بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا تُدْرِکُهُ الشَّوَاهِدُ، وَ لَا تَحْوِیْهِ الْمَشَاهِدُ، وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، الدَّالِّ عَلٰی قِدَمِهٖ بِحُدُوْثِ خَلْقِهٖ، وَ بِحُدُوْثِ خَلْقِهٖ عَلٰی وُجُوْدِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شِبْهَ لَهٗ، الَّذِیْ صَدَقَ فِیْ مِیْعَادِهٖ، وَ ارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِهٖ، وَ قَامَ بِالْقِسْطِ فِیْ خَلْقِهٖ، وَ عَدَلَ عَلَیْهِمْ فِیْ حُکْمِهٖ، مُسْتَشْهِدٌۢ بِحُدُوْثِ الْاَشْیَآءِ عَلٰی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِمَا وَ سَمَهَا بِهٖ مِنَ الْعَجْزِ عَلٰی قُدْرَتِهٖ، وَ بِمَا اضْطَرَّهَاۤ اِلَیْهِ مِنَ الْفَنَآءِ عَلٰی دَوَامِهٖ.

ساری حمد و ستائش اس اللہ کیلئے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے، نہ جگہیں اسے گھیر سکتی ہیں، نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں، نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ وہ مخلوقات کے نیست کے بعد ہست ہونے سے اپنے ہمیشہ سے ہونے کا اور ان کے باہم مشابہ ہونے سے اپنے بے مثل و بے نظیر ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اپنے وعدہ میں سچا اور بندوں پر ظلم کرنے سے بالا تر ہے۔ وہ مخلوق کے بارے میں عدل سے چلتا ہے اور اپنے حکم میں انصاف برتتا ہے۔ وہ چیزوں کے وجود پذیر ہونے سے اپنی قدامت پر اور ان کے عجز و کمزوری کے نشانوں سے اپنی قدرت پر اور ان کے فنا ہو جانے کی اضطراری کیفیتوں سے اپنی ہمیشگی پر، (عقل سے) گواہی حاصل کرتا ہے۔

وَاحِدٌ لَّا بِعَدَدٍ، وَ دَآئِمٌ لَّا بِاَمَدٍ، وَ قَآئِمٌ لَا بِعَمَدٍ، تَتَلَقَّاهُ الْاَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ، وَ تَشْهَدُ لَهُ الْمَرَآئِیْ لَا بِمُحَاضَرَةٍ، لَمْ تُحِطْ بِهِ الْاَوْهَامُ، بَلْ تَجَلّٰی لَهَا بِهَا، وَ بِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا، وَ اِلَیْهَا حَاکَمَهَا، لَیْسَ بِذِیْ کِبَرٍ امْتَدَّتْ بِهِ النِّهَایَاتُ فَکَبَّرَتْهُ تَجْسِیْمًا، وَ لَا بِذِیْ عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِهِ الْغَایَاتُ فَعَظَّمَتْهُ تَجْسِیْدًا، بَلْ کَبُرَ شَاْنًا وَّ عَظُمَ سُلْطَانًا.

وہ گنتی اور شمار میں آئے بغیر ایک (یگانہ) ہے۔ وہ کسی (متعینہ) مدت کے بغیر ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور ستونوں (اعضاء) کے سہارے کے بغیر قائم و برقرار ہے۔ حواس و مشاعر کے بغیر ذہن اسے قبول کرتے ہیں اور اس تک پہنچے بغیر نظر آنے والی چیزیں اس کی ہستی کی گواہی دیتی ہیں۔ عقلیں اس کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتیں، بلکہ وہ عقلوں کے وسیلہ سے عقلوں کیلئے آشکارا ہوا ہے اور عقلوں ہی کے ذریعہ سے عقل و فہم میں آنے سے انکاری ہے اور ان کے معاملہ میں خود انہی کو حکم ٹھہرایا ہے۔ وہ اس معنی سے بڑا نہیں کہ اس کے حدود و اطراف پھیلے ہوئے ہیں کہ جو اُسے مجسّم صورت میں بڑا کر کے دکھاتے ہیں اور نہ اس اعتبار سے عظیم ہے کہ وہ جسامت میں انتہائی حدوں تک پھیلا ہوا ہے، بلکہ وہ شان و منزلت کے اعتبار سے بڑا ہے اور دبدبه و اقتدار کے لحاظ سے عظیم ہے۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُہُ الصَّفِیُّ، وَ اَمِیْنُهُ الرَّضِیُّ -ﷺ اَرْسَلَهٗ بِوُجُوْبِ الْحُجَجِ، وَ ظُهُوْرِ الْفَلَجِ، وَ اِیْضَاحِ الْمَنْهَجِ، فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعًۢا بِهَا، وَ حَمَلَ عَلَی الْمَحَجَّةِ دَالًّا عَلَیْهَا، وَ اَقَامَ اَعْلَامَ الْاِهْتِدَآءِ وَ مَنَارَ الضِّیَآءِ، وَ جَعَلَ اَمْرَاسَ الْاِسْلَامِ مَتِیْنَةً، وَ عُرَا الْاِیْمَانِ وَثِیْقَةً.

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور برگزیدہ رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔ خدا ان پر اور ان کے اہل بیتؑ پر رحمت فراواں نازل کرے۔ اللہ نے انہیں ناقابل انکار دلیلوں، واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت) کی رہنمائیوں کے ساتھ بھیجا۔ چنانچہ آپؐ نے (حق کو باطل سے) چھانٹ کر اس کا پیغام پہنچایا، راہ حق دکھا کر اس پر لوگوں کو لگایا، ہدایت کے نشان اور روشنی کے مینار قائم کئے، اسلام کی رسیوں اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کیا۔

[مِنْهَا:]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فِیْ صِفَةِ عَجِیْبِ خَلْقِ اَصْنَافٍ مِّنَ الْحَیَوَانِ

جس میں مختلف قسم کے جانوروں کی عجیب و غریب آفرینش کا ذکر فرمایا ہے

وَ لَوْ فَکَّرُوْا فِیْ عَظِیْمِ الْقُدْرَةِ، وَ جَسِیْمِ النِّعْمَةِ، لَرَجَعُوْۤا اِلَی الطَّرِیْقِ، وَ خَافُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ، وَ لٰکِنَّ الْقُلُوْبَ عَلِیْلَةٌ، وَ الْبَصَآئِرَ مَدْخُوْلَةٌ! اَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلٰی صَغِیْرِ مَا خَلَقَ، کَیْفَ اَحْکَمَ خَلْقَهٗ، وَ اَتْقَنَ تَرْکِیْبَهٗ، وَ فَلَقَ لَهُ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ، وَ سَوّٰی لَهُ الْعَظْمَ وَ الْبَشَرَ!.

اگر لوگ اس کی عظیم الشان قدرتوں اور بلند پایہ نعمتوں میں غور و فکر کریں تو سیدھی راہ کی طرف پلٹ آئیں اور دوزخ کے عذاب سے خوف کھانے لگیں، لیکن دل بیمار اور بصیرتیں کھوٹی ہیں۔ کیا وہ لوگ ان چھوٹے چھوٹے جانوروں کو کہ جنہیں اس نے پیدا کیا ہے، نہیں دیکھتے کہ کیونکر ان کی آفرینش کو استحکام بخشا ہے اور ان کے جوڑ بند کو باہم استواری کے ساتھ ملایا ہے اور ان کیلئے کان اور آنکھ (کے سوراخ) کھولے ہیں اور ہڈی اور کھال کو (پوری مناسبت سے) درست کیا ہے۔

اُنْظُرُوْۤا اِلَی النَّمْلَةِ فِیْ صِغَرِ جُثَّتِهَا، وَ لَطَافَةِ هَیْئَتِهَا، لَا تَکَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ، وَ لَا بِمُسْتَدْرَکِ الْفِکَرِ، کَیْفَ دَبَّتْ عَلٰۤی اَرْضِهَا، وَ صُبَّتْ عَلٰی رِزْقِهَا، تَنْقُلُ الْحَبَّةَ اِلٰی جُحْرِهَا، وَ تُعِدُّهَا فِیْ مُسْتَقَرِّهَا، تَجْمَعُ فِیْ حَرِّهَا لِبَرْدِهَا، وَ فِیْ وُرُوْدِهَا لِصَدَرِهَا، مَکْفُوْلَۃٌۢ بِرِزْقِهَا، مَرْزُوْقَةٌۢ بِوِفْقِهَا، لَا یُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ، وَ لَا یَحْرِمُهَا الدَّیَّانُ، وَلَوْ فِی الصَّفَا الْیَابِسِ، وَ الْحَجَرِ الْجَامِسِ!.

ذرا اس چیونٹی کی طرف اس کی جسامت کے اختصار اور شکل و صورت کی باریکی کے عالم میں نظر کرو۔ اتنی چھوٹی کہ گوشۂ چشم سے بمشکل دیکھی جا سکے اور نہ فکروں میں سماتی ہے۔ دیکھو تو کیونکر زمین پر رینگتی پھرتی ہے اور اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے اور دانے کو اپنے بِل کی طرف لئے جاتی ہے اور اسے اپنے قیام گاہ میں مہیا رکھتی ہے اور گرمیوں میں جاڑے کے موسم کیلئے اور قوت و توانائی کے زمانے میں عجز و درماندگی کے دنوں کیلئے ذخیرہ اکٹھا کر لیتی ہے۔ اس کی روزی کا ذمہ لیا جا چکا ہے اور اس کے مناسب حال رزق اسے پہنچتا رہتا ہے۔ خدائے کریم اس سے تغافل نہیں برتتا اور صاحب عطا و جزا اسے محروم نہیں رکھتا، اگرچہ وہ خشک پتھر اور جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر کیوں نہ ہو۔

وَ لَوْ فَکَّرْتَ فِیْ مَجَارِیْۤ اَکْلِهَا، وَ فِیْ عُلْوِهَا وَ سُفْلِهَا، وَ مَا فِی الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِیْفِ بَطْنِهَا، وَ مَا فِی الرَّاْسِ مِنْ عَیْنِهَا وَ اُذُنِهَا، لَقَضَیْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَبًا، وَ لَقِیْتَ مِنْ وَّصْفِهَا تَعَبًا! فَتَعَالَی الَّذِیْۤ اَقَامَهَا عَلٰی قَوَآئِمِهَا، وَ بَنَاهَا عَلٰی دَعَآئِمِهَا! لَمْ یَشْرَکْهُ فِیْ فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ، وَ لَمْ یُعِنْهُ فِیْ خَلْقِهَا قَادِرٌ.

اگر تم اس کی غذا کی نالیوں اور اس کے بلند و پست حصوں اور اس کے خول میں پیٹ کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور اس کے سر میں (چھوٹی چھوٹی) آنکھوں اور کانوں (کی ساخت) میں غور و فکر کرو گے تو اس کی آفرینش پر تمہیں تعجب ہو گا اور اس کا وصف کرنے میں تمہیں تعب اٹھانا پڑے گا۔ بلند و برتر ہے وہ کہ جس نے اس کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا ہے اور ستونوں (اعضاء) پر اس کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کے بنانے میں کوئی بنانے والا اس کا شریک نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے پیدا کرنے میں کسی قادر و توانا نے اس کا ہاتھ بٹایا ہے۔

وَ لَوْ ضَرَبْتَ فِیْ مَذَاهِبِ فِکْرِکَ لِتَبْلُغَ غَایَاتِهٖ، مَا دَلَّتْکَ الدَّلَالَةُ اِلَّا عَلٰۤی اَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ، لِدَقِیْقِ تَفْصِیْلِ کُلِّ شَیْءٍ، وَ غَامِضِ اخْتِلَافِ کُلِّ حَیٍّ. وَ مَا الْجَلِیْلُ وَ اللَّطِیْفُ، وَ الثَّقِیْلُ وَ الْخَفِیْفُ، وَ الْقَوِیُّ وَ الضَّعِیْفُ، فِیْ خَلْقِهٖۤ اِلَّا سَوَآءٌ، وَ کَذٰلِکَ السَّمَآءُ وَ الْهَوَآءُ، وَ الرِّیَاحُ وَ الْمَآءُ.

اگر تم سوچ بچار کی راہوں کو طے کرتے ہوئے اس کی آخری حد تک پہنچ جاؤ تو عقل کی رہنمائی تمہیں بس اس نتیجے پر پہنچائے گی کہ جو چیونٹی کا پیدا کرنے والا ہے وہی کھجور کے درخت کا پیدا کرنے والا ہے، کیونکہ ہر چیز کی تفصیل لطافت و باریکی لئے ہوئے ہے اور ہر ذی حیات کے مختلف اعضاء میں باریک ہی سا فرق ہے۔ اس کی مخلوقات میں بڑی اور چھوٹی، بھاری اور ہلکی، طاقتور اور کمزور چیزیں یکساں ہیں اور یونہی آسمان، فضا، ہوا اور پانی برابر ہیں۔

فَانْظُرْ اِلَی الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ، وَ النَّبَاتِ وَ الشَّجَرِ، وَ الْمَآءِ وَ الْحَجَرِ، وَاخْتِلَافِ هٰذَا اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ، وَ تَفَجُّرِ هٰذِهِ الْبِحَارِ، وَ کَثْرَةِ هٰذِهِ الْجِبَالِ، وَ طُوْلِ هٰذِهِ الْقِلَالِ، وَ تَفَرُّقِ هٰذِهِ اللُّغَاتِ، وَ الْاَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ. فَالْوَیْلُ لِمَنْ جَحَدَ الْمُقَدِّرَ، وَ اَنْکَرَ الْمُدَبِّرَ! زَعَمُوْۤا اَنَّهُمْ کَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ، وَ لَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰی حُجَّةٍ فِیْمَا ادَّعَوْا، وَ لَا تَحْقِیْقٍ لِّمَاۤ اَوْعَوْا، وَ هَلْ یَکُوْنُ بِنَآءٌ مِّنْ غَیْرِ بَانٍ؟، اَوْ جِنَایَةٌ مِّنْ غَیْرِ جَانٍ؟!.

لہٰذا تم سورج، چاند، سبزے، درخت، پانی اور پتھر کی طرف دیکھو اور اس رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے اور ان دریاؤں کے جاری ہونے اور ان پہاڑوں کی بہتات اور ان چوٹیوں کی اچان پر نگاہ دوڑاؤ اور ان نعمتوں اور قسم قسم کی زبانوں کے اختلاف پر نظر کرو۔ اس کے بعد افسوس ہے!ان پر کہ جو قضا و قدر کی مالک ذات اور نظم و انضباط کے قائم کرنے والی ہستی سے انکار کریں۔ انہوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ گھاس پھونس کی طرح خود بخود اُگ آئے ہیں۔ نہ ان کا کوئی بونے والا ہے اور نہ ان کی گوناگوں صورتوں کا کوئی بنانے والا ہے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں رکھی اور نہ سنی سنائی باتوں کی تحقیق کی ہے۔ (ذرا سوچو تو کہ) کیا کوئی عمارت بغیر بنانے والے کے ہوا کرتی ہے؟اور کوئی جرم بغیر مجرم کے ہوتا ہے؟

وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِی الْجَرَادَةِ، اِذْ خَلَقَ لَهَا عَیْنَیْنِ حَمْرَاوَیْنِ، وَ اَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَیْنِ قَمْرَاوَیْنِ، وَ جَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِیَّ، وَ فَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِیَّ، وَ جَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِیَّ، وَ نَابَیْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ، وَ مِنْجَلَیْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ، یَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِیْ زَرْعِهِمْ، وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ذَبَّهَا، وَ لَوْ اَجْلَبُوْا بِجَمْعِهِمْ، حَتّٰی تَرِدَ الْحَرْثَ فِیْ نَزَوَاتِهَا، وَ تَقْضِیَ مِنْهُ شَهَوَاتِهَا، وَ خَلْقُهَا کُلُّهٗ لَا یَکُوْنُ اِصْبَعًا مُّسْتَدِقَّةً.

اگر چاہو تو (چیونٹی کی طرح) ٹڈی کے متعلق بھی کچھ کہو کہ اس کیلئے لال بھبوکا دو آنکھیں پیدا کیں اور اس کی آنکھوں کے چاند سے دونوں حلقوں کے چراغ روشن کئے اور اس کیلئے بہت ہی چھوٹے چھوٹے کان بنائے اور مناسب و معتدل منہ کا شگاف بنایا اور اس کے حس کو قوی اور تیز قرار دیا اور ایسے دو دانت بنائے کہ جن سے وہ (پتیوں کو) کاٹتی ہے اور درانتی کی طرح کے دو پیر دیئے کہ جن سے وہ (گھاس پات کو) پکڑتی ہے۔ کاشتکار اپنی زراعت کے بارے میں اس سے ہراساں رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے جتھوں کو سمیٹ لیں، جب بھی اس ٹڈی دل کا ہنکانا ان کے بس میں نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ جست و خیز کرتا ہوا ان کی کھیتیوں پر ٹوٹ پڑتا ہے اور ان سے اپنی خواہشوں کو پورا کر لیتا ہے۔ حالانکہ اس کا جسم ایک باریک انگلی کے بھی برابر نہیں ہوتا۔

فَتَبَارَکَ اللهُ الَّذِیْ یَسْجُدُ لَهٗ ﴿مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْهًا ﴾، وَ یُعَفِّرُ لَهٗ خَدًّا وَّ وَجْهًا، وَ یُلْقِیْ اِلَیْهِ بِالْطَّاعَةِ سِلْمًا وَّ ضَعْفًا، وَ یُعْطِیْ لَہُ الْقِیَادَ رَهْبَةً وَّ خَوْفًا!.

پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سامنے آسمان و زمین میں جو کوئی بھی ہے خوشی یا مجبوری سے بہر صورت سجدہ میں گرا ہوا ہے اور اس کیلئے رخسار اور چہرے کو خاک پر مل رہا ہے اور عجز و انکسار سے اس کے آگے سرنگوں ہے اور خوف و دہشت سے اپنی باگ ڈور اسے سونپے ہوئے ہے۔

فَالطَّیْرُ مُسَخَّرَةٌ لِاَمْرِهٖ، اَحْصٰی عَدَدَ الرِّیْشِ مِنْهَا وَ النَّفَسَ، وَاَرْسٰی قَوَآئِمَهَا عَلَی النَّدٰی وَ الْیَبَسِ، وَ قَدَّرَ اَقْوَاتَهَا، وَ اَحْصٰۤی اَجْنَاسَهَا، فَهٰذَا غُرَابٌ وَّ هٰذَا عُقَابٌ، وَ هٰذَا حَمَامٌ وَّ هٰذَا نَعَامٌ، دَعَا کُلَّ طَآئِرٍۭ بِاسْمِهٖ، وَ کَفَلَ لَهٗ بِرِزْقِهٖ. وَ اَنْشَاَ ﴿السَّحَابَ الثِّقَالَۚ۝﴾، فَاَهْطَلَ دِیَمَهَا، وَ عَدَّدَ قِسَمَهَا، فَبَلَّ الْاَرْضَ بَعْدَ جُفُوْفِهَا، وَ اَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوْبِهَا.

پرندے اس کے حکم (کی زنجیروں)میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے پروں اور سانسوں کی گنتی تک کو جانتا ہے اور (ان میں سے کچھ کے) پیر تری پر اور (کچھ کے)خشکی پر جما دیئے ہیں اور ان کی روزیاں معین کر دی ہیں اور ان کے انواع واقسام پر احاطہ رکھتا ہے کہ یہ کوا ہے اور یہ عقاب، یہ کبوتر ہے اور یہ شتر مرغ۔ اس نے ہر پرندے کو اس کے نام پر دعوت (وجود) دی اور ان کی روزی کا ذمہ لیا اور یہ بھاری بوجھل بادل پیدا کئے کہ جن سے موسلا دھار بارشیں برسائیں اور حصہ رسدی مختلف (سر زمینوں پر) انہیں بانٹ دیا اور زمین کو اس کے خشک ہو جانے کے بعد تر بتر کردیا اور بنجر ہونے کے بعد اس سے (لہلہاتا ہوا) سبزہ اُگایا۔


’’چیونٹی‘‘ بظاہر ایک حقیر سی مخلوق ہے اور جسامت کے اعتبار سے نہایت چھوٹی مگر قدرت نے شعور و احساس کی اتنی قوتیں اس میں ودیعت کی ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کے حسیات خصوصاً قوتِ شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ جہاں کہیں خوراک ہو یہ اپنے حاسہ کی مدد سے فوراً وہاں پہنچ جاتی ہے اور اپنے جسم سے بیس گنا زائد وزن اٹھا لیتی ہے اور جس چیز کو اکیلے نہیں اٹھا سکتی اسے اٹھانے کیلئے دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کر دیتی ہے اور وہ سب مل کر اسے اٹھا لے جاتی ہیں۔ اگر دیوار یا بلندی پر چڑھنے سے بوجھ گر پڑتا ہے تو جتنی مرتبہ گرے اسے اٹھا نے کیلئے پلٹتی ہیں۔ دھوپ ہو یا سایہ، گرمی ہو یا سردی، نہ ہمت ہارتی ہیں اور نہ محنت سے جی چراتی ہیں، ہمہ وقت طلب و تلاش میں لگی رہتی ہیں۔

یوں تو گرمی و سردی میں یکساں سعی و کاوش کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر گرمیوں میں زیادہ سرگرمِ عمل رہتی ہیں تا کہ سردی اور برسات کیلئے اپنے بلوں میں اتنا ذخیرہ فراہم کر لیں جس سے ان کی گزر بسر ہو سکے۔ ان بلوں میں ٹیڑھے میڑھے راستے بناتی ہیں تا کہ بارش کے پانی سے تحفظ ہو سکے۔ اس غذا کی جمع آوری کے ساتھ اس کے بچاؤ کی بھی تمام تدابیر عمل میں لاتی ہیں۔ چنانچہ جب اس کے خراب یا متعفن ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے بلوں سے باہر نکال کر ہوا میں پھیلا دیتی ہیں اور سوکھ جانے کے بعد اسے پھر بلوں میں منتقل کر دیتی ہیں۔ یہ نقل و حمل عموماً چاندنی راتوں میں کرتی ہیں تا کہ دن کے وقت گزرنے والے کی وجہ سے ذخیرہ پامال نہ ہو اور اتنی روشنی بھی رہے کے کام جاری رکھا جا سکے اور اگر زمین کى تری و رطوبت کی وجہ سے دانوں سے کونپلیں پھوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو ہر دانے کے دو ٹکڑے کر دیتی ہیں اور دھنیے کی یہ خاصیت ہے کہ اگر اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں تو بھی اگ آتا ہے اس لئے اس کے چار ٹکڑے کر دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی کرتی ہیں کہ دانوں کی سطح پر بھوسے کے تنکے بچھا دیتی ہیں تا کہ زمین کے اندر کی نمی سے محفوظ رہیں۔

چیونٹیوں میں نظم و ضبط سے رہنے، مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کا بھرپور جذبہ ہوتا ہے۔ ان میں کچھ کارکن ہوتی ہیں جو خوراک فراہم کرتی ہیں اور کچھ حفاظتی فریضہ انجام دیتی ہیں اور ایک ملکہ ہوتی ہے جو نگران کار ہوتی ہے۔ غرض یہ تمام کام تقسیم عمل اور نظم و ضبط کے تحت انجام پاتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے اندر ان تمام چیزوں کو سمیٹے ہوئے ہو گی جو بڑی سے بڑی چیز کے اندر پائی جاتی ہیں اور ہر ایک میں قدرت کی صنعت طرازی و کارسازی کی جھلک یکساں اور ہر ایک کی نسبت اس کی قوت و توانائی کی طرف برابر ہوگی۔ خواہ وہ چیونٹی کی طرح چھوٹی ہو، یا درخت خرما کی طرح بڑی۔ ایسا نہیں کہ چھوٹی چیز کو بنانا سہل اور بڑی چیز کو پیدا کرنا اس کیلئے مشکل ہو۔ کیونکہ صورت، رنگ، حجم اور مقدار کا اختلاف صرف اس کی حکمت و تدبیر کی کارفرمائی کی بنا پر ہے، مگر اصل خلقت کے اعتبار سے ان میں کوئی تفاوت نہیں۔ لہٰذا خلقت و آفرنیش کی یہ یک رنگی اس کے صانع کی وحدت و یکتائی کی دلیل ہے۔

’’ٹڈی‘‘ ایک مختصر جسامت کا جانور ہے۔ بچپنے میں اس کے پیر چھوٹے، ٹانگیں لمبی، سر بڑا اور دُم چھوٹی ہوتی ہے۔ جب بچپنے کا دور گزر جاتا ہے تو پر بڑے اور جسم کی لمبائی زیادہ ہو جاتی ہے۔ خوراک کی تلاش میں جتھا بنا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پرواز کرتا رہتا ہے۔ اس پرواز سے اس کے جسم اور اعصاب پر خوشگوار اثر پڑتا ہے اور جسم قوی اور اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں، لیکن یہ دور اس کیلئے انتہائی پریشان کن ہوتا ہے، کیونکہ بھوک کی شدّت اسے کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔ چنانچہ جب ٹڈی دل مل کر پرواز کرتا ہے تو جہاں کہیں سبزہ نظر آتا ہے بے تحاشا ٹوٹ پڑتا ہے اور مادہ اپنی دُم سے زمین میں سوراخ کر کے انڈے چھوڑ جاتی ہے جن سے بچے نکلتے ہیں اور جب ان کے جسم وجان میں توانائی آتی ہے تو اُڑنے لگتے ہیں۔

ان کا پھیلاؤ کبھی کبھی دو ہزار مربع میل تک پہنچ جاتا ہے اور ایک دن میں بارہ سو میل کی مسافت طے کر لیتے ہیں اور جدھر سے ہو کر گزرتے ہیں کھڑی کھیتیوں اور سبزہ زاروں کو اس طرح چاٹ جاتے ہیں کہ روئیدگی کا نام و نشان تک نہیں رہتا۔ یہ پرواز گرم خشک موسم میں ہوتی ہے اور جب تک موسم ساز گار رہتا ہے پرواز جاری رہتی ہے۔ جب سخت سردی یا تیز آندھی انہیں منتشر کر دیتی ہے تو جماعتی زندگی کی کشمکش سے آزاد ہو کر تنہا رہ جاتے ہیں۔ یہ تنہائی کی زندگی ان کیلئے بڑی مطمئن زندگی ہوتی ہے۔ نہ انہیں بھوک ستاتی ہے اور نہ پرواز کی تعب و مشقت نڈھال کرتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 March 23 ، 19:33
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ رُؤْیَةٍ، وَ الْخَالِقِ مِنْ غَیْرِ مَنْصَبَةٍ، خَلَقَ الْخَلَآئِقَ بِقُدْرَتِهٖ، وَ اسْتَعْبَدَ الْاَرْبَابَ بِعِزَّتِهٖ، وَ سَادَ الْعُظَمَآءَ بِجُوْدِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جو بِن دیکھے جانا پہچانا ہوا اور بے رنج و تعب اٹھائے (ہر چیز کا) پیدا کرنے والا ہے۔ اس نے اپنی قدرت سے مخلوقات کو پیدا کیا اور اپنی عزت و جلالت کے پیش نظر فرمانرواؤں سے اطاعت و بندگی لی اور اپنے جود و عطا کی بدولت با عظمت لوگوں پر سرداری کی۔

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَسْکَنَ الدُّنْیَا خَلْقَهٗ، وَ بَعَثَ اِلَی الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ رُسُلَهٗ، لِیَکْشِفُوْا لَهُمْ عَنْ غِطَآئِهَا، وَ لِیُحَذِّرُوْهُمْ مِنْ ضَرَّآئِهَا، وَ لِیَضْرِبُوْا لَهُمْ اَمْثَالَهَا، وَ لِیُبَصِّرُوْهُمْ عُیُوْبَهَا، وَ لِیَهْجُمُوْا عَلَیْهِمْ بِمُعْتَبَرٍ مِّنْ تَصَرُّفِ مَصَاحِّهَا وَ اَسْقَامِهَا، وَ حَلَالِهَا وَ حَرَامِهَا، وَ مَاۤ اَعَدَّ اللّٰهُ لِلْمُطِیْعِیْنَ مِنْهُمْ وَ الْعُصَاةِ مِنْ جَنَّةٍ وَّ نَارٍ، وَ کَرَامَةٍ وَّ هَوَانٍ.

وہ اللہ جس نے دنیا میں اپنی مخلوقات کو آباد کیا اور اپنے رسولوں کو جن و انس کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے دنیا کو بے نقاب کریں اور اس کی مضرتوں سے انہیں ڈرائیں دھمکائیں، اس کی (بیوفائی کی) مثالیں بیان کریں اور اس کی صحت و بیماری کے تغیرات سے ایک دَم انہیں پوری پوری عبرت دلانے کا سامان کردیں اور اس کے عیوب اور حلال و حرام کے (ذرائع اکتساب) اور فرمانبرداروں اور نافرمانوں کیلئے جو بہشت و دوزخ او رعزت و دولت کے سامان اللہ نے مہیا کئے ہیں دکھلائیں۔

اَحْمَدُهٗۤ اِلٰی نَفْسِهٖ کَمَا اسْتَحْمَدَ اِلٰی خَلْقِهٖ، وَ جَعَلَ ﴿لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا۝﴾، وَ لِکُلِّ قَدْرٍ اَجَلًا، وَ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابًا.

میں اس کی ذات کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی ایسی حمد و ثنا کرتا ہوں جیسی حمد اس نے اپنی مخلوقات سے چاہی ہے۔ اس نے ہر شے کا ایک اندازہ اور ہر اندازے کی ایک مدت اور ہر مدت کیلئے ایک نوشتہ قرار دیا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَالْقُرْاٰنُ اٰمِرٌ زَاجِرٌ، وَ صَامِتٌ نَّاطِقٌ. حُجَّةُ اللهِ عَلٰی خَلْقِهٖ، اَخَذَ عَلَیْهِ مِیْثَاقَهُمْ، وَ ارْتَهَنَ عَلَیْهِ اَنْفُسَهُمْ، اَتَمَّ نُوْرَهٗ، وَ اَکْمَلَ بِهٖ دِیْنَهٗ، وَ قَبَضَ نَبِیَّهٗ -ﷺ وَ قَدْ فَرَغَ اِلَی الْخَلْقِ مِنْ اَحْکَامِ الْهُدٰی بِهٖ.

قرآن (اچھائیوں کا )حکم دینے والا، برائیوں سے روکنے والا، (بظاہر) خاموش اور (بباطن) گویا اور مخلوقات پر اللہ کی حجت ہے کہ جس پر (عمل کرنے کا) اس نے بندوں سے عہد لیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنایا ہے، اس کے نور کو کامل اور اس کے ذریعہ سے دین کو مکمل کیا ہے اور نبی ﷺ کو اس حالت میں دنیا سے اٹھایا کہ وہ لوگوں کو ایسے احکام قرآن کی تبلیغ کر کے فارغ ہو چکے تھے کہ جو ہدایت و رستگاری کا سبب ہیں۔

فَعَظِّمُوْا مِنهُ سُبْحَانَهٗ مَا عَظَّمَ مِنْ نَّفْسِهٖ، فَاِنَّهٗ لَمْ یُخْفِ عَنْکُمْ شَیئًا مِّنْ دِیْنِهٖ، وَ لَمْ یَتْرُکْ شَیئًا رَّضِیَهٗۤ اَوْ کَرِهَهٗۤ اِلَّا وَ جَعَلَ لَهٗ عَلَمًۢا بَادِیًا، وَ اٰیَةً مُّحْکَمَةً، تَزْجُرُ عَنْهُ، اَوْ تَدْعُوْۤ اِلَیْهِ، فَرِضَاهُ فِیْمَا بَقِیَ وَاحِدٌ، وَ سَخَطُهٗ فِیْمَا بَقِیَ وَاحِدٌ.

لہٰذا اللہ سبحانہ کو ایسی بزرگی و عظمت کے ساتھ یاد کرو جیسی اپنی بزرگی خود اس نے بیان کی ہے، کیونکہ اس نے اپنے دین کی کوئی بات تم سے نہیں چھپائی اور کسی شے کو خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند بغیر کسی واضح علامت اور محکم نشان کے نہیں چھوڑا، جو ناپسند امور سے روکے اور پسندیدہ باتوں کی طرف دعوت دے (ان احکام کے متعلق)اس کی خوشنودی و ناراضگی کا معیار زمانہ آئندہ میں بھی ایک رہے گا۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَنْ یَّرْضٰی عَنْکُمْ بِشَیءٍ سَخِطَهٗ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُم، وَ لَنْ یَّسْخَـطَ عَلَیْکُمْ بِشَیْءٍ رَّضِیَهٗ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، وَ اِنَّمَا تَسِیْرُوْنَ فِیْۤ اَثَرٍ بَیِّنٍ، وَ تَتَکَلَّمُوْنَ بِرَجْعِ قَوْلٍ قَدْ قَالَهُ الرِّجَالُ مِنْ قَبْلِکُمْ، قَدْ کَفَاکُمْ مَؤُوْنَةَ دُنْیَاکُمْ، وَ حَثَّکُمْ عَلَی الشُّکْرِ، وَ افْتَرَضَ مِنْ اَلْسِنَتِکُمُ الذِّکْرَ، وَ اَوْصَاکُمْ بِالتَّقْوٰی، وَ جَعَلَهَا مُنْتَهٰی رِضَاهُ، وَ حَاجَتَهٗ مِنْ خَلْقِهٖ.

یاد رکھو! کہ وہ تم سے کسی ایسی چیز پر رضا مند نہ ہو گا کہ جس پر تمہارے اگلوں سے ناراض ہو چکا ہو اور نہ کسی ایسی چیز پر غضبناک ہو گا کہ جس پر پہلے لوگوں سے خوش رہ چکا ہو۔ تمہیں تو بس یہی چاہیے کہ تم واضح نشانوں پر چلتے رہو اور تم سے پہلے لوگوں نے جو کہا ہے اسے دہراتے رہو۔ وہ تمہاری ضروریات دنیا کا ذمہ لے چکا ہے اور تمہیں صرف شکر گزار رہنے کی ترغیب دی ہے اور تم پر واجب کیا ہے کہ اپنی زبان سے اس کا ذکر کرتے رہو اور تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی ہدایت کی ہے اور اسے اپنی رضا و خوشنودی کی حد آخر اور مخلوق سے اپنا مدعا قرار دیا ہے۔

فَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِعَیْنِهٖ، وَ نَوَاصِیْکُمْ بِیَدِهٖ، وَ تَقَلُّبُکُمْ فِیْ قَبْضَتِهٖ، اِنْ اَسْرَرْتُمْ عَلِمَهٗ، وَ اِنْ اَعْلَنْتُمْ کَتَبَهٗ، قَدْ وَکَّلَ بِذٰلِکَ حَفَظَةً کِرَامًا، لَا یُسْقِطُوْنَ حَقًّا، وَ لَا یُثْبِتُوْنَ بَاطِلًا.

اس اللہ سے ڈرو کہ تم جس کی نظروں کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھ میں تمہاری پیشانیوں کے بال اور جس کے قبضہ قدرت میں تمہارا اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا ہے۔ اگر تم کوئی بات مخفی رکھو گے تو وہ اسے جان لے گا اور ظاہر کرو گے تو اسے لکھ لے گا، (یوں کہ) اس نے تم پر نگہبانی کرنے والے مکرم فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ کسی حق کو نظر انداز اور کسی غلط چیز کو درج نہیں کرتے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ ﴿مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ۝﴾ مِنَ الْفِتَنِ، وَ نُوْرًا مِّنَ الظُّلَمِ، وَ یُخَلِّدْهُ فِیْمَا اشْتَهَتْ نَفْسُهٗ، وَ یُنْزِلْهُ مَنْزِلَ الْکَرَامَةِ عِنْدَهٗ، فِیْ دَارٍ اصْطَنَعَهَا لِنَفْسِهٖ، ظِلُّهَا عَرْشُهٗ، وَ نُوْرُهَا بَهْجَتُهٗ، وَ زُوَّارُهَا مَلٰٓئِکَتُهٗ، وَ رُفَقَآؤُهَا رُسُلُهٗ.

یاد رکھو! کہ جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کیلئے فتنوں سے (بچ کر) نکلنے کی راہ نکال دے گا اور اندھیاریوں سے اجالے میں لے آئے گا اور اس کے حسب دلخواہ نعمتوں میں اسے ہمیشہ رکھے گا اور اسے اپنے پاس ایسے گھر میں کہ جسے اس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے عزت و بزرگی کی منزل میں لا اتارے گا۔ اس گھر کا سایہ عرش، اس کی روشنی جمالِ قدرت (کی چھوٹ)، اس میں ملاقاتی ملائکہ اور رفیق و ہم نشین انبیاء و مرسلین علیہم السلام ہیں۔

فَبَادِرُوا الْمَعَادَ، وَ سَابِقُوا الْاٰجَالَ، فَاِنَّ النَّاسَ یُوْشِکُ اَنْ یَّنْقَطِعَ بِهِمُ الْاَمَلُ، وَ یَرْهَقَهُمُ الْاَجَلُ، وَ یُسَدَّ عَنْهُمْ بَابُ التَّوْبَةِ، فَقَدْ اَصْبَحْتُمْ فِیْ مِثْلِ مَا سَئَلَ اِلَیْهِ الرَّجْعَةَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، وَ اَنْتُمْ بَنُوْ سَبِیْلٍ، عَلٰی سَفَرٍ مِّنْ دَارٍ لَّیْسَتْ بِدَارِکُمْ، وَ قَدْ اُوْذِنْتُمْ مِنْهَا بِالْاِرْتِحَالِ، وَ اُمِرْتُمْ فِیْهَا بِالزَّادِ.

اپنی جائے باز گشت کی طرف بڑھو اور زاد عمل فراہم کرنے میں موت پر سبقت کرو۔ اس لئے کہ وہ وقت قریب ہے کہ لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جائیں، موت ان پر چھا جائے اور توبہ کا دروازہ ان کیلئے بند ہو جائے۔ ابھی تو تم اس دور میں ہو کہ جس کی طرف پلٹنے کی تم سے قبل گزر جانے والے لوگ تمنا کرتے ہیں۔ تم اس دار دنیا میں کہ جو تمہارے رہنے کا گھر نہیں ہے مسافر راہ نورد ہو۔ اس سے تمہیں کوچ کرنے کی خبر دی جا چکی ہے اور اس میں رہتے ہوئے تمہیں زاد کے مہیا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ لِهٰذَا الْجِلْدِ الرَّقِیْقِ صَبْرٌ عَلَی النَّارِ، فَارْحَمُوْا نُفُوْسَکُمْ، فَاِنَّکُمْ قَدْ جَرَّبْتُمُوْهَا فِیْ مَصَآئِبِ الدُّنْیَا. اَفَرَاَیْتُمْ جَزَعَ اَحَدِکُمْ مِنَ الشَّوْکَةِ تُصِیْبُهٗ، وَ الْعَثْرَةِ تُدْمِیْهِ، وَ الرَّمْضَآءِ تُحْرِقُهٗ؟ فَکَیْفَ اِذَا کَانَ بَیْنَ طَابَقَیْنِ مِنْ نَّارٍ، ضَجِیْعَ حَجَرٍ، وَ قَرِیْنَ شَیْطَانٍ! اَعَلِمْتُمْ اَنَّ مَالِکًا اِذَا غَضِبَ عَلَی النَّارِ حَطَمَ بَعْضُهَا بَعْضًا لِّغَضَبِهٖ، وَ اِذَا زَجَرَهَا تَوَثَّبَتْ بَیْنَ اَبْوَابِهَا جَزَعًا مِّنْ زَجْرَتِهٖ!.

یاد رکھو! کہ اس نرم و نازک کھال میں آتش جہنم کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں (تو پھر) اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، کیونکہ تم نے ان کو دنیا کی مصیبتوں میں آزما کر دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے اپنے میں سے کسی ایک کو دیکھا ہے کہ وہ (جسم میں) کانٹا لگنے سے یا ایسی ٹھوکر کھانے سے کہ جو اسے لہولہان کر دے یا ایسی گرم ریت (کی تپش) سے کہ جو اسے جلا دے کس طرح بے چین ہو کر چیختا ہے۔ (ذرا سوچو تو) کہ اس وقت کیا حالت ہو گی کہ جب وہ جہنم کے دو آتشیں تووں کے درمیان (دہکتے ہوئے) پتھروں کا پہلو نشین اور شیطان کا ساتھی ہو گا۔ کیا تمہیں خبر ہے کہ جب مالک (پاسبان جہنم) آگ پر غضبناک ہو گا تو وہ اس کے غصہ سے (بھڑک کر آپس میں ٹکرانے لگے گی اور) اس کے اجزا ایک دوسرے کو توڑنے پھوڑنے لگیں گے اور جب اسے جھڑکے گا تو اس کی جھڑکیوں سے (تلملا کر) دوزخ کے دروازوں میں اچھلنے لگے گی۔

اَیُّهَا الْیَفَنُ الْکَبِیْرُ! الَّذِیْ قَدْ لَهَزَهُ الْقَتَیْرُ، کَیْفَ اَنْتَ اِذَا الْتَحَمَتْ اَطْوَاقُ النَّارِ بِعِظَامِ الْاَعْنَاقِ، وَ نَشِبَتِ الْجَوَامِعُ حَتّٰۤی اَکَلَتْ لُحُوْمَ السَّوَاعِدِ.

اے پیر کہن سال! کہ جس پر بڑھاپا چھایا ہوا ہے، اس وقت تیری کیا حالت ہو گی؟ کہ جب آتشیں طوق گردن کی ہڈیوں میں پیوست ہو جائیں گے اور (ہاتھوں میں) ہتھکڑیاں گڑ جائیں گی، یہاں تک کہ وہ کلائیوں کا گوشت کھالیں گی۔

فَاللهَ اللهَ مَعْشَرَ الْعِبَادِ! وَ اَنْتُمْ سَالِمُوْنَ فِی الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ، وَ فِی الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّیْقِ، فَاسْعَوْا فِیْ فَکَاکِ رِقَابِکُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُغْلَقَ رَهَآئِنُهَا، اَسْهِرُوْا عُیُوْنَکُمْ، وَ اَضْمِرُوْا بُطُوْنَکُمْ، وَ اسْتَعْمِلُوْا اَقْدَامَکُمْ، وَ اَنْفِقُوْا اَمْوَالَکُمْ، وَ خُذُوْا مِنْ اَجْسَادِکُمْ وَ جُوْدُوْا بِهَا عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَ لَا تَبْخَلُوْا بِهَا عَنْهَا، فَقَدْ قَالَ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ۝﴾، وَ قَالَ تَعَالٰی: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ کَرِیْمٌۚ۝﴾.

اے خدا کے بندو! اب جبکہ تم بیماریوں میں مبتلا ہونے اور تنگی و ضیق میں پڑنے سے پہلے صحت و فراخی کے عالم میں صحیح و سالم ہو، اللہ کا خوف کھالو اور اپنی گردنوں کو قبل اس کے کہ وہ اس طرح گروی ہو جائیں کہ انہیں چھڑایا نہ جا سکے، چھڑانے کی کوشش کرو۔ اپنی آنکھوں کو بیدار اور شکموں کو لاغر بناؤ، (میدانِ سعی میں) اپنے قدموں کو کام میں لاؤ اور اپنے مال کو (اس کی راہ میں) خرچ کرو۔ اپنے جسموں کو اپنے نفسوں پر نثار کر دو اور ان سے بخل نہ برتو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘۔ اور (پھر) فرمایا کہ: ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے، تو خدا اس کے اجر کو دگنا کر دے گا اور اس کیلئے عمدہ جزا ہے‘‘۔

فَلَمْ یَسْتَنْصِرْکُمْ مِنْ ذُلٍّ، وَ لَمْ یَسْتَقْرِضْکُمْ مِنْ قُلٍّ، اسْتَنْصَرَکُمْ وَ لَهٗ ﴿جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ ﴾ ﴿وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۝﴾.

خدا نے کسی کمزوری کی بنا پر تم سے مدد نہیں مانگی اور نہ بے مائیگی کی وجہ سے تم سے قرض کا سوال کیا ہے۔ اس نے تم سے مدد چاہی ہے باوجودیکہ اس کے پاس سارے آسمان و زمین کے لشکر ہیں اور وہ غلبہ اور حکمت والا ہے۔

وَ اسْتَقْرَضَکُمْ وَ لَهٗ ﴿خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ وَ ﴿هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۝﴾، وَ اِنَّمَاۤ اَرَادَ اَنْ یَّبْلُوَکُمْ ﴿اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ ﴾.

اور تم سے قرض مانگا ہے، حالانکہ آسمان و زمین کے خزانے اس کے قبضہ میں ہیں اور وہ بے نیاز و لائق حمد و ثنا ہے۔ اس نے تو یہ چاہا ہے کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اعمال کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔

فَبَادِرُوْا بِاَعْمَالِکُمْ تَکُوْنُوْا مَعَ جِیْرَانِ اللهِ فِیْ دَارِهٖ، رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَهٗ، وَ اَزَارَهُمْ مَلٰٓئِکَتَهٗ، وَ اَکْرَمَ اَسْمَاعَهُمْ اَنْ تَسْمَعَ حَسِیْسَ نَارٍ اَبَدًا، وَ صَانَ اَجْسَادَهُمْ اَنْ تَلْقٰی لُغُوْبًا وَّ نَصَبًا، ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۝﴾، اَقُوْلُ مَا تَسْمَعُوْنَ، ﴿وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی﴾ نَفْسِیْ وَ اَنْفُسِکُمْ، وَ هُوَ حَسْبِیْ وَ ﴿نِعْمَ الْوَکِیْلُ۝﴾!.

تم اپنے اعمال کو لے کر بڑھو، تاکہ اللہ کے ہمسایوں کے ساتھ اس کے گھر (جنت) میں رہو۔ وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ اللہ نے جنہیں پیغمبروں کا رفیق بنایا ہے اور فرشتوں کو ان کی ملاقات کا حکم دیا ہے اور ان کے کانوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھا ہے کہ آگ (کی اذیتوں) کی بھنک ان میں نہ پڑے اور ان کے جسموں کو بچائے رکھا ہے کہ وہ رنج او رتکان سے دو چار نہ ہوں۔ ’’یہ خدا کا فضل ہے، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا تو بڑے فضل و کرم والا ہے‘‘۔ میں وہی کہہ رہا ہوں جو تم سن رہے ہو۔ ’’میرے اور تمہارے نفسوں کیلئے اللہ ہی مدد گار ہے اور وہی میرے لئے کافی اور اچھا ساز گار ہے‘‘۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 March 23 ، 19:29
عون نقوی

رُوِیَ عَنْ نَّوْفِ الْبِکَالِیِّ، قَالَ: خَطَبَنَا ھٰذِہِ الْخُطْبَۃَ بِالْکُوْفَۃِ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ وَ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰى حِجَارَةٍ نَّصَبَهَا لَهٗ جَعْدَةُ بْنُ هُبَیْرَةَ الْمَخْزُوْمِیُّ، وَ عَلَیْهِ مِدْرَعَةٌ مِّنْ صُوْفٍ، وَ حَمَآئِلُ سَیْفِهٖ لِیْفٌ، وَ فِیْ رِجْلَیْهِ نَعْلَانِ مِنْ لِّیْفٍ، وَ کَاَنَّ جَبِیْنَهٗ ثَفِنَةُ بَعِیْرٍ،. فَقَالَ ؑ:

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: حضرتؑ نے یہ خطبہ ہمارے سامنے کوفہ میں اس پتھر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جسے جعدہ ابن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا۔ اس وقت آپؑ کے جسم مبارک پر ایک اونی جُبہّ تھا اور آپؑ کی تلوار کا پرتلہ لیف خرما کا تھا اور پیروں میں جوتے بھی کھجور کی پتیوں کے تھے اور (سجدوں کی وجہ سے) پیشانی یوں معلوم ہوتی تھی جیسے اونٹ کے گھٹنے پر کا گھٹا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ مَصَآئِرُ الْخَلْقِ، وَ عَوَاقِبُ الْاَمْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰی عَظِیْمِ اِحْسَانِهٖ، وَ نَیِّرِ بُرْهَانِهٖ، وَ نَوَامِیْ فَضْلِهٖ وَ امْتِنَانِهٖ، حَمْدًا یَّکُوْنُ لِحَقِّهٖ قَضَآءً، وَ لِشُکْرِهٖۤ اَدَآءً، وَ اِلٰی ثَوَابِهٖ مُقَرِّبًا، وَ لِحُسْنِ مَزِیْدِهٖ مُوْجِبًا.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی طرف تمام مخلوق کی بازگشت اور ہر چیز کی انتہا ہے۔ ہم اس کے عظیم احسان، روشن و واضح برہان اور اس کے لطف و کرم کی افزائش پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ ایسی حمد کہ جس سے اس کا حق پورا ہو اور شکر ادا ہو اور اس کے ثواب کے قریب لے جانے والی اور اس کی بخششوں کو بڑھانے والی ہو۔

وَ نَسْتَعِیْنُ بِهِ اسْتِعَانَةَ رَاجٍ لِّفَضْلِهٖ، مُؤَمِّلٍ لِّنَفْعِهٖ، وَاثِقٍۭ بِدَفْعِهٖ، مُعْتَرِفٍ لَّهٗ بِالطَّوْلِ، مُذْعِنٍ لَّهٗ بِالْعَمَلِ وَ الْقَوْلِ.

ہم اس سے اس طرح مدد مانگتے ہیں جس طرح اس کے فضل کا امیدوار، اس کے نفع کا آرزو مند، (دفع بلیات کا) اطمینان رکھنے والا اور بخشش و عطا کا معترف اور قول و عمل سے اس کا مطیع و فرمانبردار اس سے مدد چاہتا ہو۔

وَ نُؤْمِنُ بِهٖۤ اِیْمَانَ مَنْ رَّجَاهُ مُوْقِنًا، وَ اَنَابَ اِلَیْهِ مُؤْمِنًا، وَ خَنَعَ لَهٗ مُذْعِنًا، وَ اَخْلَصَ لَهٗ مُوَحِّدًا، وَ عَظَّمَهٗ مُمَجِّدًا، وَ لَاذَ بِهٖ رَاغِبًا مُّجْتَهِدًا.

اور ہم اس شخص کی طرح اس پر ایمان رکھتے ہیں جو یقین کے ساتھ اس سے آس لگائے ہو اور ایمان (کامل) کے ساتھ اس کی طرف رجوع ہو اور اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ اس کے سامنے عاجزی و فروتنی کرتا ہو اور اسے ایک جانتے ہوئے اس سے اخلاص برتتا ہو اور سپاس گزاری کے ساتھ اسے بزرگ جانتا ہو اور رغبت و کوشش سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈتا ہو۔

لَمْ یُوْلَدْ سُبْحَانَهٗ فَیَکُوْنَ فِی الْعِزِّ مُشَارَکًا، وَ لَمْ یَلِدْ فَیَکُوْنَ مَوْرُوْثًا هَالِکًا، وَ لَمْ یَتَقَدَّمْهُ وَقْتٌ وَّ لَا زَمَانٌ، وَ لَمْ یَتَعَاوَرْهُ زِیَادَةٌ وَّ لَا نُقْصَانٌ، بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُوْلِ بِمَاۤ اَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِیْرِ الْمُتْقَنِ، وَ الْقَضَآءِ الْمُبْرَمِ.

اس کا کوئی باپ نہیں کہ وہ عزت و بزرگی میں اس کا شریک ہو، نہ اس کے کوئی اولاد ہے کہ اسے چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہو جائے اور وہ اس کی وارث ہو جائے، نہ اس کے پہلے وقت اور زمانہ تھا، نہ اس پر یکے بعد دیگرے کمی اور زیادتی طاری ہوتی ہے، بلکہ جو اس نے مضبوط نظام (کائنات) اور اٹل احکام کی علامتیں ہمیں دکھائی ہیں، ان کی وجہ سے وہ عقلوں کیلئے ظاہر ہوا ہے۔

فَمِنْ شَوَاهِدِ خَلْقِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ مُوَطَّدَاتٍۭ بِلَا عَمَدٍ، قَآئِمَاتٍۭ بِلَا سَنَدٍ، دَعَاهُنَّ فَاَجَبْنَ طَآئِعَاتٍ مُّذْعِنَاتٍ، غَیْرَ مُتَلَکِّئَاتٍ وَّ لَا مُبْطِئَاتٍ، وَ لَوْلَا اِقْرَارُهُنَّ لَهٗ بِالرُّبُوْبِیَّةِ وَ اِذْعَانُهُنَّ لَہٗ بِالطَّوَاعِیَةِ، لَمَا جَعَلَهُنَّ مَوْضِعًا لِّعَرْشِهٖ، وَ لَا مَسْکَنًا لِّمَلٰٓئِکَتِهٖ، وَ لَا مَصْعَدًا لِّلْکَلِمِ الطَّیِّبِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ خَلْقِهٖ.

چنانچہ اس آفرنیش پر گواہی دینے والوں میں آسمانوں کی خلقت ہے کہ جو بغیر ستونوں کے ثابت و برقرار اور بغیر سہارے کے قائم ہیں۔ خداوند عالم نے انہیں پکارا تو یہ بغیر کسی سستی اور توقف کے اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے لبیک کہہ اٹھے۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتے اور اس کے سامنے سر اطاعت نہ جھکاتے تو وہ انہیں اپنے عرش کا مقام اور اپنے فرشتوں کا مسکن اور پاکیزہ کلموں اور مخلوق کے نیک عملوں کے بلند ہونے کی جگہ نہ بناتا۔

جَعَلَ نُجُوْمَهَاۤ اَعْلَامًا یَّسْتَدِلُّ بِهَا الْحَیْرَانُ فِیْ مُخْتَلِفِ فِجَاجِ الْاَقْطَارِ، لَمْ یَمْنَعْ ضَوْءَ نُوْرِهَا ادْلِهْمَامُ سُجُفِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، وَ لَا اسْتَطَاعَتْ جَلَابِیْبُ سَوَادِ الْحَنَادِسِ اَنْ تَرُدَّ مَا شَاعَ فِی السَّمٰوٰتِ مِنْ تَلَاْلُؤِ نُوْرِ الْقَمَرِ.

اللہ نے ان کے ستاروں کو ایسی روشن نشانیاں قرار دیا ہے کہ جن سے حیران و سرگرداں اطراف زمین کی راہوں میں آنے جانے کیلئے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اندھیری رات کی اندھیاریوں کے سیاہ پردے ان کے نور کی ضوپاشیوں کو نہیں روکتے اور نہ شب ہائے تاریک کی تیرگی کے پردے یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ آسمانوں میں پھیلی ہوئی چاند کے نور کی جگمگاہٹ کو پلٹا دیں۔

فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا یَخْفٰی عَلَیْهِ سَوَادُ غَسَقٍ دَاجٍ، وَّ لَا لَیْلٍ سَاجٍ، فِیْ بِقَاعِ الْاَرَضِیْنَ الْمُتَطَاْطِئَاتِ، وَ لَا فِیْ یَفَاعِ السُّفْعِ الْمُتَجَاوِرَاتِ، وَ مَا یَتَجَلْجَلُ بِهِ الرَّعْدُ فِیْۤ اُفُقِ السَّمَآءِ، وَ مَا تَلَاشَتْ عَنْهُ بُرُوْقُ الْغَمَامِ، وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ تُزِیْلُهَا عَنْ مَّسْقَطِهَا عَوَاصِفُ الْاَنْوَآءِ وَ انْهِطَالُ السَّمَآءِ! وَ یَعْلَمُ مَسْقَطَ الْقَطْرَةِ وَ مَقَرَّهَا، وَ مَسْحَبَ الذَّرَّةِ وَ مَجَرَّهَا، وَ مَا یَکْفِی الْبَعُوْضَةَ مِنْ قُوْتِهَا، وَ مَا تَحْمِلُ الْاُنْثٰی فِیْ بَطْنِهَا.

پاک ہے وہ ذات جس پر پست زمین کے قطعوں اور باہم ملے ہوئے سیاہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں اندھیری رات کی اندھیاریاں اور پرسکون شب کی ظلمتیں پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ اُفق آسمان میں رعد کی گرج اس سے مخفی ہے اور نہ وہ چیزیں کہ جن پر بادلوں کی بجلیاں کوند کر ناپید ہو جاتی ہیں اور نہ وہ پتے جو(ٹوٹ کر) گرتے ہیں کہ جنہیں (بارش کے)نچھتروں کی تند ہوائیں اور موسلا دھار بارشیں ان کے گرنے کی جگہ سے ہٹا دیتی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ بارش کے قطرے کہاں گریں گے اور کہاں ٹھہریں گے اور چھوٹی چیونٹیاں کہاں رینگیں گی اور کہاں (اپنے کو) کھینچ کر لے جائیں گی اور مچھروں کو کون سی روزی کفایت کرے گی اور مادہ اپنے پیٹ میں کیا لئے ہوئے ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْکَآئِنِ قَبْلَ اَنْ یَّکُوْنَ کُرْسِیٌّ اَوْ عَرْشٌ، اَوْ سَمَآءٌ اَوْ اَرْضٌ، اَوْ جَانٌّ اَوْ اِنْسٌ. لَا یُدْرَکُ بِوَهْمٍ، وَ لَا یُقَدَّرُ بِفَهْمٍ، وَ لَا یَشْغَلُهٗ سَآئِلٌ، وَ لَا یَنْقُصُهٗ نَآئِلٌ، وَ لَا یَنْظُرُ بِعَیْنٍ، وَ لَا یُحَدُّ بِاَیْنٍ، وَ لَا یُوْصَفُ بِالْاَزْوَاجِ، وَ لَا یَخْلُقُ بِعِلَاجٍ، وَ لَا یُدْرَکُ بِالْحَوَاسِّ، وَ لَا یُقَاسُ بِالنَّاسِ، الَّذِیْ کَلَّمَ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا، وَ اَرَاهُ مِنْ اٰیَاتِهٖ عَظِیْمًا، بِلَا جَوَارِحَ وَ لَاۤ اَدَوَاتٍ، وَ لَا نُطْقٍ وَّ لَا لَهَوَاتٍ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو عرش و کرسی، زمین و آسمان اور جن و انس سے پہلے موجود تھا۔ نہ (انسانی) وہموں سے اسے جانا جا سکتا ہے اور نہ عقل و فہم سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اسے کوئی سوال کرنے والا (دوسرے سائلوں سے) غافل نہیں بناتا اور نہ بخشش و عطا سے اس کے ہاں کچھ کمی آتی ہے۔ وہ آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ کسی جگہ میں اس کی حد بندی ہو سکتی ہے۔ نہ ساتھیوں کے ساتھ اسے متصف کیا جا سکتا ہے اور نہ (اعضاء و جوارح کی) حرکت سے وہ پیدا کرتا ہے اور نہ حواس سے وہ جانا پہچانا جا سکتا ہے اور نہ انسانوں پر اس کا قیاس ہو سکتا ہے۔ وہ خدا کہ جس نے بغیر اعضاء و جوارح اور بغیر گویائی اور بغیر حلق کے کوؤں کو ہلائے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھلائیں۔

بَلْ اِنْ کُنْتَ صَادِقًا اَیُّهَا الْمُتَکَلِّفُ لِوَصْفِ رَبِّکَ، فَصِفْ جَبْرَئِیْلَ وَ مِیْکَآئِیْلَ وَ جُنُوْدَ الْمَلٰٓئِکَةِ الْمُقَرَّبِیْنَ، فِیْ حُجُرَاتِ الْقُدُسِ مُرْجَحِنِّیْنَ، مُتَوَلِّهَةً عُقُوْلُهُمْ اَنْ یَّحُدُّوْۤا اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ. فَاِنَّمَا یُدْرَکُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَیْئَاتِ وَ الْاَدَوَاتِ، وَ مَنْ یَّنْقَضِیْۤ اِذَا بَلَغَ اَمَدَ حَدِّهٖ بِالْفَنَآءِ. فَلَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، اَضَآءَ بِنُوْرِهٖ کُلَّ ظَلَامٍ، وَ اَظْلَمَ بِظُلْمَتِهٖ کُلَّ نُوْرٍ.

اے اللہ کی توصیف میں رنج و تعب اٹھانے والے! اگر تو (اس سے عہدہ برآہونے میں) سچا ہے تو پہلے جبرئیلؑ و میکائیلؑ اور مقرب فرشتوں کے لاؤ لشکر کا وصف بیان کر کہ جو پاکیزگی و طہارت کے حجروں میں اس عالم میں سر جھکائے پڑے ہیں کہ ان کی عقلیں ششدر و حیران ہیں کہ وہ اس بہترین خالق کی توصیف کر سکیں۔ صفتوں کے ذریعے وہ چیزیں جانی پہچانی جاتی ہیں جو شکل وصورت اور اعضاء و جوارح رکھتی ہوں اور وہ کہ جو اپنی حد انتہا کو پہنچ کر موت کے ہاتھوں ختم ہو جائیں۔ اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس نے اپنے نور سے تمام تاریکیوں کو روشن و منور کیا اور ظلمت (عدم) سے ہر نور کو تیرہ و تار بنادیا ہے۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِیْ اَلْبَسَکُمُ الرِّیَاشَ، وَ اَسْبَغَ عَلَیْکُمُ الْمَعَاشَ، فَلَوْ اَنَّ اَحَدًا یَّجِدُ اِلَی الْبَقَآءِ سُلَّمًا، اَوْ لِدَفْعِ الْمَوْتِ سَبِیْلًا، لَکَانَ ذٰلِکَ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوٗدَ ؑ، الَّذِیْ سُخِّرَ لَهٗ مُلْکُ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ، مَعَ النُّبُوَّۃِ وَ عَظِیْمِ الزُّلْفَةِ، فَلَمَّا اسْتَوْفٰی طُعْمَتَهٗ، وَ اسْتَکْمَلَ مُدَّتَهٗ، رَمَتْهُ قِسِیُّ الْفَنَآءِ بِنِبَالِ الْمَوْتِ، وَ اَصْبَحَتِ الدِّیَارُ مِنْهُ خَالِیَةً، وَ الْمَسَاکِنُ مُعَطَّلَةً، وَ وَرِثَهَا قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.

اللہ کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تم کو لباس سے ڈھانپا اور ہر طرح کا سامانِ معیشت تمہارے لئے مہیا کیا۔ اگر کوئی دنیوی بقا (کی بلندیوں پر) چڑھنے کا زینہ یا موت کو دور کرنے کا راستہ پا سکتا ہوتا تو وہ سلیمان ابن داؤد علیہما السلام ہوتے کہ جن کیلئے نبوت و انتہائے تقرب کے ساتھ جن و انس کی سلطنت قبضہ میں دے دی گئی تھی، لیکن جب وہ اپنا آب و دانہ پورا اور اپنی مدت (حیات) ختم کر چکے تو فنا کی کمانوں نے انہیں موت کے تیروں کی زد پر رکھ لیا، گھر ان سے خالی ہو گئے اور بستیاں اجڑ گئیں اور دوسرے لوگ ان کے وارث ہو گئے۔

وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْقُرُوْنِ السَّالِفَةِ لَعِبْرَةً! اَیْنَ الْعَمَالِقَةُ وَ اَبْنَآءُ الْعَمَالِقَةِ! اَیْنَ الْفَرَاعِنَةُ وَاَبْنَآءُ الْفَرَاعِنَةِ! اَیْنَ اَصْحَابُ مَدَآئِنِ الرَّسِّ الَّذِیْنَ قَتَلُوا النَّبِیِّیْنَ، وَاَطْفَاُوْا سُنَنَ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاَحْیَوْا سُنَنَ الْجَبَّارِیْنَ! اَیْنَ الَّذِیْنَ سَارُوْا بِالْجُیُوْشِ، وَ هَزَمُوا الْاُلُوْفَ، وَعَسْکَرُوا الْعَسَاکِرَ، وَمَدَّنُوا الْمَدَآئِنَ!.

تمہارے لئے گزشتہ دوروں (کے ہر دور)میں عبرتیں (ہی عبرتیں) ہیں۔ (ذرا سوچو تو کہ) کہاں ہیں عمالقہ اور ان کے بیٹے؟ اور کہاں ہیں فرعون اور ان کی اولادیں؟ کہاں ہیں اصحاب الرس کے شہروں کے باشندے؟ جنہوں نے نبیوں کو قتل کیا، پیغمبروں کے روشن طریقوں کو مٹایا اور ظالموں کے طور طریقوں کو زندہ کیا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکروں کو لے کر بڑھے؟ ہزاروں کو شکست دی اور فوجوں کو فراہم کرکے شہروں کو آباد کیا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا ہے]

قَدْ لَبِسَ لِلْحِکْمَةِ جُنَّتَهَا، وَ اَخَذَهَا بِجَمِیْعِ اَدَبِهَا، مِنَ الْاِقْبَالِ عَلَیْهَا، وَ الْمَعْرِفِةِ بِهَا، وَ التَّفَرُّغِ لَهَا، فَهِیَ عِنْدَ نَفْسِهٖ ضَالَّتُهُ الَّتِیْ یَطْلُبُهَا، وَ حَاجَتُهُ الَّتِیْ یَسْئَلُ عَنْهَا، فَهُوُ مُغْتَرِبٌ اِذَا اغْتَرَبَ الْاِسْلَامُ، وَ ضَرَبَ بِعَسِیْبِ ذَنَۢبِهٖ، وَ اَلْصَقَ الْاَرْضَ بِجِرَانِهٖ، بَقِیَّةٌ مِّنْ بَقَایَا حُجَّتِهٖ، خَلِیْفَةٌ مِّنْ خَلَآئِفِ اَنْۢبِیَآئِهٖ.

وہ حکمت کی سپر پہنے ہو گا اور اس کو اس کے تمام شرائط و آداب کے ساتھ حاصل کیا ہو گا (جو یہ ہیں کہ:)ہمہ تن اس کی طرف توجہ ہو، اس کی اچھی طرح شناخت ہو اور دل (علائق دنیا سے) خالی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے نزدیک اسی کی گمشدہ چیز اور اسی کی حاجت و آرزو ہے کہ جس کا وہ طلبگار و خواستگار ہے۔ وہ اس وقت (نظروں سے اوجھل ہو کر) غریب و مسافر ہو گا کہ جب اسلام عالم غربت میں اور مثل اس اونٹ کے ہو گا جو تھکن سے اپنی دم زمین پر مارتا ہو اور گردن کا اگلا حصہ زمین پر ڈالے ہوئے ہو۔ وہ اللہ کی باقی ماندہ حجتوں کا بقیہ اور انبیاءؑ کے جانشینوں میں سے ایک وارث و جانشین ہے۔

ثُمَّ قَالَ ؑ:

اس کے بعد حضرتؑ نے فرمایا:

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ قَدْ بَثَثْتُ لَکُمُ الْمَوَاعِظَ الَّتِیْ وَعَظَ الْاَنْۢبِیَآءُ بِهَا اُمَمَهُمْ، وَ اَدَّیْتُ اِلَیْکُمْ مَاۤ اَدَّتِ الْاَوْصِیَآءُ اِلٰی مَنْۢ بَعْدَهُمْ، وَ اَدَّبْتُکُمْ بِسَوْطِیْ فَلَمْ تَسْتَقِیْمُوْا، وَ حَدَوْتُکُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوْا.

اے لوگو! میں نے تمہیں اسی طرح نصیحتیں کی ہیں جس طرح کی انبیاءؑ اپنی اُمتوں کو کرتے چلے آئے ہیں اور ان چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاءؑ بعد والوں تک پہنچایا کئے ہیں۔ میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجر وتو بیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم یکجا نہ ہوئے۔

لِلّٰهِ اَنْتُمْ! اَتَتَوَقَّعُوْنَ اِمَامًا غَیْرِیْ یَطَاُ بِکُمُ الطَّرِیْقَ، وَ یُرْشِدُکُمُ السَّبِیْلَ؟.

اللہ تمہیں سمجھے! کیا میرے علاوہ کسی اور امام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائے اور صحیح راستہ دکھائے؟۔

اَلَاۤ اِنَّهٗ قَدْ اَدْبَرَ مِنَ الدُّنْیَا مَا کَانَ مُقْبِلًا، وَ اَقْبَلَ مِنْهَا مَا کَانَ مُدْبِرًا، وَ اَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللهِ الْاَخْیَارُ، وَ بَاعُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الدُّنْیَا لَا یَبْقٰی، بِکَثِیْرٍ مِّنَ الْاٰخِرَةِ لَایَفْنٰی.

دیکھو! دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں پیٹھ پھرا لی اور جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کر لیا، اللہ کے نیک بندوں نے (دنیا سے) کوچ کرنے کا تہیہ کر لیا اور فنا ہونے والی تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی۔

مَا ضَرَّ اِخْوَانَنَا الَّذِیْنَ سُفِکَتْ دِمَآؤُهُمْ ـ وَ هُمْ بِصِفِّیْنَ ـ اَنْ لَّا یَکُوْنُوا الْیَوْمَ اَحْیَآءً؟ یُسِیْغُوْنَ الْغُصَصَ، وَ یَشْرَبُوْنَ الرَّنْقَ! قَدْ ـ وَاللهِ ـ لَقُوا اللهَ فَوَفَّاهُمْ اُجُوْرَهُمْ، وَ اَحَلَّهُمْ دَارَ الْاَمْنِ بَعْدَ خَوْفِهِمْ.

بھلا اُن ہمارے بھائی بندوں کو کہ جن کے خون صفین میں بہائے گئے اس سے کیا نقصان پہنچا کہ وہ آج زندہ موجود نہیں ہیں؟ (یہی نہ کہ اگر وہ ہوتے) تو تلخ گھونٹوں کو گوارا کرتے اور گدلا پانی پیتے۔ خدا کی قسم! وہ خدا کے حضور میں پہنچ گئے، اس نے ان کو پورا پورا اجر دیا اور خوف و ہراس کے بعد انہیں امن چین والے گھر میں اتارا۔

اَیْنَ اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ رَکِبُوا الطَّرِیْقَ، وَ مَضَوْا عَلَی الْحَقِّ؟ اَیْنَ عَمَّارٌ؟ وَ اَیْنَ ابْنُ التَّیِّهَانِ؟ وَ اَیْنَ ذُو الشَّهَادَتَیْنِ؟ وَ اَیْنَ نُظَرَآؤُهُمْ مِنْ اِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ تَعَاقَدُوْا عَلَی الْمَنِیَّةِ، وَ اُبْرِدَ بِرُؤُوْسِهِمْ اِلَی الْفَجَرَةِ؟.

کہاں ہیں؟وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے اور حق پر گزر گئے۔ کہاں ہیں عمار؟ اور کہاں ہیں ابن تیہان؟ اور کہاں ہیں ذو الشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان کے ایسے اور دوسرے بھائی؟ کہ جو مرنے پر عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا۔

قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدِهٖۤ عَلٰی لِحْیَتِهِ الشَّرِیْفَةِ الْکَرِیْمَةِ، فَاَطَالَ الْبُکَآءَ، ثُمَّ قَالَ ؑ:

نوف کہتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرتؑ نے اپنا ہاتھ ریش مبارک پر پھیرا اور دیر تک رویا کئے اور پھر فرمایا:

اَوْهِ عَلٰۤی اِخْوَانِیَ الَّذِیْنَ تَلَوُا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْهُ، وَ تَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَاَقَامُوْهُ، اَحْیَوُا السُّنَّةَ، وَ اَمَاتُوا الْبِدْعَةَ، دُعُوْا لِلْجِهَادِ فَاَجَابُوْا، وَ وَثِقُوْا بِالْقَآئِدِ فَاتَّبَعُوْہُ.

آہ! میرے وہ بھائی کہ جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اسے مضبوط کیا، اپنے فرائض میں غور و فکر کیا تو انہیں ادا کیا، سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتارا، جہاد کیلئے انہیں بلایا گیا تو انہوں نے لبیک کہی اور اپنے پیشوا پر یقین کامل کے ساتھ بھروسا کیا تو اس کی پیروی بھی کی۔

ثُمَّ نَادٰی بِاَعْلٰی صَوْتِهٖ:

اس کے بعد حضرتؑ نے بلند آواز سے پکار کر کہا:

اَلْجِهَادَ الْجِهَادَ عِبَادَ اللهِ! اَلَا وَ اِنِّیْ مُعَسْکِرٌ فِیْ یَوْمِیْ هٰذَا، فَمَنْ اَرَادَ الرَّوَاحَ اِلَی اللهِ فَلْیَخْرُجْ.

جہاد! جہاد! اے بندگان خدا! دیکھو میں آج ہی لشکر کو ترتیب دے رہا ہوں۔ جو اللہ کی طرف بڑھنا چاہے وہ نکل کھڑا ہو۔

قَالَ نَوْفٌ: و عَقَدَ لِلْحُسَیْنِ ؑ فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، و لِقَیْسِ بْنِ سَعْدٍ -رَحِمَهُ اللهُ- فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، وَ لِاَبِیْۤ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّ فِیْ عَشَرَةِ اٰلَافٍ، وَ لِغَیْرِهِمْ عَلٰی اَعْدَادٍ اُخَرَ، وَ هُوَ یُرِیْدُ الرَّجْعَةَ اِلٰی صِفِّیْنَ، فَمَا دَارَتِ الْجُمُعَةُ حَتّٰی ضَرَبَهُ الْمَلْعُوْنُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَّعَنَهُ اللهُ، فَتَرَاجَعَتِ الْعَسَاکِرُ، فَکُنَّا کَاَغْنَامٍ فَقَدَتْ رَاعِیَهَا، تَخْتَطِفُهَا الذِّئَابُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ!.

نوف کہتے ہیں کہ: اس کے بعد حضرتؑ نے دس ہزار کی سپاہ پر حسین علیہ السلام کو اور دس ہزار کی فوج پر قیس ابن سعد کو اور دس ہزار کے لشکر پر ابو ایوب انصاری ؒ کو امیر بنایا اور دوسرے لوگوں کو مختلف تعداد کی فوجوں پر سالار مقرر کیا اور آپؑ صفین کی طرف پلٹ کر جانے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن ایک ہفتہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ ملعون ابن ملجم (لعنة اللہ) نے آپؑ کے (سر اقدس پر) ضرب لگائی جس سے یہ تمام لشکر پلٹ گئے اور ہماری حالت ان بھیڑ بکریوں کے مانند ہو گئی جو اپنے چرواہے کو کھو چکی ہوں اور بھیڑیے ہر طرف سے انہیں اُچک کر لے جا رہے ہوں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 March 23 ، 19:25
عون نقوی

وَ قَدْ اَرْسَلَ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِهٖ یَعْلَمُ لَهٗ عِلْمَ اَحْوَالِ قَوْمٍ مِّنْ جُنْدِ الْکُوْفَةِ قَدْ هَمُّوْابِاللِّحَاقِ بِالْخَوَارِجِ، وَ کَانُوْا عَلٰى خَوْفٍ مِّنْهُ ؑ، فَلَمَّا عَادَ اِلَیْهِ الرَّجُلُ قَالَ لَهٗ: اَ اَمِنُوْا فَقَطَنُوْا، اَمْ جَبُنُوْا فَظَعَنُوْا؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَلْ ظَعَنُوْا یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ.فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو سپاہِ کوفہ کی ایک جماعت کی خبر لانے کیلئے بھیجا جو خارجیوں سے منضم ہو نے کا تہیہ کئے بیٹھی تھی، لیکن حضرتؑ سے خائف تھی۔ چنانچہ جب وہ شخص پلٹ کر آیا تو آپؑ نے دریافت کیا کہ: کیا وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے ہیں یا کمزوری و بزدلی دکھاتے ہوئے چل دیے ہیں۔ اس نے کہا: یا امیر المومنینؑ وہ تو چلے گئے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:

بُعْدًا لَّهُمْ ﴿کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠۝﴾، اَمَا لَوْ اُشْرِعَتِ الْاَسِنَّةُ اِلَیْهِمْ وَ صُبَّتِ السُّیُوْفُ عَلٰی هَامَاتِهِمْ، لَقَدْ نَدِمُوْا عَلٰی مَا کَانَ مِنْهُمْ، اِنَّ الشَّیْطٰنَ الْیَوْمَ قَدِ اسْتَفَلَّهُمْ، وَ هُوَ غَدًا مُّتَبَرِّئٌ مِّنْهُمْ، وَ مُتَخَلٍّ عَنْهُمْ، فَحَسْبُهُمْ بِخُرُوْجِهِمْ مِنَ الْهُدٰی، وَ ارْتِکَاسِهِمْ فِی الضَّلَالِ وَ الْعَمٰی، وَ صَدِّهِمْ عَنِ الْحَقِّ، وَ جِمَاحِهِمْ فِی التِّیْهِ.

انہیں قوم ثمود کی طرح خدا کی رحمت سے دوری ہو! دیکھنا جب نیزوں کے رخ ان کی طرف سیدھے ہوں گے اور تلواروں کے وار ان کی کھوپڑیوں پر پڑیں گے تو اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔ آج تو شیطان نے انہیں تتر بتر کر دیا ہے اور کل ان سے اظہار بیزاری کرتا ہوا ان سے الگ ہو جائے گا۔ ان کا ہدایت سے نکل جانا، گمراہی و ضلالت میں جا پڑنا، حق سے منہ پھیر لینا اور ضلالتوں میں منہ زوریاں دکھانا ہی ان کے (مستحق عذاب) ہونے کیلئے کافی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:54
عون نقوی

فِیْ ذَمِّ اَصْحَابِهٖ

اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا

اَحْمَدُ اللهَ عَلٰی مَا قَضٰی مِنْ اَمْرٍ، وَ قَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ، وَ عَلَی ابْتِلَآئِیْ بِکُمْ اَیَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِیْۤ اِذَاۤ اَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ، وَ اِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ، اِنْ اُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ، وَ اِنْ حُوْرِبْتُمْ خُرْتُمْ، وَ اِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلٰۤی اِمَامٍ طَعَنْتُمْ، وَ اِنْ اُجِئْتُمْ اِلٰی مُشَاقَّةٍ نَّکَصْتُمْ.

میں اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا اور ہر اس کام پر جو اس کی تقدیر نے طے کیا ہو اور اس آزمائش پر جو تمہارے ہاتھوں اس نے میری کی ہے۔ اے لوگو کہ جنہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو نافرمانی کرتے ہیں اور پکارتا ہوں تو میری آواز پر لبیک نہیں کہتے، اگر تمہیں (جنگ سے) کچھ مہلت ملتی ہے تو ڈینگیں مارنے لگتے ہو اور اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو بزدلی دکھاتے ہو اور جب لوگ امام پر ایکا کر لیتے ہیں تو تم طعن و تشنیع کرنے لگتے ہو اور اگر تمہیں (جکڑ باندھ کر) جنگ کی طرف لایا جاتا ہے تو الٹے پیروں لوٹ جاتے ہو۔

لَاۤ اَبَا لِّغَیْرِکُمْ! مَا تَنْتَظِرُوْنَ بِنَصْرِکُمْ وَ الْجِهَادِ عَلٰی حَقِّکُمْ؟ اَلْمَوْتَ اَوِ الذُّلَّ لَکُمْ؟. فَوَاللهِ! لَئِنْ جَآءَ یَوْمِیْ ـ وَ لَیَاْتِیَنِّیْ ـ لَیُفَرِّقَنَّ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ وَ اَنَا لِصُحْبَتِکُمْ قَالٍ، وَ بِکُمْ غَیْرُ کَثِیْرٍ.

تمہارے دشمنوں کا برا ہو! تم اب نصرت کیلئے آمادہ ہو نے اور اپنے حق کیلئے جہاد کرنے میں کس چیز کے منتظر ہو؟ موت کے یا اپنی ذلت و رسوائی کے؟ خدا کی قسم! اگر میری موت کا دن آئے گا اور البتہ آ کر رہے گا تو وہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا، درآنحالیکہ میں تمہاری ہم نشینی سے بیزار اور (تمہاری کثرت کے باوجود) اکیلا ہو ں۔

لِلّٰهِ اَنْتُمْ! اَمَا دِیْنٌ یَّجْمَعُکُمْ! وَ لَا حَمِیَّةٌ تَشْحَذُکُمْ! اَوَ لَیْسَ عَجَبًا اَنَّ مُعَاوِیَةَ یَدْعُو الْجُفَاةَ الطَّغَامَ فَیَتَّبِعُوْنَهٗ عَلٰی غَیْرِ مَعُوْنَةٍ وَّ لَا عَطَآءٍ، وَ اَنَا اَدْعُوْکُمْ ـ وَ اَنْتُمْ تَرِیْکَةُ الْاِسْلَامِ وَ بَقِیَّةُ النَّاسِ ـ اِلَی الْمَعُوْنَةِ وَ طَآئِفَةٍ مِّنَ الْعَطَآءِ، فَتَفَرَّقُوْنَ عَنِّیْ وَ تَخْتَلِفُوْنَ عَلَیَّ؟.

اب تمہیں اللہ ہی اجر دے! کیا کوئی دین تمہیں ایک مرکز پر جمع نہیں کرتا اور غیرت تمہیں (دشمن کی روک تھام پر) آمادہ نہیں کرتی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ معاویہ چند تند مزاج اوباشوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ بغیر کسی امداد و اعانت اور بخشش و عطا کے اس کی پیروی کرتے ہیں اور میں تمہیں امداد کے علاوہ تمہارے معیّنہ عطیوں کے ساتھ دعوت دیتا ہوں مگر تم مجھ سے پراگندہ و منتشر ہو جاتے ہو اور مخالفتیں کرتے ہو، حالانکہ تم اسلام کے رہے سہے افراد اور مسلمانوں کا بقیہ ہو۔

اِنَّهٗ لَا یَخْرُجُ اِلَیْکُمْ مِنْ اَمْرِیْ رِضًی فَتَرْضَوْنَهٗ، وَ لَا سَخَطٌ فَتَجْتَمِعُوْنَ عَلَیْهِ، وَ اِنَّ اَحَبَّ مَاۤ اَنَا لَاقٍ اِلَیَّ الْمَوْتُ! قَدْ دَارَسْتُکُمُ الْکِتَابَ، وَ فَاتَحْتُکُمُ الْحِجَاجَ، وَ عَرَّفْتُکُمْ مَاۤ اَنْکَرْتُمْ، وَ سَوَّغْتُکُمْ مَا مَجَجْتُمْ، لَوْ کَانَ الْاَعْمٰی یَلْحَظُ، اَوِ النَّآئِمُ یَسْتَیْقِظُ! وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِّنَ الْجَهْلِ بِاللهِ قَآئِدُهُمْ مُعَاوِیَةُ! وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ!.

تم تو میرے کسی فرمان پر راضی ہوتے اور نہ اس پر متحد ہوتے ہو، چاہے وہ تمہارے جذبات کے موافق ہو یا مخالف۔ میں جن چیزوں کا سامنا کر نے والا ہوں ان میں سب سے زیادہ محبوب مجھے موت ہے۔ میں نے تمہیں قرآن کی تعلیم دی اور دلیل و برہان سے تمہارے درمیان فیصلے کئے اور ان چیزوں سے تمہیں روشناس کیا جنہیں تم نہیں جانتے تھے اور ان چیزوں کو تمہارے لئے خوشگوار بنایا جنہیں تم تھوک دیتے تھے۔ کاش کہ اندھے کو کچھ نظر آئے اور سونے والا(خواب غفلت سے)بیدار ہو۔ وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کا پیشرو معاویہ اور معلم نابغہ کا بیٹا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:51
عون نقوی