بصیرت اخبار

درس: علم رجال

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مدرس: استاد محترم سید حسن رضوی حفظہ اللہ

چار وجوہات کی بنا پر کتاب تفسیر امام حسن عسکریؑ ضعیف ہے۔

۱۔ تین راوی قابل اعتراض ہیں۔ استر آبادی، یوسف بن محمد اور سیار۔ استر آبادی کی کسی نے بھی توثیق بیان نہیں کی ہے۔ تضعیف صرف ابن غضائری نے کی ہے بقیہ رجالیین نے توثیق اور تضعیف بیان نہیں کی۔

یوسف بن محمد اور سیار مجہول الحال ہیں۔

۲۔ کتاب میں تعارض موجود ہے۔

۳۔ کتاب میں تناقضات موجود ہیں۔

۴۔ امام رضاؑ کی محفل میں راوی کا موجود ہونا اور اس کا کتاب میں روایت کرنا۔

اعتراضات کے جوابات

اگر عبارت پر غور کریں تو مقدمہ میں آیا ہے کہ ’’قال‘‘۔ اس میں ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ ہے اور امامؑ حسن عسکریؑ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قال کی ضمیر استرآبادی کی طرف نہیں جا رہی بلکہ اس تیسرے شخص کی طرف ہے جو امام رضاؑ کی محفل میں بیٹھتا تھا۔

تناقض بھی ضرر نہیں پہنچاتا تفسیر کے مطالب کو۔ والدین کے بغیر شیخ صدوق نے اس تفسیر کے حصے سیار سے نقل کیے ہیں۔ 

ابن غضائری ایک متشدد رجالی شمار ہوتے ہیں اور ہر ایک کو غلو کا الزام لگا دیتے تھے۔ ایک کتاب میں اگر ضرورت مذہب کے خلاف ہے تو اس کی بنا پر پوری کتاب کو ترک نہیں کیا جاتا بلکہ اسی ایک روایت کو ترک کیا جاتا ہے۔ حتی ایک روایت میں ایک فقرہ اگر ضرورت مذہب کے خلاف ہے تو صرف اسی فقرہ کو ترک کیا جاتا ہے پوری روایت کو ترک نہیں کیا جاتا تو کجایکہ پوری کتاب کو ہی ایک روایت کی بنا پر ترک کیا جاۓ۔

ورنہ نہج البلاغہ میں ایسی کئی روایات ہیں جو قابل اعتراضات ہیں جس میں امام فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کی صنعت ہیں اور باقی مخلوقات ہماری صنعت ہیں۔ اس بارے میں بعض علماء قائل ہیں کہ یہ امام کے کلام میں ڈالا گیا ہے۔ 

مصنف کا مختار قول

پہلا اعتراض ہی عمدہ ہے اور اسی بنا پر اس کو رد کیا جاتا ہے۔ مصنف کے علاوہ بڑی شخصیات اس تفسیر کو معتبر مانتے ہیں۔ محمد بن قاسم کے بارے میں ترضی کا بہت وارد ہوا ہے اور متشدد علماء بھی کثرت ترضی کے بارے میں قائل ہیں کہ شیخ صدوقٓ اگر کثرت سے کسی کے لیے کثرت سے ترضی کرتے ہیں تو اس کے ثقہ ہونے کی علامت مانتے ہیں۔ اور ابن غضائری کی تضعیف کو رد کیا ہے۔ 

بقیہ دو بزرگان کے بارے میں آیا ہے کہ ان کو امامیہ لکھا گیا ہے۔ اور ان دو سے روایت کا لینا بھی ان کی توثیق ثابت کرتا ہے۔ 

ایک اور اختلاف یہ ہے کہ یہ تفسیر دیباج کی ہے یا کسی اور کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سہل بن دیباج کی تفسیر امام نقیؑ سے ہے اور یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی ہے اور مناکیر سے بھی خالی ہے۔

مصنف فرماتے ہیں کہ دو دلیلوں کی بنا پر یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی تفسیر ہے۔

پہلی دلیل

بزرگ مشائخ اور کبار محدثین کا اس پر اعتماد کرنا اور اطمینان کا حصول۔ 

دوسر دلیل

قاعدہ تبدیلی سند، حسن بن خالد برقی کی تمام کتابیں احمد بن خالد برقی کے پاس تھیں اور ان کی کتابوں تک شیخ صدوق کا طریق صحیح ہے۔ شیخ صدوق کے پاس دو طریق تھے جس طریق پر اشکال ہے وہ شیخ نے کتاب میں ذکر کیا لیکن دوسرا طریق صحیح ہے اس لیے قاعدہ تبدیلی سند کے مطابق اس کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 23/03/12
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی