کر دینا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ ۱۰۰ فیصد اسلامی حکومت پاکستان میں قائم نہیں ہو سکتی لیکن تشکیکی صورت میں تو ولایت فقیہ آ سکتی ہے۔ کمترین صورت پر اکتفاء کرتے ہوۓ بعد میں اس میں ترقی کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ کبھی بھی نہیں کہتے کہ آپ جمہوری اسلامی ایران کے آئین کی فوٹو کاپی کروا کے وطن عزیز میں یہ والا آئین نافذ کر دیں۔ لیکن دونوں کی اساس تو ایک ہے۔ دونوں اسلامی ملک ہیں۔ ۱۹۷۳ کے آئین کو کامل ترین اسلامی آئین نہیں قرار دیا جا سکتا، نا ہی جمہوری اسلامی ایران کے آئین کو کامل ترین آئین قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں جو اچھی اور قابل تعریف چیزیں موجود ہیں اس کا بھی انکار کرنا مقصود نہیں ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ ایک رکعت سے نماز کامل نہیں ہوتی دوسری بھی پڑھی جاۓ تو نمازکامل ہوتی ہے۔ ہم اس آئین کو کامل تر کرنے کا تقاضا کر سکتے ہیں۔

جمہوری اسلامی ایران کا آئین

جمہوری اسلامی ایران کے آئین کی چوتھی اصل میں بیان ہوا ہے کہ تمام ثقافتی، اقتصادی، سیاسی و غیر سیاسی امور، اور تمام اداروں کی اساس اسلامی موازین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔[3] تمام قوانین، مقررات، حاکم کا چناؤ اسی اصل کے مطابق ہونگے۔ جب تک یہ شق لکھی گئی تھی سب خوش تھے، سب نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے۔ کیونکہ اچھی بات کرنے اور لکھنے میں تو سب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن مشکل تب پیش آتی ہے جب اچھی بات پر عمل درآمد کروایا جاۓ۔ اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ آئین کی پانچویں شق میں بیان کیا گیا کہ امت کی امامت و ولایت، ملک کی حکومت ایک عادل، باتقوی، باتدبیر اور باشرائط فقیہ کے ہاتھ میں ہوگی جو اسلامی موازین کا خیال رکھتے ہوۓ ملک کی مدیریت کرے گا تو پوری دنیا میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ یہاں سے ٹکراؤ شروع ہوا۔ مجلس خبرگان اور پارلیمنٹ کو منحل کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ایران کے اندر دشمنوں نے ہنگامے کرنا شروع کر دیے۔

ایران کی جمہوری اسلامی سے دشمنی

باقی ممالک میں موجود جمہوری نظاموں اور ایران کے اندر نافذ اسلامی جمہوری نظام میں فرق ہی یہ ہے کہ اس کے آئین میں بیان کیا گیا ہے کہ قوانین کا مجری کون ہوگا۔ اسلامی جمہوری ایران میں قوانین کا مجری یا حقیقی حاکم معین شدہ ہے۔ ولی فقیہ کو عوام کی راۓ سے ولی فقیہ نہیں بنایا جاۓ گا بلکہ وہ مذکور شرائط کی بنا پر ولی فقیہ منصوب ہوگا۔ جبکہ دیگر جمہوری نظاموں میں حاکم کو خود عوام منتخب کرتی ہے۔ دشمن کو دشنی بھی اسی نظریہ سے ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ حاکم کو دینی معیاروں پر انتخاب کیا جاۓ اور وہ دینی احکام کو جاری کرے۔ اس لیے وہ اس کو ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔ ولایت فقیہ کی بنیاد اسلامی نظریات اور اس کے قوانین کے اجراء کی اساس پر کھڑی ہے۔ وہ اس نظریہ کو قومیتی بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں اقوام کا ایک دوسرے سے شدید ٹکراؤ موجود ہے۔ دشمن اس کو قومیتوں کا مسئلہ بنا کر ان کو ایک امت بننے کی بجاۓ قومیتوں میں تقسیم کر کے ضعیف کرنا چاہتا ہے۔ ولایت فقیہ کی اساس قومیت پر نہیں ہے۔ ہاں کوئی یہ بھی اشتباہ نہ کرے کہ ولایت فقیہ کا مطلب یہ ہے کہ قومیں ختم ہو جائیں۔ مختلف اقوام اپنا اجتماعی مفاد مدنظر رکھ کر ایک امت کے ساۓ میں زندگی گزار سکتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دشمن کو ایسی کوئی صورت پسند نہیں ہے وہ ان کو متحد نہیں دیکھ سکتا۔

زمانہ غیبت میں ممکن ترین صورت

اگر فتوی اور قضاوت کی دنیا میں دوسری قوم کے مجتہد کی تقلید کی جا سکتی ہے تو مدیریت کے مسئلے میں ولایت فقیہ کو قبول کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ یعنی ولایت فقیہ کا انکار کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ ولی فقیہ تو ایرانی ہے جبکہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ تقلید کرتے ہوۓ یہ بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ ایک عراقی یا ایرانی کی تقلید کرنے میں تو کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مدیریت کے مسئلے میں قوم پرستی پر اتر آتے ہیں۔ درست ہے کہ زمینی سرحدوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور ہر ملک کی اپنی زمینی حدود ہیں، ہر ملک کا اپنا تشخص اور اس کی ہویت ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ زمانہ غیبت میں مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ وحدت کے ساتھ ہی نہ رہیں۔ کیونکہ آئیڈیل ترین صورت تو امام زمانؑ کے دور میں ہی ممکن ہوسکتی ہے اور اس وقت ایک سرزمین اور اس کا ایک حاکم ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے کیا کریں؟ کیا ایک دوسرے کے دشمن بن کر رہیں؟ یا جن امور پر دشمن نے اتحاد کیا ہوا ہے کم از کم ان امور میں تو متحد ہوں۔ اگر یورپی ممالک کی فوج ایک، کرنسی ایک، اور تمام مفادات اور نقصان کا محور ایک ہے تو اسلامی ممالک میں ایسا اتحاد ممکن کیوں نہیں؟ اگر یورپی ممالک کا ایک باشندہ کسی بھی دوسرے یورپی ملک میں بغیر ویزہ کے جا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ویزا ہٹا دینے سے ان کی سرحدیں تو ختم نہیں ہوئیں۔ وہ بھی مختلف ثقافتوں اور حکمرانوں کے باوجود ایک ہیں اور ان کا بین الاقوامی سطح پر ایک مؤقف ہوتا ہے ہم ایک مرکزیت پر جمع کیوں نہیں ہو سکتے؟ مشترک نکات پر جمع ہو جانے سے ملک کی سرحدیں ختم تو نہیں ہو جاتیں۔ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کا ایک مؤقف کیوں نہیں؟ آخر کار ایک مسلمان ملک کو کیوں ہمسایہ ممالک کا دشمن بنایا جاۓ؟ یہ کیسی سیاست ہے کہ آپ کی تمام ہمسائیوں سے ایک نوع دشمنی ہے۔ مان لیا بھارت سے پاکستان کی مشکل ہے لیکن افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کیوں نہیں ہیں؟ زمانہ غیبت میں آپ آئیڈیل ترین صورت اختیار نہیں کر سکتے تو کم از کم ایسی صورت اختیار ضرور کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ ہم خود کو کہتے تو مسلمان ہیں لیکن اسلامی اقدار کے بغیر مسلمان ہیں۔ ہم اسلامی قوانین تو چاہتے ہیں لیکن مجری نہیں چاہتے۔ دین تو چاہتے ہیں لیکن دین کو نافذ کرنے والا نہیں چاہتے۔

اجراء قانون الہی پر ہنگامہ

پوری دنیا کا ایران نے کیا بگاڑا ہے کہ سب نے ایکا کر کے ان پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں؟ ایران میں ہونے والے چند قلیل اوباشوں کے فتنے کو پوری دنیا کا میڈیا کوریج کیوں دیتا ہے اور ان کی مالی امداد کیوں کرتا ہے؟ کیا صدام نے ۸ سالہ جنگ میں جو ایران کا نقصان کیا وہ کافی نہیں تھا؟ ایران کے اندر ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانوں کا جو نقصان ہوا وہ کم تھا؟ جو اب دوبارہ ایران میں امنیت کو خراب کرنا چاہتے ہیں؟ آخر مسئلہ پیچھے کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی ملک میں اسلامی حکومت حجاب کے بارے قانون کو جاری کرنا چاہتی ہے اور مغربی طاقتیں اس قانون کو جاری ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اسلامی حکومت کا ہم و غم یہ ہے کہ اسلامی قوانین کا اجراء کرے، جبکہ دشمن کا ہدف ہی یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر اسلامی حدود کا اجراء نہ ہونے پاۓ۔ یہی غم اٹھانا سب کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان ملکوں میں الہی قوانین کو جاری کیوں نہیں کیا جا رہا؟ آخر یہ غم ہم مسلمانوں کے دلوں سے کیسے نکال دیا گیا؟ آپ کا بچہ نمازی نہیں ہے یا عزاداری نہیں کرتا اس کا غم تو دل میں موجود ہے،لیکن پوری مملکت بغیر اسلامی قوانین کے چل رہی ہے اس کا کسی کو کوئی غم نہیں۔ آج ہر طبقہ پاکستان میں اس پر خاموش ہے۔ عالم ہوں، یا ذاکر، ماتمی ہوں یا حافظ، طالب علم ہوں یا عام مذہبی لوگ سب ہی خاموش ہیں۔ اس  جمود کو توڑنا ضروری ہے۔[4]

منابع:

↑1 حوالہ درکار ہے۔
↑2 مائدہ: ۳۔
↑3 آئین جمہوری اسلامی ایران۔
↑4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۲تا ۱۶۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 22 ، 10:30
عون نقوی