بصیرت اخبار

نہج البلاغہ مکتوب ۴۴

Tuesday, 10 January 2023، 04:37 PM

زیاد ابن ابیہ کے نام

وَ قَدْ بَلَغَهٗ: اَنَّ مُعَاوِیَةَ کَتَبَ اِلَیْهِ یُرِیْدُ خَدِیْعَتَهٗ بِاسْتِلْحَاقِهٖ:

جب حضرتؑ کو یہ معلوم ہوا کہ معاویہ نے زیاد کو خط لکھ کر اپنے خاندان میں منسلک کر لینے سے اسے چکمہ دینا چاہا ہے تو آپؑ نے زیاد کو تحریر کیا:

وَ قَدْ عَرَفْتُ اَنَّ مُعَاوِیَةَ کَتَبَ اِلَیْکَ یَسْتَزِلُّ لُبَّکَ، وَ یَسْتَفِلُّ غَرْبَکَ، فَاحْذَرْهُ، فَاِنَّمَا هُوَ الشَّیْطٰنُ یَاْتِی الْمُؤْمِنَ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ، وَ عَنْ یَّمِیْنِهٖ وَ عَنْ شِمَالِهٖ، لِیَقْتَحِمَ غَفْلَتَهٗ، وَ یَسْتَلِبَ غِرَّتَهٗ.

مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ نے تمہاری طرف خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا اور تمہاری دھار کو کند کرنا چاہا ہے۔ تم اس سے ہوشیار رہو، کیونکہ وہ شیطان ہے جو مومن کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جانب سے آتا ہے، تاکہ اسے غافل پاکر اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی عقل پر چھاپہ مارے۔

وَ قَدْ کَانَ مِنْ اَبِیْ سُفْیَانَ فِیْ زَمَنِ عُمَرَ فَلْتَةٌ مِنْ حَدِیْثِ النَّفْسِ، وَ نَزْغَةٌ مِّنْ نَّزَغَاتِ الشَّیْطٰنِ، لَا یَثْبُتُ بِهَا نَسَبٌ، وَ لَا یُسْتَحَقُّ بِهَا اِرْثٌ، وَ الْمُتَعَلِّقُ بِهَا کَالْوَاغِلِ الْمُدَفَّعِ، وَ النَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ.

واقعہ یہ ہے کہ عمر (ابن خطاب) کے زمانہ میں ابو سفیان کے منہ سے بے سوچے سمجھے ایک بات نکل گئی تھی جو شیطانی وسوسوں سے ایک وسوسہ تھی، جس سے نہ نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ وارث ہونے کا حق پہنچتا ہے۔ تو جو شخص اس بات کا سہارا کر بیٹھے وہ ایسا ہے جیسے بزمِ مے نوشی میں بن بلائے آنے والا کہ اسے دھکے دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے، یا زین فرس میں لٹکے ہوئے اس پیالے کے مانند کہ جو ادھر سے ادھر تھرکتا رہتا ہے۔

فَلَمَّا قَرَاَ زِیَادٌ الْکِتَابَ قَالَ: شَهِدَ بِهَا وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ، وَ لَمْ یَزَلْ فِیْ نَفْسِهٖ حَتَّى ادَّعَاهُ مُعَاوِیَةُ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ زیاد نے جب یہ خط پڑھا تو کہنے لگا کہ: ربّ کعبہ کی قسم! انہوں نے اس بات کی گواہی دے دی۔ چنانچہ یہ چیز اسکے دل میں رہی، یہاں تک کہ معاویہ نے اس کے اپنے بھائی ہونے کا ادّعا کر دیا۔

قَوْلُهٗ ؑ: «الْوَاغِلِ»: هُوَ الَّذِیْ یَهْجُمُ عَلَى الشُّرَّبِ لِیَشْرَبَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَ مِنْهُمْ، فَلَا یَزَالُ مُدَفَّعًا مُّحَاجَزًا. وَ« النَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ»: هَوَ مَا یُنَاطُ بِرَحْلِ الرَّاکِبِ، مِنْ قَعْبٍ اَوْ قَدَحٍ اَوْ مَاۤ اَشْبَهَ ذٰلِکَ، فَهُوَ اَبَدًا یَتَقَلْقَلُ اِذَا حَثَّ ظَهْرَهٗ، وَ اسْتَعْجَلَ سَیْرَهٗ.

امیر المومنین علیہ السلام نے جو لفظ «الواغل» فرمایا ہے تو یہ اس شخص کو کہتے ہیں جو مے خواروں کی مجلس میں بن بلائے پہنچ جائے، تاکہ ان کے ساتھ پی سکے، حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ایسا شخص ہمیشہ دھتکارا اور روکا جاتا ہے۔ اور «النوط المذبذب» لکڑی کے پیالہ یا جام یا اس سے ملتے جلتے ظرف کو کہا جاتا ہے کہ جو مسافر کے سامان سے بندھا رہتا ہے اور جب سوار سواری کو چلاتا اور تیز ہنکاتا ہے تو وہ برابر ادھر سے ادھر جنبش کھاتا رہتا ہے۔

https://balagha.org

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی