بصیرت اخبار

۱۱ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «ولایت فقیہ» ثبت شده است

آیت اللہ العظمی جوادى آملى حفظہ اللہ تعالى: 

دین، حکومت اور سیاست سے  جدا نہیں ہو سکتا جیسا کہ پہلے بھى عرض کیا کہ دین فقط  وعظ و نصیحت و انفرادى تعلیم کے لئے نہیں اور فقط مسائل اخلاقى و اعتقادى کا مجموعہ نہیں کہ جو سیاست و نظام کے بغیر ہوں۔ بلکہ دین اسلام کے اندر اجتماعى اور سیاسى احکام بھى موجود ہیں۔

خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ.
(سورة البقرة: ۲۱۳)

اس آیت مجیدہ میں انبیاء کرام کے اھداف میں سے ایک ھدف یہ ذکر ہوا ہے کہ انبیاء کرام لوگوں کے مابین اختلاف کو ختم کرتے ہیں ، پس معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کے اندر نظم و نسق کو برقرار رکھنا ہے اور ہرج و مرج سے معاشرے کو نجات دینى ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ان اجتماعى امور کو انجام دینے کے لئے فقط وعظ و نصیحت کرنا اور فقہى احکام بیان کردینا کافى نہیں۔

اس لئے ہر صاحب شریعت پیغمبر بشیر و نذیر ہونے کے ساتھ ساتھ مسألہ حکومت میں بھى حساس تھا۔ خداوند متعال نے اس آیت مجیدہ میں یہ نہیں فرمایا کہ پیغمبران الہى تعلیم و وعظ و نصیحت کے ذریعے معاشرے کے اجتماعى مسائل کو حل کرتے ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ بہ وسیلہ ’’حکم‘‘ ان اختلافات کو ختم کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انفرادى مسائل تو وعظ و نصیحت کے ذریعے حل کئے جاسکتے ہیں لیکن اجتماعى مسائل کو بغیر ’’حکم‘‘ و ’’حکومت‘‘ کے حل نہیں کیا جا سکتا۔(۱)

 


حوالہ:
۱۔ جوادی آملی، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، صفحہ۷۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:51
عون نقوی

امام خمینى رضوان اللہ تعالى علیہ: 

 حکومتِ اسلامى کا قیام در اصل اہدافِ عالیہ کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ و وسیلہ ہے بذات خود حکومت کا حصول کوئى قیمت نہیں رکھتا لیکن اگر اس کو ذریعہ بنا کر احکامِ اسلامى کو جارى کیا جاسکے اور عادلانہ نظام کو قائم کیا جاسکے تو پھر اس وسیلہ کو اختیار کرنے میں کوئى حرج نہیں بلکہ ضرورى ہے کہ اس وسیلہ کو اختیار کیا جاۓ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے حکومت کے حصول کا فلسفہ سمجھانے کے لیے ابن عباس سے اپںے پھٹے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا:

’’اے ابن عباس ! میرى اس جوتى کى کیا قیمت ہے؟ ابن عباس نے جواب دیا کہ کچھ بھى نہیں۔‘‘

آپ نے فرمایا: ’’یہ حکومت کرنا میرے لئے اس جوتے سے بھى کم اہمیت رکھتا ہے  مگر یہ کہ میں اس حکومت کو وسیلہ بنا کر تم لوگوں پر حق (یعنى قانون و نظامِ اسلام) کو برقرار کر سکوں۔ اور باطل (یعنى ظالمانہ قوانین) کو تم سے دور کردوں‘‘۔

 پس معلوم ہوا کہ حکومت کا حصول و حاکم ہونا صرف ایک وسیلہ ہے۔ خود مقصد نہیں ہے بلکہ اس وسیلہ کو اختیار کر کے ایک مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اور اگر یہ وسیلہ حق کو قائم کرنے اور عالى اہداف کو پورا کرنے میں مددگار ثابت نہ ہو تو اس کى کوئى اہمیت نہیں۔ اس طرف نہج البلاغہ میں بھى اشارہ موجود ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اگر مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئى ہوتى اوراس کام (یعنى حکومت) کو مجھ پر لازم قرار نہ دیا گیا ہوتا تو میں اس کو ترک کر دیتا‘‘۔

 پس حاکمیت ایک وسیلہ ہے نہ کہ کوئى معنوى مقام کہ جس کو حاصل کرنا بہت بڑا اعزاز ہو کیونکہ اگر معنوى مقام ہو تو وہ تو کوئى چھین نہیں سکتا، اگر یہ معنوى مقام ہوتا تو امام عالى مقام ؑ اس کو ترک کرنے کى بھی بات نہ کرتے۔ جب بھى حکومت کو وسیلہ بنا کر اسلام و احکام الہى کا اجراء کیا جاۓ گا اس کى اہمیت ہوگى اور جب بھى اس کے ذریعے حق کو قائم نہ کیا جاسکے احکام الہیہ کو نافذ نہ کیا جا سکے تو اسکى کوئى وقعت و اہمیت نہیں ہوگی۔

 


حوالہ:
۱۔ حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى (رح) ، ص ۱۰۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:22
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

جب کہاجاتاہے کہ جو ولایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کو حاصل تھى وہ ولایت زمانہ غیبت میں ایک عادل فقیہ کو بھى حاصل ہے تو اس سے کسى کو بھى یہ گمان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جو مقام و مرتبہ اور فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور آئمہ اطہار علیہم السلام کو حاصل تھا وہى رتبہ فقیہ کو بھى حاصل ہے !! (نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے) کیونکہ یہاں بات مقام و مرتبہ کى نہیں ہو رہى بلکہ بات وظیفہ کى ہورہى ہے۔ ولایت (اس سے مراد آئمہ علیہم السلام کے مقام و مرتبہ والی ولایت نہیں ہے بلکہ یہاں ولایت) یعنى حکومت، ایک مملکت کی مدیریت اور شریعت مقدس کے قوانین کو جاری کر ہے۔ پس یہ سب ایک فقیہ کا اسی طرح وظیفہ ہے جس طرح سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کا وظیفہ ہے۔ 

حوالہ:
حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى ؒ، ص:۱۲۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:48
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

انبیاء علیہ السلام کا ہدف و ذمہ دارى فقط فقہى احکام بیان کرنا نہیں ، ایسی بات نہیں کہ مسائل اور فقہى احکام وحى کے ذریعے  رسول اکرم ؐ پرنازل ہوۓ ہیں انہوں نے اور آئمہ اطہارؑ نے ان مسائل کو بیان کرنا ہے۔ یعنى خداوند متعال نے ان کو بس اس لئے مبعوث کیا ہے کہ مسائل و فقہى احکام کو بغیر کسى سستى کے عوام تک پہنچا دیں۔ اور اہل بیت ؑ نے اس ذمہ دارى کو علماءکرام کے سپرد کر دیا کہ وہ بھى اس امانت کو عوام الناس تک بغیر کسى خیانت کے پہنچائیں۔ ’’الفقھاء امنا الرسل‘‘ کا مطلب فقط یہ نہیں کہ فقہاء کرام و علماء کرام مسائل و احکام پہنچانے میں انبیاء کے امین ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء و فقہاء کرام اساسى ترین وظیفہ پیامبران یعنى ایک ایسا اجتماعى نظام جو عدل کى بنیادوں پر قائم ہے اس کو معاشروں میں برقرار کرنے میں امین ہیں۔ اسى مطلب کى طرف قرآن کریم میں بھى اشارہ موجود ہے ۔ 

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
(الحدید: ۲۵)
ترجمہ:
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔

 

حوالہ:
 حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ ، ص:۸۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:41
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ:

ہماری حکومتی نظام کا ڈھانچہ جمہوری اسلامی ہے۔ جمہوری اس معنی ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس کو قبول کرتی ہے اور اسلامی اس معنی میں کہ اس کو اسلامی قوانین کے مطابق چلایا جاۓ گا۔

حوالہ:

حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى رح ، ص: ۵۷۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 August 21 ، 13:23
عون نقوی