بصیرت اخبار

{ دروس ولایت فقیہ: قسط۵۳ }

ولایت فقیہ میں فقیہ سے مراد

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

گزشتہ اقساط میں ہم نے بیان کیا کہ ولایت فقیہ کی بحث میں ولایت سے مراد کیا ہے۔ ولی فقیہ کی ولایت سے مراد معاشرے کی مدیریت کرنا ہے۔ تاہم دین الہی اور قانون الہی کی اتباع میں مدیریت کرنا۔ ولی فقیہ کی ولایت بالذات نہیں ہے، بلکہ اس کو عطا ہوئی ہے۔ ولایت کا حقیقی سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ تمام کمالات اللہ تعالی کو حاصل ہیں، جو خالق، رازق، رب اور ولی ہے۔ قرآن کریم کے مطابق یہ ولایت اللہ تعالی نے اپنی نیابت میں نبی اور اولی الامر کے سپرد کی ہے۔ اور زمانہ غیبت میں یہ ولایت امام کی نیابت میں فقیہ کو حاصل ہے ۔جس طرح سے معاشرے کو امام یا نبی مدیریت کرتا ہے اسی طرح سے فقیہ بھی معاشروں کی مدیریت کرے۔

شوری اور رہبریت کا نظریہ

زمانہ غیبت میں معاشرے کی حکمرانی کون کرے؟ کیا ایک رہبر شورائی کمیٹی ہو جو مشورت سے سارے امور کو سنبھالے؟ یا ایک شخص رہبر ہونا چاہیے؟ یہاں پر دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک شخص کو رہبر بنا دینا درست نہیں ہے بلکہ ایک شوری ہو جس میں مختلف افراد موجود ہوں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنا ہو اس شوری کے تمام اراکین اس پر بحث کریں اور راۓ دیں۔ جو راۓ اکثریت اختیار کر لے اس کو بیان کر دیا جاۓ۔ اس نظام میں رہبر کٹھ پتلی کی مانند ہوتا ہے۔ وہ صرف اس فیصلے کو اعلان کرتا ہے جو شوری میں طے پایا ہے۔ لیکن دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شوری مشورے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن حتمی فیصلہ رہبر کا ہونا چاہیے۔ اور یہی درست نظریہ ہے۔ ولایت فقیہ سے مراد بھی یہی ہے۔ رہبر پر ضروری ہے کہ امور میں مشورت کرے لیکن ان مشاورین کا پابند نہیں۔ حکومتی امور میں مشورہ لے سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ».

ترجمہ: اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں۔[1] اس آیت سے بعض نے جمہوریت کو ثابت کرنا چاہا ہے۔ حالانکہ اس آیت میں حکمران چننے کے مورد میں مشورہ کرنے کا ذکر نہیں ۔ امت کو حکمران چننے کا اصلا اختیار ہی نہیں کہ وہ مشورہ دینے آۓ۔

مشورے کا مورد

 مشورے کے دو مورد ہیں۔ ذاتی زندگی کے امور میں مشورہ کرنا۔ ہمیں ہمیشہ مشورہ کو استخارہ پر فوقیت دینی چاہیے۔ سیرت معصومینؑ یہی ہے کہ مشورہ لینا چاہیے۔ کسی بھی امام نے کبھی کسی کو استخارہ کر کے نہیں دیا، آئمہ معصومینؑ ہمیشہ مشورہ دیتے تھے، حتی حکمران طبقہ بھی آئمہ معصومینؑ سے مشورہ لینے آتا تھا۔ یہاں پر استخارہ کی نفی نہیں کی جا رہی، بلکہ استخارہ بھی کرنا چاہیے البتہ اس کا اپنا مورد ہے۔ مشورے کا دوسرا مورد اجتماعی اور سیاسی امور میں مشورہ لینا ہے۔ حاکم کے چننے میں مشورہ نہیں لیا جا سکتا کیونکہ وہ اللہ تعالی کا کام ہے کہ معاشروں پر ولی حکمران مقرر کرے۔ لیکن الہی حاکم کا سیاسی اور اجتماعی امور میں مشورہ کرنا درست امر ہے۔ اور اس آیت میں یہی مورد بیان کیا جا رہا ہے۔

تنظیمی اسٹریکچر اور دینی نظام

زمانہ غیبت میں امور کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہو، اس موضوع پر بہت گرما گرم ابحاث موجود ہیں۔ حتی ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بعض علماء نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ولی فقیہ کے اوپر ایک شوری کمیٹی ہونی چاہیے۔ جو بات شوری میں طے ہو وہی بات رہبر بھی بیان کر دے۔ رہبر پر ضروری ہو کہ وہ کمیٹی سے مشورہ لے اور اکثریتی راۓ کو قبول کرے۔ لیکن امام خمینیؒ اور دیگر علماء کرام نے اس کی شدید مخالفت کی۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ رہا ہے۔ اور موجودہ تنظیمی اسٹریکچر اب شوری کے نظریہ کے مطابق ہوتا ہے۔  تنظیم کا جنرل سیکرٹری بنایا جاتا ہے، اس کی شوری بنائی جاتی ہے اور جو بات شوری میں طے ہوتی ہے وہی بات تنظیم کے سربراہ اعلان کر دیتے ہیں۔ دلیل کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنی جامع شخصیت نہیں ہے کہ سب امور ہم اسی کی صوابدید پر ڈال دیں۔ کسی ایک شخص کی مرضی نہیں چلنی چاہیے۔ شوری کا نظریہ بظاہر اچھا لگتا ہے اور افراد سمجھتے ہیں کہ ہم سب کا ہی برابر کا حق ہے اور ہماری بھی چلتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا پاکستانی تنظیموں میں یا کسی بھی تنظیم میں نہیں ہوتا، عملی طور پر ایک ہی شخص ہوتا ہے جو فیصلے کرتا ہے۔ اور تا مرگ وہی قائد رہتا ہے۔ اور درست نظریہ یہی ہے کہ رہبر کو ہی رہبریت کا حق دیا جانا چاہیے۔ اس کا حق ہے کہ مدیریت کرے ورنہ اس کے رہبر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں دینی معیاروں کے مطابق رہبر کو منصوب کرنا چاہیے اور اسی کی صوابدید پر امور کو چھوڑ دینا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر بیان کی گئی آیت کا اگلا حصہ یہی کہتا ہے:

«فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ».

ترجمہ: پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔[2]

شوری کا نظریہ خلیفہ ثانی کی ایجاد

دین اسلام میں حاکمیت کے مورد میں شوری کا نظریہ سب سے پہلے خلیفہ ثانی نے پیش کیا۔ انہوں نے خلیفہ کے انتخاب کے لیے چھ افراد کی شوری کمیٹی بنائی اور انہیں اس بات کا پابند بنایا کہ وہ اگلے خلیفہ کا انتخاب کریں۔ اہل بیتؑ نے حاکمیت کے مورد میں کبھی شوری نہیں بنائی۔ تشیع میں رہبریت کا سلسلہ اس طرح سے کبھی بھی نہیں رہا جیسے آج کل رائج ہو گیا ہے۔ جب کسی کو رہبر مان لیا تو اس کو رہبریت کا حق بھی دیں، مدیریت کرنے کا حق اسی کو دیں، اس کو کٹھ پتلی نہ بنائیں۔ تنظیمی اسٹریکچر میں بظاہر کہا جاتا ہے کہ ہم تو کسی کو رہبر نہیں بنا رہے بلکہ اجرائی امور کی ذمہ داری سونپ رہے ہیں۔ بے شک آپ اس کو لفظی طور پر رہبر کا نام نہ دیں کوئی اور نام دے دیں، جنرل سیکرٹری کہہ دیں یا کچھ اور۔ جہاں پر بھی اکثریتی راۓ کو رہبر کے اوپر مسلط کیا جاتا ہے وہاں تنظیم اغوا ہو جاتی ہے۔ اس کو اپنے ہدف سے منحرف کر دیا جاتا ہے۔ عملی طور پر اس معاملے میں سنی شیعہ سب ہی ایک جیسا رویہ اختیار کئے ہوۓ ہیں۔ جب مدت ختم ہوتی ہے دوبارہ تنظیم کا رہبر اسی کو بنا دیتے ہیں جو کئی سال سے بنا ہوا ہے۔

ولی فقیہ کی شرائط

بیان ہوا کہ ولی فقیہ مشورے کی حد تک تو افراد کی بات سنتا ہے۔ لیکن اس کا پابند نہیں ہوتا۔ سیاسی و اجتماعی امور، زندگی کے مختلف شعبہ جات زندگی میں ماہرین سے مشورہ لیتا ہے لیکن فیصلہ خود کرتا ہے۔ اس لیے یہاں پر جو بعض افراد شبہہ اٹھاتے ہیں کہ ہر فقیہ ہی ولی فقیہ ہے درست نہیں۔ ہر قضاوت کرنے والا اور فتوی دینے والا فقیہ، ولی فقیہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ولی فقیہ وہ ہے جو ملک کی سیاست (مدیریت) کرتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مرضی کرے وہی انجام دے۔ بلکہ جو دینی تقاضا بنتا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ اس لیے ہر انسان اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ ولی فقیہ بننے کے لیے چند شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے جن میں سے چند کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ اجتہاد مطلق

ہمارے پاس دو قسم کے مجتہد ہوتے ہیں۔

۱۔ مجتہد مطلق

۲۔ مجتہد مجزی

ولی فقیہ ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مجتہد مطبق ہو۔مجتہد مطلق سے مراد وہ مجتہد ہے جو اسلام کی تعلیمات کو صحیح طرح سے جامع طور پر جانتا ہے۔ وہ صرف فقہ اور اصول میں فقیہ نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام اصول، فروع، عبادات، عقود، احکام، ایقاعات اور اسلامی سیاست میں مجتہد ہے۔ اگر کوئی مجتہد ان تمام دینی معارف میں اجتہاد مطلق نہیں رکھتا وہ ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صرف دعوی نہ کرتا ہو بلکہ واقعیت میں مجتہد ہو، ممکن ہے خود کو انکساری کی وجہ سے مجتہد نہ کہتا ہو۔ حالانکہ اس کے اساتید اسے مجتہد کہتے ہوں۔ یہ شبہہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے بارے میں بھی اٹھایا جاتا ہے کہ وہ تو حجت الاسلام تھے اچانک مجتہد کیسے بن گئے؟ ممکن ہے ایک شخص خود کو مجتہد نہ کہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجتہد نہیں۔ مجتہد کی شناخت وہی کر سکتا ہے جو خود علماء کے درمیان رہتا ہے۔ یہ ایک جاہلانہ بات ہے کہ جس شخص نے ساری زندگی مثلا عراق میں گزاری ہے اس سے ہم کسی ایرانی شخصیت کے اجتہاد کے بارے میں پوچھیں۔ ظاہر ہے نجف کے فقہاء وہاں رہتے ہیں عراق میں اور ایران کے علماء ایران میں رہتے ہیں۔ عراق میں رہنے والا عالم دین کیسے کسی ایرانی عالم دین کے اجتہاد کی گواہی دے سکتا ہے یا کسی کے مجتہد ہونے کو رد کر سکتا ہے؟ مثلا سیستانی صاحب نجف میں ہوتے ہیں اور ان کے شاگردان بھی نجف میں مقیم ہیں۔ اب ایرانی علماء کو یہ علم نہیں ہو سکتا کہ سیستانی صاحب کے بعد ان کے شاگردوں میں کون سا شاگرد مرجعیت کا حامل ہو سکتا ہے؟ ایران کے عالم دین کی عراقی علماء کے بارے میں تائید یا تردید قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ کسی شخصیت کے اندر اجتہاد کی قابلیت کا ہونا یا نہ ہونا ، اس کا معلوم کرنا آسان نہیں، بلکہ اس کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے وقت درکار ہے، یہاں تک کہ اس کی علمی قابلیت واضح اور عیاں ہو جاۓ۔ اسی طرح سے رہبر معظم ہیں کہ انہوں نے بھی کئی حوزہ جات اور اساتید سے استفادہ کیا ہے۔ جو ان کے ہمراہ رہے ہیں وہ اس بات کی تائید کر سکتے ہیں کہ رہبر معظم مجتہد ہیں یا نہیں؟ جو شخص ان کے ہمراہ نہیں رہا وہ گواہی نہیں دے سکتا۔ رہبر معظم کے ہمراہ جو شخصیات رہی ہیں مثلا آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ مکارم شیرازی، اور کتاب کے مصنف آیت اللہ جوادی آملی، یہ لوگ گواہی دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں کہ رہبر معظم فقیہ ہیں۔

مجتہد مطلق وہ ہے جو تفسیر، حدیث، کلام، فقہ کے ساتھ ساتھ علم سیاست میں بھی ید طولی رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی شخصیات ہیں جن کا اجتہاد سب پر عیاں ہے لیکن ان کے بارے میں یقین ہے کہ وہ علم سیاست میں مہارت نہیں رکھتے۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ شخصیات فقہ اور اصول میں تو ماہر ہیں لیکن سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتیں۔ اگر فقہ و اصول میں مجتہد ہوں اور سیاست میں مجتہد نہ ہوں تو وہ مجتہد مطلق نہیں ہیں بلکہ مجتہد مجزی ہیں۔ اور یہ امر آپ آسانی سے جان سکتے ہیں، مثلا ایک شخص جو ایک دفتر کی مدیریت تک کرنا نہیں جانتا اور معاملات کو خراب کر بیٹھتا ہے اس کے اندر مدیریت (Management) کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ شخص ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ مجتہد ہے اور اپنے فن کا ماہر ہے۔ زمانہ غیبت میں ایسے شخص کو معاشرے کی مدیریت نہیں دے سکتے جو تمام علوم میں مجتہد نہ ہو، ضروری ہے کہ وہ دین کو جامع طور پر سمجھتا ہو دینی سیاست کے تمام اصول و ضوابط سے آشنا ہو اور ان میں اجتہادی نظر رکھتا ہو۔ ولی فقیہ پر ضروری ہے کہ مبیِن قرآن ہو، اس کے معارف سے آشنا ہو۔ بالخصوص قرآن اور احادیث میں انسان اور معاشرے کی اصلاح کے لیے جو امور ذکر ہوۓ ہیں ان کو جانتا ہو علمی دسترس رکھتا ہو۔

انسان شناسی اور معاشرہ کی اصلاح کا علم

انسانی شناسی اور معاشرہ شناسی (Sociology) وہ علوم ہیں جن میں ولی فقیہ کو مجتہد ہونا ضروری ہے۔ اکثر افراد جو ولایت فقیہ کو بنا پڑھے ہی اس کو رد کر دیتے ہیں انہوں نے بہت کم ان علوم کو پڑھا ہے۔ لیکن ان موضوعات پر جن شخصیات نے کتابیں لکھی ہیں وہ بہت قلیل ہیں۔ شہید مطہریؒ، شہید باقر الصدرؒ،آیت اللہ مصباح یزدیؒ، علامہ طباطبائیؒ یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے انسان اور اسلامی معاشرے کی اصلاح کے متعلق قرآن و روایات میں وارد ہونے والے موضوعات پر لکھا۔ لیکن جن اشخاص نے کبھی یہ موضوعات پڑھے تک نہیں اور الف ب تک نہیں جانتے وہ آرام سے ولایت فقیہ کو رد کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہاں پر ان افراد کو جدا کرنا ہوگا جو جامع مجتہد ہیں جنہوں نے دین سے اور قرآن و روایات سے صرف فقہ و اصول کو نہیں پڑھا بلکہ انسان اور معاشرے کی مدیریت کے اصول نا صرف پڑھے بلکہ ان پر تحقیقات کی ہیں۔ جس مجتہد نے اسلامی معاشرے کو قرآن و روایات سے کبھی نہیں پڑھا اور اسلامی معاشرے کے خد و خال کو کبھی بیان نہیں کیا وہ مجتہد مطلق نہیں ہے۔ بعض ہمارے علماء کا یہاں تک کہنا ہے کہ جو شخص انسان اور اسلامی معاشرے کے بارے میں دقیق نظر نہیں رکھتا اور اس موضوع میں اجتہاد نہیں کرتا وہ ولی فقیہ تو دور کی بات مرجع تقلید بھی نہیں ہو سکتا۔ فقیہ وہ ہے جو نا صرف قدیم مسائل میں بلکہ مسائل مستحدثہ میں بھی صاحب نظر ہے۔ مسائل مستحدثہ سے مراد آج کے دور میں پیش آنے والے جدید مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر بینک، حدود، ویزہ، غیر مسلم ممالک جانا، انٹرنیٹ، اور جدید کرنسیوں کے مسائل وغیرہ۔ ان سب مسائل میں فقیہ کو صاحب نظر ہونا چاہیے اگر ان مسائل میں کوئی شرعی راہ حل نہیں دے سکتا وہ امت کی بھی مدیریت نہیں کر سکتا۔ اسے نئے مسائل اور نئے نظریات سے آشنا ہونا چاہیے، ان سب مسائل کی تحلیل کرنا جانتا ہو، بین الاقوامی مسائل پر دقیق نظر اور ان کا قرآنی راہ حل پیش کرے، صرف ان مسائل کا سرسری مطالعہ نہیں بلکہ عمیق تفکر اور منظم آئیڈیالوجی رکھتا ہو۔

۲۔ عدالت مطلق

عدالت کی ایک تعریف یہ ہے کہ انسان کے اندر گناہ نہ کرنے کا ملکہ پیدا ہو جاۓ۔ یعنی خود کو گناہوں سے اتنا دور رکھے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو جاۓ کہ گناہ نہ کرے۔ فقیہ پر ضروری ہے کہ خود کو گناہ سے بچاۓ۔ امت اسلامی کی مدیریت بہت ہی حساس امر ہے۔ اور جتنا بڑا منصب ہے اسی اوج کی اعلی عدالت ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر فقیہ عادل نہ ہو تو وہ عمومی حکمرانوں کی طرح مسلمین کے اموال میں خیانت کرے گا اور ہوا و ہوس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ تاہم مکتب تشیع کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے فقہاء عدالت کا مکمل پیکر رہے ہیں۔ امام خمینیؒ پوری اسلامی مملکت کے رہنما تھے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو میراث کے طور پر مال وغیرہ نہیں چھوڑ کر گئے۔ بلکہ خود انہوں نے وصیت فرمائی کہ میرے اموال کیا ہیں؟ اور اس کے علاوہ اگر کوئی دعوی کرے کہ وہ اموال میری ملکیت ہیں تو وہ جھوٹ ہوگا۔ ان کے کسی بھی بینک میں پیسے جمع نہیں تھے۔ ولی فقیہ بننے کے بعد ان کے اموال میں اضافہ نہیں ہوا۔[3] اسی طرح سے رہبر معظم کی زندگی ہے۔ انتہائی سادہ زندگی، معمولی سا گھر، کھانے میں وہی خوراک استعمال کرتے ہیں جو جلسات میں عام افراد کو دی جاۓ، عام لوگوں میں مل جل جاتے ہیں۔ تاہم جب سے ان کی کمر کی ڈیسک کا مسئلہ بنا ہے زیادہ دیر تک نیچے نہ بیٹھ سکنے کی وجہ سے کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ مرجع عالیقدر آیت اللہ سیستانی کی زندگی بھی نہایت سادہ ہے۔ لذا جب بات آتی ہے ولی فقیہ کی جسے معاشرے کی مالی و افرادی قوت حاصل ہے اور اسی کے پاس تمام امور کی پاگ ڈور ہے، اس کے لیے موقع ہوتا ہے کہ اموال اور امکانات کو اپنی ذات یا رشتہ داروں کے لیے بھرپور استعمال کرے۔ لیکن یہاں پر دین اسلام نے معاشرے کے حکمران پر ضروری قرار دیا ہے کہ وہ عادل ہو۔ یہ عدالت ہے جو اس کو ہواۓ نفس کے مطابق چلنے سے روکتی ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ».

ترجمہ:  کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔[4]

اس کے ساتھ ساتھ عدالت میں یہ بھی ضروری ہے کہ جس بات کا فہم رکھتا ہے اسے تبلیغ بھی کرے اور اس پر خود بھی عمل کرے۔ وظائف دینی کے اجراء کی کوشش کرے۔ اپنے نفس کو معبود نہ بناۓ۔ مصنف قرآن کریم سے ایک اور مثال لے آتے ہیں:

«اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ».

ترجمہ:  تف ہو تم پر اور ان (معبودوں) پر جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟[5]اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابراہیمؑ بت پرستوں پر غضبناک ہوۓ۔ یہاں پر بتوں کی عبادت سے مراد ظاہری بت پرستی ہے اور اپنے نفس کی پوجا ہے۔ جو شخص نفس کی باتیں مانتا ہے وہ ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی حکم جاری کرتا ہے تو خود اس پر ایمان رکھتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو۔ اگر کوئی قضاوت کرتا ہے تو خود بھی اس پر محکم ایمان رکھتا ہو۔ کرونا کی وبا کے ایام میں رہبر معظم نے فرمایا کہ ماسک پہننا ضروری ہے اور ویکسین لگوانی چاہیے۔ ہم نے دیکھا کہ مرتب اس پر عمل کیا اور ہر جلسے میں ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ عام طور پر ماسک سے انسان الجھن کا شکار رہتا ہے اور جہاں پر زیادہ رش نہ ہو وہاں انسان ماسک اتار دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ بیت امام خمینیؒ میں پچھلے دو سال سے ہونے والی مجالس کی تصاویر دیکھیں وہاں خطاب کرنے والے مقرر اور مداح کے علاوہ صرف رہبر معظم ہوتے ہیں اور ایک فاصلے پر بیٹھے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ماسک پہنا ہوتا ہے۔ مطلب جس بات کا حکم دیتے ہیں خود اس پر عمل کرتے ہیں۔ جہاد کے میدان میں بھی یہی حکم ہے۔ اگر ولی فقیہ جہاد کا حکم دے خود بھی میدان میں حاضر ہو۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دو افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ ایک رہبر معظم اور دوسرے سید مقاومت حسن نصراللہ ہیں۔ لذا دشمن دار ترین شخصیت ہیں۔خود رہبر بھی جنگ کے ایام میں میدان میں خط مقدم پر موجود رہے ہیں اور ان کے فرزندان بھی اس جنگوں میں دفاع کے لیے حاضر تھے۔ پس عدالت بہت اہم ہے۔

۳۔ مدیریت اور رہبریت کی استعداد

یہ وہ اہم ترین شرط ہے جس کی وجہ سے بہت سے انقلابی اور غیر انقلابی علماء ولی فقیہ بننے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ مطلق طور پر اجتہاد، رہبریت کے معیار کی عدالت اور یہ تیسری شرط، جو سب سے اہم ہے۔ کیونکہ جس شخص کے اندر مدیریت کی صلاحیت نہیں ہے، مسائل کی صحیح نظر اور فکر حاصل نہیں ہے، وہ مسائل کو بہت تنگ نظری سے دیکھتا ہے۔ صحیح تفکر نہیں کر پاتا۔ دشمن ایک سازش کر رہا ہوتا ہے اور اس رہبر کو پتہ تک نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور دشمن کا ہدف کیا ہے؟ اور اگر درست فیصلہ نہ کرے پوری امت کو ہی لے ڈوبے گا۔ چھوٹا سا غلط فیصلہ کروڑوں افراد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم امیرالمومنینؑ کے عہد حکومت کا ایک واقعہ لے آتے ہیں۔ وارد ہوا ہے کہ جب امیرالمومنینؑ نے تروایح کی بدعت کو ختم کرنا چاہا تو لوگوں نے مسجد میں ہی شور مچانا شروع کر دیا۔ اور واہ عمرا! واہ عمرا! کے نعرے لگانے لگے۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ میں وہ شیعہ نہ تھے جس معنی میں آج لفظ شیعہ استعمال ہوتا ہے۔ شیعہ حقیقی معنی میں بھی موجود تھے لیکن بہت قلیل تھے۔ لیکن کوفہ میں رہنے والے لوگ یہ وہ شیعہ تھے جو صرف معاویہ کے مقابلے میں امیرالمومنینؑ کا ساتھ دے رہے تھے۔ عقائد اور فقہ میں وہ کس کے پیرو تھے یقینا امیرالمومنینؑ کے پیرو نہ تھے، بلکہ امام علیؑ کو پہلا امام بھی نہیں ماننے والے تھے صرف خلیفہ سمجھتے تھے۔ اب جب انہوں نے خلیفہ عمر کی بدعت کو ختم ہونے پر واویلا مچایا تو امام علیؑ نے بھی اصرار نہ کیا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام فرماتے ہیں اگر اس بدعت کو ختم کرتا تو خود مجھ پر ہی یہ لوگ شورش کر دیتے۔ امام نے امت کے اتحاد کو مدنظر رکھا اور اس فرصت تک منتظر رہے جب تک فضا ہموار نہیں ہو جاتی اور امت میں اتنا شعور نہیں آ جاتا کہ بدعت پر باقی رہنا درست نہیں ہے۔[6] اگر آج کل کے جذباتی علماء ہوتے تو فورا وہاں پر کہتے کہ ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے خاص طور پر جب حکومت بھی ہاتھ میں ہو۔ لیکن امیرالمومنینؑ نے وہاں پر ایسا کچھ نہیں کیا۔

زنجیر زنی کا مسئلہ اور رہبر معظم

ولی فقیہ کو پوری امت کو متحد کر کے رکھنا ہوتا ہے۔ دشمن امت مسلمہ کے اندر کسی بھی اختلافی مسئلے کو اٹھا کر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے نقصان صرف ایک فرقے کو نہیں بلکہ پوری امت بلکہ اسلام کا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر وہ مسئلہ جس کی اساس اسلامی ہے اس پر ولی فقیہ کو ڈٹ جانا چاہیے لیکن اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے جو اسلام کی اساس پر نہیں کھڑا اور نا ہی سیرت معصومینؑ سے ثابت ہے اور دشمن بھی اس سے حتی الامکان فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسلام کو بدنام کر رہا ہے وہاں پر رہبر معظم اس کے حرام ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ زنجیر زنی اور قمہ زنی قرآن کریم سے ثابت ہے اور نا روایات اہل بیتؑ سے۔ دوسری طرف دشمن اسلام اس کا بہانہ بنا کر پوری دنیا میں تشیع کو بدنام کر رہا ہے اور منفی پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ یہاں پر رہبر معظم فرماتے ہیں کہ جائز نہیں ہے لیکن ایک فقیہ کہتا ہے کہ جائز ہے اور اس کو بھرپور طریقے سے دینی ثقافت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دلیل کے طور پر بحار الانوار کی ایک ضعیف ترین روایت لے آتا ہے اور کہتا ہے کہ زنجیر زنی کرو۔ اگر سیاسی و اجتماعی فہم نہ ہو اور انسان اسلام کے احکام کو جامع طور پر نظر نہ رکھتا ہو تو فقہی مسئلہ میں ایک راۓ دے دیتا ہے، اگر اس کی سیاسی ادراک درست ہو اور اجتماعی مسائل میں گہری نظر رکھتا ہو ایسی بات کبھی نہ کہے۔ جیسا کہ آیت اللہ سیستانی دام ظلہ العالی کی شخصیت ہے۔ مرجع تقلید ہیں اور بڑے شجاعانہ فتاوی دیتے ہیں۔ لیکن تطبیر کے معاملے میں انہوں نے کوئی فتوی نہیں دے رکھا۔ جب ان کے دفتر کی طرف رجوع کریں تو کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں دیگر مراجع کی طرف رجوع کیا جاۓ، کیوں؟ کیونکہ اس مسئلے کی سیاسی و اجتماعی جہت کو درک کرتے ہیں۔ اور جب فقیہ ایک مسئلے کو صرف فقہی نظر سے نہیں بلکہ تمام جہات سے دیکھتا ہے تو اگر اس کے جواز کا بھی قائل ہو تو عملا اس پر خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر فقیہ مسئلے کی فقط ایک جہت کو دیکھے اور فورا فتوی دے نقصان پورے مکتب کا ہوتا ہے اور دین بدنام ہوتا ہے۔اگر یہی فقیہ امام علیؑ کے دور میں ہوتے تو کیا کرتے؟ کیا امام علیؑ کے تراویح کی بدعت کو ختم نہ کرنے اور اس مسئلے کی سیاسی و اجتماعی جہت کو ملاحظہ کرنے پر یہ فقیہ امام علیؑ پر اعتراض نہ کرتے؟ یقینا ان کی نظر میں تو امام علیؑ نے بھی نعوذباللہ غلط کام کیا کیونکہ فقہی طور پر تو تراویح بدعت ہے اور حرام ہے۔ امام علیؑ کے پاس حسنینؑ بھی موجود ہیں، اصحاب بھی موجود ہیں، حکومت بھی ان کے ہاتھ میں ہے تو پھر اس بدعت کو ختم کیوں نہیں کر رہے؟ معلوم ہوا معاشرے کی وحدت کو ضرب نہیں لگانی۔ صرف مسئلے کی فقہی جہت کو نہیں دیکھنا بلکہ اس کی اساس، اس مسئلے کی اجتماعی حساسیت کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔اگر اہل بیتؑ کی سیرت کا اجتماعی اور سیاسی پہلو سے مطالعہ کیا ہوتا تو تطبیر کے مسئلے پر یہ فتوی نہ دیتے۔ درست ہے کہ ہم نے فقہ و اصول کو بہت دقیق طور پر پڑھا ہے لیکن سیاست اور اجتماعی مسائل میں صحیح نگاہ نہیں رکھتے۔ وہ شخص جو ولی فقیہ ہوتا ہے اس کا سیاسی امور کی صحیح سوجھ بوجھ رکھنا ضروری ہے اور سیاسی امور کی درست مدیریت کر سکتا ہو۔ شجاع، نڈر ہو عوام کو خوش رکھنے کے لیےدین کے احکام کو پائمال نہ کرے۔ بلکہ یہاں پر عوام سے ڈرنے کی بجاۓ اللہ سے ڈرے۔ پس ضروری ہے کہ ہم صرف علمی صلاحیت کو نہ دیکھیں بلکہ عملی مدیریت کرنے کی صلاحیت کو حتمامد نظر رکھیں۔

رہبر معظم کی تدبیر اور مخالف راۓ

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد حکومت اسلامی تشکیل پا گئی۔ ظاہر ہے حکومت اسلامی کے اپنے تقاضے ہیں اگر ان تقاضوں کو پورا نہ کرے اسلامی نہیں رہتی۔ یہاں پر ایران کے اندر ہی اس مسئلے پر اختلاف پیدا ہو گیا اور علماء کا ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ ہماری حکومت کو کسی بھی ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ظاہرا یہ بات درست تھی لیکن اس سے وہ چاہ رہے تھے کہ ہمیں قدس کی ریلی نہیں نکالنی چاہیے، اسرائیل کے قبلہ اول کو غصب کرنے کی بات نہیں کرنی چاہیے، فلسطینی مسلمانوں کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے، کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے، اور کہیں بھی مظلومین جہان و مستضعفین عالم کے لیے اپنے ملک کے مفادات کو بین الاقوامی سطح پر خدشہ دار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ اس تفکر کے حامل بہت سے علماء تھے۔ لیکن اس کے مقابلے میں امام خمینیؒ اور رہبر معظم کا موقف تھا کہ اسرائیل ایک ظالم ریاست ہے۔ تمام عالم اسلام میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ہمیں وہاں آواز اٹھانی چاہیے۔قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے:

«لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ».

ترجمہ: نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔[7]جس طرح سے ظلم کرنا غلط ہے ظلم قبول کرنا بھی غلط ہے۔

نہج البلاغہ میں حسنینؑ کو امیرالمومنینؑ وصیت فرماتے ہیں:

«کونا لِلظّالِمِ خَصْما وَ لِلْمَظْلومِ عَوْنا».

ترجمہ: ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔[8] رہبر معظم نے فرمایا کہ جہاں ہمیں ظالم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور مظلوم کی حمایت وہیں پر اسلام کا بھی دفاع ضروری ہے۔ ان ممالک میں در اصل اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ دشمن اسلام اور ولایت فقیہ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ  ایران کا دشمن نہیں ہے ، ہدف ایران نہیں ہے بلکہ ایران کے اندر اسلامی نظام ان کا ہدف ہے۔ داعش صرف شیعہ کی نہیں بلکہ سنی کی بھی دشمن ہے۔ اسلامی ممالک سے امریکہ کا انخلاء اور عراق و شام میں داعش کو شکست دینا ضروری ہے اس لیے کہ تمام اسلامی ممالک خطرے میں ہیں۔ اگر اسلامی ممالک کے وسط میں داعش جیسی خونخوار حکومت تشکیل پا جاتی اس سے صرف ایران اور عراق کو ہی نقصان نہ ہوتا پاکستان میں بھی بم دھماکے ہوتے۔ اس تفکر نے تو کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ خود پاکستان میں کونسا شعبہ ان کے حملوں سے محفوظ رہ سکا ہے۔ انہوں نے شیعہ مساجد، امام بارگاہیں، سنیوں کی مساجد، ان کے دربار، پولیس چوکیاں، بازار اور فوج کو نشانہ بنایا ہے۔ کوئی بھی اسلامی ملک نہ بچ پاتا، ان کو ختم کرنے کے لیے انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب دشمن گھر میں گھس آۓ اس وقت دفاع کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس سازش کو بفضل الہی اور رہبر معظم کی درایت سے وہیں پر دفن کر دیا گیا جہاں سے اٹھے تھے۔ اس طرح سے اسلامی ممالک بھی بچ گئے، ولایت فقیہ کا نظام بھی بچ گیا اور آئمہ معصومینؑ کے حرم بھی محفوظ ہو گئے۔ اگر اس طرح کی استعداد فقیہ کے پاس نہ ہو جس سے وہ مدیریت کر سکے وہ ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ایسے فقہاء کو الگ کرنا ہوگا جو صرف فقہ و اصول میں ماہر ہیں، اجتماعی مسائل کی ابجد بھی نہیں جانتے، رہبریت و نظام ولایت فقیہ کی تضعیف کرتے ہیں۔

عالم ہونے اور مدیر ہونے میں فرق

علم عروض وہ علم ہے جو شعر و شاعری سے مربوط ہے۔ اس علم کے مطابق شعر کے ۱۶ اوزان ہوتے ہیں۔ممکن ہے کوئی اس علم میں بہت ماہر ہو لیکن اسے ایک شعر کہنا بھی نہ آۓ۔ پس ایک شاعر ہوتا ہے اور ایک اشعار کی صحیح تعلیم جاننے والا ہوتا ہے۔  شعر و شاعری کا علم ہونا الگ ہے اور شعر کہنا الگ ہے۔ شعر کہنا ایک خداداد صلاحیت ہے، علم عروض میں ماہر ہونے سے شعر نہیں آنے لگ جاتا۔ اسی طرح سے صاحب علم ہونا یا مجتہد ہونا الگ بات ہے اور سیاسی و اجتماعی امور کی سوجھ بوجھ اور ان کی مدیریت کرنا الگ بات ہے۔ ولی فقیہ کے اندر ایک وقت میں ان دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر صاحب علم نہ ہوا تو اپنی راۓ کو دین کی راۓ پر مقدم کر بیٹھے گا، اور اگر اچھا مدیر نہ ہوا اور عالم ہوا تو نیت ٹھیک ہوتے ہوۓ بھی بگاڑ دے گا۔ اور یہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات دیکھنے کو ملتا ہے ایک شخص ہے جوانی سے ہی تنظیمی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا اور اب اس کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں لیکن اچھا عالم دین نہیں ہے۔ اس کے برعکس بھی ممکن ہے ایک شخص بہت زیادہ علم رکھتا ہو صاحب نظر ہو لیکن ایک ہاسٹل یا چھوٹے سے مدرسے کی بھی مدیریت نہ کر سکے۔ پس ہمیں فرق کرنا چاہیے کہ عدل اور انصاف کا علم ہونا جدا ہے اور معاشرے کو علم و انصاف کے مطابق چلانا اور ہے۔

قائدانہ صلاحیت اور مدیریت

دنیا میں بہت سے رہبر گزرے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ حق پر تھے یا نہیں ۔بعض افراد کے اندر پچپن سے ہی قائدانہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کارل مارکس ہیں۔ جنہوں نے مارکسزم کا نظریہ پیش کیا۔ خود بہت سخت زندگی گزاری۔ ان کی گھریلو زندگی بھی خوشحال نہ گزری اور فقر و غربت کے عالم میں مرے۔ اس نے نظام سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھائی اور مزدور طبقہ کے حق میں بولے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے نظریات کی اساس کفر پر ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں یہی مسئلہ ہے۔ چاہے وہ دینی دنیا ہو یا دنیوی ادارے ہوں۔ سب سے زیادہ مدیریت کا مسئلہ ہے۔ پاکستانی قوم جتنا مال خرچ کرتی ہے شاید ہی کوئی اور قوم اتنا مال فی سبیل اللہ خرچ کرتی ہو، اس لیے یہ کہنا کہ وسائل کی کمی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ پاکستانی مدارس میں سب سے زیادہ پیسہ آتا ہے، وقت بھی ہے علماء کے پاس لیکن کچھ بھی نہیں بنا سکے۔ ایک بلڈنگ تک نہیں بنا سکتے۔ کیونکہ عالم دین تو ہیں لیکن مدیر نہیں ہیں۔ بڑے مدرسے کے پرنسپل تو بن گئے ہیں لیکن قائدانہ صلاحیت نہیں ہیں اس لیے مدرسہ ضائع کر دیتے ہیں۔ لیکن جن علماء کے پاس علم کے ساتھ مدیریت کی صلاحیت تھی انہوں نے بہت کم مدت میں ایسے کام کر دکھاۓ جو پچاس سال تک دیگر علماء سے نہیں ہونے والے تھے۔ اگر عالم دین علمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحیت بھی رکھتا ہو وہ کم مدت میں مدرسے بھی بنا لیتا ہے، ثقافتی و فرہنگی امور بھی انجام دیتا ہے، تبلیغ بھی کرتا ہے اور امت کو نہضت کے لیے آمادہ بھی کرتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے تمام وسائل ایسے افراد کو دیے ہوۓ ہیں جن سے عملی طور پر ایک کمرہ بھی مدیریت نہیں ہوتا لیکن وہ بڑے بڑے اداروں کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں۔ ممکن ہے نیک اور زاہد ہوں، حقیقی معنی میں دین کے عالم ہو ں لیکن مدیریت کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔

پنجاب کے ایک مدرسے کا حال

تبلیغات کے دوران ہمیں پنجاب کے ایک مشہور و معروف مدرسے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ مدرسہ بہت بزرگ شخصیت کی یادگار تھی۔ ہم وہاں گئے عجیب حالت تھی۔ مدرسے کے ایک طرف نوجوانوں کے لیے تعلیمی کیمپ لگایا گیا تھا جہاں شدید گرمی تھی اور اوپر سے بجلی بھی نہیں تھی۔ لیکن ساتھ میں ہی پرنسپل صاحب اپنے مخصوص کمرے میں جنریٹر لگا کر اے سی لگا کر آرام فرما رہے تھے۔ خاص مہمانوں کے لیے بہترین کھانے اور اہتمام کیا ہوا تھا لیکن طلاب کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ ہم چند افراد ان سے ملاقات کے لیے گئےاس مدرسے کے مدیر ٹیبل پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹے ہوئے تھے۔ وہاں سے فورا باہر نکلے، لیکن اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ یہاں پر مدیریت کیسے ہو رہی ہے۔ ایک مدیر جو خود اے سی کے مزے لے رہا ہے، لیکن عام افراد گرمی بھگت رہے ہیں، اسے کیمپ میں تبلیغات کا موقع بھی حاصل ہے اور عالم کا وظیفہ تبلیغ کرنا ہے، لیکن یہ صاحب آرام فرما رہے ہیں۔ جب ایسے افراد کی مدیریت پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ اصلی مدیر کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمیں دونوں مدیروں میں فرق کرنا چاہیے۔ ظاہر میں دونوں مدیر عالم دین ہونگے، دونوں عمامہ پہنے ہونگے، لیکن ایک عالم دین اپنے وظیفہ کی شناخت رکھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہے لیکن دوسرا جانتے بوجھتے ہوۓ بھی کاہلی کرتا ہے۔

امام خمینیؒ اور دیگر فقہاء میں فرق

مصنف ولی فقیہ کی تیسری شرط کے ذیل میں امام خمینیؒ کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے ایک فقیہ اسلام شناسی رکھتا ہو لیکن اسلامی احکام پر شجاعت سے جب عمل کرنے کی باری آتی ہے تو بہت سے افراد ہمیں پیچھے ہٹتے ہوۓ نظر آتے ہیں ان کے اندر امام خمینیؒ جیسی بہادری نظر نہیں آتی۔ جب شاہ ایران نے کرفیو نافذ کیا اور حکم دیا کہ جو بھی گھر سے باہر نکلے گا اسی وقت مار دیا جاۓ گا۔ ان حالات میں بڑی شخصیات نے بھی خود کو گھروں میں بند کر لیا لیکن امامؒ بالکل ہراس میں نہیں تھے۔ اور فرمایا کہ اس حصار کو توڑ ڈالو اور کرفیو کو ختم کر دو۔ سب نے اپنے دروازے ڈر سے بند کر دیے انہوں نے کہا کہ سارے دروازے کھول دو۔ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے بعض دوستان مراجع عظام کے پاس جاتے اور ان سے تکلیف معلوم کرتے کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ میں بھی ایک مرجع تقلید کے پاس گیا، یہ ہمارے استاد تھے اور ہم پر ان کا بہت بڑا حق تھا۔ جب میں ان کے پاس حاضر ہوا تو وہ بحار الانوار سے تقیہ کے موضوع کی روایات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ جبکہ امام خمینیؒ نے حکم دے رکھا تھا کہ جب دین خطرے میں ہو تقیہ کرنا حرام ہے۔ اور دین کی حفاظت کے لیے جان بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن یہ فقیہ بزرگوار جنہیں کامل طور پر قرآن کریم، اور سنت کا علم تھا اور اپنے زمانے کے بزرگ ترین علماء میں سے تھے۔ اگر ان کے بارے میں کہا جاۓ کہ وہ اعلم نہ تھے تو دیگر فقہاء بھی ان سے اعلم تر نہیں تھے۔ سب فقہاء سے دقیق تر اسلام کا مطالعہ تھا لیکن سیاسی اور اجتماعی امور میں سوجھ بوچھ نہیں رکھتے تھے۔ فقیہ بہت بڑے تھے لیکن شجاعت، سیاست مداری، تدبیر اور مدیریت ان کے وجود میں نہ تھی۔

مومن کا خون اور اسلام کی حفاظت

یہاں پر بعض فقہاء نے بیان کیا کہ اگر اس طرح کے حالات بن جائیں کہ مومن کی جان خطرے میں ہو تو وہاں پر مومن کو بچانا ضروری ہے۔ حالات بعد میں بہتر ہو سکتے ہیں لیکن پہلے مومن کی جان بچائی جاۓ۔ لیکن درست نظریہ یہ ہے کہ اگر اسلام کی حفاظت کے لیے ہزاروں جانیں بھی قربان ہو جائیں وہ رایگاں نہیں جائیں گی۔ ظلم کے خاتمے اور اسلامی نظام کے احیاء کے لیے اگر جانیں جاتی ہیں تو انہیں رایگاں نہیں کہا جا سکتا۔ بعض نادان افراد یہ شبہہ اٹھاتے ہیں کہ امام خمینیؒ نے بہت بڑی غلطی کی اور ان کی وجہ سے ہزاروں انسانوں کی جان چلی گئی۔ اور دلیل میں کہتے ہیں کہ خود روایات میں آیا ہے کہ ظلم کے خلاف تب تک آواز نہ اٹھاؤ جب تک خود امام مہدیؑ کا ظہور نہیں ہو جاتا۔ ایک صاحب نے ہمیں کہا کہ روایات میں آیا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں سے مسلمانوں کو ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ جب ان سے عرض کیا کہ قرآن کریم، سیرت آئمہ معصومینؑ اور روایات اس بات کے برخلاف کہتی ہیں۔ ظلم کے خلاف قیام کرنا ہر مومن پر ضروری ہے۔ ظلم سہتے رہنا اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ تو آگے سے بات کو گھمانے لگے اور کہا کہ ہمیں حق نہیں بنتا کسی کی جان کو خطرے میں ڈالیں۔ یہ وہ سوچ ہے جو افراد میں پائی جاتی ہے، جیسا کہ بیان ہوا حتی بعض فقہاء بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجاۓ تقیہ کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔

امام خمینیؒ اور آیت اللہ محسن الحکیم ؒکا واقعہ

آیت اللہ العظمی محسن الحکیم عراق کے نامور شیعہ مراجع میں سے گزرے ہیں۔ صدام کے دور میں سیاسی و اجتماعی فعالیت کی بنا پر ان کو بہت سختیاں تحمل کرنا پڑیں۔ صدام نے ان کو تبعید کر دیا۔ جب تبعید ختم ہوئی اور کربلا واپس آۓ تو ان کا بہت زبردست استقبال ہوا جس میں کثیر عوام موجود تھی۔ امام خمینیؒ بھی ان ایام میں عراق میں موجود تھے۔ آپ نے محسن الحکیمؒ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ عراقی عوام کی رہبریت سنبھال لیں، قیام کریں  اور نیابت امام زمانؑ میں اسلامی حکومت تشکیل دیں۔ محسن حکیمؒ نے کہا کہ اگر میں قیام کرتا ہوں تو ممکن ہے عوام میرا ساتھ نہ دے یا کسی کا خون بہہ جاۓ۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون بہے۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ ہم نے ایران میں شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا نہ صرف عوام نے ساتھ دیا بلکہ جس نے بھی قیام کی مخالفت کی اسے لوگوں کی ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ قیام کریں سب سے پہلے میں آپ کا ساتھ دونگا چاہے جو بھی ہو جاۓ۔ محسن حکیمؒ نے کہا کہ اگر عوام کا خون بہہ جاۓ اس کا جواب کون دے گا اور اس کا کیا اثر ہوگا؟ کوئی فائدہ بھی ہوگا؟ امام نے فرمایا کہ فائدہ ہے، قیام امام حسینؑ کا جو فائدہ تھا وہی فائدہ حاصل ہوگا۔ محسن حکیمؒ نے کہا کہ امام حسنؑ نے تو قیام نہیں کیا ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ امام نے جواب دیا: اگر امام حسنؑ کے پاس اتنے پیروکار ہوتے جتنے آپ کے پاس ہیں وہ قیام کرتے۔ لیکن امام حسنؑ نے نے دیکھا کہ ان کے پیروکار ہی اہل شام کے ہاتھوں بک گئے ہیں تو صلح کی۔ لیکن آپ کے پیروکار تمام عالم اسلام میں موجود ہیں۔[9] یہ بحث تاریخ میں وارد ہوئی ہے لیکن اس سے کم از کم یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آیت اللہ حکیمؒ نے خود رہبریت کا دعوی نہیں کیا۔ لیکن جن کے اندر سیاسی استعداد اور رہبریت کی بالکل بھی صلاحیت نہیں ہے وہ دعوی کرتے ہیں کہ میں ولی فقیہ ہوں۔ آیت اللہ حکیمؒ جیسی عظیم ہستی انکار کر رہے ہیں کہ میں یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ لیکن امام خمینیؒ جانتے تھے کہ یہ کام کر سکتے ہیں اور انہوں نے کیا غلبہ بھی اللہ تعالی نے عطا کیا۔[10]

منابع:

 

↑1 آل عمران: ۱۵۹۔
↑2 أل عمران: ۱۵۹۔
↑3 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑4 جاثیہ: ۲۳۔
↑5 انبیاء: ۶۷۔
↑6 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۶۲۔
↑7 بقرہ: ۲۷۹۔
↑8 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۷۔
↑9 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
↑10 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۱۳۷تا۱۴۰۔
موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/08/20
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی