بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

محمد ابن حنفیہ کو آداب حرب کی تعلیم

تَزُولُ الْجِبَالُ وَ لاَ تَزُلْ عَضَّ عَلَی نَاجِذِکَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَکَ تِدْ فِی الْأَرْضِ قَدَمَکَ ارْمِ بِبَصَرِکَ أَقْصَی الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَکَ وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ.

پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کو عاریت دیے دینا۔ اپنے قدم زمین میں گاڑھ دینا۔ لشکر کی آخری صفوں پر اپنی نظر رکھنا اور (دشمن کی کثرت و طاقت سے) آنکھوں کو بند کر لینا اور یقین رکھنا کہ مدد خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:38
عون نقوی

جب زبیر نے یہ کہا کہ میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرمایا

یَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ بَایَعَ بِیَدِهِ وَ لَمْ یُبَایِعْ بِقَلْبِهِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَیْعَهِ وَ ادَّعَی الْوَلِیجَهَ فَلْیَأْتِ عَلَیْهَا بِأَمْرٍ یُعْرَفُ وَ إِلاَّ فَلْیَدْخُلْ فِیمَا خَرَجَ مِنْهُ.

وہ ایسا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے بیعت ہاتھ سے کر لی تھی مگر دل سے نہیں کی تھی۔ بہر صورت اس نے بیعت کا تو اقرار کر لیا، لیکن اس کا یہ ادعا کہ اس کے دل میں کھوٹ تھا تو اسے چاہئے کہ اس دعوی کے لیے کوئی واضح دلیل پیش کرے، ورنہ جس بیعت سے منحرف ہوا ہے اس میں واپس آۓ۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:29
عون نقوی

منافقین کی حالت

اتَّخَذُوا الشَّیْطَانَ لِأَمْرِهِمْ مِلاَکاً وَ اتَّخَذَهُمْ لَهُ أَشْرَاکاً فَبَاضَ وَ فَرَّخَ فِی صُدُورِهِمْ وَ دَبَّ وَ دَرَجَ فِی حُجُورِهِمْ فَنَظَرَ بِأَعْیُنِهِمْ وَ نَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ فَرَکِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِکَهُ الشَّیْطَانُ فِی سُلْطَانِهِ وَ نَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَی لِسَانِهِ.

انہوں نے اپنے ہر کام کا کرتا دھرتا شیطان کو بنا رکھا ہے اور اس نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔ اس نے ان کے سینوں میں انڈے دئیے ہیں اور بچے نکالے ہیں اور انہی کی گود میں وہ بچے رینگتے اور اچھلتے کودتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے تو ان کی آنکھوں سے، اور بولتا ہے تو ان کی زبانوں سے، اس نے انہیں خطاؤں کی راہ پر لگایا ہے اور بری باتیں سجا کر ان کے سامنے رکھی ہیں، جیسے اس انہیں اپنے تسلط میں شریک بنا لیا ہو اور انہیں کی زبانوں سے اپنے کلام باطل کے ساتھ بولتا ہو۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:22
عون نقوی

جب طلحہ و زبیر کے تعاقب سے آپؑ کو روکا گیا اس موقع پر فرمایا

وَ اللَّهِ لاَ أَکُونُ کَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَی طُولِ اللَّدْمِ حَتَّی یَصِلَ إِلَیْهَا طَالِبُهَا وَ یَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا وَ لَکِنِّی أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَی الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِیعِ الْعَاصِیَ الْمُرِیبَ أَبَداً حَتَّی یَأْتِیَ عَلَیَّ یَوْمِی فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّی مُسْتَأْثَراً عَلَیَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِیَّهُ صلی الله علیه وسلم حَتَّی یَوْمِ النَّاسِ هَذَا.

خدا کی قسم! میں اس بجّو کی طرح ہوں گا جو لگاتار کھٹکھٹاۓ جانے سے سوتا ہوا بن جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا طلبگار(شکاری) اس تک پہنچ جاتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنے والا اس پر اچانک قابو پا لیتا ہے۔ بلکہ میں تو حق کی طرف بڑھنے والوں اور گوش پر آواز اطاعت شعاروں کو لے کر ان خطاؤں شک میں پڑنے والوں پر اپنی تلوار چلاتا رہوں گا، یہاں تک کہ میری موت کا دن آجاۓ۔ خدا کی قسم! جب سے اللہ نے اپنے رسولﷺ کو دنیا سے اٹھایا۔ برابر دوسروں کو مجھ پر مقدم کیا گیا اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا۔

حوالہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 August 21 ، 13:29
عون نقوی

صفین سے پلٹنے کے بعد فرمایا

أَحْمَدُهُ اسْتِتْمَاماً لِنِعْمَتِهِ وَ اسْتِسْلاَماً لِعِزَّتِهِ وَ اسْتِعْصَاماً مِنْ مَعْصِیَتِهِ وَ أَسْتَعِینُهُ فَاقَهً إِلَی کِفَایَتِهِ إِنَّهُ لاَ یَضِلُّ مَنْ هَدَاهُ وَ لاَ یَئِلُ مَنْ عَادَاهُ وَ لاَ یَفْتَقِرُ مَنْ کَفَاهُ فَإِنَّهُ أَرْجَحُ مَا وُزِنَ وَ أَفْضَلُ مَا خُزِنَ وَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ شَهَادَهً مُمْتَحَناً إِخْلاَصُهَا مُعْتَقَداً مُصَاصُهَا نَتَمَسَّکُ بِهَا أَبَداً مَا أَبْقَانَا وَ نَدَّخِرُهَا لِأَهَاوِیلِ مَا یَلْقَانَا فَإِنَّهَا عَزِیمَهُ الْإِیمَانِ وَ فَاتِحَهُ الْإِحْسَانِ وَ مَرْضَاهُ الرَّحْمَنِ وَ مَدْحَرَهُ الشَّیْطَانِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالدِّینِ الْمَشْهُورِ وَ الْعَلَمِ الْمَأْثُورِ - وَ الْکِتَابِ الْمَسْطُورِ وَ النُّورِ السَّاطِعِ وَ الضِّیَاءِ اللاَّمِعِ وَ الْأَمْرِ الصَّادِعِ إِزَاحَهً لِلشُّبُهَاتِ وَ احْتِجَاجاً بِالْبَیِّنَاتِ وَ تَحْذِیراً بِالْآیَاتِ وَ تَخْوِیفاً بِالْمَثُلاَتِ وَ النَّاسُ فِی فِتَنٍ انْجَذَمَ فِیهَا حَبْلُ الدِّینِ وَ تَزَعْزَعَتْ سَوَارِی الْیَقِینِ وَ اختَلَفَ النّجرُ وَ تَشَتّتَ الأَمرُ وَ ضَاقَ المَخرَجُ وَ عمَیِ َ المَصدَرُ فَالهُدَی خَامِلٌ وَ العَمَی شَامِلٌ عصُیِ َ الرّحمَنُ وَ نُصِرَ الشّیطَانُ وَ خُذِلَ الإِیمَانُ فَانهَارَت دَعَائِمُهُ وَ تَنَکّرَت مَعَالِمُهُ وَ دَرَسَت سُبُلُهُ وَ عَفَتْ شُرُکُهُ أَطَاعُوا الشَّیْطَانَ فَسَلَکُوا مَسَالِکَهُ وَ وَرَدُوا مَنَاهِلَهُ بِهِمْ سَارَتْ أَعْلاَمُهُ وَ قَامَ لِوَاؤُهُ فِی فِتَنٍ دَاسَتْهُمْ بِأَخْفَافِهَا وَ وَطِئَتْهُمْ بِأَظْلاَفِهَا وَ قَامَتْ عَلَی سَنَابِکِهَا فَهُمْ فِیهَا تَائِهُونَ حَائِرُونَ جَاهِلُونَ مَفْتُونُونَ فِی خَیْرِ دَارٍ وَ شَرِّ جِیرَانٍ نَوْمُهُمْ سُهُودٌ وَ کُحْلُهُمْ دُمُوعٌ بِأَرْضٍ عَالِمُهَا مُلْجَمٌ وَ جَاهِلُهَا مُکْرَمٌ.

و منها یعنی آل النبی علیه الصلاه و السلام

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَأُ أَمْرِهِ وَ عَیْبَهُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُکْمِهِ وَ کُهُوفُ کُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِینِهِ بِهِمْ أَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهْرِهِ وَ أَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ.

و منها یعنی قوما آخرین

زَرَعُوا الْفُجُورَ وَ سَقَوْهُ الْغُرُورَ وَ حَصَدُوا الثُّبُورَ لاَ یُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّهِ أَحَدٌ وَ لاَ یُسَوَّی بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَیْهِ أَبَداً هُمْ أَسَاسُ الدِّینِ وَ عِمَادُ الْیَقِینِ إِلَیْهِمْ یَفِیءُ الْغَالِی وَ بِهِمْ یُلْحَقُ التَّالِی وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلاَیَهِ وَ فِیهِمُ الْوَصِیَّهُ وَ الْوِرَاثَهُ الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَی أَهْلِهِ وَ نُقِلَ إِلَی مُنْتَقَلِهِ.

اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں، اس کی نعمتوں کی تکمیل چاہنے، اس کی عزت و جلال کے آگے سر جھکانے اور اس کی معصیت سے حفاظت حاصل کرنے کے لیے اور اس سے مدد مانگتا ہوں، اس کی کفایت و دستگیری کا محتاج ہونے کی وجہ سے۔ جسے وہ ہدایت کرے وہ گمراہ نہیں ہوتا، جسے وہ دشمن رکھے، اسے کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا، جس کا وہ کفیل ہو، وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا یہ(حمد اور طلب امداد) وہ ہے جس کا ہر وزن میں آنے والی چیز سے پلہ بھاری ہے اور ہر گنج گراں مایہ سے بہتر و برتر ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو یکتا و لا شریک ہے ایسی گواہی جس کا خلوص پرکھا جا چکا ہے اور جس کا نچوڑ بغیر کسی شائبے کے دل کا عقیدہ بن چکا ہے۔ زندگی بھر ہم اسی سے وابستہ رہیں گے اور اسی کو پیش آنے والے خطرات کے لیے ذخیرہ بنا کر رکھیں گے۔ یہی گواہی ایمان کی مضبوط بنیاد اور حسن عمل کا پہلا قدم اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ اور شیطان کی دوری کا سبب ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے عبد اور رسول ہیں۔ جنہیں شہرت یافتہ دین، منقول شدہ نشان، لکھی ہوئی کتاب، ضوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جاۓ اور دلائل(کے زور) سے حجت تمام کی جاۓ۔ آیتوں کے ذریعے ڈرایا جاۓ اور عقوبتوں سے خوفزدہ کیا جاۓ(اس وقت حالت یہ تھی کہ) لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے۔ نکلنے کی راہیں تنگ و تاریک تھیں۔ ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں) اللہ کی مخالفت ہوتی تھی اور شیطان کو مدد دی جا رہی تھی، ایمان بے سہارا تھا۔ چنانچہ اس کے ستون گر گئے، اس کے نشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے۔ اس کے راستے مٹ مٹا گئے اور شاہراہیں اجڑ گئیں، وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اس کے گھاٹ پر اتر پڑے۔ انہی کی وجہ سے اس کے پھریرے ہر طرف لہرانے لگے تھے۔ ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سموں سے روندتے اور اپنے کھروں سے کچلتے تھے اور اپنے پنجوں کے بل مضبوطی سے کھڑے ہوۓ تھے۔ تو وہ لوگ ان میں حیران و سرگرداں، جاہل و فریب خوردہ تھے۔ ایک ایسے گھر میں جو خود اچھا، مگر اس کے بسنے والے برے تھے۔ جہاں نیند کی بجاۓ بیداری اور سرمے کی جگہ آنسو تھے۔ اس سر زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معزز و سرفراز تھا۔

اسی خطبے کا حصہ جو اہلبیت نبیؑ سے متعلق ہے

وہ سرّ خدا کے امین اور اس کےدین کی پناہ گاہ ہیں۔ علم الہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں۔ کتب(آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کا خم سیدھا کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کی کپکپی دور کی۔

اسی خطبے کا ایک حصہ جو دوسروں کے متعلق ہے

انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ہلاکت کی جنس حاصل کی۔ اس امت میں کسی کو آل محمدﷺ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں، وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔ آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں اور انہی کے بارے میں ’’پیغمبر کی‘‘ وصیت اور انہی کے لیے (نبیؐ کی) وراثت ہے۔ اب یہ وقت وہ ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہو گیا۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۲۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 August 21 ، 10:38
عون نقوی