بصیرت اخبار

دین اسلام مکمل ضابطہ حیات

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر دو پہلوؤں پر اسلام نے اپنی نظر بیان کی ہے۔ اجتماعی زندگی کے بہت سے شعبے ہیں۔ تعلیم، دفاع، حکومت اور عدالت یہ سب شعبہ جات انسان کی اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم جان چکے ہیں کہ انسان اجتماعی زندگی گزارتا ہے اس لیے ممکن نہیں کہ ان شعبہ جات سے انسان کی زندگی متاثر نہ ہو۔ اگر انسان کا وجود ہے تو یہ سب بھی ہیں، چاہے انسان ان سے تعلق رکھے یا نہ رکھے بہرحال ان سب پہلوؤں سے انسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ان سب پہلوؤں کو مد نظر رکھتا ہے یا نہیں؟یا ایسے مسائل اور شعبہ جات جو پہلے نہیں تھے اور آج اہمیت کے حامل ہیں ،ان سب امور میں اسلام کی کیا نظر ہے؟ اس کے بارے میں اسلامی مفکرین کے تین نظریات ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تین نظریات اسلامی مفکرین کے ہیں۔

پہلا نظریہ

علماء اسلام کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ دین اسلام فقط عبادات، اخلاقیات اور چند احکام کا نام ہے۔ دین اسلام ایک انسان سے بس اتنا چاہتا ہے کہ نمازیں اور روزے رکھے، اخلاق کا خیال رکھے اور چند شرعی احکام پر عمل کرےیہ بہترین انسان اور مسلمان ہے۔ دین اسلام اجتماعی زندگی کے بارے میں کوئی نظر نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی میں انسان کو آزاد رکھا ہے کہ وہ عدالتی نظام، سیاسی نظام، دفاعی نظام اور دیگر نظاموں میں جس طرح سے بھی اجتماعی زندگی گزارتا ہے ، آزاد ہے۔ با الفاظ دیگراسلام فردی دین ہے اجتماعی دین نہیں ہے۔اس نظریہ کے بارے میں اگر مختصر تبصرہ کرنا چاہیں تو اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظریہ مغربی مفکرین نے پھیلایا، مغرب میں دین مسیحیت  کی بگڑی ہوئی شکل کے بدترین استبداد کے بعد جب دین کو اجتماعی زندگی سے دور کر دیا گیا ، یہی سوچ مسلمان معاشروں میں بھی سرایت کر گئی ۔ اور آج کے دور میں ہمارے نادان دوستان بھی اسی نظرے کے قائل نظر آتے ہیں اور یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ ہمیں کسی کے انفرادی عمل یا دین سے کیا تعلق؟ بے شک اگر کوئی حکمران فاسق اور فاجر ہو کہتے ہیں کہ وہ انفرادی طور پرجو عمل کرتا ہے وہ اس کا اپنا ایمان اور عمل ہے اس سے ہمیں کیا ؟ ہمیں تو صرف اس سے اپنا مفاد پورا کرنا ہے کسی کی ذاتی زندگی سے ہمارا کیا تعلق؟ 

دوسرا نظریہ

دوسرے نظریہ کے قائل علماء کے مطابق اسلام فقط انفرادی دین نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی زندگی کے امور بھی ذکر ہوۓ ہیں۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کے پہلوؤں پر اجمالی طور پر اپنی نظر بیان کی ہے لیکن اس کی تفصیل بیان نہیں کی۔ اسلام سیاست کے بارے میں نظر رکھتا ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ نظام کونسا ہو؟اس لیے اگر سیاسی طور پر کوئی بھی نظام اپنا لیا جاۓ کوئی مشکل نہیں۔ جمہوریت ہو، بادشاہت ہو، حاکم انتصابی ہویا انتخابی، ووٹ سے حاکم کو چناجاۓیا کسی اور طریقےسے، یہ سب اسلام نے نہیں بتایا ۔ جب اسلام نے یہ سب تفصیلی طور پر نہیں بتایا تو ہم بھی آسانی سے کسی سیاسی ، یا اقتصادی نظام کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔ آج کے دور میں اگر ایک حاکم انتخابات کے مراحل سے چنا جاتا ہے تو اس میں کوئی مشکل نہیں۔

تیسرا نظریہ

اس نظریہ کے مطابق اسلام نا صرف انسان کی اجتماعی زندگی کے متعلق نظریات رکھتا ہے بلکہ تفصیل سے یہ بھی بتاتا ہے کہ نظام کیسا ہو۔ اسلام صرف حکومت کا ہی نہیں بتاتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ حاکم کونسا ہو؟ حاکم کے بننے کے کیا طریقے ہیں؟ اسلام بتاۓ گا کہ ہم نے کس کو اپنا حاکم بنانا ہے؟ اور کس طرح سے ایک حکومت لانی ہے؟ تیسرا نظریہ ہی اسلام کی جامعیت کا آئینہ دار ہے۔ اگر ایک مسلمان دین اسلام کی جامعیت کا قائل ہے تو اسے ماننا ہوگا کہ یہ دین اس کی اجتماعی زندگی کے پہلوؤں پر کیا نظر رکھتا ہے؟ اگر اسلام سے اجتماعی زندگی کے پہلوؤں کو نکال دیں تو اس کی جامعیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور اسلام کی جامعیت کا انکار در اصل اسلام کا انکا رہے۔امام خمینیؒ، رہبر معظم، اس کتاب کے مؤلف اس تیسرے نظریہ کے قائل ہیں۔

پہلے دو نظریات کا رد

ہم نے کہا کہ اسلام انسان کی سعادت چاہتا ہے۔ جہاں پر بھی انسان کی سعادت موجود ہو گی وہاں پر اسلام اپنا نکتہ نظر بیان کرے گا او ر اس سعادت تک پہنچانے کا راستہ دکھاۓ گا۔ دوسری طرف سے ہم جانتے ہیں کہ انسان کی انفرادی زندگی اس کی اجتماعی زندگی سے متاثر ہوتی ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ انسان اجتماع سے متاثر نہ ہو یا اجتماع کو متاثر نہ کرے۔ باالفاظ دیگریہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان اجتماعی طور پر آزاد طریقے زندگی گزارے او ر اسلام اس کو اجتماعی زندگی کے کسی بھی میدان میں محدود نہ کرے اور وہ انفرادی طور پر ایک ایماندار انسان ہو۔ انسان کی انفرادی زندگی اس کی عبادات، اس کی گھریلو زندگی ، میاں بیوی کے مسائل، ہمسائیوں کے حقوق، یہ سب امور انسان کی اجتماعی زندگی سے متاثر ہوتے ہیں۔ انسان کا اقتصاد، سیاست، امن و امان کے مسائل، اور صلح و صفائی کے مسائل انسان کی انفرادی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اگر ان تمام شعبوں میں انسان اسلامی نکتہ نظر اختیار نہ کرے تو اس کی انفردی اسلامی زندگی  کا بھی ضرر ہوگا۔ اجتماعی زندگی میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنا اس سے بہت زیادہ اہم ہے کہ ہم انفرادی طور پر اسلام کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر اقتصاد اسلامی نہ ہوا تو آپ سود کھاؤگے، اگر سیاست اسلامی نہ ہوئی تو آپ غیر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاؤ گے، اگر دفاعی نظام اور تعلیمی نظام اسلامی نہ ہوا تو آپ نام کے تو مسلمان ہونگے لیکن ایک ایسی قوم کا حصہ شمارہونگے جو دوسروں کی غلام ہے۔اسلام آپ کی اجتماعی زندگی کو بہتر کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر معاشرہ ٹھیک ہو گیا تو اس سے فرد بھی راہ راست پر آ جاۓ گا۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۶۶۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی