بصیرت اخبار

۱۰ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «اللہ تعالی» ثبت شده است

امیرالمومنین علی علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں:

أَما وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، لَوْلاَ حُضُورُ الْحاضِرِ، وَقِیامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِالنَّاصِرِ، وَما أَخَذَاللّه ُ عَلَى الْعُلَماءِ أَلاَّ یُقارُّوا عَلَى کِظَّةِ ظالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُومٍ، لَأَلْقَیْتُ حَبْلَها عَلَى غارِبِها، وَلَسَقَیْتُ آخِرَها بِکَأْسِ أَوَّلِها.

’’اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عھد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اس پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول سیراب کیا تھا‘‘۔

لمحہ غور و فکر:
اسلام ایک جامع مذھب ہے جس میں انسان کی انفرادی ترین ضروریات سے لے کر معاشرتی و اجتماعی ضرورتوں کو بیان کیا گیا، انسان کی اجتماعی ضروریات میں سے ایک اہم ترین ضرورت حکومت ہے۔ سیکولرزم کے نظریہ کے مطابق دین انسان کی انفرادی ضرورت ہے اگر کوئی انفرادی طور پر دین کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو وہ دین پر عمل کرے لیکن دین کا اجتماعی طور پر انسانی زندگی میں کسی قسم کا دخل نہیں اور نہ ہی دینی قوانین کو اجتماعی طور پر لاگو کیا جاۓ۔ دین اسلام اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا بلکہ دین شناسوں پر فرض ہے کہ وہ سیاست و حکومت میں حصہ لیں جیسا کہ امیرالمومنین ع اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے علماء اسلام سے عھد لیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم پر خاموش نہ رہیں اور مظلوم کی مظلومیت پر اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن ظالم کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اور مظلوم کی مدد کیلئے کیا کیا جاۓ اور کونسا وسیلہ اختیار کیا جاۓ ؟؟

اس کیلئے بھترین وسیلہ حکومت کا حصول ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام حکومت جیسی اہم ترین معاشرے کی ضرورت کا ھدف بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ حکومت ایک ذریعہ و وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم مظلوم کو اس کا حق دلا سکتے ہیں اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے سکتے ہیں۔ خود بذات خود حکومت کا حصول کوئی معنی نہیں رکھتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام ایک خطبہ میں حصول حکومت کو اپنی پھٹی پرانی جوتی سے بھی بد تر قرار دیتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں کہ مگر یہ کہ حکومت کو وسیلہ بنا کر عدالت برپا کی جاۓ۔ نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین اسلام سیاست و حکومت کی نفی نہیں کرتا لیکن حکومت و سیاست اس معنی میں کہ جو خود کلام معصوم میں بیان ہوئی ہے نہ وہ سیاست جو آج معاشروں میں رائج ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:
۱۔ نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ، ص٨٥۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:38
عون نقوی

امام خمینى رضوان اللہ تعالیٰ علیہ:

قدرت و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں، اللہ تعالی کے اسماء الحسنی میں سے ایک اسم مبارک قادر ہے. لیکن یہی قدرت جب فاسد لوگوں کے ہاتھ آجائے تو معاشرے میں کمال کی بجائے فساد بڑھ جاتا ہے آج انسانی معاشرے اسی وجہ سے فسادات کا شکار ہیں کہ قدرت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کے اندر انسانیت نہیں پائی جاتی۔(۱)

 


حوالہ:
۱۔ خمینی، روح اللہ موسوی، صحیفہ نور، ج١٨، ص١٥٦۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 September 21 ، 22:53
عون نقوی

جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا

وَ لَعَمْرِی مَا عَلَیَّ مِنْ قِتَالِ مَنْ خَالَفَ الْحَقَّ وَ خَابَطَ الْغَیَّ مِنْ إِدْهَانٍ وَ لاَ إِیهَانٍ فَاتَّقُوا اللَّهَ عِبَادَ اللَّهِ وَ فِرُّوا إِلَی اللَّهِ مِنَ اللَّهِ وَ امْضُوا فِی الَّذِی نَهَجَهُ لَکُمْ وَ قُومُوا بِمَا عَصَبَهُ بِکُمْ فَعَلِیٌّ ضَامِنٌ لِفَلْجِکُمْ آجِلاً إِنْ لَمْ تُمْنَحُوهُ عَاجِلاً.

مجھے اپنی زندگی کی قسم! میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رعایت اور سستی نہیں کروں گا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کے غضب سے بھاگ کر اس کے دامن رحمت میں پناہ لو۔ اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلو اور اس کے عائد کردہ احکام کو بجا لاؤ(اگر ایسا ہو تو) علیؑ تمہاری نجات اخروی کا ضامن ہے۔ اگرچہ دنیوی کامرانی تمہیں حاصل نہ ہو۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۴۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 21 ، 13:01
عون نقوی

موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی

فَإِنَّکُمْ لَوْ قَدْ عَایَنْتُمْ مَا قَدْ عَایَنَ مَنْ مَاتَ مِنْکُمْ لَجَزِعْتُمْ وَ وَهِلْتُمْ وَ سَمِعْتُمْ وَ أَطَعْتُمْ وَ لَکِنْ مَحْجُوبٌ عَنْکُمْ مَا قَدْ عَایَنُوا وَ قَرِیبٌ مَا یُطْرَحُ الْحِجَابُ وَ لَقَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وَ أُسْمِعْتُمْ إِنْ سَمِعْتُمْ وَ هُدِیتُمْ إِنِ اهْتَدَیْتُمْ وَ بِحَقٍّ أَقُولُ لَکُمْ لَقَدْ جَاهَرَتْکُمُ الْعِبَرُ وَ زُجِرْتُمْ بِمَا فِیهِ مُزْدَجَرٌ وَ مَا یُبَلِّغُ عَنِ اللَّهِ بَعْدَ رُسُلِ السَّمَاءِ إِلاَّ الْبَشَرُ.

جن چیزوں کو تمہارے مرنے والوں نے دیکھا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو گھبرا جاتے اور سراسیمہ اور مضطرب ہو جاتے اور (حق کی بات) سنتے اور اس پر عمل کرتے۔ لیکن جو انہوں نے دیکھا ہے وہ ابھی تم سے پوشیدہ ہے اور قریب ہے کہ وہ پردہ اٹھا دیا جاۓ۔ اگر تم چشم بینا گوش شنوا رکھتے ہو تو تمہیں سنایا اور دکھایا جا چکا ہے اور ہدایت کی طلب ہے تو تمہیں ہدایت کی جا چکی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ عبرتیں تمہیں بلند آواز سے پکار چکی ہیں اور دھمکانے والی چیزوں سے تمہیں دھمکایا جا چکا ہے۔ آسمانی رسولوں (فرشتوں) کے بعد بشر ہی ہوتے ہیں جو تم تک اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح میری زبان سے جو ہدایت ہو رہی ہے در حقیقت اللہ کا پیغام ہے جو تم تک پہنچ رہا ہے۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 August 21 ، 22:23
عون نقوی

بِسْمِ اللہِ الرَحْمنِ الرَحیمْ

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

إلھِی أَتَراکَ بَعْدَ الْاِیمانِ بِکَ تُعَذِّبُنِی أَمْ بَعْدَ حُبِّی إیَّاکَ تُبَعِّدُنِی

میرے معبود کیا تجھے ایسا سمجھوں کہ تجھ پر ایمان رکھنے کے باوجود مجھے عذاب دے گا یا تجھ سے محبت کروں تو بھی مجھے دورکرے گا

أَمْ مَعَ رَجائِی لِرَحْمَتِکَ وَصَفْحِکَ تَحْرِمُنِی أَمْ مَعَ اسْتِجارَتِی بِعَفْوِکَ تُسْلِمُنِی حَاشَا لِوَجْھِکَ الْکَرِیمِ أَنْ تُخَیِّبَنِی

یا تیری رحمت و چشم پوشی کی امید رکھوں تو بھی محروم کرے گا یا تیرے عفو کی پناہ لوں تو بھی مجھے آگ کے سپرد کرے گا نہیں تیری ذات کریم ہے بعید ہے کہ مجھے نا امید کرے

لَیْتَ شِعْرِی أَلِلشَّقاءِ وَلَدَتْنِی ٲُمِّی أَمْ لِلْعَناء رَبَّتْنِی فَلَیْتَھا لَمْ تَلِدْنِی، وَلَمْ تُرَبِّنِی

کاش میں جان سکتا کہ آیا میری ماں نے مجھے بدبختی کے لیے جنا یا دکھ کے لیے پالا کاش وہ مجھے نہ جنتی اور مجھے نہ پالتی

وَلَیْتَنِی عَلِمْتُ أَمِنْ أَھْلِ السَّعادَۃِ جَعَلْتَنِی وَبِقُرْبِکَ وَجِوارِکَ خَصَصْتَنِی، فَتَقِرَّ بِذلِکَ عَیْنِی، وَتَطْمَئِنَّ لَہُ نَفْسِی

اور کاش مجھے یہ علم ہوتا کہ آیا تو نے مجھے نیک بختوں میں قرار دیا اور قرب و نزدیکی کے لیے مجھے خاص کیا ہے تو اس سے میری آنکھیں روشن اور دل مطمئن ہوجاتا

إلھِی ھَلْ تُسَوِّدُ وُجُوھا خَرَّتْ ساجِدَۃً لِعَظَمَتِکَ

میرے معبود آیا توان چہروں کو سیاہ کردے گا جو تیری عظمت کو سجدے کرتے ہیں

أَوْ تُخْرِسُ أَلْسِنَۃً نَطَقَتْ بِالثَّناء عَلی مَجْدِکَ وَجَلالَتِکَ

یا ان زبانوں کو گنگ کرے گا جو تیری اونچی شان اور جلالت کی تعریف میں تر ہیں

أَوْ تَطْبَعُ عَلیٰ قُلُوبٍ انْطَوَتْ عَلیٰ مَحَبَّتِکَ

یا ان دلوں پر مہر لگائے گا جو اپنے اندر تیری محبت لیے ہوئے ہیں

أَوْ تُصِمُّ أَسْمَاعاً تَلَذَّذَتْ بِسَمَاعِ ذِکْرِکَ فِی إِرَادَتِکَ

یا ان کانوں کو بہرا کرے گا جو تیرا ذکر سننے کا شرف حاصل کرتے ہیں

أَوْ تَغُلُّ أَکُفّاً رَفَعَتْھَا الْآمَالُ إلَیْکَ رَجَاءَ رَأْفَتِکَ

یاان ہاتھوں کو باندھے گاجن کو تیری رحمت کی امید نے تیرے حضور پھیلایا ہے

أَوْ تُعاقِبُ أَبْداناً عَمِلَتْ بِطاعَتِکَ حَتَّی نَحِلَتْ فِی مُجاھَدَتِکَ

یا ان بدنوں کوعذاب دے گا جنہوں نے تیری اطاعت کی حتیٰ کہ اس کوشش میں لاغر ہوگئے

أَوْ تُعَذِّبُ أَرْجُلاً سَعَتْ فِی عِبادَتِکَ

یا ان پاؤں کو عذاب کرے گا جو عبادت کیلئے دوڑتے ہیں

إلھِی لاَ تُغْلِقْ عَلی مُوَحِّدِیکَ أَبْوابَ رَحْمَتِکَ وَلاَ تَحْجُبْ مُشْتاقِیکَ عَنِ النَّظَرِ إلی جَمِیلِ رُؤْیَتِکَ

میرے معبود جو تیری توحید کے پرستار ہیں ان پر رحمت کے دروازے بند نہ کر اور جو تیرا شوق دیدار رکھتے ہیں ان کو اپنی تجلیوں پر نظر کرنے سے محروم نہ کرنا

إلھِی نَفْسٌ أَعْزَزْتَھا بِتَوْحِیدِکَ کَیْفَ تُذِلُّھا بِمَھانَۃِ ھِجْرانِکَ

میرے معبود جس جان کو تو نے اپنی توحید پر ایمان کی عزت دی کیونکراسے ہجر کی اہانت سے ذلیل کرے گا

وَضَمِیرٌ انْعَقَدَ عَلی مَوَدَّتِکَ کَیْفَ تُحْرِقُہُ بِحَرارَۃِ نِیرانِکَ

اور جس دل میں تیری محبت سمائی ہوئی ہے اسکو اپنی آگ کی تپش میں کسطرح جلائے گا

إلھِی أَجِرْنِی مِنْ أَلِیمِ غَضَبِکَ، وَعَظِیمِ سَخَطِکَ

میرے معبود مجھے دردناک غضب اور سخت ناراضی سے بچانا

یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ، یَا رَحِیمُ یَا رَحْمانُ

اے محبت والے اے احسان والے اے مہربان اے رحم والے

یَا جَبَّارُ یَا قَھَّارُ یَا غَفَّارُ یَا سَتَّارُ

اے زبردست اے غلبے والے اے بخشنے والے اے پردہ پوش

نَجِّنِی بِرَحْمَتِکَ مِنْ عَذابِ النَّارِ، وَفَضِیحَۃِ الْعارِ، اِذَا امْتَازَ الْاَخْیَارُ مِنَ الْاَشْرارِ

مجھے اپنی رحمت سے عذاب جہنم سے نجات دے رسوائی پر شرمندگی سے بچا جب نیک لوگ الگ ہوں گے برے لوگوں سے

وَحَالَتِ الْاَحْوَالُ وَھَالَتِ الْاَھْوَالُ، و قَرُبَ الْمُحْسِنُونَ وَبَعُدَ الْمُسِیئُونَ

جب حالات دگرگوں ہوں گے اور خوف و خطر گھیر لیں گے اچھے لوگ قریب کیے جائیں گے اور برے لوگ دھتکارے جائیں گے

وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ ما کَسَبَتْ وَھُمْ لاَیُظْلَمُونَ

اور ہر نفس نے جو کیا وہ پورا پورا پائے گا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

source: mafatih.net

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 August 21 ، 18:59
عون نقوی