بصیرت اخبار

افلاطون کی نظر میں انواع حکومت

Monday, 13 February 2023، 07:01 PM

سیاسی افکار

افلاطون کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

 

یونانی فلاسفہ کے نظریات ہر دور میں توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاسی مفکرین آج بھی ان کے نظریات سے خود کو بے نیاز نہیں سمجھتے۔ افلاطون ان افراد میں سے ہے ہیں جن سے اسلامی فلاسفہ بھی متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکے۔ حکومت کے بارے میں افلاطون کا نظریہ کیا تھا اور انہوں نے حکومت کی کتنی انواع بیان کی ہیں اس تحریر میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاۓ گا۔

افلاطون کی نظر میں حکومت

افلاطون کی نظر میں اچھے حاکم کا معیار فلسفہ و ہنر سیاست کی تعلیم ہے۔ اگر کوئی حکمران فیلسوف نہیں ہے اور سیاست کے ہنر کو نہیں جانتا اسے حکومت نہیں کرنی چاہیے۔ افلاطون کی نظر میں حکمران کو فیلسوف ہونا چاہیے۔ فیلسوف وہ شخص ہے جو صاحب حکمت و تدبیر ،اخلاقی طور پر شجاع ہےاور عدل و انصاف سے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اس لیے تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔[1]

 انواع حکومت

افلاطون نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اپنی نظر کو مسلط کرتا ہے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتے۔
ان دو قسموں میں ایک گروہ کی حکومت ہے۔

۵۔ اچھی ڈیموکریسی: جس میں حکومت عام عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔
۶۔ بری ڈیموکریسی: جس میں حکومت عام عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتے۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔

 مطلوب ترین حکومت

افلاطون کی نظر میں مطلوب ترین حکومت مونارشی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں مونارشی قائم ہو جاۓوہ مدینہ فاضلہ کا مصداق بن جاۓ گا۔ لیکن اگر مونارشی قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم اریستوکریسی قائم ہونی چاہیے۔ بے شک اقتدار چند افراد میں تقسیم ہو جاۓ لیکن وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کریں۔ اگر اریستوکریسی بھی قائم نہیں ہو سکتی تو پھر اچھی ڈیموکریسی قائم کریں۔ واضح رہے کہ اچھی ڈیموکریسی اگر قائم ہو جاۓ تو تب بھی اس کا درجہ مطلوب حکومتوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔

نامطلوب ترین حکومت

اس کے برعکس سب سے بد ترین حکومت استبدادی حکومت ہے جس میں صرف ایک شخص حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی بھی نہیں کرتا۔ نامطلوب حکومتوں میں دوسرا نمبر الیگارشی کا ہے جس میں ایک گروہ پوری مملکت پر مسلط ہو جاتا ہے اور کسی اقدار و قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ اورتیسرا نمبر بری ڈیموکریسی کا ہےجس میں حکومت ایک شخص یا کسی گروہ کے قبضہ میں نہیں ہے۔ یہ طرز حکومت الیگارشی اور استبدادی سے پھر بھی بہتر ہے۔ کیونکہ اس حکومت میں کم از کم اقتدار کو تقسیم کردیا گیا ہے اگر یہی قدرت ایک گروہ یا خدانخواستہ ایک شخص کے ہاتھ لگ جاۓ بدترین نوع حکومت وجود میں آتی ہے۔[2]

منابع:

1 افلاطون، دوره آثار افلاطون، ج۲، ص۱۰۱۶، ترجمہ محمدحسن لطفی و رضا کاویانی۔
2 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۵۵۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی