بصیرت اخبار

پہلی فصل میں ہم نے جانا کہ انسان  کو اللہ تعالی نے محدود آزادی عطا کی ہے۔ آزادی کی حد بندی کے لیے اللہ تعالی نے اس کے لیے شریعت  قانون کی شکل میں نازل کی ہے۔ شریعت اور قانون کے نفاذ کے لیےانسان کو حکومت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی نے قانون کا انتظام فرمایا ہے حکومت کی ضرورت کو بھی اللہ تعالی نے پورا فرمایا ہے۔ پہلی فصل در اصل دوسری فصل کا مقدمہ ہے۔  دین ایک جامع نظام ہے جس میں حکومت اور  سیاست کے مسائل موجود ہیں۔ دین وعظ و نصیحت اور محض انفرادی مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ سیاسی اور اجتماعی احکام بھی بیان کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے پیغمبروں کو مبعوث کرنے کا ہدف اس طرح سے بیان کیا ہے:

کانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فیمَا اخْتَلَفُوا فیهِ.

 لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔(۱)

اس آیت کریمہ کے مطابق انبیاء کرام  اس لیے مبعوث ہوۓ کہ وہ معاشرے میں اختلاف کو ختم کریں۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ ایک انسان کب فیصلہ یا حکم کرتا ہے؟ ظاہر ہے انسان صرف وعظ و نصیحت سے فیصلہ نہیں کر سکتا بلکہ جب اس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو تو تب فیصلہ کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی اس آیت میں یہ نہیں فرماتا کہ رسول تبشیر اور انذار سے اختلاف کو دور کریں بلکہ فرمایا بوسیلہ ’’حکم‘‘ اختلافات کو ختم کریں۔ کیونکہ اختلافات کو بغیر حکم او ر حکومت کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانوں کا آپس میں اختلاف کرنا طبیعی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اختلاف کرنا ہمیشہ مذموم ہو بلکہ صرف وہ اختلاف مذموم قرار دیا گیا ہے جو علم آ جانے کے بعد ہو۔ پس انسانوں میں اختلاف ہونا ہی ہے لیکن اس  اختلاف کو ختم کرنے کے لیے کیا کریں؟ اس کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر صاحب شریعت نبی کا کام یہی ہے ۔ تعلیم و تبشیر کرے، لوگوں کو انذار کرے اور ان کے اختلاف کو ختم کرے۔ صرف قانون لانا کافی نہیں مثلا اگر کوئی نبی شریعت لے آتا ہے اور اس کو نافذ نہیں کرتا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس  قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو صرف کاغذوں میں لکھ دیا جاۓ اور اس کا نفاذ نہ ہو۔ یہ بات واضحات میں سے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضحات میں سے ہے کہ قانون اور شریعت کے ساتھ ساتھ حکومت اور قوت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت نہ ہوئی تو قانون اور شریعت کا اجراء نا ممکن ہو کر رہ جاۓ گا۔

حکومت سے مراد

حکومت سے مراد عموما تین شعبے ہوتے ہیں۔

۱۔ قوہ مقننہ( جو قانون بناتی ہے)

۲۔ قوہ قضائیہ(جو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دیتی ہے)

۳۔ قوہ مجریہ(جو قانون کا اجراء کرتی ہے)

بعض اوقات صرف قوہ مجریہ کو حکومت کہہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر قوت سے قانون کو نافذ کر کے اختلاف کو ختم نہ کیا جاۓ تو معاشرے میں فساد بڑھتا جاتا ہے۔ قانون کا صرف ہونا کافی نہیں ، کسی کاغذ پر قانون کا لکھ دیا جانا،قرآن یا روایت میں قانون کا آجانا کافی نہیں بلکہ اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حقیقی حاکم ہے اس نے احکام جاری کر دیے ہیں لیکن اب سوال پیدا ہوگا کہ ان کا اجراء کس نے کرنا ہے؟ حکومت کس کے پاس ہو؟

حکومت کی ضرورت

دین کے مطابق قانون بنانے کا حق، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کی سزا کی تعیین، اللہ تعالی کا  حق ہے۔ لیکن قانون کا اجراء  کون کرے؟ ظاہر ہے اس کےلیے ایک ایسا شخص ہو جو اللہ تعالی کے قوانین کو جاری کرے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دے۔  خوارج کا نظریہ یہ تھا کہ حاکم صرف اللہ ہے اور امیر بھی صرف اللہ تعالی ہےیعنی وہ کہتے تھے کہ جب حکومت صرف اللہ کی ہے تو اسی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ آۓ اور زمین پر اپنی مخلوقات پر اپنے قوانین کو نافذ کرے۔اس کے علاوہ اور کسی کو حکومت کرنے کا حق نہیں ، کوئی بھی قوانین الہی کو نافذ نہیں کر سکتا، نا تو امیرالمومنینؑ اور نا ہی معاویہ۔ امیرالمومنینؑ نے ان کا شعار سن کر فرمایا :

کَلِمَهُ حَقٍّ یُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ نَعَمْ إِنَّهُ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ لَکِنَّ هَؤُلاَءِ یَقُولُونَ لاَ إِمْرَهَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ إِنَّهُ لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ.

یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں ، وہ غلط ہے۔ ہاں بیشک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کے لیے حاکم کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہوا یا برا۔(۲)

ہمارے پاس صرف دو انتخاب ہیں۔ عادل حاکم یا فاجر حاکم۔ تیسرا انتخاب سب سے بدترین ہے۔ یعنی ہم کہیں عادل حاکم ہو نا فاسق حاکم۔ جو انتخاب خوارج نے کیا وہ سب سے بد تر ین ہے۔ حاکم کے بغیر ایک معاشرے کا ہونااس سے بھی بدترین ہے کہ حاکم فاس ہو۔ فاسق حاکم کم از کم خود فساد میں مبتلا ہوتا ہے لیکن معاشرے کا نظم و نسق پھر بھی چلاتا ہے۔ لیکن اگر یہی فاسق حاکم بھی نہ ہو ہر گلی کوچے میں جرم و جنایت ہوگی۔ اس کی مثال آپ ہر اس معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ہم مقتدر حکومت نہیں دیکھتے۔ یا ایک حکومت جب گرتی ہے دوسری حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک معاشرہ سخت ترین حالات سے گزرتا ہے۔ مثلا عراق میں جس دور میں صدام کی حکومت گری، اور امریکیوں نے جب تک مکمل طور پر چارج نہ سنبھالا تھا بد ترین جرائم عراق میں وقوع پذیر ہوۓ۔ اتنے نقصان خود جنگ اور صدام کی غارتگریوں سے نہ ہوۓ جتنے ان ایام میں ہوۓ۔در نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ حکومت کا ہونا ضروری ہے اب سوال پیدا ہوگا کہ حکومت کونسی ہو؟ حکومت اسلامی ہویا غیر اسلامی؟ اس سوال کا جواب اگلی قسط میں بیان ہوگا۔(۳)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۴۰۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۳تا۷۵۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/03/09
عون نقوی

آزادی

حکومت

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی