بصیرت اخبار

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کو بلیک میل کرنا اور پاکستانی مقتدر اداروں کا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو بغیر کسی جرم کے زبردستی لاپتہ کرا دینا، کیا ان کاموں سے پاکستان ترقی کرے گا یا دباؤ کم ہوگا، اپنوں پر ظلم و ستم ڈھا کر کس کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے؟

رہبر معظم امام خامنہ ای فرماتے ہیں: 

یہ لوگ مطالبات پہ مطالبات رکھتے جائیں گے اور حریف کو مطالبات پورا کرنے پر مجبور کرتے جائیں گے جیسے ہى آپ ان کا ایک مطالبہ پورا کریں گے ایک اور مطالبہ سامنے آ جاۓ گا۔ مجھے لوگ کہتے ہیں کہ ایک چیز ہم ان کى مانتے ہیں اور ایک چیز ان سے منوائیں گے،ان لوگوں کى یہ بات تو صحیح ہے کہ ان کى ایک بات مان لیتے ہیں لیکن یہ کہ ان سے بھى ایک چیز منوالیتے ہیں یہ خام خیالى ہے ۔یہ آپ کى ایک بات بھى نہیں مانتے۔ فرض کیا کہ اسرائیل کو رسمى طور پر تسلیم کرلیں تو پھر بھى وہى مطالبات اور دھمکیاں سننے کو ملیں گى مثلا کہیں گے کہ آپ اپنے ملک میں فلاں اسلامى قانون کو لغو کردیں۔ اسى طرح سے آپ کو قدم با قدم اپنى سارى باتوں کو منوانے پر مجبور کردیں گے۔  ان کے مطالبات کى حد معین نہیں ہے اور نہ ہى کوئى ضمانت موجود ہے کہ اگر فلاں مطالبہ ان کا مان لیا جاۓ تو یہ مزید مطالبہ نہیں کریں گے۔ میں نے کئى بار اس موضوع کى طرف اشارہ کیا ہے اور بعض مسوؤلین حکومت سے پوچھا بھى ہے کہ آپ میں سے بعض لوگ جن کو لگتا ہے کہ ان کے بعض مطالبات کو مان کر ہم پابندیوں سے باہر نکل سکتے ہیں، ان مغربیوں کے مطالبات کى حد آخر کیا ہے ؟ بعض مطالبات کو مان لیا تو پھر اگلا مطالبہ !! اور پھر اس کے بعد اگلا اور اسى طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اگر آپ ایٹمى انرجى کے حصول میں ان کے مطالبات کو مان لیں اور اپنا ایٹمى انرجى کا پلانٹ بند کردیں پھر یہ کہیں گے کہ آپ کے پاس اتنے جدید میزائل کیوں ہیں؟ ان میزائل سسٹم کو بند کرو۔ جیسے ہى آپ ان کا میزائل سسٹم کے بند کرنے کا مطالبہ قبول کریں گےتو کہیں گے کہ آپ لوگ ہر جگہ مقاومت کیوں کرتے ہیں اور مقاومت کى تحریکوں کا ساتھ کیوں دیتے ہیں ؟ کیوں لبنان میں حزب  اللہ کا ساتھ دیتے ہو؟ کیوں فلسطین میں حماس کا ساتھ دیتے ہو؟ اگر ان کا یہ تقاضا بھى مان لیا جاۓ اور مظلومین جہان کى نصرت و امداد اور مقاومت سے ہاتھ کھڑا کر لیں تو حقوق بشر کا مسئلہ کھڑا  کردیں گے۔وہ حقوق بشر جو ان کے نزدیک حقوق بشر سمجھے جاتے ہیں نہ وہ حقوق کہ جو اسلام نے بتاۓ ہیں۔ کہیں گے کہ آپ کے ہاں عوام کو حقوق حاصل نہیں ان کو حقوق فراہم کرو اب ان کى حقوق بشر سے کیا مراد ہوتا ہے یہ سب آپ جانتے ہیں۔ بالفرض اگر حقوق بشر کا مطالبہ بھى مان لیں تو کہیں گے کہ تم لوگوں کے ملک میں دین کا دخل زیادہ ہے دین کو ہر ایک کى ذاتى زندگى کے لئے چھوڑ دیں وہ اگر عمل کرنا چاہتا ہے تو کرے لیکن اجتماعى طور پر اسلام و دین کا عمل دخل اپنے معاشروں سے ختم کرو۔

( قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے)

وَلَن تَرْضَىٰ عَنکَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ.
اور آپ سے یہود و نصارى اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔

 

حوالہ:
۱۔ سورة البقرہ ، آیت ۱۲۰۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی