بصیرت اخبار

۹ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امیرالمومنین» ثبت شده است

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

متن

انَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَ أَحْکَامٌ تُبْتَدَعُ یُخَالَفُ فِیهَا کِتَابُ اللَّهِ وَ یَتَوَلَّى عَلَیْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَیْرِ دِینِ اللَّهِ فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ یَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِینَ وَ لَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِینَ وَ لَکِنْ یُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ وَ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَیُمْزَجَانِ فَهُنَالِکَ یَسْتَوْلِی الشَّیْطَانُ عَلَى أَوْلِیَائِهِ وَ یَنْجُو الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْحُسْنى.

ترجمہ

فتنوں کے وقوع کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ نئے ایجاد کردہ احکام کہ جن میں قرآن کی مخالفت کی جاتی ہے اور جنہیں فروغ دینے کے لئے کچھ لوگ دین الٰہی کے خلاف باہم ایک دوسرے کے مدد گار ہو جاتے ہیں تو اگر باطل حق کی آمیزش سے خالی ہوتا، تو وہ ڈھونڈنے والوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کے شائبہ سے پاک و صاف سامنے آتا، تو عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہو جائیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے اس موقعہ پر شیطان اپنے دوستوں پر چھا جاتا ہے اور صرف وہی لوگ بچے رہتے ہیں جن کے لئے توفیق الٰہی اور عنایت خداوندی پہلے سے موجود ہو۔(۱)

شرح حدیث

اسلام دین خالص ہے اور خداوند متعال کو فقط و فقط دین خالص مطلوب ہے نہ کہ وہ دین جس میں باطل کی ملاوٹ موجود ہو:
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ.
آگاہ رہو! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے۔(۲)

ایک اور جگہ پر خداوندِ متعال کا ارشاد ہوتا ہے:

فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّه الدِّیۡنَ.
آپ دین کو اسی کے لیے خالص کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔(۳)

ہر دور میں ایسا طبقہ موجود رہا ہے جو دین کے اندر فتنے کھڑے کرتا ہے اور اپنی خواہشات کے عین مطابق ذاتی نظریات کو اسلامی (islamise) کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے حتی کہ ان نظریات میں قرآن کریم کی صریح مخالفت کی گئی ہوتی ہے۔ آج کے دور میں ایسے روشن فکر حضرات موجود ہیں جو ہر غربی فکر و نظریہ کو اسلامی رنگ چڑھاتے ہیں انکے گمان کے مطابق وہ اسلام پر بہت بڑا احسان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جیسے اسلام کا دفاع کر رہے ہوں جبکہ حقیقت میں اسلام کے اندر التقاط یا ملاوٹ کر رہے ہیں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے تجزیہ کے مطابق یہ کام بہت چالاکی سے کیا جاتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ خالص باطل کو اٹھا کر اسلامی کردو ، بلکہ تھوڑا سا باطل سے لیا جاتا ہے اور تھوڑا سا حق سے ، اور پھر ایک نئی شکل سامنے آتی ہے جو مسلمانوں کیلئے بھی قابل قبول ہو اور غیر مسلمین کیلئے بھی۔ یہ التقاط یا ملاوٹ بعض اوقات باطل کی ملاوٹ (mixing) سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات حق میں سے کسی چیز کو کم کر کے مثلا سودی نظام کو اسلامی کرنا ہے تو اسکا نام مثلا اسلامی بینکاری رکھ دو، مغربی تعلیم و تربیت و ثقافت کو سکولوں میں رائج کرنا ہے تو سکول میں حفظ قرآن کا ایک شعبہ کھول دو وغیرہ۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں التقاطی تفکر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ سب حق پر ہیں ، اہل حق بھی درست ہیں اور اہل باطل بھی غلط نہیں ہیں  اور آئندہ آنے والی نسلیں یہی سمجھتی ہیں کہ یہی التقاط شدہ دین ہی اسلام ہے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ شیطان کی کامیابی ہے اور ایسے ماحول میں کامیاب وہی ہے جس کی توفیق الہی سے نگاہ بصیرت کھلی ہوئی ہے اور وہ حق کو باطل سے الگ واضح دیکھ رہا ہے۔

 

 


 

حوالہ جات:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۵۰۔

۲۔ زمر: ۳۔

۳۔ زمر: ۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 22 ، 19:13
عون نقوی

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

عربی متن

سِیَاسَةُ الْعَدْلِ ثَلاَثٌ:
لِیْنٌ فِیْ حَزْمٍ، وَ اِسْتِقْصَاءٌ فِیْ عَدْلٍ، وَ اِفْضَالٌ فِیْ قَصْد.

ترجمہ

عادلانہ سیاست تین چیزوں میں ہے:

۱۔ اپنے کاموں میں میانہ روی اختیار کرنا۔
۲۔ عدالت کے اجراء میں تحقیق کرنا۔
۳۔ مدد کے وقت میانہ روی اختیار کرنا۔(۱)

 

 


حوالہ:

تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم، ج۱، ص۴۳۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 22 ، 18:58
عون نقوی

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

عربی متن

‏أَتَأمُرُونِّى‏ أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فِیمَنْ وُلِّیتُ عَلَیْهِ وَ اللَّهِ ‌‏لا‏ ‌‏أَطُورُ‏ ‌‏بِهِ‌‏ ‌‏ما‏ ‌‏سَمَرَ‏ ‌‏سَمِیرٌ‏، ‏وَ ‏ما ‌‏أَمّ‌‏ ‏نَجْمٌ‏ ‏فِى‏ ‏السَّماءِ ‏نَجْماً وَ لَوْ کانَ الْمالُ لِى لَسَّوَیْتُ بَیْنَهُمْ فَکَیْفَ وَ إِنَّمَا الْمالُ مالُ اللَّهِ، ثُمَّ قالَ عَلَیْهِ السَّلامُ: أَلا وَ إِنَّ إِعْطاءَ الْمالِ فِى غَیْرِ حَقِّهِ تَبْذِیرٌ وَ إِسْرافٌ، وَ هُوَ یَرْفَعُ صاحِبَهُ فِى الدُّنْیا، وَ یَضَعُهُ فِى الاخِرَةِ، وَ یُکْرِمُهُ فِى النّاسِ، وَ یُهِینُهُ عِندَ اللَّهِ، وَ لَمْ یَضَعِ امْرُؤٌ مالَهُ فِى غَیْرِ حَقِّهِ ‏وَ ‏عِنْدَ ‏غَیْرِ ‏أَهْلِهِ‏ إِلّا حَرَمَهُ اللَّهُ شُکْرَهُمْ، وَ کانَ لِغَیْرِهِ وُدُّهُمْ، فَإِنْ زَلَّتْ بِهِ النَّعْلُ یَوْماً فَاحْتاجَ إِلى مَعُونَتِهِمْ ‏فَشَرُّ ‌‏خَدِینٍ‌‏ ‏و ‏أَلْأَمُ‏ ‏خَلِیلٍ‏.

ترجمہ

کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے اس چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔
 اگر یہ سب خود میرا مال بھی ہوتا تب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے، دیکھو بغیر کسی حق کے دود و دہش کرنا بے اعتدالی اور فضول خرچی ہے۔ اور یہ اپنے مرتکب کو دنیا میں بلند کر دیتی ہے لیکن آخرت میں پست کرتی ہے اور لوگوں کے اندر عزت میں اضافہ کرتی ہے مگر اللہ کے نزدیک ذلیل کرتی ہے جو شخص بھی مال کو بغیر استحقاق کے یا نا اہل افراد کو دے گا  ان کی دوستی و محبت بھی دوسروں ہی کے حصہ میں جائے گی اور اگر کسی دن اس کے پیر پھسل جائیں (یعنی فقرو تنگدستی اسے گھیر لے) اور ان کی امداد کا محتاج ہو جائے تو وہ اس کے لیے بہت ہی بُرے ساتھی اور کمینے دوست ثابت ہوں گے۔(۱)

تشریح

نظریہ میکاولینزم کے مطابق *ھدف وسیلہ کے جواز کا سبب ہے* یعنی اگر آپ کے سامنے ایک ھدف موجود ہے تو آپ کو اس ھدف تک پہنچنا ہے اور اس ھدف تک پہنچنے کیلئے آپ ہر قسم کا جائز و ناجائز وسیلہ اختیار کر سکتے ہیں، کیوں ؟؟ اس لئے کہ ھدف وسیلہ کے جواز کا سبب ہے۔ اگر آپ کا ھدف کرسی یعنی اقتدار تک پہنچنا ہے تو آپ اس ھدف تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی معروف یا غیر معروف ، انسانی ، غیر انسانی ، عادلانہ یا غیر عادلانہ وسیلہ اختیار کرسکتے ہیں اگر یہ وسیلہ اختیار نہیں کریں گے تو ھدف یعنی کرسی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر کرسی تک پہنچنے کیلئے افراد کو خریدنا پڑجاۓ تو خرید لیں ، مخالفین کو زدوکوب کرنا پڑے، یہاں تک کے انکو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کریں ، اگر خود اپنے وعدوں اور زبان سے بھی پھرنا پڑے تو یوٹرن لے لیں کیونکہ ڈھٹائی کا وسیلہ اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے لہذا نظریہ میکاولینزم کے تحت آپ یہ وسیلہ اختیار کر سکتے ہیں۔

اس نظریہ کی عملی تطبیق کو ہم اپنی مملکت عزیز میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ نظریہ ضرورت کے تحت جو کہ حقیقی طور پر نظریہ میکاولینزم ہی ہے ، کے تحت ہمارے سیاستدان جو کچھ کرنا چاہیں کر گزرتے ہیں لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اگر کوئی سوال یا اعتراض اٹھایا بھی جاۓ تو کہا جاتا ہے یہ اقدام نظریہ ضرورت کے تحت اٹھایا گیا۔ نظریہ ضرورت یا وہی نظریہ میکاولینزم کی امت اسلامی میں جس نے پہلی بار بنیاد رکھی وہ امیر شام معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔ یعنی آج کل کی رائج سیاست کا بانی بھی امیر شام شمار ہوتا ہے یعنی اگر آپ کو اگر اقتدار تک پہنچنا ہے تو مملکت اسلامی میں فتنہ کھڑا کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں، امت اسلامی میں جنگیں شروع کرنا کوئی مشکل نہیں ، وقت کے امام کے خلاف کھڑا ہو جانا ، قرآن کریم کو اقتدار کا وسیلہ قرار دینا کوئی مسئلہ نہیں۔ کیونکہ نظریہ ضرورت کہتا ہے کہ یہ سب کام ضرورت پڑنے پر انجام دئیے جا رہے ہیں اور جب ضرورت پڑے تو سب جائز ہے ، نظریہ میکاولینزم کہتا ہے کہ یہ سب ناجائز وسیلہ اختیار کرنا درست ہیں کیونکہ ھدف وسیلہ کو جواز فراہم کرتا ہے۔ سید شریف رضی صریح کرتے ہیں کہ امیرالمومنین ع کے پاس چند افراد آۓ اور آپ کو عرض کی کہ امیر شام افراد کو پیسے دے کر خرید لیتا ہے تو ہمیں بھی چاہئیے کہ معاشرے کے چیدہ چیدہ اہم افراد کو بیت المال سے خریدا جاۓ تاکہ مملکت اسلامی کی بنیاد کی مضبوطی کا سبب بنیں۔ امام ع نے ان کے جواب میں فرمایا کہ ہم ایسے افراد کو اپنے ساتھ ملا کر کسی دوسرے کا حق مار کر ان پر ظلم نہیں کر سکتے اور مال کو عدالت کیساتھ تقسیم کیا جاۓ گا اور پھر فرمایا کہ ایسے افراد دوست تو بن جاتے ہیں لیکن بعد میں جب انکو ہماری ضرورت نہیں رہتی بدترین دوست ثابت ہوتے ہیں۔

 

 


حوالہ:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۲۴۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 21:32
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

امیرالمومنینؑ کی سیاست کی روش اس طرح سے تھی کہ وہ مکاری، حیلہ گری، اور گندے کاموں سے متوسل نہ ہوتے۔ امیرالمومنینؑ کی سیاست میں ایک چیز جو بہت نمایان تھی وہ سیاسی میدانوں میں کامیاب ہونے کے لیے ظلم اور جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔ خود امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ میری سیاست تقوی کے ہمراہ ہے۔ با تقوی سیاست کرتا ہوں۔(۱)

حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 21:01
عون نقوی

امیرالمومنینؑ کے بالمقابل جنگ جمل و نھران و صفین میں جو افراد آۓ وہ بے دین، یا دین دشمن افراد نہیں تھے بلکہ کٹر دیندار اہل نماز، قاریان قرآن مجید و عابد حضرات تھے۔ دیندار تھے دین کے پیرو تھے لیکن دین کی صحیح فہم نہیں رکھتے تھے، دینداروں کی فہم نادرست کا یہ نتیجہ نکلا کہ اپنے وقت کے امامؑ کو کہا کہ تم کافر ہوگئے ہو توبہ کرو۔


 

کربلا میں امام حسینؑ کے مدمقابل دین کے دشمن یا سیکولر افراد جمع نہیں تھے بلکہ دین کے پیروکار جمع تھے لیکن دین کی صحیح سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے اس لئے وقت کے امامؑ کو بے دردی سے شھید کر کے مراسم شکرگزراری برپا کی۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوفیوں نے امام حسینؑ کے قتل ہونے پر شکرانے کے طور پر کوفہ میں چار مساجد کی بنیاد رکھی:

۱۔ مسجد اشعث
۲۔ مسجد جریر
۳۔ مسجد سماک
۴۔ مسجد شبث بن ربعی(۱)

 

 


حوالہ:
۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص۴۹۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 11:04
عون نقوی