بصیرت اخبار

۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «آزادی» ثبت شده است

پہلی فصل میں ہم نے جانا کہ انسان  کو اللہ تعالی نے محدود آزادی عطا کی ہے۔ آزادی کی حد بندی کے لیے اللہ تعالی نے اس کے لیے شریعت  قانون کی شکل میں نازل کی ہے۔ شریعت اور قانون کے نفاذ کے لیےانسان کو حکومت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی نے قانون کا انتظام فرمایا ہے حکومت کی ضرورت کو بھی اللہ تعالی نے پورا فرمایا ہے۔ پہلی فصل در اصل دوسری فصل کا مقدمہ ہے۔  دین ایک جامع نظام ہے جس میں حکومت اور  سیاست کے مسائل موجود ہیں۔ دین وعظ و نصیحت اور محض انفرادی مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ سیاسی اور اجتماعی احکام بھی بیان کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے پیغمبروں کو مبعوث کرنے کا ہدف اس طرح سے بیان کیا ہے:

کانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فیمَا اخْتَلَفُوا فیهِ.

 لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔(۱)

اس آیت کریمہ کے مطابق انبیاء کرام  اس لیے مبعوث ہوۓ کہ وہ معاشرے میں اختلاف کو ختم کریں۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ ایک انسان کب فیصلہ یا حکم کرتا ہے؟ ظاہر ہے انسان صرف وعظ و نصیحت سے فیصلہ نہیں کر سکتا بلکہ جب اس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو تو تب فیصلہ کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی اس آیت میں یہ نہیں فرماتا کہ رسول تبشیر اور انذار سے اختلاف کو دور کریں بلکہ فرمایا بوسیلہ ’’حکم‘‘ اختلافات کو ختم کریں۔ کیونکہ اختلافات کو بغیر حکم او ر حکومت کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانوں کا آپس میں اختلاف کرنا طبیعی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اختلاف کرنا ہمیشہ مذموم ہو بلکہ صرف وہ اختلاف مذموم قرار دیا گیا ہے جو علم آ جانے کے بعد ہو۔ پس انسانوں میں اختلاف ہونا ہی ہے لیکن اس  اختلاف کو ختم کرنے کے لیے کیا کریں؟ اس کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر صاحب شریعت نبی کا کام یہی ہے ۔ تعلیم و تبشیر کرے، لوگوں کو انذار کرے اور ان کے اختلاف کو ختم کرے۔ صرف قانون لانا کافی نہیں مثلا اگر کوئی نبی شریعت لے آتا ہے اور اس کو نافذ نہیں کرتا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس  قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو صرف کاغذوں میں لکھ دیا جاۓ اور اس کا نفاذ نہ ہو۔ یہ بات واضحات میں سے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضحات میں سے ہے کہ قانون اور شریعت کے ساتھ ساتھ حکومت اور قوت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت نہ ہوئی تو قانون اور شریعت کا اجراء نا ممکن ہو کر رہ جاۓ گا۔

حکومت سے مراد

حکومت سے مراد عموما تین شعبے ہوتے ہیں۔

۱۔ قوہ مقننہ( جو قانون بناتی ہے)

۲۔ قوہ قضائیہ(جو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دیتی ہے)

۳۔ قوہ مجریہ(جو قانون کا اجراء کرتی ہے)

بعض اوقات صرف قوہ مجریہ کو حکومت کہہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر قوت سے قانون کو نافذ کر کے اختلاف کو ختم نہ کیا جاۓ تو معاشرے میں فساد بڑھتا جاتا ہے۔ قانون کا صرف ہونا کافی نہیں ، کسی کاغذ پر قانون کا لکھ دیا جانا،قرآن یا روایت میں قانون کا آجانا کافی نہیں بلکہ اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حقیقی حاکم ہے اس نے احکام جاری کر دیے ہیں لیکن اب سوال پیدا ہوگا کہ ان کا اجراء کس نے کرنا ہے؟ حکومت کس کے پاس ہو؟

حکومت کی ضرورت

دین کے مطابق قانون بنانے کا حق، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کی سزا کی تعیین، اللہ تعالی کا  حق ہے۔ لیکن قانون کا اجراء  کون کرے؟ ظاہر ہے اس کےلیے ایک ایسا شخص ہو جو اللہ تعالی کے قوانین کو جاری کرے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دے۔  خوارج کا نظریہ یہ تھا کہ حاکم صرف اللہ ہے اور امیر بھی صرف اللہ تعالی ہےیعنی وہ کہتے تھے کہ جب حکومت صرف اللہ کی ہے تو اسی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ آۓ اور زمین پر اپنی مخلوقات پر اپنے قوانین کو نافذ کرے۔اس کے علاوہ اور کسی کو حکومت کرنے کا حق نہیں ، کوئی بھی قوانین الہی کو نافذ نہیں کر سکتا، نا تو امیرالمومنینؑ اور نا ہی معاویہ۔ امیرالمومنینؑ نے ان کا شعار سن کر فرمایا :

کَلِمَهُ حَقٍّ یُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ نَعَمْ إِنَّهُ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ لَکِنَّ هَؤُلاَءِ یَقُولُونَ لاَ إِمْرَهَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ إِنَّهُ لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ.

یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں ، وہ غلط ہے۔ ہاں بیشک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کے لیے حاکم کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہوا یا برا۔(۲)

ہمارے پاس صرف دو انتخاب ہیں۔ عادل حاکم یا فاجر حاکم۔ تیسرا انتخاب سب سے بدترین ہے۔ یعنی ہم کہیں عادل حاکم ہو نا فاسق حاکم۔ جو انتخاب خوارج نے کیا وہ سب سے بد تر ین ہے۔ حاکم کے بغیر ایک معاشرے کا ہونااس سے بھی بدترین ہے کہ حاکم فاس ہو۔ فاسق حاکم کم از کم خود فساد میں مبتلا ہوتا ہے لیکن معاشرے کا نظم و نسق پھر بھی چلاتا ہے۔ لیکن اگر یہی فاسق حاکم بھی نہ ہو ہر گلی کوچے میں جرم و جنایت ہوگی۔ اس کی مثال آپ ہر اس معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ہم مقتدر حکومت نہیں دیکھتے۔ یا ایک حکومت جب گرتی ہے دوسری حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک معاشرہ سخت ترین حالات سے گزرتا ہے۔ مثلا عراق میں جس دور میں صدام کی حکومت گری، اور امریکیوں نے جب تک مکمل طور پر چارج نہ سنبھالا تھا بد ترین جرائم عراق میں وقوع پذیر ہوۓ۔ اتنے نقصان خود جنگ اور صدام کی غارتگریوں سے نہ ہوۓ جتنے ان ایام میں ہوۓ۔در نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ حکومت کا ہونا ضروری ہے اب سوال پیدا ہوگا کہ حکومت کونسی ہو؟ حکومت اسلامی ہویا غیر اسلامی؟ اس سوال کا جواب اگلی قسط میں بیان ہوگا۔(۳)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۴۰۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۳تا۷۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 March 22 ، 19:29
عون نقوی

تشکیل حکومت و قانون سازی

اسلام نے انسانوں کو حقیقی آزادی کا راستہ دکھایا ہے۔ اس آزادی کو حاصل کر لینے کے بعد انسان غیر خدا سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور یہی تحفہ ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دیا اور تمام انبیاء الہی کا پیغام بھی تھا۔ آج مغربی مفکرین اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح ایک شخص نے ایک دور افتادہ منطقہ بنامِ عرب جہاں منتشر قبیلوں میں زندگی گزارنے والے افراد مقیم تھے، ان کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا قائل کر لیا گیا؟ اور ان پر حکومت قائم کی گئی۔ ایک امت کا نظریہ پیش کیا گیا۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو حقیقی آزادی میسر کی۔ وہ لوگ جو آپس میں لڑتے جھگڑتے اور خواہشات نفسانی کے اسیر تھے ان کو ایمان کی قوت سے سرشار کیا۔ اس قوت سے معنوی آزادی دی تب جا کر امت بنے۔ رسول اللہ ﷺ نے امت بنا کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ پھر بھی طبع انسانی کو مدنظر رکھتے ہوۓ قانون بنایا۔ نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے حکومت قائم کی۔

اس مختصر مقدمے کے بعد جب ہم نے مان لیا کہ انسان کو آزادی حاصل ہے اس کے بعد عقل حکم کرتی ہے کہ بہرحال معاشرے کو قانون کی بھی ضرورت ہے۔ معاشرے کو کسی ایسے امر کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کا نظم و ضبط قائم رہے۔ انسان کو ہر صورت میں قانون کی ضرورت ہے چاہے یہ قانون اس کی آزادی کو ایک حد تک محدود بھی کیوں نہ کردے پھر بھی اس کو قانون کی ضرورت سے مستثنی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

قانون کی ضرورت

مغربی مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ قانون کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے افراد کنٹرول میں رہتے ہیں اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم ہوتا ہے۔ خود قانون کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قانون آزادی اور نظم کے لیے ضروری ہے۔ یعنی اگر قانون کے بغیر یہ سب ممکن ہو جاۓ تو ویاں پر اصلا قانون کی ضرورت نہیں۔ در اصل ان کے بقول اگر نفسِ انسان سرکشی کرتا ہے یا انفرادی طور پر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سے ہمیں کیا؟ سرکشی صرف اس وقت قبیح ہے جب کسی دوسرے انسان کی حریم میں داخل ہوا جاۓ۔ اسلامی مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے اس کی سرکش طبع کی وجہ سے،  اگر سارے انسان فطرت کے مطابق زندگی گزارنے لگ جائیں تو قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا اس کی طبع کی طرف رججان زیادہ ہے جو اسے سرکشی کی طرف راغب کرتی ہے جس کی وجہ سے قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ معاشرے کو قانون کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ انسان کی طبع ’’استخدام گر‘‘ ہے۔(۱) استخدام گر سے مراد یہ ہے کہ انسان ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کی خدمت کریں، دوسرے اس کا مفاد پورا کریں۔ لوگوں سے اپنی ضروریات پورا کروانا چاہتا ہے ہر قیمت پر۔ مانتے ہیں کہ انسان فطری طور پر موحد ہے اور عبودیت کو قبول کرتا ہے لیکن اس کی طبع استخدام گر ہے۔ انسان کو اگر ’’طین‘‘ کی جہت سے دیکھیں تو طبیعی صبغہ رکھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ.

میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔(۲)

لیکن اگر انسان کو اس کی روح کی جہت سے دیکھا جاۓ تو فطری صبغہ رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ.

اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں۔(۳)

انسان اپنی فطرت کی اساس پر ایک ایسا عالم، عارف ہے جو قسط و عدالت کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اپنی طبیعت کی اساس پر استخدام گر اور مفاد پرست ہے۔ انسان کا عالمِ طبیعت سے رابطہ محسوس اور نزدیک ہے لیکن عالمِ فطرت سے انس تقریبا دور کا ہے۔ اگر اسے طبیعت کی اساس پر چھوڑ دیا جاۓ تو دوسروں کو اپنا غلام بناتا جاۓ گا۔ جتنی زیادہ ضروریات پورا کرتا جاۓ گا پھر بھی محسوس کرے گا کہ ابھی بھی کم ہے۔ ہر شخص پر ہاتھ ڈالے گا، ہر زمین کو اپنی مالکیت میں لانا چاہے گا اور ہر لذت کا مزہ چکھنا چاہے گا مگر یہ کہ کوئی چیز اس کی توان سے باہر ہو۔ انسان کی طبیعت کبھی بھی راضی نہیں ہوتی حتی کرہ ارض اس کے اختیار میں دے دیں تمام چرند پرند پر حاکم کر دیں۔

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی انسان کی مذمت وارد ہوئی ہے وہاں پر دراصل انسان کی اسی سرکش طبع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر اس انسان کا دوسروں پر اختیار ہو تو فرعون بن جاتا ہے اور ’’انا ربکم الاعلی‘‘(۴) کا دعوی کرتا ہے۔ اس مقدمے کو جاننے کے بعد اگر کوئی انسان کہے کہ ہمیں کسی قانون اور نظم و ضبط کی ضرورت نہیں تو یقینا اس کی بات کو رد کیا جاۓ گا۔ بہرحال آپ کو قانون بنانے اور اس کے مطابق سب کو زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ہوگا ورنہ طبیعت انسان معاشرے کے امن کو نابود کر دے گی۔ انسان کو ہم اس وقت انسان کہیں گے جب اس کی زندگی بقیہ مخلوقات مثلا پیڑ پودے یا چوپاؤں سے جدا ہو۔ انسان اس وقت انسان ہے جب اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ ارتباط اور ہماہنگی ہو۔

پس یہاں پر واضح ہو گیا کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ قانون اس لیے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے حقوق کو پائمال نہ کرے۔ قانون اس لیے کہ کوئی اپنی بات دوسرے پر نہ ٹھونس دے۔ اگر یہ قانون معاشرے میں حاکم ہو گیا تو نظم پیدا ہوگا جس سے انسان کی اجتماعی حیثیت ظہور کرے گی۔ اجتماعی زندگی شروع ہوگی اور حیوانی اور نباتی زندگی سے ممتاز ہو جاۓ گا۔

قانون کی خصوصیات

اب جبکہ ہم نے مان لیا معاشرے کو قانون کی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوگا کہ قانون کیسا ہو اور قانون بنانے والا کون ہے؟ جامع اور کامل قانون وہ قانون ہے جس میں انسان کی ہستی کی تمام جہات کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ اس قانون میں انسان کی استعدادوں کو شکوفا ہونے کے لیے مکمل طور پر اہتمام کیا گیا ہو۔ اگر قانون میں انسان کی ایک جہت (طبع) کو ملاحظہ رکھا گیا لیکن دوسری جہت (فطرت) کو ملاحظہ نہیں رکھا گیا تو یہ قانون جامع نہ ہوگا۔ اگر انسان کی اخلاقی اور اعتقادی ابعاد کو قانون میں ملحوظ نہ رکھا گیا یہ قانون انسان کی سعادت کے لیے ناکافی ہے۔ آج جس مصیبت کا شکار ہمارے معاشرے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ معاشروں پر ایسے قوانین حاکم ہیں جو جامع نہیں۔ اگر قانون میں اخلاق اور عقائد شامل نہ ہوں جو انسان کی سرکش طبیعت کو تعادل میں رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں، تو یہ معاشرہ ممکن نہیں ہرج و مرج سے امان میں ہوں۔ اس معاشرے میں پھر انسانوں کی شکل میں حیوان گھومیں گے جو سرکشی اور تجاوز کرنا جانتے ہیں اور بس۔ قرآن کریم میں انہیں کے بارے میں فرمایا ہے:

 اِنۡ همۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ همۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا.

یہ لوگ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔(۵)

یہاں پر جن انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق قرار دیا گیا ہے یہ وہ ہیں جو سرکش اور متجاوز ہیں۔ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، عین اس جانور کی طرح جس کو علم نہیں کہ یہ گھاس اس کا ہے یا کسی اور کا؟ البتہ اس انسان کو علم ہوتا ہے کہ کونسی چیز اس کی اپنی ہے اور کونسی چیز دوسرے کا مال ہے لیکن پھر بھی اس کی طرف بڑھتا ہے اور تجاوز کرتا ہے۔(۶)

 


حوالہ جات:

۱۔ طباطبائیؒ، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۱، ص۱۵۵۔

۲۔ ص:۷۱۔

۳۔ ص: ۷۲۔

۴۔ نازعات: ۲۴

۵۔ فرقان: ۴۴۔

۶۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۰تا۵۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 22 ، 19:26
عون نقوی

دینِ اسلام انسان کے حقِ حیات اور حقِ آزادی ہر دو کا قائل ہے۔ لیکن حقِ آزادی کو اخروی زندگی کے لیے مقدمہ سمجھتا ہے۔ انسان کے لیے آزادی ضروری ہے چاہے وہ مادیات کے حصول کے لیے ہو یا معنویات کے لیے بہر حال ہر دو کے حصول کے لیے آزادی درکار ہے۔ لیکن وہ آزادی کہ جو اسے مادی اور معنوی شائستہ حیات کے لیے ضروری ہے، اس آزادی کو کیسے حاصل کرے؟ کیا اس مخصوص آزادی کو حاصل کیے بغیر یہ شائستہ حیات اسے میسر ہو سکتی ہے؟ جی نہیں! اس شائستہ حیات کے حصول کے لیے اس مخصوص آزادی کو حاصل کرنے کے لیے اس پر ضروری ہے کہ خود کو ہوا و ہوس اور شہوات کی قید سے آزاد کراۓ۔ سب انسان اپنی شہوات کی قید میں بند ہیں ان کو شائستہ زندگی کے حصول کے لیے ان شہوات سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان نے خود کو ان شہوات سے آزاد نہ کروایا تو وہ شائستہ و مطلوب حیات حاصل نہ کر سکے گا۔ انسانوں میں فقط ’’اصحاب یمین‘‘ ہیں جو پاک کردار ہیں اور خود کو شہوانیت سے آزاد کروا چکے ہیں اور حقیقی آزاد ہیں۔

اصحاب یمین کیسے بنیں 

اصحاب یمین جنہوں نے اپنے نفوس کو شہوات و ہوا ہوس سے آزاد کروا لیا، کیسے یہ لوگ یہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوۓ؟ اس سوال کا جواب رسول اللہ ﷺ کے ایک فرمان میں دیا گیا ہے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان کے آخری جمعہ لوگوں سے مخاطب ہوۓ اور فرمایا:

ان أنفسکم مرهونة بأعمالکم ففکوها باستغفارکم.

’’(اے لوگو!) تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے مرہون منت ہیں، پس اپنی جانوں کو استغفار سے آزاد کرواؤ‘‘۔(۱)

انسان کی حقیقی آزادی اس میں ہے کہ خود کو استغفار، ایمان، اور عمل صالح کے ذریعے بار گناہ سے آزاد کرواۓ۔ اگر انسان خود کو حقیقی آزادی دلوانے میں کامیاب ہو گیا تو ’’اصحاب یمین‘‘ میں شامل ہو جاۓ گا۔ یہ ہے در اصل حقیقی یا معنوی آزادی کہ جو حقیقی انسانی حیات کا مقدمہ ہے۔ 

روح کی حیات اہم ہے

انسان کے لیے ایک جسم کی حیات ہے اور جسم کی آزادی۔ اور دوسرا روح کی حیات ہے اور روح کی آزادی۔ لیکن واضح رہے کہ دین کی نظر میں روح کی حیات اور روح کی آزادی زیادہ اہم ہے، انسان کا معنوی، درونی اور روحی طور پر آزاد ہونا جسم کے آزاد ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ روح کی حیات کیسے حاصل ہوتی ہے؟ روح کو کیسے مردہ ہونے سے بچائیں؟ روح کو کیسے آزاد کروائیں؟ اس کے جواب میں آیا ہے کہ روحِ انسان تب زندہ ہوتی ہے جب اسے شہوت، غضب، اور نفس کا غلام نہ بننے دیا جاۓ۔ اگر ایک انسان ہے وہ اپنے نفس کا غلام ہے، یا شہوات اس پر ہمیشہ غالب آ جاتی ہیں، جب غضبناک ہوتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور جو کرنا چاہے کر گزرتا ہے یہ شخص غلام ہے۔ حقیقی غلام یہی شخص ہے۔ اس کی روح غلام ہے۔ وہ شخص جو کہتا ہے ’’جو میرا دل کہے گا کرونگا‘‘ یا جو کہے ’’جہاں دل کرے گا جاوں گا‘‘ اس شخص نے اپنی روح اور جان کو غلام بنا رکھا ہے۔ 

امیرِ شہوت بنیں نا اسیرِ شہوت

وہ شخص جس نے شہوت کو اپنا آقا بنایا ہوا ہے اور خود اس کا غلام بنا ہوا ہے، یہ شخص اسیرِ شہوت ہے۔ یعنی شہوت کا اسیر، جس طرح سے شہوت اس کو حکم دیتی ہے انجام دیتا ہے۔ واضح رہے کہ شہوت سے مراد فقط جنسی شہوت نہیں بلکہ ہر وہ جسم کی ضرورت جو حد سے تجاوز کر جاۓ اسے شہوت کہتے ہیں۔ مثلا زیادہ کھانا، زیادہ سونا وغیرہ۔ نفسانی میل اگر حد سے تجاوز کر جاۓ اسے شہوت کہتے ہیں۔ ایک شخص ہے اس کے لیے مثال کے طور پر ایک گھنٹہ موبائل استعمال کرنا ضرورت ہو۔ اگر وہ بغیر ضرورت کے گھنٹوں موبائل استعمال کرتا ہے اور ہر آنے والی ویڈیو یا تصویر کو بنا شرعی لحاظ کیے دیکھے جا رہا ہے، اس پر شہوت کا غلبہ ہے۔ یہ شخص اسیر شہوت ہے۔ شہوت کا اسیر نہیں بننا بلکہ شہوت کا امیر بننا ہے۔ امیرِ شہوت کامیاب ہے اور حقیقی آزاد ہے۔ جس شخص کی ضروریات اور نفس کے تقاضے اس پر غالب نہیں ہوتے اور اپنی شہوت کو کنٹرول کیے ہوۓ ہے یہ شخص امیرِ شہوت ہے۔ دین کی زبان میں امیر شہوت انسان زندہ ہے۔ اسیر شہوت انسان جس کی فطرت دب چکی ہے اور طبیعت اس پر غالب ہے وہ شخص مردہ ہے۔

کفار حقیقت میں حیات نہیں رکھتے

قرآن کریم نے کفار کو اسی جہت سے مردہ قرار دیا ہے۔ سورہ مبارکہ یس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ. لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ.

یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے، تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہو جائے۔(۲)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے کافر شخص کو زندہ انسان کے مقابلے میں لایا ہے۔ یعنی واضح کرنا چاہتا ہے کہ قرآن کریم فقط زندہ لوگوں کے لیے نازل ہوا ہے اور ان کو انذار کرنے کے لیے آیا ہے۔ جبکہ کافروں کے لیے یہ فقط اتمام حجت کا سبب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو زندہ ہیں اور ان پر انذار کا اثر ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ افراد ہیں جن کو قرآن کریم جو کچھ بھی کہتا ہے، انذار کرتا ہے یا ابشار، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ لوگ مردہ ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق حیات، انسان کی توحیدی فطرت کے سے ہے۔ اگر کسی کی توحیدی فطرت، طبیعت اور شہوت کے ملبے تلے دب گئی ہے وہ اگرچہ ظاہری طور پر زندہ ہے اس کی حیوانی حیات موجود ہے لیکن انسانی حیات سے بے بہرہ ہے۔ ایک جگہ پر اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

 وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ.

اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔(۳)

ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا:

اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ. وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ؕ اِنۡ تُسۡمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ.

 آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جاتے ہیں۔(۴)

یہاں پر وہابی حضرات استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے مردہ کی قبر پر دعا کرنے، یا زیارات و توسل کرنے سے منع کیا ہے۔ حالانکہ یہاں پر ایسا کوئی ذکر وارد نہیں ہوا؟ بھلا کب رسول اللہﷺ کسی قبر پر جا کر کسی کو باتیں سناتے تھے؟ یہاں پر مردہ یا قبر میں مدفون فرد سے مراد وہ شخص نہیں جس کی جسمانی حیات تمام ہو گئی اور اب وہ نہیں سن سکتا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جو شخص ظاہری طور پر زندہ ہیں جسم ان کا حیات ہے، کھاتے پیتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے ہیں لیکن حق بات نہیں سنتے، حق دیکھتے ہیں لیکن مانتے نہیں۔ یہ افراد حقیقت میں مردہ ہیں اور ان کو چاہے خود اللہ کے رسولؐ بھی ہدایت کی طرف لانا چاہیں نہیں لا سکتے۔ اس میں خود رسولؐ کی کوتاہی نہیں بلکہ خود انہوں نے اپنے آپ کو باطل کا راہی کیا ہوا ہے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۵۶، ص۲۲۰۔

۲۔ سورہ یس، آیت۷۰،۶۹۔

۳۔ سورہ فاطر، آیت۲۲۔

۴۔ سورہ نمل، آیت۸۱،۸۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 December 21 ، 21:54
عون نقوی

دین چند مخصوص اعتقادات کا مجموعہ ہے جن کو زبردستی کسی سے نہیں منوایا جا سکتا۔ با الفاظ دیگر ہم اپنا عقیدہ کسی پر ٹھونس دیں تو نا صرف وہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ زور زبردستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اعتقاد اصلا قبول بھی نہیں۔ پس اگر کسی شخص کے لیے دین کے مبانی واضح نہیں دین اس کو عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچاۓ گا۔ دین کو بغیر کسی جبر اور زبردستی کے قبول کرنا ضروری ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی معروف آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

لا اکراہ فی الدین.

 دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں۔(۱)

دین کو کسی پر جبرا تحمیل نہیں کیا جا سکتا۔ دین کے اختیار کرنے میں سب کو اختیار ہے، البتہ یہاں پر اختیار بمعنی تکوینی اختیار ہے نا تشریعی، کہ اس مطلب کی پچھلی قسط میں وضاحت گزری ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی خلقت ہی کچھ اس طرح کے انداز میں کی ہے کہ اسے سواۓ برہان (عقلی دلیل) کے کوئی بھی چیز قائل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اول سے آخر تک سارا دین برہان پر قائم ہے اگر کوئی امر عقل کے برخلاف ہو تو دین اسے قبول نہیں کرتا۔ حتی فطرت انسان اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ان الظن لا یغنی من الحق شیئا.

ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا۔(۲)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ظن و گمان والی باتیں نہیں کرنی چاہیئں۔ بلکہ وہ بات کریں جو قطعی اور یقینی ہو کیونکہ اگر ایسی بات کہیں جس کا خود ہمیں یقین نہ ہو اس کا کسی دوسرے پر بھی اثر نہ ہوگا۔ عقیدہ قطع اور یقین سے بنتا ہے وہم و گمان کے مرحلے پر عقیدہ نہیں بنتا۔ لیکن اگر کسی کے دل میں آپ نے ایک مطلب کے مبادی اور مقدمات فراہم کر دیے ہیں تو اس پر عقیدہ بننا چاہیے کیونکہ بہرحال عقیدہ علم حاصل ہونے پر بنتا ہے۔ اگر انسان کے افکار برہان اور دلیل کی بنا پر نہ بنے ہوں تو نا تو خود حالت اطمینان میں ہوتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو اس بات کا قائل کر سکتا ہے۔ 

کسی عقیدے کو ایک انسان سے سلب کر لینا یا ایک عقیدہ اسے عطا کرنا ہمارے بس میں نہیں مگر یہ کہ اس انسان کے فطری تقاضے کو پورا کیا جاۓ اور اسے برہان سے قانع کیا جاۓ۔ اگر ایک مطلب کے علمی مقدمات فراہم کر دیے تو عقیدہ جنم لے گا ورنہ نہیں۔ اگر یقین حاصل کیے بغیر عقیدے کو مان بھی لیا تو ایسا عقیدہ عملی زندگی میں کوئی بھی فائدہ نہیں دے گا۔ عقیدہ کا لفظ ’’عقد‘‘ یعین گرہ لگانا سے ہے۔ اگر ایک مطلب علم اور یقین سے گرہ کھا جاۓ تو عقیدہ بنتا ہے۔ منطقی زبان میں اعتقاد کے حصول کے لیے دو گرہ لگانا لازم ہے۔ ایک یہ کہ موضوع اور محمول کے درمیان گرہ ہو گہرا ربط، کہ یہی وجہ ہے کہ قضیہ کو عقد بھی کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ قضیہ کے محصول اور نفس انسان میں گرہ لگائی جاۓ جسے اعتقاد کہا جاتا ہے۔

ان مقدمات کے نتیجے میں ہم پر واضح ہو گیا کہ عقیدے کے حصول میں انسان تکوینا آزاد ہے۔ کسی سے جبرا عقیدہ نہیں منوایا جا سکتا مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان کو اسلحہ کے زور پر یہ کہا جاۓ کہ وہ یہ بات مان لے کہ اللہ تعالی وجود نہیں رکھتا، تو اگر وہ بالفرض اسلحے کے زور پر یہ بات مان بھی لے تو کیا دل سے اس کے ایمان کو سلب کیا جا سکتا ہے؟ یعنی جس طرح سے آپ نے اسلحہ کے زور پر اس کی زبان سے یہ مطلب نکلوایا ہے کیا اس کے دل سے بھی خدا کو نکال دیا ہے؟ جی نہیں! عقیدے کو اسلحہ کے زور پر نہیں منوایا جا سکتا، یا اگر کسی کو اسلحہ کے زور پر یہ کہا جاۓ کہ آپ یہ عقیدہ بنا لیں کہ دو خدا وجود رکھتے ہیں، اگر آپ من گھڑت دلیلوں یا جبر سے اس سے منوا بھی لیں تب بھی دل کے اندر اثر نہیں کر سکتے مگر یہ کہ برہان اور عقلی دلیل سے اس کو قانع کریں۔ انسان فطری طور پر برہان اور دلیل کو قبول کر لیتا ہے جہاں پر دنیا جہان کی کوئی چیز اسے قانع نہیں کر سکتی اسے ایک دلیل قانع کر لیتی ہے۔

یہاں پر ایک مطلب کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان عقل اور برہان کی بجاۓ اپنے خیالی تصورات کے تحت زندگی گزارنے لگ جاتا ہے۔ بغیر دلیل اور برہان کے ایک چیز کو اختیار کر لیتا ہے، مثلا انسان بچپن میں غالب طور پر خیالی زندگی بسر کرتا ہے۔ البتہ بچہ حکمت الہی کے تقاضے اور اپنی کمسنی کے تحت ایسا کرتا ہے لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بعض افراد بڑے ہو کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک امر رواج (fashion) ہے۔ رواج پر چلنے والے لوگوں کے پاس کوئی عقلی دلیل یا برہان نہیں ہوتا کہ اس نے یہ امر فلان دلیل کی وجہ سے اختیار کیا ہے۔ چونکہ اس نے مثلا ایک مشہور شخصیت (celebrity) کو پھٹی ہوئی شلوار پہنے دیکھا ہے اس نے بھی پھٹا ہوا لباس پہننا شروع کر دیا۔ اب اگر اس سے پوچھیں کہ یہ چیز آپ کی شأن انسانیت کے برخلاف ہے اور آپ ایسا مت کریں تو آگے سے کہتے ہیں کہ آج کل یہ فیشن ہے۔ ایسے لوگ خیالی زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی قوت عقل سے استفادہ کرنے کی بجاۓ قوت خیال پر اکتفاء کیے ہوۓ ہیں۔ علمی اصطلاح میں ایسے افراد کو ’’متخیل بالفعل‘‘ اور ’’عاقل بالقوہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

انسان کا کمال اس امر میں ہے کہ جو چیز اختیار کرے اسے عقل و دلیل سے قبول کرے۔ اکراہ اور اجبار انسان سے اختیار کی قوت کو سلب کر لیتے ہیں اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنے اختیار اور کاملا معرفت کے ساتھ ایک راستے کا انتخاب کرے۔ اس لیے دینی تفکرات، عقائد کے حصول میں اکراہ اور جبر کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ انبیاء کرام کا بھی وظیفہ قرار دیا کہ وہ فقط دین کو بہتر انداز میں ابلاغ کر دیں کسی سے زبردستی دین قبول نہیں کروانا۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

و ما علینا الا البلاغ المبین.

اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔(۳)

رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا:

لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین ان نشأ ننزل علیهم  من السماء أیة فظلت أعناقهم لها خاضعین.

شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔(۴)

رسول اللہﷺ جب تبلیغ دین کرتے اور اس راہ میں سخت کوشش کرتے جب دیکھتے کہ لوگ تمام حجتوں کے سامنے پھر بھی اپنے طبیعی میلان کی طرف راغب ہیں اور خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں تو بہت غمگین ہو جایا کرتے تھے اور چاہتے کہ یہ خود کو نجات دیں۔ لوگ راہ راست پر کیوں نہیں آ جاتے اس چیز کا آپ بہت غم اٹھاتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آیت نازل کی اور فرمایا کہ آپ اس غم میں اپنی جان نہ کھو بیٹھیں، اگر کوئی خود اپنی مرضی اور اختیار سے ہلاکت کا انتخاب کرتا ہے تو آپ اس کا غم مت اٹھائیں بعض لوگ ہیں جو تمام دلیلوں کے آ جانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔ اگر سب کو ہی حق قبول کروانا ہے تو یہ کام تو ہمارے لیے بہت آسان تھا۔ آسمان سے کوئی ایسی نشان لاتے یا عذاب کی دھمکی دیتے اور ان سب کی گردنیں جھک جاتیں اور حق قبول کر لیتے۔ اللہ تعالی کو ایسا ایمان نہیں چاہیے جو اجباری طور پر کسی پر تحمیل کیا جاۓ، اس طرح سے انسان سعادت کو حاصل نہیں کر سکتا مگر یہ کہ اپنے اختیار سے ایک عقیدے کو حاصل کرے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سورہ بقرہ، آیت۲۵۶۔

۲۔ سورہ یونس، آیت۳۶۔

۳۔ سورہ یس، آیت۱۷۔

۴۔ سورہ شعراء، آیت۴،۳۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 December 21 ، 12:19
عون نقوی

تاریخ بشریت واضح طور پر بتاتی ہے اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبع طغیان گر ہے اور ہمیشہ اس چیز کی طرف مائل ہے کہ دوسروں کے اموال اور نفوس پر تجاوز کرے۔ حضرت آدمؑ کا زمانہ دیکھ دلیں قابیل نبی خداؑ کا بیٹا ہے اور جانتا ہے کہ خدا نے اس کے بھائی کی قربانی قبول کر لی ہے اور اس کی قبول نہیں ہوئی واضح آیات دیکھ کر بھی اپنے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ اسے اپنی شکست قبول نہیں اور برتری چاہتا ہے۔ اس کے اندر ’’ ھل من مزید‘‘ کا شعلہ بھڑکا ہوا ہے وہ کسی بھی مقام پر پہنچ جاۓ راضی نہیں ہوتا۔ اور قناعت پسند نہیں۔

انسان کی فطرت توحیدی ہے

یہاں تک ہم نے طبع انسان کو ملاحظہ کیا۔ طبیعت انسات، انسان کی ذات کی ایک جہت ہے۔ اسی انسان کے اندر فطرت بھی اللہ تعالی نے رکھ دی ہوئی ہے۔ 

انسان فطری طور پر توحید پرست اور دین خواہ و حق عدل کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے آپ چاہے کوئی ملحد ترین معاشرے کا انسان بھی لے آئیں وہ بھی سچ کو پسند کرے گا اور جھوٹ سے متنفر ہوگا، حقیقی اور درست باتوں کو ماننا پسند کرے گا اور بے بنیاد غلط باتوں کو ماننے سے انکار کرے گا۔ ظلم سے نفرت کرتا ہوگا اور عدل و انصاف کو پسند کرتا ہوگا۔ اگر اس کی فطرت ابھی باقی ہے اور آلودہ نہیں ہوئی تو یقینا حق قبول کرے گا۔ مگر یہ کہ فسق و فجور اور طبیعت انسانی کا اس پر اتنا تسلط ہو گیا ہے کہ فطرت مری پڑی ہے اور اسے آسانی سے نہیں بیدار کیا جا سکتا۔ فطرت پر ہمارے پاس نہ صرف عقلی برہان موجود ہے بلکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے:

فأقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ.(۱)

’’پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے۔‘‘

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں جہاں پر فطرت انسانی کا ذکر ہوا ہے وہیں طبیعت انسان کا بھی ذکر ہوا ہے اور پچاس مرتبہ یا اس سے بھی زائد جگہ پر انسانی طبع کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ یعنی جہاں پر بھی انسان کی بری صفات ہلوع(کم حوصلہ)، جزوع(گھبرانے والا)، منوع(بخیل)، قتور(تنگ دل)، ظلوم(ظالم)، جہول(نادان)، عجول(جلد باز) وغیرہ کی طرف اشارہ ہوا ہے یہ سب طبع انسانی ہے جس کی مذمت وارد ہوئی ہے نا کہ فطرتِ انسان۔ فطرت انسان کا ذکر کیا تو وہاں پر اللہ تعالی نے تعریف کی اور فرمایا:

لقد کرمنا بنی آدم.(۲)

 ’’اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا۔‘‘

یہاں پر جب انسان کے اکرام اور تعظیم کی بات ہوئی تو اس کی توحیدی فطرت کی تعریف کی ہے۔ اس سے ہم نے جانا کہ انسان کی طبیعت میں جو صفات ہیں وہ طغیان گر ہیں اور انسان کو طاغوت بنا دیتی ہیں۔ اگر انسان ان طاغوتی صفات کو رام کر لے تو انسانیت کے مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ فطری اوصاف کا جگانا ضروری ہے ورنہ انسان کی طبیعت اسے طغیانگر بنا دیتی ہے۔

انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد

نہج البلاغہ میں امیرالمومنینؑ کا فرمانا ہے کہ تمام انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ وہ آئیں اور عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔ انسانوں کے اندر فطرت کا خزینہ دفن ہے، یہ دفائن انسان کو الہی انسان بنا سکتے ہیں علمی اور عملی طور پر دین کی طرف بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ چھپے ہوۓ ہیں اور دفن ہیں ان کو نکالنا اور عملی کرنا انبیاء کرامؑ کا کام ہے۔ انبیاء آ کر انسان کی فطرت کو ابھارتے ہیں۔ انبیاء کرام آ کر کوئی نئی چیز نہیں سکھاتے بلکہ جو چیز انسان کے اندر پہلے سے موجود ہے اس کی طرف متوجہ کراتے ہیں اگر کوئی اس کی طرف متوجہ ہو جاۓ تو وہ الہی انسان بن جاتا ہے لیکن اگر فطرت کے اوپر گناہوں کی تہیں بچھ گئی ہیں تو وہاں پھر نبی چاہے معجزے بھی دکھائیں آگے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

اگر انسان پر طبیعت حاکم ہو جاۓ 

ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان فطرت کی بجاۓ اپنے طبعی میلان کی طرف بڑھتے ہیں، انسان پر فطرت کی بجاۓ طبیعت حاکم ہے اور طبیعت کی کوئی حد اور باؤنڈری نہیں جو انسان کو محدود کر سکے اس کی طبیعت کو اصلا راضی نہیں کیا جا سکتا وہ جتنا زیادہ حاصل کر لے پھر بھی اسے مزید چاہیے۔ اور اگر انسان کی طبیعت کاملا اس پر حاکم ہو جاۓ تو دنیا کا کوئی بھی قانون یا شرع اسے محدود نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبعِ طغیان گر کو دیکھتے ہوۓ دنیا کے ہر معاشرے میں انسان کے لیے محدودیتیں قرار دی جاتی ہیں اور اسے مقید کیا جاتا ہے کہ آپ نے اس حد میں رہنا ہے اگر اس حد سے باہر نکلے تو آپ کو مقرر قانون کے مطابق جوابدہ ہونا پڑے گا۔ چاہے مشرقی معاشرہ ہو یا مغربی، ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں یا جہانِ سوم کے ممالک، حتی الحادی ترین معاشرے میں بھی انسان کو قانون کا تابع ہونا پڑتا ہے۔

انسان آزاد نہیں مقید ہے

خداوند متعال نے انسان کو آزادِ مطلق قرار نہیں دیا اور اسے حق نہیں دیا کہ جو اس کا دل کرے کر گزرے۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل طور پر اسے رہا کر دیا جاۓ، ایسی آزادی کو نہ تو عقل مانتا ہے، فطرت مانتی ہے، دین مانتا ہے اور نہ انسانی معاشرے۔ انسان آزاد ہوتے ہوۓ بھی اخلاقی طور پر، حقوقی، اقتصادی، سیاسی، اور عسکری قید و قیود کا پابند ہوتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی تقاضے پورے نا کرے یا کسی بھی معاشرے میں سیاسی حقوق یا دوسروں کے اقتصادی حقوق کا خیال نہ کرے اسے مجازات کیا جاتا ہے۔ اور اگر اسے سزا نہ دی جاۓ ایسا معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاتا ہے۔

 

 

(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ)


حوالہ جات:

۱۔ سورہ روم:۳۰۔

۲۔ سورہ اسراء: ۷۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 December 21 ، 22:13
عون نقوی