بصیرت اخبار

{ دروس ولایت فقیہ:قسط۵۰ }

ولی فقیہ کی ولایت سے مراد

کتاب: ولایت فقیہ، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ ولی فقیہ کی ولایت سے مراد ولایت تکوینی یا ولایت بر تشریع نہیں۔ فقیہ کو وہ مقام و منزلت و فضیلت حاصل نہیں ہے جو امام معصوم کو حاصل ہوتی ہے۔ اور نا ہی فقیہ خود سے کوئی قانون وضع کر سکتا ہے۔ وہ صرف ولایت تشریعی رکھتا ہے۔ اس معنی میں کہ الہی قانون اور دین کے تابع رہ کر معاشرے کی سرپرستی کرے۔

ولایت بر محجوران وولایت بر خردمندان

مصنف نے ولایت تشریعی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ولایت تشریعی سے مراد ایک دفعہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے نادار اور محجور افراد کی ولایت ،فقیہ کو حاصل ہو۔ لیکن ایک دفعہ معاشرے کے خردمند (عقلاء)کی ولایت، فقیہ کو حاصل ہوتی ہے۔ ہماری مراد ولایت فقیہ میں ولایت بر خردمندان ہے۔ نادار لوگوں، مفلس، معذور اور سفیہ کی ولایت مراد نہیں ہے۔ مثلا باپ کی بیٹی پر ولایت، بچے کے بالغ ہونے تک اس کے ولی کی ولایت، مفلس کی ولایت حاکم پر، ولایت فقیہ میں یہ سب ولایتیں مراد نہیں ہیں۔ ولایت فقیہ سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے عقلمند عمومی افراد پر کلی طور پر سربراہی کرنے کا اختیار ولی فقیہ کو حاصل ہے۔ اس سربراہی کرنے کو ولایت فقیہ کہتے ہیں۔

ولایت محجوران کا قول اور اس کا رد

فقیہ کو ولایت حاصل ہے۔ اس ولایت کی حدود کیا ہیں؟بعض فقہاء نے اس کی حدود کو معین کیا ہے اور اس قول کو اختیار کیا ہے کہ صرف معاشرے کے نادار افراد پر فقیہ کو ولایت حاصل ہے۔ لیکن یہ حدبندی انہوں نے کس بنا پر کی ہے اس پر کوئی قانع کنندہ دلیل موجود نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے جس ولایت کو ذکر کیا ہے اور جس معنی میں امیرالمومنینؑ ولی ہیں اس ولایت میں تو ایسی کوئی حدبندی موجود نہیں۔ یعنی جب رسول اللہﷺ نے غدیر خم میں امیرالمومنینؑ کی ولایت کا اعلان کیا تو کیا اس سے مراد یہ تھی کہ علیؑ صرف اپاہجوں، معذوروں، مفلس اور سفہاء کے مولا ہونگے؟ عام معاشرہ بے شک اس پر کوئی اور سربراہ ہو جاۓ؟ یا جس ولایت کا رسول اللہﷺ نے اعلان فرمایا تھا وہ پوری اسلامی مملکت اور مسلمانوں کی سرپرستی کے معنی میں تھی؟ رسول اللہﷺ کا اپنے اصحاب سے یہ پوچھنا کہ کیا میں تمہارے نفوس پر تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں؟ اس بات پر قرینہ نہیں ہے کہ ایسے شخص کا تقرر کیا جا رہا ہے جو پورے معاشرے کا حاکم ہوگا؟ یا رسو ل اللہ ﷺ کیا محجوروں سے مخاطب تھے؟کیا اس خطبے سے کوئی ایسی بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ مولا سے مراد صرف ان لوگوں کا سرپرست بنانا ہے جو مججور طبقہ ہے؟ظاہر ہے وہاں پر ایسی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔

امام خمینی اور ولایت فقیہ

امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ جو ولایت رسول اللہﷺ اور امام کو حاصل ہے وہی ولایت، فقیہ کو بھی حاصل ہے۔ ولایت فقیہ در اصل رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی ولایت کا تسلسل ہے۔[1] واضح رہے کہ اس سے مراد ولایت تکوینی نہیں ہے۔ وہ مقام و منزلت مراد نہیں ہے جو امام کو حاصل ہے۔ بلکہ ولایت تشریعی مراد ہے۔ یعنی جس طرح سے رسول اللہﷺ اور امام ِ معصوم، قانون الہی اور دین الہی کے تابع رہ کر معاشرے کی سرپرستی کرتے ہیں اسی طرح سے فقیہ پر بھی ضروری ہے کہ دین اور شریعت کے  تابع رہتے ہوۓ معاشرے کے افراد کی سرپرستی کرے۔ جو آئمہ معصومینؑ کا بلند مقام اور ان کے فضائل یا ولایت تکوینی ہے تو وہ ان سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ اگر کوئی چھیننا بھی چاہے علیؑ سے اس کے فضائل نہیں چھین سکتا۔ جب امیرالمومنینؑ کی ولایت کا اعلان ہوا تو در اصل ان کے امت کے سرپرست اور امام ہونے کا اعلان ہوا، لیکن یہ ولایت ان سے چھین لی گئی اور امت نے اپنی سرپرستی کسی اور کو سونپ دی۔ غیبت کے زمانے میں معاشرے کی سرپرستی کرنا در اصل فقیہ کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح سے یہ ذمہ داری آئمہ معصومینؑ کے دور میں ان کی تھی آج یہی ذمہ داری ان کے نائبین پر عائد ہوتی ہے۔ 

صاحب جواہر اور ولایت فقیہ

جواہر الکلام کے مصنف آیت اللہ حسن نجفی المعروف صاحب جواهر ایک ایسی جامع شخصیت ہیں جن کا احترام تمام فقہاء کرتے ہیں۔ چاہے وہ ولایت فقیہ کے مخالف علماء و فقہاء ہوں یا چاہے موافق علماء۔ آپ تیرہویں صدی کے علماء میں سے ہیں۔ آپ کی شہرہ آفاق کتاب جواہر الکلام جو ۴۳ جلدوں بیروت سے چھپی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ولایت مطلقہ فقیہ کا قائل نہیں در اصل اس نے فقہ کا مزہ ہی نہیں چکھا ہے۔[2] کیونکہ اتنی مفصل فقہ جو ہم پڑھتے ہیں اگر اس کے احکام کو نافذ ہی نہیں کرنا تو پھر کیا فائدہ؟ پھر تو سارا دین تعطیل ہو جاۓ گا۔ جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، حدود الہی اور احکام الہیہ کو نافذ کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اگر یہ سب دین نافذ کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف کتابوں میں پڑھنے اور بحث کرنے کے لیے ہے تو پھر فائدہ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دین کو نافذ کرنے کی ذمہ داری زمانہ غیبت میں فقیہ پر ہے۔

کیا ہر مجتہد ولی فقیہ ہوتا ہے؟

اب بعض افراد نے یہاں پر اشتباہ کیا اور کہا کہ ہر مجتہد ہی ولی فقیہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ولی فقیہ سے مراد یہ لیا کہ ہر وہ شخص جو فتوی دے سکتا ہے وہ ولی فقیہ ہوتا ہے۔ حتی بعض افراد جو خود کو مجتہد کہتے ہیں انہوں نے بھی یہ اشتباہ کیا اور جب ان سے کہا گیا کہ تطبیر کے مسئلے میں ولی فقیہ نے حکم دیا ہے کہ اس کو ترک کیا جاۓ تو انہوں نے کہا کہ کونسا ولی فقیہ؟ میں بھی ولی فقیہ ہوں۔ میں تم لوگوں کو حکم دیتا ہوں کہ تطبیر کرو۔ یہاں پر انہوں نے اشتباہ کیا اور ولی فقیہ سے مراد انہوں نے مفتی یا مجتہد سمجھا۔ جبکہ ولایت فقیہ سے مراد فتوی دینے کی ولایت نہیں ہے، ہم اس جہت سے اصلا ولایت فقیہ کو بحث ہی نہیں کر رہے اور نا ہی فتوی دینے کی رو سے مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ مختلف مراجع کے مختلف فتاوی ہو سکتے ہیں۔ ہماری مراد ولایت فقیہ سے ولایت من باب الفتوی نہیں ہے بلکہ ولایت تشریعی مراد ہے۔ وہ ولایت جو معاشرے کی سرپرستی کرنے کے معنی میں ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ سرپرست اور مدیر ایک ہوتا ہے۔ ہمارے اسلامی مفکرین اس معنی میں ولایت فقیہ کو استعمال کرتے ہیں۔ شہید باقرالصدر، امام خمینی، رہبر معظم اور قدیم فقہاء میں صاحب جواہر کی عبارتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ فقیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے کی سربراہی کرے۔ اس پر واجب ہے کہ معاشرے کے امور کو سنبھالے اور ان کی اصلاح کرے۔ فقیہ کا کام صرف فتوی دینا اور قضاوت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا کام اسلامی حاکمیت قائم کرنا ہے جس سے حدود الہی اور شریعت کا نفاذ ہو سکے۔

ولایت فقیہ کا انکار

جیسا کہ بیان ہوا امام خمینیؒ ولایت فقیہ کو بدیہی ترین نظریات میں سے قرار دیتے ہیں۔ حکمران کی ضرورت واضح ہے۔ ایک معاشرے میں حکمران کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ وہ امور کو چلاۓ۔ قوانین کو نافذ کرے اور معاشرے کو ہرج مرج سے بچا کر انسانی معاشرے کی مدیریت کر سکے۔ مثال کے طور پر پاکستانی معاشرہ کو فرض کر لیتے ہیں۔ اب پاکستان میں حاکم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ شیعہ سنی، دیندار اور غیر دیندار سب ہی مانتے ہیں کہ حکمران کا ہونا ضروری ہے۔ اب سوال ہوگا کہ کس کو حکمران بنائیں؟ یہاں پر بہت تعجب سے کہنا پڑتا ہے کہ خود کو مومن کہنے والے بھی کہتے ہیں کہ حکمرانی کے لیے فقیہ کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر فاسق ترین شخص بھی ہو اس کی ولایت قبول ہے۔ اس کی سرپرستی اور امور کی دیکھ بھال کو ہم قبول کر لیتے ہیں لیکن فقیہ عادل کی ولایت قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ جس کو بھی آپ معاشرے کے امور کی سرپرستی، امور عامہ کی دیکھ بھال کا وظیفہ دے رہے ہیں در اصل آپ اس کو ولایت تشریعی دے رہے ہیں؟ یہاں پر ولایت تشریعی کا معنی ذہن میں ہونا چاہیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کی سرپرستی اور امور کی مدیریت جس شخص کے ہاتھ میں ہوگی وہ ولی ہوگا۔ اب یہ ولی دو حالتوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو یہ ولی عادل اور عالم ہو یا فاسق اور جاہل ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ معاشرے کی سرپرستی کا حق فقیہ عادل کو حاصل ہے۔ یہ حق اور کسی کو بھی حاصل نہیں۔ اگر کوئی اس منصب پر قبضہ کر لے یا عوام کی حمایت سے آ جاۓ وہ طاغوت ہوگا۔ فقیہ کی ولایت بھی ہمیں اس لیے قبول نہیں کہ ہماری مرضی ہے اس لیے ہم صرف فقیہ کی ولایت کو مانتے ہیں۔ فقیہ کی ولایت عقلی اور نقلی ادلہ سے ثابت ہے اس لیے اس کی سرپرستی کو قبول کرنا ضروری ہے۔

امور حسبیہ میں ولایت

امور حسبیہ سے مراد یتیموں، بیواؤں، دیوانوں اور معاشرے کے ایسے افراد جن کا کوئی وارث نہ ہو ان کی سرپرستی کرنا ہے۔ مجتہد کی ذمہ داری ہےکہ وہ ان امور کی سرپرستی کرے۔ مجہول المال کا مالک بھی مجتہد ہوگا، لاوارث بچے کا سرپرست مجتہد ہوگا۔ ان سب امور میں سرپرستی کرنا اور ولایت کرنا سب مراجع عظام کے نزدیک ثابت ہے۔ آیت اللہ خوئیؒ بھی امور حسبیہ میں فقیہ کی ولایت کے قائل ہیں۔ در اصل بحث یہ ہے کہ فقیہ پر معاشرے کی سرپرستی کرنا واجب ہے یا نہیں؟ یعنی کیا فقیہ پر واجب ہے کہ وہ ملک کو چلاۓ؟ عوام کے امور کی دیکھ بھال کرے، ان کے اجتماعی کاموں کی مدیریت کرے؟ کیا اس پر واجب ہے؟ یا صرف امور حسبیہ میں اس پر واجب ہے کہ معاشرے کے نادار افراد کی سرپرستی کرے؟ کیونکہ ہمارے سب فقہاء اس بات کے تو قائل ہیں کہ امور حسبیہ میں فقیہ ولایت رکھتا ہے، من باب فتوی بھی اس پر فتوی دینا واجب ہے، اگر دو مومنوں میں کوئی جھگڑا ہو جاۓ تو وہاں پر قضاوت کرنا بھی مجتہد پر واجب قرار دیتے ہیں، اگر کوئی ایسا مال مل جاۓ جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کی ولایت بھی فقیہ کے سپرد ہوتی ہے، لیکن معاشرے کی مدیریت کرنا بھی اس پر واجب ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک فقہاء کا گروہ کہتا ہے کہ صرف امور حسبیہ میں فقیہ کو ولایت کا حق حاصل ہے۔ لیکن دیگر فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی مدیریت کرنا، امور کو اپنے ہاتھوں میں لینا فقیہ کی ذمہ داری ہے۔ اور اسی ذمہ داری کو ولایت فقیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ولایت کا آغاز

ہم نے فصل کے آغاز میں بیان کیا تھا کہ بالذات صرف خداوند متعال ولی ہے۔ لیکن یہ ولایت اللہ تعالی نے اپنی طرف سے انبیاء الہی اور آئمہ معصومینؑ کو عطا کی۔ ہمارے نبی اکرمﷺ نبی بھی تھے اور ولی و امام بھی تھے۔ نبی اس جہت سے کہ وحی کے ذریعے شریعت امت تک پہنچانے والے تھے۔ اور امام اس جہت سے تھے کہ اس شریعت کو نافذ کرنے میں امامت رسول اللہﷺ نے کرنی ہے۔ اب جبکہ شریعت کامل ہو گئی اور نبی کی ضرورت ختم ہو گئی تو نبی نے امیرالمومنینؑ کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا۔ اگر مزید شریعت اترنا ہوتی تو نبی کا اعلان کیا جاتا۔ جس طرح سے روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ علیؑ ہوتے۔[3][4][5][6] نبوت ختم ہو گئی لیکن معاشروں کے اوپر سرپرستی کرنا اور امور کی اصلاح کی ضرورت ابھی بھی باقی تھی اور آج بھی ہے۔ اس لیے ولایت و امامت کا اعلان ہوا۔ اسلامی معاشرے کو الہی قوانین کے مطابق چلایا جاۓ۔ رسول اللہﷺ نے غدیر خم میں اعلان فرمایا۔ معاشرے کے امام، رہبر، خلیفہ کا تعین فرمایا۔ اور یہ حدیث اہلسنت کے ہاں بھی تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی حدیث ہے۔ لیکن یہ کونسی ولایت تھی؟ امیرالمومنینؑ کی ولایت تکوینی کا اعلان ہوا؟ کیا یہ بیان ہوا تھا کہ علیؑ کے بہت فضائل ہیں اور کائنات کے امور میں یہ تصرف کرنے کا معجزہ رکھتے ہیں؟ کیا ان کے بلند و بالا مقام و فضائل کا اعلان کیا تھا رسول اللہﷺ نے؟ جی نہیں! کیونکہ امام علیؑ کی ولایت تکوینی کے قائل تو اہلسنت بھی ہیں۔ اہل تصوف سنی حتی اس بات کے بھی قائل ہیں کہ امام علیؑ معنوی کمالات میں خلفاء سے افضل تھے۔ لیکن غدیر میں امام علیؑ کی افضلیت کا تو اعلان نہیں ہوا بلکہ ان کی سرپرستی اور حاکمیت کا اعلان ہوا۔ ورنہ امام علیؑ کے عالم، فاضل، شجاع، اور اعلی معنوی کمالات کے قائل تو خلیفہ اول اور خلیفہ دوم بھی ہیں۔ وہ دونوں قائل تھے کہ ہم سب سے زیادہ دین کا علم رکھنے والے، قضاوت میں مشکل ترین فیصلے کرنے والے اور شجاع علیؑ ہیں۔ وہ بھی ولایت تکوینی کے قائل تھے ایک حد تک، لیکن جس ولایت کو قبول نہ کیا وہ ولایت تشریعی تھی۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ میں مولا سے مراد امیرالمومنینؑ کی ولایت تشریعی ہے۔ امت کو چاہیے کہ علیؑ کو اپنا سرپرست اور امام مانیں، نا کہ ان کی معنوی فضیلتوں کے قائل ہو جائیں۔ معنوی فضیلتوں کے بھی قائل ہوں، وہ بھی بہت ضروری ہیں، اور وہ آپ مانیں یا نا مانیں اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ فضیلتیں آپ ان سے چھین نہیں سکتے۔ لیکن جس ولایت کا اقرار کریں وہ ان کی ولایت تشریعی ہے۔دنیوی حکمران کے طورپر علیؑ کو اپنا حاکم و سربراہ ماننا ضروری ہے۔

ولایت کا معنی اور شیعہ تفکر

ولایت بمعنی سرپرستی، اس کو آج شیعہ بھی قبول کرنے پہ آمادہ نہیں ہے۔ وہ بھی کہتا ہے کہ ولایت امیرالمومنینؑ سے مراد ان کے فضائل ہیں۔ لیکن یہ بات رد ہے۔اس معنی کے تو پھر اہلسنت بھی قائل ہوۓ۔ آخر شیعہ سنی کا جھگڑا کیا ہے پھر؟ مولا کا جو معنی آپ شعیہ کر رہے ہو اس کو تو مولانا طارق جمیل صاحب نے بھی قبول کیا ہے۔ اور تاکید کی ہے کہ امیرالمومنینؑ کو مولا کہہ کر ہمیں پکارنا چاہیے۔ لیکن اس پر بھی بعض ناصبی حضرات ان پر بھڑک اٹھے۔ ویسے یہ ناصبی حضرات ہر چیز میں ظاہر پر عمل کرنے کا حکم لگاتے ہیں لیکن دو مقام پر یہ بھی ظاہر پر عمل نہیں کرتے بلکہ تاویل کرتے ہیں۔ ایک تو عدالت صحابہ کی تاویل کرتے ہیں اور ان کے ہر ظاہری جرم اور فعل حرام کی تاویل کر کے ان کو ہر صورت میں عادل ہی ٹھہراتے ہیں۔ اور دوسرا ااہل بیتؑ کے فضائل میں بھی تاویل کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حدیث ٹھیک ہے لیکن یہ تو فضیلت ہے اور اس کو امامت اور اعتقادات کے باب میں نہیں لے جانا چاہیے۔ اہل بیتؑ کو اگر کوئی فضیلت حاصل  ہے تو اسے صرف فضائل کے باب میں رکھا جاۓ اسے اعتقادی ابحاث کا موضوع نہ بنایا جاۓ۔ ان دو مقام پر اپنا ہی معیار توڑ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مولا کا معنی دوست اور ان سے محبت کرناہے۔ مولا کا معنی اولی بالتصرف نہیں ہے۔ حاکمیت امیرالمومنینؑ مراد نہیں ہے۔ اب یہیں سے شیعہ میں بھی یہ شبہہ ایجاد ہوا کہ غدیر میں امیرالمومنینؑ کی ولایت تکوینی کا ذکر ہوا۔ اہل بیتؑ کی فضیلت اور ان کے بلند مقام و مرتبے کا اعلان ہوا۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ، یعنی علیؑ کے فضائل۔ اگر یہاں پر ولایت تکوینی بیان ہوئی تھی تو پھر کیا ٹکراؤ ہوا ہمارا اہلسنت سے؟ ولایت تکوینی کے تو اہلسنت بھی قائل ہیں حتی ان کے بزرگان بھی قائل ہیں۔ ہم بھی اسی معنی میں مولا کو مولا مان رہے ہیں جس معنی میں سنی مولا مان رہا ہے۔ پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ غدیر میں امیرالمومنینؑ کی ولایت تشریعی کا اعلان ہوا۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل ہے کہ امیرالمومنینؑ اللہ تعالی کی جانب سے یہ حق ولایت رکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بعد اسلامی معاشرے کے سربراہ، لیڈر، رہنما، سرپرست ہونگے۔ آج کی سادہ زبان میں کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ غدیر میں امیرالمومنینؑ کی حکمرانی کا اعلان ہوا۔ اسی بات پر سنی شیعہ کا اختلاف ہوا۔ سنی اس بات کے قائل ہیں کہ غدیر میں حکمران مقرر نہیں ہوا، اس لیے ہم خود حکمران بنا سکتے ہیں اور حضرت ابوبکر کو پہلا خلیفہ مانتے ہیں۔ لیکن شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ غدیر میں امیرالمومنینؑ کو بطور حکمران معین کیا گیا اس لیے پہلے خلیفہ، امام برحق، علیؑ ہیں۔

اعلان ولایت اور امت مسلمہ کی ذمہ داری

رسول اللہﷺ نے غدیر خم میں یہ حکم دیا کہ امیرالمومنینؑ کی ولایت کے اعلان کو شاہدین غائبین تک پہنچا دیں۔ یہ ذمہ داری آج بھی موجود ہے۔ لیکن کونسی چیز کو پہنچا دیں؟ امیرالمومنینؑ کی ولایت تکوینی اور ان کے فضائل کو پھیلا دیں اور ان کی تبلیغ کریں؟ جی نہیں! بلکہ حکومت اسلامی، حاکم اسلامی، اسلامی ریاست پر مدیریت کرنے کے نظریات کو امت تک پہنچا دیں۔ امیرالمومنینؑ کے فضائل اور ان کی ولایت تکوینی ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ضروری وہ امر ہے جو ان سے چھین لیا گیا اور امت آج تک اس حق کو حقدار تک نہیں پہنچا سکی۔ رسول اللہﷺ کو بھی یہی خوف لاحق تھا کہ میں اعلان ولایت تشریعی اور علیؑ کی حکمرانی کا کروں گا اور یہ لوگ فضائل اور دوستی کا معنی سمجھ کر چلے جائیں گے۔ اور رسول اللہﷺ کا خوف سچا تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ لوگوں نے رسول اللہﷺ کو جھٹلا دیا اور ان کے اس اعلان کی تاویل کی۔ دشمن کو خوف امیرالمومنینؑ کے بلند مقام اور ولایت تکوینی کا نہیں تھا۔ ان کو یہ خوف نہ تھا کہ علیؑ کے فضائل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ ان کو خوف یہ تھا کہ کہیں حکومت اور ریاست علیؑ کے ہاتھ نہ لگ جاۓ۔ ان کو پریشانی یہ تھی کہ حکومت اسلامی اور حاکم اسلامی علیؑ نہ بن جائیں۔ آج بھی آپ کو یہی خطرہ ہر جگہ دکھائی دے گا۔ آپ علیؑ کی تکوینی ولایت بیان کریں، جب تک کسی کے مقدسات کی توہین نہ کریں کسی کو کوئی غرض نہیں، لیکن جیسے ہی آپ ولایت تشریعی، حکومت اسلامی اور حاکم اسلامی کی بات کرتے ہیں دشمن آپ کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔ آج ایران میں بھی یہی ہوا، اصل دشمنی ایران کے ساتھ نہیں ہے بلکہ حاکم اسلامی کے ساتھ دشمنی ہے۔ دشمن کو فقیہ کے فتوی سے یا اس کے قضاوت کرنے سے تو کوئی مشکل نہیں ہے اس کو مشکل یہ ہے کہ کہیں فقیہ ولایت ہاتھ میں نہ لے لے۔ فقیہ معاشرے کی سرپرستی ہاتھ میں نہ لے لے۔ ورنہ فقیہ بہت ہیں، اس دور میں بھی اور گزشتہ ادوار میں بھی سینکڑوں فقہاء گزرے ہیں، انہوں نے فتاوی دیے ہیں، لیکن جب بات آتی ہے دین الہی کو نافذ کرنے کی اور معاشروں کی اسلامی نہج پر مدیریت و سرپرستی کرنے کی تو وہاں دشمن دشمنی پر اتر آتا ہے۔ فقیہ کی ولایت کے خلاف نا صرف دشمن بلکہ اپنے بھی انہیں کی صف میں آ کھڑے ہوۓ اور دشمنی کرنے لگے۔

حضرت فاطمہ زہراؑ کے ساتھ دشمنی

سیدۃ النساء بی بیؑ کے فضائل بیان ہوتے، رسول اللہﷺ ان کا احترام بجا لایا کرتے، لیکن کسی نے بھی دشمنی نہیں کی۔ پورا معاشرہ ان کی عزت کرتا تھا۔ لیکن اسی بی بی نے علیؑ کی ولایت کی بات کی تو پورا معاشرہ دشمن ہو کر ان کے گھر پر ٹوٹ پڑا۔ جب تک بی بیؑ کے اپنے فضائل اور علیؑ کے فضائل اور ان کی ولایت تکوینی پر بات ہوتی سب ہی ان کو قبول کرتے، مسئلہ تب کھڑا ہوا جب بی بیؑ نے فرمایا کہ علیؑ کو ولایت حاصل ہے۔ کس معنی میں ولایت؟ کیا بی بیؑ وہاں پر یہ بات ثابت کرنا چاہ رہی تھی کہ تم سب سے افضل میرے شوہر ہیں؟ یہ بات تو وہ سب مانتے تھے۔ بی بیؑ کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ جو منصب و عہدہ ہے جس پر تم قابض ہوۓ ہو، در اصل یہ منصب علیؑ کا حق ہے۔ ولایت تشریعی کا جب دفاع کیا تو ان کو شہید کر دیا گیا۔ شہادت کا سبب علیؑ کی ولایت کا دفاع کرنا تھا۔ اسی طرح سے بقیہ آئمہ معصومینؑ کی ولایت اور ان کی شہادتیں ہیں۔ علی اصغرؑ کمسنی میں کیوں شہید ہوۓ؟ تعلق کی وجہ سے؟ کس کے ساتھ تعلق؟ امام حسینؑ کی ولایت کے لیے نکلے، اپنی کمسنی میں امام کی ولایت کی گواہی دی اور ان کی امامت کو ثابت کرنا چاہا، دشمن نے ان کو قتل کر دیا۔

شیعہ سے دشمنی کا معیار

اگر آج بھی کوئی شخص یہ کام کرے اور اہل بیتؑ کی ولایت بیان کرے۔ ان کے انسانی معاشروں پر سرپرست ہونے اور ان کی ولایت تشریعی کی بات کرے اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ آپ ہزار بار اہل بیتؑ کے فضائل بیان کریں، بلکہ لاکھوں مجالس اور ماتم کے جلوس نکالیں خود یہ سیکولر حکومتیں آپ کو اجازت دیں گی بلکہ سبیل بھی پلائیں گی۔ لیکن اگر آپ نے اہل بیتؑ کی حاکمیت اور اسلامی حکومت کی بات کو تو آپ کو کچل کر رکھ دیا جاۓ گا۔ آج آل سعود کی حکومت میں آپ عزاداری کر سکتے ہیں، اسے ایسے عزادار سے کوئی مشکل نہیں ہے جو صرف امام حسینؑ کا غم مناتا ہے لیکن امام حسینؑ کے اسلامی حکومت کے قیام کے ہدف سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ لیکن اگر کوئی شیعہ یا عزادار امام حسینؑ کے اہداف کو اپنا ہدف بناتا ہے اور یزید وقت اور طاغوت کی ولایت سے نکل کر فقیہ کی ولایت میں آنے کی بات کرتا ہے تو شہید نمر باقر النمر کی طرح اسے شہید کر دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں شیعہ جلوس اور مظاہرے کرتے ہیں لیکن دشمن صرف شیخ زکزاکی کو ہی نشانہ بناتا ہے۔ ان کے چھ بیٹوں کو شہید کرتا ہے؟ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ریلی نکالی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو نجف اور قم میں بیٹھے بعض افراد کو سمجھ نہیں آتا۔ ان کو امریکی اور اسرائیلی غلاموں کی حکمرانی اور ان کی ولایت تو قبول ہے لیکن فقیہ کی ولایت پر طرح طرح کے شبہات اٹھاتے ہیں۔ آپ کو نیابتِ امام میں فقیہ کی ولایت قبول نہیں ہے لیکن صدام کی ولایت قبول ہے، عمران خان، نواز شریف اور زرداری کی ولایت قبول ہے۔ اور جب ان طاغوتوں کے خلاف قیام کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ خود امام آ کر ٹھیک کریں گے تب تک کیا کرنا ہے؟ جب تک ظہور نہیں ہوجاتا تب تک انہیں فاسق حکمرانوں کے آگے جھک جائیں؟

من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا معنی

اس حدیث میں اہلسنت مولا کے معنی میں صرف حاکمیت کے پہلو کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر یہاں پر مولا کا کوئی اور معنی کریں تو وہ آپ شیعہ سے بھی زیادہ بھنگڑا ڈالیں گے اور خوش ہونگے۔ صرف مولا بمعنی حاکم ان کو قبول نہیں۔ کیونکہ اگر اس معنی کو قبول کر لیں تو حضرت ابوبکر کی حاکمیت کا کیا کریں گے؟ پھر پہلے تین خلفاء کو باطل ماننا پڑے گا۔ اب جس معنی میں سنی ولایت کو قبول نہیں کر رہا اسی معنی میں نجف اور قم کے بعض علماء بھی نہیں مان رہے۔ فقیہ کی ولایت کو محدود کر دینا چاہ رہے ہیں۔ اور جب ان سے پوچھا جاۓ کہ اگر آپ کو ولایت فقیہ قبول نہیں ہے تو پھر کوئی آپ ہی صورت لے آئیں جو ولایت فقیہ سے بہتر ہو؟ اور کونسا ایسا حکومتی تصور ہے جو اس نظریے سے بہتر ہے۔ کونسا اور ایسا نظام ہے جو نظام امامت سے نزدیک ترین ہے اور آئمہ معصومینؑ سے قریب تر ہے؟ اس سے بہتر کوئی اور راہ حل یا نظریہ ہے تو پیش کریں۔ صاحب جواہر کے بقول اگر فقیہ کی ولایت کے قائل نہ ہوں تو گویا ہم نے فقہ کو سمجھا ہی نہیں۔ یہ تو عقلی مسئلہ ہے۔ انسانی معاشروں پر اس کے بہت شدید اثرات ہیں۔ فقہ صرف انفرادی امور سے تو تعلق نہیں رکھتی بلکہ بہت سے ابواب اجتماعی پہلو رکھتے ہیں جیسا کہ حدود کا باب ہے، امر و نہی، جہاد، صدقات زکات کے ابواب ہیں۔ پھر یہ سب ابواب کس لیے بیان کیے گئے ہیں؟ صرف ان کو توضیح المسائل میں لکھ دینا ہے بس! اگر ایسا ہے تو پھر آدھے سے زیادہ دین معطل ہو جاۓ گا۔ احکام دین اور شریعت انسانی زندگی کو چلانے اور ان کی درست راہ میں ہدایت کے لیے آۓ تھے اور ہم نے ان کو صرف پڑھنے پڑھانے تک محدود کر دیا۔ پھر تو فقہ کے تیس ابواب ایسے ہیں جن پر ہم عمل کر ہی نہیں سکتے۔ صرف چند ابواب میں دین پر عمل کر سکیں گے مثلا حج کا باب ہے جس کے لیے بہت قلیل افراد ہی جاتے ہیں۔ نماز و روزہ کا باب ہے، اور خمس و زکات بھی بہت کم لوگ دیتے ہیں۔ پھر بقیہ ۲۵ سے ۳۰ ابواب کا کیا ہوگا؟ یہ دین صرف بحث مباحثے کے لیے اترا؟ تو پھر یہ دعا جو ہم پڑھتے ہیں کہ اے خدایا مجھے غیر نافع علم سے بچا، اس کا کیا ہوگا؟ ایسا علم جو نافذ ہی نہیں ہو سکتا، اس علم کو پڑھ کر اور اس کا مجتہد بن کر کیا فائدہ؟ دین اس لیے تو نہیں آیا کہ ہم اس کو صرف پڑھیں اور نافذ نہ کریں۔[7]

منابع:

 

↑1 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑2 نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۱، ص۳۹۷۔
↑3 بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۵، ص۱۹۔
↑4 مسلم، ابن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص۱۸۷۰۔
↑5 ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج۵، ص۶۴۰۔
↑6 احمد بن حنبل، مسند احمد، ج۱۷، ص۳۷۳۔
↑7 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۵تا۱۲۹۔
موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/08/13
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی