بصیرت اخبار

گزشتہ تحریروں میں ہم نے آزادی انسان، عبودیت اور قانون کے بارے میں مختصر طور پر جانا۔ یہاں پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ ان سب ابحاث کا ولایت فقیہ سے کیا تعلق ہے؟ آپ ولایت فقیہ کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں لیکن اس بیچ آزادی، انسان کا عبد ہونا، اور قانون کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولایت فقیہ کے حقیقی مقدمے یہی ابحاث ہیں۔ یعنی اگر کسی شخص کے لیے یہ امر واضح نہیں کہ وہ آزاد ہے یا نہیں؟ آزادی سے مراد کیا ہے ؟ عبد ہے یا نہیں اور اگر عبد ہے تو عبودیت کے تقاضے کیا ہیں؟ قانون کیا ہے ؟ قانون کی کیا خصوصیات ہیں؟ اور قانون کون بناۓ؟ قانون بشری ہونا چاہیے یا الہی؟ اگر ان سوالوں کے جوابات ہم جان لیں تو تب ولایت فقیہ کی بحث کی نوبت آتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم قائل ہو گئے کہ ہم عبد ہیں اور عبد صرف الہی قانون کی پیروی کرتا ہے تو تب جا کر ولایت فقیہ کا دروازہ کھلے گا۔ یعنی سوال پیدا ہوگا کہ الہی قانون کواللہ تعالی سے کس نے لانا ہے اور کس نے نافذ کرنا ہے؟ آیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے یا اس کو نافذ کرنے والا بھی موجود ہو؟اس لیے ان مقدمات کا حل ہونا ضروری ہے۔

قانون بنانے کا حق

ہم نے عقلی دلیل سے ثابت کیا کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔اس سے پہلے ہم نے یہ موضوع بھی زیر بحث لایا کہ قانون بنانے والے کے اندر کیا خصوصیات ہوں؟اور خود قانون کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اس میں ہم نے بیان کیا کہ جو ذات قانون بنا رہی ہو اس کو انسان کی ضروریات کا بہت دقیق علم ہو؟ انسان کی حاجات  کو جانتا ہو، با الفاظ دیگر انسان شناسی اور جہان شناسی رکھے۔ دوسری خصوصیت اس میں یہ ہو کہ انسان کے نفع اور خسارے کے بارے میں جانتا ہو۔ اگر اس کو یہ علم نہ ہو تو بہت نقصان ہوگا جیسا کہ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے جنگی فیصلے یا بادشاہوں کے فیصلے جو ناسمجھی کی وجہ سے ہوۓ ان کا کتنا نقصان ہوا۔  قانون بنانے والے کو خصوصی طور پر علم ہو کہ انسان کا کائنات سے کیا رابطہ ہے اور کیسا رابطہ ہونا چاہیے؟ اس کو علم ہو کہ انسان اس کائنات میں کونسی چیز کھاۓ تو وہ اس کے لیے مفید ہے اور کونسی چیز کھاۓ تو اس کے لیے مضر ہے۔ اس کو علم ہو کہ انسان نے جہان سے کیا اور کیسا ربط رکھنا ہے؟ آیا انسان ایٹم بم بناۓ یا نہ بناۓ؟ انسان  وائرس بناۓ یا نہ بناۓ؟ علم اور ٹیکنالوجی کا کس طرح کا استعمال کرے؟ کونسی عادات اور اطوار رکھے ؟ ایسا نہ ہو کہ سب کچھ احتمال کی بنا پر انجام دے اور انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔ مثلا خود مغربیوں نے پہلے ایٹم بم بنایا اس سے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا اور پھر بعد میں کہا کہ ایٹم بم تو نہیں بنانا چاہیے یہ غلط کام ہو گیا۔ خود بنا بھی لیا اور استعمال بھی کر لیا اور دوسروں پر پابندیاں لگا دیں کہ آپ ایٹمی توانائی نہیں حاصل کر سکتے۔قانون بنانے والے کو انسان کی طبیعت کا دقیق علم ہو، انسان کے اندرون اور بیرون کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہو۔ کیونکہ اگر قانون بناتے ہوۓ انسان کے اندرون کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔ تزکیہ نفس انسان کو اندر سے تبدیل کرتا ہے اور اگر انسان اندر سے اصلاح ہو جاۓ تب جا کر قانون کی پیروی کرتا ہے۔ جب ان خصوصیات کو ہم دیکھتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب خصوصیات کسی انسان میں تو نہیں ہو سکتیں۔ یہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو ان سب خصوصیات کا مجموعہ ہے۔  اگرچہ مغربی اس کے دعوے دار ہیں کہ ہم خود قانون بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات صرف دعوی ہے ، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود مغرب نے آج سے چندسال پہلے فیصلے کیے اور معاشروں میں قانون بناۓ آج ان پر پشیمان ہے۔ پہلے خود فیملی سسٹم کو نابود کیا، محرم نامحرم کی قید کو ختم کیا جنسی شہوات کو ابھار او رآج ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب  اس فیصلے پر پشیمان ہے ، کیونکہ مغرب میں اس حد تک افسردگی اور ڈپریشن پھیل گئی ہے کہ نوجوانی کی عمر میں افراد خودکشی کرنے لگے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ فیملی سسٹم کو دوبارہ احیاء کیا جاۓ۔

الہی قانون کا حصول

جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ قانون صرف الہی ہو۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ اللہ تعالی سے قانون کیسے لیں؟ کیا بلاواسطہ طور پر ہم اللہ تعالی سے قانون لے سکتے ہیں یا کسی واسطے کی ضرورت ہے؟ظاہر ہے ہم بلاواسطہ طور پر اللہ تعالی سے ارتباط برقرار نہیں کر سکتے حتما درمیان میں واسطہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا وجود بہت ضعیف ہے اور اللہ تعالی کا وجود لامحدود اور وسیع۔ اگر مثال سے ہم اس کو ہم سمجھانا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ایک ۱۰۰ واٹ والے بلب کو روشن کرنے کے لیے اسے بلاواسطہ طور پر ہم ٹرانسفارمر سے نہیں جوڑ سکتے، کیونکہ اس میں ہزاروں واٹ بجلی موجود ہے اور اگر ایک لحظے کے لیے بھی اس کو جوڑا تو یہ پھٹ جاۓ گا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہمارے اندر اتنی  وسعت نہیں کہ بلاواسطہ اس ذات سے ارتباط برقرار کریں۔ اس لیے نبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔وہ واسطہ جو اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اس کو نبوت کہتے ہیں۔نبوت کیوں ضروری ہے اور اس پر ہمارے پاس کیا دلیل ہے اس کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں بیان کیا جاۓ گا۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی ، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۵۵۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/01/10

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی