بصیرت اخبار

۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «مفتی جعفر» ثبت شده است

ہڈی پسلی ایک کر دینے والا مدافع رسولﷺ بچہ

رسول اللہ ﷺ نے جب علانیہ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو قریش کو حضرت ابو طالبؑ کا تھوڑا بہت پاس و لحاظ تھا انہوں نت براہ راست مزاحمت کرنے کے بجاۓ اپنے لڑکوں کو یہ سکھایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو جہاں پائیں ان کو ستائیں اور ان پر اینٹ پتھر برسائیں تاکہ وہ تنگ آ کر بت پرستی کے خلاف کہنا چھوڑ دیں اور اسلام کی تبلیغ سے کنارہ کش ہو کر گھر میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ جب رسول  اللہ ﷺ گھر سے باہر نکلتے تو قریش کے لڑکے پیچھے لگ جاتے کوئی خس و خاشاک پھینکتا اور کوئی اینٹ پتھر مارتا، آنحضرت ﷺ آزردہ خاطر ہوتے اذیتیں برداشت کرتے مگر زبان سے کچھ نہ کہتے اور نہ کچھ کہنے کا محل تھا، اس لیے کہ بچوں سے الجھنا اور ان کے منہ لگنا کسی بھی سنجیدہ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ امام علیؑ نے آپ کے جسم مبارک پر چوٹوں کے نشانات دیکھے تو پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کے جسم پر نشانات کیسے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے بھر آئی آواز میں فرمایا کہ اے علی! قریش خود تو سامنے نہیں آتے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ مجھے جہاں پائیں تنگ کریں، میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں تو وہ گلیوں اور بازاروں میں جمع ہو کر ڈھیلے پھینکتے اور پتھر برساتے ہیں۔ یہ انہیں چوٹوں کے نشانات ہیں۔

امام علیؑ نے یہ سنا تو بے چین ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آئندہ آپ تنہا کہیں نہ جائیں جہاں جانا ہو مجھے ساتھ لے جائیں۔ آپ تو ان بچوں کا مقابلہ کرنے سے رہے مگر میں تو بچہ ہوں میں انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا اور آئندہ انہیں جرات نہ ہوگی کہ وہ آپ کو اذیت دیں یا راستہ روکیں۔ دوسرے دن رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو علیؑ بھی ساتھ لے لیا۔ قریش کے لڑکے حسب عادت ہجوم کر کے آگے بڑھے دیکھا کہ آگے عیؑ کھڑے ہیں وہ بچے بھی علیؑ کے سن و سال کے ہوں گے انہیں اپنے ہمسن کے مقابلے میں تو بڑی جرات دکھانا چاہیے تھی مگر علیؑ کے بگڑے ہوۓ تیور دیکھ کر جھجکے۔ پھر ہمت کر کے آگے بڑھے ادھر علیؑ نے اپنی آستینیں الٹیں اور بپھرے ہوۓ شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ کسی کا بازو توڑا کسی کا سر پھوڑا کسی کو زمین پر پٹخا او رکسی کو پیروں تلے روند دیا۔ بچوں کا ہجوم اپنے ہی سن و سال کے ایک بچے سے پٹ پٹا بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے بڑوں سے فریاد کی کہ ’’قضمنا علی‘‘ علیؑ نے ہمیں بری طرح سے پیٹا ہے۔ مگر بڑوں کو بھی جرات نہ ہو سکی کہ فرزند ابو طالبؑ سے کچھ کہیں اس لیے کہ ہ سب کچھ انہی کے ایما پر ہوتا تھا۔ اس دن کے بعد بچوں کو بھی ہوش آگیا اور جب وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ علیؑ کو دیکھتے تو کہیں دبک کر بیٹھ جاتے یا ادھر ادھر منتشر ہو جاتے۔ اس واقعہ کے بعد علیؑ کو قضیم کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ جس کے معنی ہیں ہڈی پسلی توڑ دینے والا۔(۱)

 


حوالہ:
١۔ علامہ مفتی جعفر حسین، سیرت امیرالمومنینؑ، ص ۱۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 September 21 ، 22:40
عون نقوی

سپہ سالاروں کے نام

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا أَهْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَنَّهُمْ مَنَعُوا النَّاسَ الْحَقَّ فَاشْتَرَوْهُ وَ أَخَذُوهُمْ بِالْبَاطِلِ فَاقْتَدَوْهُ.

اگلے لوگوں کو اس بات نے تباہ کیا کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لیے، تو انہوں نے (رشوتیں دے دے کر) اسے خریدا اور انہیں باطل کا پابند بنایا، تو وہ ان کے پیچھے انہی راستوں پر چل کھڑے ہوۓ۔(۱)

 


ترجمہ:

۱۔ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۵۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 August 21 ، 21:46
عون نقوی

فَاعِلُ الْخَیْرِ خَیْرٌ مِنْهُ وَ فَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْهُ.

نیک کام کرنے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کرنے والا خود اس برائی سے بدتر ہے۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۶۳۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 August 21 ، 19:23
عون نقوی

محمد ابن حنفیہ کو آداب حرب کی تعلیم

تَزُولُ الْجِبَالُ وَ لاَ تَزُلْ عَضَّ عَلَی نَاجِذِکَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَکَ تِدْ فِی الْأَرْضِ قَدَمَکَ ارْمِ بِبَصَرِکَ أَقْصَی الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَکَ وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ.

پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کو عاریت دیے دینا۔ اپنے قدم زمین میں گاڑھ دینا۔ لشکر کی آخری صفوں پر اپنی نظر رکھنا اور (دشمن کی کثرت و طاقت سے) آنکھوں کو بند کر لینا اور یقین رکھنا کہ مدد خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:38
عون نقوی

جب زبیر نے یہ کہا کہ میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرمایا

یَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ بَایَعَ بِیَدِهِ وَ لَمْ یُبَایِعْ بِقَلْبِهِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَیْعَهِ وَ ادَّعَی الْوَلِیجَهَ فَلْیَأْتِ عَلَیْهَا بِأَمْرٍ یُعْرَفُ وَ إِلاَّ فَلْیَدْخُلْ فِیمَا خَرَجَ مِنْهُ.

وہ ایسا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے بیعت ہاتھ سے کر لی تھی مگر دل سے نہیں کی تھی۔ بہر صورت اس نے بیعت کا تو اقرار کر لیا، لیکن اس کا یہ ادعا کہ اس کے دل میں کھوٹ تھا تو اسے چاہئے کہ اس دعوی کے لیے کوئی واضح دلیل پیش کرے، ورنہ جس بیعت سے منحرف ہوا ہے اس میں واپس آۓ۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:29
عون نقوی