بصیرت اخبار

۲۴۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «بصیرت اخبار» ثبت شده است

لِیَتَاَسَّ صَغِیْرُکُمْ بِکَبِیْرِکُمْ، وَلْیَرْاَفْ کَبِیْرُکُمْ بِصَغِیْرِکُمْ، وَ لَا تَکُوْنُوْا کَجُفَاةِ الْجَاهِلِیَّةِ: لَا فِی الدِّیْنِ یَتَفَقَّهُوْنَ، وَ لَا عَنِ اللهِ یَعْقِلُوْنَ، کَقَیْضِ بَیْضٍ فِیْۤ اَدَاحٍ یَّکُوْنُ کَسْرُهَا وِزْرًا، وَ یُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرًّا.

تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کو چاہئے کہ وہ چھوٹوں سے شفقت و مہربانی سے پیش آئیں۔ زمانۂ جاہلیت کے ان اُجڈ آدمیوں کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جو نہ دین میں فہم و بصیرت سے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔ وہ ان انڈوں کے چھلکوں کی طرح ہیں جو شتر مرغوں کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوں جن کا توڑنا گناہ معلوم ہوتا ہے مگر انہیں سینے کیلئے چھوڑ دینا ایذا رساں بچوں کے نکالنے کا سبب ہوتا ہے۔ [۱]

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اِفْتَرَقُوْا بَعْدَ اُلْفَتِهِمْ، وَ تَشَتَّتُوْا عَنْ اَصْلِهِمْ، فَمِنْهُمْ اٰخِذٌۢ بِغُصْنٍ اَیْنَما مَالَ مَالَ مَعَهٗ. عَلٰۤی اَنَّ اللهَ تَعَالٰی سَیَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ یَوْمٍ لِّبَنِیْۤ اُمَیَّةَ، کَمَا تَجْتَمِـعُ قَزَعُ الْخَرِیْفِ! یُؤَلِّفُ اللهُ بَیْنَهُمْ، ثُمَّ یَجْعَلُهُمْ رُکَامًا کَرُکَامِ السَّحَابِ، ثُمَّ یَفْتَحُ لَهُمْ اَبْوَابًا، یَسِیْلُوْنَ مِنْ مُّسْتَثَارِهِمْ کَسَیْلِ الْجَنَّتَیْنِ، حَیْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَیْهِ قَارَةٌ،وَ لَمْ تَثْبُتْ عَلَیْهِ اَکَمَةٌ، وَ لَمْ یَرُدَّ سَنَنَهٗ رَصُّ طَوْدٍ، وَ لَا حِدَابُ اَرْضٍ.

وہ الفت و یکجائی کے بعد الگ الگ اور اپنے مرکز سے منتشر ہو گئے ہوں گے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ایک شاخ کو پکڑے رہیں گے کہ جدھر یہ جھکے ادھر وہ جھکیں گے، یہاں تک کہ اللہ جلد ہی اس دن کیلئے کہ جو بنی امیہ کیلئے بدترین دن ہو گا انہیں اس طرح جمع کرے گا جس طرح خریف کے موسم میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں۔ اللہ ان کے درمیان محبت و دوستی پیدا کرے گا اور پھر ان کا تہ بہ تہ جمے ہوئے ابر کی طرح ایک مضبوط جتھا بنا دے گا اور ان کیلئے دروازوں کو کھول دے گا کہ وہ اپنے ابھرنے کے مقام سے شہر سبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہہ نکلیں گے جس سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اور نہ کوئی ٹیلہ اس کے سامنے ٹک سکا تھا اور نہ پہاڑ کی مضبوطی اور نہ زمین کی اونچائی اس کا دھارا موڑ سکی تھی۔

یُذَعْذِعُهُمُ اللهُ فِیْ بُطُوْنِ اَوْدِیَتِهٖ، ثُمَّ یَسْلُکُهُمْ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ، یَاْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوْقَ قَوْمٍ، وَ یُمَکِّنُ لِقَوْمٍ فِیْ دِیَارِ قَوْمٍ. وَایْمُ اللهِ! لَیَذُوْبَنَّ مَا فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ وَالتَّمْکِیْنِ، کَمَا تَذُوْبُ الْاَلْیَةُ عَلَی النَّارِ.

اللہ سبحانہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق کر دے گا۔ پھر انہیں چشموں (کے بہاؤ) کی طرح زمین میں پھیلا دے گا اور ان کے ذریعہ سے کچھ لوگوں کے حقوق کچھ لوگوں سے لے گا اور ایک قوم کو دوسری قوم کے شہروں پر متمکن کر دے گا۔ خدا کی قسم! ان کی سر بلندی و اقتدار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گا اس طرح پگھل جائے گا جس طرح آگ پر چربی۔

اَیُّهَا النَّاسُ! لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوْا عَنْ نَّصْرِ الْحَقِّ، وَ لَمْ تَهِنُوْا عَنْ تَوْهِیْنِ الْبَاطِلِ، لَمْ یَطْمَعْ فِیْکُمْ مَنْ لَّیْسَ مِثْلَکُمْ، وَ لَمْ یَقْوَ مَنْ قَوِیَ عَلَیْکُمْ، لٰکِنَّکُمْ تِهْتُمْ مَتَاهَ بَنِیْۤ اِسْرَآئِیْلَ. وَ لَعَمْرِیْ! لَیُضَعَّفَنَّ لَکُمُ التِّیْهُ مِنْۢ بَعْدِیْۤ اَضْعَافًا، بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَآءَ ظُهُوْرِکُمْ، وَ قَطَعْتُمُ الْاَدْنٰی، وَ وَصَلْتُمُ الْاَبْعَدَ.

اے لوگو! اگر تم حق کی نصرت و امداد سے پہلو نہ بچاتے اور باطل کو کمزور کرنے سے کمزوری نہ دکھاتے تو جو تمہارا ہم پایہ نہ تھا وہ تم پر دانت نہ رکھتا اور جس نے تم پر قابو پا لیا وہ تم پر قابو نہ پاتا۔ لیکن تم تو بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے۔ اور اپنی جان کی قسم! میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی، کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّکُمْ اِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِیَ لَکُمْ، سَلَکَ بِکُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُوْلِ، وَ کُفِیْتُمْ مَؤٗنَةَ الْاِعْتِسَافِ، وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْاَعْنَاقِ.

یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ ﷺ کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔


مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے ظاہری اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان پر تشدد نہ کیا جائے، مگر اس طرح انہیں چھوڑ دینے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شر و مفاسد پھیلاتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 February 23 ، 15:21
عون نقوی

یَذْکُرُ فِیْهَا عَجِیْبَ خِلْقَةِ الطَّاوٗسِ

جس میں مور [۱] کی عجیب و غریب آفرینش کا تذکرہ فرمایا ہے

اِبْتَدَعَهُمْ خَلْقًا عَجِیْبًا مِّنْ حَیَوَانٍ وَّ مَوَاتٍ، وَ سَاکِنٍ وَّ ذِیْ حَرَکَاتٍ، وَ اَقَامَ مِنْ شَوَاهِدِ الْبَیِّنَاتِ عَلٰی لَطِیْفِ صَنْعَتِهٖ، وَ عَظِیْمِ قُدْرَتِهٖ، مَا انْقَادَتْ لَهُ الْعُقُوْلُ مُعْتَرِفَةًۢ بِهٖ، وَ مُسَلِّمَةً لَّهٗ، وَ نَعَقَتْ فِیْۤ اَسْمَاعِنَا دَلَآئِلُهٗ عَلٰی وَحْدَانِیَّتِهٖ، وَ مَا ذَرَاَ مِنْ مُّخْتَلِفِ صُوَرِ الْاَطْیَارِ الَّتِیْۤ اَسْکَنَهَاۤ اَخَادِیْدَ الْاَرْضِ، وَ خُرُوْقَ فِجَاجِهَا، وَ رَوَاسِیَ اَعْلَامِهَا، مِنْ ذَاتِ اَجْنِحَةٍ مُّخْتَلِفَةٍ، وَ هَیْئَاتٍ مُّتَبَایِنَةٍ، مُصَرَّفَةٍ فِیْ زِمَامِ التَّسْخِیْرِ، وَ مُرَفْرِفَةٍ بِاَجْنِحَتِهَا فِیْ مَخَارِقِ الْجَوِّ الْمُنْفَسِحِ وَ الْفَضَآءِ الْمُنْفَرِجِ. کَوَّنَهَا بَعْدَ اِذْ لَمْ تَکُنْ فِیْ عَجآئِبِ صُوَرٍ ظَاهِرَةٍ، وَ رَکَّبَهَا فِیْ حِقَاقِ مَفَاصِلَ مُحْتَجِبَةٍ.

قدرت نے ہر قسم کی مخلوق کو وہ جاندار ہو یا بے جان، ساکن ہو یا متحرک عجیب و غریب آفرینش کا جامہ پہنا کر ایجاد کیا ہے اور اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت پر ایسی واضح نشانیاں شاہد بنا کر قائم کی ہیں کہ جن کے سامنے عقلیں اس کی ہستی کا اعتراف اور اس کی (فرمانبرداری) کا اقرار کرتے ہوئے سر اطاعت خم کر چکی ہیں اور اس کی یکتائی پر یہی عقل کی تسلیم کی ہوئی اور (اس کے خالق بے مثال ہونے پر) مختلف شکل و صورت کے پرندوں کی آفرینش سے ابھری ہوئی دلیلیں ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ وہ پرندے جن کو اس نے زمین کے گڑھوں، درّوں کے شگافوں اور مضبوط پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسایا ہے، جو مختلف طرح کے پر و بال اور جداگانہ شکل و صورت والے ہیں۔ جنہیں تسلط (الٰہی) کی باگ ڈور میں گھمایا پھرایا جاتا ہے اور جو کشادہ ہوا کی وسعتوں اور کھلی فضاؤں میں پروں کو پھڑپھڑاتے ہیں۔ انہیں جبکہ یہ موجود نہ تھے عجیب و غریب ظاہری صورتوں سے (آراستہ کرکے) پیدا کیا اور (گوشت و پوست میں) ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے (جسموں کی) ساخت قائم کی۔

وَ مَنَعَ بَعْضَهَا بِعَبَالَةِ خَلْقِهٖ اَنْ یَّسْمُوَ فِی الْهَوَآءِ خُفُوْفًا، وَ جَعَلَهٗ یَدِفُّ دَفِیْفًا، وَ نَسَقَهَا عَلَی اخْتِلَافِهَا فِی الْاَصَابِیْغِ بِلَطِیْفِ قُدْرَتِهٖ، وَ دَقِیْقِ صَنْعَتِهٖ، فَمِنْهَا مَغْمُوْسٌ فِیْ قَالَبِ لَوْنٍ لَّا یَشُوْبُهٗ غَیْرُ لَوْنِ مَا غُمِسَ فِیْهِ، وَ مِنْهَا مَغْمُوْسٌ فِیْ لَوْنِ صِبْغٍ قَدْ طُوِّقَ بِخِلَافِ مَا صُبِـغَ بِهٖ.

ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں ان کے جسموں کے بوجھل ہونے کی وجہ سے فضا میں بلند ہو کر تیز پروازی سے روک دیا ہے اور انہیں ایسا بنایا ہے کہ وہ زمین سے کچھ تھوڑے ہی اونچے ہو کر پرواز کر سکیں۔ اس نے اپنی لطیف قدرت اور باریک صنعت سے ان قسم قسم کے پرندوں کو (مختلف) رنگوں سے ترتیب دیا ہے۔ چنانچہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ایک ہی رنگ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ یوں کہ جس رنگ میں انہیں ڈبویا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اور رنگ کی ان میں آمیزش نہیں کی گئی اور بعض اس طرح رنگ میں ڈبوئے گئے ہیں کہ جس رنگ کا طوق انہیں پہنا دیا گیا ہے وہ اس رنگ سے نہیں ملتا جس سے خود رنگین ہیں۔

وَ مِنْ اَعْجَبِهَا خَلْقًا الطَّاوٗسُ، الَّذِیْۤ اَقَامَهٗ فِیْۤ اَحْکَمِ تَعْدِیْلٍ، وَ نَضَّدَ اَلْوَانَهٗ فِیْۤ اَحْسَنِ تَنْضِیْدٍ، بِجَنَاحٍ اَشْرَجَ قَصَبَهٗ، وَ ذَنَبٍ اَطَالَ مَسْحَبَهٗ. اِذَا دَرَجَ اِلَی الْاُنْثٰی نَشَرَهٗ مِنْ طَیِّهِ، وَ سَمَا بِهٖ مُطِلًّا عَلٰی رَاْسِهٖ، کَاَنَّهٗ قِلْعُ دَارِیٍّ عَنَجَهٗ نُوْتِیُّهٗ، یَخْتَالُ بِاَلْوَانِهٖ، وَ یَمِیْسُ بِزَیَفَانِهٖ، یُفْضِیْ کَاِفْضَآءِ الدِّیَکَةِ، وَ یَؤُرُّ بِمُلَاقَحَۃٍ اَرَّ الْفُحُوْلِ الْمُغْتَلِمَةِ لِلضِّرَابِ.

ان سب پرندوں سے زائد عجیب الخلقت مور ہے کہ (اللہ نے) جس کے (اعضاء کو) موزونیت کے محکم ترین سانچے میں ڈھالا ہے اور اس کے رنگوں کو ایک حسین ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ یہ (حسن و توازن) ایسے پروں سے ہے کہ جن کی جڑوں کو (ایک دوسرے سے) جوڑ دیا ہے اور ایسی دُم سے ہے جو دور تک کھنچتی چلی جاتی ہے۔ جب وہ اپنی مادہ کی طرف بڑھتا ہے تو اپنی لپٹی ہوئی دُم کو پھیلا دیتا ہے اور اسے اس طرح اونچا لے جاتا ہے کہ وہ اس کے سر پر سایہ افگن ہو کر پھیل جاتی ہے۔ گویا وہ (مقام) دارین کی اس کشتی کا بادبان ہے جسے اس کا ملاح اِدھر ُادھر موڑ رہا ہو، وہ اس کے رنگوں پر اتراتا ہے اور اس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور مرغوں کی طرح جفتی کھاتا ہے اور (اپنی مادہ کو) حاملہ کرنے کیلئے جوش و ہیجان میں بھرے ہوئے نروں کی طرح جوڑ کھاتا ہے۔

اُحِیْلُکَ مِنْ ذٰلِکَ عَلٰی مُعَایَنَةٍ، لَا کَمَنْ یُحِیْلُ عَلٰی ضَعِیْفٍ اِسْنَادُهٗ، وَ لَوْ کَانَ کَزَعْمِ مَنْ یَزْعُمُ اَنَّهٗ یُلْقِحُ بِدَمْعَةٍ تَسْفَحُهَا مَدَامِعُهٗ، فَتَقِفُ فِیْ ضَفَّتَیْ جُفُوْنِهٖ، وَ اَنَّ اُنْثَاهُ تَطْعَمُ ذٰلِکَ، ثُمَّ تَبِیْضُ لَا مِنْ لِّقَاحِ فَحْلٍ سِوَی الدَّمْعِ الْمُنْبَجِسِ، لَمَا کَانَ ذٰلِکَ بِاَعْجَبَ مِنْ مُّطَاعَمَةِ الْغُرَابِ!.

میں اس (بیان) کیلئے مشاہدہ کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اس شخص کی طرح نہیں کہتا جو کسی کمزور سند کا حوالہ دے رہا ہو۔ گمان کرنے والوں کا یہ صرف وہم و گمان ہے کہ وہ اپنے گوشہ ہائے چشم کے بہائے ہوئے اس آنسو سے اپنی مادہ کو انڈوں پر لاتا ہے کہ جو اس کی پلکوں کے دونوں کناروں میں آ کر ٹھہر جاتا ہے اور مورنی اسے پی لیتی ہے اور پھر وہ انڈے دینے لگتی ہے اور اس پھوٹ کر نکلنے والے آنسو کے علاوہ یوں نر اُس سے جفتی نہیں کھاتا۔ اگر ایسا ہو تو بھی (ان کے خیال کے مطابق) کوے کے اپنی مادہ کو (پوٹے سے دانا پانی) بھرا کر انڈوں پر لانے سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے۔

تَخَالُ قَصَبَهٗ مَدَارِیَ مِنْ فِضَّةٍ، وَ مَاۤ اُنْۢبِتَ عَلَیْهَا مِنْ عَجِیْبِ دَارَاتِهٖ، وَ شُمُوْسِهٖ خَالِصَ الْعِقْیَانِ، وَ فِلَذَ الزَّبَرْجَدِ. فَاِنْ شَبَّهْتَهٗ بِمَاۤ اَنْۢبَتَتِ الْاَرْضُ قُلْتَ: جَنِیٌ جُنِیَ مِنْ زَهْرَةِ کُلِّ رَبِیْعٍ، وَ اِنْ ضَاهَیْتَهٗ بِالْمَلَابِسِ فَهُوَ کَمَوْشِیِّ الْحُلَلِ اَوْ کَمُوْنِقِ عَصْبِ الْیَمَنِ، وَ اِنْ شَاکَلْتَهٗ بِالْحُلِیِّ فَهُوَ کَفُصُوْصٍ ذَاتِ اَلْوَانٍ، قَدْ نُطِّقَتْ بِاللُّجَیْنِ الْمُکَلَّلِ.

(تم اگر بغور دیکھو گے) تو اس کے پروں کی درمیانی تیلیوں کو چاندی کی سلائیاں تصور کرو گے اور ان پر جو عجیب و غریب ہالے بنے ہوئے ہیں اور سورج (کی شعاعوں) کے مانند (جو پر و بال) اُگے ہوئے ہیں (انہیں زردی میں) خالص سونا اور (سبزی میں) زمرد کے ٹکڑے خیال کرو گے۔ اگر تم اسے زمین کی اُگائی ہوئی چیزوں سے تشبیہ دو گے تو یہ کہو گے کہ وہ ہر موسم بہار کے چنے ہوئے شگوفوں کا گلدستہ ہے اور اگر کپڑوں سے تشبیہ دو گے تو وہ منقش حُلّوں یا خوشنما یمنی چادروں کے مانند ہے اور اگر زیورات سے تشبیہ دو گے تو وہ رنگ برنگ کے ان نگینوں کی طرح ہے جو مرصع بجواہر چاندی میں دائروں کی صورت میں پھیلا دئیے گئے ہوں۔

یَمْشِیْ مَشْیَ الْمَرِحِ الْمُخْتَالِ، وَ یَتَصَفَّحُ ذَنَۢبَهٗ وَ جَنَاحَیْهٗ، فَیُقَهْقِهٗ ضَاحِکًا لِّجَمَالِ سِرْبَالِهٖ، وَ اَصَابِیْغِ وِشَاحِهٖ، فَاِذَا رَمٰی بِبَصَرِهٖۤ اِلٰی قَوَآئِمِهٖ زَقَا مُعْوِلًۢا بِصَوْتٍ یَّکَادُ یُبِیْنُ عَنِ اسْتِغَاثَتِهٖ، وَ یَشْهَدُ بِصَادِقِ تَوَجُّعِهٖ، لِاَنَّ قَوَآئِمَهٗ حُمْشٌ کَقَوَآئِمِ الدِّیَکَةِ الْخِلَاسِیَّةِ.

وہ اس طرح چلتا ہے جس طرح کوئی ہشاش بشاش اور متکبر محو خرام ہوتا ہے اور اپنی دم اور پر و بال کو غور سے دیکھتا ہے تو اپنے پیراہن کے حسن و جمال اور اپنے گلوبند کی رنگتوں کی وجہ سے قہقہہ لگا کر ہنستا ہے، مگر جب اپنے پیروں پر نظر ڈالتا ہے تو اس طرح اونچی آواز سے روتا ہے کہ گویا اپنی فریاد کو ظاہر کر رہا ہے اور اپنے سچے درد (دل) کی گواہی دے رہا ہے۔ کیونکہ اس کے پیر خاکستری رنگ کے دوغلے مرغوں کے پیروں کی طرح باریک اور پتلے ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارے پر ایک باریک سا کانٹا نمایاں ہوتا ہے۔

وَ قَدْ نَجَمَتْ مِنْ ظُنْبُوْبِ سَاقِهٖ صِیْصِیَّةٌ خَفِیَّةٌ، وَ لَهٗ فِیْ مَوْضِعِ الْعُرْفِ قُنْزُعَةٌ خَضْرَآءُ مُوَشَّاةٌ، وَ مَخْرَجُ عَنُقِهٖ کَالْاِبْرِیْقِ، وَ مَغْرَزُهَاۤ اِلٰی حَیْثُ بَطْنُهٗ کَصِبْغِ الْوَسِمَةِ الْیَمَانِیَّةِ، اَوْ کَحَرِیْرَةٍ مُّلْبَسَةٍ مِّرْاٰةً ذَاتَ صِقَالٍ، وَ کَاَنَّهٗ مُتَلَفِّـعٌۢ بِمِعْجَرٍ اَسْحَمَ، اِلَّاۤ اَنَّهٗ یُخَیَّلُ لِکَثْرَةِ مَآئِهٖ، وَ شِدَّةِ بَرِیْقِهٖ، اَنَّ الْخُضْرَةَ النَّاضِرَةَ مُمْتَزِجَةٌۢ بِهٖ، وَ مَعَ فَتْقِ سَمْعِهٖ خَطٌّ کَمُسْتَدَقِّ الْقَلَمِ فِیْ لَوْنِ الْاُقْحُوَانِ، اَبْیَضُ یَّقَقٌ، فَهُوَ بِبَیَاضِهٖ فِیْ سَوَادِ مَا هُنَالِکَ یَاْتَلِقُ.

اور اس کی (گردن پر) ایال کی جگہ سبز رنگ کے منقش پروں کا گچھا ہوتا ہے اور گردن کا پھیلاؤ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے صراحی (کی گردن) اور اس کے گڑنے کی جگہ سے لے کر وہاں تک کا حصہ کہ جہاں اس کا پیٹ ہے یمنی وسمہ کے رنگ کی طرح (گہرا سبز) ہے یا اس ریشم کی طرح ہے جو صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنا دیا گیا ہو، گویا کہ وہ سیاہ رنگ کی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے، لیکن اس کی آب و تاب کی فراوانی اور چمک دمک کی بہتات سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس میں تر و تازہ سبزی کی (الگ سے) آمیزش کر دی گئی ہے۔ اس کے کانوں کے شگاف سے ملی ہوئی بابونہ کے پھولوں جیسی ایک سفید چمکیلی لکیر ہوتی ہے۔ جو قلم کی باریک نوک کے مانند ہے وہ (لکیر) اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہیوں میں جگمگاتی ہے۔

وَ قَلَّ صِبْغٌ اِلَّا وَ قَدْ اَخَذَ مِنْهُ بِقِسْطٍ، وَ عَلَاهُ بِکَثْرَةِ صِقَالِهٖ وَ بَرِیْقِهٖ، وَ بَصِیْصِ دِیْبَاجِهٖ وَ رَوْنَقِهٖ، فَهُوَ کَالْاَزَاهِیْرِ الْمَبْثُوثَةِ، لَمْ تُرَبِّهَاۤ اَمْطَارُ رَبِیْعٍ، وَ لَا شُمُوْسُ قَیْظٍ. وَ قَدْ یَتَحَسَّرُ مِنْ رِّیْشِهٖ، وَ یَعْرٰی مِنْ لِّبَاسِهٖ، فَیَسْقُطُ تَتْرٰی، وَ یَنْۢبُتُ تِبَاعًا، فَیَنْحَتُّ مِنْ قَصَبِهِ انْحِتَاتَ اَوْرَاقِ الْاَغْصَانِ، ثُمَّ یَتَلَاحَقُ نَامِیًا حَتّٰی یَعُوْدَ کَهَیْئَتِهٖ قَبْلَ سُقُوْطِهٖ، لَا یُخَالِفُ سَالِفَ اَلْوَانِهٖ، وَ لَا یَقَعُ لَوْنٌ فِیْ غَیْرِ مَکَانِهٖ! وَ اِذَا تَصَفَّحْتَ شَعْرَةً مِّنْ شَعَرَاتِ قَصَبِهٖ اَرَتْکَ حُمْرَةً وَّرْدِیَّةً، وَ تَارَةً خُضْرَةً زَبَرْجَدِیَّةً، وَ اَحْیَانًا صُفْرَةً عَسْجَدِیَّةً.

کم ہی ایسے رنگ ہوں گے جس نے سفید دھاری کا کچھ حصہ نہ لیا ہو اور وہ ان رنگوں پر اپنی آب و تاب کی زیادتی، اپنے پیکر ِریشمیں کی چمک دمک اور زیبائش کی وجہ سے چھائی ہوئی ہے۔ وہ ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہے کہ جنہیں نہ فصل بہار کی بارشوں نے پروان چڑھایا ہو اور نہ گرمیوں کے سورج نے پرورش کیا ہو وہ کبھی اپنے پر و بال سے برہنہ اور اپنے رنگین لباس سے عریاں ہو جاتا ہے، اس کے بال و پر لگاتار جھڑتے ہیں اور پھر پے درپے اُگنے لگتے ہیں، وہ اس کے بازوؤں سے اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح ٹہنیوں سے پتے، یہاں تک کہ جھڑنے سے پہلے جو شکل و صورت تھی اسی کی طرف پلٹ آتا ہے اور اپنے پہلے رنگوں سے سر مو اِدھر سے اُدھر نہیں ہوتا اور نہ کوئی رنگ اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ اختیار کرتا ہے۔ جب اس کے پروں کے ریشوں سے کسی ریشے کو تم غور سے دیکھو گے تو وہ تمہیں کبھی گلاب کے پھولوں جیسی سرخی اور کبھی زمرد جیسی سبزی اور کبھی سونے جیسی زردی کی (جھلکیاں) دکھائے گا۔

فَکَیْفَ تَصِلُ اِلٰی صِفَةِ هٰذَا عَمَآئِقُ الْفِطَنِ، اَوْ تَبْلُغُهٗ قَرَآئِحُ الْعُقُوْلِ، اَوْ تَسْتَنْظِمُ وَصْفَهٗ اَقْوَالُ الْوَاصِفِیْنَ! وَ اَقَلُّ اَجْزَآئِهٖ قَدْ اَعْجَزَ الْاَوْهَامَ اَنْ تُدْرِکَهٗ، وَ الْاَلْسِنَةَ اَنْ تَصِفَهٗ!.

(غور تو کرو کہ) ایک ایسی مخلوق کی صفتوں تک فکروں کی گہرائیاں کیوں کر پہنچ سکتی ہیں؟ یا عقلوں کی طبع آزمائیاں کس طرح وہاں تک رسائی پا سکتی ہیں؟ یا بیان کرنے والوں کے کلمات کیونکر اس کے وصفوں کو ترتیب دے سکتے ہیں؟ کہ جس کے چھوٹے سے چھوٹے جز نے بھی واہموں کو سمجھنے سے عاجز اور زبانوں کو بیان کرنے سے درماندہ کر دیا ہو۔

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بَهَرَ الْعُقُوْلَ عَنْ وَّصْفِ خَلْقٍ جَلَّاهُ لِلْعُیُوْنِ، فَاَدْرَکَتْهُ مَحْدُوْدًا مُّکَوَّنًا، وَ مُؤَلَّفًا مُّلَـوَّنًا، وَ اَعْجَزَ الْاَلْسُنَ عَنْ تَلْخِیْصِ صِفَتِهٖ، وَ قَعَدَ بِهَا عَنْ تَاْدِیَةِ نَعْتِهٖ!.

تو پاک ہے وہ ذات کہ جس نے ایک ایسی مخلوق کی حالت بیان کرنے سے بھی عقلوں کو مغلوب کر رکھا ہے کہ جسے آنکھوں کے سامنے نمایاں کر دیا تھا اور ان (آنکھوں) نے اس کو ایک حد میں گھرا ہوا اور (اجزا) سے مرکب اور (مختلف رنگوں سے) رنگین صورت میں دیکھ بھی لیا اور جس نے زبانوں کو اس (مخلوق) کے وصفوں کا خلاصہ کرنے سے عاجز اور اس کی صفتوں کے بیان کرنے سے درماندہ کر دیا ہے۔

وَ سُبْحَانَ مَنْ اَدْمَجَ قَوَآئِمَ الذَّرَّةِ وَ الْهَمَجَةِ اِلٰی مَا فَوْقَهُمَا مِنْ خَلْقِ الْحِیْتَانِ وَ الْفِیَلَةِ! وَ وَاٰی عَلٰی نَفْسِهٖۤ اَنْ لَّا یَضْطَرِبَ شَبَحٌ مِّمَّاۤ اَوْلَجَ فِیْهِ الرُّوْحَ، اِلَّا وَ جَعَلَ الْحِمَامَ مَوْعِدَهٗ، وَ الْفَنَآءَ غَایَتَهٗ.

اور پاک ہے وہ خدا کہ جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مخلوق مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم کیا ہے اور اپنی ذات پر لازم کر لیا ہے کہ کوئی پیکر کہ جس میں اس نے روح داخل کی ہے جنبش نہیں کھائے گا مگر یہ کہ موت کو اس کی وعدہ گاہ اور فنا کو اس کی حد آخر قرار دے گا۔

[مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ الْجَنَّةِ]

[اس خطبہ کا یہ حصہ جنت کے بیان میں ہے]

فَلَوْ رَمَیْتَ بِبَصَرِ قَلْبِکَ نَحْوَ مَا یُوْصَفُ لَکَ مِنْهَا لَعَزَفَتْ نَفْسُکَ عَنْۢ بَدَآئِعِ مَاۤ اُخْرِجَ اِلَی الدُّنْیَا مِنْ شَهَوَاتِهَا وَ لَذَّاتِهَا، وَ زَخَارِفِ مَنَاظِرِهَا، وَ لَذَهِلَتْ بِالْفِکْرِ فِی اصْطِفَاقِ اَشْجَارٍ غُیِّبَتْ عُرُوْقُهَا فِیْ کُثْبَانِ الْمِسْکِ عَلٰی سَوَاحِلِ اَنْهَارِهَا، وَ فِیْ تَعْلِیْقِ کَبَآئِسِ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ فِیْ عَسَالِیْجِهَا وَ اَفْنَانِهَا، وَ طُلُوْعِ تِلْکَ الثِّمَارِ مُخْتَلِفَةً فِیْ غُلُفِ اَکْمَامِهَا، تُجْنٰی مِنْ غَیْرِ تَکَلُّفٍ فَتَاْتِیْ عَلٰی مُنْیَةِ مُجْتَنِیْهَا، وَ یُطَافُ عَلٰی نُزَّالِهَا فِیْۤ اَفْنِیَةِ قُصُوْرِهَا بِالْاَعْسَالِ الْمُصَفَّقَةِ، وَ الْخُمُوْرِ الْمُرَوَّقَةِ. قَوْمٌ لَّمْ تَزَلِ الْکَرَامَةُ تَتَمَادٰی بِهِمْ حَتّٰی حَلُّوْا دَارَ الْقَرَارِ، وَ اَمِنُوْا نُقْلَةَ الْاَسْفَارِ.

اگر تم دیدہ دل سے جنت کی ان کیفیتوں پر نظر کرو جو تم سے بیان کی جاتی ہیں تو تمہارا نفس دنیا میں پیش کی ہوئی عمدہ سے عمدہ خواہشوں اور لذتوں اور اس کے مناظر کی زیبائشوں سے نفرت کرنے لگے گا اور وہ ان درختوں کے پتوں کے کھڑکھڑانے کی آوازوں میں کہ جن کی جڑیں جنت کی نہروں کے کناروں پر مشک کے ٹیلوں میں ڈوبی ہوئی ہیں کھو جائے گا اور ان کی بڑی اور چھوٹی ٹہنیوں میں تر و تازہ موتیوں کے گچھوں کے لٹکنے اور سبز پتیوں کے غلافوں میں مختلف قسم کے پھلوں کے نکلنے کے (نظاروں) میں محو ہو جائے گا۔ ایسے پھل کہ جو بغیر کسی زحمت کے چنے جا سکتے ہیں اور چننے والے کی خواہش کے مطابق آگے بڑھ آتے ہیں۔ وہاں کے بلند ایوانوں کے صحنوں میں اترنے والے مہمانوں کے گرد پاک و صاف شہد اور صاف ستھری شراب (کے جام) گردش میں لائے جائیں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ کی بخشش و عنایت ہمیشہ ان کے شامل حال رہی یہاں تک کہ وہ اپنی جائے قیام میں اتر پڑے اور سفروں کی نقل و حرکت سے آسودہ ہو گئے۔

فَلَوْ شَغَلْتَ قَلْبَکَ اَیُّهَا الْمُسْتَمِـعُ بِالْوُصُوْلِ اِلٰی مَا یَهْجُمُ عَلَیکَ مِنْ تِلْکَ الْمَنَاظِرِ الْمُوْنِقَةِ، لَزَهَقَتْ نَفْسُکَ شَوْقًا اِلَیْهَا، وَ لَتَحَمَّلْتَ مِنْ مَجْلِسِیْ هٰذَاۤ اِلٰی مُجَاوَرَةِ اَهْلِ الْقُبُوْرِ اسْتِعْجَالًۢا بِهَا. جَعَلَـنَا اللهُ وَ اِیَّاکُمْ مِمَّنْ یَّسْعٰی بِقَلْبِهٖ اِلٰی مَنَازِلِ الْاَبْرَارِ بِرَحْمَتِهٖ.

اے سننے والے! اگر تو ان دلکش مناظر تک پہنچنے کیلئے اپنے نفس کو متوجہ کرے جو تیری طرف ایک دم آنے والے ہیں تو اس کے اشتیاق میں تیری جان ہی نکل جائے گی اور اسے جلد سے جلد پا لینے کیلئے میری اس مجلس سے اٹھ کر قبروں میں رہنے والوں کی ہمسائیگی اختیار کرنے کیلئے آمادہ ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ اپنی رحمت سے ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جو نیک بندوں کی منزل تک پہنچنے کی (سر توڑ) کوشش کرتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 February 23 ، 15:18
عون نقوی

لَمَّا اجْتَمَعَ النَّاسُ اِلَیْهِ وَ شَکَوْا مَا نَقَمُوْهُ عَلٰى عُثْمَانَ، وَ سَئَلُوْهُ مُخَاطَبَتَهٗ عَنْهُمْ وَ اسْتِعْتَابَهٗ لَهُمْ، فَدَخَلَ ؑ عَلَیْہِ فَقَالَ:

جب امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس لوگ جمع ہو کر آئے اور عثمان کے متعلق جو باتیں انہیں بری معلوم ہوئی تھیں ان کا گلہ کیا اور چاہا کہ حضرتؑ ان کی طرف سے ان سے بات چیت کریں اور لوگوں کو رضا مند کرنے کا ان سے مطالبہ کریں۔ چنانچہ آپؑ تشریف لے گئے اور ان سے کہا کہ:

اِنَّ النَّاسَ وَرَآئِیْ، وَ قَدِ اسْتَسْفَرُوْنِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَهُمْ، وَ وَاللهِ! مَاۤ اَدْرِیْ مَاۤ اَقُوْلُ لَکَ! مَاۤ اَعْرِفُ شَیْئًا تَجْهَلُهٗ، وَ لَا اَدُلُّکَ عَلٰۤی اَمْرٍ لَّا تَعْرِفُهٗ، اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ، مَا سَبَقْنَاکَ اِلٰی شَیْءٍ فَنُخْبِرَکَ عَنْهُ، وَ لَا خَلَوْنَا بِشَیْءٍ فَنُبَلِّغَکَهٗ، وَ قَدْ رَاَیْتَ کَمَا رَاَیْنَا، وَ سَمِعْتَ کَمَا سَمِعْنَا، وَ صَحِبْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ کَمَا صَحِبْنَا.

لوگ میرے پیچھے (منتظر) ہیں اور مجھے اس مقصد سے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہارے اور ان کے قضیوں کو نپٹاؤں۔ خدا کی قسم! [۱] میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تم سے کیا کہوں جب کہ میں (اس سلسلہ میں) ایسی کوئی بات نہیں جانتا کہ جس سے تم بے خبر ہو اور نہ کوئی ایسی چیز بتانے والا ہوں کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ جو تم جانتے ہو وہ ہم جانتے ہیں۔ نہ تم سے پہلے ہمیں کسی چیز کی خبر تھی کہ تمہیں بتائیں اور نہ علیحدگی میں کچھ سنا ہے کہ تم تک پہنچائیں۔ جیسے ہم نے دیکھا ویسے تم نے بھی دیکھا اور جس طرح ہم نے سنا تم نے بھی سنا۔ جس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے تم بھی رہے۔

وَ مَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَةَ وَ لَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِاَوْلٰی بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْکَ، وَ اَنْتَ اَقْرَبُ اِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ- وَشِیْجَةَ رَحِمٍ مِّنْهُمَا، وَ قَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِهٖ مَا لَمْ یَنَالَا.

اور حق پر عمل پیرا ہونے کی ذمہ داری ابن ابی قحافہ اور ابن خطاب پر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی کہ تم پر ہونا چاہیے اور تم تو رسول ﷺ سے خاندانی قرابت کی بنا پر ان دونوں سے قریب تر بھی ہو اور ان کی ایک طرح کی دامادی بھی تمہیں حاصل ہے کہ جو انہیں حاصل نہ تھی۔

فَاللهَ اللهَ فِیْ نَفْسِکَ! فَاِنَّکَ ـ وَاللهٖ ـ مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًی، وَ لَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ، وَ اِنَّ الْطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ، وَ اِنَّ اَعْلَامَ الدِّیْنِ لَقَآئِمَةٌ.

کچھ اپنے دل میں اللہ کا بھی خوف کرو۔ خدا کی قسم! اس لئے تمہیں سمجھایا نہیں جا رہا ہے کہ تمہیں کچھ نظر آ نہ سکتا ہو اور نہ اس لئے یہ چیزیں تمہیں بتائی جا رہی ہیں کہ تمہیں علم نہ ہو اور (لاعلمی کے کیا معنی) جب کہ شریعت کی راہیں واضح اور دین کے نشانات قائم ہیں۔

فَاعْلَمْ اَنَّ اَفْضَلَ عِبَادِ اللهِ عِنْدَ اللهِ اِمَامٌ عَادِلٌ، هُدِیَ وَ هَدٰی، فَاَقَامَ سُنَّةً مَّعْلُوْمَةً، وَ اَمَاتَ بِدْعَةً مَّجْهُوْلَةً، وَ اِنَّ السُّنَنَ لَـنَیِّرَةٌ لَّهَاۤ اَعْلَامٌ، وَ اِنَّ الْبِدَعَ لَـظَاهِرَةٌ لَّهَاۤ اَعْلَامٌ، وَ اِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ اِمَامٌ جَآئِرٌ ضَلَّ وَ ضُلَّ بِهٖ، فَاَمَاتَ سُنَّةً مَّاْخُوْذَةً، وَ اَحْیَا بِدْعَةً مَّتْرُوْکَةً.

یاد رکھو کہ اللہ کے نزدیک سب بندوں سے بہتر وہ انصاف پرور حاکم ہے جو خود بھی ہدایت پائے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرے اور جانی پہچانی ہوئی سنت کو مستحکم کرے اور انجانی بدعتوں کو فنا کرے۔ سنتوں کے نشانات جگمگا رہے ہیں اور بدعتوں کی علامتیں بھی واضح ہیں اور اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے بدتر وہ ظالم حکمران ہے جو گمراہی میں پڑا رہے اور دوسرے بھی اس کی وجہ سے گمراہی میں پڑیں اور (رسولؐ سے) حاصل کی ہوئی سنتوں کو تباہ اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کرے۔

وَ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ- یَقُوْلُ: «یُؤْتٰی یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِالْاِمَامِ الْجَآئِرِ وَ لَیْسَ مَعَهٗ نَصِیْرٌ وَّ لَا عَاذِرٌ، فَیُلْقٰی فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ، فَیَدُوْرُ فِیْهَا کَمَا تَدُوْرُ الرَّحٰی، ثُمَّ یَرْتَبِطُ فِیْ قَعْرِهَا».

میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ: «قیامت کے دن ظالم کو اس طرح لایا جائے گا کہ نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی عذر خواہ اور اسے (سیدھا) جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس میں اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی گھومتی ہے اور پھر اسے جہنم کے گہراؤ میں جکڑ دیا جائے گا»۔

وَ اِنِّیْۤ اُنْشِدُکَ اللهَ اَنْ لَّا تَکُوْنَ اِمَامَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ الْمَقْتُوْلَ، فَاِنَّهٗ کَانَ یُقَالُ: یُقْتَلُ فِیْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اِمَامٌ یَّفْتَحُ عَلَیْهَا الْقَتْلَ وَ الْقِتَالَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ، وَ یَلْبِسُ اُمُوْرَهَا عَلَیْهَا، وَ یَبُثُّ الْفِتَنَ فِیْهَا، فَلَا یُبْصِرُوْنَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ، یَمُوْجُوْنَ فِیْهَا مَوْجًا، وَ یَمْرُجُوْنَ فِیْهَا مَرْجًا. فَلَا تَکُوْنَنَّ لِمَرْوَانَ سَیِّقَةً یَّسُوْقُکَ حَیْثُ شَآءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ وَ تَقَضِّی الْعُمُرِ.

میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم اس اُمت کے وہ سربراہ نہ بنو کہ جسے قتل ہی ہونا ہے۔ چونکہ کہا گیا ہے کہ اس اُمت میں ایک ایسا حاکم مارا جائے گا جو اس کیلئے قیامت تک قتل و خون ریزی کا دروازہ کھول دے گا اور اس کے تمام امور کو اشتباہ میں ڈال دے گا اور اس میں فتنوں کو پھیلائے گا کہ وہ لوگ حق کو باطل سے الگ کرکے نہ دیکھ سکیں گے اور وہ فتنوں میں (دریا کی) موجوں کی طرح الٹے پلٹے کھائیں گے اور انہی میں تہ و بالا ہوتے رہیں گے۔ تم مروان کی سواری نہ بن جاؤ کہ وہ تمہیں جہاں چاہے کھینچتا پھرے، جبکہ تم سن رسیدہ بھی ہو چکے ہو اور عمر بھی بیت چکی ہے۔

فَقَالَ لَهٗ عُثْمَانُ: کَلِّمِ النَّاسَ فِیْۤ اَنْ یُّؤَجِّلُوْنِیْ حَتّٰۤی اَخْرُجَ اِلَیْهِمْ مِن مَّظَالِمِهِمْ، فَقالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ:

حضرت عثمان نے کہا کہ: آپؑ ان لوگوں سے بات کریں کہ وہ مجھے (کچھ عرصہ کیلئے) مہلت دیں کہ میں ان کی حق تلفیوں سے عہدہ برآ ہو سکوں۔ تو آپؑ نے فرمایا کہ:

مَاکَانَ بِالْمَدِیْنَةِ فَلَاۤ اَجَلَ فِیْهِ، وَ مَا غَابَ فَاَجَلُهٗ وُصُوْلُ اَمْرِکَ اِلَیْهِ.

جن چیزوں کا تعلق مدینہ سے ہے ان میں تو کوئی مہلت کی ضرورت نہیں۔ البتہ جو جگہیں نگاہوں سے اوجھل (اور دور) ہیں ان کیلئے اتنی مہلت ہوسکتی ہے کہ تمہارا فرمان وہاں تک پہنچ جائے۔


حضرت عثمان کے دور خلافت میں جب حکومت اور اس کے کارندوں کے ستائے ہوئے مسلمان اکابر صحابہ تک اپنی فریاد پہنچانے کیلئے مدینہ میں سمٹ آئے تو پر امن طریق کار اختیار کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے خواہش کی کہ وہ حضرت عثمان سے مل کر انہیں سمجھائیں بجھائیں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق پامال نہ کریں اور ان فتنوں کا سدّ باب کریں جو رعیت کیلئے تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ جس پر حضرتؑ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور اس موقع پر یہ کلام ارشاد فرمایا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے موعظت کی تلخیوں کو خوشگوار بنانے کیلئے تمہید میں وہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے جو اشتعال دلانے کے بجائے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرے اور فرائض کی جانب متوجہ کرے، چنانچہ ان کی صحابیت، شخصی اہمیت اور شیخین کے مقابلہ میں پیغمبر ﷺ سے ان کی خاندانی قرابت کو ظاہر کرنے سے اسی فرض شناسی کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے ورنہ ظاہر ہے کہ یہ موقعہ ان کی مدح سرائی کا نہ تھا کہ آخر کلام سے آنکھیں بند کر کے اسے قصیدۂ شرف سمجھ لیا جائے، جبکہ اس تمہید سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے تھے جان بوجھ کر کرتے تھے۔ ایسا نہ تھا کہ انہیں علم و اطلاع نہ ہو اور لاعلمی کی بنا پر ان کی لغزشوں کو قابل مواخذہ نہ سمجھا جائے۔ ہاں! اگر رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہنے، ان کی تعلیمات کو سننے، ان کے طرز عمل کو دیکھنے اور اسلامی احکام پر مطلع ہونے کے بعد ایسا طور طریقہ اختیار کرنا کہ جس سے دنیائے اسلام چیخ اٹھے کوئی فضیلت ہے تو پھر اس تعریض کو بھی مدح سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ فضیلت نہیں ہے تو پھر اسے بھی مدح نہیں کہا جا سکتا، حالانکہ جن لفظوں کو مدح سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے وہ ان کے جرم کی سنگینی ثابت کرنے کیلئے ہیں، کیونکہ بے خبری و لاعلمی میں جرم اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا جانتے بوجھتے ہوئے جرم کا ارتکاب اس کے وزن کو بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ اگر راستے کے نشیب و فراز سے ناواقف شخص گھپ اندھیرے میں ٹھوکر کھائے تو اسے معذور سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر راستے کے گڑھوں سے واقف دن کے اُجالے میں ٹھوکر کھائے تو اسے سرزنش کے قابل سمجھا جاتا ہے اور اگر اس موقع پر اس سے یہ کہا جائے کہ تم آنکھیں بھی رکھتے ہو، راستے کی اونچ نیچ سے بھی واقف ہو، تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس کی وسعت علمی و روشنی چشم کو سراہا جا رہا ہے، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے آنکھوں کے ہوتے ہوئے پھر راستے کے گڑھوں کو نہ دیکھا اور جاننے بوجھنے کے باوجود پھر سنبھل کر نہ چلا۔ لہٰذا آنکھوں کا ہونا نہ ہونا برابر اور جاننا نہ جاننا یکساں ہے۔
اس سلسلہ میں ان کی دامادی پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ پیغمبر ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں رقیہ و اُمّ کلثوم کا عقد یکے بعد دیگرے ان سے کیا۔ اس کو وجہ شرف ماننے سے قبل یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ دامادی عثمان کی نوعیت کیا ہے۔ تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ اس میں اولیت کا شرف حضرت عثمان کو حاصل نہ تھا بلکہ ان سے قبل رقیہ و اُمّ کلثوم ابو لہب کے بیٹوں عتبہ و عتیبہ سے منسوب تھیں، مگر ان کو باوجود پہلا داماد ہونے کے قبل از بعثت کے صاحبان شرف میں بھی اب تک شمار نہیں کیا گیا تو یہاں کسی جوہر ذاتی کے بغیر اس نسبت کو کس بنا پر سرمایہ افتخار سمجھا جا سکتا ہے، جب کہ اس رشتہ کی اہمیت کے متعلق نہ کوئی سند ہے اور نہ اس ماحول میں اس طرف کوئی توجہ پائی جاتی تھی کہ یہ کہا جائے کہ کسی اہم ترین عظمت کی مالک شخصیت اور ان میں معاملہ دائر تھا، پھر یہ منتخب ہو کر یہ شرف پا گئے۔ یا یہ کہ ان دونوں بیٹیوں کو تاریخ و حدیث و سیر میں کسی کرداری شخصیت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہو جس کی وجہ سے اس رشتہ کو خاص اہمیت دے کر ان کیلئے طرۂ امتیاز قرار دیا جائے۔ اگر قبل بعثت عتبہ و عتیبہ سے ان کا بیاہا جانا اس بنا پر صحیح سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت مشرکین کے ساتھ عقد کی حرمت کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا تو یہاں پر بھی صحت عقد کیلئے صرف ظاہری اسلام کی شرط تھی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے زبان سے اقرار شہادتین بھی کیا اور بظاہر ایمان بھی لائے۔ لہٰذا اس عقد کو صرف ظاہر اسلام کی دلیل تو قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ اور کسی امتیاز کو اس کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی کہاں مسلم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی صلبی بیٹیاں تھیں جب کہ ایک طبقہ ان کے صلب رسولؐ سے ہونے سے انکار کرتا ہے اور وہ انہیں حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی بہن ہالہ کی اولاد یا ان کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ابوالقاسم الکوفی متوفی ۳۵۲ھ تحریر فرماتے ہیں:فَلَمَّا تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِخَدِیْجَةَ مَاتَتْ هَالَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِمُدَّةٍ یَّسِیْرَةٍ وَّ خَلَّفَتْ الطِّفْلَتَیْنِ زَیْنَبَ وَ رُقَیَّةَ فِیْ حِجْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ حِجْرِ خَدِیَجَةَ فَرَبَّیَاهُمَا، وَ کَانَ مِنْ سُنَّةِ الْعَرَبِ فِی الْجَاهِلِیَّةِ مَنْ یُّرَبِّیْ یَتِیْمًا یُّنْسَبُ ذٰلِکَ الْیَتِیْمُ اِلَیْهِ.جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے عقد کیا تو اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہالہ کا انتقال ہو گیا اور اس نے دو لڑکیاں چھوڑیں: ایک کا نام زینب تھا اور ایک کا نام رقیہ اور ان دونوں نے پیغمبر ﷺ اور خدیجہؑ کی گود میں پرورش پائی اور انہی نے ان کی تربیت کی اور اسلام سے قبل یہ دستور تھا کہ اگر کوئی یتیم بچہ کسی کی گود میں پرورش پاتا تھا تو اسے اسی کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ (کتاب ’’الاستغاثۃ‘‘، ص۶۹)اور ابن ہشام نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کے سلسلہ میں تحریر فرمایا ہے کہ:وَکَانَتْ قَبْلَهٗ عِنْدَ اَبِیْ هَالَةَ بْنِ مَالِکٍ... فَوَلَدَتْ لَهٗ هِنْدَ بْنَ اَبِیْ هَالَةَ وَ زَیْنَبَ بِنْتَ اَبِیْ هَالَةَ وَ کَانَتْ قَبْلَ اَبِیْ هَالَةَ عِنْدَ عَتِیْقِ بْنِ عَآئِذِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ مَخْزُوْمٍ، فَوَلَدَتْ لَهٗ عَبْدَ اللّٰهِ وَ جَارِیَةً.حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ ﷺ کے حبالہ عقد میں آنے سے پہلے ابی ہالہ بن مالک کی زوجیت میں تھیں جس سے ایک لڑکا ہند اور ایک لڑکی زینب پیدا ہوئی اور ابی ہالہ سے قبل عتیق ابن عائذ کے عقد میں تھیں جس سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام، ج۴، ص۲۹۳)اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی دو لڑکیاں عقد رسولؐ میں آنے سے پہلے موجود تھیں جو حسب ظاہر رسول اللہ ﷺ ہی کی بیٹیاں کہلائیں گی اور وہ جن سے بھی بیاہی جائیں گی وہ پیغمبر ﷺ کے داماد ہی کہلائیں گے، لیکن دامادی کی حیثیت وہی ہو گی جو ان لڑکیوں کے بیٹی ہونے کی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اسے محل افتخار میں پیش کرنے سے پہلے ان بیٹیوں کی حیثیت کو دیکھ لینا چاہیے اور حضرت عثمان کے رویہ پر بھی ایک نظر کر لینا چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں امام بخاری اپنی صحیح میں یہ روایت درج کرتے ہیں:عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:شَهِدْنَا بِنْتًا لِّرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ ، قَالَ: وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ، قَالَ: فَرَاَیْتُ عَیْنَیْهِ تَدْمَعَانِ، قَالَ: فَقَالَ: « هَلْ مِنْکُمْ رَجُلٌ لَّمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَةَ؟» فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَةَ: اَنَا، قَالَ: «فَانْزِلْ» قَالَ: فَنَزَلَ فِیْ قَبْرِهَا.انس ابن مالک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ: ہم دختر رسولؐ کے دفن کے موقع پر موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’کون تم میں ایسا ہے جو آج کی رات ہم بستر نہ ہوا ہو‘‘۔ ابو طلحہ نے کہا کہ: میں، حضرتؐ نے فرمایا کہ: ’’پھر تم قبر میں اترو‘‘۔ چنانچہ وہ قبر میں اترے۔(صحیح بخاری، ج۱، ص۲۳۲)اس موقع پر پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت عثمان کے راز درون پردہ کو بے نقاب کر کے انہیں قبر میں اترنے سے روک دیا، حالانکہ پیغمبرؐ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر تھا کہ وہ کسی کے اندرونی حالات کو طشت از بام کر کے اس کی ہتک و اہانت گوارا نہ کرتے تھے اور دوسروں کے عیوب پر مطلع ہونے کے باوجود چشم پوشی فرما جاتے تھے مگر یہ کردار کا گھنونا پن کچھ ایسا تھا کہ بھرے مجمع میں انہیں رسوا کرنا ضروری سمجھا گیا۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 February 23 ، 15:12
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ خَالِقِ الْعِبَادِ، وَ سَاطِحِ الْمِهَادِ، وَ مُسِیْلِ الْوِهَادِ، وَ مُخْصِبِ النِّجَادِ، لَیْسَ لِاَوَّلِیَّتِهِ ابْتِدَآءٌ، وَ لَا لِاَزَلِیَّتِهِ انْقِضَآءٌ، هُوَ الْاَوَّلُ لَمْ یَزَلْ، وَ الْبَاقِیْ بِلَاۤ اَجَلٍ. خَرَّتْ لَهُ الْجِبَاهُ، وَ وَحَّدَتْهُ الشِّفَاهُ، حَدَّ الْاَشْیَآءَ عِنْدَ خَلْقِهٖ لَهَاۤ اِبَانَةً لَّهٗ مِنْ شَبَهِهَا، لَا تُقَدِّرُهُ الْاَوْهَامُ بِالْحُدُوْدِ وَ الْحَرَکَاتِ، وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْاَدَوَاتِ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو بندوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، ندی نالوں کا بہانے والا اور ٹیلوں کو سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔ نہ اس کی اوّلیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا ہے۔ وہ ایسا اوّل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور بغیر کسی مدت کی حد بندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پیشانیاں اس کے آگے (سجدہ میں) گری ہوئی ہیں اور لب اس کی توحید کے معترف ہیں۔ اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے (جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں) محدود کر دیا تاکہ اپنی ذات کو ان کی مشابہت سے الگ رکھے۔ تصورات اسے حدود و حرکات اور اعضاء و حواس کے ساتھ متعین نہیں کر سکتے۔

لَا یُقَالُ لَهٗ:«مَتٰی»؟ وَ لَا یُضْرَبُ لَهٗ اَمَدٌ «بِحَتّٰی»، الظَّاهِرُ لَا یُقَالُ: «مِمَّا»؟ وَ الْبَاطِنُ لَا یُقَالُ: «فِیْمَا»؟.

اس کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’وہ کب سے ہے‘‘ اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت مقرر کی جا سکتی ہے کہ ’’وہ کب تک ہے‘‘۔ وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’کس سے (ظاہر ہوا)‘‘ وہ باطن ہے مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’کس میں‘‘۔

لَا شَبَحٌ فَیَتَقَضّٰی، وَ لَا مَحْجُوْبٌ فَیُحْوٰی، لَمْ یَقْرُبْ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْتِصَاقٍ، وَ لَمْ یَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ، لَا یَخْفٰی عَلَیْهِ مِنْ عِبَادِهٖ شُخُوْصُ لَحْظَةٍ، وَ لَا کُرُوْرُ لَفْظَةٍ، وَ لَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ، وَ لَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِیْ لَیْلٍ دَاجٍ، وَ لَا غَسَقٍ سَاجٍ، یَتَفَیَّاُ عَلَیْهِ الْقَمَرُ الْمُنِیْرُ، وَ تَعْقُبُهُ الشَّمْسُ ذَاتُ النُّوْرِ فِی الْاُفُوْلِ وَ الْکُرُوْرِ، وَ تَقَلُّبِ الْاَزْمِنَةِ وَ الدُّهُوْرِ، مِنْ اِقْبَالِ لَیْلٍ مُّقْبِلٍ، وَاِدْبَارِ نَهَارٍ مُّدْبِرٍ.

وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ ہے کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ وہ چیزوں سے اس طرح قریب نہیں کہ ساتھ چھو جائے اور نہ وہ جسمانی طور پر ان سے الگ ہو کر دور ہوا ہے۔ اس سے کسی کا ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، کسی لفظ کا دہرایا جانا، کسی بلندی کا دور سے جھلکنا اور کسی قدم کا آگے بڑھنا پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ اندھیری راتوں میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں کہ جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور نورانی آفتاب طلوع و غروب (کے چکروں) میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں اندھیرے کے بعد نور پھیلاتا ہے کہ جو آنے والی رات اور جانے والے دن کی آمد و شد سے (پیدا) ہوتی ہیں۔

قَبْلَ کُلِّ غَایَةٍ وَّ مُدَّةٍ، وَ کُلِّ اِحْصَآءٍ وَعِدَّةٍ، تَعَالٰی عَمَّا یَنْحَلُهُ الْمُحَدِّدُوْنَ مِنْ صِفَاتِ الْاَقْدَارِ، وَ نِهَایَاتِ الْاَقْطَارِ، وَ تَاَثُّلِ الْمَسَاکِنِ، وَتَمَکُّنِ الْاَمَاکِنِ، فَالْحَدُّ لِخَلْقِهٖ مَضْرُوْبٌ، وَ اِلٰی غَیْرِهٖ مَنْسُوْبٌ.

وہ ہر مدت و انتہا اور ہر گنتی اور شمار سے پہلے ہے۔ اسے محدود سمجھ لینے والے جن اندازوں اور اطراف و جوانب کی حدوں اور مکانوں میں بسنے اور جگہوں میں ٹھہرنے کو اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے۔ حدیں تو اس کی مخلوق کیلئے قائم کی گئی ہیں اور دوسروں ہی کی طرف ان کی نسبت دی جایا کرتی ہے۔

لَمْ یَخْلُقِ الْاَشْیَآءَ مِنْ اُصُوْلٍ اَزَلِیَّةٍ، وَ لَا مِنْ اَوَآئِلَ اَبَدِیَّةٍ، بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ فَاَقَامَ حَدَّهٗ، وَ صَوَّرَ مَا صَوَّرَ فَاَحْسَنَ صُوْرَتَهٗ، لَیْسَ لِشَیْءٍ مِّنْهُ امْتِنَاعٌ، وَ لَا لَهٗ بِطَاعَةِ شَیْءٍ انْتِفَاعٌ، عِلْمُهٗ بِالْاَمْوَاتِ الْمَاضِیْنَ کَعِلْمِهٖ بِالْاَحْیَآءِ الْبَاقِیْنَ، وَ عِلْمُهٗ بِمَا فِی السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی کَعِلْمِهٖ بِمَا فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلٰی.

اس نے اشیاء کو کچھ ایسے مواد سے پیدا نہیں کیا کہ جو ہمیشہ سے ہو اور نہ ایسی مثالوں پر بنایا کہ جو پہلے سے موجود ہوں، بلکہ اس نے جو چیز پیدا کی اسے مستحکم کیا اور جو ڈھانچہ بنایا اسے اچھی شکل و صورت دی۔ کوئی شے اس کے (حکم سے) سرتابی نہیں کرسکتی، نہ اس کو کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اسے پہلے مرنے والوں کا ویسا ہی علم ہے جیسا باقی رہنے والے زندہ لوگوں کا اور جس طرح بلند آسمانوں کی چیزوں کو جانتا ہے ویسے ہی پست زمینوں کی چیزوں کو پہچانتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اَیُّهَا الْمَخْلُوْقُ السَّوِیُّ، وَ الْمُنْشَاُ الْمَرْعِیُّ، فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْحَامِ، وَ مُضَاعَفَاتِ الْاَسْتَارِ، بُدِئْتَ ﴿مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ۝﴾، وَ وُضِعْتَ ﴿فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍۙ۝ اِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍۙ۝﴾ وَّ اَجَلٍ مَّقْسُوْمٍ، تَمُوْرُ فِیْ بَطْنِ اُمِّکَ جَنِیْنًا لَّا تُحِیْرُ دُعَآءً، وَ لَا تَسْمَعُ نِدَآءً، ثُمَّ اُخْرِجْتَ مِنْ مَّقَرِّکَ اِلٰی دَارٍ لَّمْ تَشْهَدْهَا، وَ لَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا، فَمَنْ هَدَاکَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَآءِ مِنْ ثَدْیِ اُمِّکَ؟ وَ عَرَّفَکَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِکَ وَ اِرَادَتِکَ؟ هَیْهَاتَ، اِنَّ مَنْ یَّعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِی الْهَیْئَةِ وَ الْاَدَوَاتِ فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِهٖۤ اَعْجَزُ، وَ مِنْ تَنَاوُلِهٖ بِحُدُوْدِ الْمَخْلُوْقِیْنَ اَبْعَدُ!.

اے وہ مخلوق کہ جس کی خلقت کو پوری طرح درست کیا گیا ہے اور جسے شکم کی اندھیاریوں اور دوہرے پردوں میں بنایا گیا ہے اور ہر طرح سے اس کی نگہداشت کی گئی ہے، تیری ابتدا مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اور تجھے جانے پہچانے ہوئے وقت اور طے شدہ مدت تک ایک جماؤ پانے کی جگہ میں ٹھہرایا گیا کہ تو جنین ہونے کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پھرتا تھا۔ نہ تو کسی پکار کا جواب دیتا تھا اور نہ کوئی آواز سنتا تھا۔ پھر تو اپنے ٹھکانے سے ایسے گھر میں لایا گیا کہ جو تیرا دیکھا بھالا ہوا نہ تھا اور نہ اس سے نفع حاصل کرنے کے طریقے پہچانتا تھا۔ کس نے تجھ کو ماں کی چھاتی سے غذا حاصل کرنے کی راہ بتائی؟ اور ضرورت کے وقت طلب مقصود کی جگہ پہچنوائیں؟۔ بھلا جو شخص ایک صورت و اعضاء والی مخلوق کے پہچاننے سے بھی عاجز ہو وہ اس کے پیدا کرنے والے کی صفات سے کیسے عاجز و درماندہ نہ ہو گا اور کیونکر مخلوقات کی سی حد بندیوں کے ساتھ اسے پالینے سے دور نہ ہو گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 February 23 ، 15:07
عون نقوی

(۱۶۶)

لَا یُعَابُ الْمَرْءُ بِتَاْخِیْرِ حَقِّهٖ، اِنَّمَا یُعَابُ مَنْ اَخَذَ مَا لَیْسَ لَهٗ.

اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جا سکتا، بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

(۱۶۷)

اَلْاِعْجَابُ یَمْنَعُ مِنَ الْاِزْدِیَادِ.

خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے۔


جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کیلئے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کر چکا ہے اب اسے کوئی منزل نظر ہی نہیں آتی کہ اس کیلئے تگ و دو کرے چنانچہ یہ خود پسند و بر خود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسندی اس کیلئے ترقی کی راہیں مسدود کر دے گی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 14:16
عون نقوی