بصیرت اخبار

۹ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امیرالمومنین» ثبت شده است

امام خمینى رضوان اللہ تعالى علیہ: 

 حکومتِ اسلامى کا قیام در اصل اہدافِ عالیہ کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ و وسیلہ ہے بذات خود حکومت کا حصول کوئى قیمت نہیں رکھتا لیکن اگر اس کو ذریعہ بنا کر احکامِ اسلامى کو جارى کیا جاسکے اور عادلانہ نظام کو قائم کیا جاسکے تو پھر اس وسیلہ کو اختیار کرنے میں کوئى حرج نہیں بلکہ ضرورى ہے کہ اس وسیلہ کو اختیار کیا جاۓ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے حکومت کے حصول کا فلسفہ سمجھانے کے لیے ابن عباس سے اپںے پھٹے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا:

’’اے ابن عباس ! میرى اس جوتى کى کیا قیمت ہے؟ ابن عباس نے جواب دیا کہ کچھ بھى نہیں۔‘‘

آپ نے فرمایا: ’’یہ حکومت کرنا میرے لئے اس جوتے سے بھى کم اہمیت رکھتا ہے  مگر یہ کہ میں اس حکومت کو وسیلہ بنا کر تم لوگوں پر حق (یعنى قانون و نظامِ اسلام) کو برقرار کر سکوں۔ اور باطل (یعنى ظالمانہ قوانین) کو تم سے دور کردوں‘‘۔

 پس معلوم ہوا کہ حکومت کا حصول و حاکم ہونا صرف ایک وسیلہ ہے۔ خود مقصد نہیں ہے بلکہ اس وسیلہ کو اختیار کر کے ایک مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اور اگر یہ وسیلہ حق کو قائم کرنے اور عالى اہداف کو پورا کرنے میں مددگار ثابت نہ ہو تو اس کى کوئى اہمیت نہیں۔ اس طرف نہج البلاغہ میں بھى اشارہ موجود ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اگر مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئى ہوتى اوراس کام (یعنى حکومت) کو مجھ پر لازم قرار نہ دیا گیا ہوتا تو میں اس کو ترک کر دیتا‘‘۔

 پس حاکمیت ایک وسیلہ ہے نہ کہ کوئى معنوى مقام کہ جس کو حاصل کرنا بہت بڑا اعزاز ہو کیونکہ اگر معنوى مقام ہو تو وہ تو کوئى چھین نہیں سکتا، اگر یہ معنوى مقام ہوتا تو امام عالى مقام ؑ اس کو ترک کرنے کى بھی بات نہ کرتے۔ جب بھى حکومت کو وسیلہ بنا کر اسلام و احکام الہى کا اجراء کیا جاۓ گا اس کى اہمیت ہوگى اور جب بھى اس کے ذریعے حق کو قائم نہ کیا جاسکے احکام الہیہ کو نافذ نہ کیا جا سکے تو اسکى کوئى وقعت و اہمیت نہیں ہوگی۔

 


حوالہ:
۱۔ حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى (رح) ، ص ۱۰۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:22
عون نقوی

سوال:

زندگى اور موت کا معیار کیا ہے؟

جواب:

امیر المومنین علىؑ فرماتے ہیں:

فَالْمَوْتُ فِی‏ حَیَاتِکُمْ‏ مَقْهُورِینَ‏ وَ الْحَیَاةُ فِی مَوْتِکُمْ قَاهِرِین‏.
تمہارا اس (دشمن) سے دب جانا جیتے جى موت ہے اور غالب آنے کى صورت میں اگر مر بھى جاؤ تو یہ مرنا جینے کے برابر ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

نہج البلاغہ، خطبہ۵۱، ص۱۰۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 23:00
عون نقوی

رسول اللہ ﷺ نے جب علانیہ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو قریش کو حضرت ابو طالبؑ کا تھوڑا بہت پاس و لحاظ تھا انہوں نت براہ راست مزاحمت کرنے کے بجاۓ اپنے لڑکوں کو یہ سکھایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو جہاں پائیں ان کو ستائیں اور ان پر اینٹ پتھر برسائیں تاکہ وہ تنگ آ کر بت پرستی کے خلاف کہنا چھوڑ دیں اور اسلام کی تبلیغ سے کنارہ کش ہو کر گھر میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ جب رسول  اللہ ﷺ گھر سے باہر نکلتے تو قریش کے لڑکے پیچھے لگ جاتے کوئی خس و خاشاک پھینکتا اور کوئی اینٹ پتھر مارتا، آنحضرت ﷺ آزردہ خاطر ہوتے اذیتیں برداشت کرتے مگر زبان سے کچھ نہ کہتے اور نہ کچھ کہنے کا محل تھا، اس لیے کہ بچوں سے الجھنا اور ان کے منہ لگنا کسی بھی سنجیدہ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ امام علیؑ نے آپ کے جسم مبارک پر چوٹوں کے نشانات دیکھے تو پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کے جسم پر نشانات کیسے ہیں؟
رسول اللہ ﷺ نے بھر آئی آواز میں فرمایا کہ اے علی! قریش خود تو سامنے نہیں آتے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ مجھے جہاں پائیں تنگ کریں، میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں تو وہ گلیوں اور بازاروں میں جمع ہو کر ڈھیلے پھینکتے اور پتھر برساتے ہیں۔ یہ انہیں چوٹوں کے نشانات ہیں۔ امام علیؑ نے یہ سنا تو بے چین ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آئندہ آپ تنہا کہیں نہ جائیں جہاں جانا ہو مجھے ساتھ لے جائیں۔ آپ تو ان بچوں کا مقابلہ کرنے سے رہے مگر میں تو بچہ ہوں میں انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا اور آئندہ انہیں جرات نہ ہوگی کہ وہ آپ کو اذیت دیں یا راستہ روکیں۔
دوسرے دن رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو علیؑ بھی ساتھ لے لیا۔ قریش کے لڑکے حسب عادت ہجوم کر کے آگے بڑھے دیکھا کہ آگے عیؑ کھڑے ہیں وہ بچے بھی علیؑ کے سن و سال کے ہوں گے انہیں اپنے ہمسن کے مقابلے میں تو بڑی جرات دکھانا چاہیے تھی مگر علیؑ کے بگڑے ہوۓ تیور دیکھ کر جھجکے۔ پھر ہمت کر کے آگے بڑھے ادھر علیؑ نے اپنی آستینیں الٹیں اور بپھرے ہوۓ شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ کسی کا بازو توڑا کسی کا سر پھوڑا کسی کو زمین پر پٹخا او رکسی کو پیروں تلے روند دیا۔ بچوں کا ہجوم اپنے ہی سن و سال کے ایک بچے سے پٹ پٹا بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے بڑوں سے فریاد کی کہ ’’قضمنا علی‘‘ علیؑ نے ہمیں بری طرح سے پیٹا ہے۔ مگر بڑوں کو بھی جرات نہ ہو سکی کہ فرزند ابو طالبؑ سے کچھ کہیں اس لیے کہ ہ سب کچھ انہی کے ایما پر ہوتا تھا۔ اس دن کے بعد بچوں کو بھی ہوش آگیا اور جب وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ علیؑ کو دیکھتے تو کہیں دبک کر بیٹھ جاتے یا ادھر ادھر منتشر ہو جاتے۔ اس واقعہ کے بعد علیؑ کو قضیم کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ جس کے معنی ہیں ہڈی پسلی توڑ دینے والا۔

 حوالہ:
 علامہ مفتی جعفر حسین، سیرت امیرالمومنینؑ، ص ۱۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 13:03
عون نقوی

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے عمل و کردار سے خود کو اپنوں اور غیروں میں منوایا، نا صرف انکے اپنے فضائل و مناقب بیان کرنے سے قاصر ہیں بلکہ غیر مسلم بھی انکی شخصیت کا مطالعہ کرکے سرگردانی کا شکار ہوتے ہیں. امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ ایک لامحدود کردار کو ایک محدود سوچ رکھنے والا سوچے بھی تو اسے بھی محدود کردیتا ہے، اس تحریر میں امام علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک مختصر سے پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے اور روایات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ امام علی علیہ السلام بطور شوہر کیسے تھے اور انہوں نے شوہرداری کیسے کی؟ 

▪️ بہترین شوہر:
بہت سے مرد بطور شوہر اپنی تعریف کرتے ہیں لیکن بہترین شوہر وہ ہے جسکی شوہرداری کی تعریف اسکی بیوی کرے. 
رسول اللہ ص اپنی دختر گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی دختر سے سوال کیا:
کَیفَ رَأیتَ زَوجک؟
آپ نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ 
حضرت زهرا سلام اللہ علیہا نے جواب دیا:
یا اَبَهِ خَیرُ زَوجٍ
بہترین شوہر ہیں. (١)

▪️ بطور شوہر گھر کی تمام ضروریات کو پورا کرتے:
اسلام نے مرد پر بطور شوہر بیوی کا نفقہ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خاتون کی بنیادی ضروریات مثلا اسکا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور اسکی رہائش کا مناسب بندوبست کرنا شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یعنی جس معاشرے میں وہ خاتون رہتی ہے اس معاشرے میں ایک معزز خاتون کی جو بنیادی ترین ضروریات بنتی ہیں انکو پورا کرنے شوہر پر فرض ہے. اگر مرد بطور شوہر اپنی بیوی کا نان و نفقہ پورا نہیں کرتا تو شرعی طور پر وہ مجرم شمار ہوتا ہے اور خاتون اسکی حاکم شرع سے شکایت کرنے کا حق رکھتی ہے. 
امام علی علیہ السلام بطور شوہر اپنی گھر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے سخت کوشش و مشقت کرتے تھے اور ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اس معاشرے کے لوگ نعوذ باللہ انکو حقیرانہ نظروں سے دیکھتے. اگرچہ یہ اور موضوع ہے کہ وہ محنت اور مشقت کرکے دولت اکٹھی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو غرباء و فقراء کے لیے وقف کردیا کرتے تھے اور خود وہ اور انوکھا گھرانہ زاہدانہ زندگی بسر کرتے. پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکا خود کا اختیار کیا ہوا راستہ تھا نا کہ خود نعوذبااللہ اپنی غفلت کی وجہ سے غریب تھے. آج ہمارے معاشروں میں مرد محنت خود نہیں کرتا خود بھی ذلیلانہ زندگی گزارتا ہے اور اپنے گھر والوں کی بھی ضروریات پورا نہیں کرپاتا. اسلام نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ غفلت میں پڑے رہیں اور حلال روزی کی تلاش میں محنت اور مشقت نہ کریں بلکہ حکم دیا ہے کہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرو. 
امام علی علیہ السلام ایک محنت کش اور حلال کے رزق کی تلاش کرنے میں شدید کوشش کرنے والے انسان تھے روایات میں ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت و مشقت کے بلبوتے پر ایک ہزار غلام آزاد کروایا. (٢)
اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین کا فقر اختیاری تھا انہوں نے خود فقر کو اختیار فرمایا تاکہ اس دور کے فقراء کے ساتھ عملی طور پر ھمدردی کرسکیں. تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علیہ السلام کی اس سیرت کو دیکھ کر منافقین انکو غربت کا طعنہ دیا کرتے اور کہتے کہ علی کے پاس کچھ نہیں ہے. 
جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا شیخ کلینی رح نے کتاب الکافی میں نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ امام علی علیہ السلام تک یہ خبر پہنچی کہ طلحہ و زبیر کہتے ہیں کہ علی کے پاس مال و ثروت نہیں وہ فقیر ہے. اس پر امام علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس سال کے میرے ہاتھوں سے تیار شدہ باغات کی ثروت کو اکٹھا کرو، ایک لاکھ درھم جب ایک ساتھ لائے گئے تو امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ طلحہ و زبیر کو لایا جائے. جب یہ دو حضرات آۓ تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سب میرے آباد شدہ باغات کی آمد کا سالانہ جمع شدہ مال ہے اور اس سب مال میں میرا کوئی شراکتدار نہیں ہے سب میرا ہے اور بعد میں امام علی علیہ السلام نے وہ سب فقراء میں تقسیم کردیا. (٣)

▪️ بطور شوہر اپنی زوجہ سے محبت کرنے والے:
رسول اللہ ص ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:

قَوْلُ الرَّجُلِ لِلْمَرْئَهِ انّی احِبُّک لا یذْهَبْ مِنْ قَلْبِها ابَداً. (٤)
مرد کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" عورت کے دل سے یہ بات کبھی فراموش نہیں ہوتی. 
امیرالمومنین علی علیہ السلام نا صرف عملی طور پر اپنی زوجہ کا احترام بجالاتے بلکہ لسانی طور پر بھی عاطفی و محبت آمیز کلمات سے مخاطب کیا کرتے، مثلا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو حَبِیبَتی زَهرَا پکارتے اور آگے سے بی بی جواب میں روحی لروحک الفداہ فرماتیں. 
شہید مطہری رحمة الله اپنی کتاب فلسفه أخلاق میں دیوان امام علی علیہ السلام سے ایک شعر نقل کرتے ہیں جس میں امام علی علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کنا کزوج حمامة فی ایکة
 متمتعیـن بصحة و شباب

ہم دونوں کبوتروں کی جوڑی کی طرح سے تھے جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو پاتے تھے. لیکن زمانے نے انکو جدا کردیا، شہید فرماتے ہیں بعض دفعہ امام علی علیہ السلام رات کی تنہائی میں قبر فاطمه زہرا سلام اللہ علیہا پر جا کر ان سے گلے و شکوے کرتے اور پھر خود فرماتے:

ما لی وقفت علی القبور مسلما
قـــبر الحبیب و لم یرد جوابی
 ا حبیب ما لک لا ترد جوابنا (٥)
میں کیوں اپنے محبوب کی قبر پر کھڑا اسے سلام کررہا ہوں؟ اور وہ مجھے جواب نہیں دیتیں؟ 
اے میری محبوب زوجہ کیوں آپ جواب نہیں دیتیں؟
 
▪️ بطور شوہر گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے:
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فقط زبانی کلامی اپنی زوجہ سے محبت کا اظہار کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ عملی طور پر گھر کے کاموں میں بھی بی بی کا ہاتھ بٹاتے، اگرچہ یہ وہ امر ہے جسے ہمارے معاشرے میں درست نہیں سمجھا جاتا، مرد حضرات گھر میں چاہے نکمے بھی ہوں تب بھی گھریلو کام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں لیکن سیرت امیرالمومنین علیہ السلام میں اسے بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے امام نا صرف باہر کے کام کاج کو نبٹاتے تھے بلکہ گھریلو کاموں میں بھی زوجہ کی مدد کرتے. ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن امام علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کام کاج کی تقسیم کررہے تھے، اسی دوران رسول اللہ ص تشریف لائے اور کاموں کی تقسیم میں رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھر سے باہر کے کام علی ع کے ذمہ ہونگے اور گھر کے کام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے، تقسیم کے بعد رسول اللہ ص نے اپنی دختر گرامی قدر سے پوچھا کہ کیا وہ اس تقسیم پر خوش ہیں؟ بی بی نے جواب دیا:
علیها) با خوشحالی فرمود: فَلا یَعلَمُ ما داخَلَنِی مِنَ السُّرُورِ اِلاَّ الله. (٦)
اس تقسیم سے جتنی خوش ہوں سواۓ اللہ کے اور کوئی نہیں جان سکتا.
اگرچہ گھر کے کام خود رسول اللہ ص کی تقسیم کے مطابق بی بی کے ذمہ تھے لیکن اس کے باوجود امام علی علیہ السلام کے گھریلو کام کاج میں بی بی کا ہاتھ بٹاتے.
ایک دن رسول اللہ ص اپنی دختر گرامی کے گھر تشریف لائے تو دیکھا علی ع اپنی زوجہ کے ساتھ کام کروا رہے ہیں تو رسول اللہ ص نے فرمایا:
ما مِن رَجُلٍ یُعیِنُ اِمرَئَتَهُ فی بَیتِها إلّا کانَ لَهُ بِکُلِّ شَعرَهٍ عَلَی بَدَنِهِ عِبادَهُ سَنَهٍ، صِیامُ نِهارِها وَ قِیامُ لَیلِها. (٧)
کوئی بھی مرد جب گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسکے سر کے بالوں کی تعداد کے برابر ایک سال کی عبادت کا ثواب عطا کرتا ہے اور وہ بھی ایسا سال کہ جس کے دنوں میں وہ روزہ دار تھا اور راتوں کو نماز کے لئے کھڑا رہا.
ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

کان أمیر المؤمنین (صلوات الله علیه) یحتطب ویستقی ویکنس وکانت فاطمة (سلام الله علیها) تطحن وتعجن وتخبز. (٨)
امیرالمومنین علی علیہ السلام کھانا پکانے کے لیے لکڑیوں کا بندوبست کیا کرتے، پانی لایا کرتے اور گھر کی صفائی کرتے جبکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گندم پیس کر اسکا آٹا بناتیں، آٹا گوندتیں اور روٹی تیار کرتی تھیں.
▪️ بطور شوہر غیرت کا پیکر:
اسلام میں عورت کے گھر سے باہر جانے پر کلی طور پر ممانعت وارد نہیں ہوئی بلکہ تعلیم کے حصول کے لیے یا کسی بھی اور شرعی یا عقلی ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن بغیر کسی مجبوری کے یا گھر کے مردوں کی موجودگی میں باہر جانا اور بازاروں کی زینت بننا یا نامحرم کے لیے خود کو آمادہ کرنا اسلام نے حرام قرار دیا ہے، اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام رسول اللہ ص کی تقسیم کار پر ہمیشہ عمل کرتے، جس طرح سے رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ فاطمہ س گھر کے کام کیا کریں گی اور علی ع باہر کے کام، اس لیے بی بی سلام اللہ علیہا نے اپنے شوہر نامدار کی موجودگی میں کبھی بھی کسی غیر ضروری امر کے لیے گھر سے باہر قدم نہ رکھا، البتہ جب اسی بی بی نے اپنے شوہر کو تنہا پایا تو نافقط گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی انکا دفاع کیا.
ایک دفعہ امام علی علیہ السلام کی خدمت میں شکایت لائی گئی جس میں کہا گیا کہ کوفہ کی عورتیں خود بازاروں میں آمد و رفت پہ شروع ہو گئی ہیں اور بازار آنے جانے سے ہرگز نہیں کتراتیں!
یہ جان کر امام علی علیہ السلام نے کوفہ والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

أما تَستَحیُونَ وَ لا تُغارُونَ وَ نِسائُکُم یِخرُجنَ إلی الأسواقِ. (٩)
کیا تم لوگ حیا نہیں کرتے؟ اور تم لوگوں کو غیرت نہیں آتی جب تمہاری عورتیں بازاروں میں جاتی ہیں؟

▪️ بطور شوہر سب بیویوں میں عدالت کو برقرار رکھتے:
جب تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زندہ تھیں امام علی علیہ السلام نے دوسری شادی نہ کی، بی بی کے بعد آپ نے جتنی بھی ازواج کے ساتھ زندگی بسر کی کبھی بھی کسی سے ناانصافی سے کام نہ لیا اور ہمیشہ کوشش کرتے کہ سب کے درمیان ازدواجی امور میں عدالت کو برقرار کریں.
عدالت کی برقراری کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں نقل ہوا ہے کہ امام علیہ السلام اپنی ازواج کے حقوق کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جس دن کسی ایک زوجہ کے ہاں رات بسر کرنے کی باری ہوتی تو وضو بھی اسی زوجہ کے گھر جا کر کرتے اور اس دن کسی دوسری زوجہ کے گھر سے وضو نہیں کرتے تھے. (١٠)
▪️ نتیجہ:
اگرچہ کوئی بھی شوہر اس طرح سے نہیں ہو سکتا جس طرح سے امام علی علیہ السلام تھے، لیکن ضروری ہے کہ ہر شوہر اپنی زوجہ سے تعامل کرتے ہوئے ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش ضرور کرے.

حوالہ جات:
١. دانشنامه امام علی علیه السلام، ج١، ص١٠٠٦.
٢. علامه مجلسی، بحار الأنوار، ج٤١، ص١٣٩.
٣. الشیخ کلینی، الکافی، ج٦  ص٤٤٠. 
٤. شیخ حر آملی، وسائل الشیعه، ج۱۴، ص١٢٠. 
٥. شہید مطہری، فلسفه اخلاق،    ج١ ص٢٤٩. 
٦. محمد تویسرکانی، لئالی الاخبار، ج١، ص٨٣. 
٧. مھدی النراقی، جامع السعادات، ج٢، ص١٤٠. 
٨. شیخ کلینی، الکافی، ج٥، ص٨٦. 
٩. الفیض الکاشانی، محجّه البیضاء، ج٣، ص١٠٤. 
١٠. شیخ حر آملی، وسائل الشیعه ج١٥، ص٨٥.

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 11:53
عون نقوی