بصیرت اخبار

ہفتہ وار دروسِ اخلاق حدیث عنوان بصری سے اقتباس

حوزہ علمیہ قم کے معروف استاد حجۃ الاسلام آقای عابدینی نے اپنے ہفتہ وار درس میں امام جعفر صادقؑ کی خود سازی کے موضوع پر مشہور و معروف حدیث ’’عنوان بصری‘‘ کی تشریح کرتے ہوۓ فرمایا:

انسان انسان کے وجود کی دو جہات ہیں، ایک جسمانی جہت اور ایک روحانی۔
جسم پر جتنی زیادہ توجہ دی جائے، روح اتنی ہی جسد (مردہ) بنتی جاۓ گی، اور اگر روح پر توجہ دی جاۓ، تو جسم بھی روحانی ہوتا جاتا ہے۔ أکل یعنی ’’زیادہ کھانا پینا‘‘ روح کے تجسد کا آغاز ہے۔ سب سے بری چیز جو روح کو مردہ بنا دیتی ہے وہ یہی کھانا پینا ہے۔ اگر کوئی شخص اچھا کھاتا پیتا ہے اور دیکھے کہ اس کا کھانا اس کے لیے بہت اہم ہے تو وہ ایک اچھا جانور ہے!

اس کا کوئی یہ غلط مطلب نہ نکال لے کہ انسان کو اپنے کھانے پینے پر توجہ ہی نہیں دینی چاہیے یا ہر غلط سلط کھانا کھانے لگے یا اچھا کھانا کبھی کھاۓ ہی نا۔ انسان کو اپنے کھانے پر توجہ دینی چاہیے، «فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ» لیکن یہ توجہ اس بات کا باعث نہیں بننی چاہیے کہ انسان کے بدن کے میلانات اور رجحانات اس کے روح کو مغلوب کر دیں۔ یعنی اس طرح سے نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ہر روز کا سب سے اہم ترین مسئلہ اس کا پیٹ ہے اور بعد میں بقیہ مسائل۔

شہید آوینیؒ(شہید ایک ڈاکیومنٹری ساز اور فلم ساز ہیں) نے ایک جگہ پر کہا ہے کہ میں نے دو لمحوں کو کبھی نہیں فلمایا۔ ایک شہادت کے لمحات کو کہ شہادت کی عظمت و عزت اس سے بلند تر ہے کہ اس کو فلمایا جاۓ۔ اور دوسرا کھانا کھانے کی فلم کہ انسان کی شأن نہیں کہ وہ کھانا بناتے وقت فلمایا جاۓ۔

انسان جسمانیۃ الحدوث اور روحانیۃ البقاء ہے

انسان کی ابتدا جسم سے ہے لیکن اس نے ہمیشہ جسم نہیں رہنا۔ اس کی اصالت یہ والا جسد نہیں جس نے قبر میں اتر جانا ہے بلکہ انسان کی اصل اس کی روح ہے جس نے بقاء حاصل کرنی ہے۔ انسان کی ابتدا جسم سے ہوتی ہے اور اگر جسم پر قابو پا لے تو روحانی نظام پر بھی غلبہ پا سکتا ہے لیکن اگر اس کا اپنا جسم بھی اس کے کنٹرول میں نہ رہا تو روح اس کے قابو سے باہر ہو جاۓ گی۔

اگر کوئی اس کے بارے میں محتاط نہیں ہے کہ کیا کھاتا ہے، کتنا کھاتا ہے اور کیسا کھاتا ہے، تو وہ اپنے روح کے نظامِ کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ لہٰذا، اگر سیر و سلوک کی منازل طے کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے جسم پر کنٹرول حاصل کرے تاکہ روح کی کمال کی طرف حرکت شروع ہو۔

جسم کی اپنی اہمیت ہے ایسا نیہں کہ انسان کا روح اہم ہے اور جسم اہمیت نہیں رکھتا۔ جی نیہں! ایسا نہیں بلکہ جسم ہماری تمام حرکات و سکنات کا مرکب (سواری) ہے، یعنی اگر جسم ہمیں سواری نہ دے تو ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اس سواری کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

اگر ہم پودے کو بہت زیادہ پانی دیں تو ایسا نہیں کہ وہ زیادہ ہرا بھرا ہوگا بلکہ وہ بہت زیادہ پانی سے مر جائے گا۔ نبی مکرمﷺ نے بھی فرمایا کہ انسان بھی ایسا ہی ہے۔ زیادہ کھانا پینا انسان کے دل مردہ کر دیتا ہے۔ اور اگر کسی کا دل مر جاۓ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس انسان کا اپنے جسم پر تو تسلط ہے لیکن روح پر نہیں۔

انَّ الانسان لیطغی أن رآه استغنی؛ زیادہ کھانا پینا صرف انسان کے دل کو ہی نہیں مارتا بلکہ انسان کو طاغوت بنا دیتا ہے۔ بھرا ہوا پیٹ اللہ تعالی کی انسان پر نگاہ رحمت پڑنے میں رکاوٹ بنتا ہے، اسے خدا کی نظروں سے گرا دیتا ہے اور اس کو صفات کمالیہ سے محروم کر دیتا ہے۔ جب پیٹ بھر جاتا ہے تو دل کی معرفت حاصل کرنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا انسان گمراہیوں کی طرف بڑھنے لگتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دل معرفت حاصل کرنے میں قوی اور ہمیشہ آمادہ ہو تو ہمیں چاہیے کہ کم کھائیں، پیٹ بھر کر نا کھائیں۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ استاد عابدینی۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی