بصیرت اخبار

{دروس ولایت فقیہ:قسط۶۵}

ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل(حصہ دوم)

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ولایت فقیہ بدیہی امر ہے۔ ولایت فقیہ پر دلیل کے نام سے جو مطالب پیش کئے جاتے ہیں در اصل وہ مؤیدات ہیں۔ ہم تلفیقی دلیل کے ذیل میں صرف مقدمات کو قارئین کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔ اگر ان قضایا کے موضوع اور محمول کا درست تصور کروانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو ولایت فقیہ کی تصدیق خود بخود ہو جاۓ گی۔ لیکن جیسا کہ بیان ہوا اس موضوع پر مسلمین ِجہان کی نسبت دشمنان اسلام نے زیادہ کام کیا ہے۔ اس لیے دشمن نے اس نظریہ پر شبہات کی بھرمار کی ہے اور اسے مشکوک بنا کر پیش کر رہا ہے۔ 

علمی اختلافات میں عدم برداشت

پاکستانی معاشرے میں علمی اختلافات کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ ہم ہر بات کو عقائد سے جوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ بعض نظریات کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں عقائد سے جوڑ کے اختلاف کرنے والے کو دائرہ تشیع سے خارج کر دیتے ہیں۔ مثلا بعض مسائل انساب سے متعلق تھے۔ رسول اللہﷺ کی چار بیٹیاں تھیں یا ایک بیٹی؟ اس مسئلے کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی ایک بیٹی کا قائل ہے تو اس سے وہ شیعہ نہیں ہو جاتا۔ اور اگر کوئی چار بیٹیوں کا قائل ہے وہ اس سے سنی نہیں ہو جاتا۔ اگر کوئی شیعہ دلیل کی بنا پر چار بیٹیوں کا قائل ہے تو اس سے وہ دائرہ تشیع سے خارج نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ عقائد کا مسئلہ نہیں ہے۔ عقائد امامیہ کا انکار کرنے سے انسان دائرہ تشیع سے خارج ہوتا ہے۔ موجودہ شیعہ مراجع عظام میں سے بعض چار بیٹیوں کے قائل ہیں۔ مشہور قول یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی ایک بیٹی تھی۔ اور یہی قول عرب ممالک اور برصغیر کے شیعہ علماء میں رائج ہے۔ نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ کی گواہی دینا یا نا دینا ایک فقہی مسئلہ ہے۔ فقہی مسئلے میں اختلاف کی بنا پر کوئی غیر شیعہ نہیں بن جاتا۔ کربلا میں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر تین دن پانی بند رہا یا نہیں؟ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی دلیل کی بنا پر اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ تین دن پانی بند نہیں رہا تو اس سے وہ مصائب امام حسینؑ کا منکر نہیں ہو جاتا۔ اس دور میں نادرہ دفتر تھا اور نا سب افراد کی دقیق معلومات ضبط کی جاتی تھیں، نا کیمرے تھے جو لائیو رپورٹنگ کر رہے ہوں، اس لیے ہم تک ازواج، اولاد کی دقیق طور پر خبر نہیں پہنچی۔ یہ سب تاریخی، فقہی یا جزوی مسائل ہیں۔ اگر شیخ مفید نے امام حسینؑ کی اولاد ۶ ذکر کر دی اور بقیہ نے ۹ ذکر کی ہے تو اس سے شیخ مفید کو تشیع کے دائرے سے خارج نہیں کر دیا جاۓ گا۔ یہ روش درست نہیں ہے۔ تقلید کا مسئلہ یا سید زادی کا غیر سید سے نکاح کا مسئلہ بھی اسی طرح سے ہے۔ ان اختلافی ابحاث میں مومنین دوسرے کی راۓ کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کو ایمان کے دائروں سے خارج مت کریں۔ یہ فضا ختم ہونی چاہیے۔ علمی اور دلیل سے پیش کی جانے والی بات قبول کی جانی چاہیے۔ ایسے ماحول میں علمی بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ واضح اور بدیہی ترین موضوع کو بھی مشکوک بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہاں پر ہم بھیڑ چال مت چلیں بلکہ دلیل کے پیچھے چلیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے مسائل کو بھی تفرقہ کا رخ دے دیا جاۓ اور مسلمین کو اندر سے کمزور کیا جاۓ۔ 

ولایت فقیہ کے متعلق شکوک و شبہات

ہمارے معاشروں میں اس سے پہلے کہ ولایت فقیہ کو اس کی دلیلوں سمیت تبیین کر دیا جاتا، اس موضوع کو شبہات کا شکار کر دیا گیا۔ اس لیے ہمیں جہاں پر اس کی دلیل دینا پڑتی ہے وہیں پر شکوک و شبہات کے جواب بھی دینا پڑتے ہیں۔ ابھی حال یہ ہے کہ تشیع کے علمی مراکز سے اس موضوع پر شبہات اٹھاۓ جا رہے ہیں۔ دشمن کا نفوذ حوزہ میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ اس موضوع کو وطنیت اور قومیت کے ذیل میں دیکھا جاتا ہے نیابت آئمہ کے ذیل میں نہیں دیکھا جاتا۔ ایک شخص جس نے ساری زندگی فقہ اور اصول پڑھنے میں لگا دی جب اس سے سیاسی اور عقلی ابحاث کی جائیں تو آگے سے کہتا ہے اچھا تو فلاں مجتہد غلط تھا جس نے اس کو نہیں مانا؟ جب اس کو عقلی دلیل پیش کی جاتی ہے تو کہتا ہے کہ فتوی لاؤ، جبکہ عقلی دلیل کسی فتوی کی محتاج نہیں ہوتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فلاں مجتہد غلط تھا لیکن ہم علمی تنقید تو کر سکتے ہیں۔ اگر ایک مجتہد کے علمی مقام کے رعب میں آ کر ہم دب جائیں تو رشد کیسے ہوگا؟ علمی اختلاف تو ضروری ہے۔ اول سے لے کر آج تک جو کتابیں بھی لکھی گئی ہیں وہ سب اختلافات سے ہی تو بھری ہوئی ہیں۔ اگر اختلاف نہ کریں تو حقائق روشن نہیں ہوتے۔ شخصیت کا تقابل کرنا علمی روش نہیں ہے بلکہ عوامانہ روش ہے۔ شخصیت کے مقابلے میں شخصیت نہیں لائی جاتی، اگر شخصیت کے مقابلے میں شخصیت لے آئیں تو پھر یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ بلکہ دلیل کے سامنے دلیل لے آئیں۔ جو دلیل قانع کنندہ ہو اس کو مانا جاۓ۔ نا کہ بڑی شخصیت کے علمی رعب کی وجہ سے اس کی بات مانی جاۓ۔ علمی اختلاف سے کوئی دائرہ تشیع سے خارج نہیں ہوجاتا اور نا ہی اس سے مراجع عظام کی توہین ہوتی ہے۔

غیر علمی ماحول میں علمی اختلاف

پاکستان میں جو فضا ایجاد کر دی گئی ہے وہاں پر علمی مباحثہ کا آخری نتیجہ ایک دوسرے کی عزت اچھالنا، طعنے کسنا اور دائرہ تشیع سے خارج کرنا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ کسی سے بحث مت کریں بلکہ عام عوام کو اپنا مخاطب قرار دیتے ہوۓ علمی تبیین پیش کرتے رہیں۔ حقائق کو عوام پر روشن کرتے رہیں ایک وقت آۓ گا جب لوگ حقیقت کو درک کر لیں گے۔ ہمارے حوزہ جات کا مسئلہ یہ ہے کہ بہت کم علماء عقلی اور نقلی دونوں علوم میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر حوزہ نجف کی بات کی جاۓ تو اکثریت عقلی دلیل سے قائل نہیں ہوتے۔ وہ اصلا عقلی دلیل کو دلیل ہی نہیں مانتے۔ یہ سب کی بات نہیں ہو رہی بلکہ بہت سے اچھے اور سنجیدہ علماء بھی حوزہ نجف میں موجود ہیں جو علوم نقلی و علوم عقلی میں استاد شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ایک کثیر تعداد حوزہ قم اور نجف میں موجود ہے جنہوں نے موضوعات پر عقلی دلیلوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ حالانکہ دین کے بہت سے موضوعات عقلی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں۔ مثلا تقلید کا مسئلہ اگر آپ نقلی دلیلوں سے ثابت کرنے بیٹھ جائیں تو آیت اللہ خوئیؒ کے مبانی سے تو وہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کے مبانی کے مطابق تقلیدکے موضوع پر مروی روایات ضعیف ہیں۔ تو اب کیا کریں؟ ظاہر ہے وہاں پر عقلی دلیل سے ان نقلی مقدمات کو تقویت دی جاۓ گی۔ لذا ہر موضوع کی دلیلوں سے علمی طور پر حل کریں۔ ممکن ہے ایک معاشرے میں ایک شاذ قول کو عالم دین دلیلوں کی بنیاد پر بیان کرے اور اس قول کو شہرت حاصل ہو جاۓ۔ یہاں پر اس عالم دین کو دیوبندی نہیں کہہ دینا۔ خود ولایت فقیہ کا موضوع بھی شاذ قول تھا، سب نے ابتدا میں مخالفت کی ابھی بھی زیادہ تر مخالف نظریہ ہی مشہور قول کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت کے رعب میں آ کر شاذ قول کو ترک کر دیں۔ آیت اللہ خوئیؒ نے اصول و فقہ کی دنیا میں شاذ اقوال کو رائج کر دیا۔ ان سے پہلے ان کے نظریات رکھنے والے علماء بہت شاذ تھے۔ لیکن انہوں نے شاذ اقوال کو دلیلیں دے کر حوزہ میں رائج کر دیا اور آج ان کے شاگردان کثرت میں ان کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں۔ اور آج وہی شاذ اقوال مشہور اقوال کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ معلوم ہوا دلیل کو مانا جاۓ، اکثریت سے مرعوب ہونا، یا جو علمی ماحول بنا ہوا ہے اس کے بر عکس گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔

ولی فقیہ کی موجودگی میں امام کی ضرورت

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ولایت فقیہ کو مان لیں تو پھر امامت کی کیا ضرورت ہے؟ جو کام ولی فقیہ سے ہو سکتا تھا پھر وہی کام اللہ تعالی نے امام سے کیوں کروایا؟ یا اس شبہہ کو ایک اور رخ سے دیکھا جاۓ تو یہ سوال بھی بنتا ہے کہ اگر ولی فقیہ آج کے دور میں موجود ہے تو پھر امام زمانؑ کی کوئی ضرورت نہیں۔ الہی قوانین کا آپ کو اجراء ہی کروانا تھا تو وہ کام تو ولی فقیہ بھی کر رہا ہے؟
جواب: جس طرح امامت نبوت کی بدیل نہیں ہے بلکہ جانشینی ہے اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی امامت کی بدیل نہیں بلکہ جانشینی ہے۔ امام کے آنے سے نبی کی ضرورت ختم نہیں ہوتی۔ رسالت و نبوت کی ضرورت تب بھی رہتی ہے۔ کیونکہ اصل یہ ہے کہ حاکم الہی معصوم ہو۔ اس کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا معصوم ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر معصوم نہ ہوا اور اس نے غلط حکم دیا تو یہ ہدایت نہ ہوئی بلکہ ضلالت ہوگی۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ حاکم اگر غلط حکم بھی دے تو اللہ تعالی اسے حکم شرعی بنا دیتا ہے۔ اس لیے وہ خطا نہیں کر سکتا، یزید کی حمایت بھی اسی تفکر کی بنا پر کی جاتی ہے۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ امام معصوم ہوتا ہے اور اس کا کوئی بدیل نہیں ہو سکتا۔ ولایت فقیہ کسی بھی صورت میں امامت کی بدیل نہیں ہو سکتی۔ امامت کی ضرورت ہر دور میں موجود ہے ولایت فقیہ کو صرف اضطراری صورت میں اختیار کیا گیا ہے۔ 

ولی فقیہ کا غیر معصوم ہونا

ایک شبہہ پیش کیا جاتا ہے کہ جو ذمہ داریاں اللہ تعالی نے امام معصوم کے ذمہ لگائی ہیں وہیں ذمہ داریاں آپ ولی فقیہ کے ذمہ بھی لگا رہے ہیں جبکہ ولی فقیہ معصوم نہیں ہے وہ ان ذمہ داریوں کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے؟
جواب: اصل یہ ہے کہ یہ ذمہ داریاں امام معصوم ہی پوری کرے۔ لیکن زمانہ غیبت میں کیا کریں؟ مثلا کے طور پر زمانہ امامت میں معصوم امام ان ذمہ داریوں کو ۱۰۰ فیصد پورا کر رہا تھا۔تو زمانہ غیبت مین کیسا حاکم قرار دیا جاۓ؟جو ایک فیصد بھی امامت والی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا یا وہ جو ۶۰ یا ۷۰ فیصد تک امام کے قریب تر ہے؟تنزل کی صورت قابل امکان ہے۔ ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے معصوم حاکم تو غائب ہے اس صورت میں معصوم حاکم کے قریب ترین صورت کونسی بنتی ہے؟ عادل حاکم کی یا فاسق حاکم کی؟ عقل یہ کہتی ہے کہ اگر معصوم حاکم نہیں ہے تو کم پر اکتفا کرو اور عادل حاکم کو اپنے اوپر قرار دو ناکہ معصوم حاکم کے نہ ہونے کی صورت میں مسقیم طور پر فاسق کو حاکم بنا دو۔ ایک اور مثال دیتے ہیں۔ فقہی حکم بیان کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ جواب یہ ہے کہ فقہ کا کوئی بھی مسئلہ ہو اسے امام سے پوچھا جاۓ گا۔ اب فرض کر لیتے ہیں اگر امام نہ ہو، تو اس صورت میں کس سے فقہی مسئلہ پوچھیں؟ فقیہ سے یا کسی دوسرے شعبے کے انسان سے؟ عقل کہتی ہے کہ فقہی مسئلہ اس سے پوچھیں جو امام کے قریب تر ہو۔ اسی طرح سے قضاوت کا مسئلہ ہے۔ اگر مومنین کا آپس میں جھگڑا ہو جاۓ تو امام کی ذمہ داری ہے کہ اس کو حل کرے۔ لیکن اگر امام نہ ہو تو یہ فیصلہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ہم کہیں گے کہ امام کے قریب ترین شخصیت کو یہ حق بنتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے۔ عصمت کے قریب ترین مرتبہ عدالت ہے۔ عدالت کا پائین ترین مرتبہ یہ ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچاۓ اور واجبات انجام دے۔ اگر معصوم امام موجود نہیں ہے تو اس عادل شخص کی ذمہ داری ہے کہ امت کی مدیریت کرے کیونکہ یہ امام کے قریب تر ہے۔معاشروں کی مدیریت کا مسئلہ ہے۔ اصل ذمہ داری امام کی بنتی ہے۔ لیکن اگر امام پردہ غیبت میں ہیں تو یہ ذمہ داری ایک ایسے عادل انسان کی ہے جو عدالت تو رکھتا ہی ہے ساتھ میں فقیہ جامع الشرائط بھی ہے اور مدیریت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ امام معصوم کے برابر تو نہیں ہے لیکن بقیہ کی نسبت اس کے قریب تر ہے۔ ولی فقیہ اور امام معصوم کے مقام و مرتبہ کا مقائسہ کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ایک غیر معصوم کبھی بھی امام معصوم کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ۱۲ اماموں کے مرتبہ اور مقام تک کسی کا پہنچنا ناممکن ہے۔ یہاں پر بات ذمہ داری کو پورا کرنے کی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایک عہدہ موجود ہے۔ اس عہدے پر معصوم امام کو ہی فائز ہونا چاہیے تھا لیکن ابھی امام غائب ہے اور یہ ذمہ داری پوری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کس شخص کو اس عہدے پر بٹھایا جاۓ؟ ایسے شخص کو جس کے اندر امام سے شباہت نہیں پائی جاتی ؟یا ایک ایسے شخص کو جو ایک حد تک امام کے قریب تر ہے؟ عقل کہتی ہے کہ جب تک امام معصوم ظاہر نہیں ہو جاتے اضطراری صورت میں یہی شخص صاحب اختیار ہوجو امام کے زیادہ مشابہ ہے۔ جس طرح سے فقہی مسئلہ بیان کرنے کی ذمہ داری مجتہد کو عطا ہوئی ہے، حالانکہ اصلی ذمہ داری امام معصوم کی تھی۔ یا قضاوت کی ذمہ داری قاضی کو عطا کی گئی ہے اسی طرح سے معاشروں کی الہی قوانین کے مطابق مدیریت کرنے کی ذمہ داری بھی ولی فقیہ کو عطا ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ تمام صورتیں امام کے قریب ترین ہیں۔ یہ عام اور سادہ سی بات ہے جس کو سمجھنا بہت آسان ہے۔

زمانہ غیبت میں اضطراری صورت

حج کے احکام میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ تین دن روزہ رکھے۔ یہ ایک اضطراری صورت ہے۔ اگر انسان کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو تو وہ اس صورت میں تین دن روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اضطراری صورتوں کے احکام خود دین نے بیان کیے ہیں۔ اضطراری صورت والے احکام کسی بھی صورت میں بدیل نہیں ہو سکتے، بدیل یہ ہوتا ہے کہ کسی کو بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلا ایک شخص پر روزے کا کفارہ پڑ گیا ہے۔ وہ ۶۰ روزے بھی رکھ سکتا ہے۔ اس کا بدیل بھی اختیار کر سکتا ہے مثلا ۶۰ فقیروں کو کھانا کھلا دے۔ یہ دونوں بدیل ہیں ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔ لیکن قربانی کرنے کی استطاعت موجود ہو پھر بھی کوئی شخص تین دن روزہ رکھے یہ قبول نہیں۔ کیونکہ تین دن روزہ رکھنے کا حکم اضطراری ہے بدیل نہیں بن سکتا۔ جس طرح سے فقہ اصغر میں اضطرار کی صورت ہے فقہ اکبر میں بھی اضطرار کی صورت ہے۔ اگر معصوم امام موجود نہیں ہے تو غیر معصوم عادل ولی فقیہ کی صورت میں معاشرے کی مدیریت کو سنبھالے۔ جو امام کے قریب تر ہے۔ نظام امامت کے قریب ترین صورت جمہوری نظام نہیں ہے۔ بلکہ ولایت فقیہ امامت کے قریب تر ہے۔

امامت کا سیاسی نظام ہونا

ایک شبہہ یہ بھی عوام میں پھیلایا گیا ہے کہ امامت تو سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ ہمارے امام تو ہادی اور بشیر تھے۔ ان کا کام امت کو صرف نیکی کے کام بتانا اور ان کو نصیحت کرنا تھا۔ وہ تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کو برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آج کے دور میں فقیہ کا کام بھی یہی ہونا چاہیے اس کا سیاست سے کیا تعلق؟
جواب: جہاں پر نبی اور امام ہادی، بشیر، نذیر اور مبلغ ہوتا ہے وہیں پر معاشرے کا رہبر بھی ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں مختلف ہیں۔ اس کی ذمہ داری دین کی تبیین، تبلیغ، اور معاشرے کی الہی قوانین کے مطابق مدیریت کرنا ہے۔ انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ لوگوں پر اللہ تعالی کی جانب سے حاکم تھے۔ ان کا امت پر سیاسی طور پر حاکم ہونا ان کے نذیر اور ہادی ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ امام ہوتا ہی وہ شخص ہے جو دین اور دنیا کا رئیس ہو۔ تمام سنی شیعہ علماء نے امامت کی یہی تعریف کی ہے۔[1][2][3][4] کسی بھی عالم دین نے امامت کی یہ تعریف نہیں کی کہ امام صرف دینی رہنمائی کرنے کے لیے ہوتا ہے بلکہ وہ دینی اور دنیوی ہر دو امور میں امت کا رئیس ہوتا ہے۔ 

ولایت فقیہ۔اضطراری صورت

زمانہ اختیار میں امام معصوم ہوگا۔ جبکہ زمانہ اضطرار میں ولی فقیہ کو ماننا ہوگا۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل ہے کہ معاشرے پر ایک الہی حاکم ہونا چاہیے ورنہ معاشرہ ہرج مرج کا شکار ہو جاۓ گا۔ اہل سنت بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حاکم ہونا چاہیے کیونکہ حاکم کے بغیر معاشرہ ہرج مرج کا شکار ہوتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ حاکم کا اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ خود امت شوری بنا کر حاکم چن سکتی ہے۔ زمانہ غیبت میں اہل تشیع اضطرار کی وجہ سے غیر معصوم کی حکومت کو مان رہا ہے کیونکہ ضرورت تو بہرحال پوری کرنی ہے۔ ورنہ اشرار کی حکومت کو ماننا پڑے گا۔ اگر آپ اس بات کے قائل ہو جائیں کہ حاکم صرف معصوم ہونا چاہیے تو جب امام غائب ہو تو کیا کریں؟ اب دو صورتیں ہیں۔ یا تو ایک ایسے شخص کی حاکمیت کو مشروع مان لیں جو امام کے قریب تر ہے اور اس کی حکومت کے لیے راہ ہموار کریں۔ یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ چونکہ امام معصوم تو ہے نہیں اب ہماری حکومت کے متعلق کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اشرار آپ پر حاکم ہو جائیں گے۔ اگر اشرار اور طاغوتی حکمرانوں سے بچنا ہے تو امامت سے قریب ترین صورت کو اختیار کرنا ہوگا۔

زمانہ اختیار اور زمانہ اضطرار

ایک زمانہ اختیار ہے جس میں امام معصوم موجود ہے۔ اس صورت میں صرف معصوم امام کو حکومت کرنے کا حق ہے۔ عصمت کی شناخت ہمارے لیے آسان نہیں۔ اس لیے نبی بتاۓ گا کہ معصوم کون ہے یا ایک امام اگلے امام کا نام بتا کر جاۓ۔ اگر تقیہ کی وجہ سے نام بتا کر نہ جاۓ تو معجزے سے بھی ہم معصوم کو پہنچان سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب صورتیں زمانہ اختیار میں بنتی ہیں۔ زمانہ اضطرار میں کیا کریں؟ کیونکہ زمانہ اضطرار میں نا تو شخص معین کیا گیا ہے اور نا ہی نام بتایا گیا ہے۔ غیر معصوم معجزہ بھی نہیں دکھا سکتا۔ اس صورت میں کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ زمانہ اضطرار میں معیار عدالت ہے۔ اعلی درجےکی  عدالت و فقاہت جو انسان کی استطاعت میں ہے اس کو ملاک قرار دیا جاۓ۔ اس لیے ولی فقیہ کون ہوگا ان معیاروں پر اترنے والی شخصیت کو ڈھونڈھنے کے لیے مجلس خبرگان کی شوری بنائی جاتی ہے۔ لوگ ولی فقیہ کو انتخاب نہیں کر سکتے۔ بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے زمانہ اضطرار میں جو الہی حاکم ہونے کے معیارات ہیں اس کی حامل شخصیت کو کشف کرنے کے لیے خبرگان کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا ولی فقیہ کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا انکشاف ہوتا ہے۔ جس طرح رؤیت ہلال کی کمیٹیاں پہلی کا چاند انتخاب نہیں کرتیں بلکہ اس کو کشف کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ کمیٹی چاند بناتی نہیں ہے بلکہ کشف کرتی ہے۔ چاند پہلے سے موجود ہوتا ہے یہ صرف کشف کر رہے ہیں۔ ان کے انتخاب سے چاند، چاند نہیں بنتا۔ بلکہ چاند پہلے سے موجود ہوتا ہے اس کو کشف کیا جاتا ہے اور رؤیت ہلال کمیٹی اس پر شہادت دیتی ہے۔ مجلس خبرگان بھی ولی فقیہ کو انتخاب نہیں کرتی بلکہ اس کو کشف کرتی ہے اور اس کے الہی حاکم (کے اندر پائی جانے والی صفات کی حامل شخصیت )ہونےکی شہادت دیتی ہے۔ جمہوریت اور ولایت فقیہ کے نظام میں یہی فرق ہے۔ ولایت فقیہ میں جمہور حق کو قبول کرنے والے ہیں، حقِ حاکمیت دینے والے نہیں ہیں۔ یہ شبہہ ہے کہ جمہوریت اور ولایت فقیہ ایک ہی نظام ہے۔ ولایت فقیہ میں حقِ حاکمیت از طرف خدا عطا ہوتا ہے اور اس کو جمہور قبول کرتی ہے۔ لیکن جمہوری نظاموں میں حاکم بننے والے شخص کو جمہور اپنی طرف سے حقِ حاکمیت دیتے ہیں چاہے وہ حاکم بننے کا اہل ہو یا نہ ہو۔ با الفاظ دیگر جمہوری نظام میں صرف عوام معیار ہے، جبکہ ولایت فقیہ میں الہی خصوصیات کا حامل ہونا اور عوامی مقبولیت کا حاصل ہونا دونوں معیار ہیں۔[5]

منابع:

↑1 شریف، جرجانی، التعریفات، ج۱، ص۳۵۔
↑2 تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۴۔
↑3 علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، ج۱، ص۱۰۔
↑4 فاضل مقداد، ابوعبداللہ مقداد بن عبداللہ، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، ج۱، ص۳۲۵۔
↑5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۴تا۱۶۹۔
موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/11/27
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی