بصیرت اخبار

۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام حسینؑ» ثبت شده است

تاریخ کربلا سے مربوط بہت سی  شخصیات ہیں جن سے ہم شدید نفرت کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے، لیکن ہمیں ان کی درست شناخت نہیں۔ ہم ان کی تاریخ پڑھنے کے لائق نہیں سمجھتے اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم نہیں سمجھ پاتے کہ جو افراد امام حسین علیہ السلام کے خلاف آ کر کھڑے ہوئے وہ کیسے لوگ تھے؟ ان کا کردار اور شخصیت کیسی تھی؟ تاریخ کے ان اوراق پر نظر رکھنے سے ہمیں آج کے دشمنان حسین ع بھی سمجھ میں آئیں گے اور ہم اپنے آس پاس دیکھ سکیں گے کہ آج کا شمر کون ہے جو مقدس ہستیوں کا سر کاٹ رہا ہے؟ آج کا حرملہ کون ہے جو بچوں کو ذبح کررہا ہے، آج کا ابن زیاد کون ہے جس سے ہمارا امام برسرپیکار ہوگا؟ آج کا یزید کون ہے جو امت مسلمہ کا حقیقی دشمن ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک شخصیت قاضی شریح کی ہے جو اپنے زمانے کی سیاسی و اجتماعی صورتحال میں ایک حد تک دخیل ہے، خواص میں سے ہے اور ایک بہت بڑا طبقہ اسکی پیروی کرتا ہے۔ وقت کا چیف جسٹس، فقیہ، مجتہد، عالم ہے لوگ اسکی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے اسکی طرف بڑھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم بحث میں وارد ہوں یہ جان لیجیے کہ شخص نا صرف خلفاء راشدین کے دور میں اہم حکومتی مناصب پر تھا بلکہ امیرالمومنین کی خلافت ظاہری کے دور بھی اس کو منصب سے نہیں ہٹایا گیا۔ ایک ایسا شخص جس نے ہر قسم کی ایک دوسرے سے متضاد حکومتوں میں اپنی جگہ بنائے رکھی امیرالمومنین کا مقرر کردہ قاضی تھا کیسے قتل سیدالشہداؑ کا باعث بن گیا؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب جاننا ضروری ہے۔

نام شریح بن حارث بن قیس بن جھم معاویہ ہے، قبیلہ کند سے ہے۔ القاب میں سے ابو امیہ کندی، ابو عبدالرحمن، شریح قاضی، کاذب مشہور ترین ہیں۔ تاریخ ولادت کے بارے میں کسی بھی تاریخ میں اشارہ موجود نہیں، سال وفات 78 یا 80 ہجری بیان کیا گیا ہے، اسکی عمر 106 یا 110 سال بیان ہوئی ہے۔ اصالتاً یمنی ہے اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ قاضی شریح کے صحابی یا تابعی ہونے میں مورخین نے اختلاف کیا ہے، بعض مورخین کے مطابق وہ تابعی تھا، ابن حجر کے مطابق رسول اللہ ص سے اسکی ملاقات ثابت ہے لیکن ذھبی اس بات کو رد کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کی بااثر شخصیات میں سے تھا جس نے اپنی زندگی بڑے نامدار صحابیوں کے ساتھ گزاری۔

قاضی شریح خلیفہ اول کے زمانے میں تازہ مسلمان شدہ افراد میں سے تھا، اس وجہ سے اس دور میں قاضی شریح کا کوئی خاص مقام نہیں تھا اور نہ ہی زیادہ معروف تھا۔ خلیفہ دوم  کی خلافت کے اوائل میں اس شخص کو کوئی خاص منصب نہیں ملتا لیکن جلد ہی فتوحات مسلمین کے بعد مختلف علاقوں میں والی و قضاة بھیجنے کی ضرورت پیش آنے پر قاضی شریح جیسے افراد کو موقع ملتا ہے۔ خلیفہ دوم کی خلافت میں قاضی شریح کا شمار مدینہ کے پڑھے لکھے افراد میں سے ہونے لگتا ہے جو شاعر اور علم انساب کو بخوبی جانتا ہے، ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے خلیفہ دوم قاضی شریح کو کوفہ کی جانب بھیجتے ہیں اس وقت قاضی شریح کی عمر 40 سال ہے۔ بعض منابع میں وارد ہوا ہے کہ کوفہ کے قاضی ہونے کی جہت سے ماہانہ سو درہم وصول کرتا تھا۔ خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران بھی قاضی شریح اپنے منصب پر باقی رہتا ہے اور اس 12 بارہ سالہ خلافت عثمان کے دوران ان کا اور خلیفہ کا تعلق خوشگوار رہتا ہے۔

بعض مورخین کے مطابق امام علی علیہ السلام کی خلافت ظاہری کے شروع ہونے کے بعد تین لوگ اپنے اپنے منصب پر باقی رہے جن میں سے ایک قاضی شریح تھا، درحقیقت امام علی علیہ السلام کی حکومت میں بھی قاضی شریح اپنے منصب قضاوت پر براجمان رہا، امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران قاضی شریح کی کچھ غلط قضاوتوں سے امام ع اس پر برہم ہوۓ، اس دوران قاضی شریح نے 80 دینار کا مجلل و مرفہ گھر خریدا جس پر امام علیہ السلام نے اسکا مواخذہ کیا کہ جسکی تفصیل کتاب نہج البلاغہ میں بھی وارد ہوئی ہے، ظاہرا امام علی علیہ السلام کی شہادت کے وقت مسند قضاوت کوفہ پر موجود تھا۔ امام حسن علیہ السلام کی مختصر خلافت کے دورانیہ میں بھی یہ شخص اپنے مسند پر فائز رہا، اور اسکے بعد امیر شام کی 20 سالہ حکومت کے دوران بھی اس نے اپنے عہدے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

قاضی شریح نے پہلی بار نہضت کربلا سے خود کو اس وقت مربوط کیا جب 70 بزرگان کوفہ جن میں حبیب ابن مظاہر، محمد بن اشعث، مختار ثقفی، عمر بن سعد وغیرہ شامل تھے، نے قاضی شریح کی موجودگی میں امام حسین علیہ السلام کو کوفہ دعوت دینے کی تحریک چلائی، اس اکٹھ کے بعد جب ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا تو یہ شخص بغیر کسی شرم و عار و اپنے تعہد پر باقی رہنے کے فورا دارالامارہ چلا جاتا ہے اور عبیداللہ بن زیاد کا مشاور بن جاتا ہے، چونکہ ابن زیاد کو بھی اس جیسے مقدس مآب، فقیہ اور عالم کی ضرورت تھی اس نے گرمجوشی سے اسکا استقبال کیا اور سرکاری پروٹوکول دیا۔ ھانی کی شہادت کے بعد ھانی کے قبیلے والوں کو پراکندہ کرنے کے لیے ابن زیاد نے قاضی شریح کو استعمال کیا، ھانی کے قبیلے والوں نے جب دیکھا کہ ایک بزرگ و فقیہ گواہی دے رہا ہے کہ ھانی ٹھیک ہیں تو وہ خاموش ہو کر چلے گئے۔ یہاں پر قاضی شریح کا ایسا کردار ادا کرنا بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی و دفاعی اقدام تھا اگر قاضی شریح نے یہ قدم نہ بڑھایا ہوتا تو شاید اسی وقت ھانی کے قبیلے والے کہ جنہوں نے دارالامارہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ابن زیاد کو ھانی کے قتل کے جرم میں مار دیتے اور کوفہ کی حکومت کا رخ ہی بدل جاتا۔

قاضی شریح نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا فتوی جاری کیا تھا یا نہیں؟ اس واقعیت پر مضبوط سند موجود نہیں ہے لیکن بعض محققین کے مطابق یہ فتوی جاری کیا گیا جس نے کوفہ اور شام کے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر آمادہ کیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک فقیہ، مجتہد، مفسر، اور خلفاء راشدین کا مقرر شدہ قاضی یہ فتوی دے رہا ہے تو درست ہی کہہ رہا ہوگا، اس پر شواہد موجود ہیں جو اس فتوی کے موجود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

۱۔ قاضی شریح کا ہر وقت کے حاکم کے ساتھ سازگار ہونا اور افکار و نظریات میں انکا موافق ہونا۔

۲۔ ابن زیاد کی قدرت کو درک کرتے ہی قاضی شریح کا اسکے ساتھ ملحق ہوجانا، اور اسکے ہاتھوں مختلف مواقع پر استعمال ہونا۔

۳۔ ضعف نفس، بے حد محتاط اور ڈرپوک ہونا۔

۴۔ ہم کربلا میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جو افراد جنگ پر آۓ تھے وہ قربتا الی اللہ کی نیت سے نواسہ رسولﷺ کو شہید کر رہے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تھئوریسین نے ان کو اس جرم عظیم کا شرعی جواز دیا ہوا تھا۔

۵۔ اگر مان لیا جائے کہ صریح اور واضح طور پر فتوی نہیں جاری کیا گیا تھا تو یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح سے قاضی شریح اور ابن زیاد کا تعلق تھا اور پھر قاضی شریح نے ابن زیاد کے آگے ڈرپوکی، عافیت طلبی، ریاکاری، دو پہلو باتیں کرنا، اور جھوٹ کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا، اسی طرح سے ابن زیاد کا قاضی شریح کے جھوٹے دستخط اور مہر کا استعمال کرنا، اسکی کلی باتوں سے نتیجہ گیری اور غلط قیاس کا سمجھنا، یا قاضی شریح کا کلی طور پر امام حسین علیہ السلام کے قیام پر سوالات اٹھانا ابن زیاد کے لیے کافی تھا کہ وہ لوگوں کو نواسہ پیغمبر کے قتل کے لیے تیار کرے۔

سانحہ کربلا کے بعد کوفہ کے حالات خراب ہوجانے اور مختلف قیام اور تحریکوں کے اٹھنے کی وجہ سے قاضی شریح تقریبا 9 سال تک اپنے عہدے سے کنارہ گیر رہے مورخین نے اسکی وجہ عافیت طلبی اور عدم امنیت بیان کی ہے، ابن خلدون کے بقول مختار ثقفی نے کوفہ پر تسلط حاصل کرنے کے بعد قاضی شریح کو کوفہ کے منصب قضاوت کے لیے مقرر کیا، لیکن مختار کے سپاہیوں نے اس پر اعتراض کیا، قاضی شریح بھی ان اعتراضات کو سن کر خوفزدہ ہوا اور بیماری کا بہانہ بنا کر خانہ نشین ہوگئے، مختار بھی ان اعتراضات کے نتیجے میں قاضی شریح کو معزول کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ شخص جانتا تھا کہ یہ قیام عارضی ہیں اور ان میں مداخلت خطرناک ہے، کوفہ میں مختلف حکومتیں و شورشیں ہوتی رہیں لیکن یہ کسی کا بھی حصہ نہیں بنا بعد میں عبدالملک بن مروان کی حکومت میں دوبارہ کوفہ کا قاضی مقرر ہوا۔ اس دوران عبدالملک بن مروان نے حجاج کو کوفہ کا گورنر بنایا اور قاضی شریح اس وقت نا صرف کوفہ کا چیف جسٹس تھا بلکہ حجاج کے مشاورین میں سے شمار ہونے لگا۔

قاضی شریح نے کوفہ میں کتنے سال قضاوت کی اس بارے میں اختلاف ہے کیونکہ اسکے وفات کے سال پر بھی مورخین نے اختلاف کیا ہے، 53 سے 75 سال تک کا عدد موجود ہے، ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ قاضی شریح نے 57 سال قضاوت کی۔ قاضی شریح کی عمر کے بارے میں قوی قول یہ ہے کہ اسکی عمر 106 یا 110 سال تھی۔ مختلف منابع نے سال 72 ھجری یا سال 99 ھجری کو اسکی وفات کا سال قرار دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر آخر میں کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کا فقیہ، مفسر، ماہر انساب، عالم اور قاضی تھا، لیکن اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سے مصلحت پسند، فرصت طلب اور مقام و منصب کا دلدادہ تھا۔ اسکا مذہب و نظریہ یہ تھا کہ کوئی بھی حکومت ہو، علوی ہو یا شامی، یزیدی ہو یا حسینی، کسی بھی نظریے کے حاکم کے ساتھ خود کو ملحق کرنا ہے اور منصب لینا ہے۔ حقیقت کو اپنی ذاتی مصلحت پر فدا کرنا پڑے تو کوئی مسئلہ نہیں، ہمیشہ گول مول بات کرنی ہے جس سے حق بھی چھپ جاۓ اور باطل بھی واضح نہ ہو۔

منابع:

١۔ ابن اثیر جزری, عزالدین اسدالغابہ فی معرفہ الصحابہ، (بیروت دارالکتب العلمیہ)۔

٢۔ الکامل فی التاریخ، فارسی ترجمہ دکتر روحانی، (چاپ اول، تہران، انتشارات اساطیر، ١٣٧٣شمسی)۔

٣۔ ابن ایبک الصفدی، صلاح الدین خلیل، الوافی بالوفیات، (بیروت، دارإحیا، ١٤٠٢ہجری)۔

٤۔ ابن جوزی، جمال الدین ابی الفرج، صفہ الصفوه، (چاپ اول، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٣ہجری)۔

٥۔ ابن حبان، محمد بن أحمد، مشاہیر علمإ الامصار و إعلام فقہا القطار، (چاپ اول، بیروت، موسسه الکتب الثقافیہ، ١٤٠٨ہجری)۔

٦۔ ابن حجر عسقلانی، شہاب الدین، تہذیب التہذیب، (بیروت دارإحیاء)۔

٧۔ ابن حزم اندلسی، ابی محمد، جمہره الانساب العرب، (چاپ اول، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٣ہجری)۔

٨۔ ابن خلدون، عبدالرحمن، مقدمہ، فارسی ترجمہ محمدپروین گنابادی، (تہران، بنگاه ترجمہ و نشر کتاب، ١٣٣٦شمسی)۔

٩۔ ابن خلکان، احمدبن محمدبن ابراہیم، وفیات الاعیان و انبا الابنا الزمان، (بیروت، دارصادر، بی تا)۔

١٠۔ ابن سعد، محمد، طبقات کبری، (بیروت، دارصادر، بی تا)۔

١١۔ ابن عبدربہ اندلسی، احمدبن محمد، العقد الفرید، (بیروت، دارالکتب العلمیہ، بی تا)۔

١٢۔ ابن عساکر، ابی القاسم علیبن حسن شافعی، تاریخ مدینہ دمشق، (بیروت، دارالفکر، ١٤١٥ہجری)۔

١٣۔ ابن قنفذ، احمدبن خطیب، الوفیات، چاپ چهارم، (بیروت، دارالافاق الجدیده، ١٤٠٣ہجری)۔

١٤۔ ابن کثیر، ابی الفدإ، البدایہ و النہایہ، (چاپ پنجم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٩ہجری)۔

١٥۔ ابن منظور، لسان العرب، چاپ دوم، (بیروت، دارإحیا ١٤١٢ہجری)۔

١٦۔ ابن وکیع، محمدبن خلف بن حیان، اخبار القضاه، (بیروت، عالم الکتب، بی تا)۔

١٧۔ اصفہانی، ابونعیم احمدبن عبدالله، حلیہ الاولیإ و طبقات الاصفیإ، (بی جا، مطبعہ السعاده، ١٣٩٤ہجری)۔

١٨۔ ابن حجر،الاصابہ فی تمییز الصحابہ، چاپ اول، (بیروت، دارالکتب العلمیه، ١٤١٥ہجری)۔

١٩۔ الراوی، ثابت اسماعیل، العراق فی العصر الاموی، (چاپ دوم، بغداد، منشورات مکتبہ الأندلس، ١٩٧٠عیسوی)۔

٢٠۔ بخاری جعفی، ابی عبدالله اسماعیل بن ابراہیم، تاریخ الکبیر، (بیروت، دارالکتب العلمیہ، بی تا)۔

٢١۔ ذہبی شمس الدین محمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، (چاپ دوم، بی جا، دارالکتب العربی، ١٤١٨ہجری)۔

٢٢۔ ذہبی، شمس الدین محمد، سیر اعلام النبلإ، (چاپ ہفتم، بیروت، موسسہ الرسالہ، ١٤١٠ہجری)۔

٢٣۔ شیخ مفید، الإرشاد، فارسی ترجمہ رسولی محلاتی، (چاپ چهارم، تہران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ١٣٧٨شسمی)۔

٢٤۔ طبری،محمدبن جریر، تاریخ الطبری، (بیروت دارالتراث، بی تا)۔

٢٥۔ طبری، محمدبن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پاینده، (تہران انتشارات بنیاد فرهنگ ایران، ١٣٥٣شسی)۔

٢٦۔ مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، (بی جا، دارالصاوی، بی تا)۔

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 August 21 ، 12:28
عون نقوی

تیرہ محرم تک قافلہ حسینی کوفہ میں داخل ہو چکا تھا۔ بی بی زینبؑ کوفہ میں داخل ہوئیں وہاں پر خطبہ دیا جس نے کوفہ کے در و دیوار ہلا دیے۔ بی بی نے اس خطبے میں بنی امیہ کی جنایتوں اور کوفیوں کی بے وفائی کا ذکر کیا۔ بی بی نے کوفیوں کو مخاطب ہو کر فرمایا: 

أتبکون وتنتحبون إی والله فابکوا کثیرا واضحکوا قلیلا فلقد ذهبتم بعارها وشنآنها ولن ترحضوها بغسل بعدها أبدا وأنى ترحضون قتل سلیل خاتم الأنبیاء.

’’اے کوفیو کیا تم لوگ گریہ کرتے ہو اور نالہ بلند کرتے ہو؟ خدا کی قسم بہت زیادہ گریہ کرنا اور بہت کم ہنسنا۔ تم لوگوں پر جو شرمساری کا دھبہ لگا ہے یہ کسی بھی چیز سے دھونے سے پاک نہیں ہوگا۔ تم لوگوں نے کیسے خاتم الانبیاء کے سلالہ کو قتل ہونے دیا‘‘۔ (۱)

 وہ خاتون جس نے دو دن پہلے اپنے بھائیوں بیٹوں اور دسیوں عزیزوں کی شہادت دیکھی کیسے اتنے حوصلے اور ہمت سے خطبے دے رہی ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسی خاتون افسردہ و پریشان حال ہوتی جس کو ایک حرف بولنے کی بھی سکت نہیں لیکن کوفے والوں نے ایک ایسی خاتون کو دیکھا جو شیر کی طرح غرا رہی تھی ملامت و لعنت کا طوق اپنے دشمنوں کے گلے میں ڈال رہی تھی قلوب و احساسات اور جزبات کو بھڑکا رہی تھی۔ سید بن طاووسؒ کتاب ملہوف میں نقل کرتے ہیں کہ کوفہ میں فاطمہ صغری بنت امام حسینؑ نے خطبہ دیا جس میں بی بی نے اپنی پھوپھی کی طرح اپنے دادا علیؑ کے خطبے کوفیوں کو یاد دلا دیے۔ اس خطبے میں بی بی نے پر معنی الفاظ و کلمات میں کوفیوں کو ملامت کی۔ بی بی نے فرمایا: 

تَبّاً لَکُمْ یا أَهْلَ الکُوفَةِ! کَمْ تِراتٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله علیه و آله قِبَلَکُمْ، وَذُحُولِهِ لَدَیْکُمْ، ثُمَّ غَدَرْتُمْ بِأَخِیهِ عَلِیٍّ بْنِ أَبِی‌طالِبٍ علیه السلام جَدِّی، وَبَنِیهِ عِتْرَةِ النَّبِیِّ الطَّیِّبِینَ الاخْیارِ.

’’اے کوفیو! خدا تمہیں نابود کرے تم لوگوں کے اندر خدا کے رسول کے خلاف کتنا کینہ بھرا ہوا ہے کہ ان سے انتقام لینے پر تل گئے؟ اور تم وہی لوگ ہو کہ جنہوں نے رسول خدا کے بھائی علی بن ابی طالب میرے جد اور ان کی اولاد عترت پیغمبر کہ جو پاک و بہترین لوگ تھے سے پہمان شکنی کی اور بے وفائی کی‘‘۔ (۲)

اس کے بعد بی بی ام کلثومؑ نے گریہ کرتے ہوۓ کوفیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ خطبہ دیا اور فرمایا:

یا أَهْلَ الْکُوفَةِ، سُوءاً لَکُمْ! ما لَکُمْ خَذَلْتُمْ حُسَیْناً وَقَتَلْتُمُوهُ، وَانْتَهَبْتُمْ أَمْوالَهُ وَوَرِثْتُمُوهُ، وَسَبَیْتُمْ نِساءَهُ وَنَکَبْتُمُوهُ؟! فَتَبّاً لَکُمْ وَ سُحْقاً! وَیْلَکُمْ، أَتَدْرُونَ أَیَّ دَواهٍ دَهَتْکُمْ؟ وَ أَیَّ وِزْرٍ عَلى‌ ظُهُورِکُمْ حَمَلْتُمْ؟ وَ أَیَّ دِماءٍ سَفَکْتُمُوها؟ وَ أَیَّ کَریمَةٍ اهْتَضَمْتُموها؟ وَأَیَّ صِبْیَةٍ سَلَبْتُمُوها؟ وَ أَیَّ أَمْوالٍ نَهَبْتُمُوها؟ قَتَلْتُمْ خَیْرَ رِجالاتٍ بَعْدَ النَّبِیِّ، وَنُزِعَتِ الرَّحْمَةُ مِنْ قُلُوبِکُمْ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ، وَ حِزْبَ الشَّیْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ.

’’اے کوفیو! بدبختی اور بے چارگی تم لوگوں کو نصیب ہو کیوں تم لوگوں نے امام حسینؑ کو تنہا کیا اور اسے قتل کیا؟ ان کے اموال کو لوٹا اور اسے اپنے اختیار میں لے لیا؟ اس کے اہل حرم خواتین کو اسیر کیا اور انہیں شکنجے دیے؟ نابود ہو جاؤ اور عذاب خدا میں گرفتار۔ تم لوگوں پر افسوس کیا تمہیں پتہ ہے کہ کس ناگوار ترین حادثے کا باعث بنے ہو، کس گناہ کو انجام دیا ہے اور کس خون کو بہایا ہے؟ کتنے عزیز لوگوں پر ستم کیا ہے؟ کن بچوں کو اپنی غارتگری کا شکار بنایا ہے؟ کن اموال کو لوٹا ہے؟ تم لوگوں نے پیغمبر کے بعد اس کی امت کے بہترین لوگوں کو قتل کیا ہے۔ اور اس طرح سے بے رحمی کی کہ گویا مہربانی اور عاطفت تمہارے دلوں سے ختم ہو گئی ہوئی تھی۔ لیکن جان لو کہ خدا کی حزب ہی کامیاب ہے اور شیطان کی حزب نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے‘‘۔ (۳)

حذیم بن شریک اسدی کہتا ہے کہ اس کے بعد امام زین العابدینؑ نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور انہیں اشارہ کیا کہ خاموش ہو جائیں۔ لوگ خاموش ہوگئے حضرت نے کھڑے ہو کر حمد و ثناۓ الہی بجالانے کے بعد خطبہ دیا جس میں فرمایا:

أَیُّهَا النّاسُ! مَنْ عَرَفَنِی فَقَدْ عَرَفَنِی، وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْنِی فَأَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ الْمَذْبُوحِ بِشَطِّ الْفُراتِ مِنْ غَیْرِ ذَحْلٍ وَلا تِراتٍ، أَنَا ابْنُ مَنِ انْتُهِکَ حَرِیمُهُ وَ سُلِبَ نَعِیمُهُ وَانْتُهِبَ مالُهُ وَ سُبِیَ عِیالُهُ، أَنَا ابْنُ مَنْ قُتِلَ صَبْراً، فَکَفى‌ بِذلِکَ فَخْراً. أَیُّهَا النّاسُ! ناشَدْتُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّکُمْ کَتَبْتُمْ إِلى‌ أَبِی وَ خَدَعْتُمُوهُ، وَأَعْطَیْتُمُوهُ مِنْ أَنْفُسِکُمُ الْعَهْدَ وَالْمِیثاقَ وَالْبَیْعَةَ ثُمَّ قاتَلْتُمُوهُ وَخَذَلُتمُوهُ؟ فَتَبّاً لَکُمْ ما قَدَّمْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ وَ سَوْأةً لِرَأْیِکُمْ، بِأَیَّةِ عَیْنٍ تَنْظُرُونَ إِلى‌ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله علیه و آله یَقُولُ لَکُمْ: قَتَلْتُمْ عِتْرَتِی وَانْتَهَکْتُمْ حُرْمَتِی فَلَسْتُمْ مِنْ أُمَّتِی.

’’اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے سو وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا جان لے کہ میں علیؑ ہوں حسینؑ کا بیٹا۔ وہی حسینؑ جسے بے جرم و خطا کنار فرات ذبح کر دیا گیا۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کے حریم کی بے حرمتی کی گئی اور اس کے اموال کو غارت کر دیا گیا۔ جس کے خاندان کو اسارت میں لے لیا گیا میں اس کا بیٹا ہوں جسے آزار اور شکنجے دے کر شہید کیا گیا اور یہی ہمارے لیے فخر کے لیے کافی ہے۔ اے لوگو تمہیں خدا کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کیا تم اس بات کو قبول کرتے ہو کہ یہ تم لوگ تھے کہ جنہوں نے میرے بابا کو خطوط لکھے (اور انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی) لیکن ان کو دھوکہ دیا ان کے ساتھ تم لوگوں نے اپنی جان کا عہد کیا اور پیمان باندھا اور بیعت کی۔ لیکن ان کو تنہا کر دیا اور ان سے جنگ کی؟ خدا تمہیں اس بدترین توشہ کی وجہ سے جو تم نے اپنی اخروی زندگی کے لیے بھیجا ہے اور اس بدترین کام پر نابود کرے۔ تم لوگ کیسے رسول اللہﷺ سے آنکھیں ملاؤ گے اس وقت جب روز قیامت تم لوگوں سے وہ فرمائیں گے: تم لوگوں نے میرے خاندان والوں کو قتل کیا اور میرے حریم کی ہتک و بے احترامی کی تم لوگ میری امت میں سے نہیں ہو۔‘‘

حذیم کہتا ہے کہ یہ خطبہ سن کر کوفی بلند آواز میں رونے لگے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم برباد ہوگئے بدبخت ہو گئے۔ اور فریاد بلند کرنے لگے کہ اے فرزند رسول خدا ہم آپ کے فرمان کے مطیع ہیں ہمیں حکم دیجیے! امام سجادؑ نے اس حیلہ گر گروہ کی اس پیشکش کو مسترد کیا اور یہ شعر پڑھے:

لا غَرْوَ إِنْ قُتِلَ الْحُسَیْنُ وَ شَیْخُهُ‌

قَدْ کانَ خَیْراً مِنْ حُسَیْنٍ وَأَکْرَما

فَلا تَفْرَحُوا یا أَهْلَ کُوفَةَ بِالَّذِی‌

أُصیبَ حُسَیْنٌ کانَ ذلِکَ أَعْظَما

قَتیلٌ بِشَطِّ النَّهْرِ نَفْسی فِداؤُهُ‌ 

جَزاءُ الَّذِی أَرْداهُ نارُ جَهَنَّما

جب حسینؑ اور ان کے جد جو بہتر اور بزرگوار تھے قتل کر دیا گیا اے کوفیو جو حسینؑ پر مصیبت پڑی وہ بہت بڑا مصائب تھا اس پر خوش نہ ہو۔ میری جان فدا ہو اس مقتول پر جسے کنار فرات تشنہ لب شہید کیا گیا۔ لیکن جان لو جس نے ان کو شہید کیا اس کی سزا جہنم کی آگ ہے۔ (۴)

مجموعی طور پر ان خطبوں نے ان تاریخی حقایق سے پردہ اٹھایا جو دشمنان اہلبیت نے پروپیگنڈہ پھیلایا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں فرزند رسولﷺ کو قتل کر دیا گیا۔ ان خطبوں نے ان تمام حقایق کو فاش کیا اور شہداء کربلا کی قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ اگر یہ خطبے نہ ہوتے تو یقینا آج نہ تو عزاداری ہوتی اور نہ ہی اسلام کا نام رہ جاتا۔

ابن زیاد کو ان خطبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ ملعون نے اسیران کربلا کی نعوذباللہ تحقیر اور ان کو ذلیل کرنے کے لیے دربار کو سجوایا اور حاضر کرنے کا حکم دیا۔ غرور اور فتح کے جشن میں مست ابن زیاد نے حکم دیا کہ سر مبارک امام حسینؑ کو لایا جاۓ۔ سر مبارک کو اس کے سامنے ایک طشت میں رکھ دیا گیا اور اس حالت میں حکم دیا گیا کہ حریم اہلبیتؑ کو لایا جاۓ۔ بی بی زینبؑ وارد ہوئیں۔

ابن زیاد ملعون نے پوچھا:

یہ خاتون کون ہے؟

جواب دیا گیا:

هذِهِ زَیْنَبُ بِنْتُ عَلِیٍ‌.

یہ زینب بنت علیؑ ہیں۔

ابن زیاد نے بکواس کرتے ہوۓ کہا خدا کا شکر ہے جس نے تم لوگوں کو رسوا کیا۔

بی بی نے جواب دیا:

انما یفتضح الفاسق، و یکذب الفاجر و ہو غیرنا۔

فقط فاسق رسوا ہونے والا ہے اور فاسد انسان جھوٹ بولتا ہے جو کہ ہم نہیں ہیں اور وہ جھوٹا کوئی اور ہے۔ 

ابن زیاد نے کہا:

کیف رأیت صنع اللہ بأخیک و اہل بیتک؟

خدا کے کام کو اپنے بھائی اور اس کے خاندان کے حوالے سے کیسے دیکھا؟

بی بی نے جواب دیا:

ما رَأَیْتُ إِلّا جَمیلًا،

سواۓ زیبائی اور حسن و جمال کے کچھ نہیں دیکھا۔

ابن زیاد بی بی کے جواب سن کر تلملا اٹھا اور قتل کا حکم دیا۔ عمرو بن حریث نے کہا کہ اے امیر وہ ایک خاتون ہے ایک خاتون کو ہم اس طرح سے نہیں قتل کر سکتے۔

ابن زیاد نے کہا:

خدا نے حسین اور اس کے خاندان کو قتل کر کے میرے دل کو تشفی دی۔ (۵)
اس کے بعد امام سجادؑ اور ابن زیاد کا مکالمہ پیش آیا۔ ابن زیاد جس نے سوچا ہوا تھا کہ ایسی حالت میں کہ جس کا باپ، بھائی اور عزیز شہید ہو گئے ہیں بہت شدید حالت میں ہوگا اور حتی بول بھی نہیں سکے گا ایسے میں ان کی تحقیر کرے گا حیدر کرار کے پوتے کے جوابات اور ان کا رد عمل دیکھ کر تلملا اٹھا۔ اور حکم دیا کہ امام کو قتل کر دیا جاۓ لیکن بی بی زینبؑ شجاعانہ طور پر امامؑ کے دفاع میں کھڑی ہوئیں جس پر ابن زیاد امام کو قتل کرنے سے رک گیا۔ (۶)

اس ماجرا کے بعد ابن زیاد نے اپںی بوکھلاہٹ کو چھپانے کے لیے اسیران اہلبیتؑ کو زندان میں بھیج دیا اور حکم دیا کہ سر مبارک امام حسینؑ کو کوفہ کے گلی کوچوں میں گھمایا جاۓ۔ (۷)

شیخ مفیدؒ کتاب الارشاد میں نقل کرتے ہیں کہ سر امام حسینؑ نیزے پر سوار کوفہ کے گلی کوچوں میں اس آیت مجیدہ کی تلاوت کر رہا تھا: أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْکَهْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَباً. (۸)

حوالہ جات:

۱۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۰۹۔

۲۔ سید بن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۹۶۔

۳۔ سید بن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۹۸۔

۴۔ طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۲، ص۳۰۶۔

۵۔ سید بن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۲۰۱۔

۶۔ سید بن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۲۰۲۔

۷۔ سید بن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۶۳۔

۸۔ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۷۔
تحریر: عون نقوی

 

11 محرم کو کیا ہوا؟ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔۔۔۔۔۔۔

12 محرم کو کیا ہو؟ پڑھنے کے لیے کلک  کریں۔۔۔۔۔۔۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 August 21 ، 00:11
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:


تاریخ میں ظالموں کے خلاف بہت سے لوگوں نے قیام کیا لیکن امام حسین علیہ السلام کا قیام اپنی خصوصیات کے ساتھ بے مثل و بے نظیر ہے، وقت کا ذلیل ترین حاکم اپنی تمام قساوت و وقاحت میں روز بروز اضافہ کررہا ہے اور اس کو روکنے ٹوکنے یا سمجھانے کی کسی میں جرات نہیں، معاشرے میں اس قدر وحشت ہے کہ وہ لوگ جو امربالمعروف و نہی از منکر کرتے تھے وہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی کا سامنا کریں. عبداللہ بن زبیر جیسے جسور ترین لوگ بھی جو حکمرانوں کے خلاف کافی گستاخ تھے اس وقت کھل کر یزید کا سامنا کرنے سے گریز کررہے ہیں، اسی طرح عبداللہ بن جعفر ہیں آپ امیرالمومنین علی علیہ السلام کے داماد و جناب زینب سلام اللہ علیہا کے شوہر بھی اس کوشش میں ہیں کہ سرکاری معاملات میں مداخلت یا مخالفت کرنے سے گریز کریں، اس قدر لوگ اور معاشرہ تحت فشار ہے.

عبداللہ بن عباس جیسے افراد معاشرے سے کنارہ گیری کررہے ہیں اور گوشہ نشین ہوگئے، یہ لوگ معمولی افراد نہیں تھے یہ بنی ہاشم کے برجستہ ترین لوگ ہیں اور اہل زبان تھے جن کا ماضی افتخارات سے بھرا ہے لیکن اس ماحول میں کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ آئیں اور حکومت یزید کے خلاف لوگوں کو تیار کریں. نہ صرف شام بلکہ مدینہ جو اصحاب سے بھرا ہوا تھا یزید کے خلاف سکوت اختیار کئے ہوئے تھا.ایسے وقت میں امام حسین علیہ السلام وقت کی سلطنت کو توڑنے کے لئے حرکت میں آتے ہیں لیکن یہ تحریک قدرت کے حصول کے لیے نہیں تھی جیسا کہ خود امام نے بھی فرمایا کہ "ما خرجت اشرا و لا بطرا و لا ظالما ولا مفسدا" اس قیام کا مقصد معروف کا زندہ کرنا اور منکرات کو ختم کرنا تھا۔

حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:37
عون نقوی

حضرت جونؓ حضرت ابوذر غفارىؓ کے غلام تھے ۔یہ حبشى تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد وہ ہمیشہ اہل بیتؑ سے وابستہ رہے۔ عاشور کے روز امامؑ کى خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کى :مولا! مجھے بھى لڑنے کى اجازت مرحمت فرمائیں۔ امام نے فرمایا :نہیں! اس وقت تمہارے لئے مناسب ہے کہ تم واپس چلے جاؤ اور اس واقعے کے بعد اس دنیا کى نعمتوں سے لطف اندوز ہو، اب تک ہمارے خاندان کى جو خدمت کى وہ کافى ہے۔ ہم تم سے راضى ہیں۔ جون نے اپنى درخواست کو پھر دہرایا۔ امام حسین ؑ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ جونؑ نے امام عالى مقام کے پاؤں پکڑ لئے اور انہیں چومنے لگے اور بولے: مولاؑ ! مجھے محروم نہ فرمائیں۔ پھر انہوں نے ایک ایسا جملہ کہاجسے سن کر امامؑ نے انہیں روکنا مناسب نہ سمجھا۔ 

جون ؑ نے عرض کى:

مولاؑ! میں سمجھ گیا کہ آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دے رہے!! کہاں میں اور کہاں یہ خوش بختى! اس سیاہ رنگ ، گندے خون اور بدبودار جسم کے ساتھ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں امام علیہ السلام نے فرمایا : نہیں! ایسى کوئى بات نہیں، تم میدان جاسکتے ہو۔

 جونؑ رِجز پڑھتے ہوۓ میدان میں وارد ہوۓ اور لڑتے ہوۓ شہید ہوگئے ۔

امام حسین ؑ ان کے سرہانے پہنچے اور دعا فرمائى! : 
اے پروردگار ! اس کا (اگلے) جہاں میں چہرہ سفید اور اس کى بو پسندیدہ بنادے ۔اسے ابرار کے ساتھ محشور فرما، اس دنیا میں اس کے اور آل محمد ؐ کے درمیان کامل آشنائى پیدا کردے
حوالہ:

اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص:٢٤٤. 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:15
عون نقوی

 

۲۸ رجب ۶۰ ہجری کو مدینہ سے نکلنے والا یہ حسینی قافلہ اسلامی سال کے پہلے دن یکم محرم کو کوفہ کے قریب ایک کاروانسرا بنام قصر بنی مقاتل استراحت کے لیے رکتا ہے۔ کاروانسرا کے کچھ فاصلے پر اس قافلے کے ایک شخص کو ایک خیمہ لگا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ امام حسینؑ نے پوچھا کہ یہ کس کا خیمہ ہے بتایا گیا کہ یہ عبیداللہ بن حر جعفی کا خیمہ ہے۔ امامؑ نے اپنے ساتھی حجاج بن مسروق کو اس کی طرف بھیجا اور پیغام دیا کہ عبیداللہ کو کہو آپ کو امام بلا رہے ہیں۔ یہ فرستادہ جب عبیداللہ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ میں کوفہ سے بھی اس لیے باہر نکل آیا تھا کہ کہیں مجھے امام کی فوج کے خلاف لڑنا نہ پڑ جاۓ۔ وہاں تھا تو ابن زیاد کے فوجی مجھے اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھےاور یہاں اب امام مجھے بلا رہے ہیں اور میں ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا اور نا ہی ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ اگر ان سے ملتا ہوں تو وہ حتما مجھے اپنی نصرت کےلیے دعوت دیں گے۔امام کا ساتھی یہ سب سن کر واپس آیا۔ عبیداللہ کے مایوس کن ردعمل پر امام خود کھڑے ہوۓ اور اس کے خیمے کی طرف چل دیے۔ امامؑ نے عبیداللہ کو قیام کی دعوت دی جس کے جواب میں اس نےکہا: خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ جو آپ کے فرمان کی اطاعت کرے گا وہ شہادت کی عظمت کو پہنچے گا اور اس کو ابدی سعادت نصیب ہوگی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میرا مدد کرنا آپ کو کوئی فائدہ دے سکے۔  اس کے بعد اس نے کہا میں اپنا گھوڑا آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے آپ دشمن پر غلبہ پا سکیں اس کے ذریعے میں نے ہر دشمن کوتعقیب کیا ہے۔ امام ؑ نے اس کا یہ جواب سن کر فرمایا کہ اب جبکہ تم نصرت کرنے سے منع کر رہے ہو تو ہمیں تمہارے گھوڑے کی بھی ضرورت نہیں۔سوچنے کی بات ہے یہ کیسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے امام کی نصرت کرنے سے روک لیتا ہے یقینا اس کی باتوں سے علم ہوتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ امام برحق ہیں ان کی اطاعت میں ہی نجات ہے اور ابدی سعادت ان کی ہی اطاعت سے حاصل ہوگی لیکن پھر بھی اطاعت کرنے پر تیار نہیں۔ (١)

 امامؑ کی عمرو بن قیس مشرقی سے ملاقات:

یکم محرم ۶۱ہجری قصر بنی مقاتل کے مقام پر امام کی دوسری ملاقات عمرو بن قیس مشرقی اور اس کے چچا زاد بھائی سے ہوئی۔ شیخ صدوقؒ نے نقل کیا ہے کہ عمرو کہتا ہے کہ میں اور میراچچازاد بھائی قصر بنی مقاتل کے مقام پر امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوۓ ان کو سلام کیا۔ عمرو کے چچازاد بھائی نے امامؑ سے پوچھا کہ یا امام آپ نے داڑھی مبارک کو خضاب کیا ہے یا اس کا رنگ یہی ہے؟ امام نے فرمایا کہ خضاب ہے۔ پھر امام نے ہم سے پوچھا کہ کیا تم لوگ میری نصرت کے لیے آۓ ہو؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ قرضدار ہوں لوگوں کی امانتیں میرے پاس ہیں۔ کنبہ بہت بڑا ہے جس کی ذمہ داری میرے اوپر ہے۔ مجھے نہیں علم آپ کے ساتھ جاؤں تو کیا ہونے والا ہے اس لیے ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کی امانتوں کے لوٹانے میں خائن نہ بن جاؤں۔ میرے چچا زاد نے بھی ایک دو اسی طرح کی باتیں کیں ۔ امام نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ  اتنے دور ہو جاؤ کہ میری فریاد تم تک نہ پہنچ سکے۔ (۲) 

 امامؑ کی انس بن حارث کاہلی سے ملاقات:

امامؑ کے جان نثاروں میں سے ایک نام انس بن حارث کاہلی کا ہے۔ روز عاشور امامؑ کی رکاب میں شہید ہوۓ، آپ صحابی رسولؐ ہیں جنگ بدر و جنگ حنین میں شرکت کی۔ (۳)

بلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ آپ یکم محرم کو امام کے قافلے سے ملحق ہو گئے۔ قصر بنی مقاتل کے مقام پر امامؑ کی عبیداللہ بن حر جعفی سے ملاقات کے بعد آپ امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور کہا کہ میں کوفہ سے تو اس مقصد سے نکلا تھا کہ عبیداللہ بن حر کی طرح جنگ سے چھٹکارا پا سکوں۔ لیکن اللہ نے میرے دل میں یہ جرات ڈالی کہ آپ کی نصرت کروں۔ امامؑ نے اس کو اپنے ہمراہ لے لیا اور ابدی سعادت کی نوید دی۔ (۴)

شیخ صدوق ؒ نے نقل کیا ہے کہ روز عاشور انس بہادری سے دشمن کی طرف بڑھے اور ۱۸ یزیدیوں کو واصل جہنم کیا اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کیا۔ (۵)

 امام حسینؑ کا خواب:

شیخ مفیدؒ نے الارشاد میں نقل کیا ہے کہ عقبہ بن سمعان کہتے ہیں یکم محرم قصر بنی مقاتل میں ان ملاقاتوں کے بعد ہم وہاں سے نکلے تقریبا ایک گھنٹہ مسافت طے کی۔ امام حسینؑ زین کی پشت پر ہی سوگئے خواب دیکھا اور پھر بیدار ہو کر فرمایا: انا للہ و انا الیہ راجعون الحمد للہ رب العالمین۔ اور اس جملے کو دو یا تین بار تکرار کیا۔

آپ کے فرزند علی اکبرؑ قریب ہوۓ اور فرمایا کہ آپ نے کلمہ استرجاع زبان پر لایا ہے؟ تو امام نے جواب دیا میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک گھوڑے سوار کہہ رہا تھا یہ قوم موت کی طرف بڑھ رہی ہے اور موت ان کی طرف۔ یہ سن کر علی اکبرؑ نے فرمایا کہ بابا جان کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ پس اگر ہم حق پر ہیں تو موت سے کیا ڈرنا؟ اس پر امام حسینؑ نے فرمایا کہ خدا تمہیں بہترین پاداش دے۔ (٦)

 

جاری ہے................

 

 حوالہ جات:

(۱)شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۸۱۔

(٢)شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ،ج۱ ، ص۲۵۹۔

(٣)مامقانی،عبداللہ، تنقیح المقال، ج۱۱، ص۲۳۰۔

(٤)بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۷۵۔

(٥)شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، الامالی، ص۲۲۵۔

(۶) شیخ مفیدؒ،محمد بن محمد،  الارشاد، ج۲، ص۸۲۔

تحریر:عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 August 21 ، 16:39
عون نقوی