بصیرت اخبار

{دروس ولایت فقیہ:قسط۵۱}

ولی فقیہ کون؟ اور اس کی ذمہ داری

کتاب: ولایت فقیہ، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ ولایت فقیہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ فقیہ کو ولایت تکوینی حاصل ہے۔ ولایت فقیہ میں فقیہ صرف دین الہی کے مقررات کا محافظ ہوتا ہے اور جس طرح سے شریعت میں وارد ہوا ہے اس کو نافذ کر کے معاشرے کی مدیریت کرتا ہے۔

ولایت فقیہ کے متعلق شبہات

یہ شبہہ حتی دیندار افراد میں پایا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ولی فقیہ کا بھی وہی مقام و مرتبہ ہے جو امام معصوم کو حاصل ہے۔ یہ شبہہ ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے جو عوام میں پھیلایا گیا ہے۔ فقیہ کو ولایت تکوینی حاصل نہیں ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جو بات عوام کے ذہنوں میں پہلے ڈال دی جاتی ہے اسے وہ مان لیتے ہیں۔ چونکہ شدید قسم کا پروپیگنڈہ ہر دور میں ولایت کے خلاف ہوتا رہا ہے۔ ولایت فقیہ کے خلاف پروپیگنڈہ مشینری نے یہ بات عوام میں رائج کر دی کہ ولایت فقیہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی ولی فقیہ ہوتا ہے وہ امام معصوم کی مانند ہوتا ہے۔ اور بعض جملات کو پکڑ کر شدید منفی باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ مثلا امام خمینیؒ کا یہ قول نقل کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ولایت فقیہ در اصل ولایت آئمہ معصومینؑ کا تسلسل ہے۔ تو اس قول کی بھی تشریح ہوئی، خود امام نے بھی فرمایا کہ اس سے مراد ولایت تکوینی نہیں ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو مقام و منزلت و عظیم معنوی مقام و فضائل امام معصوم کو حاصل ہوتے ہیں وہی سب فقیہ کے لیے بھی قرار دے دیے جائیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ولایت فقیہ کا درست معنی معاشرے میں تبلیغ کیا جاۓ۔ سالوں سے بنے ہوۓ ذہن آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ بہت ٹائم لگتا ہے کہ ایک قوم اجتماعی طور پر ایک بات قبول کر لے۔حتی بعض طلاب بھی یہی بات کرتے ہیں کہ ولی فقیہ کو امام کی مانند بنا دیا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا جاۓ کہ کس ولایت فقیہ کی کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے اساتید سے سنا ہے۔ خود کسی کتاب کو مطالعہ نہیں کرتے۔

ولی فقیہ کی ولایت

ہم کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد یہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ زمانہ غیبت میں معاشروں کو شریعت الہی اور قانون الہی  کے مطابق چلانا ولایت فقیہ کہلاتا ہے۔ اب جب آپ نے پورے ملک کی مدیریت کسی کو دینی ہے تو خواہ نخواہ آپ کو اختیارات بھی اتنے ہی دینے ہونگے جتنا اس کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ پورے معاشرے کا مدیر بنائیں اور اس کے اختیارات ایک چوکیدار جتنے ہوں۔ اگر اس کو اختیارات ہی نہیں دینے تو پھر کیسی معاشرے کی مدیریت؟ اگر فقیہ کو اختیارات ہی نہیں دینے تو پھر دین کو وہ کیسے قائم کرے؟ پھر اس سے یہ توقع بھی نہ رکھیں کہ ملک کی مدیریت کر سکے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کو امام بنا دیں لیکن اختیارات اتنے ضرور دیں جس سے معاشرےکی  مدیریت ہو سکے۔ اختیارات دے دینے سے کوئی امام تو نہیں بن جاتا۔ یہی اختیارات آپ دنیوی طاغوتی حکمرانوں کو دیتے ہیں اور وہ اپنی ہی حدود سے نکل جاتا ہے لیکن اس کو کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اگر فقیہ عدالت، اور دین کے دائرے میں معاشرے کی مدیریت کرتا ہے اس کی ولایت قبول نہیں۔ اگر حکومتی امور میں کوئی امام سے قریب تر ہے اور شبیہ ہے دوسرے سب سے زیادہ تو اس میں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے نا کہ روڑے اٹکانے چاہیں۔ اگر کسی حکومت میں امام معصومؑ کی حکومت کی جھلک نظر آتی ہے، اسلامی قوانین کا نفاذ نظر آتا ہے تو اس سے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔ لیکن ابھی الٹ ہے، حکومت جتنی فاسق اور فاجر تر ہو، عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا۔لیکن ولی فقیہ  کی حکومت، نیابت امام زمانؑ میں قائم ہونے والی عادل فقیہ کی حکومت قبول نہیں۔

ولی فقیہ اور قانون گذاری

دنیا کا کوئی ایسا نظام حکومت موجود نہیں ہے جو خود قانون گذاری نہ کرتا ہو۔ نظام ولایت فقیہ وہ واحد نظام ہے جس میں قانون گذاری نہیں ہے۔ ولی فقیہ قانون گذار نہیں ہوتا۔ قانون بنانے کا اختیار ولی فقیہ کو حاصل نہیں ہے۔ یہ مطلب پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ولایت بر تشریع یا قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ حتی ہمارے بعض شیعہ فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ قانون بنانے کا حق رسول اور امام کو بھی نہیں ہے۔ وہ بھی قانون لے کر صرف پہنچا دیتے ہیں اور اس کو نافذ کر دیتے ہیں۔ ولی فقیہ بھی اپنی مرضی سے یا ہوا و ہوس کی بنا پر اپنے مفادات کے مدنظر کوئی قانون نہیں بنا سکتا۔ ولی فقیہ صرف قانون اور شریعت کو لے کر اس کو نافذ کر دیتا ہے۔ با الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ولایت فقیہ در اصل قانونی ترین حکومت ہے۔ اس کے پاس پہلے بنا ہوا قانون موجود ہے اس نے صرف نفاذ کرنا ہے۔ اس کا کام صرف قانون الہی کو نافذ کرنا اور اس کے مطابق معاشرے کو چلانا ہے۔ ہمارے پاس ادارے ہیں، ان سب کے لیے قوانین موجود ہیں، اگر ان اداروں پر یہ قوانین الہی نافذ نہ ہوں تو یہ ادارے اور عوام ہرج و مرج کا شکار ہو جاتے ہیں، معاشرے کو اندرونی خلفشار، امنیتی مسائل، دشمنوں کے حملات، اور اجتماعی امور کی دیکھ بھال کے لیے مدیر کی ضرورت ہے۔ اس مدیر کا نام ولی فقیہ ہے۔ لیکن یہ مدیر ہر شخص نہیں بن سکتا۔ اس کی شرائط ہیں۔ الہی قانون کو ولی فقیہ کیسے نافذ کرے اور کیسے مدیریت کرے یہ ولایت فقیہ سے مربوط ہے۔ ولایت فقیہ کا دائرہ اختیار پورا معاشرہ ہے۔ فقہی تناظر میں بہت سی ولایتیں بیان ہوئی ہیں۔ مثلا میت کو دفنانے کے احکام میں ولی کی اجازت، قصاص کے باب میں ولی الدم کا عنوان، نکاح کے باب میں لڑکی کے ولی کی اجازت، مفلس، دیوانے اور سفیہ کے امور کی دیکھ بھال ان سب امور کو ولایت سے عنوان کیا گیا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ سے مراد یہ سب ولایتیں نہیں ہیں، با الفاظ دیگر ولایت فقیہ جدا ہے اور ولایت بر محجوران جدا امر ہے۔

(ممکن ہے یہاں پر کوئی اعتراض کرے کہ اگر ولایت فقیہ کے نظام میں قانون ساز ادارہ قوہ مقننہ موجود ہے پھر اس کو کیوں بنایا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ادارے کے اوپر ایک ناظر ادارہ موجود ہے جس کا کام اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ کوئی قانون اسلامی کلی قوانین سے ٹھکراتا تو نہیں ہے؟ کیونکہ اسلام بھی ہمیں کلی قوانین دیتا ہے ، جزئی جدید مسائل میں قوانین ہمیں خود بنانا پڑتے ہیں، لیکن ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتے جو اسلام کے کلی قوانین سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا نظام اسلام کے کلی قوانین کے تابع ہے۔)

ولایت فقیہ اور ولایت بر محجوران میں فرق

یہ مطلب گزشتہ قسط میں بھی بیان ہوا کہ ولایت فقیہ سے مراد ولایت بر محجوران نہیں ہے۔ ولایت بر محجوران یہ ہے کہ معاشرے کے نادارافراد  کی ولایت، فقیہ کے ذمہ ہے۔ ولایت بر محجوران کے موضوع پر کسی بھی فقیہ نے اختلاف نہیں کیا اور سب فقہاء تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ مجوروں کی ولایت اور ان کی سرپرستی کرنا فقیہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن امت اسلامی کی عمومی سرپرستی کرنا، ان کے اجتماعی اور سیاسی امور کی باگ ڈور سنبھالنا فقیہ پر واجب ہے یا نہیں در اصل اس مطلب میں اختلاف ہے۔ مثلا ایک ملک کی حکمرانی کس کے ہاتھ میں ہو۔ ملک کے حکمران کو ولی فقیہ کہتے ہیں لیکن ولی فقیہ ملک کو قانون الہی کے تابع رہتے ہوۓ چلاتا ہے۔ در اصل ان دونوں ولایتوں میں فرق یہ ہے کہ ناداروں کی ولایت میں فقیہ بعض اوقات واسطے اور کبھی بغیر واسطے کے ان کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس لیے اس ولایت میں لوگ موردِ کار ہوتے ہیں۔ موردِ کار میں ولی کام کرتا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ میں فقیہ اسلامی اقدار اور اس کے اجراء کے لیے لوگوں کو حرکت اور قیام کی دعوت دیتا ہے۔ ہر دونوں ولایتوں میں کام ہو رہا ہے، لیکن ولایت بر محجوران میں فقیہ کام کو انجام دیتا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ میں ولی فقیہ لوگوں کے انفرادی امور کی جا کر دیکھ بھال نہیں کرتا بلکہ وہ مصدرِ کار ہوتا ہے۔ موردِ کار اور مصدر کار میں فرق یہ ہے کہ اگر ولایت بر محجوران کی ولایت کو لے لیں اور ایک فقیہ کسی نادار کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے تو خود جا کر یا کسی واسطے سے اس کی ذمہ داری لیتا ہے۔ لیکن ولایت فقیہ میں جہاں فقیہ مصدرِ کار ہوتا ہے وہاں فقیہ جا کر معاشرے کے کام نہیں کرتا، بلکہ معاشرے کے سب کاموں کا مصدر اس کی ذات ہوتی ہے۔ ولایت بر محجوران میں ان کا ولی اس لیے خود جا کر کام کرتا ہے کیونکہ محجور طبقہ خود کام نہیں کر سکتا مثلا اپاہج ہے، یا دیوانہ ہے۔ اس سبب کی وجہ سے فقیہ اس کی ولایت سنبھالتا ہے اور اس کے امور کی خود دیکھ بھال کرتا ہے۔ لیکن ولی فقیہ ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ امت مردہ نہیں ہے، امت مفلس نہیں ہے، امت اپاہج یا دیوانی نہیں ہوئی کہ ان کی جگہ پر جا کر امور کی دیکھ بھال کرے۔ ولی فقیہ سالم افراد کی ولایت کرتا ہے۔

ولایت فقیہ کے معنی میں اشتباہ

اب تک جو مطالب ذکر ہوۓ ولایت فقیہ کا معنی روشن ہو جانا چاہیے۔ اب ہمیں اشتباہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہر مجتہد ولی فقیہ ہوتا ہے یا نہیں؟ ہر مجتہد جو فتوی دینے کی ولایت رکھتا ہے من باب فتوی ولی ہے۔ لیکن وہ ولی فقیہ نہیں ہے۔ امت کے اجتماعی امور کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ امت کا مدیر صرف ایک شخص ہو سکتا ہے۔ لیکن اسی حال میں ممکن ہے کہ امت کے اندر چند افراد فتوی دینے کی ولایت رکھتے ہوں۔ فتوی دے سکتے ہیں لیکن اجتماعی امور میں نظر نہیں دے سکتے۔ با الفاظ دیگر فتوی دینے والے کو ولی فقیہ نہیں کہتے، الہی حاکم کو ولی فقیہ کہتے ہیں۔ بعض علماء نے یہاں پر اشتباہ کیا اور من باب فتوی سب فتوی دینے والے فقہاء کو ولی فقیہ کہہ دیا۔ جبکہ ولایت فقیہ سے مراد فتوی دینے کی ولایت مراد نہیں ہے بلکہ معاشرے کی سرپرستی کرنا مراد ہے۔ معاشرے کے لوگ اپنے کام کاج خود کریں گے، فقیہ ان کی جگہ پر جا کر تجارت نہیں کرتا بلکہ ان سب کاموں کا منبع اور مصدر ولی فقیہ کی ذات ہوتی ہے۔ اس کا کام یہ نہیں ہوتا کہ گھروں میں جا کر مسائل حل کرے، لوگوں کے درمیان قضاوت کرے، فتوی دے، یا ان کے انفرادی ذاتی کاموں میں مداخلت کرے۔ معاشرے کے حاکم کا کام یہ نہیں ہوتا وہ صرف عوام الناس کو دعوت دیتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، دستور امر و نہی کرتا ہے اور اسلامی تفکر کی اساس پر دعوت دیتا ہے۔ اس کے برعکس ولی بر محجوران لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کے مسائل حل کرتا ہے، ان کا راشن پورا کرتا ہے یا ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

دعوت۔ ولی فقیہ کی ذمہ داری

ولی فقیہ کا کام دعوت دینا ہے۔ قیام، اور حرکت کی دعوت۔ عوام آئیں اور اسلام کی سربلندی کی خاطر قیام کریں اور اس کی طرف حرکت کریں۔ ولی فقیہ کے مصدرِ کار ہونے کا یہی مطلب ہے۔ تمام انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف بھی یہی تھا کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو نافذ کریں، ظلم و ستم کا خاتمہ کریں اور عدالت کا نظام برقرار کریں۔ لیکن یہ کام صرف نبی نہیں کر سکتا، یہ کام صرف ولی فقیہ اکیلا نہیں کر سکتا۔ پورا معاشرہ اس امر میں شریک ہو، قیام کرے اور حرکت کرے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ».

ترجمہ:  بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔[1]

تمام رسولوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ عدل و قسط کو معاشرے میں قائم کریں۔ عدل وہ عام ترین چیز ہے جس کی بہت اہمیت ہے۔ ولایت فقیہ میں فقیہ میں ایک شرط اس کا عادل ہونا ہے۔ ظاہر ہے جب خود ولی عادل ہو تب ہی عدالت کی طرف دعوت دے سکتا ہے۔ ولی فقیہ کا کام دعوت ہے۔ امت کو ابھارنا ہے۔ جبری طور پر امت سے کام نہیں کروا سکتا۔

ولی فقیہ اور دین کا زبردستی قیام

ایک شبہہ یہ بھی عوام میں پھیلایا جاتا ہے کہ اگر ولی فقیہ واقعی اسلامی حکمران ہے تو پھر زبردستی طور پر دین کو قائم کیوں نہیں کر دیتا۔ غیر اسلامی طریقہ کاروں کو جبر اور طاقت کے بل پر ختم کر دے۔ اس کا جواب یہاں پر واضح ہوگا کہ درست ہے کہ قوانین کو جبری طور پر لاگو کیا جاۓ گا لیکن اسلامی اقدار کو جبری طور پر حاکم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کی دعوت دی جاتی رہے گی۔ جب تک خود عوام اس کو نہ چاہیں اور اس کی طرف حرکت نہیں کرتے دین کو قائم کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ولی فقیہ کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے کہ جو کہہ دے  مان لیں، یہ کام نبی یا امام بھی نہیں کر سکتا کجا یہ کہ ولی فقیہ کو کہا جاۓ کہ امت پر اپنے احکامات ٹھونس دے۔ ہاں! اس کی ذمہ داری ہے کہ دعوت دیتا رہے، ہدایت کرتا ہے اور مسلسل تبلیغ کرتا رہے، یہاں تک کہ لوگ خود عدل و قسط کو قائم کرنے میں شریک ہوں۔[2]

منابع:

 

↑1 حدید: ۲۵۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۷تا۱۲۹۔
موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/08/13
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی