بصیرت اخبار

تفسیر امام حسن عسکریؑ

Tuesday, 7 March 2023، 01:28 PM

درس: علم رجال

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مدرس: استاد محترم سید حسن رضوی حفظہ اللہ

 

درس تفسیر امام حسن عسکریؑ کے متعلق ہے۔ آیا یہ کتاب اور اس کے مصنف مصدر کے طور پر استفادہ کی جا سکتی ہے یا نہیں؟

مصنف نے اس کے قدیمی نسخے بیان کیے ہیں۔

پہلا قول

اس نام سے چند تفاسیر ہیں۔ معروف تھا کہ دو تفاسیر ہیں۔ تفسیر العسکری کے نام سے مشہور تھی، عسکری دو اماموں کا لقب ہے، امام ہادی نقیؑ کو بھی عسکری کہا جاتا تھا۔ معالم العلماء میں ابن شہر آشوب نے لکھا کہ حسن بن خالد برقی جو محمد بن خالد برقی کے بھائی ہیں اور احمد بن خالد برقی کے چچا ہیں وہ خود ثقہ ہیں، انہوں نے املاء لکھائی تھی امام حسن عسکریؑ نے۔ تو یہ ان کی کتب میں سے ہے۔ یہ تفسیر ۱۲۰ جلدوں پر مشتمل تھی؟ کیا یہ تفسیر وہی تفسیر ہے؟ یا کوئی اور تفسیر ہے؟ 

دوسرا قول

محمد بن قاسم استرآبادی کے طریق سے امام حسن عسکریؑ کی تفسیر کا ذکر ہوا ہے۔ یہ دونوں ایک ہی تفسیریں ہیں یا جدا ہیں؟ بعض کہتے ہیں کہ حسن بن خالد برقی کی تفسیر امام ہادیؑ کی تفسیر تھی اور یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی تفسیر ہے۔

پس تفسیر میں تین بحثیں ہیں۔ نسخہ قدیمی، مفسر کون ہے؟ اور کونسی وجوہات کی بنا پر یہ تفسیر ضعیف ہے؟

۱۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ راوی ضعیف ہیں۔

۲۔ بعض نکات مسلمات تشیع کے برخلاف ہیں۔

۳۔ اس میں تناقض گوئی ہے۔

۴۔ بعض نکات سے علم ہوتا ہے کہ یہ تفسیر امام رضاؑ سے محضر راوی سے نقل ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ یہ تفسیر کامل نہیں ہے پورے قرآن کی تفسیر نہیں ہے۔ بعض بزرگان مانتے ہیں کہ یہ امام کی ہی تفسیر ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ امام نے تفسیر لکھی تھی لیکن یہ وہی ہے یا نہیں یہ بات ثابت نہیں ہے۔

تفسیر کے مصادر

۱۔ خاتمۃ المستدرک میں محدث نوری نے لکھا ہے کہ شیخ صدوق نے مشائخ کی سند سے اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔

۲۔ بزرگ تہرانی نے تفسیر کا تذکرہ الذریعہ میں کیا ہے۔

۳۔ محقق تستری نے کتاب اخبار الدخیلہ میں اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۔

۴۔ روضۃ المتقین کے مصنف تقی مجلسی نے تذکرہ کیا ہے۔

 

اس کتاب کا ایک نسخہ ۸۸۴ ہجری کا لکھا ہوا قم مرعشی نجفی کے کتابخانہ میں موجود ہے۔ اور دوسرا ۸۸۰ ہجری کا لکھا ہوا تہران میں موجود ہے۔

اس نام سے دو تفسیریں تھیں یا ایک؟

ایک ہی تفسیر تھی اور ابن شہر آشوب نے جو ذکر کیا ہے وہ در حقیقت امام نقیؑ کی املاء کردہ تفسیر ہے۔ وہ امام حسن عسکریؑ کی تفسیر نہیں تھی۔ محقق تہرانی نے اسی بات کو قبول کیا ہے۔ 

امام حسن عسکریؑ کی تفسیر اور ان کی املاء کو ابو یوسف محمد بن زیاد اور سیار کو املاء کروائی تھی۔ اور اس سے استرآبادی نے نقل کی ہے۔ 

شیخ صدوق نے اس تفسیر کے مختلف طرق بیان کیے ہیں۔ 

اس تفسیر کی متعدد سندیں دیگر علماء نے بھی بیان کی ہیں۔

۱۔ طبری نے دلائل الامامہ میں نقل کیا ہے کہ عثمان بن ابراہیم الرائق الموصلی نے ابو جعفر بن موسی بن بابویہ القمی نے ابن قاسم استر آبادی نے والد سے نقل کیا ہے۔

۲۔ مرحوم طبرسی نے الاحتجاج میں ذکر کیا ہے کہ اس کتاب میں احادیث اکثر بغیر سند کے لائی ہیں، یا یہ کتابیں معروف ہیں، اور یا میں نے امام حسن عسکریؑ کی کتاب سے نقل کی ہیں۔

۳۔ قطب الدین راوندی نے الخرائج و الجرائح نے اس کا ذکر کیا ہے۔

۴۔ شہید اول کے شاگرد کتاب المختصر کے مصنف نے اس کا ذکر کیا ہے۔

۵۔ محقق کرکی نے اس کا ذکر کیا ہے۔

ہر دور میں امام کی تفسیر کا تذکرہ رہا ہے اس لیے یہ قرینہ بن سکتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تفسیر فرد بہ فرد علماء کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 23/03/07
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی