بصیرت اخبار

۱۲۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ اردو» ثبت شده است

(۱۶۰)

مَنْ مَّلَکَ اسْتَاْثَرَ.

جو اقتدار حاصل کر لیتا ہے جانبداری کرنے ہی لگتا ہے۔

(۱۶۱)

مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَاْیِهٖ هَلَکَ، وَ مَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَکَهَا فِیْ عُقُوْلِهَا.

جو خود رائی سے کام لے گا وہ تباہ و برباد ہو گا، اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 14:07
عون نقوی

(۱۵۸)

عَاتِبْ اَخَاکَ بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِ، وَ ارْدُدْ شَرَّهٗ بِالْاِنْعَامِ عَلَیْهِ.

اپنے بھائی کو شرمندۂ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔

اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے تو اس سے دشمنی و نزاع کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپؑ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہو کر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی علیہما السلام ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپؑ کے قریب آ کر انہیں برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپؑ خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ: معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ: ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ: پھر تم میرے ساتھ چلو، میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اور جب آپؑ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی اور کی قدر و منزلت اس کی نگاہ میں نہ تھی۔

(۱۵۹)

مَنْ وَّضَعَ نَفْسَهٗ مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ فَلَا یَلُوْمَنَّ مَنْ اَسَآءَ بِهِ الظَّنَّ.

جو شخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 19:07
عون نقوی

(۱۵۶)

عَلَیْکُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُوْنَ بِجَهَالَتِهٖ.

تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔


خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کیلئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیل و تحریف سے محفوظ رکھنے کیلئے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام اپنے اپنے دور میں تعلیمات الٰہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے۔ اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب ہے اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کیلئے گنجائش انکار نہیں ہو سکتی چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَةً جَاھِلِیَّةً.
جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔
ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسموع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
مَنْ جَهِلَ اِمَامَةَ عَلِیٍّ ؑ، وَ اَنْکَرَ صِحَّتَهَا وَ لُزُوْمَهَا، فَهُوَ عِنْدَ اَصْحَابِنَا مُخَلَّدٌ فِی النَّارِ، لَا یَنْفَعُهٗ صَوْمٌ وَّ لَا صَلٰوةٌ، لِاَنَّ الْمَعْرِفَةَ بِذٰلِکَ مِنَ الْاُصُوْلِ الْکُلِیَّةِ الَّتِیْ هِیَ اَرْکَانُ الدِّیْنِ، وَ لٰکِنَّا لَا نُسَمِّیْ مُنْکِرَ اِمَامَتِهٖ کَافِرًا، بَلْ نُسَمِّیْهِ فَاسِقًا وَِّ خَارِجِیًّا وَّ مَارِقًا وَّ نَحْوَ ذٰلِکَ، وَ الشَّیْعَةُ تُسَمِّیْهِ کَافِرًا، فَهٰذَا هُوَ الْفَرْقُ بَیْنَـنَا وَ بَیْنَهُمْ، وَ هُوَ فِی اللَّفْظِ، لَا فِی الْمَعْنٰى.‏
جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو، وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے۔ نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے، نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپؑ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے، بلکہ اسے فاسق، خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فرق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے، کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے۔)شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۳۱۹(

(۱۵۷)

قَدْ بُصِّرْتُمْ اِنْ اَبْصَرْتُمْ، وَ قَدْ هُدِیْتُمْ اِنِ اهْتَدَیْتُمْ، و اُسْمِعْتُمْ اِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

اگر تم دیکھو تو تمہیں دکھایا جا چکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جا چکا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 19:04
عون نقوی

(۱۵۴)

اَلرَّاضِیْ بِفِعْلِ قَوْمٍ کَالدَّاخِلِ فِیْهِ مَعَهُمْ، وَ عَلٰى کُلِّ دَاخِلٍ فِیْ بَاطِلٍ اِثْمَانِ: اِثْمُ الْعَمَلِ بِهٖ، وَ اِثْمُ الرِّضٰى بِهٖ.

کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو، اور غلط کام میں شریک ہو نے والے پر دو گناہ ہیں: ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضا مند ہونے کا۔

(۱۵۵)

اِعْتَصِمُوْا بِالذِّمَمِ فِیْۤ اَوْتَادِهَا.

عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں کے ایسے (مضبوط) ہوں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 19:01
عون نقوی

(۱۵۲)

لِکُلِّ مُقْبِلٍ اِدْبَارٌ، وَ مَاۤ اَدْبَرَ کَاَنْ لَّمْ یَکُنْ.

ہر آنے والے کیلئے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

(۱۵۳)

لَا یَعْدَمُ الصَّبُوْرُ الظَّفَرَ، وَ اِنْ طَالَ بِهِ الزَّمَانُ.

صبر کرنے والا ظفر و کامرانی سے محروم نہیں ہوتا۔ چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 18:57
عون نقوی