بصیرت اخبار

۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «آزادی» ثبت شده است

آزادی سب کی آرزو

سعادت اور آزادی کا حصول سب انسانوں کی آرزو ہے لیکن سعادت کسے کہتے ہیں اور آزادی کیا ہے اس کے مفہوم سے اجمالی طور پر تو سب آگاہ ہیں لیکن اس کی دقیق تفسیر روشن نہیں۔ آزادی کو سب چاہتے ہیں لیکن کیا آزادی کی کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں اس کی تعیین آسان نہیں۔ 

آزادی انسانی اوصاف میں سے ایک وصف

انسان متعدد صفات کی حامل ذات ہے، ایک صفت جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے آزادی ہے۔ ہر انسان آزادی کو پسند کرتا ہے کیونکہ آزادی اوصاف انسانی میں سے ہے۔ لیکن آزادی کہتے کسے ہیں اس کا معنی اور مفہوم کیا ہے؟ اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ جس طرح سے آپ کی ہستی شناسی اور جہان بینی ہے اسی کی بنا پر آپ انسان شناسی کی تعریف کریں گے اور جو آپ کی انسان شناسی کی تعریف ہے اسی کے مطابق آزادی کی تعریف کی جاۓ گی۔ اسی سے معلوم ہو جاۓ گا کہ آزادی کی جو تعریف اسلام نے کی ہے اور وہ تعریف جو مغربی مکاتب فکر نے آزادی کی تعریف کی ہے ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ اس فرق کی وجہ بھی معلوم ہے، اسلام کی جہان اور انسان کی سعادت کے بارے میں جو نظر ہے وہ اس سے بالکل متفاوت ہے جو مغربی مکاتب نے جہان اور انسان کے بارے میں پیش کی ہے۔ 

محدود ذات کو محدود آزادی میسر ہو سکتی ہے

استاد کی نظر میں انسان کو کسی بھی صورت میں مطلق اور نامحدود آزادی نہیں دی جا سکتی۔ ایک فلسفی قاعدے کے مطابق ہر موجود کی اوصاف اس موصوف کے تابع ہیں۔ اگر موجود محدود ہو تو اس کی اوصاف بھی محدود ہوں گی۔ اور اگر موجود نامحدود ہے تو اس کی اوصاف بھی نا محدود ہونگی۔ مثال کے طور پر ذات باری تعالی ایک مطلق اور نامحدود وجود رکھتا ہے اس کی سب اوصاف بھی مطلق اور نامحدود ہونگی۔ اور انسان جو کہ محدود وجود رکھتا ہے ناچار اس کی اوصاف بھی محدود ہوں گی۔ مثلا حیات، آزادی، علم، قدرت اور ارادہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان کو لامحدود حیات حاصل ہو جاۓ اور وہ کبھی بھی نہ مرے یا اس کو لامتناہی قدرت دے دی جاۓ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ بر فرض مثال اگر ایک موجود محدود ہو اور ہم اس کے لیے نامحدود وصف قرار دے دیں تو اس سے ’’تجاوز وصف از موصوف‘‘ لازم آتا ہے جو محال ہے۔ اگر تجاوز  وصف از موصوف لازم آ جاۓ تو کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں محال ہے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ذات کی کوئی صفت ایک ایسی جگہ پائی جا رہی ہے جہاں خود موصوف نہیں پہنچا، جب کہ ضروری ہے کہ صفت وہاں ہو جہاں موصوف موجود ہو۔ اگر موصوف موجود نہیں تو اس پر صفت کہاں سے عارض ہو گئی؟

خدا نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے مگر؟

اللہ تعالی نے انسان کو جب خلق کیا تو اس کو محدود ذات عطا کی پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک محدود ذات کو نامحدود آزادی عطا کر دی جاۓ۔ انسان اپنی اوصاف میں اپنی ذات کی تابع ہے۔ اس کی ذات محدود ہے لذا اس کی آزادی بھی محدود ہوگی۔ اگرچہ اللہ تعالی نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے اور اسے ارادہ اور اختیار دیا ہے، لیکن اس کا ارادہ اور اختیار ہر دو محدود ہیں۔ انسان کا ارادہ اور اختیار نامحدود نہیں ہیں کہ وہ ان دونوں کی بل پر ہر کام کا ارادہ کر سکے یا اپنے نامحدود اختیار سے ہر کام کر گزرے۔ طبیعی اور تکوینی طور پر انسان کے لیے محدودیتیں قرار دی گئیں، اور پھر یہی انسان جب اجتماعی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو قانونی، حقوقی اور اجتماعی محدودیتیں بھی اس کی آزادی کو مزید کم کر دیتی ہیں۔ یعنی ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک فرد جو معاشرے کا حصہ ہے اسے نامحدود آزادی دے دی جاۓ، کیوکہ اگر اس کو مطلق آزادی دے دی گئی تو معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاۓ گا۔ نامحدود آزادی کیسے معاشرے میں ہرج و مرج کا باعث بنتی ہے اور انسانی طبع طغیان گری کا باعث کیسے بنتی ہے اس کو اگلی تحریر میں پیش کیا جاۓ گا۔

 

 

(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ۔)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 December 21 ، 16:18
عون نقوی

۱۔ انسان آزادی پسند ہے لیکن اس کے لیے آزادی کا مفہوم مبہم ہے

بلا تفریق ہر انسان کی خواہش ہے کہ اسے سعادت اور آزادی حاصل ہو۔ کوئی بھی عاقل انسان ایسا نہیں جو سعادت اور آزاد ہونا نہ چاہتا ہو۔ انسان چاہے غرب کا ہو یا شرق کا وہ آزادی خواہ ہے، وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر انسان آزادی پسند ہے۔ ظاہری طور پر تو ہم سب سعادت اور آزادی چاہتے ہیں لیکن ان دو مفہوموں کے دقیق اور روشن معنی نہیں جانتے۔ کیا آزادی سے مراد صرف بدن کی آزادی ہے، اگر کسی کا بدن پابند سلاسل نہ ہو لیکن اس کی سوچ اور عقیدہ غلام ہو تو کیا پھر بھی وہ آزاد کہلاۓ گا؟ کیا نفس کی خواہشات میں محبوس شخص جسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور جو اپنے نفس کا غلام ہے کیا وہ بھی آزادی رکھتا ہے؟ کیا آزادی صرف بدن کی ہے؟ یا انسان سوچ کا، معاشرے کا، نفس کا یا روحی طور پر بھی غیر آزاد ہو سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے ابھارنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہمیں سعادت اور آزادی کی درست تفسیر معلوم نہیں، کسی شخص کے نزدیک آزادی اور سعادت کچھ اور ہے اور دوسرے فرد کی نظر میں یہی دو مفہوم کسی اور معنی میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ حقیقی سعادت یا خوشبختی کی حدود کیا ہیں، اسی طرح سے مفہوم ’’آزادی‘‘ بھی ہے۔ ہر شخص آزادی چاہتا ہے لیکن اسے دقیق علم نہیں کہ آزادی کی حدود اور حقیقی تفسیر کیا ہے؟  

۲۔ آزادی کی مختلف تعریفیں

آزادی انسانی صفت ہے، اسلام بھی چاہتا ہے کہ انسان آزاد ہو اور غرب بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ ہمارا مکتب انسان کو آزادی فراہم کرتا ہے؟ جس آزادی کو اسلام آزادی کہتا ہے وہ غربیوں کے ہاں پابندی ہے اور جو مغربیوں کے ہاں آزادی کا نظریہ پایا جاتا ہے وہ آزادی اسلامی فکر کے مطابق درست نیہں۔ بقول استاد جوادی آملی آزادی کی تعریف انسان شناسی اور جہان بینی کی تعریف پر منحصر ہے۔ جس طرح سے آپ کی انسان شناسی ہے اسی طرح آپ آزادی کی تعریف کریں گے، یا جس طرح سے آپ جہان بینی کا نظریہ رکھتے ہیں ویسی ہی آپ آزادی کی تعریف کریں گے۔ بالفرض اگر ایک شخص کی جہان بینی یہ ہے کہ یہی جان اور جہان ہے ساٹھ ستر سال کی زندگی ہے، عیش و عشرت سے زندگی گزارو، اس شخص کی آزادی کی تعریف اور اس شخص کی آزادی کی تعریف جس کے نزدیک جہان اور یہ دنیا آخرت کے لیے کشت زار ہے فرق کرے گی۔ پس یہیں سے آزادی کی تعریف جو اسلام نے کی ہے وہ زمین تا آسمان اس تعریف سے جدا ہے جو مغربی مکاتب فکر نے کی۔ پس یہاں سے معلوم ہوا دونوں نے ایک ہی شے ایک ہی مفہوم ’’آزادی‘‘ کی تعریف الگ الگ کیوں کی؟ جواب یہ ہے کہ دونوں کی نظر میں جہان اور انسان کی تعریف اور اس کی حدود مختلف ہیں۔ مغربی تفکر نےجہان اور انسان کو ایک جدا جہت سے ملاحظہ کیا لیکن اسلام نے انسان اور جہان کے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا۔ 

۳۔ اسلام کا آزادی کے بارے میں نظریہ

مغربی تفکر نے آزادی کے بارے میں یہ نظریہ اختیار کیا کہ انسان کو جتنی آزادی میسر ہو بہتر ہے؟ انسان کو کوئی بھی چیز اس کو آزاد رہنے سے نہیں روک سکتی۔ چاہے وہ خالقِ مخلوقات ہو، کوئی دین ہو یا اخلاقیات، اگر انسان کی آزادی کا راستہ روکتے ہیں تو یہ درست نہیں، اگر کوئی شخص خدا کو مانتا ہے اور خدا کو ماننے سے اس کی آزادی سلب ہوتی ہے یا دوسروں کی آزادی کو ضرر پہنچتا ہے تو خدا کے حکم کو ترک کیا جاۓ گا اور انسان کی آزادی کو اولویت دینا ہوگی۔ اسی طرح سے دین کے احکام یا اخلاقیات ہیں جب تک کہ آپ کی آزادی سے نہیں ٹکراتے ٹھیک ہیں، لیکن اگر انسان کو کسی چیز کا مقید کرتے ہیں تو ان کو ترک کیا جاۓ۔ انسان کو مکمل طور پر آزادی حاصل ہے۔ لیکن اسلام اس بات کا قائل ہے کہ انسان کے لیے آزادی کسی بھی صورت میں مطلق اور نامحدود نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے کہ آپ انسان کو کاملا آزادی دینے کا نظریہ اختیار کریں اس سے پہلے انسان کی طبیعت اور اس کی ذات کو درست درک کریں۔ یہ بات ہم بھی کرتے ہیں اور مغربی تفکر بھی اس بات کو قبول کرتا ہے کہ انسان ایک محدود ذات ہے۔ ہر ذات کی صفات اپنے وجود میں اس ذات کی تابع ہوتی ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ موصوف محدود ہو اور اس کی صفات نامحدود قرار پائیں۔ مثلا انسان ایک محدود ذات ہے لذا اس کی صفات بھی محدود ہونگی۔ انسان ایک محدود ذات ہے اس کی آزادی بھی محدود ہونی چاہیے، انسان کو نا محدود آزادی نہیں دی جا سکتی۔ اس کے برعکس جو وجود نامحدود ہو اس کی صفات بھی نامحدود ہیں جیسا کہ ذات باری تعالی ہے۔ اس کی سب صفات مطلق اور نامحدود ہیں۔

۴۔ انسان تکوینی طور پر بہت محدود ہے

کامل طور پر انسان کو آزاد چھوڑ دینا انسان کی طبیعت اور ذات کے بھی بر خلاف ہے، اگر آپ انسان کی ذات پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو تکوینی طور پر بہت کم اختیارات عطا ہوۓ ہیں، مثلا انسان بنا سانس لیے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، کھانا کھاے بغیر صرف کچھ دن تک زندہ رہ سکتا ہے، بنا سوۓ کوئی کام تمرکز سے نہیں کرسکتا، انسان دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتا، ہوا میں نہیں اڑ سکتا، دور سے آتی ہوئی چیز کو نہیں دیکھ سکتا، یہ وہ تکوینی امور ہیں جہاں انسان کو ہم مجبور دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہت محدود ذات عطا کی ہے لذا اس کی آزادی اور اختیار بھی لا محالہ محدود ہے۔ اس کے علاوہ قانونی، حقوقی اور اجتماعی قید و بند بھی انسان کی آزادی کو محصور کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اگر انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اور زیادہ محدود تر ہو جاتا ہے اگر خود کو محدود نہیں کرے گا تو خود اس کی ذات کے لیے ضرر ہے۔

۵۔ آزادی کے بارے میں درست نظریہ

انسان کے بارے میں درست نظریہ یہ ہے کہ وہ نا صرف تشریعی طور پر محدود اور مطلق آزادی نہیں رکھتا بلکہ تھوڑا سا غور کرنے سے علم ہو جاتا ہے کہ انسان تکوینی طور پر بھی بہت محدود ہے اور کاملاََ آزادی نہیں رکھتا۔ پس کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک انسان جو معاشرے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کو کاملا اور مطلق آزادی دے دی جاۓ اور معاشرہ ہرج و مرج کا شکار نہ ہو، کیا یہ معاشرہ سعادت اور کمال حاصل کر سکتا ہے؟

 

 


اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، آیت اللہ العظمی جوادی آملی حفظہ اللہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 December 21 ، 18:33
عون نقوی