بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

وَ قَدْ سَئَلَهٗ ذِعْلِبُ الْیَمَانِیُّ فَقَالَ: هَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقَالَ ؑ: اَفَاَعْبُدُ مَا لَاۤ اَرٰی؟ فَقَالَ: وَ کَیْفَ تَرَاهُ؟ فَقَالَ:

ذعلب یمنی نے آپؑ سے سوال کیا کہ: یا امیر المومنینؑ! کیا آپؑ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: کیا میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا تک نہیں؟ اس نے کہا کہ آپؑ کیونکر دیکھتے ہیں؟تو آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ:

لَا تَرَاهُ الْعُیُوْنُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِیَانِ، وَ لٰکِنْ تُدْرِکُهُ الْقُلُوْبُ بِحَقَآئِقِ الْاِیْمَانِ، قَرِیْبٌ مِّنَ الْاَشْیَآءِ غَیْرُ مُلَامِسٍ، بَعِیْدٌ مِّنْهَا غَیْرُ مُبَایِنٍ، مُتَکَلِّمٌۢ لَا بِرَوِیَّةٍ، مُرِیْدٌۢ لَا بِهِمَّةٍ، صَانِعٌ لَّا بِجَارِحَةٍ.

آنکھیں اسے کھلم کھلا نہیں دیکھتیں، بلکہ دل ایمانی حقیقتوں سے اسے پہچانتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے قریب ہے،لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نہیں، وہ ہر شے سے دور ہے، مگر الگ نہیں، وہ غور و فکر کئے بغیر کلام کرنے والا اور بغیر آمادگی کے قصد و ارادہ کرنے والا اور بغیر اعضاء (کی مدد) کے بنانے والا ہے۔

لَطِیْفٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْخَفَآءِ، کَبِیْرٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْجَفَآءِ، بَصِیْرٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْحَاسَّةِ، رَحِیْمٌ لَّا یُوْصَفُ بِالرِّقَّةِ. تَعْنُو الْوُجُوْهُ لِعَظَمَتِهٖ، وَ تَجِبُ الْقُلُوْبُ مِنْ مَّخَافَتِهٖ.

وہ لطیف ہے لیکن پوشیدگی سے اسے متصف نہیں کیا جا سکتا، وہ بزرگ و برترہے مگر تند خوئی و بدخلقی کی صفت اس میں نہیں، وہ دیکھنے والا ہے مگر حواس سے اسے موصوف نہیں کیا جا سکتا، وہ رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کو نرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، چہرے اس کی عظمت کے آگے ذلیل و خوار اور دل اس کے خوف سے لرزاں و ہراساں ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:48
عون نقوی

لَا یَشْغَلُهٗ شَاْنٌ عَنْ شَاْنٍ، وَ لَا یُغَیِّرُهٗ زَمَانٌ، وَ لَا یَحْوِیْهِ مَکَانٌ، وَ لَا یَصِفُهٗ لِسَانٌ، وَ لَا یَعْزُبُ عَنْهُ عَدَدُ قَطْرِ الْمَآءِ، وَ لَا نُجُوْمِ السَّمَآءِ، وَ لَا سَوَافِی الرِّیْحِ فِی الْهَوَآءِ، وَ لَا دَبِیْبُ النَّمْلِ عَلَی الصَّفَا، وَ لَا مَقِیْلُ الذَّرِّ فِی اللَّیْلَةِ الظَّلْمَآءِ. یَعْلَمُ مَسَاقِطَ الْاَوْرَاقِ، وَ خَفِیَّ طَرْفِ الْاَحْدَاقِ.

خداوند عالم کو ایک حالت دوسری حالت سے سد راہ نہیں ہوتی، نہ زمانہ اس میں تبدیلی پیدا کر تا ہے، نہ کوئی جگہ اسے گھیرتی ہے اور نہ زبان اس کا وصف کر سکتی ہے۔ اس سے پانی کے قطروں اور آسمان کے ستاروں اور ہوا کے جھکڑوں کا شمار، چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز اور اندھیری رات میں چھوٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔وہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھ کے چوری چھپے اشاروں کو جانتا ہے۔

وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ غَیْرَ مَعْدُوْلٍۭ بِهٖ، وَ لَا مَشْکُوْکٍ فِیْهِ، وَ لَا مَکْفُوْرٍ دِیْنُهٗ، وَ لَا مَجْحُوْدٍ تَکْوِیْنُهٗ، شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِیَّتُهٗ، وَ صَفَتْ دِخْلَتُهٗ، وَ خَلَصَ یَقِیْنُهٗ، وَ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ.

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، نہ اس کا کوئی ہمسر ہے، نہ اس کی ہستی میں کوئی شبہ، نہ اس کے دین سے سرتابی ہو سکتی ہے اور نہ اس کی آفرینش سے انکار۔ اس شخص کی سی گواہی جس کی نیت سچی، باطن پاکیزہ، یقین (شبہوں سے)پاک اور (اس کے نیک اعمال) کا پلہ بھاری ہو۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، الْمُجْتَبٰی مِنْ خَلَآئِقِهٖ، وَالْمُعْتَامُ لِشَرْحِ حَقَآئِقِهٖ، وَ الْمُخْتَصُّ بِعَقَآئِلِ کَرَامَاتِهٖ، وَ الْمُصْطَفٰی لِکَرَآئِمِ رِسَالَاتِهٖ، وَ الْمُوَضَّحَةُ بِهٖۤ اَشْرَاطُ الْهُدٰی، وَ الْمَجْلُوُّ بِهٖ غِرْبِیْبُ الْعَمٰی.

اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں اور مخلوقات میں منتخب، بیان شریعت کیلئے برگزیدہ، گراں بہا بزرگیوں سے مخصوص اور عمدہ پیغاموں (کے پہنچانے)کیلئے منتخب ہیں۔ آپؐ کے ذریعے سے ہدایت کے نشانات روشن کئے گئے اور گمراہی کی تیرگیوں کو چھانٹا گیا۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ الدُّنْیَا تَغُرُّ الْمُؤَمِّلَ لَهَا وَ الْمُخْلِدَ اِلَیْهَا، وَ لَا تَنْفَسُ بِمَنْ نَّافَسَ فِیْهَا، وَ تَغْلِبُ مَنْ غَلَبَ عَلَیْهَا.

اے لوگو! جو شخص دنیا کی آرزوئیں کرتا ہے اور اس کی جانب کھنچتا ہے، وہ اسے انجام کار فریب دیتی ہے اور جو اس کا خواہشمند ہوتا ہے اس سے بخل نہیں کرتی اور جو اس پر چھا جاتا ہے وہ اس پر قابو پالے گی۔

وَایْمُ اللهِ! مَا کَانَ قَوْمٌ قَطُّ فِیْ غَضِّ نِعْمَةٍ مِّنْ عَیْشٍ فَزَالَ عَنْهُمْ اِلَّا بِذُنُوْبٍ اجْتَرَحُوْهَا، لِـۧ﴿اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۚ۝﴾، وَ لَوْ اَنَّ النَّاسَ حِیْنَ تَنْزِلُ بِهِمُ النِّقَمُ، وَ تَزُوْلُ عَنْهُمُ النِّعَمُ، فَزِعُوْۤا اِلٰی رَبِّهِمْ بِصِدْقٍ مِّنْ نِّیَّاتِهمْ، وَ وَلَهٍ مِّنْ قُلُوْبِهمْ، لَرَدَّ عَلَیْهِمْ کُلَّ شَارِدٍ، وَ اَصْلَحَ لَهُمْ کُلَّ فَاسِدٍ.

خدا کی قسم! جن لوگوں کے پاس زندگی کی تر و تازہ و شاداب نعمتیں تھیں اور پھر ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں، یہ ان کے گناہوں کے مرتکب ہو نے کی پاداش ہے، کیونکہ ’’اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا‘‘۔ اگر لوگ اس وقت کہ جب ان پر مصیبتیں ٹوٹ رہی ہوں اور نعمتیں ان سے زائل ہو رہی ہوں، صدق نیت و رجوع قلب سے اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوں تو وہ برگشتہ ہو جانے والی نعمتوں کو پھر ان کی طرف پلٹا دے گا اور ہر خرابی کی اصلاح کر دے گا۔

وَ اِنِّیْ لَاَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تَکُوْنُوْا فِیْ فَتْرَةٍ، وَ قَدْ کَانَتْ اُمُوْرٌ مَّضَتْ، مِلْتُمْ فِیْهَا مَیْلَةً، کُنْتُمْ فِیْهَا عِنْدِیْ غَیْرَ مَحْمُوْدِیْنَ، وَ لَئِنْ رُّدَّ عَلَیْکُمْ اَمْرُکُمْ اِنَّکُمْ لَسُعَدَآءُ، وَ مَا عَلَیَّ اِلَّا الْجُهْدُ، وَ لَوْ اَشَآءُ اَنْ اَقُوْلَ لَقُلْتُ: ﴿عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ ؕ ﴾!.

مجھے تم سے یہ اندیشہ ہے کہ کہیں تم جہالت و نادانی میں نہ پڑ جاؤ۔ کچھ واقعات ایسے ہو گزرے ہیں کہ جن میں تم نے نامناسب جذبات سے کام لیا۔ میرے نزدیک تم ان میں سراہنے کے قابل نہیں ہو۔ اگر تمہیں پہلی روش پر پھر لگا دیا جائے تو تم یقیناً نیک بخت و سعادت مند بن جاؤ گے۔ میرا کام تو صرف کوشش کرنا ہے۔ اگر میں کچھ کہنا چاہوں تو البتہ یہی کہوں گا کہ ’’خدا (تمہاری) گزشتہ لغزشوں سے درگزر کرے‘‘۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:46
عون نقوی

اِنْتَفِعُوْا بِبَیَانِ اللهِ، وَ اتَّعِظُوْا بِمَوَاعِظِ اللهِ، وَ اقْبَلُوْا نَصِیْحَةَ اللهِ، فَاِنَّ اللهَ قَدْ اَعْذَرَ اِلَیْکُمْ بِالْجَلِیَّةِ، وَ اتَّخَذَ عَلَیْکُمْ الْحُجَّةَ، وَ بَیَّنَ لَکُمْ مَحَابَّهٗ مِنَ الْاَعْمَالِ، وَ مَکَارِهَهٗ مِنْهَا، لِتَتَّبِعُوْا هٰذِهٖ، وَ تَجْتَنِبُوْا هٰذِهٖ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللهِ- ﷺ کَانَ یَقُوْلُ: «اِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَکَارِهٖ، وَ اِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ».

خداوند عالم کے ارشادات سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے موعظوں سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحتوں کو مانو، کیونکہ اس نے واضح دلیلوں سے تمہارے لئے کسی عذر کی گنجائش نہیں رکھی اور تم پر (پوری طرح) حجت کو تمام کردیا ہے اور اپنے پسندیدہ و ناپسند اعمال تم سے بیان کر دیئے ہیں تاکہ اچھے اعمال بجا لاؤ اور برے کاموں سے بچو۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: «جنت ناگواریوں میں گھری ہوئی ہے اور دوزخ خواہشوں میں گھرا ہوا ہے»۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَا مِنْ طَاعَةِ اللهِ شَیْءٌ اِلَّا یَاْتِیْ فِیْ کُرْهٍ، وَ مَا مِنْ مَّعْصِیَةِ اللهِ شَیءٌ اِلَّا یَاْتِیْ فِیْ شَهْوَةٍ. فَرَحِمَ اللهُ رَجُلًا نَّزَعَ عَنْ شَهْوَتِهٖ، وَ قَمَعَ هَوٰی نَفْسِهٖ، فَاِنَّ هٰذِهِ النَّفْسَ اَبْعَدُ شَیْءٍ مَّنْزِعًا، وَ اِنَّهَا لَا تَزَالُ تَنْزِ عُ اِلٰی مَعْصِیَةٍ فِیْ هَوًی.

یاد رکھو کہ اللہ کی ہر اطاعت ناگوار صورت میں اور اس کی ہر معصیت عین خواہش بن کر سامنے آتی ہے۔ خدا اس شخص پر رحمت کرے جس نے خواہشوں سے دوری اختیار کی اور اپنے نفس کے ہوا و ہوس کو جڑ بنیاد سے اکھیڑ دیا، کیونکہ نفس خواہشوں میں لا محدود درجہ تک بڑھنے والا ہے اور وہ ہمیشہ خواہش و آرزوئے گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔

وَ اعْلَمُوْا ـ عِبَادَ اللهِ! ـ اَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یُمْسِیْ وَ لَا یُصْبِـحُ اِلَّا وَ نَفْسُهٗ ظَنُوْنٌ عِنْدَهُ، فَلَا یَزَالُ زَارِیًا عَلَیْهَا وَ مُسْتَزِیْدًا لَهَا. فَکُوْنُوْا کَالسَّابِقِیْنَ قَبْلَکُمْ، وَ الْمَاضِیْنَ اَمَامَکُمْ. قَوَّضُوْا مِنَ الدُّنْیَا تَقْوِیْضَ الرَّاحِلِ، وَ طَوَوْهَا طَیَّ الْمَنَازِلِ.

اللہ کے بند و! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مومن (زندگی کے) صبح وشام میں اپنے نفس سے بد گمان رہتا ہے اور اس پر (کوتاہیوں کا) الزام لگاتا ہے اور اس سے (عبادتوں میں) اضافہ کا خواہشمند رہتا ہے۔ تم ان لوگوں کی طرح بنو کہ جو تم سے پہلے آگے بڑھ چکے ہیں اور تمہارے قبل اس راہ سے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے دنیا سے یوں اپنا رخت ِسفر باندھا جس طرح مسافر اپنا ڈیرا اٹھا لیتا ہے اور دنیا کو اس طرح طے کیا جس طرح (سفر کی ) منزلوں کو۔

وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِیْ لَا یَغُشُّ، وَالْهَادِی الَّذِیْ لَا یُضِلُّ، وَالْمُحَدِّثُ الَّذِیْ لَا یَکْذِبُ. وَمَا جَالَسَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ اَحَدٌ اِلَّا قَامَ عَنْهُ بِزِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ: زِیَادَةٍ فِیْ هُدًی، اَوْ نُقْصَانٍ مِّنْ عَمًی.

یاد رکھو کہ یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا اور ایسا ہدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا۔ جو بھی اس قرآن کا ہم نشین ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور گمراہی و ضلالت کو گھٹا کر اس سے الگ ہوا۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ عَلٰۤی اَحَدٍۭ بَعْدَ الْقُرْاٰنِ مِنْ فَاقَةٍ، وَ لَا لِاَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْاٰنِ مِنْ غِنًی، فَاسْتَشْفُوْهُ مِنْ اَدْوَآئِکُمْ، وَ اسْتَعِیْنُوْا بِهٖ عَلٰی لَاْوَآئِکُمْ، فَاِنَّ فِیْهِ شِفَآءً مِنْ اَکْبَرِ الدَّآءِ، وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ، وَ الْغَیُّ وَ الضَّلَالُ، فَاسْئَلُوا اللهَ بِهٖ، وَ تَوَجَّهُوْۤا اِلَیْهِ بِحُبِّهٖ، وَ لَا تَسْئَلُوْا بِهٖ خَلْقَهٗ، اِنَّهٗ مَا تَوَجَّهَ الْعِبَادُ اِلَی اللهِ بِمِثْلِهٖ.

جان لو کہ کسی کو قرآن (کی تعلیمات) کے بعد (کسی اور لائحہ عمل کی) احتیاج نہیں رہتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سیکھنے) سے پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔ اس سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔ اس میں کفر و نفاق اور ہلاکت و گمراہی جیسی بڑی بڑی مرضوں کی شفا پائی جاتی ہے۔ اس کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو اور اس کی دوستی کو لئے ہوئے اس کا رخ کرو اور اسے لوگوں سے مانگنے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ یقیناً بندوں کیلئے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی ذریعہ نہیں۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ شَافِعٌ مُّشَفَّعٌ، وَ قَآئِلٌ مُّصَدَّقٌ، وَ اَنَّهٗ مَنْ شَفَعَ لَهُ الْقُرْاٰنُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ شُفِّـعَ فِیْهِ، وَ مَنْ مَّحَلَ بِهِ الْقُرْاٰنُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ صُدِّقَ عَلَیْهِ، فَاِنَّهٗ یُنَادِیْ مُنَادٍ یَوْمَ الْقِیٰمةِ: اَلَا اِنَّ کُلَّ حَارِثٍ مُّبْتَلًی فِیْ حَرْثِهٖ وَ عَاقِبَةِ عَمَلِهٖ غَیْرَ حَرَثَةِ الْقُراٰنِ، فَکُوْنُوْا مِنْ حَرَثَتِهٖ وَ اَتْبَاعِهٖ، وَ اسْتَدِلُّوْهُ عَلٰی رَبِّکُمْ، وَ اسْتَنْصِحُوْهُ عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَ اتَّهِمُوْا عَلَیْهِ اٰرَآءَکُمْ، وَ اسْتَغِشُّوْا فِیْهِ اَهْوَآءَکُمْ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول اور ایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات) تصدیق شدہ ہے۔ قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا وہ اس کے حق میں مانی جائے گی او راس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی۔ قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا کہ: دیکھو! قرآن کی کھیتی بو نے والوں کے علاوہ ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں مبتلا ہے،لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اس کے پیروکار بنو اور اپنے پروردگار تک پہنچنے کیلئے اسے دلیل راہ بناؤ اور اپنے نفسوں کیلئے اس سے پند و نصیحت چاہو اور اس کے خلاف اپنی رایوں پر بھروسا نہ کرو اور اس کے مقابلہ میں اپنی خواہشوں کو غلط و فریب خوردہ سمجھو۔

اَلْعَمَلَ الْعَمَلَ، ثُمَّ النِّهَایَةَ النِّهَایَةَ، وَ الْاِسْتِقَامَةَ الْاِسْتِقَامَةَ، ثُمَّ الصَّبْرَ الصَّبْرَ، وَ الْوَرَعَ الْوَرَعَ! اِنَّ لَکُمْ نِهَایَةً فَانْتَهُوْا اِلٰی نِهَایَتِکُمْ، وَ اِنَّ لَکُمْ عَلَمًا فَاهْتَدُوْا بِعَلَمِکُمْ، وَ اِنَّ لِلْاِسْلَامِ غَایَةً فَانْتَهُوْۤا اِلٰی غَایَتِهٖ. وَ اخْرُجُوْۤا اِلَی اللهِ بِمَا افْتَرَضَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَقِّهٖ، وَ بَیَّنَ لَکُمْ مِنْ وَّظَآئِفِهٖ. اَنَا شَاهِدٌ لَّکُمْ، وَ حَجِیْجٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ عَنْکُمْ.

عمل کر و،عمل کرو اور عاقبت و انجام کو دیکھو، استوار و برقرار رہو، پھر یہ کہ صبر کرو، صبر کرو، تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرو۔ تمہارے لئے ایک منزل منتہا ہے اپنے کو وہاں تک پہنچاؤ اور تمہارے لئے ایک نشان ہے اس سے ہدایت حاصل کر و۔ اسلام کی ایک حد ہے، تم اس حد و انتہا تک پہنچو۔ اللہ نے جن حقوق کی ادائیگی کو تم پر فرض کیا ہے اور جن فرائض کو تم سے بیان کیا ہے انہیں ادا کر کے اس سے عہدہ برآ ہو جاؤ۔ میں تمہارے اعمال کا گواہ اور قیامت کے دن تمہاری طرف سے حجت پیش کر نے والا ہوں۔

اَلَا وَ اِنَّ الْقَدَرَ السَّابِقَ قَدْ وَقَعَ، وَ الْقَضَآءَ الْمَاضِیَ قَدْ تَوَرَّدَ، وَ اِنِّیْ مُتَکَلِّمٌۢ بِعِدَةِ اللهِ وَ حُجَّتِهٖ، قَالَ اللهُ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.

دیکھو! جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا اور جو فیصلہ خداوندی تھا وہ سامنے آ گیا۔ میں الٰہی وعدہ و برہان کی رو سے کلام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر وہ اس (عقیدہ) پر جمے رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور (یہ کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کھاؤ اور غمگین نہ ہو۔ تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔

وَقَدْ قُلْتُمْ: ﴿رَبُّنَا اللهُ﴾، فَاسْتَقِیْمُوْا عَلٰی کِتَابِهٖ، وَ عَلٰی مِنْهَاجِ اَمْرِهٖ، وَ عَلَی الطَّرِیْقَةِ الصَّالِحَةِ مِنْ عِبَادَتِهٖ، ثُمَّ لَا تَمْرُقُوْا مِنْهَا، وَ لَا تَبْتَدِعُوْا فِیْهَا، وَ لَا تُخَالِفُوْا عَنْهَا، فَاِنَّ اَهْلَ الْمُرُوْقِ مُنْقَطَعٌۢ بِهِمْ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ.

اب تمہارا قول تو یہ ہے کہ: ’’ہمارا پروردگار اللہ ہے‘‘ تو اب اس کی کتاب اور اس کی شریعت کی راہ اور اس کی عبادت کے نیک طریقہ پر جمے رہو اور پھر اس سے نکل نہ بھاگو اور نہ اس میں بدعتیں پیدا کر و اور نہ اس کے خلاف چلو۔ اس لئے کہ اس راہ سے نکل بھاگنے والے قیامت کے دن اللہ (کی رحمت) سے جدا ہونے والے ہیں۔

ثُمَّ اِیَّاکُمْ وَ تَهْزِیْعَ الْاَخْلَاقِ وَ تَصْرِیْفَهَا، وَ اجْعَلُوا اللِّسَانَ وَاحِدًا، وَ لْیَخْزُنِ الرَّجُلُ لِسَانَهٗ، فَاِنَّ هٰذَا اللِّسَانَ جَمُوْحٌۢ بِصَاحِبِهٖ.

پھر یہ کہ تم اپنے اخلاق و اطوار کو پلٹنے اور انہیں ادلنے بدلنے سے پرہیز کرو۔ دو رخی اور متلون مزاجی سے بچتے رہو اور ایک زبان رکھو۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھے۔ اس لئے کہ یہ اپنے مالک سے منہ زوری کرنے والی ہے۔

وَاللهِ! ماۤ اَرٰی عَبْدًا یَّتَّقِیْ تَقْوٰی تَنْفَعُهٗ حَتّٰی یَخْزُنَ لِسَانَهٗ، وَ اِنَّ لِسَانَ الْمُؤْمِنِ مِنْ وَّرَآءِ قَلْبِهٖ، وَ اِنَّ قَلْبَ الْمُنَافِقِ مِنْ وَّرَآءِ لِسَانِهٖ: لِاَنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَاۤ اَرَادَ اَنْ یَّتَکَلَّمَ بَکَلَامٍ تَدَبَّرَهٗ فِیْ نَفْسِهٖ، فَاِنْ کَانَ خَیْرًا اَبْدَاهُ، وَ اِنْ کَانَ شَرًّا وَّارَاهُ، وَ اِنَّ الْمُنَافِقَ یَتَکَلَّمُ بِمَاۤ اَتٰی عَلٰی لِسَانِهٖ لَا یَدْرِی مَاذَا لَهٗ، وَ مَاذَا عَلَیْهِ.

خدا کی قسم! میں نے کسی پرہیزگار کو نہیں دیکھا کہ تقویٰ اس کیلئے مفید ثابت ہوا ہو جب تک کہ اس نے اپنی زبان کی حفاظت نہ کی ہو۔ بے شک مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور منافق کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے، کیونکہ مومن جب کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو پہلے اسے دل میں سوچ لیتا ہے، اگر وہ اچھی بات ہوتی ہے تو اسے ظاہر کرتا ہے اور اگر بری ہوتی ہے تو اسے پوشیدہ ہی رہنے دیتا ہے اور منافق کی زبان پر جو آتا ہے کہہ گزرتا ہے، اسے یہ کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کون سی بات اس کے حق میں مفید ہے اور کون سی مضر ہے۔

وَ لَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: «لَا یَسْتَقِیْمُ اِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُهٗ. وَ لَا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُهٗ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُهٗ». فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَلْقَی اللهَ وَ هُوَ نَقِیُّ الرَّاحَةِ مِنْ دِمَآءِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اَمْوَالِهِمْ، سَلِیْمُ اللِّسَانِ مِنْ اَعْرَاضِهِمْ، فَلْیَفْعَلْ.

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: «کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک اس کا دل مستحکم نہ ہو اور دل اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک زبان مستحکم نہ ہو»۔ لہٰذا تم میں سے جس سے یہ بن پڑے کہ وہ اللہ کے حضور میں اس طرح پہنچے کہ اس کا ہاتھ مسلمانوں کے خون اور ان کے مال سے پاک و صاف اور اس کی زبان ان کی آبرو ریزی سے محفوظ رہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔

وَ اعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ الْمُؤْمِنَ یَسْتَحِلُّ الْعَامَ مَا اسْتَحَلَّ عَامًا اَوَّلَ، وَ یُحَرِّمُ الْعَامَ مَا حَرَّمَ عَامًا اَوَّلَ، وَ اَنَّ مَاۤ اَحْدَثَ النَّاسُ لَا یُحِلُّ لَکُمْ شَیْئًا مِّمَّا حُرِّمَ عَلَیْکُمْ، وَ لٰکِنَّ الْحَلَالَ مَاۤ اَحَلَّ اللهُ، وَ الْحَرَامَ مَا حَرَّمَ اللهُ، فَقَدْ جَرَّبْتُمُ الْاُمُوْرَ وَ ضَرَّسْتُمُوْهَا، وَ وُعِظْتُمْ بِمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، وَ ضُرِبَتِ الْاَمْثَالُ لَکُمْ، وَ دُعِیتُمْ اِلَی الْاَمْرِ الْوَاضِحِ، فَلَا یَصَمُّ عَنْ ذٰلِکَ اِلَّاۤ اَصَمُّ، وَ لَا یَعْمٰی عَنْ ذٰلِکَ اِلَّاۤ اَعْمٰی.

خد اکے بندو! یاد رکھو کہ مومن اس سال بھی اسی چیز کو حلال سمجھتا ہے جسے پار سال حلال سمجھ چکا ہے اور اس سال بھی اسی چیز کو حرام کہتا ہے جسے گزشتہ سال حرام کہہ چکا ہے اور یاد رکھو کہ لوگوں کی پیدا کی ہوئی بدعتیں ان چیزوں کو جو خدا کی طرف سے حرام ہیں حلال نہیں کر سکتیں،بلکہ حلال وہ ہے جسے اللہ نے حلال کیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ تم تمام چیزوں کو تجربہ و آزمائش سے پرکھ چکے ہو اور پہلے لوگوں سے تمہیں پند و نصیحت بھی کی جا چکی ہے اور (حق و باطل کی) مثالیں بھی تمہارے سامنے پیش کی جا چکی ہیں اور واضح حقیقتوں کی طرف تمہیں دعوت دی جا چکی ہے۔ اب اس آواز کے سننے سے قاصر وہی ہو سکتا ہے جو واقعی بہرا ہو اور اس کے دیکھنے سے معذور وہی سمجھا جا سکتا ہے جو اندھا ہو۔

وَ مَنْ لَّمْ یَنْفَعْهُ اللهُ بِالْبَلَآءِ وَ التَّجَارِبِ لَمْ یَنْتَفِعْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْعِظَةِ، وَاَتَاهُ التَّقْصِیْرُ مِنْ اَمَامِهٖ، حَتّٰی یَعْرِفَ مَاۤ اَنْکَرَ، وَ یُنْکِرَ مَا عَرَفَ. وَاِنَّمَا النَّاسُ رَجُلَانِ: مُتَّبِـعٌ شِرْعَةً، وَ مُبْتَدِعٌۢ بِدْعَةً لَّیْسَ مَعَهٗ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهٗ بُرْهَانُ سُنَّةٍ وَّ لَا ضِیَآءُ حُجَّةٍ.

اور جسے اللہ کی آزمائشوں اور تجربوں سے فائدہ نہ پہنچے وہ کسی پند و نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے زیاں کاریاں ہی درپیش ہوں گی، یہاں تک کہ وہ بری باتوں کو اچھا اور اچھی باتوں کو برا سمجھے گا۔ چونکہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک شریعت کے پیروکار اور دوسرے بدعت ساز کہ جن کے پاس نہ سنت پیغمبرؑ کی کوئی سند ہوتی ہے اور نہ دلیل وبرہان کی کوئی روشنی۔

وَ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَعِظْ اَحَدًۢا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ، فَاِنَّهٗ حَبْلُ اللهِ الْمَتِیْنُ، وَ سَبَبُهُ الْاَمِیْنُ، وَ فِیْهِ رَبِیْعُ الْقَلْبِ، وَ یَنَابِیْعُ الْعِلْمِ، وَ مَا لِلْقَلْبِ جِلَآءٌ غَیْرُهٗ، مَعَ اَنَّهٗ قَدْ ذَهَبَ الْمُتَذَکِّرُوْنَ، وَ بَقِیَ النَّاسُوْنَ اَوِ الْمُتَنَاسُوْنَ. فَاِذَا رَاَیْتُمْ خَیْرًا فَاَعِیْنُوْا عَلَیْهِ، وَ اِذَا رَاَیْتُمْ شَرًّا فَاذْهَبُوْا عَنْهُ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ -کَانَ یَقُوْلُ: «یَابْنَ اٰدَمَ! اعْمَلِ الْخَیْرَ وَ دَعِ الشَّرَّ، فَاِذَاۤ اَنْتَ جَوَادٌ قَاصِدٌ».

بلاشبہ اللہ سبحانہ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو، کیونکہ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور امانتدار وسیلہ ہے۔ اسی میں دل کی بہار اور علم کے سر چشمے ہیں اور اسی سے (آئینہ) قلب پر جلا ہوتی ہے، باوجودیکہ یاد رکھنے والے گزر گئے اور بھول جانے والے یا بھلاوے میں ڈالنے والے باقی رہ گئے ہیں۔ اب تمہارا کام یہ ہے کہ بھلائی کو دیکھو تو اسے تقویت پہنچاؤ اور برائی کو دیکھو تو اس سے (دامن بچا کر) چل دو۔ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ: «اے فرزند آدم! اچھے کام کر اور برائیوں کو چھوڑ دے۔ اگر تو نے ایسا کیا تو تو نیک چلن اور راست رو ہے»۔

اَلَا وَ اِنَّ الظُّلْمَ ثَلَاثَةٌ: فَظُلْمٌ لَّا یُغْفَرُ، وَ ظُلْمٌ لَّا یُتْرَکُ، وَ ظُلْمٌ مَّغْفُوْرٌ لَّا یُطْلَبُ.

دیکھو! ظلم تین طرح کا ہوتا ہے: ایک ظلم وہ جو بخشا نہیں جائے گا اور دوسرا ظلم وہ جس کا (مواخذہ) چھوڑا نہیں جائے گا، تیسرا وہ جو بخش دیا جائے گا اور اس کی باز پرس نہیں ہو گی۔

فَاَمَّا الظُّلْمُ الَّذِیْ لَا یُغْفَرُ فَالشِّرْکُ بِاللهِ، قَالَ اللهُ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهٖ ﴾، وَ اَمَّا الظُّلْمُ الَّذِیْ یُغْفَرُ فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَهٗ عِنْدَ بَعْضِ الْهَنَاتِ، وَ اَمَّا الظُّلْمُ الَّذِیْ لَا یُتْرَکُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا. الْقِصَاصُ هُنَاکَ شَدِیْدٌ، لَیْسَ هُوَ جَرْحًا بِالْمُدٰی وَ لَا ضَرْبًۢا بِالسِّیَاطِ، وَ لٰکِنَّهٗ مَا یُسْتَصْغَرُ ذٰلِکَ مَعَهٗ.

لیکن وہ ظلم جو بخشا نہیں جائے گا وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’خدا اس (گناہ) کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘‘۔ اور وہ ظلم جو بخش دیا جائے گا وہ ہے جو بندہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کا مرتکب ہو کر اپنے نفس پر کرتا ہے۔ اور وہ ظلم کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنا ہے جس کا آخرت میں سخت بدلہ لیا جائے گا۔وہ کوئی چھریوں سے کچوکے دینا اور کوڑوں سے مارنا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا سخت عذاب ہے جس کے مقابلے میں یہ چیزیں بہت ہی کم ہیں۔

فَاِیَّاکُمْ وَ التَّلَوُّنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ، فَاِنَّ جَمَاعَةً فِیْمَا تَکْرَهُوْنَ مِنَ الْحَقّ خَیْرٌ مِّنْ فُرْقَةٍ فِیْمَا تُحِبُّوْنَ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یُعْطِ اَحَدًۢا بِفُرْقَةٍ خَیْرًا مِمَّنْ مَّضٰی، وَ لَا مِمَّنْۢ بَقِیَ.

دین خدا میں رنگ بدلنے سے بچو، کیونکہ تمہارا حق پر ایکا کر لینا جسے تم ناپسند کرتے ہو، باطل راستوں پر جا کر بٹ جانے سے جو تمہارا محبوب مشغلہ ہے، بہتر ہے۔ بے شک اللہ سبحانہ نے اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو متفرق اور پراگندہ ہو جانے سے کوئی بھلائی نہیں دی۔

یَاۤ اَیُّهَا النَّاسُ! طُوْبٰی لِمَنْ شَغَلَهٗ عَیْبُهٗ عَنْ عُیُوْبِ النَّاسِ، وَ طُوْبٰی لِمَنْ لَّزِمَ بَیْتَهٗ، وَ اَکَلَ قُوْتَهٗ، وَ اشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّهٖ، وَ بَکٰی عَلٰی خَطِیْٓئَتِهٖ، فَکَانَ مِنْ نَّفْسِهٖ فِیْ شُغُلٍ، وَ النَّاسُ مِنْهُ فِیْ رَاحَةٍ!.

اے لوگو! لائق مبارکباد وہ شخص ہے جسے اپنے عیوب دوسروں کی عیب گیری سے باز رکھیں اور قابل مبارکباد وہ شخص ہے جو اپنے گھر (کے گوشہ) میں بیٹھ جائے اور جو کھانا میسر آ جائے کھا لے اور اپنے اللہ کی عبادت میں لگا رہے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہائے کہ اس طرح وہ بس اپنی ذات کی فکر میں رہے اور دوسرے لوگ اس سے آرام میں رہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:42
عون نقوی

اَیُّهَا الْغَافِلُوْنَ غَیْرُ الْمَغْفُوْلِ عَنْهُمْ، وَ التَّارِکُوْنَ الْمَاْخُوْذُ مِنْهُمْ، مَا لِیْۤ اَرَاکُمْ عَنِ اللهِ ذَاهِـبِیْنَ، وَ اِلٰی غَیْرِهٖ رَاغِبـِیْنَ!.

اے غافلو! کہ جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا رہی اور اے چھوڑ دینے والو! کہ جن کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تعجب ہے کہ میں تمہیں اس حالت میں دیکھتا ہوں کہ تم اللہ سے دور ہٹتے جا رہے ہو اور دوسروں کی طرف شوق سے بڑھ رہے ہو۔

کَاَنَّکُمْ نَعَمٌ اَرَاحَ بِهَا سَآئِمٌ اِلٰی مَرْعًی وَّبِیٍّ، وَ مَشْرَبٍ دَوِیٍّ، اِنَّمَا هِیَ کَالْمَعْلُوْفَةِ لِلْمُدٰی لَا تَعْرِفُ مَاذَا یُرَادُ بِهَا! اِذَاۤ اُحْسِنَ اِلَیْهَا تَحْسَبُ یَوْمَهَا دَهْرَهَا، وَ شِبَعَهَاۤ اَمْرَهَا.

گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا انہیں ایک ہلاک کرنے والی چراگاہ اور تباہ کرنے والے گھاٹ پر لایا ہو۔ یہ ان چوپاؤں کی مانند ہیں جنہیں چھریوں سے ذبح کرنے کیلئے چارہ دیا جا رہا ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ جب ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جا تا ہے تو ان سے مقصود کیا ہے۔ یہ تو اپنے دن کو اپنا پورا زمانہ خیال کرتے ہیں اور پیٹ بھر کر کھا لینا ہی اپنا کام سمجھتے ہیں۔

وَاللهِ! لَوْ شِئْتُ اَنْ اُخْبِرَ کُلَّ رَجُلٍ مِّنْکُمْ بِمَخْرَجِهٖ وَ مَوْلِجِهٖ وَ جَمِیْعِ شَاْنِهٖ لَفَعَلْتُ، وَ لٰکِنْ اَخَافُ اَنْ تَکْفُرُوْا فِیَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ. اَلَا وَ اِنِّیْ مُفْضِیْهِ اِلَی الْخَاصَّةِ مِمَّنْ یُّؤْمَنُ ذٰلِکَ مِنْهُ.

خدا کی قسم! اگر میں بتانا چاہوں تو تم میں سے ہر شخص کو بتا سکتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں جانا ہے اور اس کے پورے حالات کیا ہیں۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم مجھ میں (کھو کر)پیغمبر ﷺ سے کفر اختیار کر لو گے۔ البتہ میں اپنے مخصوص دوستوں تک یہ چیزیں ضرور پہنچاؤں گا کہ جن کے بھٹک جانے کا اندیشہ نہیں۔

وَالَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ وَ اصْطَفَاهُ عَلَی الْخَلْقِ! مَاۤ اَنْطِقُ اِلَّا صَادِقًا، وَ لَقَدْ عَهِدَ اِلَیَّ بِذٰلِکَ کُلِّهٖ، وَ بِمَهْلِکِ مَنْ یَّهْلِکُ، وَ مَنْجٰی مَنْ یَّنْجُوْ، وَ مَاٰلِ هٰذَا الْاَمْرِ، وَ مَاۤ اَبْقٰی شَیْئًا یَّمُرُّ عَلٰی رَاْسِیْۤ اِلَّاۤ اَفْرَغَهٗ فِیْۤ اُذُنَییَّ وَ اَفْضٰی بِهٖۤ اِلَیَّ.

اس ذات کی قسم جس نے پیغمبر ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور ساری مخلوقات میں سے ان کو منتخب فرمایا! میں جو کہتا ہوں سچ کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان تمام چیزوں اور ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر (خلافت) کے انجام کی خبر دی ہے اور ہر وہ چیز جو میرے سر پر گزرے گی اسے میرے کانوں میں ڈالے اور مجھ تک پہنچائے بغیر نہیں چھوڑا۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ وَاللهِ! مَاۤ اَحُثُّکُمْ عَلٰی طَاعَةٍ اِلَّا وَ اَسْبِقُکُمْ اِلَیْهَا، وَ لَاۤ اَنْهَاکُمْ عَنْ مَّعْصِیَةٍ اِلَّا وَ اَتَنَاهٰی قَبْلَکُمْ عَنْهَا.

اے لوگو! قسم بخدا! میں تمہیں کسی اطاعت پر آمادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی گناہ سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ تم سے پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:36
عون نقوی

اَمِیْنُ وَحْیِهٖ، وَ خَاتَمُ رُسُلِهٖ، وَ بَشِیْرُ رَحْمَتِهٖ، وَ نَذِیْرُ نِقْمَتِهٖ.

وہ اللہ کی وحی کے امانتدار، اس کے رسولوں کی آخری فرد، اس کی رحمت کا مژدہ سنا نے والے اور اس کے عذاب سے ڈرانے والے تھے۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اَحَقَّ النَّاسِ بِهٰذَا الْاَمْرِ اَقْوَاهُمْ عَلَیْهِ، وَ اَعْلَمُهُمْ بِاَمْرِ اللهِ فِیْهِ، فَاِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ، فَاِنْ اَبٰی قُوْتِلَ.

اے لوگو! تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس (کے نظم و نسق کے برقرار رکھنے) کی سب سے زیادہ قوت (و صلاحیت) رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زائد جانتا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے تو (پہلے) اسے توبہ و بازگشت کیلئے کہا جائے گا۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ و جدال کیا جائے گا۔

وَ لَعَمْرِیْ! لَئِنْ کَانَتِ الْاِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ حَتّٰی یَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ، فَمَاۤ اِلٰی ذٰلِکَ سَبِیْلٌ، وَ لٰکِنْ اَهْلُهَا یَحْکُمُوْنَ عَلٰی مَنْ غَابَ عَنْهَا، ثُمَّ لَیْسَ لِلشَّاهِدِ اَنْ یَّرْجِـعَ، وَ لَا لِلْغَآئِبِ اَنْ یَّخْتَارَ.

اپنی جان کی قسم! [۱] اگر خلافت کا انعقاد تمام افراد اُمت کے ایک جگہ اکٹھا ہونے سے ہو تو اس کی کوئی سبیل ہی نہیں، بلکہ (اس کی صورت تو انہوں نے یہ رکھی تھی کہ) اس کے کرتا دھرتا لوگ اپنے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنائیں گے جو (بیعت کے وقت) موجود نہ ہوں گے، پھر موجود کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ وہ (بیعت سے) انحراف کرے اور نہ غیر موجود کو یہ حق ہو گا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرے۔

اَلَا وَ اِنِّیْۤ اُقَاتِلُ رَجُلَیْنِ: رَجُلًا ادَّعٰی مَا لَیْسَ لَهٗ، وَ اٰخَرَ مَنَعَ الَّذِیْ عَلَیْهِ.

دیکھو! میں دو شخصوں سے ضرور جنگ کروں گا: ایک وہ جو ایسی چیز کا دعویٰ کرے جو اس کی نہ ہو اور دوسرا وہ جو اپنے معاہدہ کا پابند نہ رہے۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِتَقْوَی اللهِ، فَاِنَّهَا خَیْرُ مَا تَوَاصَی الْعِبَادُ بِهٖ، وَ خَیْرُ عَوَاقِبِ الْاُمُوْرِ عِنْدَ اللهِ، وَ قَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ اَهْلِ الْقِبْلَةِ، وَ لَا یَحْمِلُ هٰذَا الْعَلَمَ اِلَّاۤ اَهْلُ الْبَصَرِ وَ الصَّبْرِ وَ الْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ، فَامْضُوْا لِمَا تُؤْمَرُوْنَ بِهٖ، وَ قِفُوْا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ، وَ لَا تَعْجَلُوْا فِیْۤ اَمْرٍ حَتّٰی تَتَبَیَّنُوْا، فَاِنَّ لَنَا مَعَ کُلِّ اَمْرٍ تُنْکِرُوْنَهٗ غِیَرًا.

اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی ہدایت کرتا ہوں۔ کیونکہ بندے جن چیزوں کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے ہیں ان میں تقویٰ سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک تمام چیزوں کے نتائج سے بہتر و برتر ہے۔ تمہارے اور دوسرے اہل قبلہ کے درمیان جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے اور اس (جنگ) کے جھنڈے کو وہی اٹھائے گاجو نظر رکھنے والا، (مصیبتوں پر) صبر کرنے والا اور حق کے مقامات کو پہچاننے والا ہو۔ تمہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل کرو اور جس چیز سے روکا جائے اس سے باز رہو اور کسی بات میں جلدی نہ کرو جب تک اسے خوب سوچ سمجھ نہ لو۔ ہمیں ان امور میں کہ جن پر تم ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہو، غیر معمولی انقلابات کا اندیشہ رہتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ هٰذِهِ الدُّنْیَا الَّتِیْۤ اَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا وَ تَرْغَبُوْنَ فِیْهَا، وَ اَصْبَحَتْ تُغْضِبُکُمْ وَ تُرْضِیْکُمْ، لَیْسَتْ بِدَارِکُمْ، وَ لَا مَنْزِلِکُمُ الَّذِیْ خُلِقْتُمْ لَهٗ وَ لَا الَّذِیْ دُعِیْتُمْ اِلَیْهِ،

دیکھو! یہ دنیا جس کی تم تمنا کرتے ہو اور جس کی جانب خواہش و رغبت سے بڑھتے ہو، جو کبھی تم کو غصہ دلاتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے، تمہارا (اصلی) گھر نہیں ہے اور نہ وہ منزل ہے جس کیلئے تم پیدا کئے گئے ہو اور نہ وہ جگہ ہے جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے۔

اَلَا وَ اِنَّهَا لَیْسَتْ بِبَاقِیَةٍ لَّکُمْ وَ لَا تَبْقَوْنَ عَلَیْهَا، وَ هِیَ وَ اِنْ غَرَّتْکُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْکُمْ شَرَّهَا، فَدَعُوْا غُرُوْرَهَا لِتَحْذِیْرِهَا، وَ اِطْمَاعَهَا لِتَخْوِیْفِهَا، وَ سَابِقُوْا فِیْهَاۤ اِلَی الدَّارِ الَّتِیْ دُعِیْتُمْ اِلَیْهَا، وَ انْصَرِفُوْا بِقُلُوْبِکُمْ عَنْهَا.

دیکھو! یہ تمہارے لئے باقی رہنے والی نہیں اور نہ تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ اگر اس نے تمہیں (اپنی آرائشوں سے) فریب دیا ہے تو اپنی بُرائیوں سے خوف بھی دلایا ہے۔ لہٰذا تم اس کے ڈرانے سے متاثر ہو کر اس سے فریب نہ کھاؤ اور اس کے خوفزدہ کرنے کی بنا پر اس کے طمع دلانے میں نہ آؤ۔ اس گھر کی طرف بڑھو جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے اور اس دنیا سے اپنے دلوں کو موڑ لو۔

وَ لَا یَخِنَّنَّ اَحَدُکُمْ خَنِیْنَ الْاَمَةِ عَلٰی مَا زُوِیَ عَنْهُ مِنْهَا، وَ اسْتَتِمُّوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ بِالصَّبْرِ عَلَی طَاعَةِ اللهِ وَالْمُحَافَظَةِ عَلَی مَا اسْتَحْفَظَکُمْ مِنْ کِتَابِهِ.

تم میں سے کوئی شخص دنیا کی کسی چیز کے روک لئے جانے پر لونڈیوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔ا طاعت خدا پر صبر کر کے اور جن چیزوں کی اس نے اپنی کتاب میں تم سے حفاظت چاہی ہے ان کی حفاظت کر کے اس سے نعمتوں کی تکمیل چاہو۔

اَلَا وَ اِنَّهٗ لَا یَضُرُّکُمْ تَضْیِیْعُ شَیْءٍ مِّنْ دُنْیَاکُمْ بَعْدَ حِفْظِکُمْ قَآئِمَةَ دِینِکُمْ، اَلَا وَ اِنَّهٗ لَا یَنْفَعُکُمْ بَعْدَ تَضْیِیْعِ دِیْنِکُمْ شَیْءٌ حَافَظْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَمْرِ دُنْیَاکُمْ.

دیکھو! اگر تم نے دین کے اصول محفوظ رکھے تو پھر دنیا کی کسی چیز کو کھو دینا تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا اور دین کو ضائع و برباد کرنے کے بعد تمہیں دنیا کی کوئی ایسی چیز نفع نہ پہنچائے گی جسے تم نے محفوظ کر لیا ہو۔

اَخَذَ اللهُ بِقُلُوْبِنَا وَقُلُوْبِکُمْ اِلَی الْحَقِّ، وَاَلْهَمَنَا وَاِیَّاکُمُ الصَّبْرَ!.

خداوند عالم ہمارے اور تمہارے دلوں کو حق کی طرف متوجہ کرے اور ہمیں اور تمہیں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 March 23 ، 19:34
عون نقوی