بصیرت اخبار

بارہ محرم کو کیا ہوا؟

Friday, 20 August 2021، 11:43 PM

امام حسینؑ اور ان کے اہل حرم و اصحاب پر صرف کربلا میں ہی ظلم نہیں ہوۓ بلکہ ستم کا ایک سلسلہ ان کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ شہداء کربلا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور بدن بنا دفناۓ کھلے آسمان تلے چھوڑ دیے گئے۔ خواتین اور بچوں کو اسیر کر لیا گیا اور انہیں مختلف شہروں سے لے جاتے ہوۓ پہلے کوفہ اور پھر شام لے جایا گیا۔ ۱۲ محرم تک فرزند رسولؐ اور ان کے پاک اصحاب کے اجساد دفن نہیں ہوۓ تھے اور ابھی تک کھلے آسمان تلے موجود تھے۔ یہاں تک کہ تیسرے روز بنی اسد کے قبیلے نے ابن سعد کی افواج کے جانے کے بعد شہداء کربلا کو دفن کیا۔ قبیلہ بنی اسد کے افراد جب مقتلگاہ پہنچے اور اس تلخ منظر کو دیکھا تو زار و قطار رونے لگے۔ جب انہوں نے اجساد کو دفن کرنے کا سوچا تو سب سے بڑی مشکل اجساد کی شناسائی کرنا تھی۔ کوئی بھی جسد اس حالت میں نہیں تھا کہ اس کو شناسائی کے بعد دفن کیا جا سکے۔ کسی جسد کا سر موجود تھا اور نہ کسی جسم پر لباس۔ ناگہان صحرا سے ایک شخص کو اپنی طرف آتے ہوۓ دیکھا جب نزدیک ہوا تو معلوم ہوا کہ حسین بن علیؑ ہیں۔

امام سجادؑ نے تمام اجساد کی شناسائی کی اور سب سے پہلے جسد اطہر امام حسینؑ کو دفن کیا۔ امامؑ اکیلے قبر میں داخل ہوۓ اور جسد اطہر کو آغوش میں لیا۔ آپ نے اپنی صورت مبارک کو امام کے کٹے گلے پر رکھا، اشک جاری ہوۓ اور فرمایا:

طُوبى‌ لِأَرْضٍ تَضَمَّنَتْ جَسَدَکَ الطّاهِرَ، فَإنّ الدُّنْیا بَعْدَک مُظْلِمَةٌ وَالْآخِرَةُ بِنُورِکَ مُشْرِقَةٌ، أَمَّا اللَّیْلُ فَمُسَهَّدٌ وَالْحُزْنُ فَسَرْمَدٌ، أَوْ یَخْتارَ اللَّهُ لِأَهْلِ بَیْتِکَ دارَکَ الَّتی أَنْتَ بِها مُقیمٌ وَعَلَیْکَ مِنّی السَّلامُ یَابْنَ رَسُولِ اللَّه وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ‌.

’’مبارک ہے وہ زمین جو آپ کے جسد کو جگہ دے دنیا آپ کے بعد تاریک ہو گئی۔ اور آخرت آپ کے نور سے روشن ہو گئی۔ راتوں کو ہم کو آپ کی جدائی میں نیند نہیں آتی گویا یہ غم ختم ہونے والا نہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی آپ کے اہلبیتؑ کو آپ سے ملحق کر دے اور آپ کے ساتھ جگہ دے۔ دورد و سلام ہو آپ پر اے فرزند رسول اللہ اور اللہ تعالی کی برکات آپ پر نازل ہوں‘‘۔

اس کے بعد قبر مبارک سے خارج ہوۓ اور قبر مبارک پر اپنی انگشت مبارک سے یہ عبارت لکھی: 

هذا قَبْرُ الحُسَیْنِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبی‌طالِب الَّذِی قَتَلُوهُ عَطْشاناً غَریباً. 

 ’’یہ قبر حسین ابن علیؑ ہے کہ جسے پیاسا و غربت میں قتل کیا گیا۔ اس کے بعد جسد مبارک علی اکبرؑ امامؑ کے ساتھ دفن کیا گیا اور بقیہ اصحاب و بنی ہاشم کے شہداء کو ایک دستہ جمعی قبر میں دفن کیا گیا‘‘۔ (۱)

 اس کے بعد امامؑ نہر علقمہ کی طرف تشریف لے گئے جہاں پر جسد اطہر حضرت عباس قمر بنی ہاشمؑ موجود تھا۔ امامؑ ان کے پیکر اطہر کو وہیں پر دفن کیا۔ دفن کرتے ہوۓ امامؑ گریہ کر رہے تھے اور یہ کلمات ادا کر رہے تھے: 

عَلَى الدُّنْیا بَعْدَکَ الْعَفا یا قَمَرَ بَنی هاشِمٍ وَعَلَیْکَ مِنّی السَّلامُ مِنْ شَهیدٍ مُحْتَسَبٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکاتُهُ‌.

’’اے قمر بنی ہاشم! آپ کے بعد اس دنیا پر خاک ہو، آپ پر درود بھیجتا ہوں اور رحمت و برکات خدا آپ کے لیے طلب کرتا ہوں‘‘۔ (۲)

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام سجادؑ تو لشکر ابن سعد کی اسارت میں تھے تو وہ امامؑ اور ان کے اصحاب کے اجساد کو دفن کرنے کے لیے کیسے آ سکتے ہیں؟ اس بارے میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں۔ شیعہ اعتقادی مبانی کے مطابق جب ایک امام شہید ہوتا ہے تو اس کے کفن اور دفن کا متولی اگلا امام ہوتا ہے۔ امام رضاؑ سے ایک روایت وارد ہوئی ہے کہ جس میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ امامؑ نے علی بن حمزہ کے سوال کے جواب میں فرمایا:  إن هذا أمکن علی بن الحسین أن یأتی کربلا فیلی أمر أبیه فهو یمکن صاحب الامر أن یأتی بغداد فیلی أمر أبیه ثم ینصرف. وہی ذات جس نے علی بن حسینؑ کو قدرت دی کہ وہ اسارت کی حالت میں کربلا آئیں اور اپنے بابا کے جسد مطہر کو دفن کریں اس صاحب امر(اپنی طرف اشارہ کرتے ہوۓ) کو بھی قدرت دی تاکہ بغداد آ کر اپنے بابا کے امر کو ذمہ لیں اور پھر لوٹ جائیں۔ (۳)

سید بن طاووسؒ فرماتے ہیں کہ عمر بن سعد نے امام حسینؑ کا سر مبارک روز عاشور ہی خولی بن یزید اور حمید بن مسلم کے ہاتھوں کوفہ ابن زیاد کی طرف روانہ کر دیا۔ بقیہ سر شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث اور عمر بن حجاج کی سربراہی میں روانہ کیے۔ خود عمر سعد دوسرے دن یعنی ۱۱ محرم تک کربلا میں ہی رہا۔ پھر دوسرے دن اسیران حرم حسینی کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسیروں کا یہ قافلہ جب کوفہ کے قریب پہنچا تو تماشا دیکھنے والے افراد جمع ہو گئے۔ ان تماشائیوں میں ایک خاتون نے فریاد بلند کی اور کہا: من ای الاساری انتن؟ جواب دیا گیا: نحن اساری آل محمد. وہ خاتون یہ جواب سن کر چند لباس اور چادریں لے آئی۔ کوفی یہ منظر دیکھ کر زار زار رونے لگے۔ امام زین العابدینؑ نے ان کوفیوں کو روتے ہوۓ دیکھا تو فرمایا:

أتنوحون و تبکون من اجلنا، فمن الذی قتلنا؟.

’’کیا تم لوگ ہمارے لیے نوحہ و گریہ کر رہے ہو؟ پھر کس نے ہمیں قتل کیا‘‘؟ (۴)

 


حوالہ جات:

۱۔ المقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۳۲۰۔

۲۔ طبسی، محمد جعفر، مع الرکب الحسینی، ج۱، ص۱۴۸۔ 

۳۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۸، ص۲۷۰۔

۴۔ سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۴۵۔

 

تحریر: عون نقوی

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/08/20
عون نقوی

کربلا

۱۲ محرم

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی