بصیرت اخبار

طبیعتِ انسانی طغیان گر ہے

Tuesday, 14 December 2021، 10:13 PM

تاریخ بشریت واضح طور پر بتاتی ہے اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبع طغیان گر ہے اور ہمیشہ اس چیز کی طرف مائل ہے کہ دوسروں کے اموال اور نفوس پر تجاوز کرے۔ حضرت آدمؑ کا زمانہ دیکھ دلیں قابیل نبی خداؑ کا بیٹا ہے اور جانتا ہے کہ خدا نے اس کے بھائی کی قربانی قبول کر لی ہے اور اس کی قبول نہیں ہوئی واضح آیات دیکھ کر بھی اپنے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ اسے اپنی شکست قبول نہیں اور برتری چاہتا ہے۔ اس کے اندر ’’ ھل من مزید‘‘ کا شعلہ بھڑکا ہوا ہے وہ کسی بھی مقام پر پہنچ جاۓ راضی نہیں ہوتا۔ اور قناعت پسند نہیں۔

انسان کی فطرت توحیدی ہے

یہاں تک ہم نے طبع انسان کو ملاحظہ کیا۔ طبیعت انسات، انسان کی ذات کی ایک جہت ہے۔ اسی انسان کے اندر فطرت بھی اللہ تعالی نے رکھ دی ہوئی ہے۔ 

انسان فطری طور پر توحید پرست اور دین خواہ و حق عدل کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے آپ چاہے کوئی ملحد ترین معاشرے کا انسان بھی لے آئیں وہ بھی سچ کو پسند کرے گا اور جھوٹ سے متنفر ہوگا، حقیقی اور درست باتوں کو ماننا پسند کرے گا اور بے بنیاد غلط باتوں کو ماننے سے انکار کرے گا۔ ظلم سے نفرت کرتا ہوگا اور عدل و انصاف کو پسند کرتا ہوگا۔ اگر اس کی فطرت ابھی باقی ہے اور آلودہ نہیں ہوئی تو یقینا حق قبول کرے گا۔ مگر یہ کہ فسق و فجور اور طبیعت انسانی کا اس پر اتنا تسلط ہو گیا ہے کہ فطرت مری پڑی ہے اور اسے آسانی سے نہیں بیدار کیا جا سکتا۔ فطرت پر ہمارے پاس نہ صرف عقلی برہان موجود ہے بلکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے:

فأقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ.(۱)

’’پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے۔‘‘

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں جہاں پر فطرت انسانی کا ذکر ہوا ہے وہیں طبیعت انسان کا بھی ذکر ہوا ہے اور پچاس مرتبہ یا اس سے بھی زائد جگہ پر انسانی طبع کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ یعنی جہاں پر بھی انسان کی بری صفات ہلوع(کم حوصلہ)، جزوع(گھبرانے والا)، منوع(بخیل)، قتور(تنگ دل)، ظلوم(ظالم)، جہول(نادان)، عجول(جلد باز) وغیرہ کی طرف اشارہ ہوا ہے یہ سب طبع انسانی ہے جس کی مذمت وارد ہوئی ہے نا کہ فطرتِ انسان۔ فطرت انسان کا ذکر کیا تو وہاں پر اللہ تعالی نے تعریف کی اور فرمایا:

لقد کرمنا بنی آدم.(۲)

 ’’اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا۔‘‘

یہاں پر جب انسان کے اکرام اور تعظیم کی بات ہوئی تو اس کی توحیدی فطرت کی تعریف کی ہے۔ اس سے ہم نے جانا کہ انسان کی طبیعت میں جو صفات ہیں وہ طغیان گر ہیں اور انسان کو طاغوت بنا دیتی ہیں۔ اگر انسان ان طاغوتی صفات کو رام کر لے تو انسانیت کے مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ فطری اوصاف کا جگانا ضروری ہے ورنہ انسان کی طبیعت اسے طغیانگر بنا دیتی ہے۔

انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد

نہج البلاغہ میں امیرالمومنینؑ کا فرمانا ہے کہ تمام انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ وہ آئیں اور عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔ انسانوں کے اندر فطرت کا خزینہ دفن ہے، یہ دفائن انسان کو الہی انسان بنا سکتے ہیں علمی اور عملی طور پر دین کی طرف بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ چھپے ہوۓ ہیں اور دفن ہیں ان کو نکالنا اور عملی کرنا انبیاء کرامؑ کا کام ہے۔ انبیاء آ کر انسان کی فطرت کو ابھارتے ہیں۔ انبیاء کرام آ کر کوئی نئی چیز نہیں سکھاتے بلکہ جو چیز انسان کے اندر پہلے سے موجود ہے اس کی طرف متوجہ کراتے ہیں اگر کوئی اس کی طرف متوجہ ہو جاۓ تو وہ الہی انسان بن جاتا ہے لیکن اگر فطرت کے اوپر گناہوں کی تہیں بچھ گئی ہیں تو وہاں پھر نبی چاہے معجزے بھی دکھائیں آگے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

اگر انسان پر طبیعت حاکم ہو جاۓ 

ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان فطرت کی بجاۓ اپنے طبعی میلان کی طرف بڑھتے ہیں، انسان پر فطرت کی بجاۓ طبیعت حاکم ہے اور طبیعت کی کوئی حد اور باؤنڈری نہیں جو انسان کو محدود کر سکے اس کی طبیعت کو اصلا راضی نہیں کیا جا سکتا وہ جتنا زیادہ حاصل کر لے پھر بھی اسے مزید چاہیے۔ اور اگر انسان کی طبیعت کاملا اس پر حاکم ہو جاۓ تو دنیا کا کوئی بھی قانون یا شرع اسے محدود نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبعِ طغیان گر کو دیکھتے ہوۓ دنیا کے ہر معاشرے میں انسان کے لیے محدودیتیں قرار دی جاتی ہیں اور اسے مقید کیا جاتا ہے کہ آپ نے اس حد میں رہنا ہے اگر اس حد سے باہر نکلے تو آپ کو مقرر قانون کے مطابق جوابدہ ہونا پڑے گا۔ چاہے مشرقی معاشرہ ہو یا مغربی، ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں یا جہانِ سوم کے ممالک، حتی الحادی ترین معاشرے میں بھی انسان کو قانون کا تابع ہونا پڑتا ہے۔

انسان آزاد نہیں مقید ہے

خداوند متعال نے انسان کو آزادِ مطلق قرار نہیں دیا اور اسے حق نہیں دیا کہ جو اس کا دل کرے کر گزرے۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل طور پر اسے رہا کر دیا جاۓ، ایسی آزادی کو نہ تو عقل مانتا ہے، فطرت مانتی ہے، دین مانتا ہے اور نہ انسانی معاشرے۔ انسان آزاد ہوتے ہوۓ بھی اخلاقی طور پر، حقوقی، اقتصادی، سیاسی، اور عسکری قید و قیود کا پابند ہوتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی تقاضے پورے نا کرے یا کسی بھی معاشرے میں سیاسی حقوق یا دوسروں کے اقتصادی حقوق کا خیال نہ کرے اسے مجازات کیا جاتا ہے۔ اور اگر اسے سزا نہ دی جاۓ ایسا معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاتا ہے۔

 

 

(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ)


حوالہ جات:

۱۔ سورہ روم:۳۰۔

۲۔ سورہ اسراء: ۷۰۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/12/14
عون نقوی

آزادی

طاغوت

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی