بصیرت اخبار

سیاست الہی و سیاست شیطانی

Tuesday, 15 March 2022، 07:36 PM

جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست بھی اچھی بری ہوتی ہے یا نہیں؟ سیاست الہی بھی ہوتی ہے یا صرف شیطانی؟ تو عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاست کا الوہیت، دین و مذھب سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ سیاست تو صرف (Machiavellianism) یعنی مفاد کا حصول ہے اور نتیجتا شیطانی سیاست ہی ہوتی ہے الہی سیاست کا وجود نہیں ہے۔ لیکن دین نے سیاست کو الہی سیاست اور شیطانی سیاست میں تقسیم کیا ہے اگر ایک حاکم حکومت کو فقط ذاتی مفادات اور منافع شخصی پر حاصل کرتا ہے اور کسی قسم کے معیار اور اقدار کا قائل نہیں اس حاکم کی سیاست کی بنیاد شیطانی سیاست پر ہے اور اگر کوئی حاکم فقط حکومت کے حصول کو ھدف نہیں سمجھتا بلکہ اسکے سامنے معیار ہیں، حکومت کو ذریعہ سمجھتا ہے اقدار کی بقا کا، تو اس حاکم کی سیاست کی بنیاد الہی سیاست پر ہے۔

پس اس تقسیم کے تحت حاکم طبقہ دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، پہلے طبقے کے مطابق، اقدار و اخلاق اور خود کو معیارات کا مقید سمجھنا میدان سیاست کیساتھ میل نہیں کھاتا، الٹا اس طبقہ کے بقول جو یہ سمجھتا ہے کہ حاکم خود کو اقدار و معیارات کا پابند کرے تو اس طبقہ کے مطابق اس کے اندر سیاسی کھوپڑی نہیں پائی جاتی وہ کامیاب سیاستدان نہیں بن سکتا اور اگر یہ شخص حکومت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو اسکی حکومت دوام نہیں پکڑے گی۔ اس طبقہ کے مطابق ھدف وسیلہ کو جواز فراھم کرتا ہے اگر حکومت کے حصول میں کوئی اخلاقی قدر کو پاؤں تلے روندنا پڑے تو کوئی مذائقہ نہیں کیونکہ ھدف وسیلہ کو جواز فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرے طبقے کے پیشوا کا فرمانا ہے کہ:

بُعِثتُ لِاُتَمّمَ مَکارِمَ الاخلاق.

مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا (١)

یا اسی طرح سے امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

وَ مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا یُقَارُّوا عَلَى کِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مظلوم.

اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا>(٢)

سیدالشھداء امام حسینؑ فرماتے ہیں:

إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى.
میں خود خواھی شر پھیلانے اور ظلم و فساد کی خاطر خروج نہیں کررہا بلکہ میرا خروج کا ھدف اپنے جد کی امت
 کی اصلاح کرنا ہے۔

ان اقوال کو مدنظر رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ گروہ دوم نظام عدل کی برپائی و اقدار و اخلاق کی محافظت کو اپنا ھدف قرار دیتے ہیں محض حکومت کا حصول انکا ھدف نہیں جبکہ گروہ اول حکومت کے حصول کیلئے تمام اقدار، اخلاقیات کو قربان کرنے کا قائل ہے،  اس کا کوئی یہ مطلب بھی نہ سمجھے کہ گروہ دوم کو سیاست کرنا نہیں آتی،

 امیرالمومنین ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

میں اچھی طرح سے سیاست کے تمام اچھے برے طریقوں سے باخبر ہوں اور کس طرح سے دشمن پر غالب آنا ہے یہ بھی دقیقا جانتا ہوں اور کیسے انکو مغلوب کرنا ہے مجھے علم ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ سیاست میں ایسی چارہ جوئی کی جاۓ کہ جسکا سرچشمہ شیطانی اصولوں پر قائم ہے میں نے الہی اوامر و نواھی کے آگے سر تسلیم خم کیا ہوا ہے جہاں پر یہ اوامر و نواھی اجازت دیں گے پیشرفت کرونگا اور جہاں پر اجازت نہیں دیں گے رک جاؤنگا۔

 ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

وَاللهِ ما معاویة بأدهَی مِنِّی، وَلکِنَّهُ یَغدرُ وَ یَفجرُ. وَ لَولا کرَاهیّة الغَدر لَکُنتُ مِن أدهَی النّاس.

خدا کی قسم !معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں۔مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بد کرداریوں سے باز نہیں آتا۔اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہو تی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار و زیرک ہوتا۔ ایک بار تو امیرالمومنین ع کی خدمت میں چند افراد حاضر ہوۓ اور عرض کی کہ آپ بھی معاویہ کی طرح اپنی سیاست و حکومت کے استحکام کیلئے افراد کو اپنے ساتھ ملائیں انکو پیسے دے کر خریدیں یا ڈرائیں دھمکائیں آپ نے ارشاد فرمایا:

أَتَأمُرُونِّى‏ أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فِیمَنْ وُلِّیتُ عَلَیْهِ وَ اللَّهِ ‌‏لا‏ ‌‏أَطُورُ‏ ‌‏بِهِ‌‏ ‌‏ما‏ ‌‏سَمَرَ‏ ‌‏سَمِیرٌ‏، ‏وَ ‏ما ‌‏أَمّ‌‏ ‏نَجْمٌ‏ ‏فِى‏ ‏السَّماءِ ‏نَجْماً.

کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی ) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا۔ اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے ہیں اس چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکوں
گا۔ ہم نے ان دو گروہوں کے مابین اختلاف کو دیکھا جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ایک طرف تو اقدار و اخلاقیات معیار ہیں حکومتداری اور سیاست کے، جب کے دوسری طرف صرف اقتدار کی ہوس اور اس تک رسائی کی شہوت، چاہے اس ھدف تک رسائی جائز طریقے سے ہو یا چاہے ناجائز طریقے سے۔

نتیجہ

بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور انکی سیاست کا جائزہ لینا چاہئیے کہ انکی سیاست کا معیار اقدار ہیں یا فقط اقتدار، سیاست جیسی معاشرے کی بنیادی ترین اکائی کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے اگر ہم انفرادی طور پر جتنے بڑے مومن و متقی بن جائیں اجتماعی طور پر ہم ایک امت شمار کئے جاتے ہیں اور اگر ایک امت پر الہی سیاست کی بجاۓ شیطانی سیاست حاکم ہو تو اس امت کی نجات ممکن نہیں۔

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۶۸، ص۳۸۲۔
٢- نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ۔ 
٣- بحارالانوار، ج ۴۴، ص ٣٢٩، ج ٢، ص ٣٢٣۔
٤- نہج البلاغہ، خطبہ ٢٠٠۔
٥- نہج البلاغہ، خطبہ ١٢٦۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/03/15
عون نقوی

سیاست

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی