بصیرت اخبار

نبوت پر نقلی دلائل۔ جوادی آملی

Saturday, 15 January 2022، 03:21 PM

قرآن کریم میں دو قسم کے شجر کا ذکر ہوا ہے۔

۱۔ شجرہ طوبی

۲۔ شجرہ خبیثہ

سورہ ابراہیم میں وارد ہوا ہے:

أَ لَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِی السَّماءِ.

 کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں؟(۱)

اور سورہ صافات میں شجرہ خبیثہ کے بارے میں وارد ہوا ہے:

إِنَّها شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فی‏ أَصْلِ الْجَحیمِ طَلْعُها کَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّیاطینِ.

یہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے اس کے خوشے شیاطین کے سروں جیسے ہیں۔(۲)

انسان اس وقت کمال حاصل کر سکتا ہے جب صحیح راستے کی طرف بڑھ رہا ہو۔ کمال کی راہ میں جو شے اس کے لیے مفید ہو اس کا استعمال کرے اور جو شے ضرر رساں ہو اس سے خود کو دور کرے۔ ایک پودا اس وقت ہرا بھرا ہو سکتا ہے جب اسے مناسب مقدار میں پانی، روشنی اور حرارت مہیا ہو۔ باغبان اس کا خیال رکھے اگر ایک پودے کو اس کی ضرورت سے زیادہ پانی دے دیا جائے یا بہت کم پانی دیں تو وہ ہر دو صورتوں میں مرجھا جاۓ گا۔ یہی قانون انسان کے لیے بھی ہے۔ الہی باغ کا ایک حسین پھول انسان ہے جسے خود خدا نے اگایا ہے اور اس کا خیال رکھنے والا ہے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کا شمار بھی شجرہ طوبی سے ہو، جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں آسمانوں تک پھیلی ہوئی ہیں تو اسے چاہیے کہ غور کرے کونسی چیز اس کے لیے اللہ تعالی نے ضروری قرار دی ہے۔ کتنا پانی اس پودے کو دینا ہے، کتنی اسے حرارت چاہیے اور لوازمات اور موانع ہیں۔ اگر اس کے مطابق چلا تو شجرہ طوبی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر بے راہروی کا شکار ہو، اور اس نسخے پر عمل نہ کیا جو اس کی نشو و نما کے لیے ضروری تھا تو وہ شجرہ خبیثہ بن جاۓ گا جس کی تہہ جہنم، شاخیں شیطان کا سر اور پھل تلخ ہے۔ اگر انسان نبوت کا اقرار کرے اور خود کو اس کے مطابق ڈھال لے تو وہ شجرہ طیبہ بن جاتا ہے اور ’’أَصْلُها ثابِتٌ‘‘ کہلاتا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ سعادت مند قانون دیا جو انبیاء شریعت کی شکل میں انسانوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اللہ تعالی کے حکیم ہونے کا تقاضا تھا کہ جب اس نے انسان کو سعادت مند بنانا تھا تو ساتھ انبیاء کرامؑ بھی بھیجتا، جو کہ بھیجے بھی ہیں۔ اللہ تعالی کا حکیم ہونا ہی نبوت کے اثبات کے لیے کافی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک حکیم ذات ایک مخلوق کو سعادت مند کرنا چاہے اور اس کے لیے نبی یا پیغمبر نہ بھیجے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جن افراد نے نبوت کا انکار کیا ہے در اصل انہوں نے اللہ تعالی کے حکیم ہونے کا انکار کیا ہے۔ نبوت کا انکار اللہ تعالی کا انکار ہے۔

نبوت پر دلیل

نبوت اور شریعت کے اثبات کے لیے ہمارے پاس آیات کثیر ہیں اور گذشتہ دروس میں ان میں سے بعض گزر چکی ہیں اس لیے طولانیت سے بچتے ہوئے آیات کریمہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دو احادیث پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔

پہلی روایت

الکافی میں وارد ہوا ہے کہ امام جعفر صادقؑ سے ایک زندیق (ملحد) نے پوچھا کہ خدا کے وجود پر تو آپ لوگ دلیلیں لے آتے ہیں لیکن یہ نبیوں کا سلسلہ آپ نے کیسے بنا لیا ہے؟ کیا نبوت پر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے؟ امامؑ نے اس کے جواب میں فرمایا:

إِنَّا لَمَّا أَثْبَتْنَا أَنَّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً مُتَعَالِیاً عَنَّا وَ عَنْ جَمِیعِ مَا خَلَقَ وَ کَانَ ذَلِکَ الصَّانِعُ حَکِیماً مُتَعَالِیاً لَمْ یَجُزْ أَنْ یُشَاهِدَهُ خَلْقُهُ وَ لَا یُلَامِسُوهُ فَیُبَاشِرَهُمْ وَ یُبَاشِرُوهُ وَ یُحَاجَّهُمْ وَ یُحَاجُّوهُ ثَبَتَ أَنَّ لَهُ سُفَرَاءَ فِی خَلْقِهِ یُعَبِّرُونَ عَنْهُ إِلَى خَلْقِهِ وَ عِبَادِهِ وَ یَدُلُّونَهُمْ عَلَى مَصَالِحِهِمْ وَ مَنَافِعِهِمْ وَ مَا بِهِ بَقَاؤُهُمْ وَ فِی تَرْکِهِ فَنَاؤُهُمْ- فَثَبَتَ الْآمِرُونَ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْحَکِیمِ الْعَلِیمِ فِی خَلْقِهِ وَ الْمُعَبِّرُونَ عَنْهُ جَلَّ وَ عَزَّ وَ هُمُ الْأَنْبِیَاءُ ع وَ صَفْوَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ حُکَمَاءَ مُؤَدَّبِینَ بِالْحِکْمَةِ مَبْعُوثِینَ بِهَا غَیْرَ مُشَارِکِینَ لِلنَّاسِ عَلَى مُشَارَکَتِهِمْ لَهُمْ فِی الْخَلْقِ وَ التَّرْکِیبِ فِی شَیْ‌ءٍ مِنْ أَحْوَالِهِمْ مُؤَیَّدِینَ‌ مِنْ عِنْدِ الْحَکِیمِ الْعَلِیمِ بِالْحِکْمَةِ ثُمَّ ثَبَتَ ذَلِکَ فِی کُلِّ دَهْرٍ وَ زَمَانٍ مِمَّا أَتَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَ الْأَنْبِیَاءُ مِنَ الدَّلَائِلِ وَ الْبَرَاهِینِ لِکَیْلَا تَخْلُوَ أَرْضُ اللَّهِ مِنْ حُجَّةٍ یَکُونُ مَعَهُ عِلْمٌ یَدُلُّ عَلَى صِدْقِ مَقَالَتِهِ وَ جَوَازِ عَدَالَتِهِ.(۳)

اس روایت میں امامؑ نے برہان قائم کیا کہ اس کے بعد کہ جب ہم نے اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کر لیا اور مان لیا کہ ہم سب کا ایک خالق ہے جو ’’صانع‘‘ اور ’’متعالی‘‘ ہے جو اس امر سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی مخلوق اسے دیکھ سکے یا لمس کر سکے۔ مخلوق اسے بلاواسطہ طور پر ارتباط برقرار نہیں کر سکتی، وہ متعالی ہے کوئی مخلوق اسے مستقیم طور پر درک نہیں کر سکتی۔ وہ مخلوقات کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر، یا ان سے بات چیت نہیں کر سکتا۔ ان اوصاف کی بنا پر اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ انسانوں سے ارتباط برقرار کرنے کے لیے کوئی ایسا وجود خلق کرے جو انسانوں اور اس کے درمیان واسطہ ہو۔ یہی واسطہ نبی ہیں۔ نبی وہ واسطہ ہیں جو اللہ تعالی کے احکام کو ہم تک پہنچاتے ہیں اور ہمیں منافع اور مصالح بتاتے ہیں۔

دوسری روایت

علل الشرائع میں امام صادقؑ سے مروی ہے:

لَوْ کَانَ النَّاسُ رَجُلَیْنِ لَکَانَ أَحَدُهُمَا الْإِمَامَ وَ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَنْ یَمُوتُ الْإِمَامُ لِئَلَّا یَحْتَجَّ أَحَدُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ تَرْکَهُ بِغَیْرِ حُجَّةٍ.(۴)

یعنی اگر دنیا میں صرف دو افراد باقی رہ جائیں تو ان دو میں سے ایک امام ہوگا، اور ان میں سے جو سب سے آخر میں اس دنیا سے جاۓ گا وہ امام ہوگا۔ اس لیے کہ دوسرا شخص روز قیامت خدا کے آگے یہ احتجاج نہ کرے کہ اسے بغیر حجت کے چھوڑ دیا گیا۔ اس روایت میں بھی امامؑ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ امام اور حجت کا وجود بہت ضروری ہے۔

انسان محتاجِ نبوت

انسان ایک ایسا موجود ہے جو دقیق علم نہیں رکھتا کہ کونسی شے اس کے لیے مفید ہے اور کونسی شے مضر۔ حلال، حرام اچھا اور برا جزئیات کے ساتھ نہیں جانتا۔ اس لیے اسے ایک قانون کی ضرورت ہے۔ ایک جامع قانون جو اسے مکمل ضابطہ حیات عطا کرے۔ درست ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے اور اس سے اچھے برے کی تمیز کرتا ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ عقل تمام مسائل کو ان کی جزئیات کے ساتھ درک کرنے سے قاصر ہے۔ عقل صرف کلیات کو درک کر سکتی ہے۔ اس لیے انسان بہرحال عقل سے بالا تر ایک ایسے امر کا محتاج ہے جو تمام امور کی جزئیات کو جانتا ہو۔ انسان کونسا پھل کھاۓ؟ کس جانور کا گوشت اس کے لیے مفید اور مضر ہے؟ ہر قسم کی مچھلی کھا سکتا ہے یا نہیں؟ کتا اور سور کھاۓ یا نہ کھاۓ؟ کس قسم کا لباس پہنے؟ ان جزئیات کو انسان نہیں جانتا۔ دوسری طرف کمال بھی چاہتا ہے، پس یہاں پر اسے مکمل اور درست قانون کی ضرورت پڑتی ہے جو فقط اسے خدا عطا کر سکتا ہے۔ نبی یہی قانون بشر تک لاتا ہے جسے ہم شریعت کہتے ہیں۔(۵)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ ابراہیم: ۲۴۔

۲۔ صافات: ۶۵،۶۴۔

۳۔ شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۶۸۔

۴۔ شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱، ص۱۹۶۔

۵۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۷تا۵۸۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی